30 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

حسینہ

 

حسینہ

تحریر: زہرہ جبیں

اس دور میں اور تو کسی شے کا قحط ہے یا نہیں البتہ رشتوں کا قحط ضرور ہے اور … لڑکیوں کے لیے۔ اس کے چرچے مدتوں سے سننے میں آ رہے تھے لیکن عملی طور پر ہمارا واسطہ اس سے تب ہی پڑا جب ہماری ایک عزیز سہیلی کی شب دیجور جیسی زلفوں میں چاندی بھرنے لگی۔ لڑکی کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں عرصۂ دراز سے جاری تھیں۔ ان کی اماں جی کی دوستی انھی معزز خواتین سے تھی جو دوسروں کے گھر بسانے کی فکر میں رہتی ہیں۔ چنانچہ ان کے ذریعے رشتے آنے لگے، ہر قسم کے اور ہر رنگ کے…
ہر رشتے کی سلسلہ جنبانی شروع ہوتے ہی بڑے دھوم دھڑکے کی خبریں موصول ہوتیں۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ بخیروعافیت ختم ہو جاتا۔ بعد میں پتا چلتا کہ یہ صاحب زادے نرے اُستاد تھے اور دنیا کے متعلق کچھ نہ جانتے یا فلاں صاحب دفتری چکروں کے تو خوب ماہر تھے لیکن سائنس و ٹیکنالوجی میں صفر ہیں۔ کبھی پتا چلتا کہ پچھلی دفعہ جنہیں بے نیل و مرام لوٹایا گیا تھا، وہ اور تو ہر لحاظ سے اپ ٹوڈیٹ تھے لیکن ادب سے انھیں دور کا واسطہ تک نہ تھا۔
یہ تو تھے ہماری سہیلی کے ذاتی اعتراضات، کئی لوگ ان کے والدین کی چشمِ بینا کی نذر ہو گئے۔ آنے والا کوئی سید تو تھا لیکن کچھ بناوٹی سا! کوئی مغل تھا لیکن جاٹ لگتا۔ آخر لوگوں کی یہ ریل پیل ٹوٹ گئی اور اب کئی سالوں سے کسی نوشہ کی راہ دیکھتے دیکھتے ہماری سہیلی کے گھر والوں کی آنکھیں دُکھنے کو آ گئی ہیں۔
پچھلی دفعہ شومئی قسمت ہم ان کے درِ دولت پر حاضر ہوئے تو اماں بی نے اس معاملے میں ہماری بے حسی و طوطا چشمی کو خوب کوسا:
دوست آں باشد کہ گیرو دست دوست
در پریشاں حالی و در ماندگی…
ہم نے زمیں میں گڑتے ہوئے عرض کی کہ ہم فرض دوستی کیونکہ ادا کر سکتے ہیں۔ بولیں…ضرورت رشتہ کے اشتہار اخباروں میں چھپوائو۔ تب سے ہم اخباروں میں فرضِ رشتہ کے اشتہارات چھپوارہے ہیں لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ شاید اس لیے کہ روزمرّہ اشتہار بہت مختصر لکھے جاتے ہیں۔ ان کے ذریعے ہماری سہیلی کا مؤقف و معیار لوگوں کو پتا نہیں چلتا۔ یہ معاملہ طویل ہو رہا ہے۔
چنانچہ اس سے پہلے کہ ہماری سہیلی کے مزید اُمیدواروں کو ناکام لوٹنا پڑے، ہم اپنی سہیلی کی ذات کے عقائد، نظریات کا خلاصہ بلا کم و کاست بیان کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہماری توقعات پر پورا اُترنے کی کوشش کر سکیں۔
اپنی سہیلی کی برتری کے بارے میں عرض یوں ہے کہ ایک تو وہ اشرف المخلوقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ دوسری صنف لطیف میں سے ہیں اور وہ بھی سپریم قسم کی… عام حالات میں ہم کہیں گے کہ وہ بیماریوں کے میدان کی دھنی ہیں۔ ہر دور میں انھیں کم و بیش دو درجن جسمانی و روحانی بیماریاں لاحق رہیں، جنہیں وہ نفس کی پاکیزگی کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ جسمانی امراض کچھ اس طرح کے ہیں:
۔ سارا سال زکام کے نت نئے حملے جاری رہتے ہیں۔
۔ دردِ سر صدغمِ دیرینہ ہے۔
۔ گیس ٹربل اور معدے کی گڑبڑ جب چاہے قافیہ تنگ کرتی ہے۔
۔ ریح کی ٹیسیں جسم کے مختلف حصوں سے اٹھتی ہیں۔
۔ دل کی دھڑکن کا کچھ اعتبار نہیں۔ کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی تیز ہو جاتی ہے اور کبھی بن کہے دل رُکنے لگتا ہے۔ ڈوبتا بھی بلاوجہ ہے۔
۔ دردِ گردہ دوبار ڈاکٹروں کے وارے نیارے کرا چکا۔ اس کی بغاوت کے اب بھی امکانات ہیں۔
۔ ٹانگیں اور پائوں بن بتائے سو جاتے ہیں۔
۔ آنکھیں دن کے وقت تارے دیکھتی ہیں۔
۔ جگر کے افعال مشکوک ہیں۔
۔ سوتے سوتے سانس رکنے لگتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور کیا بتائوں، جانے کس وقت کب کیا ہونے لگے۔
بیماریوں سے دن رات ساتھ کی وجہ سے وہ خود ڈاکٹر ہو چکی ہیں۔ شہر کے معرکتہ الاراحکما اور اطبا کے نقائص اور خوبیاں وہ انگلیوں پر گنوا سکتی ہیں۔ راہ چلتا ہوا جو شخص انھیں سلام کرے، وہ کیمسٹ ہوتا ہے اور جب کسی ٹیکسی میں بیٹھتی ہیں تو ڈرائیور صرف یہ پوچھتا ہے، ’’جناب کس ڈاکٹر کے پاس؟‘‘
نفسیاتی اعتبار سے ہماری سہیلی نرگسیت میں مبتلا ہیں۔ خودپسند اتنی کہ چاند بھی اُتر کر سامنے آئے تو یہ اسے آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھیں۔ ان کی نظر میں کوئی نہیں جچتا۔ لوگ باگ پیٹھ پیچھے ان کے نفسیاتی تجزیے تو بہت کرتے ہیں لیکن منہ در منہ آتے ہیں تو چھکے چھوٹ جاتےہیں۔ ان کے ماتھے پر ہر دم ایک سو گیارہ کا ہندسہ دیکھا جا سکتا ہے۔
بولتی ہیں تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں جو جھڑپوں کی طرح لگتے ہیں۔ اس لیے ہر شخص کو ان کا سامنا کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ چونکہ انٹیلی خبیشپا میں سے ہیں اس لیے وہ خود کو بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتیں۔ معیار بلاشبہ ان کا مائونٹ ایورسٹ سے کچھ اونچا ہی ہے۔ ہم نے کہا نا کہ اپنی دنیا میں مگن رہتی ہیں اور اس دنیا میں اچھے لوگوں کی طرح کتابیں ان کی رفیق و دمساز ہیں۔ اگر کہا جائے کہ یہی ان کا اوڑھنا اور یہی ان کا بچھونا نہیں تو غلط نہ ہوگا۔
یہ ان دنوں ہی میں اونچی اونچی کتابیں پڑھا کرتی تھیں جب ہم لوگ طفل مکتب تھے۔ پہلے پہل ان پر ترقی پسندی کا موڈ طاری ہوا تو انھوں نے نعرہ باز ادیبوں کو پڑھ ڈالا۔ ہم نے منٹو، عصمت، علی سردار جعفری اور پتا نہیں کس کس کے نام انھی سے سن کر یاد کیے تھے۔ قاسمی کو یہ ہمیشہ نظرانداز کر دیتیں کہ وہ ان کی نظر میں جرأت مند و جانباز نہ تھا۔ شاعروں کو پسند نہیں کرتیں کہ یہ محض باتونی اور خیالی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہم نے شروع میں انھی کو ہی مجاز اور ساحر کے شعر موقع بے موقع استعمال کرتے دیکھا۔ اور بحث نہ کی کہ یہ ہمیشہ کی کج بحث ہیں۔
پھر ترقی پسندوں کی صف ہی میں یہ ولی دکنی، جعفرزٹلی، میرامن، حیدربخش حیدر بلکہ امیرخسرو تک کو لے آئیں۔ ان کا رشتہ ناتا کچھ اِدھر سے جوڑ رہی تھیں۔ ایک بار ہم نے ایسا قدامت پسندی کا طعنہ دیا تو بولیں نہیں یہ گپ نہیں لیکن اس حقیقت کو ایک تھیسیس کے ذریعہ ثابت کروں گی۔ معلوم نہیں وہ تھیسیس کب مکمل ہو گا۔ اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا جا چکا ہے یا نہیں۔ بہرحال وہ مرزا رسوا کی بھی بڑی مداح ہیں۔ جنہوں نے امرائو جان ادا لکھی۔
مغربی ادب میں انھوں نے بہت سوں کو پڑھا ہے۔ کچھ کا ایسا اثر قبول کیا جو بعد میں جاتا رہا۔ جن سے نفرت کی جو بعد میں اچھے لگنے لگے۔ اس کے بعد ترقی پسند کے ضمن میں انھوں نے اشتراکیت کا بنظر غائر مطالعہ کر ڈالا۔ اسی ضمن میں معاشیات کی موٹی موٹی کتابیں پڑھ لیں۔ ان میں سے کچھ کتابیں انھوں نے دساور سے برآمد کی تھیں۔ اس سلسلے میں انھیں نطشے، ہیگل، کانٹ اور فرائیڈ اور جانے کس کس سے دلچسپی ہو گئی۔ یہیں کہیں سے وہ صوفیوں کی طرف پلٹیں۔ ان کے مطالعہ میں وہ ایسی ڈوبیں کہ اب تک نہ ابھر سکیں۔ اسی دوران چشمہ ان کی غزال سی آنکھوں پہ آن چڑھا۔
اب سچ تو یہ ہے کہ ان کے سامنے بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ وہ کبھی نفسیاتی و جنیاتی تجزیہ کرنے لگ جاتی ہیں کبھی صوفی ازم کی مار مارتی ہیں۔ اب ان کا کچھ کچھ رجحان سیاست کی طرف ہے۔ دیکھیے یہ کیا رنگ لاتا ہے۔ شبہ یوں پڑتا ہے جیسے اگلے انتخابات میں کچھ کر دکھانے کے ارادے ہیں۔ چونکہ مطالعہ ان کی ضرورت ہے، اس لیے انھیں شاید ہی وقت ملتا جو وہ کوئی اور مشغلہ بھی اپنا سکیں، ماسوائے کبھی دھوپ میں بیٹھ کر چھینکنے کے۔
اپنے آپ کو اسکالر سمجھنے سے پہلے انھوں نے متعدد مشاغل اپنائے اور ان کے ہر مشغلے کے آگے’ انگ‘ آتا تھا۔ دروغ ان کی اپنی گردن پر لیکن جیسا کہ وہ بتاتی ہیں بچپن میں وہ ٹکٹ’ کلیکٹنگ‘ کے پیچھے پڑی رہتی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ ’رائٹنگ‘ سے بھی دلچسپی تھی۔ میٹرک میں پہنچیں، نئے خون نے جوش مارا تو ’ایکسٹرا انرجی‘ کے مصرف کے لیے ’رائڈنگ‘ کو پسند کیا۔ چنانچہ انھوں نے البم پھاڑ ڈالی اور ٹکٹ بچوں میں تقسیم کر دیے۔ ’رائیڈنگ ‘میں وہ بڑی ماہر ہو گئی تھیں۔ کہتی ہیں ہالی وڈ کے کسی فلمساز نے مری میں اُچھلتے کودتے گھوڑے پر اکڑے ہوئے دیکھا تو اپنی کسی معرکہ آرا فلم میں انھیں کام کرنے کی دعوت دے ڈالی۔ واللہ عالم۔
بہرحال ہم اپنی سہیلی کے اس مشغلے کے متعلق کچھ نہیں کہیں گے کہ وہ میٹرک میں برقع اوڑھتی تھیں اور پھر ان کا گھر ایسے محلے میں تھا جہاں صرف چیونٹی ہی فرّاٹے بھر کر گزر سکتی ہے۔ پھر ایک دور آیا، وہ نازک اندام سجیلی سی لڑکی ہو گئیں۔ ان کےزرخیز ذہن نے سوچنا ہی سوچنا شروع کر دیا۔ اس دور کا یادگار مشغلہ ’پینٹنگ‘ ہے اور وہ بھی تجریدی۔ سنا ہے ان کے کئی اچھوتے شاہکار دوستوں کے گھروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ یہ خیالی لڑکیوں والی بات بھی انھیں زیادہ عرصہ پسند نہ رہی تو انھوں نے ’گارڈننگ‘ شروع کی۔
کچھ عرصہ پہلے انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ہارٹیکلچر کے منعقدہ پھولوں کے میلے میں جو گلاب کا پھول اوّل آیا، وہ انھیں کا پروردہ اور ان سے مستعار لیا گیا تھا۔ لوگ بھی تو ستم ظریف ہیں جو دوسروں کے بل بوتے پر شہرت حاصل کرتے ہیں اور یہ کہ ماڈرن باغبانی کے مصنف نے انھی کے خیالات چرائے ہیں۔ ’گارڈننگ‘ ہابی کے طور پر تو خوب رہی لیکن وہ جفاکشی و محنت سے کچھ مردانہ وار ہو گئیں۔ پھر یہ اس سے دست بردار ہو گئیں۔ اب ایک خوبصورت حادثے نے انھیں ’ ’سوئمنگ‘ کی طرف مائل کیا۔ اس میں انھوں نے خوب حوصلے نکالے۔ پنڈی میں انھوں نے کئی بار سوئمنگ کی سہولتیں نہ ہونے کی شکایت کی۔
آج کل یہ ’ڈائٹنگ‘ کر رہی ہیں۔ غضب ہوا کہ پچھلے دنوں ان کا وزن نوّے پونڈسے اکیانوے پونڈ ہوگیا۔ باقی ’سوٹنگ، میچنگ‘ تو ساتھ ہی ساتھ چلتی ہیں۔ ان کے پاس انگریزی رسالے اتنے آتے ہیں کہ اب ان کی اماں جان کا ردّی والے سے مستقل جھگڑا رہنے لگا ہے۔ یہ اور بات کہ اس قسم کی عام چیزیں یہ نمائشوں سے خرید لاتی ہیں۔ پچھلے سال سنا تھا کہ ہوم اکنامکس کالج میں یہ ’ہائوس کیپنگ‘ پر لیکچر دیا کریں گی۔ اب پتا نہیں اس خبر کا کیا بنا…
ان کی روزمرّہ زندگی صبح کی بیڈ ٹی سے شروع اور رات کی کافی پر ختم ہوتی ہے۔ بیڈ ٹی کے بعد اپنے کمرے کے خوابیدہ ماحول میں ریڈیو سیلون کی نشریات سنتی اور ساتھ ہی ساتھ کسی کتاب کا مطالعہ کرتی ہیں۔ آج کل یہ پامسٹری کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں اور ہمارے ہاتھ سمیت کئی ہاتھوں کے پرنٹ ’اسٹڈی‘ کر رہی ہیں۔ بیڈ ٹی میں دیر ہوجائے تو ان کے گھر میں تہلکہ مچ جاتا ہے… پھر لیٹے لیٹے لباس کا انتخاب کرتیں اور ہر سوٹ کے ساتھ میچنگ کلر کا فریم آنکھوں پر لگاتی ہیں۔ بیگ میں ردّ و بدل ہوتا ہے۔
بستر سے اُٹھنے سے پہلے کوئی بچہ حاضر ہوتا ہے جو زور زور سے تین چار بار مکے ان کے پٹھوں پر جماتا ہے۔ چند منٹوں بعد بیگ لہراتی ہوئی بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں۔ کہنے کو تو یہ ایک گاڑی بھی لے سکتی ہیں لیکن عام لوگوں والی باتیں کرنا انھیں پسند نہیں ورنہ انفرادیت کہاں رہے۔ کئی شامیں ان کی ادھر ادھر ادبی و ثقافتی اجتماعوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ واپسی پر کچھ دیر گرم پانی کے ٹب میں گزارتی ہیں۔ پھر دھوپ سینکتی اور
غور کرتی ہیں کہ زندگی کتنی جلد بیت رہی ہے۔

یہ کہانی بھی پڑھیں
https://shanurdu.com/saraab/
٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles