36 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 19

 

( 19 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

 منشا قبرستان سے سیدھی اپنی حویلی پہنچی۔ حویلی کے اندر اور باہر ہجوم تھا۔ حویلی کے سامنے بڑے سے خالی میدان میں تین بڑے بڑے سفید خیمے نصب تھے۔ دو میں مرد حضرات اور ایک میں خواتین کے بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا تھا۔
بارہ سال پہلے آج ہی کے دن اس حویلی سے دو جنازے ایک ساتھ اُٹھے تھے۔ ہر سال 11 دسمبر کے دن منشا اپنے اُن پیاروں کے ایصالِ ثواب کے لیے سارے گاؤں کو کھانا کھلاتی اور اُن میں کپڑے تقسیم کرتی۔ مردوں کے دو خیموں میں سے ایک میں اسٹیج بنا ہوا تھا، جس کے اُوپر جبہ ودستار والی معزز ہستیاں جلوہ افروز تھیں۔
جیسے ہی منشا خواتین کے خیمے میں پہنچ کر اپنی کرسی پر جلوہ افروز ہوئی، تقریب کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔ خطیب حضرات منشا کو خوش کرنے کے لیے ’’مرحوم سردار بلاج مزاری‘‘ کی شان میں جھوٹے سچے قصے سنانے لگے۔ ایسی ایسی باتیں بلاج مزاری سے منسوب کی گئیں جن کا حقیقت سے دُور دُور تک تعلق نہ تھا۔
بے چارے عوام پکے ہوئے کھانے اور اَن سلے کپڑوں کے لالچ میں وہ ساری باتیں سُن رہے تھے۔ سب دل ہی دل میں دُعا کر رہے تھے جلد از جلد مولویوں اور نعت خوانوں سے جان چھوٹے اور کھانا ملے۔ ختم شریف کی اِس بابرکت محفل کے دوران ہی نمازِ ظہر اور عصر کا وقت بھی گزرا، ہیڈماسٹر فیض رسول اور اُن کے دو تین قریبی ساتھیوں کے علاوہ ہزاروں کے مجمعے میں سے کسی کو بھی نماز پڑھنے کی توفیق نہ ہوئی۔
مغرب کی اذان سے کوئی آدھا گھنٹہ پہلے اس تقریب کی اختتامی دُعا ہوئی۔ جیسے جیسے لوگ خیموں سے نکل رہے تھے، انھیں کھانے والے پارسل دے دے کر رُخصت کیا جا رہا تھا۔ مولویوں اور نعت خوانوں کو اسٹیج پر ہی کھانا پیش کیا گیا۔
ہیڈماسٹر فیض رسول کھانا کھائے بغیر ہی اسٹیج سے اپنی چھڑی تھامے اُترے اور جس طرف خواتین بیٹھی تھیں، اُس طرف گئے، پھر عطا کو اشارہ کیا کہ وہ منشا سے ملاقات کروائے۔ عطا نے منشا کو اطلاع دی۔
منشا نے اُنھیں اندر ہی بلوا لیا۔ عطا کی بیوی عقیلہ اور حویلی کی دو خاص ملازماؤں کے علاوہ باقی ساری خواتین اپنے کھانے کے پارسل لینے کے لیے خیمے سے جا چکی تھیں۔ عطا کا چھوٹا بھائی ضیا عرف ضادو خواتین کے خیمے سے جانے کے بعد اندر داخل ہوا۔
منشا نے جیسے ہی ہیڈماسٹر صاحب کو دیکھا وہ اُن کے احترام میں کھڑی ہو گئی۔ ہیڈماسٹر صاحب نے اپنی چھڑی دائیں ہاتھ سے بائیں میں منتقل کی اور دائیں ہاتھ سے منشا کے سر پر پیار دیا۔ ہمیشہ کی طرح عطا اپنی بی بی سرکار سے دو قدم پیچھے سینہ چوڑا کر کے کھڑا ہو گیا۔
آپ تشریف رکھیں! منشا نے خیمے میں لگی اپنی اکلوتی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ ہیڈماسٹر صاحب نے بڑے سے خیمے کے اندر ہر طرف دیکھا، اُنھیں صرف ایک ہی کرسی دکھائی دی۔ منشا کے علاوہ باقی سب عورتیں یقیناً زمین پر ختم شریف میں بچھنے والے قالینوں پر ہی بیٹھی ہوں گی۔
ہیڈماسٹر صاحب نے اندازہ لگایا۔ لمحہ بھر اُنھوں  نے سوچا۔ وہ کہنا تو بہت کچھ چاہتے تھے، مگر اُنھوں  نے کھڑے کھڑے ہی سب سے ضروری بات کہی
بیٹی۔۔۔! زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔۔۔ مجھے نہیں اُمید کہ میں اگلے برس اِس تقریب میں شرکت کر پاؤں گا۔۔۔ ہیڈماسٹر صاحب بات کرتے کرتے رُک گئے، مگر منشامزاری کی پوری توجہ اُن ہی کی طرف تھی۔ ہیڈماسٹر صاحب کا توقف بڑھا تو منشا خود ہی بول اُٹھی
پورے سال میں آج کے دن ہی میں سب سے زیادہ دُکھی ہوتی ہوں۔۔۔ آپ نے ہی ایک بار کہا تھا کہ دُکھ کے لمحوں میں انسان مظلوم ہوتا ہے۔
منشا کی بات سنتے ہی ہیڈماسٹر صاحب نے اپنی گردن کو اثبات میں جنبش دیتے ہوئے پہلے سرد ہوا اپنے نتھنوں کے ذریعے اندر کھینچی، پھر گرم ہوا منہ نیچے کر کے باہر نکالی، پھر خود کو حوصلہ دیتے ہوئے بولے
بیٹی۔۔۔! میں سالوں سے ایک جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔ مرنے سے پہلے اُسے سچ میں بدلنا چاہتا ہوں۔۔۔ ہر سال آٹھ محرم کو مجھے ’’سونو‘‘ کا فون آتا ہے۔
یہ سنتے ہی منشا کے تیور بدل گئے۔ وہ لمحوں میں ہی مظلوم سے ظالم بننے کے درمیان پہنچ گئی۔ ابھی وہ ظالم نہیں بنی تھی، اِس لیے اُس  نے عطا کو ہیڈماسٹر صاحب سے دُور ہی رہنے کا اشارہ کیا۔ منشا نے دانت پیستے ہوئے پوچھا
’’آٹھ محرم کو وہ کیا کہتا ہے آپ سے؟‘‘
ہیڈماسٹر صاحب نے بغیر کسی خوف کے ایک ہی سانس میں بول دیا
’’وہ کہتا ہے کہ میرے ماں باپ کی قبروں پر مٹی ڈال دیجیے گا۔‘‘
تو ڈالتے کیوں نہیں مٹی؟  منشا نے چلّاتے ہوئے پوچھا۔
جنہوں نے اپنی بہادری پر مٹی ڈال دی ہو۔۔۔ وہ دُوسروں کی قبروں پر مٹی نہیں ڈال سکتے۔
ہیڈماسٹر صاحب نے بڑی سنجیدگی سے جیسے ہی یہ کہا منشا سے دو قدم پیچھے کھڑے عطا  نے آگے بڑھ کر ہیڈماسٹر صاحب کی گردن کو اپنے پنجے سے دبوچ لیا۔ ساتھ والے خیمے اور خیمے سے باہر کھڑے سب لوگوں کی سانسیں تھم گئیں۔
ہیڈماسٹر فیض رسول صاحب، جنہیں جاگیردارانہ نظام کے ہوتے ہوئے بھی سارے علاقے میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اُن کے ساتھ ایسے سلوک کی سب نے دل ہی دل میں مذمت کی، مگر زبان سے کوئی نہ بولا۔ منشا نے جب اردگرد کے لوگوں کے چہرے پڑھے تو کہنے لگی
’’چھوڑ دو عطا۔۔۔ ‘‘
ہیڈماسٹر صاحب کی گردن چھوڑنے کے بعد عطا اُلٹے قدموں پیچھے ہٹ گیا۔ منشا آگے بڑھتے ہوئے ہیڈ ماسٹر صاحب کے روبرو کھڑی ہو گئی۔ ہیڈماسٹر صاحب نے اردگرد نہیں دیکھا۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لے کر اپنی اُکھڑی سانسوں کو بحال کر رہے تھے کہ اُن کے کانوں میں منشا کا چبھتا ہوا سوال پڑا
’’کہاں ہے وہ؟‘‘
پتا نہیں۔۔۔  ہیڈ ماسٹر صاحب نے منشا سے نظریں ملاتے ہوئے بڑے اعتماد سے بتایا۔
جھوٹ بول رہے ہوتُم۔۔۔  منشا نے تیکھے انداز میں کہا۔
اُستاد کا سارا ادب ختم ہو گیا۔  ہیڈماسٹر صاحب کے لہجے میں درد بھر آیا۔ وہ تھوڑے توقف کے بعد اردگرد دیکھتے ہوئے گیلی آواز میں گویا ہوئے
ایک جھوٹ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے میں نے اپنی عمر بھر کی عزت داؤ پر لگا دی۔۔۔ دوبارہ جھوٹ کیوں بولوں گا؟
منشا نے یہ سنتے ہی خود کے اوسان قابو میں رکھنے کی کوشش کی، پھر قدرے نرم لہجے میں پوچھا
’’وہ آپ سے رابطے میں ہے کیا؟‘‘
نہیں۔۔۔ آٹھ محرم کے علاوہ کبھی کبھار ہی اُس کا فون آتا ہے۔ ہیڈماسٹر صاحب نے حقیقت بتائی۔
مجھے اُس کا نمبر چاہیے!  منشا نے یک لخت تحکمانہ انداز میں کہا۔
وہ ہر بار نئے نمبر سے فون کرتا ہے۔  ہیڈماسٹر صاحب نے بتایا۔
بزدل ہے وہ۔۔۔  منشا طنزیہ انداز میں بولی تو ہیڈماسٹر صاحب نے پہلی بار ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم لاتے ہوئے پہلے غور سے منشا کو دیکھا، پھر اُس کے پیچھے کھڑے ہوئے عطا کو دیکھنے کے بعد اردگرد کے سارے مجمعے پر سرسری نگا ڈالتے ہوئے کہا
’’یہاں بہادر کون ہے؟‘‘
ماسٹر۔۔۔! زیادہ پھدک مت۔۔۔ بی بی سرکار نے روک دیا۔۔۔ نہیں تو تیرا گلا دبا کر اِدھر ہی مار دیتا۔
عطا غصے سے چلّایا تو منشا نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا، پھر ماسٹر صاحب کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہاں سے جانے لگی تو ہیڈماسٹر صاحب عجلت میں بولے
’’منشا بیٹی۔۔۔! طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دینے والا سب سے بڑا بہادر ہوتا ہے۔۔۔ معاف کر دو اُسے۔۔۔‘‘
وہ ہیڈماسٹر صاحب کی بات سنتے ہی پلٹی، پھر کڑوے کسیلے لہجے میں کہنے لگی
معاف کر دوں اُس چوہے کو۔۔۔ جو میرے ڈر کی وجہ سے بارہ سال سے اپنے ماں باپ کی قبروں پر مٹی ڈالنے بھی نہیں آیا؟
جس دن اُسے میرے جھوٹ کا پتا چل گیا وہ اُسی دن گاؤں پہنچ جائے گا، پھر وہ ہو گا جو میں نہیں چاہتا۔۔۔
اِس لیے بیٹی مجھے اُس کے ماں باپ کی قبروں پر مٹی ڈالنے کی اجازت دے دو!
ہیڈماسٹر صاحب نے بڑے شائستہ لہجے میں درخواست کی۔ منشا نے ہیڈماسٹر صاحب کی عرضی سنتے ہی بڑے جلالی انداز میں کہا
کان کھول کر سن لو تُم سب کے سب۔۔۔ جس کسی نے بھی اُن قبروں پر مٹی ڈالی، پھر اُسے مٹی نصیب نہیں ہو گی۔۔۔ کاٹ کے کتوں کے آگے ڈال دوں گی۔
سارے مجمعے پر سناٹا چھا گیا۔ منشا مزاری بھڑکتے چہرے کے ساتھ وہاں سے روانہ ہو گئی۔ عطا نے وہاں سے جاتے ہوئے قہربرساتی نظروں کے ساتھ ہیڈماسٹر صاحب کو دیکھا۔ مغرب کی اذان ہونے والی تھی۔ منشا نے چلتے چلتے عطا سے پوچھا
’’عطا۔۔۔! کیا ہم اس وقت لاہور کے لیے نکل سکتے ہیں؟‘‘
بی بی سرکار۔۔۔! پرواز کا ٹائم تو کل دوپہر تین بجے کا ہے۔ عطا نے بتایا۔
جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو!  منشا نے کرخت لہجے میں کہا۔
اگر دھند پڑ گئی تو موٹروے بند ہو جائے گی۔ عطا نے ہولے سے بتایا۔ منشا چلتے چلتے جا کر اپنی گاڑی کے پاس کھڑی ہو گئی۔ ڈرائیور  نے فوراً گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ منشا نے ایک نظر گاڑی کے کھلے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا، پھر اُسے خود ہی بڑے زور سے بند کرتے ہوئے بولی
’’اگر میرا پارہ چڑھ گیا تو راتوں رات ماسٹر مر جائے گا۔۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔۔ تُم بیوی بچوں سے مل کر صبح آ جانا۔‘‘
عطا نے یہ سنتے ہی خود منشا کے لیے دروازہ کھولا، پھر نظریں جھکائے بڑی انکساری سے کہنے لگا
’’پہلے کبھی زندگی میں آپ کو اکیلے سفر کرنے دیا ہے؟‘‘
منشا پھیکا سا مسکرائی۔ اس کے بعد گاڑی میں بیٹھ گئی۔ عطا نے خود گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ بڑی سی چادر میں لپٹی عقیلہ اُس سے تھوڑی دُور کھڑی تھی۔ اُس سے کافی پیچھے عطا کا ہٹا کٹا بھائی ضادوکھڑا تھا۔ عطا عقیلہ کے قریب گیا اور جاتے ہی کہنے لگا
’’کپڑے اپنے حساب سے خود ہی غریبوں میں تقسیم کر دینا۔‘‘
عطا کی بات سنتے ہی عقیلہ نے اُس پر شکوے سے بھرپور نگاہ ڈالی، پھر ترش لہجے میں بولی
’’میں جو تقسیم ہو رہی ہوں اُس کا کیا؟‘‘
’’کینیڈا سے آتے ہی لمبی چھٹی لے کر آؤں گا۔۔۔ بچوں اور حویلی کا خیال رکھنا۔
عطا نے عقیلہ کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ضادو کو ہاتھ کے اشارے سے پاس بلایا۔ ضادو قریب آیا تو عطا نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فیصلہ کُن انداز میں کہا
جو بھی اُن قبروں پر مٹی ڈالنے لگے، اُدھر ہی کاٹ دینا۔
یہ بول کر عطا گاڑی میں بیٹھ گیا۔ دونوں گاڑیاں گرد اُڑاتی ہوئیں وہاں سے نکل گئیں۔
ہیڈماسٹر صاحب بوجھل قدموں کے ساتھ خیمے سے نکلے۔ اُن کے پیچھے اُن کے دو ساتھی بھی تھے۔ جب تک گاڑیاں اُس کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گئیں عقیلہ اپنے قدموں پر ہی کھڑی رہی۔ جیسے ہی وہ پلٹی ہیڈماسٹر صاحب سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیے۔
عقیلہ نے اُنھیں دیکھتے ہی اُن کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے نظریں جھکا دیں۔ اس کے برعکس ضادو نے کھا جانے والی نظروں سے ہیڈماسٹر صاحب کو دیکھا۔ ہیڈماسٹر صاحب  نے پہلے نیلے آسمان کی طرف دیکھا، پھر عقیلہ کے سر پر پیار دیا۔
اس کے بعد ضادو کے سامنے آتے ہوئے اپنی چھڑی کو منہ کے بل زمین پر مارنے کے بعد بولے
میری چھڑی زمین پر پڑے تو آواز دیتی ہے۔۔۔ مگر اُس کی لاٹھی بے آواز ہے۔  ساتھ ہی مسجد سے مغرب کی اذان کی گونج سنائی دینے لگی۔

(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles