آسیبی مکان
مقبول جہانگیر
یہ فروری ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے۔ میرے والدین پِیٹ اور لینا مرفی کو اقتصادی مشکلات کا سامنا تھا۔ اُن کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔
نوبیاہتا جوڑے کو مکان کے حصول میں سخت دشواری پیش آ رہی تھی۔ آخر اُنھوں نے دو اَور نوبیاہتا جوڑوں کے تعاون سے ایک مکان کرائے پر لیا جس میں ہر جوڑے کے لیے صرف ایک کمرا تھا۔
کئی ہفتوں کی تگ و دو کے بعد سنتاانا کیلف کے نواح میں وہ ایک ایسا مکان تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جس میں سات کمرے تھے اور کرایہ بھی بہت کم تھا۔
یہ مکان ایک سڑک کے اختتام پر کھیتوں کے بیچوں بیچ واقع تھا اور عقب میں خوش رنگ درختوں کے جُھنڈ تھے۔ تین منزلہ مکان سورج کی روشنی میں دور سے چمکتا دکھائی دیتا۔
تینوں جوڑے خوشی خوشی نئے مکان میں منتقل ہوئے۔ پہلی منزل میں سامان رکھا۔
کلاڈ اور کیتھرائن نیلسن نے سامنے کے رخ والی خواب گاہ پسند کی۔ ڈک اور نُورا چیپ مین نے دوسری منزل پر ایک وسیع و عریض کمرے کو خواب گاہ بنایا۔
میرے والدین کے حصّے میں وسیع ہال کے سرے کا کمرا آیا۔ مکان چونکہ بہت بڑا تھا، اِس لیے تیسری منزل کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ گرمی سے بچاؤ بھی رہے اور سامان بھی زیادہ بکھرنے نہ پائے۔
سامان کو ترتیب دینے اور مکان میں آرائش میں زیادہ وَقت نہ لگا، کیونکہ مکان پہلے سے ہی خوب سجا ہوا تھا۔
گھر کی تزئین و آرائش، شان دار باغیچہ، سنگِ مر مر کے چبوترے، مالکوں کےتَمَوُّل کی شہادت دے رہے تھے۔ نوجوان جوڑے حیران تھے کہ مالکوں نے اِس قدر شاندار مکان چھوڑنا کیسے گوارا کر لیا۔
امی کو پرانی چیزیں جمع کرنے کا جنون تھا اور اُس مکان میں پرانی چیزوں کا خزانہ دیکھ کر اُن کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
سامنے کی خواب گاہ میں شاندار ٹائلوں کی مخروطی انگیٹھی تھی۔ وہ کمرا بیضوی تھا۔
چھت گنبد دار جس کے وسط میں خوب صورت زنجیروں کے ساتھ مورتیاں لٹک رہی تھیں۔
خوب صورت بالکونی نے مکان کا حُسن دوبالا کر دیا تھا۔
اُنھیں اُس مکان میں آئے چند دن گزرے تھے۔ کیتھرائن، نُورا اَور اَمی سیڑھیوں کے دروازے پر رنگ کر رہی تھیں کہ اُنھوں نے بَل کھاتی ہوئی آہنی سیڑھیوں پر کسی کے دوڑنے کی آواز سنی۔
وہ تینوں یک لخت مڑیں، پوری سیڑھیاں اُن کے سامنے تھیں، تاہم پیروں کی چاپ کے باوجود سیڑھیوں پر کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔
اُس رات جب اُنھوں نے اِس کا ذکر مردوں سے کیا، تو اُن کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور معاملہ ختم ہو گیا۔
کئی روز بعد رات کو جب گھر کے لوگ گہری نیند سو رہے تھے، کیتھرائن کی خوف ناک چیخ نے اُنھیں جگا دیا۔ وہ پکار رَہی تھی
’’کوئی میرا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہا ہے، مجھے بچاؤ۔ مَیں اٹھ نہیں سکتی۔‘‘
سب اُس کی خواب گاہ میں جا گھسے۔ وہ کسی نادیدہ طاقت سے اُلجھی ہوئی تھی اور وَحشیانہ انداز میں ہاتھوں کو ہوا میں لہرا رَہی تھی جیسے ہوا سے لڑ رہی ہو۔
اُس کے خاوند کا چہرہ خوف سے زرد ہو گیا تھا۔ وہ کیتھرائن کو بستر سے اٹھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا کہ نادیدہ طاقت نے زور کے دھکے سے کیتھرائن کو فرش پر گرا دِیا۔
اُس کے ٹخنے پر موچ آ گئی اور سر دیوار سے جا ٹکرایا۔ کلاڈ اور کیتھرائن تو اُسی دن مکان چھوڑ دینا چاہتے تھے، مگر اُنھیں دوسروں کے اصرار پر اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔
کیتھرائن کے علاج کے لیے جس ڈاکٹر کو بلایا گیا، وہ اُس علاقے کا پرانا باشندہ تھا اور مکان کے مالکوں سے اچھی طرح واقف۔ جب اُس سے رات کے واقعے کا ذکر کیا گیا، تو وہ بڑبڑایا:
’’عجیب بات ہے، یہ مکان …..‘‘
پھر ایک دم خاموش ہو گیا اور اِصرار کے باوجود مزید کچھ کہنے سے انکار کر دیا۔
چند دن بعد پھر سیڑھیوں پر کسی کے اوپر جانے کی چاپ سنائی دی جو سیڑھیوں کے سرے پر چند لمحوں کے لیے رک گئی اور جب دوبارہ سنائی دی، تو غسل خانے کا دروازہ زور سے بند ہوا اَور پانی سلفچی میں گرنے لگا۔
میرے ابا سیڑھیوں کی طرف لپکے اور غسل خانے میں جا پہنچے۔ وہاں کوئی نہ تھا، لیکن پانی پوری تیزی سے گر رہا تھا۔ ابا نے اُسے بند کر دیا اور وَاپس آ گئے۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ کسی کے اوپر جانے کی آواز سنائی دی۔ ابا اُس کے تعاقب میں دوڑے۔
سیڑھیوں کے اوپر جا کر آواز کچھ دیر کے لیے بند ہو گئی، پھر آہستہ آہستہ غسل خانے کی طرف بڑھی۔
پھر اُنھیں دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی لیکن دروازے میں قطعاً کوئی جنبش نہ ہوئی تھی۔
سلفچی اور نہانے کے ٹب میں پانی گرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی حالانکہ پانی بالکل بند تھا۔
شام کو جب گھر کے لوگ کھانے کی میز پر جمع ہوئے، تو سیڑھیوں سے کسی کے اترنے کی آواز سنائی دی۔
وہ سامنے ہال کی طرف دوڑے۔ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی باہر نکل گیا، حالانکہ کلاڈ نے اُس دروازے میں تالا لگا رکھا تھا۔
کلاڈ کو شک ہوا کہ کوئی اوپر ہے۔ وہ اِطمینان کرنے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگا کہ اچانک بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی۔ کوئی نیچے آ رہا تھا۔
وہ غیرمحسوس طور پر کلاڈ کے پاس سے گزر گیا اور ٹھنڈے سانس کی ہوا کلاڈ سے ٹکرائی۔
اُس کے بعد ساری سیڑھیوں پر ایسی بدبُو پھیل گئی، جس سے متلی آنے لگتی تھی۔ وہ سرانڈ کئی روز تک پھیلی رہی۔
وہ اِن وَاقعات کے بعد مکان چھوڑ دیتے، لیکن کرایہ بہت کم تھا اور اَب تک اِس خیال سے رکے ہوئے تھے کہ یہ محض واہمہ ہے، لیکن اُس روز اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ اگر دوبارہ کوئی واقعہ رونما ہوا، تو وہ مکان چھوڑ دیں گے۔
ایک رات جب وہ گہری نیند سو رہے تھے، چھکڑے کی کھڑکھڑاہٹ سے جاگ اٹھے۔
گھوڑوں کے دوڑنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی اور چھکڑے کے پہیوں کی کھڑکھڑاہٹ سے مل کر عجیب ارتعاش آمیز شور پیدا ہو رہا تھا۔ یہ شور آہستہ آہستہ مکان کے عقب میں جا کر ختم ہو گیا۔
پھر سرگوشیوں کی آواز آنے لگی جو بتدریج بلند ہوتی گئی، لیکن کوئی لفظ سمجھ میں نہ آیا۔
ایک نیا شور پیدا ہوا اَور بھاری شہتیر چھکڑے سے اتارے جانے لگے۔
جُوں ہی سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی، چھکڑا جیسے چل پڑا اَور پھر رفتہ رفتہ اُس کی کھڑکھڑاہٹ فضا میں تحلیل ہو گئی۔ اِس کے بعد ہفتے میں دو بار اَیسا ہونے لگا اور یہ معمول بن گیا۔
کئی ہفتے بعد اچانک ایک نئی افتاد پیش آئی۔ مکان کے عقب میں ایک پرانی اور زنگ آلود پَون چکّی عرصے سے مقفّل پڑی تھی۔ ایک روز طلوعِ سحر سے پہلے پَون چکّی کی چوٹی پر شور پیدا ہوا۔
پھر کسی چیز کے گرنے کی آواز سنائی دی۔ دیکھنے والوں کو کچھ نظر نہ آیا۔ لیکن کوئی چیز تھی جو اُس کے پتھروں سے رگڑ کھاتی ہوئی غڑاپ کی آواز سے نیچے گری تھی۔
ابا نے جب اِس واقعے کا ذکر شہر میں کیا، تو اُنھیں بتایا گیا کہ کئی سال پہلے ایک مزدور پَون چکّی سے گر کر مر گیا تھا۔ اُس وقت تیز جھکڑ چل رہا تھا۔
وقت گزرتا گیا۔ وہ مکان میں ہونے والے شور و شغب کے عادی ہوتے گئے۔ ایک صبح اُنھیں ایک نئے حادثے سے دوچار ہونا پڑا۔ ڈک، تہہ خانے سے میوے کا مرتبان لینے گیا۔
اُس نے ایک چھوٹے بکس پر کھڑے ہو کر اُونچے طاق سے مرتبان لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک زمین حرکت کرتی محسوس ہوئی۔
اُس نے اِسے معمولی زلزلہ قرار دِیا اور مستعد ہو گیا، مگر زلزلے میں شدت پیدا ہوتی گئی اور وُہ ایک دھچکے سے سَر کے بَل گر پڑا۔ جھٹکا رکا، تو تاریک کمرے کے ایک کونے سے گہری آہ سنائی دی جیسے کوئی دیو سانس لے رہا ہو۔ ڈک مرتبان اٹھا کر واپس ہوا، وہ دَروازے کے قریب پہنچا ہی تھی کہ آہ اَور شور دوبارہ سنائی دیا جو غصّے اور اِضطراب سے بلند ہوتا جا رہا تھا۔
دروازہ بند ہونے کے ساتھ شور بھی رک گیا۔ میرے ابا اور کلاڈ نے اُسے ڈک کے اعصابی تشنج کا کرشمہ قرار دِیا۔ وہ دونوں تہ خانے میں اتر گئے اور شور دوبارہ بلند ہونے لگا۔
اُنھیں ڈک کی زبان پر یقین کرتے ہی بنی۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے شور اُن کا تعاقب کرتا رہا اور اُس وقت تھما جب باورچی خانے کا دروازہ بند ہو گیا۔
امی نے مذاقاً کہا، تہ خانے میں ایک عجیب الخلقت مخلوق ہے جس کا آدھا دھڑ انسان کا اور آدھا بیل کا ہے، مگر اِس پر کوئی نہ ہنسا بلکہ سب سنجیدہ ہو گئے۔
کلاڈ نے بازار سے مضبوط چٹخنی لا کر تہہ خانے کا دروازہ بالکل ہی بند کر دیا۔
ایک دن بعد دوپہر، امی، کیتھرائن اور نُورا تیسری منزل کو جانے والی سیڑھیوں پر چڑھیں۔
اُن کے سامنے کچھ فاصلے پر آگ کا الاؤ روشن تھا۔ تیسری منزل کی برساتی ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی۔
وہ دَروازے کھلے چھوڑ کر اُوپر چھت پر چلی گئیں۔
چند لمحے بعد الاؤ سرد پڑ گیا اور دَروازہ جھٹکے کے ساتھ بند ہو گیا جسے وہ اَپنی کوشش کے باوجود کھول نہ سکیں۔
کئی گھنٹے بعد جب رات کے سائے گہرے ہونے لگے اور اُن کے خاوند گھر لَوٹے، تو اُنھوں نے اپنی بیویوں کو باہر نکالا۔ دیکھ بھال سے معلوم ہوا کہ دروازہ کسی نے بند کیا تھا۔
چٹخنی لگی تھی اور اُسے مزید احتیاط کے لیے دبا دیا گیا تھا۔
کچھ روز بعد امی کے دادا، دادی مسٹر اور بیگم کلوس ملنے آئے۔ دادی امّاں ٹھگنے قد کی خاتون تھیں، لیکن بلا کا مضبوط ارادہ رَکھتی تھیں۔
اُن کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جس کے تمام افراد رُوحانیت کے عامل تھے، مگر دادا اَبّا ایسی چیزوں کو روحانی قرار نہیں دیتے تھے۔ خشک سالی میں لوگ دادی امّاں کی خدمت میں حاضر ہوتے، اُن سے مدد چاہتے۔
وہ کسی تالاب کے کنارے خاموش جا بیٹھتیں اور اَپنی توجہ آسمان پر مرتکز کر دیتیں، تھوڑی ہی دیر میں بارش ہونے لگتی۔
وہ اَپنی قوتِ ارادی سے بےجان چیزوں کو کمرے میں گھومنے، لڑھکنے اور ناچنے پر مجبور کر دیتیں۔
ایک دن دادا عین اُس وقت گھر پہنچے، جب دادی امّاں ایک کرسی کو کمرے میں گھما رہی تھیں اور خود اَپنے ڈھائی سو پونڈ وزن کے ساتھ اطمینان سے اُس پر براجمان تھیں۔
دادا اَبّا نے شور مچانا اور لڑنا شروع کر دیا اور اُس وقت تک خاموش نہ ہوئے، جب تک دادی امّاں نے اِن حرکتوں کو ترک کر دینے کا وعدہ نہ کر لیا، لیکن اُس گھر کے عجیب و غریب ماحول میں اُن کا وعدہ ٹوٹ گیا۔
ایک دن جب سارے لوگ بڑے کمرے کے خوبصورت آتش دان کے گرد جمع تھے، دادی امّاں نے کہا
’’اِس کمرے میں ہمارے علاوہ کچھ اور لوگ بھی موجود ہیں۔‘‘
آتش دان کے اوپر سنہرے بالوں والی ایک خاتون کی تصویر لٹک رہی تھی۔
اُس کے خدوخال دِلکش اور رَنگ حسین تھا، بال خوبصورت انداز میں شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔
’’مَیں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اِس خاتون کی موت طبعی نہیں تھی۔ اِسے آہستہ آہستہ زہر دے کر مارا گیا، مگر لوگوں نے اُسے طبعی موت جانا۔‘‘
’’دادا اَبّا ایک دم چونکے۔ اُن کے چہرے کے تمام تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ دَادی امّاں کو وعدہ یاد دِلا رہے ہیں۔ دادی یہ دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔
دوسری صبح امی نے دادی سے کہا کہ وہ مزید کچھ بتائیں۔ دادا شہر گئے ہوئے تھے، نُورا اَور کیتھرائن بھی گھر پر نہ تھیں۔ دادی نے وعدہ کر لیا اور بتایا کہ اُنھیں کچھ دیر کے لیے اِس کمرے میں تنہا رہنا پڑے گا، تب وہ کچھ بتانے کے قابل ہو سکیں گی۔
وہ اَندر چلی گئیں اور اَمی باہر ہال میں بیٹھ گئیں۔ ابتدا میں کچھ دیر کے لیے مکمل سکوت رہا، پھر ایسی آواز سنائی دینے لگی جیسے گندم کے پتّے ہوا میں اُڑ رہے ہوں۔
یہ شور بتدریج اونچا اور کئی آوازوں میں بدلتا چلا گیا۔ امی نے گھبرا کر ہال کا دروازہ کھول دیا۔ کمرے میں خوفناک شور بدستور جاری تھا۔
ہوا اِتنی سرد اَور تیز تھی کہ رونگٹے کھڑے ہوئے جاتے تھے۔ دادی سکتے کے عالم میں ایک کرسی پر بےحس و حرکت پڑی تھیں۔ امی گھبرا کر آگے بڑھیں اور اُن کی ہتھیلیاں رگڑنے لگیں کہ اچانک ابا اور دَادا کمرے میں داخل ہوئے۔
یہ دیکھ کر وہ بھی گھبرا گئے اور اُنھیں اوپر خواب گاہ میں لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد جب دادی کو ہوش آیا، تو اَمی اُن کے پہلو میں بیٹھی تھیںاور دَادا وَہاں نہ تھے۔
اُنھوں نے امی سے کہا
تمہیں کمرے میں داخل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ بتانے پر رضامند ہو گئے تھے کہ اُنھیں کیا چاہیے؟ اور وُہ کس شرط پر مکان چھوڑیں گے؟ اچانک تم کمرے میں داخل ہو گئیں۔
اِس مکان میں ایک زبردست المیہ وقوع پذیر ہوا ہے۔ سنہری بالوں والی عورت کو مارا گیا ہے۔
اِس مکان میں کوئی غیرانسانی اور بےرحم مخلوق ہے۔
مَیں اِن چیزوں سے نہیں ڈرا کرتی، مگر آج مَیں بھی خوف زدہ ہوں۔
امی نے محسوس کیا کہ دادی امّاں کا چہرہ غیرمعمولی طور پر زرد ہے اور اُن کی زبان بات کرتے ہوئے لڑکھڑاتی ہے۔ دادی اِس سے پہلے کبھی اتنی خوف زدہ نہیں ہوئی تھیں۔
دوسری صبح دادی نے جانے کی تیاری شروع کر دی، کیونکہ رات بھر کوئی اُنھیں تنگ کرتا رہا تھا اور وُہ ایک لمحے کے لیے بھی سو نہ سکی تھیں۔
وہ ہال کمرے کی تصویر کو آخری نظر دیکھ لینے کے لیے اندر دَاخل ہوئیں۔
امی اُس وقت باورچی خانے میں تھیں کہ اچانک دادی امّاں کی چیخ سنائی دی۔ گھر پر صرف امی اور دَادا اَبّا موجود تھے۔
وہ دَوڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ دادی کا چھوٹا سا جسم فرش پر پڑا تھا۔
وہ کسی نادیدہ دُشمن سے لڑ رہی تھیں۔
اُن کے ہاتھوں کی حرکت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اُس کا گلا دبا رَہی ہیں کہ اچانک وہ فرش سے اٹھیں اور لڑکھڑا کر کوچ پر گر گئیں۔
اُن کا چہرہ زرد ہو گیا۔ دم گھٹنے لگا اور یہ اِس بات کی علامت تھی کہ کوئی اُن کا گلا دبا رہا ہے۔
اِس سے پہلے کہ کوئی انجانی انگلیاں اُن کا گلا دبا دیں، دادا چیخے:
’’خدا کے لیے اِسے بخش دو۔‘‘
وہ بار بار یہی دہرا رَہے تھے کہ کسی چیز نے پوری طاقت سے دادی امّاں کو زمین پر دے مارا۔
دادا تیزی سے آگے بڑھے اور بیوی کو بازوؤں پر اُٹھا کر باہر بھاگے۔
’’ہم اب کبھی اِس منحوس مکان میں نہ آئیں گے۔ اِس سے پہلے کہ کوئی خطرناک حادثہ پیش آئے، تم اِس مکان کو چھوڑ دو۔‘‘
امی جب دادی امّاں کو الوداعی بوسہ دینے کے لیے جھکیں، تو اُنھوں نے سرگوشی کی:
’’مَیں اُس سنہری بالوں والی خاتون سے مصروفِ گفتگو تھی کہ مَیں نے اُس کے پیچھے ایک خوف ناک مخلوق کو کھڑے ہوئے دیکھا۔
وہ قامت میں آدمی کے برابر تھی، مگر مَیں نے اِس سے پہلے ایسی مخلوق کبھی نہیں دیکھی۔
اُس کے نارنجی رنگ کے بال سخت کھردرے اور کھڑے تھے اور ہاتھ اندر کی طرف مڑے ہوئے۔
وہ مخلوق خاتون کے گرد چکر کاٹتے ہوئے آئی اور میرے قریب کھڑی ہو گئی۔ پھر کہنے لگی ’مَیں تمہیں ختم کر دوں گی۔‘ میری گردن دیکھو، جہاں اُس نے اپنے ناخن میرے گوشت میں گاڑ دیے۔
یہ زخم بہت گہرا ہے۔ وعدہ کرو کہ تم اِس مکان کو چھوڑ دو گی، کیونکہ یہ مکان بہت جلد نذرِ آتش ہو جائے گا اور بنیادوں کے سوا اَور کوئی چیز نہ بچ سکے گی۔‘‘
دادی امّاں کی گردن کا زخم زندگی بھر باقی رہا اور اُس اَنجانی مخلوق سے مقابلے کے بعد اُن کی آواز اِس قدر بیٹھ گئی تھی کہ وہ سرگوشی میں بات کرتی تھیں۔
اُس پُراسرار مکان کی یہ داستان ایک رات اپنی انتہا تک پہنچ کر ختم ہو گئی۔ کیتھرائن اور کلاڈ اپنے کمرے میں تھے۔ کیتھرائن نے حسبِ معمول اپنے بال صاف کیے اور بستر پر لیٹ گئی۔
چند لمحے بعد ایک چونکا دینے والی چیخ کے ساتھ اُس نے اپنے بستر کو نوچنا شروع کر دیا۔ ڈک اور اَبّا اُن کے کمرے کی طرف دوڑے۔
کلاڈ اپنے جوتوں سے بری طرح بستر پِیٹ رہا تھا۔ ابّا نے کیتھرائن کے پاؤں پر پڑے ہوئے بستر کے کمبل کو پلٹ دیا۔
ایک بہت بڑی چمگادڑ کیتھرائن کے پاؤں سے چمٹی ہوئی تھی۔
ابّا نے اُسے چھڑانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ آخر ڈک کے جوتے کی ایک زبردست ٹھوکر کے ساتھ چمگادڑ فرش پر آ رہی۔
فرش پر گرتے ہوئے وہ اُڑی اور کمرے کے ایک شیشے کو توڑتی ہوئی باہر تاریکی میں گم ہو گئی۔
اگلی صبح اُنہوں نے وہ مکان چھوڑ دیا اور سب الگ الگ ہو گئے۔ مکان اُسی طرح آراستہ تھا۔
ابّا نے صرف گلاب کے چند گملے اور ایک کتاب وہاں سے اٹھائی اور آج یہی دو چیزیں اُس مکان کی یادگار ہیں، کیونکہ اُن کے چھوڑنے کے چند دن بعد مکان کو اچانک آگ لگ گئی اور بنیادوں کے سوا سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔
دادی امّاں کی موت کے بعد کئی سال تک کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔
قریب قریب سب یہ واقعہ بھول گئے اور ہم اُس پُراسرار مکان کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایک دن جم چچا اچانک سیڑھیوں سے لڑھک گئے۔
اُن کا چہرہ سفید ہو گیا تھا اور وُہ کانپ رہے تھے۔
’’اسٹور میں کوئی چیز ہے۔ اُس کے بال نارنجی اور کھڑے ہیں۔ اُس نے مجھے دروازے سے جھانک کر دیکھا،پھر دروازہ بند کر لیا۔ اِس پر یقین کرو، نہ کرو، مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘
وہ بڑبڑا رَہے تھے۔ اُن کے حواس بجا ہوئے، تو ہم اُن کا مذاق اڑانے لگے، مگر وہ نہایت سنجیدہ تھے۔
اُنھوں نے ہمیں اُس مکان کی کہانی سنائی اور دَادی امّاں کی موت کا واقعہ بھی۔ اُس کے بعد وہ اَکثر گھر میں کسی ’’پُراسرار شے‘‘ کی موجودگی کی شکایت کرتے، مگر ہم ہنسی مذاق میں ٹال دیتے۔
آخر ایک دن چچا جم اپنی چارپائی پر مردہ پائے گئے۔
۱۹۴۸ء میں میرے والد سان برنارڈنیو کے اُس مکان میں اُٹھ آئے جہاں چچا جم کی موت واقع ہوئی تھی۔ یہ مکان دادی امّاں نے بنوایا تھا۔ میرا بیٹا مائیک اُن کے ساتھ تھا۔
امی نے اپنے لیے دوسری منزل کے تین کمروں میں سے درمیانہ کمرا منتخب کیا اور اَبّا نے اُس کے ساتھ کا کمرا لے لیا۔ مائیک امی کے ساتھ تھا۔ وہاں اُن کی پہلی رات تھی۔
امی تین بجے تک نہایت پُرسکون نیند سوئی رہیں کہ کسی کے قدموں کی چاپ نے اُنھیں جگا دیا۔
کمرے میں کوئی چل پھر رہا تھا۔ سامنے ایک سایہ دکھائی دیا۔
اُنھوں نے آواز دی، خیال تھا کہ ابّا اپنی کم خوابی کی شکایت کی وجہ سے سو نہیں سکے۔
سایہ تیزی سے بستر کی طرف پلٹا اور قریب پہنچ کر اُنھیں گھورنے لگا۔
ماں کا کہنا ہے کہ چہرہ قطعاً غیرانسانی تھا۔ اُس نے اپنا بدہیئت ہاتھ مائیک کی طرف بڑھایا جو اَبھی تک سو رہا تھا۔
امی نے خوف زدہ ہو کر بستر سے نکلنے کی کوشش کی، مگر اُس نے اُنھیں واپس دھکیل دیا۔ امی نے اُس کے چہرے پر ایک بھرپور نظر دوڑائی۔
گہرے زرد اَور خوف ناک دانت آگے کو نکلے ہوئے تھے اور آنکھیں گومڑوں میں چھپی ہوئی تھیں۔
مائیک کو تاڑتے ہوئے اُس نے دوبارہ بستر تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن امی اُس کے راستے میں حائل ہو گئیں۔ امی کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے وہ مائیک کی طرف لپکا جو اَب جاگ چکا تھا، لیکن اِس سے پہلے کہ وہ مائیک تک پہنچے، امی جھپٹیں اور اُس کے بالوں کو نوچ لیا۔
کھڑکی سے چھن کر آنے والی چاندنی میں اُنھوں نے دیکھا کہ اُس کے ہاتھ اندر کو مڑے ہوئے ہیں۔ وہ مائیک تک پہنچ رہے تھے۔ مائیک اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا اور چیخنے لگا۔
امی نے ایک ہاتھ سے اُس پُراسرار مخلوق کے مکروہ چہرے پر دھڑا دَھڑ مُکّوں کی بارش کر دی اور بالوں سے کھینچتے ہوئے اُسے بستر سے دور لے گئیں۔ وہ اَبا کو آوازیں دے رہی تھیں۔
اچانک امی کے سر پر ایک زبردست چوٹ پڑی۔ وہ لڑکھڑا گئیں اور پُراسرار مخلوق دوبارہ بستر کی طرف پلٹی۔ امی نے چھلانگ لگائی اور اُس کے سامنے آ گئیں۔
مائیک تک پہنچنے کے جنون میں اُس نے بستر کو اَپنی طرف کھینچنا چاہا، لیکن اُس کے بال پھر امی کے ہاتھ آ گئے۔ اُنھوں نے بالوں کو نوچتے ہوئے اُس کے پیٹ پر ایک زبردست ضرب لگائی اور وُہ ڈگمگا گیا۔ مائیک بےتحاشا چلّا رہا تھا:
’’دادا، دادا! جلدی کرو۔‘‘
ابا نے اپنے کمرے کی بتّی جلائی اور تیزی سے دوڑے۔ چند لمحے اُنھیں کچھ سجھائی نہ دیا۔
وہ اُسے بستر سے پرے ہٹتے ہوئے نہ دیکھ سکے اور پُراسرار مخلوق برساتی کے کھلے دروازے کی طرف بڑھی۔ ابّا کی موجوگی سے امی کا حوصلہ بلند ہو گیا تھا۔
وہ اُس کے پیچھے دوڑیں، وہ مخلوق اچانک پلٹی اور اِنتہائی غصّے میں اُس نے مائیک کی طرف اشارہ کیا۔ امی نے گھبرا کر پیچھے دیکھا، مائیک بخیریت تھا۔
جب اُنھوں نے دوبارہ برساتی کی طرف دیکھا، تو وہ دُور نکل گئی تھی۔
چاندنی میں امی نے دیکھا کہ اُس نے ایک عجیب لباس پہنا ہوا تھا جو ہلکے رنگ کے تنگ سے چغے پر مشتمل گھٹنوں اور کہنیوں تک لمبا تھا۔
ننگے بازؤں پر لمبے بال تھے۔ سر کے نارنجی بال سوئیوں کی طرح کھڑے تھے اور ناک کے بال نتھنوں سے باہر نکل آئے تھے۔
ابّا نے امی کے اشارے پر برساتی کی طرف دیکھا۔ صحن سے ۲۰ فٹ کی بلندی پر اِس کمرے میں سوائے سونے کے کمرے کے کوئی دوسرا رَاستہ نہ تھا۔ لیکن اُنھیں کوئی چیز دکھائی نہ دی، تاہم ایک متعفّن گوشت کی بُو سارے کمرے میں پھیل چکی تھی۔
اُس حادثے کے بعد ابّا کے سوا کسی کو بھی اُس کمرے میں سونے کی جرأت نہ ہوئی۔
وہ اُس پُراسرار مخلوق کی واپسی کے منتظر تھے، لیکن وہ کبھی نہ آئی۔
۱۹۵۲ء میں ہم نے وہ مکان بیچ دیا، لیکن آج تک مَیں اُس واقعے پر حیران ہوں اور سوچتا ہوں کہ کیا اَن جانی قوتیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہیں؟
کیا اُن کی دشمنی نسل در نسل چلتی ہے؟
یہ بھی پڑھیں