22 C
Lahore
Sunday, April 28, 2024

Book Store

ہاتھیوں کے بھوت|hathiyon ke bhoot

ہاتھیوں کے بھوت

مقبول جہانگیر

آپ شاید یقین نہ کریں ….. لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بچپن سے لے کر میرے بال سفید ہونے تک مجھے روحوں کو دیکھنے کے متعدد مواقع ملے ہیں۔ زندگی کے اِس طویل سفر میں جہاں بھی گیا، اُن سے سابقہ پڑتا رہا۔ اُنھوں نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
تاہم اُن سے ملاقات کے واقعات اتنے دلچسپ اور عجیب و غریب ہیں کہ مَیں اُنھیں قلم بند کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

میری پیدائش کلکتہ میں ہوئی….. ہمارا گھر شہر سے باہر جنگل کے سرے پر واقع تھا، جہاں رات کو بےشمار گیدڑوں کے چیخے چلّانے کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ اُن آوازوں کو سُن کر ہم دونوں بھائی اکثر ڈر جایا کرتے تھے۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گیدڑ کسی کی موت پر بَین کر رہے ہیں۔ گاؤں کے توہم پرست دیہاتی کہا کرتے تھے، گیدڑوں کی اِن ماتمی آوازوں کا مطلب یہ ہے کہ وہ مرنے والوں کی روحوں کو بلا رہے ہیں۔
ہمارے مکان سے کچھ فاصلے پر کھلے میدان میں چند بوسیدہ اَور پرانے مکانات تھے جن میں دیہاتی لوگ رہا کرتے تھے۔ گرمیوں کے دنوں میں مَیں اور میرا بھائی باہر برآمدے میں سویا کرتے۔ وَہاں سے ہم اُن دیہاتیوں کو اَپنے کاموں میں مصروف دیکھتے رہتے۔

ایک دن دفعتاً میری آنکھ کھلی۔ مَیں نے قریب ہی جنگل کی طرف سے فائروں کی آوازیں سنیں۔ پھر گھوڑا گاڑی کے پہیّوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی۔ چند آدمیوں کا شور….. اور پھر چیخنے چلّانے کی آوازیں…..
مَیں نے فوراً اپنے بھائی کو جگایا۔ اُس نے قطعاً کوئی آواز نہیں سنی تھی۔
وہ کہنے لگا کہ ضرور مَیں نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے….. تھوڑی دیر بعد مطمئن ہو کر ہم دونوں سو گئے۔

دوسرے روز صبح مَیں نے والد صاحب سے رات کے وقت بلند ہونے والے شور و غُل کا ذکر کیا اور پوچھا کہ اُنھوں نے تو کوئی آواز نہیں سنی؟
وہ خاموشی سے میری بات سنتے رہے۔ مَیں نے دیکھا کہ کئی بار وَالد اور وَالدہ صاحبہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہا۔
جب مَیں بات ختم کر چکا، تو والدہ نے کہا:

کل تو وہی تاریخ تھی “

’’وہی تاریخ؟‘‘ مَیں نے حیرت سے پوچھا۔
تب والد صاحب نے مجھے سارا قصّہ سنایا کہ گزشتہ سال اِسی تاریخ کو عین آدھی رات کے وقت اُنھوں نے جنگل میں بالکل ایسا ہی شور و غل سنا تھا۔
بڑی ہی عجیب بات تھی۔
والد صاحب نے اپنے بعض دوستوں سے اِس پُراسرار وَاقعے کا تذکرہ کیا اور سب نے مل کر چھان بین کی، تو ایک انتہائی حیران کن انکشاف ہوا جس پر یقین کرنے کو آج بھی دل نہیں چاہتا، لیکن مشاہدات کی موجودگی میں انکار کرنے کی جرأت بھی نہیں ہوتی۔

بتایا گیا کہ تیس برس پہلے عین اِس مقام پر جہاں اب کھلے میدان میں پرانے مکانات بنے ہوئے ہیں۔ ایک خوبصورت لڑکی رہا کرتی تھی جس سے دو نوجوان محبت کرتے تھے۔
لڑکی نے اُن میں سے ایک کو پسند کر لیا اور شادی پر رضامند ہو گئی۔ اُن کی شادی ہو گئی۔
رات کے وقت لڑکی کا شوہر اُسے اپنی گھوڑاگاڑی میں بٹھا کر اَپنے گاؤں لے جا رہا تھا، جب وہ جنگل میں داخل ہوا، تو وہیں اُس کا رقیب پہلے سے اُس کے انتظار میں تھا۔
اُس نے گھوڑاگاڑی پر بندوق سے فائر کیے۔ ایک گولی لڑکی کو لگی اور وُہ ہلاک ہو گئی۔

اِس حادثے کے دو تین سال بعد لوگوں نے ایک رات جنگل میں پھر ویسا ہی شور و غُل اور فائر کی آوازیں سنیں۔
سب لوگ وہاں گئے، لیکن جنگل خالی تھا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک مختلف وقفوں کے بعد ویسی ہی آوازیں جنگل سے سنائی دیتی ہیں جو حادثے کی رات لوگوں کو سنائی دی تھیں…..
اور کوئی نہیں جانتا کہ اِس میں کیا راز ہے؟

روحوں سے یہ میرا پہلا سابقہ تھا۔

۱۹۲۱ء میں ہم ہندوستان سے رخصت ہو کر انگلستان آ گئے۔ یہاں کئی سال ہمارا قیام ورتھنگ میں رہا۔
ہمارا مکان گنجان آبادی سے ذرا اَلگ تھلگ ایک پُرسکون ماحول میں واقع تھا۔ ابتدا میں ایک سال تک کوئی غیرمعمولی ’’روحانی‘‘ واقعہ پیش نہ آیا لیکن دوسرے سال کے وسط میں ایک روز دوپہر کے وقت ہماری باورچن چلّاتی ہوئی باورچی خانے سے نکلی۔
دہشت سے اُس کا سارا بدن کانپ رہا تھا اور چہرہ سفید پڑ گیا تھا۔ بڑی مشکل سے ہم سب نے مل کر اُسے دلاسا دیا، تو پھر اُس نے بتایا:

’’مَیں باورچی خانے میں بیٹھی تھی۔ دفعتاً مَیں نے ایک آدمی کا سایہ دیکھا جو میری طرف بڑھ رہا تھا۔
میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ سایہ ساتھ والے مکان کی دیوار میں سے گزر کر دوسری طرف چلا گیا۔‘‘

ہم نے اُس کا مذاق اڑایا کہ تمہیں دھوکا ہوا ہے اور اُسے اطمینان دلایا کہ سایہ وایہ کچھ نہیں، محض فریبِ نظر ہے۔ مگر چند روز بعد جو واقعات پے در پے پیش آئے، اُنھوں نے ہمارے کان کھڑے کر دیے۔
ہال کمرے کے ایک گوشے میں ایک نہایت پرانی کرسی رکھی ہوئی تھی۔ جب ہم اُس مکان میں آئے، تو اُس وقت بھی یہ کرسی موجود تھی۔ مکان کی پرانی شے سمجھ کر اُسے جگہ سے بےجگہ کرنا مناسب نہ سمجھا گیا تھا۔
باورچن والے واقعہ کے دو دِن بعد صبح والد صاحب نے دیکھا کہ وہ کرسی ہال کمرے کے عین وسط میں رکھی ہے۔ اُنھوں نے اُسے اٹھا کر وہیں رکھ دیا جہاں پہلے رکھی تھی۔
یہ بات خلافِ معمول نہ سمجھی گئی۔ اِس لیے کسی نے توجہ نہ کی۔
دوسرے روز صبح وہ ہال کمرے میں گئے، تو کرسی پھر وسط میں رکھی تھی۔ اُنھوں نے اُسے اٹھایا اور اَصل مقام پر رکھ دیا۔ بات پھر آئی گئی ہو گئی…..
البتہ اُنھیں حیرت ضرور تھی کہ کرسی ہال کمرے کے وسط میں کس طرح آ گئی۔
تیسرے روز رات کو والد اور وَالدہ نے سیڑھیوں اور ہال کمرے میں سے ایسی آوازیں سنیں جیسے کوئی چیز گھسیٹی جا رہی ہے اور صبح وہ کرسی پھر ہال کمرے کے وسط میں پڑی تھی۔

کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا معاملہ ہے؟ یہ تو طے تھا کہ ضرور کسی ’’روح‘‘ کی کارستانی ہے، لیکن اِس کرسی اور رُوح کا آپس میں کیا تعلق تھا؟ یہ بھید نہ کھلتا تھا۔
ایک روز والد صاحب مقامی لائبریری میں گئے اور اُنھوں نے محض اپنے تجسّس کی خاطر ایسی کتاب نکلوائی جس میں اِس علاقے کے متعلق پرانی باتیں درج تھیں۔
اُس کتاب کے مطالعے سے ایک دلچسپ انکشاف ہوا، وہ یہ کہ جس مقام پر ہمارا مکان تھا، وہاں سو سال پہلے ایک کھلا میدان تھا جس کے درمیان میں سے پیدل چلنے والوں کے لیے راستہ گزرتا تھا۔
ایک شام عین اِس مقام پر جہاں ہمارا ہال کمرا وَاقع تھا، قتل کی ایک واردات وقوع پذیر ہوئی۔ مقتول کرسیوں کی مرمت کیا کرتا تھا اور وَاردات کے وقت وہ ایک مرمت شدہ کرسی لے کر اُدھر سے گزر رَہا تھا کہ کسی دشمن نے اُسے قتل کر دیا۔
ہال کمرے میں رکھی ہوئی کرسی وہی تھی جسے مقتول اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔

دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی، تو حکومتِ برطانیہ نے مجھے ملایا بھیج دیا۔ مَیں نے محسوس کیا کہ یہاں کے باشندے جن میں چینی، ہندوستانی، یوریشین اور دُوسری کئی نسلوں کے لوگ بھی شامل تھے، بھوت پریت اور بدروحوں پر بڑا یقین رکھتے تھے۔
ملایا کی سرزمین یوں بھی بڑی پُراسرار ہی دکھائی دیتی ہے اور مقامی باشندوں کے عجیب اور دِلچسپ رسم و رواج ہی ایک اچھے خاصے آدمی کو پاگل بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔
ملایا میں قیام کے دوران میں ایک مرتبہ مجھے کوالاسلینگر تعینات کیا گیا۔ اُس پہاڑی پر چند چھوٹے چھوٹے لیکن پرانے مکانات بنے ہوئے ہیں۔ جنگ کے دوران میں دشمن نے اُن پر قبضہ کر لیا۔
جب مَیں وہاں گیا، تو ایک مکان میں کسی بڑے پولیس افسر کا قیام تھا۔ اُنہی دنوں اُس کی بیوی کو ایک عجیب و غریب واقعے کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک روز شام کے وقت وہ مکان کے کمرے میں بیٹھی اپنے خاوند کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی۔ اچانک اُس نے مکان کی طرف آنے والے پہاڑی راستے پر بھاری قدموں کی آواز سنی۔
یہ آواز آہستہ آہستہ نزدیک آتی گئی۔ پہلے پہل عورت نے خیال کیا کہ شاید کوئی کانسٹیبل ضروری پیغام لے کر آ رہا ہے۔ اُس نے قدموں کی چاپ گھر کے برآمدے میں سنی اور اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن کوئی نظر نہ آیا۔
قدموں کی آواز برآمدے میں سے گزرتی ہوئی کھانے کے کمرے میں داخل ہوئی، پھر باورچی خانے میں پہنچی اور رُک گئی۔ جیسے کوئی شخص باورچی خانے میں پہنچ کر رک گیا ہو۔
چند لمحوں تک تو عورت دم بخود اَپنی جگہ بیٹھی رہی۔ آخر جرأت کر کے اُٹھی اور باورچی خانے کی طرف گئی، تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔

لوگوں نے اُس کی توجیہہ یوں کی کہ جنگ کے دوران میں یہاں ایک فوجی افسر رہتا تھا۔ بعدازاں وہ مارا گیا۔
اب اُس کی روح عین اُس وقت گھر پر آئی جس وقت فوجی افسر اپنی زندگی میں گھر واپس آیا کرتا تھا۔

یہ تو تھے انسانی روحوں کے متعلق چند مشاہدات….. اب جانوروں کی روحوں کے بارے میں بھی کچھ واقعات سُن لیجیے جن کا مَیں نے بذاتِ خود مشاہدہ کیا….. اور جن میں ذرہ بھر بھی مبالغہ نہیں۔
میرا قیام جس قصبّے میں تھا، اُس کے ایک طرف ایک وسیع و عریض دلدلی میدان تھا اور دُوسری طرف گھنے جنگل میں سے ریل کی پٹڑی گزرتی تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ جنگلی ہاتھیوں کے غول ریلوے لائن کے قریب سے گزر رَہے تھے کہ ریل آ گئی۔
ہاتھیوں کے سردار کو طیش آیا اور اُس نے انجن کو ٹکر ماری۔ ہاتھی تو وہیں مر گیا، لیکن انجن کی شکل ایسی بگڑی کہ وہ مرمت کے قابل ہی نہ رہا۔
لوگوں نے قسمیں کھا کھا کر مجھے یقین دلایا کہ اب بھی اُسی وقت وہاں ہاتھی کے چنگھاڑنے کی آوازیں آیا کرتی ہیں، حالانکہ وہاں کوئی ہاتھی نہیں ہوتا۔

ایک مرتبہ مَیں نے اردگرد کے گاؤں دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ میرے ساتھ دو مقامی مسلمان راہبر اور چند دوسرے دوست تھے جو محض تفریح کے لیے میرے ساتھ جانے پر رضامند ہو گئے تھے۔
دوپہر کے وقت ’’کمپونگ گاجاہ‘‘ پہنچے جس کے معنی ہیں ’’ہاتھیوں کا گاؤں‘‘۔ وہاں مَیں نے عجیب عجیب کہانیاں سنیں۔ گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں گھنا جنگل عبور کرنا پڑا۔ یہاں زمین دلدلی تھی۔
میرے دونوں مسلمان راہبر جو نہایت باتونی آدمی ثابت ہوئے تھے، پُراسرار طور پر چپ تھے۔ اچانک ہم ایک ایسے دلدلی مقام پر آئے جن میں سے بڑے بڑے بلبلے اُٹھ رہے تھے اور دَلدل میں سے ایسی سنسناہٹ پیدا ہو رہی تھی جیسے وہ اَندر ہی اندر کھول رہی ہو۔
مَیں نے دیکھا، اُس کی سطح پر بدبُودار تیل بھی تیر رہا ہے۔

’’جناب! اِس مقام پر کئی ہاتھی دلدل میں غرق ہو گئے تھے۔‘‘ مسلمان راہبر نے کہا۔

’’کس طرح؟‘‘ مَیں نے تعجب سے پوچھا۔

’’وہ دَلدل میں لَوٹنے کے لیے آئے تھے، لیکن جونہی اُنھوں نے اِس میں قدم رکھا، دوبارہ باہر نہ نکل سکے۔
اِس کے عین درمیان میں جو بڑا سا سوراخ آپ دیکھ رہے ہیں، وہ دَریا سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس میں دلدل ہر وقت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے اور بےحد گہری ہے۔
وہ دَیکھیے جناب….. ہاتھیوں کی ہڈیاں اوپر اُٹھ رہی ہیں۔‘‘

مَیں نے اُس طرف دیکھا۔ واقعی چند بڑی بڑی ہڈیاں دلدل کے ساتھ ابھریں اور پھر نیچے بیٹھ گئیں۔
دوسرے راہبر نے جس کا نام حسین تھا، مجھ سے کہا:

’’اور جناب اِن ہاتھیوں کی روحیں اب بھی گاؤں والوں کو دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے جناب۔
وہ ہمیشہ تعداد میں تین ہوتے ہیں اور شام کے وقت چیختے چلّاتے اِسی دلدل میں دکھائی دیتے ہیں۔ آپ چاہیں، تو خود بھی اُنھیں دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

’’یہ تم کس دعوے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہو؟ ممکن ہے وہ ’اصلی ہاتھی‘ ہی ہوں۔ اِس علاقے میں ہاتھی کثرت سے ہیں…..‘‘

نہیں جناب! وہ اَصلی ہاتھی ہرگز نہیں….. ایک شخص حامد نے اُن پر فائر کیا تھا۔
گولی ہاتھی کو پار کرتی ہوئی درخت کے ایک تنے میں پیوست ہو گئی تھی۔‘‘

اِس بات پر یقین کرنے کو دل نہیں مانتا تھا۔ مَیں اُسی کے بارے میں سوچتا رہا۔ سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر پہلے ہمارا چھوٹا سا قافلہ ’’کمپونگ گاجاہ‘‘ کی حدود میں داخل ہو گیا۔
مَیں نے سب سے پہلے کھانا کھایا اور دِن بھر کی سخت تھکاوٹ کے باعث مچھردانی لگا کر سو گیا۔ شاید مجھے سوئے ہوئے ایک ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوا ہو گا کہ کسی نے میرا کندھا دبا کر مجھے جگا دیا۔ مَیں نے اٹھتے ہی جھپٹ کر اپنی رائفل اٹھا لی۔

’’اٹھیے….. جناب….. فوراً اُٹھ جائیے۔‘‘

مَیں نے اپنے ایک راہبر کی تھرّائی ہوئی آواز پہچان لی۔

میرے جسم میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ مَیں اپنے بستر سے اٹھا، جلدی جلدی کپڑے پہنے اور رَاہبر کے ساتھ مکان کے بیرونی برآمدے میں گیا۔
عین اُس لمحے جنگل کی جانب سے ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی آوازیں مجھے سنائی دیں۔ اُن آوازوں سے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے ہاتھی کسی مصیبت میں مبتلا ہیں۔

’’وہ دَیکھیے…..‘‘ راہبر نے جنگل کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ ا
آسمان پر چاند روشن تھا اور اُس کی کرنیں پتّوں سے چھن چھن کر جنگل میں مدھم سی روشنی پھیلا رہی تھیں۔ دور….. دریا کا پانی ایک چمک دار لکیر کی مانند بَل کھاتا ہوا بہہ رہا تھا۔ پہلے پہل مَیں کچھ نہ دیکھ سکا، مگر فوراً ہی گھنے درختوں کے درمیان مَیں نے تین ہاتھیوں کو دیکھا۔
وہ کبھی دکھائی دیتے اور کبھی نظروں سے اوجھل ہو جاتے۔ چند لمحے بعد بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے نے چاند کو ڈھانپ لیا اور جب چاند نے اُس کی اوٹ سے سر نکالا، تو ہاتھی غائب تھے۔

علی الصبح جب مَیں بیدار ہوا، تو رات کا واقعہ ایک خواب کی مانند مجھے یاد آ گیا۔
مَیں نے گاؤں کے لوگوں سے اِس بارے میں کئی باتیں پوچھیں اور اُن سے کہا کہ جن ہاتھیوں کو وُہ بھوت سمجھ رہے ہیں، وہ اُن کا وہم ہے۔
مدھم سی چاندنی میں درختوں کی بڑی بڑی شاخوں کے سائے اِس طرح نمایاں ہوتے ہیں کہ وہ دُور سے ہاتھی کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور جب ہوا دَرختوں کی شاخوں میں سے گزرتی ہے، تو آواز پیدا ہوتی ہے جسے وہ غلطی سے ہاتھیوں کی آواز سمجھتے ہیں۔

’’جناب! آپ کو اِس طرح یقین نہیں آئے گا۔ آئیے میرے ساتھ۔‘‘

وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اُس طرف گیا جہاں مَیں نے گزشتہ رات ہاتھیوں کو دیکھا تھا۔
خاموشی سے ہم دونوں وہاں گئے….. اور پھر اُس نے انگلی سے دلدل کی طرف اشارہ کیا…..
اور مَیں نے دیکھا کہ وہاں ہاتھیوں کے تازہ قدموں کے بڑے بڑے نشانات نمایاں طور پر نظر آ رہے تھے۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles