Home اردو ادب دنیا دل والے کی

دنیا دل والے کی

اسی لیے تو ارسطو جیسا دانشور دماغ پر دل کو ترجیح دیتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ تمام خیالات کا مرکز دل ہے۔ دماغ تو بس جسم کو اعتدال پر رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ دل اور دماغ کی کشمکش میں اگر آپ دل کی مانیں گے تو کبھی خسارے میں نہیں رہیں گے۔ دماغ مشینیں بناتا ہے٠ دل انسان بناتا ہے جو دنیا کی چھے ارب کی آبادی میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

0
678

مزاح

مرضِ قلب کا نشانہ بنے ایک لکھاری کی خوش کن اٹھکیلیاں 

ڈاکٹر ایس ایم معین قریش

 

کاروں کے انجن کی طرح آج کل انسانی دل کی ’’اوور ہالنگ‘‘ بھی عام ہے۔ جس طرح اوورہالنگ کے بعد کاریں فراٹے بھرنے لگتی ہیں اسی طرح جو دل مرمت سے قبل مفلس کے چراغ کی طرح شام سے کچھ بجھا سا رہتا تھا ازاں بعد اتنا ’’فنکشنل‘‘ ہو جاتا ہے کہ دل والا پکار اُٹھتا ہے؎
ایک تو شام رنگ رنگ پھر مرے خواب رنگ رنگ
آج تو اک جہان ہے میرے پروں کے درمیاں
کراچی میں یوں تو بہت سی تنظیمیں اور انجمنیں مختلف مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہیں لیکن ان میں ’’اوپن ہارٹ کلب‘‘ انفرادی نوعیت کا حامل ہے۔
اس نے (تھوڑے سے تصرف کے ساتھ) اقبالؔ کے اس مصرع کو سچ ثابت کر دیا ہے؏
آ ملے ’’ہیں‘‘ سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
دوسرے الفاظ میں یہ اُن زندہ دلوں کی تنظیم ہے جو لاہور کے علاوہ کراچی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے ارکان نے زندہ دلی کو سنجیدگی کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ زندگی گزارنے کا ایک نیا ڈھنگ اپنایا ہے۔ کچھ پسندیدہ باتیں، کچھ ناپسندیدہ احتیاطیں، کچھ مستقل دوائیں اور کچھ ہلکی ورزشیں مل کر یہ ڈھنگ تشکیل دیتی ہیں جو زندگی کو پہلے سے زیادہ خوشگوار اور کارآمد بنا دیتا ہے۔
آج کل سیاسی اور اشتہاری نعروں کا چلن ہے۔ اگر ہم سے کہا جائے تو ہم ’’اوپن ہارٹ کلب‘‘ کے لیے یہ نعرہ تجویز کریں گے… فکر کرے ہماری بلا!
کہتے ہیں کہ ایک دن شہنشاہ اکبر جھروکے سے رعایا کو اپنا ’’لائیو‘‘ درشن کرا رہا تھا اور بیربل ساتھ بیٹھا تھا۔ اتنے میں سڑک پر ایک سانڈ بدک گیا۔ لوگ بدحواس ہو کر بھاگے لیکن ایک نوجوان نے جو گاجر کھا رہا تھا، گاجر پھینک کر اس کا پیچھا کیا اور اسے دُم سے پکڑ کر قابو میں کر لیا۔
بادشاہ نے بیربل سے کہا ’’یہ نوجوان اتنا طاقتور لگتا تو نہ تھا پھر کیسے اس نے اتنا بڑا کام کر لیا؟‘‘ بیربل نے جواب دیا ’’حضور یہ بے فکرا ہے۔‘‘
بادشاہ نے اس تھیوری سے اتفاق نہیں کیا۔
بیربل نے نوجوان کو دربار میں بلوا کر اچھی تنخواہ پر ملازم رکھ لیا اور ڈیوٹی یہ لگائی کہ ایک مسجد میں روزانہ شام کو چراغ روشن کر دیا کرے۔ کھانا شاہی باورچی خانے سے ملنے لگا لیکن شرط یہ تھی کہ فرض کی ادائیگی میں ایک دن بھی ناغہ یا تاخیر ہوئی تو سخت سزا ملے گی۔ اب اُسے صبح سے یہ فکر دامن گیر رہتی کہ شام کو دیا جلانا ہے۔ ایک ماہ بعد بیربل نے ’’جھروکا درشن‘‘ کے وقت اس نوجوان کو محل کے باہر بھیجا اور ایک سانڈ کا بچہ مشتعل کر کے سڑک پر چھُڑوا دیا۔
نوجوان نے حسب سابق اسے دُم سے روکنا چاہا مگر وہ اس کے ساتھ گھسٹتا چلا گیا۔
یہ تو دل کی جراحت کا ایک نفسیاتی پہلو تھا۔ لیکن ’’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ کی ایک حالیہ اشاعت میں امریکا میں کیے گئے ایک سروے کے نتائج شائع ہوئے ہیں۔ ان کی رُو سے وہ لوگ زیادہ عرصے زندہ رہتے ہیں جو دل کے آپریشن سے گزر چکے ہیں، بہ نسبت ان کےجو عارضۂ قلب میں تو مبتلا ہیں لیکن دواؤں سےکام چلا رہے ہیں۔
ایک اور خوشگوار پہلو بھی قابل ذکر ہے۔ جب آس پاس کی ’’رکاوٹیں‘‘ دور ہو جائیں تو حضرت دل اپنے ذاتی معاملات زیادہ آزادی اور آسانی سے نمٹا سکیں گے۔ اوپن ہارٹ سرجری کے بعد انسان کی کارکردگی ’’سماجی شعبے‘‘ میں دو چند ہو جاتی ہے۔ اور اگر فریق ثانی بھی اس منزل کو عبور کر چکا ہے تو پھر تصور کیجیے کہ ایک ہی سطح پر ’’ہارٹ ٹو ہارٹ‘‘ ابلاغ کتنا مکمل اور مؤثر ہو گا۔
ہمارے ایک شناسا جو ’’اوپن ہارٹ کلب‘‘ کے ممبر ہیں، جب بھی ہمیں ملتے ہیں ہمیں کچھ ایسی ٹپس دے جاتے ہیں جن پر عمل نہ کر کے ہم بہت سے ضمنی نقصانات سے محفوظ ہیں۔ وہ ہمیں آتشِ نمرود میں بے خوف و خطر کود جانے کا مشورہ دینے سے پہلے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پاس ان جیسا ’’ری کنڈیشنڈ‘‘ دل نہیں جو اس قسم کی مہم جوئی کا متحمل ہو سکے۔
ہمارے یہ دوست کبھی کوئی غیر سنجیدہ یا ناقابل عمل بات نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہلکے پھلکے دل کے ساتھ جب وہ گفتگو کریں تو ان کی زبان سے دل جھڑتے ہیں۔ ہمارا مطلب ہے پھول جھڑتے ہیں۔ ہر بات باون تولے پاؤرتی کی ہوتی ہے (محاورے کو اعشاری نظام میں آپ خود تبدیل کر لیجیے)۔ ان کا دعویٰ ہے؎
سمجھو پتھر کی تم لکیر اُسے
جو ہماری زبان سے نکلا
اسی لیے تو ارسطو جیسا دانشور دماغ پر دل کو ترجیح دیتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ تمام خیالات کا مرکز دل ہے۔ دماغ تو بس جسم کو اعتدال پر رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ دل اور دماغ کی کشمکش میں اگر آپ دل کی مانیں گے تو کبھی خسارے میں نہیں رہیں گے۔ دماغ مشینیں بناتا ہے٠ دل انسان بناتا ہے جو دنیا کی چھے ارب کی آبادی میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر لوگ اپنےدل سے محض پمپنگ مشین کا کام لیتے ہیں۔ کاروبار حیات میں دماغ پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہی نے یہ ساری خرابی پیدا کی ہے کہ صحیح اور غلط کی تمیز مٹتی جا رہی ہے۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ اگر مسٹر بش (جو پوری دنیا کے لیے ’’مسٹرپُش‘‘ بنے ہوئے تھے) دماغ کے بجائے دل سے کام لیتے تو افغانستان کا المیہ پیش نہ آتا۔
امریکی حکمران اب بھی اگر اپنے سینے میں موجود اس خوبصورت بیضوی عضو سے رجوع کر لیں تو عراقیوں کو امن و چین کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع مرحمت فرما دیں گے۔
فی الحال ان کے دماغ کا منصوبہ یہ لگتا ہے کہ وہ امریکی مسلمانوں (بعدازاں دنیا بھر کے مسلمانوں) کی سانسوں پر بھی ’’رجسٹریشن‘‘ کی پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں۔
اوپن ہارٹ کلب وہ واحد تنظیم ہے جس کی خواہش ہے کہ اس کے ارکان کی تعداد کم سے کم رہے۔ ایک تو دل سے سوچنےو الے ویسے ہی سکون کی نیند سوتے ہیں۔ دل اگر ’’مرمت شدہ‘‘ ہے تو پھر نیند کوئی مسئلہ نہیں رہتی بشرطیکہ آپ اپنی راتیں تماشوں اور مشاعروں میں ضائع نہ کریں (آج کل دونوں ہی فرق کم ہی رہ گیا ہے)۔
کلب والے مرغن غذاؤں اور بسیار خوری سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں تو اس میں بھی بڑی مصلحت ہے۔ سامنے کی بات ہے، جس کے پاس وزن کی فراوانی ہو گی اس کے پاس سُستی، کاہلی (اور مکانی طور پر ایک تیسری متعلقہ خصوصیت) بھی وافر مقدار میں ہو گی۔ اس کے برعکس اسمارٹ جسامت کے حامل افراد اپنے فرائض مکمل اعتماد، چستی اور مستعدی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔
اپنے مشہور ’’مقدمہ‘‘ میں علامہ ابن خلدون نے یہ بات زیادہ کھانے والے اور کم کھانے والے جانوروں کی مثال سے یوں واضح کی ہے کہ گائے، بھینس، اونٹ اور گینڈا خوب کھاتے ہیں اور یہ جسمانی طور پر بھدے اور سُست الوجود ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس شیر، چیتا اور ہرن کم خوراک ہیں لیکن قدرت کی طرف سے انھیں خوبصورتی، طاقت اور پھرتیلے پن کی خوبیاں عطا ہوئی ہیں۔
بعض لوگوں کا دل ان کی طبعی عمر سے بڑا ہوتا ہے۔ ہماری بیگم اکثر جب ہم کو مثفقانہ نصیحتیں کرنے لگتی ہیں تو ہمیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ ان کے پیروں کے نیچے ہماری نہیں ہمارے بچوں کی جنت ہے۔ دوسری طرف بعض لوگوں کی ’’قلبی عمر‘‘ ایک خاص سطح پر آ کر رُک جاتی ہے۔
برطانیہ میں ایک خاتون نے اپنی دوست کو بتایا:
’’میرا باس ایک زبردست انسان ہے۔ اگرچہ ۷۵ سال کا بوڑھا ہے لیکن دل ۲۳ سال کی لڑکی کا رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ کام کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔‘‘
یہ تو بڑی اچھی بات ہے‘‘ اس کی دوست نے کہا ’’میرے باس کے سینے میں پتھر کا دل ہے۔ لیکن تم یہ بتاؤ کہ تم نے اپنے باس کے دل کی عمر اور جنس کا اتنا صحیح انداز کس طرح کر لیا؟‘‘
خاتون نے جواب دیا ’’یہ بات اپنے تبدیلی قلب کے آپریشن کے بعد اس نے مجھے خود بتائی۔‘‘
…………
(اس مضمون کی اشاعت کے کچھ عرصے بعد راقم الحروف نے بھی اپنے دل کے ’’تعمیر نو‘‘ کے مرحلے سے گزر کر اوپن ہارٹ کلب کی ممبرشپ ’’کھلے دل کے ساتھ‘‘ قبول کر لی۔)

NO COMMENTS