27 C
Lahore
Sunday, April 28, 2024

Book Store

بڑھیا کا انتقام|budhiya ka inteqaam

بڑھیا کا انتقام

مقبول جہانگیر

قصبہ بونی فیسیو کے آخری کنارے پر، الگ تھلگ ایک عمررسیدہ بیوہ عورت اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ رہا کرتی تھی۔
اُن کا چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا مکان پہاڑی کے ساتھ ہی بنا ہوا تھا۔ اس میں آرام و آسائش کی کوئی چیز نہیں تھی۔ یہاں شب و روز بحری ہوائیں چلتی رہتی تھیں۔
بونی فیسیو کے ماہی گیر اِنہی طوفانوں میں اپنی کشتیاں لے کر سمندر میں مچھلیاں پکڑنے جاتے تھے۔
دور سمندری چٹانوں کے پیچھے ایک دھبے کی مانند جزیرہ سارڈینیا دکھائی دیتا تھا۔
بڑھیا سیورنی کا مکان چونکہ ایک بلند پہاڑی ٹیلے پر تھا، اِس لیے وہاں سے سارڈینیا کی خوبصورت برفانی پہاڑیاں اور اُن پر بنے ہوئے اِکّا دُکّا مکانات صاف نظر آتے تھے ۔
بعض اوقات تو یُوں محسوس ہوتا، جیسے وہ مکان پرندوں کے چھوٹے چھوٹے گھونسلے ہیں۔
بڑھیا سیورنی کے مکان کی تین کھڑکیاں سارڈینیا کی طرف کھلتی تھیں ۔
کبھی کبھار وُہ وَہاں بیٹھی اُس جزیرے کی طرف خواب آلود نگاہوں سے دیکھتی رہتی تھی جہاں آسمان اور سمندر ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے نظر آتے تھے۔

اُس کے بیٹے کا نام انتونی تھا۔ وہ نہایت صحت مند اور خوبصورت جوان تھا۔
دونوں ماں بیٹے ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے۔
اِس مختصر سے مکان میں اُن کے علاوہ ایک تیسرا جاندار اَور بھی تھا۔
وُہ اُن کی پالتو کُتیا تھی جس کا قد لمبا، جسم دبلا پتلا اور پنجے کافی تیز اور نوکیلے تھے۔
وہ شکاری کتیا تھی اور کبھی کبھار انتونی کے ساتھ شکار کی مہم پر جایا کرتی تھی۔

ایک اداس شام کا ذکر ہے، نوجوان انتونی کا کسی بات پر ایک شخص نکولس سے جھگڑا ہو گیا۔
وہ قصبہ بونی فیسیو کا بدمعاش تھا۔
اُس نے مشتعل ہو کر لمبا چاقو نکالا اور انتونی کے سینے میں گھونپ دیا۔
پھر لڑکے کی تڑپتی ہوئی لاش وہیں چھوڑ کر اُسی رات سارڈینیا کی طرف بھاگ گیا۔
انتونی کی لاش رات بھر اُسی پہاڑی درّے میں پڑی رہی۔

وہاں شاذ و نادر ہی کسی کا گزر ہوتا تھا۔ اتفاقاً چند ماہی گیر اُدھر سے گزرے ۔
اُنھوں نے پہچان لیا کہ لاش بڑھیا سیورنی کے بیٹے انتونی کی ہے۔
وہ لاش کو بڑھیا کے مکان پر لے آئے۔ بڑھیا نے اپنے بیٹے کی لاش دیکھی اور دَیکھتی ہی رہی۔
نہ اُس کا جسم کانپا، نہ اُس نے چیخ ماری اور نہ اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برکھا ہوئی۔
وہ بس چپ چاپ، خاموش، پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے پیارے بیٹے کی لاش دیکھتی رہی۔
پھر اُس نے اپنا جھرّیوں والا ہاتھ آگے بڑھا کر اَپنے بیٹے کے سینے پر رکھا اور قسم کھائی کہ وہ اِس خون کا انتقام لے گی۔

اُس نے ماہی گیروں اور دُوسرے لوگوں کو جو اُس سے ہمدردی کرنے آئے تھے، اپنے مکان سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔

’’ تم سب یہاں سے چلے جاؤ ۔ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔
تم میرا بیٹا مجھے واپس نہیں دے سکتے ۔ اِس لیے جاؤ ۔ مجھے تنہا چھوڑ دو …..
مَیں اپنے بیٹے سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

کسی نے کچھ نہ کہا۔ لوگ سمجھے کہ بڑھیا سیورنی کا دماغ چل گیا ہے۔
اُن سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے سوگوار۔
جب سب چلے گئے، تو بڑھیا نے مکان کا دروازہ بند کیا اور انتونی کی لاش کے قریب بیٹھ گئی اور دَھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ کتیا اپنے مرے ہوئے آقا کے سرہانے بیٹھی تھی۔
اُس کا جسم بےحس و حرکت تھا۔ اُس نے کئی مرتبہ محبت سے انتونی کے سر پر اپنا پنجہ رکھا۔
وہ سمجھ رہی تھی کہ شاید اُس کا آقا سو رہا ہے، لیکن وہ اِس سے پہلے تو کبھی اِس وقت نہیں سویا تھا۔
کتیا  نے منہ اٹھا کر بڑھیا سیورنی کی طرف دیکھا جس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔
اسے اِحساس ہوا کہ اُس کا آقا مر چکا ہے۔
اُس کے حلق سے ایک لمبی اور دِلدوز آہ نکلی جس سے سارا مکان گونج اٹھا ۔
بڑھیا کو یوں معلوم ہوا جسے انتونی کی موت پر مکان کے در و دِیوار بھی رو رَہے ہیں۔
کتیا کے رونے کی آواز مکان کے باہر کھڑی ہوئی چند عورتوں نے بھی سنی ۔
وُہ سسکیاں بھرتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔

بےچارہ انتونی ….. اُس کی عمر ہی کیا تھی ۔
زندگی کی صرف بیس بہاریں اُس نے دیکھیں اور موت کے بےرحم ہاتھوں نے اُسے دبوچ لیا۔

انتونی کی لاش بستر پر پڑی تھی۔ اُس کا بھورے رنگ کا پرانا کوٹ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔
سر کے بال نُچے ہوئے تھے۔
اُس کا سارا جسم، سینہ، گردن، بازو اَور ٹانگیں جمے ہوئے خون سے لتھڑی ہوئی تھیں،
لیکن اُسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ مر چکا ہے۔
بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ آنکھیں بند کیے آرام کی نیند سو رہا ہے۔

روتے روتے یکایک بڑھیا چپ ہو گئی۔ اُس کی آنکھیں اپنے بیٹے کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں اور لب کپکپا رہے تھے۔ شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی …..
پھر اُس کی زبان سے چند جملے ادا ہوئے۔
کتیا نے جونہی مالکہ کی آواز سنی، وہ بھی خاموش ہو کر اُس کا منہ تکنے لگی،
جیسے سمجھنا چاہتی ہو کہ مالکہ کیا کہہ رہی ہے۔

’’آہ میرے پیارے بیٹے!
خوب آرام سے سو جاؤ۔ کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟ تمہاری ماں بول رہی ہوں…..
جس سے تمہیں بڑا پیار تھا اور جس کا حکم تم نے کبھی نہیں ٹالا۔
مَیں وہی ہوں.. … اور تمہارے سامنے عہد کرتی ہوں کہ تمہارے خون کا بدلہ ضرور لوں گی۔

اب تم آرام کرو۔‘‘

یہ کہہ کر وہ انتونی کی لاش پر جھکی اور اَپنے سرد اَور کانپتے ہوئے ہونٹوں سے اُس کی خون آلود پیشانی چوم لی۔ بڑھیا جونہی چپ ہوئی، کتیا کے حلق سے رونے کی مہیب آواز نکلی۔
پھر اُس نے اپنا منہ زمین میں چھپا لیا اور چپکی ہو گئی ۔
اِس طرح وہ رَات بوڑھی سیورنی اور کتیا سیمی لیفٹی نے انتونی کے قریب بیٹھ کر روتے دھوتے گزار دِی۔

دوسر روز انتونی کو قصبہ بونی فیسیو کے چھوٹے سے گرجے کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
چند روز تک نوجوان کی دردناک موت کا چرچا لوگوں میں ہوا اَور پھر سب بھول بھال گئے۔
سوائے اُس کی ماں اور اُس کی کتیا کے جو اُس کی موت کے غم کو سینے سے لگائے ہوئے تھیں۔

بڑھیا کے شب و روز اِسی فکر میں گزرنے لگے کہ انتقام لینے کی صورت کیا ہو؟
اُسے اتنا پتا چل چکا تھا کہ جس شخص نے اُس کے بیٹے کو مارا ہے، وہ سارڈینیا کے ایک گاؤں لونگوسارڈو میں چھپا ہوا ہے۔
وہ گاؤں کارسیکن بدمعاشوں اور غنڈوں کو پناہ دَینے کے لیے بڑا مشہور تھا۔
اَکثر جرائم پیشہ لوگ انصاف کے ہاتھ سے بچنے کے لیے لونگوسارڈو میں پناہ لیا کرتے تھے۔

https://shanurdu.com/aasebi-makaan/

بڑھیا سیورنی نہ کسی سے بات کرتی اور نہ کہیں آتی جاتی بلکہ مکان کی پچھلی کھڑکیوں میں سے ایک میں بیٹھ کر سارا سارا دِن لونگوسارڈو کی جانب گھورا کرتی، جہاں اُس کے بیٹے کا قاتل چھپا ہوا تھا۔
غصّے سے اُس کے بدن کا رُواں رُواں کانپنے لگتا اور آنکھیں اشک بار ہو جاتیں۔
اُس کی سمجھ میں بدلہ لینے کی کوئی تدبیر نہ آتی تھی۔ وہ نحیف و ناتواں عورت تھی۔
اُس کا کوئی مددگار نہ تھا۔ وہ کسی سے صلاح مشورہ بھی نہیں لے سکتی تھی۔
اُسے تو اِتنا بڑا کام تن تنہا پایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا۔
وہ اَپنے بیٹے سے وعدہ کر چکی تھی، اُس کی لاش کے آگے سینے پر ہاتھ کر انتقام لینے کی قسم کھائی تھی۔
اُسے اب تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
کیا معلوم موت کا ظالم ہاتھ کب اُسے بھی پکڑ لے اور اَپنے ساتھ لے جائے۔
پھر وہ اَپنا قول کیونکر پورا کرے گی؟ اِسی فکر میں اُسے نیند نہ آتی تھی۔
وہ ساری رات اپنی چھوٹی سی کوٹھڑی میں ٹہلا کرتی یا تھک کر کھڑکی کے پاس بیٹھ جاتی۔
اُسے کسی کَل چَین نہ پڑتا تھا۔ کتیا سائے کی مانند اپنی مالکن کے ساتھ رہتی۔
اب اُس میں بھی وہ پہلی سی شوخی اور چلبلاپن نہ رہا تھا۔ وہ شاذ و نادر ہی بھونکتی۔
بس اپنی مالکہ کے پیروں تلے پڑی سویا کرتی یا دل چاہتا، تو اونچی آواز میں دو تین مرتبہ رونے کی آواز نکالتی اور چپ ہو جاتی۔
شاید وہ اَپنے آقا کو ڈھونڈتی اور پکارتی تھی۔

ایک رات جبکہ کتیا اِسی طرح اپنے آقا کی یاد میں رو رَہی تھی، بڑھیا کے ذہن میں انتقام لینے کی ایک انوکھی تدبیر آئی ۔ نہایت کارگر اور نہایت وحشیانہ تدبیر۔
وہ ساری رات اُسی تدبیر کے مختلف پہلوؤں پر سوچ بچار کرتی رہی اور اُسے یقین ہو گیا کہ اگر اِس پر عمل کیا جائے، تو وہ قاتل سے خاطرخواہ بدلہ لے سکتی ہے۔
صبح ہوتے ہی وہ مکان سے باہر نکلی اور گرجے میں جا کر قربان گاہ کے سامنے سجدے میں گر پڑی اور خدا سے رو رَو کر اَپنی کامیابی کی دعائیں مانگنے لگی۔
گرجے سے واپس آ کر اُس نے کتیا کو صحن میں باندھ دیا اور اَپنی کوٹھڑی میں چلی گئی۔
اُس کی نگاہیں سارڈینیا کے ساحل پر گڑی ہوئی تھیں۔

اُس روز کتیا سارا دِن اور ساری رات بھوکی پیاسی صحن میں بندھی رہی۔
پہلے تو وہ کافی دیر تک چپ چاپ پڑی رہی،
لیکن جب اُسے بھوک ستانے لگی، تو اُس نے بھونک بھونک کر سارا مکان سر پر اٹھا لیا،
مگر بڑھیا سیورنی اپنی کوٹھڑی سے باہر نہ نکلی اور نہ اُس نے کتیا کو کچھ کھلایا پلایا۔
اُس سے اگلے روز وہ صبح کوٹھڑی سے برآمد ہوئی، اُس کے ہاتھ میں پانی سے بھرا ہوا ایک پیالہ تھا۔
وہ اُس نے کتیا کے سامنے رکھ دیا۔
کتیا نے پانی پیا اور محبت سے دم ہلائی اور اَب وہ روٹی یا گوشت کے چند لوتھڑوں کی منتظر تھی،
مگر بڑھیا نے سارا دِن کھانے کے لیے اُسے کچھ نہ دیا۔
اب کتیا بھوک سے اِس قدر نڈھال ہو چکی تھی کہ اُس میں بھونکنے کی سکت بھی باقی نہ رہی۔
وہ آنکھیںبند کیے پڑی رہی۔
رات کے وقت جب اُسے پھر بھوک نے ستایا، تو وہ بھونکی اور زنجیر تڑانے کی کوشش کرنے لگی،
لیکن زنجیر مضبوط تھی، ٹوٹ نہ سکی۔

دوسرے روز صبح بھی بڑھیا نے کتیا کو پانی ہی پلایا اور کھانے کے لیے کچھ نہ دیا۔
اُس نے کتیا کے چہرے پر مایوسی اور حیرت کے مِلے جُلے تاثرات پہچان لیے۔
اپنی مالکہ کو دیکھتے ہی وہ زور زور سے اچھلنے اور زنجیر سے آزاد ہونے کی سعی کرنے لگی، لیکن اُسے کھانے کو پھر بھی کچھ نہ ملا اور وُہ سارا دِن بھوکی رہی۔
تیسرے روز بڑھیا سیورنی اپنے ایک پڑوسی کے گھر گئی ۔
وَہاں سے دو گٹھڑیاں خشک گھاس اور بُھس کی اٹھا لائی۔
پھر اُس نے لکڑی کا ایک پرانا صندوق کھولا اور اُس میں سے اپنے آنجہانی شوہر کے کپڑے نکالے اور اُن میں بُھس بھر دیا۔

اِس کے بعد بڑھیا نے بُھس بھرے ہوئے کپڑوں کے اُس انسانی ڈھانچے کو صحن میں ایک اونچی سی لکڑی گاڑ کر اُس کے ساتھ کھڑا کر دیا۔
پھر پرانی لینن کو لپیٹ کر اُس ڈھانچے کا سر بنایا اور اُس میں بُھس بھر کے ڈھانچے کی گردن مکمل کر دی۔

کتیا حیرت سے یہ سب تماشا دیکھ رہی تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مالکہ کو کیا ہو گیا ہے۔
اِس سے پہلے تو اُس نے کبھی اِسے بھوکا نہیں رکھا تھا۔
اِس کام سے فارغ ہو کر بڑھیا بازار گئی۔ قصاب کی دکان سے اُس نے کلیجی خریدی اور گھر آ گئی۔
پھر صحن ہی میں بھوکی کتیا کے سامنے اُس نے آگ جلائی اور کلیجی بھوننے لگی۔
کلیجی کی خوشبو جب کتیا کی ناک تک پہنچی، تو اُس کی بےقراری اور بےچینی کی حد نہ رہی۔
اُس کا منہ کھلا ہوا اَور آنکھیں کلیجی پر لگی ہوئی تھیں۔
پھر بڑھیا نے کلیجی کو ایک ڈوری میں پرویا اور بُھس بھرے ہوئے ڈھانچے کی گردن پر لپیٹ دیا۔
اِس کے بعد وہ کتیا کی طرف گئی اور اُس کی گردن سے زنجیر اتار دِی۔

بجلی کی مانند بھوکی شکاری کتیا اُس ڈھانچے کی طرف جھپٹی اور اَپنے نوکیلے پنجے سے اُس کی گردن پر وار کیا۔
پھر اپنے دونوں پنجے اُس کے کندھوں پر گاڑ کر دانتوں سے کلیجی کی بوٹیاں نوچنے لگی،
لیکن اُس کا منہ وہاں تک بمشکل پہنچ پایا۔
وہ پیٹھ کے بَل زمین پر گری، لیکن پھر اُٹھی اور ڈھانچے پر جھپٹی۔ کتیا کے غیظ و غضب کی انتہا نہ تھی۔
چند ہی لمحوں میں اُس نے ڈھانچے کی گردن، شانے، بازو اَور سینہ سب نوچ ڈالے اور کلیجی کا ہر ٹکڑا ہڑپ کر گئی۔
بڑھیا سیورنی صحن کے ایک گوشے میں بےحس و حرکت اطمینان سے کھڑی یہ دِلچسپ تماشا دیکھتی رہی۔
پھر اُس کی آنکھوں میں چمک اور لبوں پر تبسم کی خفیف سے لہر نمودار ہوئی۔
کتیا کلیجی کھا کر اور ڈھانچے کو تہس نہس کر کے جب فارغ ہوئی، تو بڑھیا نے اُسے زنجیر سے باندھ دیا۔

 دو دِن تک کتیا کو پھر فاقے سے رکھا گیا۔
اِس دوران بڑھیا نے بُھس کا انسانی ڈھانچا تیار کیا اور کلیجی اُس کی گردن سے باندھ کر کتیا کو چھوڑ دیا۔
اِس مرتبہ کتیا نے پہلے سے بھی زیادہ خونخواری اور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور آناً فاناً اپنے نوکیلے پنجوں اور لمبے لمبے دانتوں سے اُس کے چیتھڑے اڑا دِیے۔
تین ماہ تک بڑھیا  نے ہر تیسرے روز یہی عجیب تماشا اپنے گھر میں کیا ۔
کتیا کو اِس حد تک سدھایا کہ وہ اَب محض اشارے ہی پر اُس ڈھانچے کی طرف جھپٹتی اور اُس کی ’’تِکّا بوٹی‘‘ کر ڈالتی۔
اُسے اب زنجیر سے باندھے رکھنے کی ضرورت بھی نہ رہی تھی۔
اب ایسا ہونے لگا کہ کتیا اِس کام سے فارغ ہوتی، تو کلیجی اُسے بعد میں انعام کے طور پر کھلائی جاتی تھی۔
ڈھانچا جب دوبارہ بنایا جاتا، تو کتیا ایک گوشے میں بیٹھی اُسے وحشیانہ انداز میں تکتی رہتی ۔
جونہی بڑھیا کی انگلی کا اشارہ ملتا، وہ اَپنی جگہ سے اچھلتی اور ڈھانچے پر پل پڑتی۔
جب بڑھیا کو کتیا پر پورا اِعتماد ہو گیا، تو ایک روز صبح سویرے اُس نے پرانے صندوق میں سے اپنے آنجہانی شوہر کے کپڑوں کا ایک اور جوڑا نکالا اور اُسے خود پہن لیا۔
کلیجی لے کر ایک تھیلے میں رکھی اور پھر کتیا کو ساتھ لے کر ساحلِ سمندر کی طرف چل پڑی۔
اُس کی چال ڈھال اور آواز سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بوڑھا آدمی ہے۔
اُس نے ایک ماہی گیر سے کہا کہ اُسے لونگوسارڈو پہنچا دے۔
کتیا کو اُس نے اِس مرتبہ دو دِن کے فاقے سے رکھا۔
کشتی میں بیٹھنے کے بعد اُس نے تھیلے کا منہ ذرا سا کھولا۔
کلیجی کی خوشبو جب کتیا کی ناک میں گئی، تو وہ اُچھلنے اور اُسے جھپٹنے کی کوشش کرنے لگی۔
بڑھیا نے اُس کی گردن پر تھپکی دی اور آہستہ سے کہا:

’’نہیں ….. ابھی اِس کا وقت نہیں آیا ….. ذرا اَور صبر کرو۔‘‘

لونگوسارڈو پہنچ کر وہ ایک شراب خانے میں گئی۔ وہاں اُس نے نکولس کے بارے میں پوچھا کہ کہاں ملے گا۔
کسی نے بتایا کہ نکولس بڑھئی اپنی دکان میں کام کر رہا ہے۔
بڑھیا اُس دکان کا پتا دریافت کر کے وہاں آسانی سے پہنچ گئی۔
اُس نے آہستہ سے دکان کا دروازہ کھولا۔ دکان کے پچھلے حصّے میں کوئی شخص ہتھوڑے سے لکڑی پر کیلیں ٹھونک رہا تھا۔ بڑھیا بلند آواز سے بولی:

’’نکولس! ….. کیا تم یہاں موجود ہو؟‘‘

دوسرے ہی لمحے ایک لمبا تڑنگا ادھیڑ عمر کا آدمی اُس کے سامنے کھڑا تھا۔

’’ہاں! ….. میرا ہی نام نکولس ہے، کہو کیا کام ہے؟‘‘

یہ سنتے ہی بڑھیا نے کتیا کی گردن سے زنجیر کھولی اور چلّا کر کہنے لگی:

’’پکڑ لو اِسے ……‘‘

شکاری کتیا جو پہلے ہی سے اِس فن میں طاق ہو چکی تھی، ایک بلا کی مانند نکولس کی طرف جھپٹی اور اُس کے گلے پر اپنا زبردست پنجہ مارا۔
نکولس بدحواس ہو کر پیچھے گرا۔ اِس اثنا میں کتیا نے اُس کے منہ پر پنجے مارے اور اَپنے لمبے دانت اُس کے گلے میں گاڑ دیے۔
نکولس کے منہ سے چیخ بھی نہ نکل سکی۔
چند منٹ تک وہ کتیا کے پنجے سے آزاد ہونے کی کوشش کرتا رہا، لیکن بےسود۔
کتیا نے اُس وقت تک اُسے نہ چھوڑا جب تک اُس کا دم نہ نکل گیا۔

دکان کے سامنے مکانوں کے باہر دو پڑوسی سڑک پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
اُنھوں نے بعد میں ذکر کیا کہ نکولس کی دکان میں ایک بوڑھے کو سیاہ رَنگ کی کتیا کے ساتھ جاتے دیکھا گیا۔
جب وہ دُکان سے باہر نکلے، تو بوڑھے نے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر کوئی سیاہ سی چیز کتیا کو کھلائی تھی۔

تین ماہ بعد ….. وہ پہلی رات تھی جب بوڑھی سیورنی گھر میں پاؤں پھیلا کر آرام سے میٹھی نیند سوئی۔

https://shanurdu.com/author/maqbooljahangir/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles