فسانہ کہیں جسے
منیر احمد شیخ
انسانی حیات اتفاقات کا مجموعہ نہیں بلکہ کاتبِ تقدیر بڑے حسنِ تدبّر سے خیال کو حقیقت میں ڈھالنے کی قدرت رکھتا ہے
وہ کل راستے میں مجھے ملا اور چھُوٹتے ہی بولا
’’برسوں سے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ آپ کہاں چلے گئے تھے؟ مجھے آپ کی بڑی تلاش رہی۔‘‘
’’خیریت تو ہے؟‘‘ میں نےاس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے پوچھا۔
’’ویسے تو خیریت ہی ہے۔ آپ کو افسانے لکھنے کا شوق ہے۔ میں آپ کو ایک ایسی بات سنانا چاہتا ہوں جو افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ آپ کو حقیقت سے بھی کوئی دلچسپی ہے؟‘‘
’’اس حد تک جس حد تک وہ افسانے کا موضوع بن سکے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لیکن افسانہ، افسانہ ہوتا ہے اور حقیقت، حقیقت ہوتی ہے۔‘‘
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔‘‘
’’مطلب یہ ہے کہ حقیقت تو واردات ہوتی ہے، سنگین واقعہ کی طرح سخت جسے آپ دیکھتے، محسوس کرتے اور تجربہ کرتے ہیں اور افسانہ …؟ میں کیا عرض کروں آپ بہتر جانتے ہیں کہ افسانہ کیا ہوتا ہے۔‘‘
’’حقیقت اگر سچ ہے تو افسانہ سب سے بڑا سچ ہے۔ حقیقت افسانے کی نچلی سطح ہے۔ اگر آپ محض نچلی سطح پر ہی رہنا قبول کرلیں تو افسانے تک کبھی نہیں پہنچ پاتے۔‘‘
وہ یہ بات سن کر قدرے تذبذب میں پڑ گیا۔ پھر کہا کہ یہ تو فلسفے کی بات آپ نے شروع کر دی۔ سڑک پر یہ گفتگو نہیں ہو سکتی۔ آیئے سامنے ریستوران میں چل کر بیٹھتے ہیں۔ چائے کی ایک پیالی بھی ہو جائے گی۔ ہم دونوں ریستوران میں جا بیٹھے اور چائے ہمارے درمیان تھی۔
’’ہاں تو اب کہیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’کہنا کیا چاہتا ہوں یہ تو مجھے پتا ہے مگر آپ یہ توقع نہ رکھیں کہ میں آپ کے جواب میں فیصلہ صادر کروں گا۔ فلسفے اور ادب میں فیصلے صادر نہیں ہوا کرتے۔‘‘
’’تو پھر فیصلے کہاں صادر ہوتے ہیں؟‘‘
’’اس حقیقی دنیا میں جس کا ذکر آپ کر رہے، لیکن باوجود اس بات کے یہ فیصلے شروع دنیا سے دیے جا رہے ہیں۔ کوئی فیصلہ ایسا نہیں جو حتمی ہو۔ جو فیصلہ آج ہوتا ہے کل اُس سے مختلف فیصلہ ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آخری سچائی کا کہیں کوئی سراغ نہیں۔‘‘
’’تو پھر سچائی افسانوں میں کیسے مل جاتی ہے۔‘‘
’’افسانہ اور کہانی آخری سچائی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ یہ واقعہ وقت کا پابند ہے مگر افسانہ وقت کی قید سے آگے نکل جاتا ہے۔ دیکھیے نا آدمی مر جاتا ہے۔ یعنی ایک حقیقت اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے مگر وہ زندگی جو آدمی نے گزاری، اس کی کہانی باقی رہ جاتی ہے۔‘‘
’’تو اس کا مطلب ہوا، جو باقی رہ جاتا ہے وہ کہانی ہے۔‘‘
’’جی ہاں اور باقی رہنا اللہ کی صفت ہے اور کہانی اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔‘‘
’’اور پھر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک کہانی ایسی ہے جو مسلسل لکھی جا رہی ہے اور ابھی تک اس کے اختتام کا انتظار ہے اور جو آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔‘‘
’’کون سی کہانی ہے جو ختم ہونے پہ نہیں آ رہی۔‘‘
’’یہ کہانی دنیاکی کہانی ہے لیکن ابھی تک نامکمل ہے۔‘‘
’’یہ مکمل کیوں نہیں ہو رہی۔ کیا اس کے پلاٹ بنانے والے کے ذہن میں اس کا کوئی انجام نہیں۔‘‘
’’نہیں، یہ بات نہیں۔ جو کہانی شروع کرے، وہ اسے کہیں نہ کہیں ختم بھی کرتا ہے مگر وہ لوگ جو اس کہانی کے کردار ہیں وہ دلچسپ چیز ہوتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اپنے لیے کوئی نہ کوئی خاکہ بناتے ہیں، پھر اسی کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ زندگی اس خاکے کے مطابق بسر ہو مگر ہوتا یہ ہے کہ خاکہ کچھ بنتا ہے اور زندگی اس خاکے کے بالکل برعکس بسر ہو جاتی ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ انسان کے ساتھ لطیفے ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
میں اس سوال پہ ہنس دیا اور کہا:
’’لطیفے سمجھ لیجیے لیکن یہ بات ہے کہ حقیقت اور افسانہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ حقیقت کا وجود نہ ہو تو افسانہ نہیں بنتا۔ جہاں افسانہ نہیں بنتا وہاں لطیفہ رہ جاتا ہے۔‘‘
’’لیکن میں جو آپ کو دو روز سے ڈھونڈ رہا ہوں، میں آپ کو ایک حقیقی واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ آپ چاہیں تو اس حقیقت کا افسانہ بنا لیں۔ لیکن بہرحال یہ ہے ایسی حقیقت جو میں اُگل دینا چاہتا ہوں۔ میں اس کا افسانہ بنا سکتا تو ضرور بناتا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ آپ اس میں جھوٹ سچ ڈال کے اس کی کہانی بنا لیں گے۔‘‘
’’جھوٹ سچ مت کہیے۔ افسانے میں جو بات جھوٹ نظر آئے وہی تو اس کی سچی بات ہوتی ہے۔ اگر افسانوی سچ کا وجود نہ ہوتا تو کوئی آدمی دنیا میں خاکہ ہی نہ بنا سکتا۔ اچھا تو بیان فرمایئے۔‘‘
میرے کہنے پر کہ بیان فرمایئے، اس نے گہرا سانس لیا اور کہا:
’’یہ حادثہ میری زندگی میں مجھ پر گزرا ہے۔ لوگوں سے ذکر کرتا ہوں تو کوئی اس پر یقین نہیں کرتا۔ پھر میں نے سوچا کہ افسانہ نگار سے اس کا ذکر کرنا چاہیے۔ وہ اسے ضرور مان لے گا۔ نہ جانے مجھے کیوں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جو بات دنیا والے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں افسانہ کہنے والے اس پہ یقین کر لیں گے۔ جب کوئی یقین کرنے والا آس پاس نہیں رہا تو میں نے آپ سے ملنے کا سوچا۔ بات یہ ہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس بیسویں صدی میں کسی ایسی بات کا یقین نہیں کرتے جس کو عقل ماننے سے انکار کر دے۔
’’میری عقل مجھ سے کہتی ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا اور مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔ چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ یہ اپنے اپنے محور کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کے راستے متعین ہیں اور یہ اتنی زبردست سائنس ہے جو کسی بہت اعلیٰ و ارفع عقل نے بنائی۔ بالکل اسی انداز پر انسان کی زندگی ہے۔ انسان جو بھی کام کرتا ہے اس میں انسانی سوچ اور پلاننگ شامل ہوتی ہے۔ زندگی بڑی ”دو ضرب دو“ قسم کی چیز ہے۔ اس میں معجزے نہیں ہوتے، کوئی ایسی بات نہیں ہو سکتی کہ جس کے لیے آپ نے کچھ نہیں کیا مگر وہ ہو جائے۔
’’میری اپنی مثال ہی لیجیے۔ ایک غریب مزدور کے گھر پیدا ہوا۔ بڑا ہوا تو پتا چلا کہ محنت کروں گا تو دنیا میں روٹی کھانے کے قابل ہو سکوں گا۔ امتحان دیے…اسکولوں کے امتحان، کالجوں کے امتحان، یونیورسٹیوں کے امتحان اور ملازمتوں کے امتحان۔ ان امتحانوں میں سے جب نکلا تو مجھے ایک ملازمت مل گئی۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ میری ملازمت کے پیچھے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے سب سے بڑا سبب میری محنت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ محنت کبھی ضائع نہیں ہوا کرتی۔
البتہ کچھ کہانیاں پچھلے کچھ عرصہ میں ایسی بھی پڑھیں جن کے پڑھنے سے یہ پتا چلتا تھا کہ محنت کبھی کبھی بالکل ضائع بھی ہو جاتی ہے۔ میں نے اس پر بہت سر مارا کہ محنت نے اگر ضائع ہو جانا ہے تو پھر وہ کی ہی کیوں جاتی ہے۔ اس کا جواب میری عقل سے نہیں ملا۔ میں بہت پریشان رہا۔ اپنی زندگی کی ساری گھُتیاں عقل کے راستے سے سلجھانے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے یہ سارے افسانے جھوٹ لگے جن میں خلافِ عقل اور خلافِ واقعہ باتیں لکھی ہوئی تھیں تاآنکہ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔
’’میں ان دنوں ایک دفتر میں ملازم تھا۔ ہر روز صبح صبح مجھے دفتر پہنچنے کے لیے ایک بارونق سڑک پر سے گزرنا پڑتا تھا۔ میرے پاس ان دنوں فقط ایک سائیکل تھی جو میری واحد غمخوار تھی۔ ایک دن جب میں تیز تیز سائیکل چلاتے اس پررونق سڑک پر سے گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ سڑک کنارے ایک لڑکی کتابیں بغل میں تھامے کھڑی ہے۔ غالباً کسی تانگے کے انتظار میں۔اس وقت ابھی رکشا اور ٹیکسی نہیں چلا تھا۔ اسے دیکھتے ہیں میری سائیکل کی رفتار سست پڑ گئی اور میرا جی چاہا کہ میں بریک لگا دوں۔ وہ ایسی تھی کہ دیکھتے ہی میرے جی میں اُتر گئی۔ سرخ و سفید چہرہ جس پہ عجیب تمکنت تھی اور آنکھوں میں اُداسی جھلکتی تھی۔
’’میں زیادہ کیا بیان کروں، آپ افسانہ نگار ہیں۔ کسی لڑکی کے حسن کو بیان کرنا آپ کا کام ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جب میری سائیکل اس کے قریب ہوئی تو وہ مجھے اتنی اچھی لگی کہ بے اختیار میرے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ یہ میری بیوی کیوں نہیں ہو سکتی؟ یہ جملہ زبان سے اس طرح ادا ہوا کہ میرے کانوں نے میرے جی کی خواہش کو سن لیا۔ میں چونکا کہ یہ کیا بات میں نے اپنے آپ کو سنا دی۔ اتنی دیر میں سائیکل اس لڑکی سے ایک فرلانگ آگے نکل آئی تھی اور دفتر کا گیٹ سامنے نظر آ رہا تھا۔
’’اس واقعے کو سات سال گزر گئے۔ ان سات برسوں میں مجھے پھر وہ کہیں نظر نہ آئی۔ حالانکہ میں بھی اس شہر میں رہتا تھا اور اسی پُررونق سڑک سے دفتر جایا کرتا۔ آہستہ آہستہ یہ واقعہ ذہن سے بالکل اُتر گیا اور اُتر ہی جانا تھا کہ اس کی حقیقت بھی اتنی تھی کہ ایک اجنبی لڑکی سرِ راہ کھڑی وقت کی وقت اچھی لگی۔ پھر ایک خواہش نے جنم لیا اور وہ اگرچہ دل کی گہرائیوں سے اُٹھی تھی مگر فوری نوعیت کی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی پتا نہیں وہ اجنبی کون تھی؟ کہاں رہتی تھی؟ کس خاندان سے تعلق رکھتی تھی؟
’’پھر یہ بھی کہ وہ اتنی خوبصورت ہے تو ضرور اب تک اس کے خاندان میں کوئی شہزادہ اسے منتخب کر چکا ہو گا! میں اُسے اور وہ مجھے نہیں جانتی۔ صرف میں نے ہی اسے دیکھا تھا۔ اسے تو یہ خبر بھی نہیں ہوئی کہ کوئی اس کی طرف دیکھ بھی رہا ہے یا نہیں۔ اور یہ کہ کس نے دیکھا ہے کہ جی ہی جی میں کتنی بڑی خواہش دیکھنے والے جی میں مچل کے رہ گئی۔ اسے اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ میں حسب معمول اس دن دفتر میں کام کرتا رہا۔ واپس جب گھر لوٹا تو بس اتنا تھا کہ آج ذرا کی ذرا ایک بجلی سی آنکھوں کے سامنے کوندی اور ایک حسرت سینے میں تڑپ اُٹھی تھی۔ دوسری صبح یہ حادثہ ذہن سے اتر گیا۔
’’سات سال گزر گئے۔ سات سال کہنے کو بہت ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو پھر کہیں یاد آئی اور نہ کہیں نظر پڑی۔ ان سات سالوں میں دفتر جاتے ہوئے سرِراہ سیکڑوں اور ہزاروں لڑکیاں نظر آتی رہیں مگر کسی کو دیکھ کر پھر یہ جملہ بے اختیار میری زبان پہ نہ آیا کہ ان میں سے کوئی لڑکی ’’میری بیوی کیوں نہیں بن سکتی۔‘‘ جیسے یہ جملہ صرف اسی لڑکی کے لیے تھا جو ایک صبح سڑک کنارے کھڑی تھی اور جس کی آنکھوں میں اداسی جھلکتی تھی۔
’’تو صاحب سات سال بیت گئے۔ اتنے عرصے میں تو ہم نے پاکستان بنا لیا تھا۔ خاصا عرصہ ہوتا ہے سات سال۔ اس دوران میں دو ملازمتیں چھوڑ کے تیسری جگہ ملازم ہو گیا۔ ملک کے حالات بھی کافی بدل چکے تھے۔ سات سال پہلے لڑکیوں کی شادی ہونے لگتی تھی تو ماں باپ یہ بھی نہ پوچھتے کہ میاں کیا تنخواہ لیتے ہو؟ کوئی نیک، سادہ سا کھانے کمانے والا لڑکا نظر آجاتا تو اللہ کا نام لے کر لڑکی کے ہاتھ پیلے کر دیتے اور شادی ہو جاتی۔ ان سات برسوں میں یہ فرق پڑ گیا کہ اب ماں باپ تو کُجا لڑکی خود سب سے پہلا یہ سوال کرتی کہ یہ صاحب جو مجھ سے شادی فرمانا چاہتے ہیں ان کی پہچان اور کریکٹر کیا ہے؟ چنانچہ لڑکے اپنی جوانی کیریکٹر کی نذر کرتے اور پھر شادی کا نام لیتے۔
معاف کیجیے میں کیا بات کر رہا تھا اور کہاں بھٹک گیا۔ میں یہ بتلا رہا تھا کہ سات سالوں میں زمانہ بڑا بدل گیا اور میں اپنی تیسری ملازمت چھوڑ کے ایک اور شہر میں چوتھی ملازمت پہ آ گیا۔ یہ شہر بڑا ٹھنڈا اور اداس تھا۔ یہاں آ کر میں زیادہ اداس رہنے لگا مگر نوکری کا قصہ تھا۔ جگہ ویران ہو یا اُداس اگر وہاں سے رزق ملے تو وہی بہتر ہوتی ہے۔ اسے مجبوری سمجھ لیجیے یا کچھ اور مگر واقعہ یہی ہے کہ جس جگہ پر رزق لکھا گیا ہو، اُسے بُرا نہیں کہنا چاہیے۔‘‘
اچانک اس نے پوچھا، ’’آپ میری باتوں سے کہیں بور تو نہیں ہونے لگے؟‘‘
میں نے کہا، ’’ہرگز نہیں۔‘‘
اُس نے بیرے کو بلایا اور کہا کہ خالی پیالیاں اُٹھا کے لے جائو اور نئی چائے لے کر آؤ۔ تھوڑی دیر بعد مذید چائے آ گئی۔ اس نے چائے کی پیالی اُٹھائی اور چسکیاں بھرنے لگا۔
میں نے کہا، ’’بیان جاری ہے۔‘‘
اس نے چائے پیتے ہوئے کہا! ’’ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ مجبوری تھی اور اس شہر میں اب ہر حال میں رہنا تھا۔ اکیلے رہتے رہتے جب میں بے حد ویران ہونے لگا تو میں نے کہا آخر یہاں بھی تو آدمی بستے ہیں۔ دوست بنانے چاہئیں۔ وقت کٹنے کا کوئی تو بہانہ ہو۔ ایسے تو اکیلے مر جائیں گے اور کمیٹی والے لاش کو ٹھکانے لگاتے پھریں گے۔
’’میں نے لوگوں سے ملنا شروع کر دیا۔ ایک شخص مجھے شکل سے ہی بڑا اچھا لگا۔ میں نے سوچا کہ اس سے دوستی ہونی چاہیے۔ میں دوستی کے معاملے میں شکل کا بڑا قائل ہوں۔ بعض لوگ مجھے پہلی نظر ہی میں شکل سے زہر لگتے ہیں اور میرا ان سے کلام کرنے کو جی نہیں چاہتا بلکہ یہ جی چاہتا ہے انھیں ماروں۔ خیر تو وہ آدمی جو مجھے شکل سے بھا گیا تھا، بڑا گداز اور ملائم آدمی نکلا۔ اس نے مجھے گھر پہ آنے کی دعوت دی۔ ہم سیاسیات اور حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے رہے۔
’’پتا چلا کہ سیاست اس آدمی کا سب سے پسندیدہ موضوع ہے۔ اس کی بیوی اس عرصے میں جمائیاں لیتی رہی۔ میں نے درمیان میں دو ایک مرتبہ موضوع بدلنے کی کوشش کی کہ کوئی ایسی بات چھیڑی جائے کہ وہ نیک بخت بھی اس میں شریک ہو سکے لیکن میں اور اس کی بیوی، دونوں کوشش کے باوجود بھی موضوعِ گفتگو نہ بدل سکے۔ جب بھی کوئی بات موسم یا بچوں کی شروع ہوتی تو وہ سیاسی آدمی بیچ میں بول اُٹھتا۔ ”اچھا تو اور سنائیے، کشمیر ہمیں مل رہا ہے یا نہیں۔“
میں ایسے سوال کا کیا جواب دے سکتا تھا۔ لیکن وہ اصرار کرتا، بھائی صاحب کچھ تو بتلائیے۔ بیس برس ہونے کو آ رہے ہیں۔ تخت یا تختہ کچھ تو ہو۔ میں اس کا جواب دینے کے بجائے اس کی بیوی کی طرف متوجہ ہوتا اور کہتا، ہاں تو آپ سنائیے، بچے کو اسکول میں داخل کب کروا رہی ہیں۔ وہ ابھی اس کا جواب دینے ہی لگتی تھی کہ وہ بھلا آدمی بول اُٹھتا، ’’او جی بچے اسکول میں داخل ہوتے ہی رہتے ہیں۔ آپ کشمیر کا بتلائیے۔ کیا ہم اپنی زندگی میں کبھی سری نگر جائیں گے۔‘‘
میں سری نگر جانے کے بجائے اس سے اجازت لے کے چلا آتا۔ ہر مرتبہ ایسے ہی ہوتا۔ وہ آخر میں ہمیشہ سری نگر کے بارے میں پوچھتا اور میں اس بات پر اجازت طلب کر لیتا لیکن اس کے باوجود جو چیز مجھے اس شخص کی پسند تھی وہ اس کی موہنی طبیعت تھی۔ گفتگو میں کوئی گہری سیاسی بات تو نہیں ہوتی تھی مگر اس شخص کا جوش و خروش اور کھُب کر بات کرنے کا پُر خلوص انداز مجھے بہت اچھا لگتا۔
’’میں کہاں سے کس طرف کو آن نکلا۔ لا حول ولا قوۃ۔ آپ مجھے ٹوک کیوں نہیں دیتے کہ میاں پٹڑی سے اُتر رہے ہو؟ معاف کیجیے، اب کے میں کوشش کروں گا کہ ادھر ادھر کی کوئی بات نہ ہو۔ ہاں تو وہ میاں بیوی بڑے نیک، پیارے اور بھلے لوگ تھے۔ میں نے خدا کا شکر کیا کہ اس شہر میں ایک گھر تو ایسا ہے جہاں کچھ دیر بیٹھ کر میں اپنی اُکتا دینے والی تنہائی کو بھول سکتا ہوں۔ اچھا تو ایک روز کیا ہوا۔ سردیوں کی ایک شام جب میں اپنے آپ کو بھولنے کے لیے ان کے گھر گیا تو دیکھتا ہوں کہ ایک سرخ و سپید رنگ کی لڑکی ڈرائنگ روم میں ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔ ایک عجب تمکنت اس لڑکی کے چہرے پر تھی۔ مگر آنکھوں میں اداسیاں تھیں۔
’’مجھے یوں لگا جیسے یہ لڑکی ایک دم میرے جی میں اُتر گئی ہو۔ وہ مجھے بہت اچھی لگی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اگر یہ یہیں کہیں رہتی ہے تو اس سے دوستی کی جائے۔ میرے دوست کی بیوی نے اس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا، ’’میری پیاری سہیلی ہیں۔‘‘ سہیلی کا نام اس نے جان بوجھ کر نہیں بتلایا یا وہ بھول گئی۔ میں بھی تکلف میں نام پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ میں نے اس لڑکی کو سلام کیا اور مجھے یوں لگا جیسے میں نروس ہو رہا ہوں۔
’’میں نے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اتنا گھبرا کیوں رہے ہو۔ یہ تو لونڈوں بالوں کا کام ہے جو زندگی میں پہلی مرتبہ کسی لڑکی کو قریب سے دیکھتے ہیں تو ان کے ہوش سلامت نہیں رہتے مگر میری اس نصیحت کا مجھ پہ کوئی اثر نہ ہوا اور میں بدستور نروس ہوتا چلا گیا۔ اب سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس لڑکی سے کیا بات شروع کی جائے۔ موسم کا ذکر سب سے محتاط موضوع تھا۔ میں نے کہا، ’’موسم بہت سرد ہو رہا ہے۔‘‘
اس نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘
پھر خاموشی اور سردی ہمارے درمیان آ گئی۔ میری گھبراہٹ میں اضافہ ہو گیا۔
میں نے پوچھا، ’’سردی کا علاج آپ کیا کرتی ہیں؟‘‘
’’علاج! علاج تو ڈاکٹروں کے پاس ہوتا ہے۔ ہمیں جب سردی زیادہ لگے تو ہم لحاف اوڑھ لیتے ہیں۔ پھر بھی لگتی رہے تو انگیٹھی یا ہیٹر لگا لیتے ہیں۔‘‘
’’لیکن میرے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ میں کچھ بھی جتن کر لوں میرے پیر لحاف میں بھی ٹھنڈے ہی رہتے ہیں۔‘‘
وہ یہ سن کر زور سے کھلکھلا پڑی اور میں نے گھبرا کر جلدی سے اجازت مانگی اور وہاں سے ایک دم بھاگ نکلا۔ میں نے گھر پہنچنے کے بعد اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ کل سے اپنے دوست کے ہاں ہرگز نہیں جائوں گا مگر جب دوسرے دن پھر شام آئی تو میں نے دیکھا کہ میں اپنے خودساختہ عہد کے باوجود اپنے دوست کے مکان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔
بیٹھک میں داخل ہوا تو وہ وہاں موجود تھی۔ میرے دوست کی بیوی نے بتلایا کہ یہ آج واپس جا رہی ہیں۔ میں نے اس لڑکی کو دیکھا اور اس سے ایسے مخاطب ہوا جیسے کوئی اپنوں سے ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا: ’’کہاں واپس جا رہی ہیں؟ میں تو سمجھتا تھا آپ اسی شہر میں رہتی ہیں۔‘‘
اس نے کہا، ’’نہیں میں تو صرف اپنی سہیلی سے ملنے یہاں آئی تھی۔ یہ مجھے بے حد عزیز ہے۔ اس سے وعدہ کیا تھا کہ اب کے سردیوں میں کچھ دن تمہارے پاس گزارنے آئوں گی۔ سو وعدہ ہم نے پورا کر دیا۔ اب گھر کو واپسی ہے۔‘‘
میں نےپوچھا، ’’تو کیا گھر آپ کا یہاں نہیں ۔‘‘
اس نے کہا ،’’نہیں۔ میں تو یہاں نہیں رہتی۔‘‘ پھر اس نے اس شہر کا نام بتلایا۔
’’اس شہر میں تو میں نے سات سال ملازمت کی ہے۔‘‘ میں نے اسے اطلاع دیتے ہوئے بتلایا۔
’’سات سال۔‘‘ اس نے حیرانی کا اظہار کیا۔ ’’سات سال تو خاصا عرصہ ہوتا ہے۔ میں نے تو وہیں تعلیم حاصل کی اور اب وہیں ملازمت بھی کرتی ہوں۔‘‘
یک لخت مجھے یوں محسوس ہوا جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ میں نے اس کے چہرے پر غور سے دیکھا تو مجھے یاد آنے لگا کہ یہ تو وہی لڑکی ہے جو ایک صبح سڑک کنارے بغل میں کتابیں دبائے غالباً کسی تانگے کا انتظار کر رہی تھی اور جسے دیکھتے ہی میرے اندر ایک خواہش نے جنم لیا تھا، پھر وہ خواہش آواز کی صورت میرے کانوں میں سنائی دی تھی۔ یہ تو وہی لڑکی ہے، سرخ و سفید رنگ، چہرے پر عجب تمکنت اور آنکھوں میں گہری اداسی۔ سات سال گزرنے کے بعد بھی اس کے اندر کی لڑکی اب بھی زندہ تھی۔ لیکن ملازمت سے وہ قدرے خاتون سی دکھائی دینے لگی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں ہاتھ پائوں ایک دم سے یخ ہونے لگے ہیں۔
اس نے کہا، ’’رات آپ نے بہت دلچسپ بات کہی۔ ہم دونوں دیر تک آپ کی سردی کا علاج سوچتی رہیں۔‘‘ مجھے پسینہ آنے لگا۔ ڈرتے ڈرتے میں نے کہا۔’ ’تو کون سی دوا تجویز کی ہے آپ نے؟‘‘
’’دوا یہ تجویز کی ہے۔‘‘ وہ رک گئی جیسے وہ کہنے سے ہچکچائی ہو۔
میں نے کہا، ’’ہاں ہاں ضرور کہیے۔ میں برا نہیں مانوں گا۔‘‘
اس نے کہا، ’’یہ دوا میں نے اکیلے نہیں ہم دونوں نے مل کر تجویز کی ہے‘‘ اور اپنی سہیلی کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
’’کیوں ٹھیک ہے نا۔‘‘ اس نے کہا، ’’ہاں، بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔‘‘
’’تو حضور دوا یہ ہے کہ آپ کو فوراً شادی کر لینی چاہیے۔ لڑکی آپ جیسی کہیں گے ہم دونوں اس کو تلاش کرنے میں آپ کی مدد کریں گے۔ میری بہت اچھی اچھی سہیلیاں ہیں۔ آپ کو ان سے ملوایا بھی جا سکتا ہے۔ مگر پہلے آپ یہ مان لیں کہ آپ کی بیماری کا کوئی اور علاج نہیں۔‘‘
’’میں نے اپنےتئیں سوچا کہ یہ بہت معقول بات ہے۔ یہ دونوں سہیلیاں سمجھ دار اور پڑھی لکھی ہیں اور ان کی سہیلیاں بھی ایسی ہی ہوں گی۔مگر یہ دعوت مجھے بہت عجیب سی لگی۔ میں نے اسے کہا:
’’اب شادی کروا کے کیا کرنا۔ کچھ گزر گئی ہے باقی بھی بیت جائے گی۔‘‘
وہ فوراً بولی: ’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ زندگی گزارنی ہی ہے تو ڈھنگ سے گزارئیے اور آپ کا علاج بھی صرف یہی ہے۔‘‘ اس پر دونوں سہیلیاں پھر زور سے کھلکھلا پڑیں۔
میں پہلی شام سے بھی زیادہ نروس ہو گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے دونوں مل کے مجھ پہ ہنسی ہیں۔ مجھے بے حد غصہ آیا۔ اس غصے میں، میَں نے اس سے ایسا سوال کر دیا جو ہمارے یہاں نہیں کیا جاتا۔ میں نے اس لڑکی سے پوچھا:
’’شادی اگر ہر بیماری کا علاج ہے تو آپ کیوں نہیں کرتیں؟‘‘
’’میری شادی؟ ہوں! میں نے تو عمر بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ یہ میرا مسئلہ ہی نہیں اور نہ ہی میں نے کبھی اس پر کبھی سوچا ہے۔‘‘
یہ بات مجھے بہت عجیب سی لگی۔ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’دوسرے لفظوں میں آپ اپنے آپ سے بھاگ رہی ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ نے اتنا بڑا فیصلہ کیوں کیا؟ مجھے بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آپ کی شادی کیوں نہیں ہونی چاہیے۔ یہ فرار ہے۔ آپ خوف زدہ ہیں اور اپنے اندر ہی پناہ لے رہی ہیں۔ اس خول سے ذرا باہر نکلیے اور دیکھیے کہ آپ کا ہاتھ تھامنے کو ہزاروں مچلتے ہوں گے اور جو علاج آپ نے میرے لیے تجویز فرمایا وہ آپ کا بھی ہے۔ بیماری ہم دونوں کی ایک جیسی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اس کا علاج باہر ڈھونڈتا پھرتا ہوں اور آپ اس کے لیے اپنے آپ میں پناہ لے رہی ہیں۔‘‘
’’میری باتوں کو اس نے غور سے سنا اور میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ فکرمند سا ہو گیا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی آنکھوں کی اداسی اور گہری ہو گئی۔ اس کے سرخ و سفید چہرے پر سفیدی کی جھلک بھی پہلی مرتبہ نمودار ہوئی۔ میں خوش تھا کہ میں نے اس کے اندر کا چور پکڑ لیا ہے مگر جلد ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولی:
’’خیر چھوڑیے میرے قصےکو، میرا ہر فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا ہے۔ آپ مجھے جانتے نہیں، میرے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور میں اپنے فیصلوں کے جواز کسی کے آگے پیش نہیں کیا کرتی۔‘‘
’’میں خاموش ہوگیا۔ سردی اور خاموشی ایک مرتبہ پھر ہمارے درمیان پھیل گئی۔ اس نے کہا:
’’تو کل میں واپس جا رہی ہوں۔ آپ کو اپنی بیماری سے دلچسپی ہو تو آ جائیے گا۔ میں اپنی ایک بڑی عزیز سہیلی سے آپ کو ملوائوں گی۔ نہایت سگھڑ، شائستہ اور پڑھی لکھی لڑکی ہے۔ وہ جس کی بیوی بنے گی اس کی زندگی سنور جائے گی۔ آپ آئیے اور خود مل کے فیصلہ کیجیے۔‘‘
’’میں نے وعدہ کیا کہ میں ضرور آؤں گا۔ اگر آپ کسی لڑکی کی اتنی تعریف کر رہی ہیں تو اسے ضرور ملنا چاہیے۔ میں نے اجازت لی اور گھر چلا آیا۔ وہ واپس اپنے گھر چلی گئی اور میں رات بھر سوچتا رہا کہ یہ لڑکی اپنی شادی کی بات سے کیوں کتراتی ہے؟ دیکھنے میں خوبصورت ہے، مذاق نہایت ستھرا ہے، گفتگو میں گرم جوشی ہے۔ پھر اس نے اتنا بڑا فیصلہ کیوں کر لیا؟ نہ جانے کیوں اسی وقت مجھے یہ خیال آیا کہ کاش یہ لڑکی اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے ایک مرتبہ مجھ سے تو پوچھ لیتی۔ پھر خود ہی اپنی اس ناممکن خواہش پر ہنس پڑا۔
’’اگلے دن میں نے اس کے دیے ہوئے پتے پر خط لکھا کہ آنے والی اتوار کو میں حسب وعدہ ضرور آئوں گا اور آپ کی سہیلی سے ملاقات ہو گی۔ آخر میں یہ جملہ میرے قلم سے بے اختیار نکل گیا کہ آپ واپس تو چلی گئیں مگر اپنی خوشبو یہاں چھوڑ گئی ہیں۔ یہ خوشبو میرے اردگرد چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دل کے قریب ایک گلاب کھِلا ہے۔“
’’اس کا جواب آیا کہ اگلی اتوار کو آپ ضرور آئیے۔ میں نے اپنی سہیلی سے وقت طے کر لیا ہے۔ خوشبو کے ضمن میں بس اتنا لکھا کہ اس خوشبو کے دھوکے میں نہ آئیے۔ اس کا وجود کوئی نہیں۔ ورنہ خواہ مخواہ پریشان ہوتے رہیں گے۔
میں اگلی اتوار کو اس شہر میں پہنچا۔ اس سے ملاقات ہوئی۔ اس نے اپنے گھر میں سب سے میرا تعارف کروایا اور کہا کہ یہی وہ صاحب ہیں جن کے رشتے کی بات میں اپنی سہیلی سے طے کر رہی ہوں۔ سب گھر والوں نے مسکراتی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھا۔ خاص طور پر اس کی چھوٹی بہن کی آنکھ میں بہت شرارت تھی۔ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر نہیں کہہ سکتی۔
مجھے یوں لگا جیسے میں کوئی نمائش کی چیز ہوں۔ ایک عجیب الخلقت آدمی جسے سبھی دیکھ دیکھ کر متجسس ہو رہے ہیں۔ خیر وہ مجھے اپنی سہیلی کے یہاں لے گئی۔ شرارتی نظروں والی چھوٹی بہن بھی ہمارے ساتھ تھی۔ اس کی سہیلی کے گھر والے پہلے سے منتظر تھے۔ تعارف ہوا۔ ہم گہرے صوفوں میں دھنس کر بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی سہیلی واقعی ایسی تھی جیسا اس نے مجھے بتلایا۔ چہرے مُہرے ہی سے وہ سلیقہ مند، شستہ، سگھڑ اور ملائم دکھائی دی۔ باوقار اور حیادار لڑکی تھی اور باشعور بیوی بننے کی صلاحیتیں اس کے چہرے سے بخوبی ٹپکتی تھیں۔ تھوڑی دیر ہم بیٹھے، چائے پی اور چلے آئے۔ واپس تانگے پر آتےہوئے اس نے مجھے پوچھا:
’’تو کہیے، آپ کو پسند آئی میری سہیلی؟‘‘
میں خاموش رہا۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا اس سوال کا کیا جواب دوں۔
’’آپ چپ سے ہو گئے ہیں۔ کیا بہت ہی اچھی لگی آپ کو؟‘‘ میں پھر بھی چپ تھا۔
’’بولتے کیوں نہیں؟ پسند آئی ہے تو کہیے ہاں۔ نہیں پسند تو کہہ دیجیے پسند نہیں۔‘‘
’’میں کیا عرض کروں؟ وہ اچھی لڑکی ہے مگر کیا کروں کہ آپ سب سے اچھی ہیں۔‘‘
وہ یہ جواب سن کر چپ ہو گئی۔ میں بھی چپ تھا۔ سارا راستہ ہم نے پھر کوئی بات نہیں کی۔ جب تانگہ اس کے گھر کے سامنے رکا اور میں اُسے دروازے پر اُتار کے اجازت لینے لگا تو میں نے دیکھا کہ اس نے جلدی سے اپنا چہرہ مجھ سے موڑ لیا۔ ایک آنسو ڈھلک کر اس کے عارض پہ بہ گیا۔ وہ فوراً اندر چلی گئی اور دروازہ زور سے بند ہو گیا۔
اس واقعے کے پورے دو مہینے بعد وہ میری بیوی بن کر میرے گھر آ گئی۔
٭٭٭
چائے کی پیالی ایک بار پھر خالی ہو چکی تھی مگر اس میں سے ہلکا ہلکا دھواں اب بھی اُٹھ رہا تھا۔ بات ختم کرتے ہی اس نے کہا: ”آپ یقین نہیں کریں گے کہ اس زمانے میں اب بھی ایسا ہوتا ہے۔ خدا شاہد ہے کہ یہ واقعہ میرے ساتھ گزرا ہے۔ مجھے خود اب تک اس پر یقین نہیں آتا۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ حقیقت نہیں، خواب ہے…افسانہ ہے۔
مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ لڑکی جسے میں نے سرِراہ ایک صبح بغل میں کتابیں دبائے کھڑے دیکھا، جو سرخ و سفید رنگ کی تھی، جس کی آنکھوں میں اداسی چھپی ہوئی تھی اور جسے دیکھ کر ایک موہوم سی خواہش میرے سینے میں تڑپ اُٹھی تھی کہ جس کا اتا پتا مجھے معلوم نہ تھا۔ وہ کون ہے؟ کہاں رہتی ہے؟ کس خاندان سے ہے؟ اب وہی لڑکی میری بیوی ہے۔ وہ جملہ جو میرے منہ سے یونہی نکل گیا تھا وہ میری خواہش تھی جو اب حقیقت بن کر میرے گھر کے درودیوار کو روشن کیے ہوئے ہے۔ میں نے یہ واقعہ آپ کو سنا دیا۔ حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ آگے آپ کی مرضی… چاہیں تو بے شک اس کا فسانہ بنا لیں۔“