25 C
Lahore
Thursday, October 31, 2024

Book Store

ایک دلچسپ مکالمہ|Denmark

خوش و خرم لوگوں کا ملک 
ڈنمارک

نواں حصہ

ایک دلچسپ مکالمہ

طارق محمود مرزا، سڈنی

 اس وقت دوپہر ہو چکی تھی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ دو دن مسلسل سفر کرنے کے باوجود میں تازہ دم تھا اور نیند سے مغلوب نہیں ہوا تھا۔ تاہم چائے کی طلب ہو رہی تھی۔
عربی گروسری اسٹور کے بالمقابل ایک پاکستانی ریستوران تھا جس کا عمر رسیدہ باریش مالک ہمیں باہر مل گیا۔ وہ رمضان رفیق کا جاننے والا تھا۔ اس کی دعوت پر ہم اس کے ریستوران میں جا بیٹھے جو اس وقت گاہکوں سے خالی تھا۔ یہ صاحب سرد و گرم چشیدہ اور خالص کاروباری ذہنیت کے مالک تھے۔
رمضان صاحب نے مجھے ان کے بارے میں بتایا تو میں  نے اظہارِ مسرّت کیا۔ تاہم ان صاحب کی توجہ کہیں اور تھی۔ وہاں جو گفتگو ہوئی کچھ اس طرح سے تھی۔
رمضان رفیق :’’ یہ طارق مرزا صاحب ہیں۔ آج ہی آسٹریلیا سے تشریف لائے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آج شام ان کی کتاب کی تقریب رونمائی ہے۔
دُکاندار:’’ اچھی بات ہے۔ سناؤ ریسٹورنٹ کا دھندا کیسا جا رہا ہے؟ ویسے آج کل لوگ بخیل ہو گئے ہیں۔ پیسہ خرچ کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔
رمضان رفیق :’’ مرزا صاحب افسانہ نگار، سفرنامہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ ان  کے کالم پاکستان کے اخبارات میں چھپتے ہیں اور۔۔۔۔
دُ کاندار: ’’پاکستان کی تو میرے سامنے بات ہی نہ کرو۔ پورا ملک بے ایمانوں سے بھرا ہے۔ ویسے ابھی گرمیاں شروع ہو رہی ہیں۔ دھندا بہتر ہو جائے گا۔
محمد یاسین: ’’شام کی تقریب میں آ ئیں گے نا ؟‘‘
دکاندار : ’’کون سی تقریب؟ اوہ اچھا کتاب کی، یار مجھے کیا لینا دینا کتابوں سے۔ ویسے بھی پاکستان میں علامہ اقبال کے بعد کوئی اچھا شاعر نہیں آیا۔
رمضان رفیق : ’’طارق مرزا صاحب اور ان کے رفقا آسٹریلیا میں ادبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مرزا صاحب درجنوں ملکوں کی سیر کر چکے ہیں اور تین سفرنامے لکھ چکے ہیں۔
دکاندار :’’ یار آسٹریلیا کی کیا بات کر تے ہو۔ میں جب پہلی مرتبہ ڈنمارک آ رہا تھا تو ہم یورپ کے کئی ملکوں میں چھپتے چھپاتے، کبھی ٹرک میں بیٹھ کر اور کبھی پیدل سفر کر کے بارڈر کراس کرتے رہے۔

اس وقت میں  نے آسٹریلیا جانے کے بارے میں بھی سوچا۔
پھر سوچا کیا فائدہ اتنی دور جانے کا؟ ڈنمارک سے بہتر کوئی ملک نہیں۔
محمد یاسین: جناب آسٹریلیا بھی بہت اچھا ملک ہے اور موسم کے اعتبار سے ہم سے کہیں بہتر ہے۔
دُکاندار؛ چھوڑو آسٹریلیا ویلیا کو، بتاؤ تو رمضان میں دھندا کیسا رہے گا؟ ویسے میرے پاس افطاری کی کافی بُکنگ آ چکی ہیں۔ ہاں یاد آیا، فلاں کنجر آج کل کہاں ہے؟ کافی دنوں سے نظر نہیں آیا۔
رمضان رفیق  نے معذرت خواہانہ نظر سے میری طرف دیکھا اور کہا
جی مجھے معلوم نہیں۔ کافی دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔
دُکاندار۔
اور وہ فلاں بے غیرت آج کل کیا کر رہا ہے؟

اس بار رمضان رفیق اُٹھ کھڑا ہوا۔
ہمیں اجازت دیجیے۔ کئی جگہوں پر جانا ہے۔
دُکاندار (اُٹھتے ہوئے)
اچھا ٹھیک ہے۔ ریسٹورنٹ کے لیے گوشت فلاں اسٹور سے لیا کرو۔ کافی سستا ہے۔ جیسے گھٹیا لوگ ہیں، انہیں ویسا ہی کھلانا چاہیے۔
میرے چہرے پر کبیدہ خاطری دیکھ کر رمضان رفیق اور محمد یاسین دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ پیچھے سے دُکاندار کی آواز آئی، چا ئے تو پیتے جاتے۔
رمضان رفیق نے پیچھے مڑے بغیر کہا
پھر کبھی سہی۔

باہر نکل کر رمضان رمضان نے کہا
معذرت طارق صاحب! مجھے علم نہیں تھا کہ یہ اس قسم کی گفتگو کریں گے۔
میں  نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
پریشان نہ ہوں۔ ہماری دُنیا میں رنگ برنگے کردار موجود ہیں۔ ہمیں ان کا عادی ہونا چاہیے۔
محمد یاسین  نے کہا ۔’’ اگر معلوم ہوتا کہ وہ ایسی باتیں کریں گے تو ان کے پاس جاتے ہی نہیں ۔ویسے میری اُن سے زیادہ ملاقات نہیں ہے۔
رمضان رفیق نے بتایا۔ ’’ میں بھی پہلی مرتبہ ان کے پا س آیا ہوں حالانکہ وہ میرے ریستوران میں کئی مرتبہ آ چکے ہیں۔ میں  نے ہمیشہ ان کی خاطر مدارت کی ہے۔
میں  نے ہنستے ہوئے کہا ’’ تواضع تو انہوں  نے بھی کی ہے۔ ویسے آپ دونوں خواہ مخواہ پریشان ہیں۔ ایسے لوگ قابلِ رحم ہو تے ہیں ۔ ان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے پھر بھی ہر شے بلکہ اپنے آ پ سے بھی بیزار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے ذہن و دل میں بھر ی نفرت و کدورت ہے۔
اس زہریلے جذبے کی آ ڑ میں انہیں اپنے اردگرد پھیلی خوبصورتی نظر آتی ہے اور نہ دوست احباب اور عزیز و اقارب کی محبت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔
اگر دل اس زہریلی نفرت سے پاک ہو جائے تو کائنات کا ذرہ ذرہ حسین لگنے لگتا ہے۔ محبت کی خوشبو اور سرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کا من مہکنے لگتا ہے۔ ایسے میں دُنیا حسین اور اس میں بسنے والا ہر انسان اچھا لگنے لگتا ہے۔
رمضان رفیق بولا ’’ واہ! کیا خوبصورت بات کی ہے۔ مز ہ آ گیا ہے۔ یہی فرق ہے ایک قلمکار اور ایک عام شخص میں۔ آ پ نے چند جملوں میں مرض کی تشخیص بھی کی ہے اور اُس کا علاج بھی بتایا ہے۔ آ پ نے بالکل درست فرمایا ہے۔
میں جب بھی ڈیپریشن کا شکار ہوتا ہوں تو دوستوں کے پاس چلا آ تا ہوں۔ ان کے پاس بیٹھتا ہوں تو حوصلہ اور خوشی ملتی ہے اور میرا ذہن ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔
محمد یاسین بو لے ’’ خوش رہنے کے لیے بیرونی عوامل سے زیادہ انسان کے اندر کا اطمینان ضروری ہے۔ اگر انسان اندر سے خوش نہیں ہے تو بیرونی خوشی اس پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔
بالکل۔‘‘ گفتگو آگے بڑھاتے ہو ئے میں  نے کہا۔ ’’ زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

کوئی خوبصورت منظر، کسی بچے کی معصومیت بھری شرارت، کسی اپنے کی محبت بھری مسکراہٹ، دوست کی دوستی، نیلا آکاش، اُڑتے ہوئے پرندے، کھلتا پھول، بادِ صبا کا ایک جھونکا اور سفید بادلوں سمیت کئی منظر ہمارے دل میں مسرّت کی لہر دوڑا دیتے ہیں۔

یہ خوشبو سمیٹتے جائیں اور آگے پھیلاتے جائیں۔ سب سے بڑھ کر اس خالق کا شکر ادا کریں جس  نے یہ نعمتیں اور مسرتیں عطا کی ہیں۔ پھر دیکھیے انسان کا دامن خوشیوں سے بھر جا ئے گا۔ کیونکہ انسان جتنا شکرگزار ہوتا ہے خالق اسے مزید نوازتا چلا جاتا ہے۔
(باقی اگلی قسط میں پڑھیں)

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles