19 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

دوبئی ایئرپورٹ اورگڈریا


باب ششم

دوبئی ایئرپورٹ اورگڈریا

محمد توفیق

کھلاڑی جاپان میں
کھلاڑی جاپان میں

صبح ایئرپورٹ ہوٹل میں ناشتہ یوں سرو کیا گیا گویا فقیروں میں لنگر تقسیم کیا جا رہا ہے۔
ایک ہی پلیٹ میں بدمزہ آملیٹ، جلا ہُوا توس، چٹکی بھر کالی مرچ و نمک اور ڈسپوز ایبل کپ میں چائے،
”کھاؤ خصماں نوں!“۔
لگ بھگ تین کروڑ کی آبادی والے اس ”کاسموپولیٹن سٹی“ پر لسانیت اور تعصب کے زہریلے سائے  نے
”عروس البلاد کراچی“ کی مانگ ہی اُجاڑ کر رکھ دی ہے۔
یہ ایک ”کچرا کنڈی، جرائم کی آماجگاہ، بدحالی کی تصویر“ بن کر رہ گیا ہے۔
طرفہ تماشا یہ کہ احساس زیاں تک نہیں۔ ہمارا حال تو اب اس شخص سا ہے, جو ڈاکٹر کے پاس گیا تو اپنی تکلیف ڈاکٹر کو بتانے سے پہلے وعدہ لیا کہ اس کی بیماری کا مذاق نہیں اُڑائے گا۔
ڈاکٹر نے یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہو گی۔ اب اس  نے اپنی ٹانگ دکھائی۔
ڈاکٹر ششدر رہ گیا۔ اتنی دبلی پتلی ٹانگ ڈاکٹر  نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔
بالکل نحیف و نزار! ماچس کی تیلی جیسی! یوں لگتا تھا، ہاتھ ذرا زور سے لگ گیا تو ٹوٹ جائے گی۔
ڈاکٹر کہنے لگا۔ ”میں سمجھ گیا ہوں، تم چاہتے ہو تمہاری ٹانگ نارمل ہو جائے، اتنی نحیف اتنی دبلی پتلی نہ رہے۔“ مریض نے سر دائیں بائیں ہلایا اور کہنے لگا۔
”نہیں ڈاکٹر صاحب! یہ سوج گئی ہے“۔
ہمارا بھی یہی حال ہے، ذہنیتیں کم مایہ ہیں اور زعم ارجمندی کا ہے۔
صبح ساڑھے گیارہ بجے ٹیم دوبئی ایئر کی پرواز سے روانہ ہوئی۔
فیصل ساغر کے بقول:
نکل سکو تو نکل جاؤ یار جیسے بھی
یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ہے ویسے بھی
دوبئی ایئر کا عملہ کسی بھی عالمی ایئر لائن کی طرح خوش اخلاق اور چابکدست ہے۔
ہر ملک کی ایئر ہوسٹس در پردہ اس ملک کی نمائندہ خاتون ہوتی ہے۔
ہر چند دوبئی ایئر والوں نے وسط ایشیا کے ممالک کی خوبرو خواتین کا ذخیرہ اکٹھا کر رکھا ہے۔
یہ قتالہ گورے شہابی رنگ پہ کالے گیسوؤں کے سائے اور کالی پلکوں کے سائبان لیے واقعی خرمنِ ہستی پھونک سکتی ہیں۔
خوش شکل اور رس سے بھری بھری رنگت، ایسی جیسے انگلی ڈبونے سے خون نکل آئے۔
خو ش قسمتی سے” لیگ “ سیٹ مل گئی ہے۔
میرے دائیں جانب درمیانی نشست پر مسکین صورت، ادھیڑ عمر، خشخشی ڈاڑھی اور منشیوں جیسی گول سفید ٹوپی والا مسافر جو بغیر استری شلوار قمیض پہنے ہُوئے ہے، نجانے کیوں “Comfortable” نہیں ہے۔
بار بار اپنی برقعہ پوش اہلیہ سے، جس کی گود میں نومولود بھی ہے، اپنا حجاب درست کرنے کا کہہ رہا ہے۔
اس نے مجھ سے دوبئی امیگریشن کا سوالنامہ پر کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
بدوملہی کامولوی اللہ دتہ بارہ برس سے دوبئی میں مزدوری کرتا ہے۔
پہلی مرتبہ اپنی زوجہ کو دوبئی لے جا رہا ہے، لیکن ان کیبے پردگی کے اندیشے  نے اسے غیر ضروری طور پر بے چین کر رکھا ہے۔
اسے دیکھ کر مجھے دنیا ٹی وی کے پروگرام ”حسبِ حال“ کے وہ لڑاکا خرانٹ بڑے میاں یاد آ رہے ہیں جو ”لطیفی صاحب“ کے روپ میں بار بار اہلیہ کو ”گھونگھٹ نکالنے “کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔
اس کی اہلیہ شریف عورت ہے، ہدایات کی بلا چوں چراں تعمیل کر رہی ہے۔
ویسے ممتاز مفتی کے بقول ”دنیا کی سب سے بور چیز شریف عورت ہے“۔
دنیا بھر کے مردوں کا یہی وتیرہ ہے کہ وہ دوسری عورتوں کے ضمن میں تو ”نیشنالائیزیشن“ کے قائل ہیں، لیکن اپنے معاملات میں ”نجی ملکیت“ کے اصول پر سختی سے عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
ایئر ہوسٹس ٹرالی کے نچلے خانے میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں ٹھونسنے کے لیے جھکی، تو مولوی اللہ دتہ دیدے پھاڑ کر اس کے زیر وبم کا طواف کرنے لگا۔
مرد بھی کیا عجیب شے ہے، بیوی میں طوائف جیسی ادائیں اور طوائف میں بیوی جیسی وفاداری تلاش کرتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں، عورت راز نہیں رکھ سکتی۔
میں کہتا ہوں اگر عورت راز نہ رکھتی تو معاشرے کا کوئی مرد منہ دکھانے کے قابل نہ ہوتا۔
”مطار دبئی الدولی“ دنیا کا مصروف ترین ایئر پورٹ، اب احاطۂ نظر میں ہے۔
ایئر بس “A-380” اور بوئنگ 777 کا محبوب اور امارات ایئر کا گھر! 7200 ایکڑ پر محیط اوسطاً 88 ملین مسافر، 2.65ملین ٹن کارگو ”ڈھونے“ والے اس ایئر پورٹ سے مختلف ممالک کی 140 ایئر لائنز 270 مقامات کے لیے اڑان بھرتی ہیں، جس میں سے 83% “Connecting Flights”ہوتی ہیں۔
یہ ایئر پورٹ 26.7 بلین ڈالر سالانہ کا زرِمبادلہ کماتا ہے، جو دوبئی کے مجموعی “GDP” کا 27% ہے۔
دوبئی ایئر پورٹ زندگی کی تمام تر سہولتوں، رنگینیوں اور عیاشیوں سے بھرپور ایک مکمل شہر ہے، لیکن کرونا کے باعث وہاں کی روایتی چہل پہل مفقود!
بین الاقوامی ہوائی اڈؔوں کے اندر ایک مکمل دنیا ہوتی ہے۔
یہ کشتگانِ روزگار کے پڑاؤ ہوتے ہیں اور پچھلی دنیا اور اگلی دنیاؤں کے درمیان ” عالمِ برزخ“ کا کام کرتے ہیں۔
یہاں اسرائیل کا ننھا منا جہاز ”لنگر انداز“ دیکھ کر کھلاڑی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔
اب تو امارات سمیت بیشتر خلیجی اور عرب ممالک نے اسرائیل سے نہ صرف سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں، بلکہ اسرائیلی شہریوں کو شہریت بھی آفر کر رہے ہیں۔
مصر، اردن اور قطر نے پہل کی ہے۔ اب یہ زمینی حقائق سے آگاہی ہے یا ماضی پر” مٹی پا“ کر وقت میں آگے بڑھنے کی شعوری کوشش! یوں بھی کہا جاتا ہے ”ایک دور کی حماقت، دوسرے دور کی دانائی ہوتی ہے“۔
کوئی بھلا سوچ بھی سکتا تھا کہ سعودی عرب میں کسینو، نائٹ کلب، فیشن ویک، میوزک کنسرٹ اور موٹر گراں پری منعقد ہو سکتی ہے؟
وہ تبلیغی جماعت پر پابندی کی جانب جا رہے ہیں،
جبکہ ہم “More Catholic then the Pope” بنتے جا رہے ہیں۔
سعودی معاشرہ اندر سے تبدیل ہو رہا ہے، تیل پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے۔
ایک ہم ہیں کہ ”ریاست ِ مدینہ“ کی گردان الاپے چلے جا رہے ہیں۔
شہزادہ سلمان کے مطابق آئندہ پانچ برسوں میں مشرق وسطیٰ دنیا کا نیا یورپ بن کے اُبھرے گا۔
سعودی عرب میں جتنی تیزی سے سینما، کسینو کھل رہے اور کنسرٹ ہو رہے ہیں، حج سے واپسی پرحاجی صاحبان صفائیاں دیا کریں گے کہ ”قسمے !میں صرف حج ای کیتا اے“۔
پاکستان کے ایرانی اینالسٹ آرمین گولکر نے یہاں ٹیم کو جوائن کر لیا ہے۔
ہمارے پاس ایتھوپین ایئر لائن کی اگلی پرواز پکڑنے کے لیے دو گھنٹے کا ”ٹرانزٹ پیریڈ “ہے۔
ٹرمینل ون پہنچ کر بورڈنگ کارڈ لیا اور کچھ دیر سستائے۔
ارے ہاں یاد آیا، دوبئی واہ کے دوست خاص نفیس طبع جناب صلاح الدین کا بھی تو مستقر ہے۔
ابھی چند روز قبل واہ آمد ہوئی تو ”ایڈی ڈاس“ کا خوبصورت ہڈ والا بیگی ٹریک سوٹ اور لیدر فریم بلیک دیدہ زیب “Rayban”
کا چشمہ تحفے میں پیش کیا۔ ٹرانزٹ میں نہ ہوتے تو ان کی صحبت میں دوبئی سے بھی دو دو ہاتھ ہو جاتے۔ خیر یار زندہ، صحبت باقی!
دوبئی ایئر کی پرواز کے دوران ایک کپ چائے کے ساتھ مختصر سا جو چکن سینڈوچ سرو کیا گیا تھا، وہ کھلاڑیوں کے لیے”اونٹ کے منہ میں زیرہ“ ثابت ہُوا۔
آنتیں قل ھواللہ پڑھ رہی ہیں سو ہم  نے میکڈونلڈ پر ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ کرونا کے پیشِ نظراب راہ داری کے طول و عرض میں کرسی میزیں بچھائی گئی ہیں۔
میں  نے میکڈونلڈ کے پھس پھسے برگرز کے بجائے “KFC” کے بروسٹ چکن کو ترجیح دینا چاہی مگر کھلاڑیوں کی اکثریت میکڈونلڈ کے حق میں ہے، سو مجھےبھی بیعت کرنا پڑی۔
ٹیم ایک قبیلے کی مانند ہوتی ہے، سب کی ہاں میں ہاں ملانا ہی خوشگوار سفر کی ضمانت ہے مگر یہ بدمزہ پھیکا برگر زہر مار کرتے حسرت یا شاید حسد سے “KFC” کے اونچے بنچ پر بیٹھے بھالو نما امریکی ”ڈشکرے“ کو تکتا رہا جس کے بازوؤں پر ٹیٹو بنے ہُوئے ہیں۔
وہ مرغی کو اس غیر شائستگی سے ”چک“ مار رہا ہے، جس طرح انگریزی فلموں میں سفاک بادشاہوں کو دکھایا جاتا ہے۔
اس نے ناک میں” کوکا“ پہن رکھا ہے جو اس کے ہم جنس ہونے کا ثبوت ہے۔
ایسا کوکا دراصل ہم جنسوں کا شناختی نشان ہوتا ہے۔
منٹو لکھتا ہے ”مرد کی نظروں کو اگر عورت کے دیدار کا بھوکا رکھا گیا تو وہ اپنے ہم جنسوں ہی میں اس کا عکس دیکھنے کی کوشش کرے گا“۔
ایمل خان پاکستان والی بال کے کھلاڑیوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کو پاکستان والی بال کا شاہد آفریدی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
یہاں پاکستان ٹیم کے باوقار اور متین کپتان سے مختصراً گفتگو ہوئی۔
اس کی پیدائش گاؤں بارہ بندائی، تحصیل کبل، ڈسٹرکٹ سوات میں 10 اگست 1990ء کو ہوئی، قد چھے فٹ سات انچ جبکہ وزن 81 کلوگرام ہے۔
اکتیس سالہ یہ نوجوان کھلاڑی مینگورہ سوات سے تعلق رکھتا ہے۔
2005ء میں والی بال کا آغاز کیا۔ 2008ء میں قومی ٹیم کی جانب سے انڈر 19 چیمپین شپ میں انٹرنیشنل ڈیبیو کیا۔
2013ء سے عالمی سطح کی لیگز کے ساتھ ساتھ پاکستان والی بال ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری بھی سر انجام دے رہا ہے۔
وہ اب تک اومان، لبنان، تائیوان، ملائشیا، سعودی عرب، مالدیپ، قطر، تھائی لینڈ میں لیگ کھیل چکاہے۔ ڈومیسٹک والی بال میں 2009ء سے پاکستان واپڈا سے منسلک ہیں۔
ترکی کے کلب “Akkus Belediya”میں آٹھ ماہ کے لیے 80 ہزار ڈالر کے عوض ان کی لیگ سے تازہ ترین معاہدہ طے ہُوا ہے، جس کا آغاز ایشیائی چیمپین شپ کےفوراً بعد ہو گا۔
انھوں  نے دو ننھی منّی بیٹیوں کی تصاویر واٹس ایپ پر دکھائیں۔
کھلاڑی بورڈنگ کارڈ لے کر اب قدرے ویران ٹیکس فری دبئی ایئر پورٹ کی چکا چوند، شیشے کے شوکیسز میں دعوتِ نظارہ دیتی اشیا کی ونڈو شاپنگ ۔
ان سے بڑھ کر فلپائنی، تھائی، بھارتی اور سنٹرل ایشیا کی ٹائیٹ اشتہا انگیز وردیوں میں ملبوس ”سیلز گرلز“ ناریوں اور اپسراؤں کے جسمانی زاویوں اور خم کی بھول بھلیوں میں کھوئے ہُوئے ہیں۔
لبرو معاذ، جس کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے، تو منہ کھولے للچائی نظروں سے یوں وارفتگی سے دیکھ رہا ہے، جیسے ان کے بریزیئر کا سائز پڑھنا چاہتا ہو۔
عدم نے یونہی تو نہیں کہا تھا:
طاقتیں دو ہی ہیں زمانے میں
جن سے سارا نظام جاری ہے
اک خدا کا وجودِ برحق ہے
دوسری عورت کی ذاتِ باری ہے
ایسے میں یہ ایمل خان ہی کی ذاتِ باری ہے جو گڈریے کی مانند ان بھیڑوں کو ہانک ہانک کر ”راہِ راست“ اور ”میکڈونلڈ“ کی جانب لا رہی ہے۔
سینئر ترین کھلاڑی اور کپتان ہونے کے باوجود دبئی ایئر پورٹ پر میکڈونلڈ سے لنچ کا فیصلہ کیا گیا تو وہ خود جمبو برگر، اورنج جوس اور فرنچ فرائز ٹرے میں رکھ کے تمام کھلاڑیوں کو پہنچاتا رہا ۔
یہ اس کی منکسرالمزاجی اور تربیت کا بڑا پن ہے۔
اس میں رتی برابر بھی اکڑ فوں نہیں، وہ پاؤں زمین پر رکھتا ہے۔”کے ایف سی“ ، ”میکڈونلڈ“ اور ”سب وے“ ہمارے ملک میں تو امراء کے ”اسٹیٹس سمبل“ ہیں لیکن دیارِ غیر میں یہ غریب سیاحوں کا من بھاتا کھاجا سمجھا جاتا ہے۔
چار پانچ ڈالر سے شکم کا دوزخ باآسانی بھر جاتا ہے۔
سفر جاپان کے دوران پاکستانی ٹیم نے کئی مرتبہ اس سہولت سے استفادہ کیا یا کرنا پڑا، بادل ِ نخواستہ!


مصنف کا تعارف
نام: محمد توفیق
سینئر نائب صدر پاکستان ٹینس فیڈریشن،
چیئرمین ڈیویلپمنٹ کمیٹی پاکستان والی بال فیڈریشن
قومی سلیکٹرپاکستان سکواش فیڈریشن
ولدیت: میجر (ر) محمد طارق اعوان
تاریخ و جائے پیدائش: 8 اکتوبر 1960ء ، شیرانوالہ گیٹ ہری پور ہزارہ
تعلیم: ایم اے معاشیات، ایم اے سیاسیات، ایم بی اے ایگزیکٹو
تعلیمی ادارے: برن ہال سکول، گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد، ایچی سن کالج لاہور
پاکستان کی نمائندگی: سیول اولمپکس، اٹلانٹا اولمپکس، بیجنگ ایشین گیمز، کلکتہ سیف گیمز،کامن ویلتھ گیمز آسٹریلیا،
ڈیوس کپ ٹینس، ومبلڈن ٹینس،ٹور ڈی فرانس سائیکل ریس، ایشیائی والی بال چیمپئن شپ جاپان،
ایشیائی اسکواش چیمپئن شپ بھارت، انٹرنیشنل سیٹلائٹ ٹینس شام، والی بال منیجر قطر، ایران، دوبئی
سپورٹس کمنٹری/اینکر پرسن: پی ٹی وی ایوارڈ یافتہ ،ورلڈ کپ فٹبال، ورلڈ اولمپکس سمیت 30 کھیلوں پر رواں تبصرہ
عالمی سیاحت: امریکہ، فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، بیلجیم، سپین، اٹلی، چین، آسٹریا، چیکو سلوواکیہ، سوئٹزرلینڈ، جاپان، ڈنمارک،
ناروے، روس،جرمنی، جنوبی کوریا، سویڈن، سلوواکیہ، ہانگ کانگ، متحدہ عرب امارات،سعودی عرب،
بنگلہ دیش، ایران، بھارت، نیپال، قطر، شام، ازبکستان، ایتھوپیا
تصانیف:
ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
بمبئی براستہ مدراس
تری خوشبو سفر میں ہے
تیرا میرا سارا سفر
کھیل کا ارتقائی سفر
اولمپکس اور فٹبال
کھیل اور کھلاڑی
اردو سفر نامے کا گل خود رو
واہ کی تہذیب اور فنون ِ لطیفہ
شمشیر و سناں اوّل
کھلاڑی جاپان میں(سفرنامچہ)


محمد توفیق
محمد توفیق
مصنف کا تعارف نام: محمد توفیق سینئر نائب صدر پاکستان ٹینس فیڈریشن، چیئرمین ڈیویلپمنٹ کمیٹی پاکستان والی بال فیڈریشن قومی سلیکٹرپاکستان سکواش فیڈریشن ولدیت: میجر (ر) محمد طارق اعوان تاریخ و جائے پیدائش: 8 اکتوبر 1960ء ، شیرانوالہ گیٹ ہری پور ہزارہ تعلیم: ایم اے معاشیات، ایم اے سیاسیات، ایم بی اے ایگزیکٹو تعلیمی ادارے: برن ہال سکول، گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد، ایچی سن کالج لاہور پاکستان کی نمائندگی: سیول اولمپکس، اٹلانٹا اولمپکس، بیجنگ ایشین گیمز، کلکتہ سیف گیمز،کامن ویلتھ گیمز آسٹریلیا، ڈیوس کپ ٹینس، ومبلڈن ٹینس،ٹور ڈی فرانس سائیکل ریس، ایشیائی والی بال چیمپئن شپ جاپان، ایشیائی سکواش چیمپئن شپ بھارت،انٹرنیشنل سیٹلائٹ ٹینس شام، والی بال منیجر قطر، ایران، دوبئی سپورٹس کمنٹری/اینکر پرسن: پی ٹی وی ایوارڈ یافتہ ،ورلڈ کپ فٹبال، ورلڈ اولمپکس سمیت 30 کھیلوں پر رواں تبصرہ عالمی سیاحت: امریکہ، فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، بیلجیم، سپین، اٹلی، چین، آسٹریا، چیکو سلوواکیہ، سوئٹزرلینڈ، جاپان، ڈنمارک، ناروے، روس،جرمنی، جنوبی کوریا، سویڈن، سلوواکیہ، ہانگ کانگ، متحدہ عرب امارات،سعودی عرب، بنگلہ دیش، ایران، بھارت، نیپال، قطر، شام، ازبکستان، ایتھوپیا تصانیف: ٭ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں ٭ بمبئی براستہ مدراس ٭ تری خوشبو سفر میں ہے ٭ تیرا میرا سارا سفر ٭ کھیل کا ارتقائی سفر ٭ اولمپکس اور فٹبال ٭ کھیل اور کھلاڑی ٭ اردو سفر نامے کا گل خود رو ٭ واہ کی تہذیب اور فنون ِ لطیفہ ٭ شمشیر و سناں اوّل ٭ کھلاڑی جاپان میں(سفر نامچہ)

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles