23 C
Lahore
Saturday, December 7, 2024

Book Store

ماحول دوست سواری| cycle rikshaw

احساس کے انداز

ماحول دوست سواری

تحریر ؛۔ جاوید ایاز خان

برادر ملک چین سے سامنے آئی ایک ویڈیو نے سوشل میڈیا پر شور مچا دیا ۔
اس میں ایک کچرا چننے والا شہری, تین پہیوں والی سائیکل رکشا پر اسکریپ کی ایک بھاری بھرکم گاڑی کو اُٹھا کر بہت آرام سے چلتا جا رہا ہے۔
دیکھنے والے ہر شخص نے اس کے توازان برقرار رکھنے کو بے حد داد دی۔
دوسرے یہ احساس ہوا کہ سائیکل رکشا کی مہارت ہو ,تو کم طاقت سے بڑے سے بڑے وزن کی نقل و حمل آسانی سے ممکن ہے۔
اس سے قبل ایک چینی کسان اولمپکس میں شرکت کے لیے چین سے لندن تک سائیکل رکشا پر ساٹھ ہزار کلو میڑ سفر کرکے اور سولہ ممالک سے گزر کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال چکا ہے ۔

میں پہلی مرتبہ 1966ء میں جب بہاولپور آیا تو ایک 6 سالہ بچہ تھا۔

چوک فوارہ پر بس سے اُترے تو سامنے بے شمار رنگ برنگے خوبصورت سائیکل رکشے نظر آئے۔
ان  پر طرح  طرح کے نقش ونگار بنے ہوئے تھے۔

 ایک سے بڑھ کر ایک ڈایزائن کے یہ رکشے اتنا دل کو بھائے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کس رکشے پر بیٹھا جائے۔
بہاولپور کا شمار اس وقت پاکستان کے سب سے  پُرفضا ،صاف ستھرے ،خوبصورت اور کھلے شہروں میں ہوتا تھا۔
اس کی بڑی اور چوڑی سڑکیں ،بازار ،سیر گاہیں ،اسٹیڈیم ،محلات چڑیا گھر ،عجائب گھر ،تعلیمی ادارے ، اور دفاتر  سب ریاست بہاولپور کی عظمت و شان بیان کرتے نظر آتے تھے ۔

سب سے اچھا یہاں کا پرفضا ماحول تھا۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے آپ واقعی کسی سیرگاہ میں  آ گئے ہیں۔
شہر کے ساتھ بہتا ہوادریائے ستلج اور اس میں چلتی کشتیاں یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی تھیں ۔
پورے شہر میں آمدورفت کا ذریعہ یہی سائیکل  رکشا ہوتے جو شہر کی کسی بھی گلی اور محلے میں باآسانی پہنچ جاتے تھے۔
سواری کو اس کے گھر کی دہلیز پر اتار دیتے۔ یہ بہاولپور کی شناخت اور یہاں کی ثقافت بھی کہلاتے۔
یہاں کے مقامی لوگ اپنی سائیکل استعمال کرتے تھے ۔گری گنج بازار میں بڑی سائیکل مارکیٹ تھی۔
ان میں کوئی پیٹرول یا ڈیزل ڈالنا پڑتا اور نہ یہ دھواں چھوڑتے تھےکہ فضائی آلودگی کا باعث بنیں۔
سب سے بڑھ کر ان کی وجہ سے ٹریفک حادثات نہ ہونے کے برابر ہوا کرتے۔
انھیں چلانے والے کو “رکشا پولر” کہا جاتا جو انھیں چلانے کے لیے خصوصی مہارت رکھتے تھے ۔
کہتے ہیں کہ بہاولپور کا اس زمانے میں سب سے بڑا ذریعہ روزگار بھی یہی تھے۔
رکشا سازی ،اس کی مرمت ،اسے چلانے والے اور ان کے مالکان آبادی کا ایک بڑا حصہ تقریباً پچاس ہزار لوگ اس وقت اس شعبہ سے اپنا رزق حاصل کرتے۔
گویا یہ رکشے بہاولپور میں ایک بہت بڑی صنعت کا درجہ رکھتے تھے ۔
پھر آٹو رکشا آ گئے اور ان کی کامیابی کے لیے ان سائیکل رکشوں کا خاتمہ ضروری تھا۔
اس لیےانسانی حقوق کی تنظیموں کو یکایک خیال آیا۔
ایک شور اُٹھا کہ انسان کا انسان کو کھنچنا نہ صرف غیر انسانی بلکہ یہ انگریز کی انسان غلامی کی یاد بھی دلاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ان رکشوں کے چلانے والوں میں جسمانی مشقت سے ٹی بی جیسی مہلک بیماری پھیل رہی ہے۔ اس لیے یہ انسان پر ایک ظلم  کے مترادف ہے ۔
جبکہ رکشا پولر اسے اپنی صحت کا راز سمجھتے تھے ۔
پھر انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے نعرے لگنے لگے۔ انگریز کے زمانے کی اس قدیم صنعت کو بند کرنے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

سائیکل رکشا|cycle rikshawwww.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan
سائیکل رکشا|cycle rikshaw
www.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan

دوسری جانب سائیکل رکشا کی صنعت سے وابستہ لوگوں کو اپنی بےروزگاری کے خطرات لاحق تھے.
ان کا خیال تھا، ان رکشوں پر پابندی ایک بڑی بے روزگاری کو جنم دے  گی۔
موٹر رکشے  کے دھوئیں سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو گا جو انسانی زندگی کے لیے زیادہ تباہ کن ہو گا ۔
آخرکار سرمایہ دار جیت گیا اور مزدور ہار گئے۔
اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف نے 1992ء میں سائیکل رکشوں کو مضر صحت اور انسانیت پر ظلم  قرار دیتے ہوئے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی۔
ان کی جگہ آسان قسطوں پر موٹر سائیکل رکشوں کی فراہمی کا آغاز کیا
تاکہ رکشا پولر بے روزگاری سے بچیں اور سائیکل سے آٹو رکشوں کی طرف راغب ہوں۔
اس طرح یہ رنگ برنگے ماحول دوست سائیکل رکشے ماضی کا حصہ بن گئے۔
لوگ اپنے رکشوں سمیت متبادل روزگار کے حصول کے لیے دوسرے شہروں اور قصبوں کی جانب رخ کر گئے،
جہاں ان پر ابھی پابندی نہیں تھی۔
یوں بہاولپور سے اس صنعت کا مکمل خاتمہ ہو گیا اور آٹو رکشا کی کی حکمرانی کا دور شروع ہوا ۔
آج پورے شہر میں ان آٹو  رکشوں کی بھر مار ہے۔
یہ دھوئیں کے ساتھ بے ہنگم شور وغل کا باعث بن چکے۔  بظاہر انسان انگریز کی غلامی کی علامت سے آزاد ہو چکا ،
مگر فضائی آلودگی کی وجہ سے پھیلنے والی بےشمار جان لیوا بیماریاں ہمارے معاشرے اور ماحول کو بڑی تیزی سے متاثر کر رہی ہیں۔
ان موٹر سائیکل ، رکشوں اور گاڑیوں کا بے پناہ شور ہماری سماعتوں اور ذہنوں کو متاثر کر کے ڈیپریشن پیدا کر رہا ہے۔
دوسری جانب بغیر لائسنس کم عمر اور اناڑی چنگ چی ڈرائیور خطرناک طریقہ سے رکشے چلاتے نظر آتے ہیں۔
جو آئے دن حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔

سائیکل رکشا|cycle rikshawwww.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan
سائیکل رکشا|cycle rikshaw
www.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan

لیکن  پبلک ٹرانسپورٹ کی واحد سہولت اب یہ سواری ہی رہ گئی ہے جو آج ہماری ضرورت بن چکی۔
سڑکوں پر پارکنگ کے فقدان کے باعث سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر یہ کھڑے رکشے پیدل چلنے والوں کے لیے کسی مشکلات پیدا کر رہے ہیں ۔
کاش کوئی ہمیں وہی ماحول دوست سواری اور پُرفضا ماحول پھر سے دیکھنے کا موقع فراہم کر سکے ۔
یہ رکشا ایک چھوٹے پیمانے کا مقامی نقل و حمل کا ذریعہ آج بھی ہے۔
اسے دنیا میں بائیک ٹیکسی کے نام سے جانا جاتاہے۔
یہ ہاتھ کے برعکس پاؤں سے زور لگا کر چلایا جاتا اور دنیا کے بےشمار شہروں میں استعمال ہوتا ہے۔
تاہم جنوبی ایشیا ،جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی ایشیا میں زیادہ زیر استعمال ہے۔
غربت کی وجہ سے بنگلا دیش ،انڈیا اور دیگر کئی ایشیائی ممالک میں ان سائیکل رکشوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہےاور گنجان جگہوں پر آمد ورفت کا بہترین ذریعہ ہیں۔
یہ رکشے جدید شکل  اور مختلف ناموں  سے  سیاحوں کو میکسیکو ،منیلا ،لندن ،ماسکو میں بھی نظر آتے ہیں ۔

میں خود ایک پرانا بینکار ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ بہاولپور میں تقریباً ایک سو بنک برانچیں کام کر رہی ہیں۔
ان سب کی توجہ اس وقت کار فنانس پر ہے کیونکہ یہ سب سے آسان اور منافع بخش فنانس کہلاتا ہے۔
میرے اندازے کے مطابق ہر ماہ ایک سو نئی گاڑیاں صرف بہاولپور شہر کے بینکوں کے ذریعے ہماری سڑکوں پر آ جاتی ہیں۔
اتنی ہی تعداد اردگرد کے علاقائی بینکوں سے آنے والی گاڑیوں کی ہے۔
اس کے علاوہ ذاتی و سائل سے آج کل گاڑیوں کی خریداری میں بےحد اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
گاڑیوں کی طلب بہت زیادہ اور رسد کم تر ہو چکی۔
ایک تازہ  اندازے کے مطابق تقریباً 5000ہزار  سے زیادہ نئے موٹر سائیکل ہر ماہ بہاولپور  شہر میں نقد و آسان اقساط پر فروخت ہوتے ہیں۔ ان میں موٹر سائیکل رکشے شامل نہیں ہیں ۔
تقریباً 2000 موٹر سائیکل رکشے اور چنگ چی رکشے ان کے علاوہ ہیں ۔
ان کے علاوہ بےشمار وین اور  نئی لوڈنگ گاڑیوں کی کثیر تعداد بھی پہلے سے موجود ٹرانسپورٹ میں شامل ہو کر بہاولپور کی سڑکوں پرآ چکی ہے۔
یہ تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔
دھواں چھوڑتی گاڑیاں ایک طرف تو ٹریفک کے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے،
دوسری جانب فضائی آلودگی میں بےحد اضافہ کرتی  چلی جا رہی ہے۔
اس لحاظ سے بہاولپور پنجاب کا لاہور کے بعد دوسرا شہر بن چکا ہے  ۔
اگر یہی صورتحال رہی تو ٹریفک کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا ۔
ہمیں اور ہمارے شہر کو پبلک ٹرانسپوٹ کے لیے ایک  ماحول دوست سواری جیسے ماسٹر پلان کی ضرورت ہے جو سڑکوں پر ہجوم کم کرے اور فضائی آلودگی  پھیلانے کا باعث نہ بنے۔
دوسری جانب پیٹرول کی ناقابل برداشت بڑھتی ہوئی قیمت نے روزمرہ کی آمد و رفت کو بےحد مشکل بنا دیا ہے۔
عام آدمی کے پاس اب پیدل چلنے یا پھر سائیکل سواری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔
دنیا کی سوچ بدل رہی ہے۔

سائیکل رکشا|cycle rikshawwww.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan
سائیکل رکشا|cycle rikshaw
www.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan

اب سائیکل چلانے کو صحت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بےشمار بیماریوں سے بچاؤ کا ذریعہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
جبکہ دھواں چھوڑنے والی سواری کو صحت اور ماحول کے لیے زیادہ مضر سمجھا جانے لگا ہے۔
سائیکل چلانے اور استعمال کرنے کو فروغ دینے کی بات ہو رہی ہے۔
ایسے میں مجھے وہ ماحول دوست اور سستی ترین سائیکل رکشا کی سواری بےحد یاد آتی ہے، جو سواری کے ساتھ ساتھ لوگوں کو  صحت اور روزگار بھی مہیا کرتی تھی۔

سائیکل رکشا|cycle rikshawwww.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan
#wespa
سائیکل رکشا|cycle rikshaw
www.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan
#wespa
سائیکل رکشا|cycle rikshawwww.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan
#wespa
سائیکل رکشا|cycle rikshaw
www.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan
#wespa

فضائی آلودگی اور شور و غل بھی پیدا نہیں کرتی تھی۔
شاید وہ ہمارے بہاولپور کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہاں کا ثقافتی ورثہ بھی تھی ۔

سائیکل رکشا|cycle rikshawwww.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan
سائیکل رکشا|cycle rikshaw
www.shanurdu.com
Bahawalpur
#javedayazkhan

https://shanurdu.com/maaya-tere-teen-naam/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles