24 C
Lahore
Monday, April 29, 2024

Book Store

khopdiyan| کھوپڑیاں|Maqbool Jahangir| taboo tribes

کھوپڑیاں

#tabootribes
مقبول جہانگیر

دو گھنٹے بعد ہمیں جنگی نقارے کی آواز سنائی دی۔ جوآنگا رُک گیا اور اَپنے ساتھیوں سے تیز تیز باتیں کرنے لگا۔
اُس کی آنکھوں میں چمک آ گئی جیسے نقارے نے اُس کے جذبات پر تھاپ دے دی ہو۔
مَیں بھی پیٹ پر ہاتھ دھرے کوٹھڑی سے باہر نکلا۔
اِدھر اُدھر پوچھ گچھ کی، تو معلوم ہوا کہ جنگ کا اعلان ہو گیا ہے۔
اِس بار جیواریو کے باسیوں سے زورآزمائی کا ارادہ تھا۔
میرے جی میں آئی کہ کہیں سے سلیمانی ٹوپی ہاتھ آ جائے اور مَیں لہو کے پیاسے اِن وحشیوں سے پلک جھپکتے میں دور نکل جاؤں۔

قدرت کی ستم ظریفی سمجھیے یا میرے مقدّر کا کرشمہ، مَیں ہزاروں صعوبتیں برداشت کر کے پیرو کے اِس علاقے میں محض اِس لیے آیا تھا کہ اِن قبیلوں کو اَپنی آنکھوں سے دیکھوں اور معلوم کروں کہ کسی طرح یہ لوگ انسانی کھوپڑی کو سُکیڑ کر ننھی سی بنا لیتے ہیں؟
تعجب کی بات یہ ہے کہ متوفی کا چہرہ مسخ ہوتا ہے، نہ بال جھڑتے ہیں اور نہ وقت گزرنے کے ساتھ کھوپڑی خراب ہوتی ہے۔
مجھے اِس فن کی جستجو اتنی دور کھینچ لائی تھی، مگر اب جب کہ جنگ کا نقّارہ بج رہا تھا، تو میرا جی چاہنے لگا، کہیں سے راہ پا کر بھاگ نکلوں۔

جوآنگا نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا
’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پیروچی اور ہمارے قبیلے میں ہمیشہ صلح رہی ہے۔ پُورب کی طرف ہمارے سردار آساپی کا دشمن رہتا ہے۔
مورو ناندی کے کنارے اُن کی بستی آباد ہے۔ بڑا کمینہ دشمن ہے۔
ہم نے کئی دفعہ اپنے بھالے زمین میں دبا کر عہد کیا کہ مورو ناندو کی طرف کبھی نہیں جائیں گے، لیکن کیا کیا جائے، کمینے اور رَذیل لوگوں سے لڑنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

جوآنگا نے مجھے دلاسا دینے کی بڑی کوشش کی، لیکن جنگ کا اعلان ہو چکا تھا۔
ہر گھر سے جنگجو بہادر نکل نکل کر آ رہے تھے۔
جب وہ بھالے، رسّے اور چاقو لے کر بستی کے چوک میں جمع ہو گئے، تو مَیں بھی دبکتا ہوا اَپنی جھونپڑی سے باہر آ گیا۔
قبیلے کی عورتیں اور مرد میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
مَیں جوآنگا کے قریب کھڑا ہو گیا۔ موت کو اِتنا قریب منڈلاتے دیکھ کر مجھ میں دلیری پیدا ہو گئی۔
جوآنگا نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قبیلے کے لوگوں سے کہا:

’’بھائیو! تمہیں مجھ پر اعتماد ہے، تو اِس پر بھی اعتماد کرو اَور جو اِس پر وار کرنا چاہے، اُسے پہلے بھالا میرے سینے کے پار کرنا ہو گا تاکہ مَیں محسن کش نہ کہلاؤں۔‘‘

جیواریو کی بستی میں پچیس جوان مشتعل، ہراساں اور جنگ کے نشے میں بدمست دوڑے پھر رہے تھے۔
مَیں نے اندازہ لگایا کہ وہ سب نشے میں دُھت تھے۔
جنگ سے پہلے یہاں کا دستور ہے کہ بہادر جنگجو گھڑوں شراب پیتے ہیں اور سپہ سالار کا طریقہ ہے کہ وہ اِتنی مقدار میں شراب ڈکار جاتا ہے کہ اُسے دنیا و مافیہا کی خبر تک نہیں رہتی۔
پھر اُس پر رُوحوں کا نزول ہوتا ہے جن کی وجہ سے اُسے علم ہو جاتا ہے کہ جیت کس کی ہو گی۔

نشے میں دھت مختلف رنگوں سے لتھڑے ہوئے جسموں پر طرح طرح کے نقش و نگار بنائے جنگجو بہادر اِس بات کا چرچا کر رہے تھے کہ جیت اُن کی ہو گی۔
فتح مندی کے نعرے ابھی سے گونجنے لگے تھے۔ مَیں اُن دنوں پیٹ کی خرابی کے باعث بڑا کمزور ہو گیا تھا۔
جنگ کا اعلان ہوا، تو جوآنگا میرے پاس ایک کٹورا لے کر آیا۔ اُس میں سے نہایت خوشبودار بھاپ نکل رہی تھی۔

مَیں نے جی میں سوچا کہ موت سے بچنا، تو ناممکن ہے۔ کیوں نہ یہ کٹورہ حلق میں انڈیل کر ایک دوست کو خوش کرتا جاؤں، چنانچہ مَیں نے جوآنگا کے ہاتھ سے کٹورا لیا اور ایک ایک گھونٹ پینے لگا۔
اُسے پیتے ہوئے مجھے نفیس ترین چینی چائے کا سا مزہ آیا۔
مَیں حیران تھا کہ اُس دوا کو پیتے ہی پیٹ کی تکلیف فوراً رفع ہو گئی اور پھر کبھی مجھے اِس بیماری سے سابقہ نہ پڑا۔

وہ رَات عجیب مصیبت میں گزری۔ جھونپڑی کے قریب عورتیں اور بچے شور مچاتے، رزمیہ گیت گاتے اور چیختے چلّاتے گزر رَہے تھے۔
آدھی رات کو جب شور ناقابلِ برداشت ہو گیا اور طبل کی آواز بہت بلند ہو گئی، تو مَیں جھونپڑی سے نکلا۔ باہر کھلے میدان میں دو رَویہ جنگ پر جانے والے جمع ہو رَہے تھے۔
اُن کے رزمیہ گیتوں میں تیکھا پن اور خون کی پیاس جھلک رہی تھی۔ میرا خون رگوں میں جمنے لگا۔ مَیں نے جوآنگا سے اُن گیتوں کا مطلب پوچھا۔
اُسے بہت جلدی تھی، مگر پھر بھی اُس نے تھوڑی سی سُوجھ بُوجھ پیدا کر ہی دی۔ اُس نے بتایا
’’یہ لوگ ایک دوسرے کی تعریف کر رہے ہیں۔
ایک کہتا ہے، مَیں اِس طرح وار کروں گا۔
دوسرا بتا رہا ہے کہ مَیں یوں دشمن کو قتل کروں گا ….. کس طرح اُس کی کھوپڑی کو سکیڑ کر اپنے آنگن کی زینت بناؤں گا۔‘‘

یہ قبائلی لوگ ’’نجی مانچی‘‘ نامی شراب پیتے ہیں جسے یہ خود ہی بناتے، مقطّر کرتے اور گھڑوں میں ڈال کر رکھ لیتے ہیں۔
کچھ تو ’’نجی مانچی‘‘ کا اثر تھا اور کچھ رزمیہ گیتوں نے اُن کے خون میں آگ لگا رکھی تھی۔
اِس کے علاوہ اَپنے پڑوسی سے سبقت لے جانے کی تمنا بھی اُن کے دلوں میں چھپی ہوئی تھی۔
ہر شخص سوچ رہا تھا کہ پڑوسی دشمن کا ایک سَر لائے، تو دیوتاؤں کی مہربانی سے وہ تین کھوپڑیاں حاصل کرے، چنانچہ ہر سُو ہیجان برپا تھا اور جیواریو کے در و دِیوار تک خون کے پیاسے نظر آ رہے تھے۔

مَیں جھونپڑی کے سامنے ہی ایک چبوترے پر بیٹھ گیا۔
اُن گیتوں سے ہمت اور دِلیری مستعار لینا چاہتا تھا، لیکن اُن کے نعرے اِس قدر تند، تیز اور جوشیلے تھے کہ بار بار مجھے جھرجھری سی آ جاتی۔
خدا سے دعا مانگنے لگتا کہ مجھے اِن وحشیوں کی نگاہوں میں سبکسار ہونے سے بچا لے۔

میری نظریں آساپی پر جم گئیں۔ وہ اِس قبیلے کا سردار تھا اور اُس کی آنکھیں ’’نجی مانچی‘‘ کے باعث آگ کی مانند دہک رہی تھیں۔
مَیں کتنی دیر سوچتا رہا کہ نشے کی اِس حالت میں بھلا یہ آدمی کیوں کر بہادروں کو لے کر دشمن کا مقابلہ کر سکے گا؟
تاہم مجھے جلد ہی جوآنگا کی زبانی پتا چل گیا کہ ابھی دشمن اور اُن کے درمیان پورے تین دن کا سفر حائل ہے۔ جب اتنی مسافت طے کر کے وہ دُشمن کے علاقے میں پہنچیں گے، تو شراب کا سارا نشہ ہرن ہو چکا ہو گا۔

مَیں نے اِس جنگ کی وجہ پوچھی، لیکن وہ کوئی خاص وجہ نہ بتا سکا۔ وجہ ہوتی، تو بتاتا۔
بہت دیر کے بعد مجھے پتا چلا کہ اِن قبائلی جنگوں کا کبھی کوئی دیرپا نتیجہ نہیں نکلتا۔
سوائے اِس کے کہ دشمن کی کتنی کھوپڑیاں ہاتھ آتی ہیں اور مالِ غنیمت کے طور پر غنیم کی کتنی جوان عورتیں ہنکا کر لائی جاتی ہیں۔

گجر دم کوچ کا نقّارہ بجا اور بہادر جنگجو دھارے پر روانہ ہونے کےلیے تیار ہوئے۔
اُس وقت مَیں نے دیکھا کہ بارہ عورتیں بھی ساتھ چلنے کے لیے تیار تھیں۔
اُنھوں نے کمر سے کھجور کی ٹوکریاں باندھ رکھی تھیں جن میں ’’نجی مانچی‘‘ اور خور و نوش کا دوسرا سامان بھرا ہوا تھا۔ چار نوعمر لڑکے بھی اپنی رضا سے جنگ میں شریک ہونے کے لیے جا رہے تھے۔

طبل کی آواز جُوں جوں بلند ہوتی گئی، مرد، عورتیں اور بچے گھروں سے نکلنے لگے۔
سب سے آخر میں آساپی نکلا۔ اُس کے آتے ہی بستی پر ہر سُو موت کا سا سنّاٹا چھا گیا۔
آخری جھونپڑی کے باہر چارپائی پر ایک نہایت ضعیف العمر آدمی بیٹھا سر ہلا رہا تھا۔
اُس کا چہرہ دَیکھ کر محسوس ہوتا تھا، جیسے وہ اُن دنوں کو یاد کر رہا ہے جب وہ بھی ایسی جنگوں میں پورے جوش و خروش سے حصّہ لیا کرتا تھا۔

پورے تین دن سفر میں کٹے۔ گھاٹیاں، ندیاں، پہاڑ اور وَادیاں میلوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اُس علاقے میں جنگل کی کیفیت یہ تھی کہ دن کو بھی شب کا سماں رہتا تھا۔
تیسری رات خدا خدا کر کے ہم دشمن کی بستی کے قریب جا پہنچے۔
اُس علاقے میں غنیم نے جا بجا خفیہ پھندے گاڑ رکھے تھے۔ ہم اُن پھندوں سے بچتے بچاتے، پھونک پھونک کر قدم رکھتے آگے بڑھتے چلے گئے۔
پھر یک دم ایک طرف سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ جوآنگا نے میرے کان میں کہا
’’دیکھو دشمن جان گیا ہے کہ ہم گھات میں ہیں۔ اب حواس قائم رکھنا۔‘‘

دشمن کی بستی میں بھی اب رزمیہ گیت گونج رہے تھے۔ اُن کے لڑاکا جوان ناچنے، گانے اور طبل بجانے لگے۔
اُن کے لبوں پر آساپی اور اُس کے ساتھیوں کے لیے بددعائیں تھیں اور اِدھر سے بھی بددعاؤں کا جواب جوشیلے نعروں میں دیا جا رہا تھا۔
بستی کے قریب پہنچ کر تمام بہادر آساپی کے اشارے پر کمین گاہوں میں جا چھپے۔
اُن کے پاس جو دو چار بندوقیں تھیں، اُنھیں بےتحاشا داغا جا رہا تھا۔
دشمن نے بھی جواب میں گولیاں برسائیں، مگر جنگل نے کسی کا بس نہ چلنے دیا اور فریقین میں سے کسی کا نقصان نہ ہوا۔

اگر آساپی چاہتا، تو اُس بستی کا محاصرہ کیے رہتا۔ رفتہ رفتہ اُن کے کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو جاتیں اور دُشمن بھوک پیاس کے ہاتھوں لاچار ہو کر خود بخود ہتھیار ڈال دیتا۔
لیکن آتش کے پرکالے جذباتی لوگوں میں جب ایک بار جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، تو پھر صبر کی حد سے نکل کر ہر چیز کو بھسم کرنے پر تُل جاتی ہے۔
چنانچہ آساپی اپنی فطرت سے مجبور تھا اور اُسے اِسی وقت حملہ کرنا تھا جب اُس کے بہادروں کی زبان پر فتح مندی کے گیت تھے اور اُن کے دماغ میں دشمن کی کھوپڑیاں سکیڑنے کا سودا سمایا ہوا تھا۔

صبح کاذب کے وقت دشمن کے اکھاڑے سے فلک بوس نعرے بلند ہوئے۔ شور کا یہ عالم تھا کہ سارا جنگل گونج رہا تھا۔ گولیاں بھی ہماری جانب برسنے لگیں۔
آساپی نے حکم دیا کہ سپاہی پیچھے کی طرف ہٹ جائیں تاکہ دشمن اُنھیں کسی طرح گزند نہ پہنچا سکے۔ پیچھے ہٹتے وقت بہادروں کے پیر چیتے کی سی سُبک رفتاری اور گولی کی سی تیزی لیے ہوئے تھے۔
پیچھے ہٹتے ہٹتے ہم وہاں پہنچ گئے جہاں عورتیں جمع تھیں۔
یہ مکان جو جلدی سے کھپچیوں، بانس کے ڈنڈوں اور لکڑی کے تختوں سے بنایا گیا تھا، جنگل میں ایسی جگہ چھپا ہوا تھا جسے ڈھونڈے کے لیے روشنی کرنی پڑی۔

یہاں سے مخبر نکلے اور دُشمن کی بستی کی طرف چلے۔ جب وہ چھپتے چھپاتے بستی کے ایک مکان کے قریب پہنچے، تو صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اوٹ میں کھڑے ہو گئے۔
مکان کے اندر سے رَہ رَہ کر آتی ہوئی آوازوں سے اُنھیں اندازہ لگانے میں کوئی دِقت نہ ہوئی کہ دراصل اِس مکان کی حیثیت اِس بستی کے ہیڈکوارٹر کی تھی۔
اُس وقت بستی کے بیشتر لوگ اُس مکان میں جمع ہو کر صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ مخبروں نے یہ دیکھ کہ اِس وقت دشمن کے مرکز پر حملہ کرنا سُودمند ثابت ہو سکتا ہے، اپنے سردار کو اطلاع دی۔
آساپی نے بہادروں کو صورتِ حال سمجھائی اور اُنھوں نے پوری شدت سے اُس مکان پر حملہ کر دیا ۔
اِس سے پیشتر کہ دشمن سنبھل سکے، ہمارے جنگجو مکان کا دروازہ توڑ کر اندر دَاخل ہو چکے تھے۔

دُو بہ دُو قسم کی جنگ میں بندوقیں کام نہیں دیتیں، چنانچہ دونوں طرف کے بہادر نوکیلے بھالوں اور تیز پھل والے چاقوؤں سے کام لیتے، نعرے لگاتے، چیختے، چلّاتے، ایک دوسرے پر جھپٹ رہے تھے۔
جوآنگا کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مَیں ایک درخت پر بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور دِل ہی دل میں ڈر رَہا تھا کہ اگر دشمن کے کسی بہادر نے مجھے دیکھ لیا، تو میری خیر نہیں۔
آساپی کے نعروں میں خوشی اور کامرانی کی گرج تھی۔ دشمن کی بستی میں کُل گیارہ جوان تھے جو سر دھڑ کی بازی لگائے لڑ رہے تھے۔
جنگ کا ایسا ہولناک اور عُریاں منظر مَیں نے آج تک نہیں دیکھا۔
انسان انسان کا اِس قدر دُشمن ہے اور اِنسان میں خون کی پیاس اِس حد تک بھی ہو سکتی ہے، اِس کا احساس اور اَندازہ مجھے یہیں ہوا۔

ایک گھنٹے کے اندر اَندر سارا قصّہ ختم ہو گیا اور آساپی کے اُنیس بہادر فتح مندی کے نشے میں سرشار اِدھر اُدھر پھر رہے تھے۔
اُس کے بعد لاشوں کی جانچ پڑتال شروع ہوئی۔ دشمن کے تین آدمی راہِ فرار اِختیار کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اپنے آدمیوں میں سے پانچ کی لاشیں شناخت ہوئیں۔
اُن کے سر نہ اتارے گئے جبکہ دشمن کے تمام جوانوں کے سَر دھڑ سے الگ کر لیے گئے …..
یہ اِس جنگ کا سب سے مہنگا معاوضہ تھا۔

اِس کام سے فارغ ہو کر قیدی عورتوں کا جائزہ لیا گیا۔ جواں سال عورتیں مالِ غنیمت تھیں،
لہٰذا اُنھیں ہنکا کر مویشیوں کی طرح آگے دھکیل دیا گیا۔
کٹے ہوئے سَر فاتح بہادروں کے لیے قابلِ فخر تمغوں سے کم نہ تھے۔
اب کھجور کی ڈالیاں لے کر پتّے اتار دِیے گئے۔ یہ باریک شاخیں کٹے ہوئے سروں کے منہ سے نکال کر گردن کے چھید میں پرو دِی گئیں۔

اب خاموشی سے اِدھر اُدھر دیکھ کر ہم نے واپسی کا قصد کیا۔
ہمیں ہر لمحہ اِس بات کا خدشہ تھا کہ کہیں دشمن نئی کمک لے کر گھات میں نہ بیٹھا ہو۔
پھونک پھونک کر قدم دھرتے ہم اُس جگہ پہنچے، جہاں ہماری عورتیں دبکی بیٹھی تھیں۔
پورا ایک دن ہم کہیں رکے بغیر اپنی بستی کی طرف چلتے رہے۔
ہر لمحے غنیم کے حملے کا خدشہ تھا۔
اِس کے علاوہ دُوسری مصیبت یہ تھی کہ جنگل اتنا گھنا تھا کہ سوائے آساپی اور جوآنگا کے کوئی شخص راہ سے واقف نہ تھا۔
اِس لیے عافیت اِسی میں سمجھی گئی کہ جتنی جلدی ہو سکے، دشمن کے علاقے سے دور نکل چلیں۔

دوسرے دن ایک ندی کے کنارے جہاں دور دُور تک ریت پر چھوٹے چھوٹے گول پتھر بکھرے ہوئے تھے،
ہم نے کیمپ لگایا۔ عورتیں فوراً ہی کھانے پینے کی چیزیں تیار کرنے میں جُت گئیں۔
مرد ’’تسانتاس‘‘ (کھوپڑیاں سکھانے اور سکیڑنے) کے کام میں مشغول ہو گئے۔
مَیں آساپی کے پاس ریت پر بیٹھ گیا، کیونکہ مجھے پتا چلا تھا کہ وہ اِس فن کا سب سے بڑا ماہر ہے۔

آساپی نے بندر کی کھال کے بٹوے میں سے بانس کی ایک چھری نکالی اور دُشمن کی کھوپڑی کو اَپنے زانو پر ٹکا لیا۔ یہ دشمن کے جادو ٹونے کے ماہر عامل کا سَر تھا۔
یہ عامل زندگی میں قبیلے کے بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی روحوں کو بلا کر اَپنی برادری کے تمام دکھوں کا علاج کیا کرتا تھا۔
آساپی نے بانس کی چھری سے بڑی احتیاط کے ساتھ سَر کی جلد کو گُدّی کی جانب سے کاٹ کر عین درمیان تک پہنچانے کے بعد، اِسی عمل سے چہرے کی جلد پلٹ دی۔
بالکل اُسی طرح جیسے تکیے کا غلاف پلٹا جاتا ہے۔

جب چہرے کی جلد اُلٹ چکی، تو اُس نے اندر کی طرف سے پلکیں دھاگے سے سی کر دوبارہ منہ پر کھال چڑھا دی۔ اب منہ کو بند کرنے کے لیے اُس نے اپنا بٹوہ نکالا۔
اُس میں سے مضبوط لکڑی کی بنی ہوئی تین چھوٹی چھوٹی کھپچیاں نکالیں۔
اُن پر اُس نے کسی درخت کی چھال سے حاصل کیا ہوا سَن کے ریشے سے مشابہ دھاگا سا چڑھانے کے بعد کھپچیوں سے منہ بند کر دیا ۔
اُوپر سے وہ ریشہ لپیٹ دیا تاکہ پھر نہ کھل سکے۔
پھر اُس نے برتن میں ندی سے پانی لیا اور برتن کو پانی سمیت آگ پر چڑھا دیا۔
جب پانی کھولنے لگا، تو اُس نے کھوکھلی ہڈی سے بنائی ہوئی ایک چھوٹی سی بوتل میں سے عرق کے چند قطرے پانی میں ٹپکا دیے۔
میرے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ یہ کسی جنگلی بیل کا پانی تھا۔
اِس کے چند قطرے پانی میں ملانے سے کچھ ایسی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے کہ
اگر بالوں والی کھوپڑی اُس پانی میں ڈال دی جائے، تو اُس کے بال کبھی نہیں جھڑتے۔

پانی میں چند قطرے ڈالنے کے فوراً بعد آساپی نے کھوپڑی کو بالوں سے پکڑ کر برتن میں ڈال دیا۔
کھوپڑی کو تو اُس نے پانی میں پکنے کے لیے چھوڑا ۔
خود مجھے ساتھ لے کر پتھروں کی تلاش میں چل پڑا۔
کام کے پتھر تلاش کرنا کچھ آسان نہ تھا،
کیونکہ قبیلے کے باقی جوان بھی اِس قسم کے پتھروں کی تلاش میں تھے۔
اِس کام کے لیے ساتھ آئے ہوئے نوعمر لڑکے بہت کارآمد ثابت ہوئے۔
چونکہ وہ اَپنے سردار کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے،
اِس لیے اُنھوں نے بہت جلد ہمیں ایسے گول اور شفاف پتھر جمع کر دیے جن کی آساپی کو ضرورت تھی۔

اُن پتھروں کو آساپی نے آگ میں دبا دیا تاکہ وہ خوب تپ جائیں۔
پھر اُس نے بالوں سے پکڑ کر کھوپڑی باہر نکالی جسے دیکھ کر مارے تعجب کے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
کھوپڑی پہلے سے بہت چھوٹی ہو گئی تھی،
لیکن اُس پر اگے ہوئے بال جُوں کے تُوں اپنی جگہ پر موجود تھے۔
قریباً دو گھنٹے تک کھولتے ہوئے پانی میں پک پک کر کھوپڑی پہلے سے ایک تہائی رہ گئی۔
آساپی اُسے پکڑ کر ہوا میں اِدھر اُدھر جھٹکنے لگا تاکہ خشک ہو جائے ۔
اُس کے اندر جو پانی چلا گیا ہے،
وہ بھی خارج ہو جائے۔

اُس وقت کھوپڑی کے نقوش بڑی حد تک مسخ ہو چکے تھے اور جلد کی رنگت گہری زرد پڑ چکی تھی۔
جب مَیں نے یہ بات آساپی کو بتائی، تو اُس نے ہنس کر جواب دیا
’’تم دیکھتے جاؤ، ابھی صورت بھی اصلی ہو جائے گی اور رَنگت بھی لَوٹ آئے گی۔‘‘

https://shanurdu.com/muaawza/
کھوپڑی کو بائیں ہاتھ میں پکڑ کر اُس نے اُس جگہ کئی چھید کر دیے، جہاں سے پہلے اُس نے چیرا تھا۔

اب اُس نے آگ میں سے ایک ایسا گول پتھر ڈھونڈ کر باہر نکالا جو تپ کر سرخ ہو گیا تھا۔
اُسے ایک چمٹے سے اٹھا کر کھوپڑی کے گلے میں پھنسایا اور آہستہ آہستہ اُسے آگے دھکیلنے لگا۔
جیسے ہی پتھر سر کی جانب گیا، کھوپڑی میں سے سُوں سُوں کی آواز اور گوشت جلنے کی بُو آنے لگی۔
اَندر سے بھاپ نکلی۔
آساپی نے کھوپڑی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر زور زور سے ہلایا، تو پتھر کھوپڑی میں بجنے لگا۔
مَیں نے پوچھا ’’اِس کا فائدہ؟‘‘

’’اگر اِس کے اندر گوشت باقی ہوا، تو جل جائے گا اور کھوپڑی کبھی خراب نہیں ہو گی۔‘‘
آساپی نے جواب دیا۔

جب سڑنے کی بُو کچھ کم ہوئی، تو اُس نے پتھر کو ہولے ہولے باہر نکالا ۔
اِس مرتبہ پہلے سے بھی چھوٹا پتھر اندر دَاخل کر دیا،
کیونکہ اب سر کا حجم پہلے سے بھی بہت کم رہ گیا تھا۔
خوب اچھی طرح تسلی کرنے پر کہ کھوپڑی کے اندر گوشت کی آلائش ختم ہو گئی ہو گی،
آساپی نے ایک ٹھنڈا گول پتھر لیا ،
چہرے کے تمام نقوش جو اُبلنے کی وجہ سے بری طرح مسخ ہو چکے تھے،
اُسی پتھر کی مدد سے ایک چابک دست مجسمہ ساز کی مانند درست کرنا شروع کیے۔
تھوڑی دیر بعد یہ دیکھ کر مَیں حیران رہ گیا کہ
وہی ناک جو لمحہ بھر پہلے چہرے کے ساتھ مل چکی تھی،
اب اپنے صحیح مقام پر اُبھری ہوئی نظر آ رہی تھی۔

اِس کے بعد آساپی نے گرم گرم ریت لے کر کھوپڑی کے اندر ڈالی۔
اِس عمل سے کھوپڑی اور بھی سکڑ گئی۔
گوشت کا شائبہ بھی نہ رہا۔
اب سردار نے اپنا بھالا زمین میں گاڑا، آگ بجھائی اور دُھوئیں کے اوپر اُس سر کو بھالے سے لٹکا دیا۔
عین کھوپڑی کے اوپر ایک چھید کیا۔
اُس میں سے درخت کی چھال پرو کر اُس کا سرا گلے کے سوراخ میں سے نکالا ۔
اُسے بھالے سے باندھ دیا۔
اب وہ کھوپڑی بھالے سے بندھی ڈھال کی مانند لٹکتی نظر آ رہی تھی
اُس شیلڈ کی طرح جسے کھلاڑی جیت کر لائے ہوں اور اُسے نمائش کے لیے ایک لکڑی سے لٹکا دیا ہو۔

اِس کام سے فارغ ہو کر آساپی نہایت خاموشی سے زمین پر لیٹ گیا جیسے لہو کی پیاس بجھ گئی ہو ۔
اَب وُہ آنکھیں بند کیے سوچ رہا ہو کہ:
آخر اِس سارے ہنگامے، قتل و غارت اور تباہی و بربادی کا فائدہ …..؟
اِس ساری محنت کا حاصل؟

مَیں نے سنا ہے کہ اِس قسم کی جنگوں سے زندہ وَاپس آنے پر جنگجو سورما کئی مہینے برت رکھتے ہیں۔
پھر مسلسل تین چار روز تک سارا قبیلہ جشن مناتا ہے اور پھر …..
پھر کسی دوسرے قبیلے سے جنگ کی تیاری ہونے لگتی ہے،
لیکن میرے لیے یہی ایک جنگ کافی تھی۔
اِس لیے مَیں نے کسی سے اجازت لینی بھی ضروری نہ سمجھی۔
مَیں اُسی رات کو وَہاں سے بھاگ نکلا، کیونکہ مجھے اپنی کھوپڑی بہت عزیز تھی۔

https://www.urdupoint.com/dictionary/english-to-urdu/taboo-meaning-in-urdu/87219.html

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles