( 17 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
عطا نے وہ ویڈیو ملتے ہی پہلے آواز کے بغیر اُسے دیکھا۔ وہ ویڈیو دیکھتے ہی عطا کے جسم میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔ اُس نے اپنی خوشی کے بندر کو پُھدکنے سے روکا اور جلدی سے اپنے موبائل کا والیم بڑھاتے ہوئے موبائل منشا مزاری کے سامنے کر دیا۔
لو اینگل سے ریکارڈ ہوا ایک ویڈیو کلپ چلنے لگا، جس میں سرمد چہرے پر ماسک لگائے شمیم کو اُوپر سے لے کر نیچے تک دیکھ رہا تھا۔ سرمد کا بایاں کندھا اور شمیم کا دایاں کندھا کیمرے کی طرف تھا۔
’’گرو۔۔۔! تمہیں سردی نہیں لگتی کیا؟‘‘
صاحب۔۔۔! سردی گرمی سے زیادہ بھوک لگتی ہے۔‘‘ شمیم کے جملے پر سرمد نے لمحہ بھر غور کیا، پھر اپنی جیب سے روپے نکال کر اُسے دیتے ہوئے بولا
’’لنڈے سے گرم کپڑے اور بوٹ لے لینا۔‘‘
شمیم نے کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے جلدی سے اُن نوٹوں کو شلوار کی جیب میں رکھ لیا۔ سرمد چل پڑا تو شمیم نے جلدی سے پوچھا
’’صاحب۔۔۔! بھوک کا کیا کروں؟‘‘
شمیم کی بات سُن کر سرمد پلٹا اور بولا
’’گرو۔۔۔! میں دولہ ہوں مولا نہیں۔‘‘
سرمد اب بالکل کمبل کے ساتھ رکھے ہوئے فُٹ پاتھ پر پڑے ہوئے موبائل کے سامنے کھڑا تھا۔
میں بھی چیلا ہوں۔۔۔ گرو نہیں۔۔۔‘‘ شمیم کی آواز آئی جو اَب کیمرے کے سامنے نہیں تھا۔
مولا نے تو ہر بندے میں گرو بننے کی صلاحیت رکھی ہے، مگر وہ خود ہی ساری زندگی چیلا بنا رہتا ہے۔
یہ بولتے ہی سرمد وہاں سے چلا گیا۔
یہ ویڈیو کلپ دیکھتے ہی منشا کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ کوئلوں کی طرح دہکتے ہوئے چہرے کے ساتھ بولی
’’وہی ہے سُوَر کا بچہ۔۔۔‘‘
اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے منشا نے پہلو میں پڑی ہوئی بوتل سے تھوڑا پانی پیا، پھر اپنی طرف کا شیشہ نیچے کر کے ٹھنڈی ہوا کو اپنے چہرے کی تپش کو ٹھنڈا کرنے کا موقع فراہم کیا۔
۞۞۞
دُوسری طرف ٹریڈ میل پر بھاگ بھاگ کر جبران جپہ پسینے کی شکل میں اپنا غصہ نکال رہا تھا۔ پھر وہ باکسنگ کے پنچ بیگ پر زور زور سے مُکّے مارنے لگا۔ منشا کا طنز سے بھرپور قہقہہ اُس کے کانوں میں گونجا، پھر منشا کی کھنکتی آواز اُس کے کانوں میں پڑی
’’پچھلے بارہ سال سے میرے مخبر مجھے ایسی ہی خبریں سنا رہے ہیں۔‘‘
جبران نےبیگ پر تیز تیز مُکّوں کی بارش کر دی۔ بختیار بابا کندھے پر تولیا رکھے اور ہاتھ میں چھوٹی سی ٹرے کے اُوپر مسمی کے رس والا گلاس سجائے جبران جپہ کے چھوٹے سے جِم میں داخل ہوا۔ اُس نے ٹرے ایک اسٹینڈ پر رکھی اوربیگ کو ایک طرف سے تھامتے ہوئے بولا
’’کرکٹ میں پانسہ پلٹتے اور گرگٹ کو رنگ بدلتے دیر نہیں لگتی۔‘‘
جبران نے اپنے مُکّوں کو روک دیا تو بختیار بابا نے اُسے تولیہ دیا۔ جبران اپنا پسینہ صاف کرتے ہوئے ایک مشین پر بیٹھ گیا۔ بختیار بابا نے اُسے جوس پیش کیا۔ جبران جپہ غٹاغٹ ایک ہی سانس میں سارا جوس پی گیا، پھر اُس نے لمبی سانس لی اور بختیار بابا کی طرف متوجہ ہو کر بولا
’’گرگٹ والی بات دوبارہ سنائیں۔‘‘
کرکٹ میں پانسہ پلٹتے اور گرگٹ کو رنگ بدلتے دیر نہیں لگتی۔۔۔ گرگٹ ہے وہ۔۔۔ تمہارے کیڑے مکوڑے اُسے پکڑ نہیں سکتے۔
بختیار بابا کی بات سنتے ہی جبران ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھا، پھر کہنے لگا
’’اُس گرگٹ کی ایک کیڑے نے ویڈیو بنا لی اور اُسے پتا بھی نہیں چلا۔‘‘
بے خیالی میں اکثر انسان خیال نہیں رکھتا۔ بختیار بابا نے سنجیدگی سے بتایا۔
میں خیال سے پہلے اُس تک پہنچ جاؤں گا۔ جبران نے بڑے عزم کے ساتھ دعویٰ کیا۔
اُس تک تُم ہی پہنچ سکتے ہو، مگر ابھی نہیں۔۔ بختیار بابا نے یہ کہا اور جم سے جانے لگا۔ جبران جپہ کو بختیار بابا کی بات پسند نہ آئی۔ اُس نے جلدی سے پوچھا
’’ابھی کیوں نہیں؟‘‘
ابھی وہ چوکنا ہو گیا ہے۔ بختیار بابا نے جاتے ہوئے کہا۔ بختیار بابا کی کہی ہوئی بات پر جبران غور کرنے لگا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞