25 C
Lahore
Tuesday, April 23, 2024

Book Store

kids grooming|بچوں کی پرورش

کوئی بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو موروثی، خاندانی عادات و اطوار کے علاوہ اپنی انفرادی اور ذاتی خصوصیات وخصائل بھی ساتھ لاتا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ماں باپ بچے کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال کر پرورش کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی اٹھان اپنی پسندیدہ طرز سے ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی مرضی کے الفاظ سکھائے جاتے ہیں۔ اس کی حرکات و سکنات کو اپنی خواہش کے مطابق کنٹرول کیا جاتا ہے۔ پھر بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اسے اپنی ہی پسندیدہ درس گاہ میں تعلیم دلوائی جاتی ہے۔ یہ جانے بغیر کہ بچے کا رجحان کس طرف ہے، اس کے مضامین اور پیشے کے اختیار کرنے میں بھی ماں باپ کی خواہشات کا دبائو بچے پر بہت زیادہ ہوتا ہے اور اکثر ہوتا یوں ہے کہ بچے کے رجحانات کے خلاف اسے تعلیمی میدان منتخب کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ عموماً جب ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو اولاد پر نالائق، نکما اور نافرمان ہونے کا الزام لگ جاتا اور اس سے ہزار شکایات پیدا ہو جاتی ہیں۔اکثر بچے سن بلوغت تک پہنچتے ہی بغاوت پر اتر آتے ہیں دوسری طرف ماں باپ رنجیدہ ہو کر اولاد سے بددل ہو جاتے ہیں۔ماں باپ تھوڑا سا صبروتحمل سے کام لیں اور تدبر کا مظاہرہ کریں تو ایسی صورت حال سے بچا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچے کی پرورش بھی ایک فن ہے جو ماں اس فن سے آشنا ہو جائے وہ اپنے اور گھر کے لیے خوشگوار مستقبل تعمیر کر سکتی ہے۔ اس تعمیر کی پہلی اینٹ اس وقت رکھی جاتی ہے جب ایک ننھا منا وجود گھر میں آتا ہے۔

آپ اسے چھوٹا سا بے بس بچہ نہ سمجھیے۔ وہ ایک مکمل شخصیت ہے جسے اتنی ہی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے جتنی کسی بالغ کو۔ اس کا اندازا آپ کو یوں بھی ہو سکتا ہے کہ چند ہفتے کا بچہ آوازوں سے مانوس ہو جاتا ہے۔ چند ماہ کی عمر میںہی وہ غصے اور محبت کے جذبات کو سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ آواز دینے پر گردن گھما کر دیکھتا اور مسکراتا ہے۔

کہتے ہیں کہ پُوت کے پائوں پالنے ہی میں پہچانے جاتے ہیں۔ اس کی عادات واطوار کا اندازہ شیرخوارگی ہی میں بخوبی ہو جاتا ہے۔ آپ اس کی طرف سے بے پروائی کا برتائو کریں تو رو کر، چیخ کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔

عزتِ نفس

وقت کے ساتھ ساتھ بچے میں عزت نفس کا احساس بڑھنے لگتا ہے۔ بعض مائیں وقت بے وقت دوسروں کی موجودگی میں بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر دیتی ہیں۔ بچے کی شخصیت کے لیے یہ بڑا منفی رویہ ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس سے بچہ خفت محسوس کرتا ہے۔ جسے بعد میں وہ کسی منفی انداز سے ظاہر کر دیتا ہے جو آپ کو بھی ناگوار گزرتا ہے۔ مثلاً جان بوجھ کر دوسروں کی موجودگی میں نافرمانی کا مظاہرہ۔ ایسی حرکات و شرارتیں کرنا جو عموماً وہ اکیلے میں نہیں کرتا لیکن جیسے ہی گھر میں کوئی مہمان آئے یا گھر کے ہی لوگ کسی وقت اکٹھے بیٹھے ہوں تو بچہ اپنی من مانیاں شروع کر دیتا ہے اور بعض اوقات صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ وہ جان بوجھ کے کر رہا ہے۔ آپ حیران ہوتے ہیں کہ اس سے پہلے تو بچے نے ایسی حرکت کبھی نہیں کی، ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تو یہ بالکل ٹھیک تھا، آرام سے بیٹھا ہوا تھا، پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ اُس کے اندازواطوار ہی بدل گئے۔ کبھی آپ غور کریں تو محسوس ہو گا کہ کچھ مخصوص حرکات بچہ توجہ حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے یا پریشان کرنے کے لیے۔ یہ جاننے کے لیے آپ بغور اس کا مشاہدہ کریں۔ اگر تو وہ اپنے آپ میں مگن ہے اور شرارتیں کرتے ہوئے اسے قطعاً پتا نہیں کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں یا اور کوئی اس کی طرف متوجہ ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ شرارت بچے کی فطری ہے۔ لیکن اگر آپ یہ دیکھیں کہ وہ آپ کی آنکھوں میں دیکھتے اور مسکراتے ہوئے کچھ ایسا کرنے جا رہا ہے جس سے آپ کو غصہ آ سکتا ہے یا آپ اسے پہلے بھی ایسی حرکت یا شرارت سے منع کر چکے ہیں، تو جان لیں کہ بچہ یہ صرف اور صرف آپ کو تنگ کرنے کی نیت سے کر رہا ہے۔ اسے بخوبی اندازہ ہے کہ اس حرکت سے آپ کو مہمانوں کے سامنے سبکی یا پریشانی اٹھانی پڑ سکتی ہے تو سمجھ لیں کہ یہ اس کی معصوم انتقامی کارروائی ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے پہلے آپ نے کبھی انہی لوگوں کی موجودگی میں سرزنش کی ہو یا چیخ کر غصے کا اظہار کیا ہو یا مہمانوں کے سامنے یہ کہا ہو کہ یہ بچہ تو بہت شرارتی ہے، کبھی بات نہیں سنتا، میں تو تنگ آ گئی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اور وہ بات بچے کے دماغ میں کہیں رہ جاتی ہے جس کی بنا پر وہ آپ کو تنگ کرتا ہے اپنی شرمندگی کو چھپانے کے لیے۔ زیادہ تر ماں باپ ایسے بچوں کی ان حرکات کو شیطانی، نافرمانی کے زمرے میں ہی لیتے ہیں مگر شاید کوئی کوئی ماں باپ ہی ہوں گے جو یہ سمجھ پائیں کہ یہ جوابی کارروائی ہے۔ ایسے بچوں میں حساسیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ کبھی دیکھ لیں کہ بچے نے نہ صرف آپ کا رویہ یاد رکھا ہے، بلکہ وہ مزید جارحانہ مزاج اپناتا جا رہا ہے تو سنبھل جائیں، کیونکہ ایسے بچے بہت حساس اور نازک مزاج ہوتے ہیں۔ انھیں بہت توجہ اور راہنمائی کی ضرورت ہے اور ذرا سی توجہ دینے سے ایسے بچے کو کندن بنایا جا سکتا ہے کیونکہ ایسے بچے ذہین ہوتے اور ماحول، گفتگو اور نظروں کی ہلکی سی جنبش کو بھی پہچاننے کی خاص صلاحیت رکھتے ہیں۔

نامناسب رویہ

یہ بات بھی قابلِ تشویش ہے کہ کچھ والدین اپنے بچوں کو مہمانوں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ تو درکنار کچھ زیادہ ہی لاڈپیار کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بگڑ جاتا ہے اور اکثر و بیشتر ایسے مواقع کا انتظار کرتا ہے کہ کب گھر والے جمع ہوں یا مہمان آئیں اور وہ اپنی ناجائز ضدیں منوا سکے۔ ایسے بچوں کو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جو بات والدین اکیلے میں نہیں مانتے، مہمانوں کے سامنے وہ انکار نہیں کر سکیں گے اور ہماری ہر ضد اور بات بخوشی مان لی جائے گی۔ ایسے ’’موقع پرست‘‘ بچے پھر نہ صرف بچپن میں، بلکہ آگے چل کر زندگی کے ہر ہر قدم پر والدین کو بلیک میل کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ اور یہ سب ہوتا ہے صرف اور صرف والدین کی بے پروائی، ناسمجھی اور بے اعتدال رویے کے باعث۔ اگر اپنے بچے کو شروع ہی سے متوازن ماحول دیا ہو، اس کی تربیت و پرورش میانہ روی سے کی گئی ہو تو ایسی صورت حال سے پالا نہیں پڑتا۔

’’ابھی تو بچہ ہے‘‘

بچے کی تربیت کے لیے پانچ سے دس یا بارہ سال کی عمر بہت اہم اور ساری زندگی کی بنیاد ہوتی ہے۔ عمر کے اس دور میں سکھائی جانے والی باتیں، عادتیں نہ صرف دیرپا ہوتی ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہی مناسب اور بہترین وقت ہوتا ہے اپنے بچے کو ایک بھرپور مثبت اندازِزندگی سکھانے کا، اسی دور میں کی گئی بہترین تربیت اس بچے کو آگے چل کر ایک کامیاب اور اچھا انسان بناتی ہے اور اس دور میں برتی گئی بے پروائی اسے نہ صرف ایک نامکمل، ناکام بلکہ منفی شخصیت کا حامل بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ بہت سے والدین یہ سوچتے ہیں کہ ابھی تو بچہ ہے، بڑا ہو گا تو سیکھ جائے گا، ابھی چھوٹا ہے، ساری زندگی پڑی ہے اسے اچھا بُرا سمجھانے میں، سکھانے میں۔ یہی سوچ ’’ابھی بچہ ہے‘‘ خطرناک اور سنگین غلطی ہے۔ یاد رکھیے، اس عمر میں اگر آپ اسے اچھا یا بُرا، غلط یا صحیح کی پہچان نہ کرا سکے تو پھر کبھی نہیں کرا سکیں گے۔ کیونکہ عمر کا یہ دور جتنا خوبصورت ہوتا ہے اُتنا ہی اہم بھی ہوتا ہے۔ یہی دور بچے کی آنے والی زندگی کی بنیاد اور جڑ ہے۔ اور اگر بنیاد ہی مضبوط نہیں ہو گی تو آگے چل کر وہ کچھ نہیں سیکھے گا۔ ہر چیز سیکھنے کا ایک خاص وقت، مدت اور عمر ہوتی ہے۔ مگر افسوس کہ جو صحیح عمر ہوتی ہے کچھ سکھانے کی، اسی عمر کو بے پروائی سے گزار دیا جاتا ہے۔

چند بنیادی باتیں، جنھیں ذہن میں رکھ کر بچے کی پرورش کرنے سے آپ نہ صرف اس کی زندگی کامیاب اور بہترین بنا سکتے ہیں، بلکہ اس کی شخصیت کو مکمل کر کے اپنی آنے والی زندگی اور بڑھاپا بھی محفوظ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ بہترین خطوط پر تربیت پانے والے بچے آگے چل کر نہ صرف اچھے انسان بن کر معاشرہ بہتر بنا سکتے ہیں، بلکہ آپ کو بھی اچھے طریقے سے سنبھال کر، آپ کے فرمانبردار رہ کر خدمت کرنے والی اولاد بن سکتے ہیں۔ اس طرح وہ دعائیں سمیٹتے، محبتیں بانٹتے اور وصول کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت مکمل، بھرپور اور قابلِ رشک ہوتی ہے۔ اور ایسی شخصیت بننے میں اسّی سے نوے فی صد ہاتھ بچپن کے سیکھے گئے اصول اور وضع داری ہے، یہی ان کی کامیابی کی کنجی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ یہ بنیادی تربیت کن اصولوں پر کی جا سکتی ہے۔

عملی مثال بنیے

بچے کو ہر وقت زبانی نصیحتیں کرنے کے بجائے، جو بات یا عادت آپ اس میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس کی عملی مثال آپ سب سے پہلے خود بنیں تاکہ بچے کو آپ کے قول و فعل میں تضاد یا منافقت نہ نظر آئے۔ مثلاً اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ دین اور مذہب کو دل سے سمجھے اور اختیار کرے، تو آپ صرف زبانی کلامی یا دبائو کے تحت اسے نماز قرآن پڑھنے کے لیے کہنے کے بجائے، خود پہلے نماز قرآن پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ بچہ جب آپ کو، اپنے ہوش سنبھالنے ہی کی عمر سے، پابندی سے نماز اور قرآن پڑھتا دیکھے گا تو لاشعوری طور پر اس کا ذہن بھی عبادت کی طرف مائل ہو گا۔ صرف درس دیتے رہنا اور خود فون پر، ٹی وی پر مصروف رہنا اس کے ذہن کو منتشر کر دے گا وہ سوچے گا کہ اگر نماز یا قرآن اتنا ہی لازمی ہے تو گھر کے بڑے کیوں عمل نہیں کرتے۔ لیکن اگر وہی بچہ آپ کو عبادت میں مشغول دیکھے گا تو نہ صرف اس کی طرف راغب ہو گا بلکہ دل سے اپنائے گا اور اسے اپنی زندگی کا لازمی جزو سمجھے گا اور یوں آپ کو، تمام زندگی ڈنڈا لے کر یا غصے سے چیخ چلا کر نماز اور قرآن پڑھنے پر مجبور نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ خودبخود دین اور مذہب سے محبت کرنے لگے گا۔

اعلیٰ ظرفی اور فراخدلی

اپنے بچے کو بچپن ہی سے اعلیٰ ظرف اور فراخدل ہونا سکھائیں۔ اسے سکھائیں کہ لین دین اور مل بانٹ کر چیزوں کا تبادلہ کر کے کھانے، کھیلنے سے جو خوشی ملتی ہے وہ اکیلے پا لینے میں نہیں ہے۔ یہ سادہ سا اصول اگر آپ کا بچہ سیکھ جاتا ہے تو یقین مانیے زندگی کے کسی بھی موڑ پر وہ کامیابیوں کے ساتھ ساتھ، ناکامیوں کو بھی خوش دلی سے قبول کرے گا۔ کیونکہ اعلیٰ ظرفی انسان کو بہادری سے جینا سکھاتی ہے۔ بچے کو احساس دلائیں کہ اس کے پاس جو کھلونے یا استعمال کی چیزیں ہیں ان پر باقی بہن بھائیوں کا بھی حق ہے اور جو اس کے پاس ہے وہ بہترین ہے۔ لہٰذا اپنی بہترین چیز دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے سے جو خوشی محسوس ہوتی ہے وہ دوسروں کی بہترین چیز دیکھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش اور جلن سے کہیں زیادہ انمول ہوتی ہے۔ جب آپ کا بچہ اپنی چیزیں شیئر کرنا سیکھ جائے گا، دوسروں کی چیزوں پر نظر رکھنا چھوڑ دے گا، تب اس کے اندر فراخدلی اور اعلیٰ ظرفی کی کونپل پھوٹے گی۔ وہ اپنی چیزوں پر مطمئن رہے گا اور دوسروں کی چیزوں کو دیکھ کر حسد کا شکار نہیں ہوگا۔ یوں آگے چل کر وہ حاسد، لالچی اور جلنے کڑھنے کی فطرت کے بجائے قناعت کی زندگی گزارے گا۔

ہمدردی کے جذبات سے واقفیت

ہمدردی سے مراد یہ ہے کہ بچہ صرف ہمدردی حاصل کرنا ہی نہ جانتا ہو بلکہ اسے دوسرے بچوں سے ہمدردی کرنا بھی سکھایا جائے۔ خودترسی کی کیفیت سے آشنا ہونے کے بجائے رحم دلی اور ہمدردی اس کی فطرت میں شامل ہوں۔ جو بچے صرف اپنی طرف توجہ دلانے کے عادی ہوں وہ دوسروں کے جذبات سے ناواقف ہی رہتے ہیں۔ کسی دوسرے کی تکلیف پر لاتعلق اور بے نیاز رہنا اور اپنی ذرا سی تکلیف پر آسمان سر پر اٹھا لینا آگے مستقبل میں بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا بچے کو احساس دلائیں کہ جیسے اس کی ضرورتیں، خوشیاں اور پریشانیاں آپ کے لیے اہم ہیں اسی طرح اس کے باقی بہن بھائیوں کے معاملات بھی آپ کے لیے اہم ہیں اور اس کے لیے بھی ہونے چاہئیں۔ اگر آج وہ دوسروں کا خیال نہیں رکھے گا تو دوسرے بھی اس کا احساس نہیں کریں گے۔ محبت لینے سے پہلے محبت دینے کا اصول سکھائیے۔ اس کو اکثروبیشتر احساس دلاتے رہیں کہ تم دوسروں کی مدد کر سکتے ہو۔ کبھی کبھار اس کے ہاتھوں سے کسی غریب کی مدد کروا کر، کسی کو کھانا کھلا کر، کسی کو اپنے بچے کی پرانی چیزیں، بچے کی رضامندی سے دے کر، آپ احساس دلا سکتے ہیں کہ اُس کی ذرا سی مدد نے دوسروں کو کتنی خوشی اور آسانی دی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ حد سے زیادہ ایسا کرنا بچے کو احساس برتری میں مبتلا کر دے۔ اچھا تو یہ ہے کہ اسے اس بات کا احساس دلائیں کہ اگر تم کسی کی مدد کرو گے تو ہی کوئی تمھاری مدد کرے گا۔

تقابلہ ہرگز نہ کریں

اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنے ایک بچے کا باقی بچوں سے یا خاندان میں ملنے جلنے والوں کے بچوں سے موازنہ یا تقابلہ کرتے ہیں۔ اگر والدین یہ سب کچھ اس لیے کریں کہ ان کے بچے میں کوئی کمی نہ رہ جائے اور صرف اپنی سوچ کی حد تک کریں، تو یہاں تک تو یہ بات درست ہے، مگر اکثر نادان والدین اپنے بچے کے سامنے ہی اس کا مقابلہ یا موازنہ دوسرے بچوں سے کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کسی دوسرے بچے کی اچھی عادت یا تعریف کرنا اچھی بات ہے لیکن اس بات کی احتیاط کریں کہ تعریف ایسی ہو کہ آپ کا بچہ خودبخود وہ بات یا عادات اپنانے کا خواہش مند ہو جائے، ناکہ وہ چڑ جائے اور منفی انداز میں لے کر حسد ورقابت کا شکار ہو جائے۔ صحت مند مقابلہ بازی مثبت طریقے سے کی جائے تو ہی کارآمد ہوتی ہے ورنہ بچے کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے ماں باپ اسے چھوڑ کر دوسروں کے گن گانے لگیں۔ اس طرح اس کے نازک دل و دماغ پر کاری ضرب پڑتی ہے۔ آپ اپنے بچے کی بہترین عادات بھی دوسرے بچوں کو بتائیں اور پھر دوسرے بچوں کی اچھی عادات اپنے بچے کو محبت اور نرمی سے بتائیں اور یہ کبھی مت کہیں کہ اسے دیکھو وہ کتنا اچھا ہے، ایسا ہے ویسا ہے، بلکہ یہ الفاظ استعمال کریں کہ جو خوبیاں آپ نے کسی دوسرے بچے میں دیکھی ہیں ’’بیٹا میرا دل کرتا ہے کہ آپ میں بھی یہ خوبیاں دیکھوں۔ یوں بچے میں اچھا بننے کا رجحان پیدا ہو گا اور وہ آپ سے آپ کی محبت سے بدگمان نہیں ہوگا۔

کھیلوں کے انتخاب پر نظر

بظاہر یہ مضحکہ خیز بات لگتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ کا بچہ جیسے کھیل کھیلنا پسند کرتا ہے یا کھیلتا ہے، اس سے اس کی شخصیت اور فطرت کے رازوں سے آگاہ ہوا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر بچے کو کھلونے توڑنے پھوڑنے، ہر چیز کی شکل بگاڑنے یا لڑائی مارکٹائی والے کھیل پسند ہیں تو اس کی فطرت بھی ویسی ہی پنپتی ہے۔ جو بچے تعمیراتی یا مثبت کھیل کا رجحان رکھتے ہیں ان کی اپنی فطرت بھی محبت کرنے والی، تعمیری اور مثبت سوچ کی حامل زندگی گزارنے کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اپنے اردگرد رہنے والے کچھ لوگوں کا جائزہ لیں ان کی عادات و سکنات کا بغور مشاہدہ کریں اور پھر ان سے ان کے بچپن کے پسندیدہ کھیلوں کے بارے میں پوچھیں تو آپ ان کی فطرت اور ان کے بچپن کے کھیلوں کی آپس میں مماثلت دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ میرے ایک رشتے دار کو بچپن میں جانوروں پر تشدد کرنے، انھیں باندھ کر مارنے پیٹنے اور جب وہ درد سے چیختے چلاتے، تو خوش ہو کر تالیاں بجانے کا جنون تھا۔ افسوس کہ اس کے والدین نے کبھی غور نہیں کیا نہ ہی بچے کو منع کیا۔ ان کے نزدیک یہ صرف ایک بے ضرر کھیل تھا۔ لیکن وہی بچہ جب بڑا ہوا تو اس کی طبیعت میں جارحیت اور اذیت دے کر خوش ہونے والی فطرت نہ صرف مضبوط ہو چکی بلکہ مزید پروان چڑھ چکی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب وہ جانوروں کے بجائے یہ رویہ انسانوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے تھا۔ اپنی مرضی کرنا، دوسروں کی بے بسی پر خوشی محسوس کرنا، کسی کی ترقی کے راستے میں روڑے اٹکانا اور پھر تماشا دیکھنا، جیسے اس کے محبوب مشغلے تھے۔ ماں باپ کی تکلیف اور بیماری کو ہنسی اور چٹکیوں میں اڑا دینا، اس کی عادت تھی۔ اگر بچپن ہی میں اس کو ایسے گھنائونے تکلیف دہ کھیل سے سختی سے روکا ہوتا، سرزنش کی ہوتی، کسی کی تکلیف کا احساس دلایا ہوتا تو وہ اس کھیل کو عمر بھر جاری نہ رکھتا بلکہ ہو سکتا ہے اپنی طبیعت میں کچھ بہتری اور تبدیلی لاتا۔

اپنے بچوں کے کھیلوں پر نظر رکھیں، اگر آپ کو لگے کہ ان کے کھیل مثبت تعمیراتی قسم کے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں، لیکن اگر ذرا سا بھی شک ہو کہ بچہ منفی اور دوسروں کو تکلیف دینے والے کھیل کھیل کر خوشی محسوس کرتا ہے تو فوراً نوٹس لیں اور اُسے مناسب طریقے سے سمجھائیں اور حتیٰ الامکان کوشش کریں کہ وہ ایسے کھیلوں سے باز آ جائے۔ اس کے کھیل بدلنے میں اس کی مدد کریں اور غیرمحسوس طریقے سے اسے تفریحی لیکن تعمیری کھیلوں کی طرف راغب کریں۔ جانوروں سے محبت کرنا سکھائیں، چڑیوں پرندوں کا مشاہدہ کروائیں، اس کے ہاتھ سے دانہ دنکا کھلائیں اور نیکی گناہ کے فرق کو محبت سے سمجھائیں۔ جانوروں کو ہرگز تکلیف اور اذیت نہ پہنچانے دیں اس کے شعور میں یہ بات بٹھائیں کہ ان بے زبان جانوروں سے محبت کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ انھیں تکلیف پہنچانا گناہ کا باعث ہے جو بچہ جانوروں سے محبت کرتا ہے، وہ بڑا ہو کر نہایت حساس اور رحم دل جذبات کامالک ہوتا ہے۔ اس کی فطرت میں نرمی، خداترسی، ہمدردی اور دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت عام لوگوں سے زیادہ پیدا ہو جاتی ہے۔

دیانت داری سکھائیں

بچوں کو سکھائیں کہ دیانت داری، ایمان داری قابل قدر شے ہے۔ ہمارے آج کے معاشرے میں بچوں کو اس کی تربیت دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ ہم بچے کو تب تک کسی چیز کا درس نہیں دے سکتے جب تک ہم اور ہمارا معاشرہ عملی طور پر دیانت داری کی تصویر نہ ہو۔ جبکہ آج کل ہمارے معاشرے سے ایسی صفات مفقود ہوتی جا رہی ہیں۔ بچہ اپنے اردگرد جھوٹ، منافقت، بے اعتباری، دھوکادہی، چغلی، دوسروں کا احترام نہ کرنا، چیخنا چلانا اور ہیراپھیری کرنا جیسی چیزیں دیکھتا ہے تو وہ ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ایک طرف اس کے والدین اسے سمجھتے ہیں کہ ایمانداری سے رہنا چاہیے، جھوٹ نہیں بولنا چاہیے دوسری طرف بچے کو کہا جاتا ہے جائو دروازے پر جا کر کہو کہ پاپا گھر نہیں ہیں۔ ماں بچے کے سامنے اپنے ملنے جلنے والوں سے، ہر آئے گئے کے سامنے دوسروں کی برائیاں کرتی ہے، بچے کے معصوم ذہن پر اس کا بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور پھر ماں دھمکی دیتی ہے کہ خبردار کسی کو بتانا مت، پھر وہی ماں بچے کو جب ڈانٹ رہی ہوتی ہے کہ جھوٹ کیوں بولا، مجھ سے بات کیوں چھپائی، تو ظاہر ہے بچے کا ذہن منتشر ہو جاتا ہے کہ وہ کس بات کو اپنائے اور کس بات سے پرہیز کرے۔ لہٰذا دیانت داری ایمانداری کی شروعات خود اپنے آپ سے کریں۔ بچہ وہی کچھ سیکھے گا، کرے گا جو دیکھے گا۔

بچوں کو بزدل نہ بنائیں

کچھ والدین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو ہتھیلی کا چھالا بنائے رکھتے اور ان کا سایہ بن کر رہتے ہیں۔ انھیں زمانے کے سردوگرم اور پریشانیوں سے کوسوں دور رکھتے ہیں۔ والدین ہونے کے ناتے بظاہر یہ بات بُری نہیں مگر اس کے پس منظر میں جھانکیں اس کے نتائج پر غور کریں تو یہ بہت گمبھیر مسئلہ ہے۔ اس طرح آپ کا بچہ آسائشوں کا اس قدر عادی ہو جاتا ہے کہ پھر کچھ حاصل نہ کرنے پر، ناکام ہونے پر، زندگی کے کسی موڑ پر پریشانی آ جانے پر، اس کے اندر اس چیلنج سے لڑنے کی ہمت ہی نہیں رہتی۔ وہ آنے والی زندگی کو صرف خوشیوں اور پھولوں کی سیج ہی سمجھتا رہتا ہے۔ یوں نہ وہ زمانے کے سردوگرم کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ ہی مشکلوں سے نکلنے کی جدوجہد کرتا ہے بلکہ ہار مان کر مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ یہ آپ کی اپنے بچے سے محبت ہے یا دشمنی۔ اسے سکھائیں کہ زندگی اونچ نیچ کا نام ہے۔ جہاں خوشی ہے وہاں غم بھی ہے۔ جہاں کامیابی ہے وہاں ناکامی بھی آ سکتی ہے۔ وقت اور حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ لہٰذا اسے ذہنی طور پر ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیجیے۔ اسے باتوں باتوں میں سمجھائیں کہ زندگی میں چھوٹے موٹے دکھ اور محرومیاں آتی رہتی ہیں۔ ان سے لڑنا اور بہادری سے مقابلہ کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ایسے واقعات و تجربات وقتاًفوقتاً سنائیں جس میں آپ کو کبھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اپنی ہمت لگن اور جوش سے آپ نے نہ صرف اس پریشانی پر قابو پایا بلکہ آئندہ زندگی میں حاصل ہونے والی کئی کامیابیاں اس ایک ناکامی ہی کی مرہون منت تھیں۔

اگر یہ چھوٹی چھوٹی لیکن نہایت اہم اور بچے کی شخصیت کو مکمل طور پر بہترین بنانے والی چند بنیادی باتیں آپ ذرا سی مشقت سے بچے کی زندگی میں شامل کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑا ہو کر وہ ایک مفید کارآمد اچھی سوچ اور مثبت حکمت عملی رکھنے والا بہترین انسان نہ بن سکے۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles