مَیں نے اُسے نہیں دیکھا
مقبول جہانگیر
ایک دو نہیں، پورے چار ماہ مَیں ایک آسیب زدہ مکان میں رہا ہوں۔ ایسا مکان جس کا چپّہ چپّہ اور گوشہ گوشہ گواہی دیتا ہے کہ یہاں بدروحوں کا عمل دخل ہے۔
یہ پُراسرار چھوٹا سا کاٹیج نما مکان سمندر کے قریب بنا ہوا تھا۔ اُسے تعمیر ہوئے اگرچہ نو برس گزر چکے تھے، لیکن اُس دوران میں یہ ایک لمحے کے لیے بھی آباد نہیں ہوا۔
دنیا بھر میں مَیں اور میری بیوی، ہیلن ہی دو اَیسے افراد تھے، جنہیں پہلی مرتبہ اُس مکان میں رہنے کا ’’فخر‘‘ حاصل ہوا تھا۔
یہ گرمیوں کا ذکر ہے۔ مجھے اُن دنوں ایک کتاب جلد از جلد مکمل کر کے پبلشر کے حوالے کرنی تھی اور یہ کام فرصت اور سکون کے لمحات چاہتا تھا۔
مَیں نے جب سمندر کے کنارے بنے ہوئے اُس الگ تھلگ، خوبصورت، آرام دہ مکان کا ذکر سنا، تو اُسے کرائے پر لینے کے لیے فوراً آمادہ ہو گیا۔
اگرچہ مجھے یہ بتا دیا گیا تھا کہ یہ آسیب زدہ ہے، لیکن مَیں ایسی واہیات باتوں کی پروا کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا کرتا۔
اُس مکان میں آنے کے بعد پہلی ہی رات کا ذکر ہے۔ میری بیوی سونے کے لیے اپنی خواب گاہ میں جا چکی تھی۔ مجھے چونکہ کام کرنا تھا، اِس لیے مَیں اپنی میز ہی پر بیٹھا رہا۔
مکان کی دوسری منزل پر خواب گاہ کے دو کمرے تھے جن کے درمیان ایک چھوٹا سا کمرا اَور بھی تھا۔ میری بیوی نے پہلے کمرے پر جو مکان کے اگلے حصّے میں تھا، قبضہ جمایا۔
وہ رَات خلافِ معمول اداس اور سوگوار سی تھی۔ سمندر کی جانب سے آنے والی سرد ہوا بھی رک گئی تھی۔ مکان کے اندر خاصا حبس تھا۔
اِس لیے مَیں نے سب دروازے اور کھڑکیاں کھول دی تھیں۔ مَیں نہایت سکون اور اِطمینان سے اپنے کام میں مصروف تھا۔
مجھے معلوم تھا کہ ہیلن اپنی خواب گاہ میں سو رَہی ہے، لیکن رات دس بجے کے قریب دفعتاً ہیلن کی آواز میرے کان میں گونجی:
’’جیک …..! یہ اِس وقت تم کیا کھٹ کھٹ کر رہے ہو ….. رات کافی بِیت گئی ہے، اب سو جاؤ نا۔‘‘
مَیں حیران رہ گیا۔
’’کیا کہتی ہو؟‘‘ مَیں نے پکار کر کہا۔
’’مَیں تو چپ چاپ اپنی میز پر بیٹھا لکھ رہا ہوں۔ کھٹ کھٹ کی آواز تم نے خواب میں سنی ہو گی۔‘‘
’’نہیں، جیک! مَیں نے خواب ہرگز نہیں دیکھا۔ مجھے تو ابھی نیند ہی نہیں آئی۔
چند منٹ ہوئے مَیں نے سنا کہ سیڑھیوں کے دروازے کے قریب کوئی شخص چھڑی سے دیوار پِیٹ رہا ہے۔ بس ایسی ہی آواز تھی۔ کیا تم نے نہیں سنی؟‘‘
مَیں ہیلن کے کمرے میں گیا اور کہا:
’’بعض اوقات ہمیں ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔ یہ محض ہمارے لاشعور کا کرشمہ ہے۔
عین ممکن ہے کہ کسی اور وَقت تم نے ایسی آواز سنی جو تمہارے لاشعور میں جم گئی۔
اب رات کے سنّاٹے میں یہ آواز لاشعور سے نکل کر شعور میں آئی، تو تم سمجھیں کہ واقعی کوئی شخص چھڑی سے دیوار پِیٹ رہا ہے۔‘‘
اِس ’’نفسیاتی توجیہہ‘‘ نے میری بیوی کو مطمئن کر دیا اور وُہ آرام کی نیند سو گئی۔
اب دوسری شب کا حال سنیے۔ ہم دونوں کھانے سے فارغ ہو کر ذرا گپ شپ کے لیے نچلی منزل کے بیرونی کمرے میں بیٹھے تھے۔
وقت وہی دس بجے کا تھا کہ یکایک مَیں نے ایسی آواز سنی جیسے واقعی دروازے کے باہر نامعلوم شخص چھڑی دیوار پر مار رَہا ہے۔
ہر دو آوازوں کے درمیان ایک سیکنڈ کا وقفہ تھا۔ چند سیکنڈ بعد اندازہ ہوا کہ یہ آوازیں ہم سے دس فٹ کے فاصلے پر دروازے کے باہر بلند ہو رَہی ہیں۔ ہیلن نے فوراً مجھ سے کہا:
’’لو سُن لو ….. یہی آوازیں مَیں نے گزشتہ رات سنی تھیں۔‘‘ مَیں نے لپک کر مینٹل پیس پر رکھی ہوئی لالٹین اٹھائی اور دَبے پاؤں دورازے کی طرف بڑھا۔
بلاشبہ دروازے کے باہر آواز مسلسل بلند ہو رہی تھی۔ بائیں ہاتھ میں لالٹین تھام کر دائیں ہاتھ سے مَیں نے دروازے کے ہتھی آہستہ سے گھمائی اور ایک ثانیہ توقف کے بعد جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔
دروازہ کھلتے ہی آواز بند ہو گئی۔ لالٹین کی روشنی دروازے کے باہر دور تک پھیل رہی تھی، لیکن وہاں کسی ذی روح کا نام و نشان بھی نہ تھا۔
مَیں نے زمین پر جھک کر قدموں کے نشان دیکھنے چاہے، مگر ایسا کوئی نشان نہ پایا جس سے پتا چلتا کہ یہاں کوئی موجود تھا۔
اُس رات کے بعد سے یہ معمول ہو گیا کہ ہمیں یہ آواز ضرور سنائی دیتی۔
کم از کم پچاس مرتبہ تو ہم نے یہ آواز سنی ہو گی اور ہمیشہ رات ہی کے وقت سنائی دیتی اور وُہ بھی دس بجے کے لگ بھگ۔
مَیں نے اُس پُراسرار آواز کا سراغ لگانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ دیوار کی ایک ایک اینٹ کا معائنہ کیا اور اُسے خوب ٹھونک بجا کر دیکھا، مگر بےسود ….. کچھ پتا نہ چلا کہ کیا بھید ہے۔
کئی مرتبہ مَیں نے رات کو دروازے کے باہر اِس امید پر ’’پہرہ‘‘ بھی دیا کہ شاید اِس بھید سے پردہ اُٹھے، مگر جونہی یہ آواز آتی اور مَیں لپک کر آگے بڑھتا، خاموشی چھا جاتی۔
پھر صبح تک کوئی آواز سنائی نہ دیتی۔ آخر عاجز آ کر ہم نے اُس آواز پر کان دھرنے ترک کر دیے، لیکن چند روز بعد ایک اور معمّے نے کہ اُس شیطانی آواز سے بھی زیادہ تحیّرانگیز ثابت ہوا، ہمیں پریشان اور کسی حد تک خوف زدہ کر دیا۔
اِس سے پیشتر کہ مَیں اُس کا ذکر کروں، درمیان میں پیش آنے والے چند معمولی واقعات سنا دینا مناسب سمجھتا ہوں۔
اُن میں تین واقعات ایسے تھے جو صرف مجھے پیش آئے اور میری بیوی اُن سے محفوظ رہی اور ہر واقعہ اُس وقت رونما ہوا جب مجھے رات کو اَپنے بستر پر لیٹے ہوئے ایک یا دو منٹ ہی ہوئے تھے۔
ہمیں اِس مکان میں آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ دوسرے ہفتے کی پہلی رات کا ذکر ہے، میری بیوی حسبِ عادت اپنی خواب گاہ میں جا چکی تھی۔
کوئی ایک گھنٹے بعد مَیں بھی اپنے بستر پہ پہنچا۔ یاد رَہے کہ میری خواب گاہ اَور میری بیوی کی خواب گاہ کے درمیان ایک چھوٹا سا کمرا ہے۔
ابھی بتی بجھا کر بمشکل مَیں نے تکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ آواز مجھے اپنے قریب ہی سنائی دی۔ یوں محسوس ہوا جیسے ماچس کی ڈبیا الماری کے خانے سے کمرے کے فرش پر گری ہے۔
مَیں قسم کھا کر کہنے کے لیے تیار ہوں کہ ایسی ہی آواز مَیں نے سنی تھی۔ مَیں فوراً اُٹھا۔ بتی جلائی اور فرش پر دیکھا، تو وہاں کچھ نہ تھا۔
پھر مَیں نے کمرے کا ایک ایک گوشہ چھان مارا، مگر وہاں ماچس کی کوئی ڈبیا نہ تھی۔ سب سامان ویسے ہی جُوں کا تُوں رکھا دکھائی دیا۔
برابر کے کمرے کا فرش بھی دیکھا بھالا، مگر ماچس کی ڈبیا ہوتی، تو نظر آتی۔
دوسری رات اِسی طرح کا ایک اور حادثہ ….. مَیں اُسے حادثہ ہی کہوں گا ….. پیش آیا۔
مَیں بستر پر لیٹ چکا تھا۔ کیا سنتا ہوں کہ اخباری کاغذ کا ایک ٹکڑا کمرے کے فرش پر اِدھر سے اُدھر عجیب طرح کی آواز پیدا کرتا ہوا اُڑ رَہا ہے۔ مَیں کان لگائے سنتا رہا۔
بلاشبہ کاغذ کا کوئی پرزہ ہی تھا جو سرسراہٹ کی سی آواز میں رقص کر رہا تھا۔ مَیں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کمرے میں دیکھا، مگر مجھے کاغذ کا وہ پُرزہ دِکھائی نہیں دیا۔
حالانکہ آواز معمولی وقفوں کے بعد مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ مَیں نے جونہی بتی جلائی، آواز تھم گئی۔
ایک بار پھر مَیں نے کمرے کی تلاشی لی اور حیرت ہوئی کہ وہاں کاغذ کا پرزہ تو درکنار، سرے سے کوئی اخبار ہی نہ تھا۔
اُس وقت ہوا بھی اتنی تیز نہ تھی اور نہ کمرے میں آ رہی تھی کہ کاغذ کا پرزہ کمرے میں اِس طرح اڑتا پھرتا۔ پریشان ہو کر مَیں نے اپنا سر تھام لیا اور ساری رات نہ سو سکا۔
تیسری رات جب مَیں ڈرتے ڈرتے بستر پر لیٹا، تو توقع کے مطابق ایک پُرشور آواز کمرے میں ایسی سنائی دی جیسے لوہے کا بیلن فرش پر لڑھک رہا ہے۔
گھررررر ….. گھررررر ….. پھر وہ بیلن جیسے سامنے کی دیوار سے ٹکرایا اور آواز تھم گئی۔
مَیں نے فوراً بتی جلائی، لیکن اپنی بےوقوفی پر شرمندہ ہونا پڑا، کیونکہ مجھے علم تھا کہ یہ سب ہمارے دوست ’’بھوت‘‘ کے کرشمے ہیں۔
اُس رات مَیں نے سنجیدگی سے اِس تمام صورتِ حال پر غور کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ مکان میں ’’کچھ نہ کچھ‘‘ موجود ضرور ہے، مگر وہ ہمیں نقصان پہنچانے کے موڈ میں نہیں ہے۔
صرف دل لگی کرنا چاہتا ہے۔ اِس لیے ہمیں ڈرنے یا بھاگنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
کیوں نہ اُس سے ’’دوستی‘‘ گانٹھی جائے۔
شاید آپ میرے اِن احمقانہ خیالات پر ہنس رہے ہوں گے کہ بھوت سے دوستی کرنا کیا معنی؟ لیکن یقین کیجیے کہ اِس کے سوا اَور چارہ ہی نہ تھا۔
صبح مَیں نے اپنی بیوی سے جب اِس ’’پروگرام‘‘ کا ذکر کیا، تو وہ حیرت سے میری طرف تکنے لگی۔
غالباً اُسے شبہ ہو رَہا تھا کہ کہیں میرا دماغ تو نہیں چل گیا۔ وہ ہنس کر کہنے لگی:
’’اور میرا خیال ہے کہ آج ہی یہ مکان چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ مَیں دیکھتی ہوں تمہارے حواس درست نہیں ہیں۔ اگر چند دن اور یہاں رہے، تو ممکن ہے کہ پاگل خانے کی ہوا کھانی پڑے۔‘‘
وہ پُراسرار آواز جو ہمیں اِس مکان میں آتے ہی پہلی شب کو سنائی دی تھی، اب دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں بار بار معمولی وقفوں کے بعد سنائی دینے لگی۔
کبھی باہر کے دروازے پر بھوت صاحب دستک دے رہے ہیں، تو کبھی مکان کی شمالی دیوار پر اپنی نادیدہ چھڑی بجانے میں مصروف ہیں۔
لیکن اب ہم اُن آوازوں کا کوئی نوٹس نہ لیتے تھے اور نہایت بےپروائی سے اپنے اپنے کاموں میں لگے رہتے۔
اِس دوران میں ایسا بھی ہوتا کہ کسی کمرے میں کرسی لڑھکنے یا پانی کا گلاس گرنے کی آواز سنائی دیتی، تب ہم مجبوراً وہاں جھانکتے، مگر نہ وہاں کوئی کرسی الٹی پڑی دکھائی دیتی اور نہ پانی کا گلاس …..
بعض اوقات ہمیں یوں محسوس ہوتا جیسے ہمارے گھر میں شریر بچوں کی ایک ٹولی گھس آئی ہے جو یہ اُدھم اور غُل غپاڑہ کر رہی ہے۔
ایک مرتبہ رات ہم میاں بیوی نچلے کمرے میں بیٹھے قہوہ پی رہے تھے اور بھوت کی شرارتوں پر ہنس ہنس کر تبصرہ کر رہے تھے کہ یکایک اوپر کے کمرے کی کسی چھت پر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔
’’جاؤ ذرا اُوپر کمرے میں دیکھو۔ غالباً تمہارے ’دوست‘ تشریف لائے ہیں۔‘‘ ہیلن نے کہا۔
’’میرا کون دوست اِس طرح بغیر اطلاع دیے آ سکتا ہے۔‘‘
مَیں نے تعجب سے کہا۔ ’’اور وُہ بھی رات کے اِس وقت!‘‘
’’جناب! وہی بھوت صاحب اوپر کمرے میں ٹہل رہے ہیں۔‘‘
’’اوہ …..!‘‘ مَیں نے چپکے سے کہا۔ ’’تم یہیں بیٹھو، مَیں جا کر دیکھتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر مَیں آہستہ سے بغیر آہٹ کے اپنی جگہ سے اٹھا اور سیڑھیاں طے کر کے دوسری منزل تک پہنچا۔ قدموں کی آواز بلاشبہ کمرے کے اندر سے آ رہی تھی۔
مَیں دروازے کے ساتھ کان لگا کر کھڑا ہو گیا۔ صاف پتا چلتا تھا کہ کوئی شخص پاؤں میں چمڑے کے سلیپر پہنے اِدھر سے اُدھر نپے تُلے قدموں سے ٹہل رہا ہے۔
مَیں نے دروازے کی ہتھی پر ہاتھ رکھا۔ دروازہ کھلنے کے لیے چرچرایا ہی تھا کہ قدموں کی آواز بند ہو گئی۔ دروازہ کھولا، کمرے میں جھانکا، تو وہاں کوئی نہ تھا۔
اُس رات کے بعد سے گویا یہ معمول بن گیا کہ مکان کے مختلف حصّوں میں قدموں کی چاپ گونجا کرتی۔
دن میں چار پانچ مرتبہ اور رَات کو بھی اتنی ہی بار یہ آواز سننا ہمارا خاص مشغلہ بن گیا۔
البتہ چوتھا ہفتہ جب شروع ہوا، تو یہ آواز بند ہو گئی اور پورے سات دن بعد دوبارہ سنائی دی۔
اب وہ عجیب ترین واقعہ سن لیجیے جس کا مَیں پہلے اشارہ کر چکا ہوں۔
ایک روز مَیں نے ہیلن سے کہا کہ مَیں کل شہر جا رہا ہوں۔
مجھے فلاں اخبار کے پچھلے ہفتے کے سنڈے ایڈیشن کی فوری ضرورت ہے، کیونکہ اُس میں میرا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا حوالہ مَیں اپنی کتاب میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔
تمہیں اگر کچھ چیزیں منگانی ہوں، تو اُن کی فہرست مجھے دے دو۔
ہیلن کہنے لگی ’’صبح جب جاؤ گے، تو بتا دوں گی۔‘‘
رات کو حسبِ معمول مکان کی دیواروں پر چھڑی پیٹنے اور کمروں میں قدموں کی چاپ سنائی دی، پھر ہم سو گئے۔ مَیں نے ٹائم پیس میں چھے بجے صبح کا الارم لگا دیا تھا۔
صحیح وقت پر الارم بجا اور مَیں بستر سے اُٹھ کر غسل خانے میں چلا گیا۔
واپس آ کر جب مَیں نے شیو کرنے کا سامان سرہانے رکھی ہوئی میز کی دراز سے نکالنا چاہا، تو میری نظر میز کے اوپر رکھی ہوئی ایک ایسی شے پر پڑی کہ ایک لمحے کے لیے میرا سر چکرا گیا۔
خدا کی پناہ ….. یہ مَیں کیا دیکھ رہا ہوں۔ کہیں یہ میرا وہم تو نہیں، ڈرتے ڈرتے مَیں نے اُس شے کو ہاتھ لگایا۔
آپ سمجھے کہ وہ کیا چیز تھی؟
جناب! حلفیہ طور پر عرض کرتا ہوں کہ اُسی اخبار کا گزشتہ ہفتے کا سنڈے ایڈیشن تھا جسے لانے کے لیے مَیں شہر جانے والا تھا۔ مَیں نے حلق پھاڑ کر نعرہ لگایا:
’’ہیلن ….. ہیلن!‘‘
میری بیوی اپنی خواب گاہ سے حواس باختہ میرے کمرے میں آئی۔
مَیں نے اخبار اُٹھا کر اُس کے سامنے رکھ دیا۔
’’بخدا کمال ہو گیا ….. یہ اخبار ….. یہاں کون رکھ گیا؟‘‘
ہم اُس اخبار کو حیرت سے یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی عجوبۂ روزگار شے ہے اور پہلی بار ہم نے دیکھی ہے۔
’’یہ ضرور اُسی بھوت کی کارستانی ہے۔‘‘ ہیلن نے فیصلہ سنا دیا۔
’’بھئی ایسا بھوت دیکھا نہ سنا۔‘‘ مجھے پہلی مرتبہ بھوت کے وجود پر ایمان لانا پڑا۔
’’سچ پوچھو، تو تم گھاٹے میں رہیں۔ اگر تم کل ہی اپنی ضرورت کی چیزیں بتا دیتیں، تو وہ بھی اخبار کے ساتھ آ جاتیں۔
بہرحال اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔‘‘
اُس روز کے بعد ہم نے اپنے دوست اور مہربان بھوت کو کئی بار سوداسلف منگانے کی آزمائش میں ڈالنا چاہا، مگر ہماری کوششیں بےکار گئیں۔
ابھی ہمیں ایک ماہ اِس مکان میں اور ٹھہرنا تھا۔ ہم نے سوچا، کیوں نہ اپنے دوستوں کو بھی اِس بھوت تفریح میں شامل کر لیا جائے،
چنانچہ مَیں نے اپنے کئی دوستوں کو خط لکھ دیے کہ وہ اِس پُرفضا مقام پر اگر چند روز گزارنا چاہیں، تو بصد شوق تشریف لا سکتے ہیں۔
اوروں نے تو فرصت نہ ہونے کا عُذر کیا، البتہ ایک صاحب مع اپنے اہل و عیال آ گئے۔
اُن صاحب کے آنے سے پہلے ایک اور دِلچسپ واقعہ پیش آیا۔
اوپر کا کام کاج کرنے اور مکان کی صفائی وغیرہ کے لیے ایک بوڑھی عورت جسے ہم جیکی کہتے تھے، صبح شام آیا کرتی تھی۔
ایک روز ایسا ہوا کہ ہیلن اوپر کی منزل میں اکیلی غالباً کوئی کتاب پڑھ رہی تھی کہ نچلے کمرے میں اُس کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔
چونکہ وہ وَقت جیکی کے آنے کا تھا، اِس لیے ہیلن نے سوچا، شاید وہ آ گئی ہے۔ اُس نے آواز دی:
’’مسز جیکی! ذرا میری بات سن جانا۔‘‘
چند منٹ انتظار کے بعد جب مسز جیکی اوپر نہ آئی، تو ہیلن نے ذرا زور سے آواز دی۔ نچلی منزل میں قدموں کی آوازیں مسلسل سنائی دے رہی تھیں۔
ہیلن سیڑھیاں اتر کر جونہی نیچے پہنچی، یہ آوازیں یک لخت تھم گئیں۔
جیکی وہاں نہ تھی۔ ہیلن کو قطعاً تعجب نہ ہوا، کیونکہ وہ بھوت کی اِن شرارتوں سے خوب آگاہ تھی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ جونہی وہ دوبارہ اُوپر کی منزل میں آئی، نچلے کمرے میں پھر کسی کے چلنے پھرنے اور چیزیں اِدھر اُدھر رکھنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
یہ آوازیں دیر تک آتی رہیں۔ ہیلن بےنیازی سے مطالعے میں مصروف رہی۔
آخر تنگ آ کر وہ پھر دبے پاؤں نیچے اتری اور جیسے ہی اُس نے آخری سیڑھی پر پاؤں رکھا، پُراسرار آوازیں بند ہو گئیں۔
ہیلن اب نچلے کمرے میں بیٹھ گئی۔ یہاں بیٹھے ہوئے اُسے دس بارہ منٹ ہوئے تھے کہ اوپر کے کمرے سے آوازیں آنی شروع ہو گئیں۔
ہیلن نے غصّے سے سر کو جھٹکا دیا اور بولی ’’خدا تمہیں غارت کرے۔‘‘
وہ حلفیہ کہتی ہے کہ فوراً ہی اوپر سے مسز جیکی کی آواز سنائی دی۔
’’مسز جیک! کیا آپ اوپر نہ آئیں گی۔‘‘
یہ آواز سن کر ہیلن اچھل پڑی۔ بلاشبہ جیکی اِسی طرح بولتی تھی۔ وہ دوڑتی ہوئی اوپر گئی، تو وہاں کوئی نہ تھا۔
دوپہر کو جب مَیں واپس آیا، تو ہیلن نے مجھے یہ قصّہ سنایا اور کہا
’’آج تو بھوت کی آواز بھی سن لی۔ مَیں سمجھتی تھی کہ کوئی ’مرد‘ ہو گا، لیکن وہ کم بخت ’عورت‘ نکلی۔‘‘
اُسی رات کوئی نو بجے کے قریب ہم اوپر کے درمیانی کمرے میں بیٹھے اپنے دوست بھوت کا ذکر کر رہے تھے کہ یکایک گیراج کی جانب سے ایک زبردست دھماکا سنائی دیا جس سے سارا مکان کانپ اٹھا۔
گیراج مکان کے پچھواڑے واقع تھا۔ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے اُس کی چھت گر گئی ہے۔
آواز کچھ ایسی تھی جیسے بہت بڑا پیانو دفعتاً الٹ جائے اور اُس کے تمام چھوٹے بڑے ساز بیک وقت چیخ اٹھیں۔
یہ دھماکا ہونے کے تین ثانیے بعد ہی ہم دونوں دوڑتے ہوئے گیراج کی طرف گئے۔
ہمیں خدشہ تھا کہ اگر اُس کی چھت گر گئی ہے، تو وہاں رکھی ہوئی تمام کتابیں اور ضرورت کی دوسری چیزیں برباد ہو گئی ہوں گی۔
لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ اُس کی چھت نہ صرف صحیح سلامت ہے، بلکہ وہاں رکھی ہوئی ہر چیز اپنی جگہ جُوں کی تُوں موجود ہے۔
اِس کے بعد ہم نے مکان کا اچھی طرح معائنہ کیا، مگر اِس حادثے کے آثار کہیں نہ پائے۔
میرے دوست مسٹر جیمز، اپنی بیوی اور لڑکی کے ساتھ دوسرے روز آ گئے۔ مکان دیکھ کر وہ نہایت خوش ہوئے۔ درمیانی کمرا مسٹر جیمز کو اَور ہیلن کی خواب گاہ اُن کی بیوی اور بیٹی کے لیے کافی تھی۔
ہم نے اُن سے مکان کے آسیب زدہ ہونے کا قطعاً ذکر نہ کیا۔ اتفاق دیکھیے کہ مسٹر جیمز بھوت پریت کے اتنے ہی قائل تھے جتنا مجھے انکار تھا۔
اِس کے ساتھ ساتھ وہ خاصے بزدل بھی تھے۔ رات کے وقت کھانے سے فارغ ہو کر ہم سب ایک جگہ بیٹھے تھے۔ قہوے کا دور چل رہا تھا۔
مَیں نے ہیلن کا اشارہ پا کر بھوتوں کے قصّے چھیڑ دیے۔ دو تین فرضی داستانیں سنائیں۔ مسٹر جیمز، اُن کی بیوی اور بیٹی بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے۔
مَیں نے گھڑی دیکھی ….. ساڑھے نو بج رہے تھے۔ بھوت صاحب کے تشریف لانے کا وقت ہو رہا تھا …..
دفعتاً بیرونی دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ مسٹر جیمز ایک دم اچھل پڑے۔
’’رات کے وقت اِس سنّاٹے میں یہ کون آیا؟‘‘ اُنھوں نے حیرت سے پوچھا۔
’’کوئی بھوت ہو گا۔‘‘ ہیلن نے مسکرا کر کہا۔
’’بھ ….. بھو ….. بھوت …..‘‘ مسٹر جیمز نے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔
دستک کی آواز اب مدھم ہو گئی۔ کمرے میں موت کی سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔
یکایک نچلے کمرے میں کسی کے قدموں کی آواز سن کر ایک بار پھر مسٹر جیمز اور اُن کی بیوی چونک گئے۔ اُنھوں نے آہستہ سے کہا:
’’جیک! مکان میں یقیناً کوئی چور گھس آیا ہے۔ کیا تم اُس کے چلنے پھرنے کی آوازیں نہیں سنتے؟‘‘
اگرچہ ہم نے یہ آواز سن لی تھی، مگر جیمز کو اور پریشان کرنے کے لیے کہہ دیا:
’’آوازیں؟ کون سی آوازیں؟‘‘
’’ٓارے بھائی! نچلی منزل میں کوئی آدمی موجود ہے۔ ذرا جا کر دیکھو۔‘‘
’’کیا آپ کو پورا یقین ہے کہ آپ نے یہ آواز سنی ہے؟‘‘ ہیلن نے پوچھا۔
’’آپ بھی غضب کر رہی ہیں۔‘‘ مسٹر جیمز چلّائے۔ ’’مَیں کہتا ہوں کہ اُسے پکڑ لو، ورنہ وہ بھاگ جائے گا۔‘‘
مسٹر جیمز کے کہنے پر میں اُنھیں ساتھ لے کر جب نیچے گیا، تو وہاں کوئی نہ تھا اور مکان کا بیرونی دروازہ اَندر سے مقفّل تھا۔
’’کمال ہے صاحب!‘‘ وہ پریشان ہو گئے۔ ’’یہاں ابھی ضرور کوئی موجود تھا۔‘‘
اُس رات اُنھوں نے کئی مرتبہ ’’پُراسرار آدمی‘‘ کے چلنے پھرنے اور چیزیں اِدھر سے اُدھر اٹھا کر رکھنے کی آوازیں سنیں۔ وہ بار بار میرے کمرے میں آ کر کہتے تھے:
’’ضرور کوئی چور مکان میں چھپا ہوا ہے۔‘‘
آدھی رات کے وقت وہی پُرشور آواز گیراج کی جانب سے سنائی دی جو ایک روز پہلے ہم سن چکے تھے۔
مکان پھر لرز اُٹھا۔ مسٹر جیمز، اُن کی بیوی اور بیٹی ازحد خوف زدہ تھے۔
ہم نے اُنھیں دلاسا دیا کہ وہ آرام سے سوئیں۔ یہ شور محض بھوت کی کارستانی ہے، لیکن وہ نہ مانے۔
آخر اُنھیں اِس بھوت کی پوری تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ وہ کہنے لگے:
’’مَیں یہاں ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا ….. میری بیوی دل کی مریضہ ہے۔
آپ کی دل لگی ٹھہری، کسی کی جان چلی گئی۔ نہ بابا ….. مَیں تو صبح ہی چل دوں گا۔‘‘
دوسرے روز ہی مسٹر جیمز اور اُن کے خاندان نے اپنا بوریا بستر سنبھالا اور رُخصت ہو گئے۔
اُن کے جانے کے بعد دس روز تک ہم اُس مکان میں رہے۔ اِس دوران میں میری کتاب مکمل ہو چکی تھی۔
مجبوراً ہم نے بھی اپنے بھوت دوست کو الوداع کہا اور اُس مکان کی خوشگوار یادیں سینوں میں بسائے روانہ ہوئے۔
اِن واقعات کو ایک عرصہ بِیت چکا ہے، لیکن دل میں آج تک یہ تجسّس باقی ہے کہ کاش مَیں ایک دفعہ اُس بھوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا۔ کاش …..!