23 C
Lahore
Friday, April 19, 2024

Book Store

How does Dialysis machine works|کیا ڈائلیسز جان لیوا ہے؟

عافیہ مقبول جہانگیر

afia maqbool jahangir

The #dialysis machine mixes and monitors the dialysate. Actually Dialysate is the fluid that helps to remove the #unwanted waste products from blood

Writer, Afia Maqbool Jahangir, In #umarShareefHospital, January 2019 File Photo

In #Hospital

میں اسپتال کے ٹھنڈے کاریڈور میں کافی کا مگ لیے کھڑی تھی۔ نظریں دور درختوں کے ڈھلتے سایوں کے نیچے اپنے دن کے آخری حصے کا رزق چنتے پرندوں پر جمی تھیں۔ چوں چوں کی آوازیں میری سماعت سے دُور مگر میری آنکھیں ان کی بے چینی اور جلد بازی کو محسوس کر رہی تھیں۔ جیسے ہر پرندہ اس لالچ میں ہو کہ فٹا فٹ اپنا کھاجا چونچ میں دبا کر اُڑ جائے۔ پرندوں کی یہ جلد بازی مغرب کے وقت بہت آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ آنے والے وقت، مستقبل کی منصوبہ بندیوں اور ذخیرہ اندوزی سے بے نیاز ہر پرندہ بس اتنا ہی لے جانا چاہتا ہے جتنا اس کے گھونسلے میں بیٹھے بھوکے بچوں کی رات گزارنے کے لیے کافی ہو، لیکن انسان تو سب جانتا ہے کہ زندگی بے ثبات ہے، پھر وہ کیوں لالچی ہے؟

کھانے کا، گھر بنانے کا، دولت جمع کرنے کا، عمدہ مہنگی اشیائے زندگی، غرور اور تکبر بھرا لہجہ۔ آخر کیوں؟ وہ کیوں اتنے پر قناعت نہیں کر لیتا؟ جتنا اس کو ایک دن کے لیے چاہیے۔ کیا وہ ہمیشہ یہاں رہنے والا ہے؟
کتابوں میں پڑھا، بزرگوں، ولیوں سے سنا کہ زندگی کی حقیقت جاننا چاہتے ہو تو قبرستان میں جا کر بیٹھو، ان کے پاس، جو کبھی زندہ تھے،ہماری طرح۔ انھوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہو گا اپنی ستر اسّی سالہ مختصر سی زندگی میں۔ آج وہ کہاں ہیں؟ وہ مٹی ہیں۔ پھر کیوں اتنی بھاگ دوڑ؟ اے انسان! آخر کیوں؟

#Life Is Beautiful

میرا تو یہ ماننا ہے کہ اگر قبرستان نہیں تو کبھی کسی اسپتال کا ہی چکر لگا آئیے۔ یونہی، بے مقصد بے وجہ۔ زندگی اور موت کے درمیان جھولتے مریض ایسے سسکتے بلکتے آنکھوں میں تھوڑی سی، بس ذرا سی اور…#زندگی کی بھیک مانگتے یوں نظر آئیں گے، جیسے ایک بچہ اپنے باپ کی ٹانگوں سے لپٹ جائے اور کہے۔
’’ مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جاؤ۔‘‘
میں انھی سوچوں میں غلطاں تھی کہ اچانک کاریڈور میں رونے اور بین کرنے کی آوازیں کانوں میں گونجنے لگیں۔ مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ میں باتیں کرتی ڈاکٹروں پر مشتمل ایک ٹیم، تیز تیز قدم اُٹھاتی راہداری کے آخر میں بنے کمرے کی طرف بھاگتی جا رہی تھی۔
میرا دل کانپا۔ اوہ…تو آج پھر کوئی زندگی کو الوداع کہہ گیا یا ابھی تک سانسوں کی ٹوٹتی ڈور کَس کر تھامے کسی معجزے کے انتظار میں ہے؟
یہ انسان بھی نا…بہت ضدی ہے۔ نہیں سمجھے گا کہ آخر اسے جانا ہے۔
میں تیزی سے اس خاتون کی جانب لپکی جو شدت کرب سے سرخ پڑتے چہرے اور تواتر سے بہتے آنسوؤں سے بے نیاز، دسمبر کی یخ بستہ ٹھنڈی رات میں دیوار سے لگی زمین پر بیٹھتی جا رہی تھی۔
اس کا شریکِ حیات ایک دن پہلے ہی اس اسپتال میں انتہائی نازک حالت میں داخل ہوا تھا۔ خاتون کے ساتھ کھڑی نرس نے بتایا کہ وہ #گردوں کی بیماری میں مبتلا تھا۔ اب اس کے #ڈائیلسز شروع ہونے تھے۔
جسم میں پانی بھر چکا تھا۔ سانس لینے میں انتہائی تکلیف کا سامنا تھا۔ کچھ ہی دیر پہلے اس نے پانی کا ایک گھونٹ پیا جو اسی وقت حلق سے واپس باہر آ گیا اور سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی۔
زمین پر بیٹھی خاتون روتی ہوئی مسلسل کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ میں نے دھیان سے سُنا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ آخر وقت تک پتا ہی نہیں چلا کہ آخر مسٔلہ کیا ہے؟
علاج کروائیں تو کس بیماری کا؟ اس کے شوہر کو #ٹی بی تھی اور گردوں کی بیماری بھی۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ دو دن سے مختلف اسپتالوں میں بھٹک رہی تھیں۔ کوئی کچھ کہتا رہا تو کوئی کچھ۔ اصل علاج شروع ہو ہی نہ سکا۔ یہاں تک آتے آتے بہت دیر ہو چکی تھی۔
بے چارہ پرندہ ٹھونگیں مارتا مارتا تھک چکا تھا۔ وہ اُڑ گیا۔ شاید اسے دانہ نہیں ملا تھا۔ اس کا نصیب…

٭٭٭

A #True #Story


میرے دل پر جیسے کسی نے بھاری سِل رکھ دی۔ میں بوجھل قدموں اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنے کمرے میں  گئی۔
میں وہاں کیوں گئی تھی یہ الگ داستاں ہے۔
کمرے میں آ کر میں لیپ ٹاپ پر گردوں کی بیماری کے نئے علاج، دریافتیں سرچ کرنے لگی۔ اچانک دل و دماغ میں ایک خیال بجلی کے مانند کوندا۔
وطنِ عزیز میں اکثریت نا خواندہ ہے۔ خاص طور پر دیہات اور چھوٹے قصبوں سے آئے سادہ لوح مریض۔ ان کا بڑے شہروں میں صرف تب آنا ہوتا ہے جب کسی شہری رشتے دار کی شادی یا فوتگی ہو اور یا پھر وہ خود بیمار ہو اور ڈاکٹر نے کسی ’بڑے‘ اسپتال میں بھرتی ہونے کو کہا ہو۔
ان کے ساتھ آئے لواحقین بڑے سے اسپتال کے لمبے برآمدوں اور دالانوں میں کٹی پتنگ کی طرح یہاں وہاں ڈولتے ہیں۔ جب تک انھیں متعلقہ شعبے اور اپنے مریض کے مناسب علاج کے لیے معلومات حاصل ہوں تب تک مریض ان تمام جھنجٹوں سے آزاد ہو چکا ہوتا ہے۔
مجھے ان کے لیے کچھ کرنا ہو گا مگر کیسے؟ کیا میں ایک ایک کو روک کر پوچھوں؟ کہ کوئی مدد یا معلومات چاہئیں تو میں حاضر ہوں۔ نہیں یہ ممکن نہیں۔
مجھے کچھ ایسا کرنا ہو گا کہ گردوں کی بیماری میں مبتلا تمام وہ مریض جنہیں اس کے بارے میں معلومات نہیں یا جنہیں علاج شروع کروانے میں ہچکچاہٹ یا گھبراہٹ کا سامنا ہے، مستفید ہو سکیں۔
میں کیا کر سکتی ہوں؟…اسی سوچ میں گُم میرے ہاتھ ایک نمبر ڈائل کرنے لگے۔
٭٭٭

Shareef Medical City Hospital, Lahore

In #shareef #Medical City #Hospital

صبح کے گیارہ بج رہے ہیں۔ میرے تیزی سے اُٹھتے قدموں کی منزل #شریف میڈیکل سٹی میں واقع شعبہ گردہ کی

 او پی ڈی ہے۔ یہاں #نفرالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر ڈاکٹر طاہر محمد شفیع سے مجھے کچھ پوچھنا ہے۔ کچھ نہیں… بہت کچھ پوچھنا ہے۔
میرے پاس سوالات کی بوچھار ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہر سوال کا پُرتشفی جواب انھی سے ملے گا۔
پروفیسر صاحب طے شدہ وقت پر میرے منتظر تھے۔ ان کے ساتھ ہوئی پُرمغز اور نافع گفتگو نے میرے دماغ میں الجھتی کئی گتھیوں کو سلجھا دیا۔
ڈائیلسز یعنی گردوں کی صفائی کیا ہے؟
قدرت کا عطا کردہ تحفہ گردے، جسم میں وہ کام انجام دیتے ہیں جن پر ہمارے تمام جسمانی اعضا کا دارومدار ہوتا ہے۔ یہ اگر کام کرنا چھوڑ دیں تو پورا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔

گردوں کا سب سے اہم کام پیشاب کے راستے فاضل پانی، مضر صحت مواد اور تیزابیت کا اخراج ہے۔

جب گردے خراب ہو جائیں تو یہ #مضر صحت مواد آہستہ آہستہ خون میں شامل ہو کر جسم سے خارج نہیں ہو پاتا۔ ایسے حالات میں ایسا متبادل انتظام کیا جاتا ہے جس کے ذریعے خون سے اس مضر صحت مواد کی صفائی کی جا سکے۔

اس طریقۂ کار کو ڈائیلسز یعنی گردوں کی صفائی کا عمل کہا جاتا ہے۔ عام طور پر گردے واش کرنے یعنی دھونے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو غلط ہے۔ یہ اصل میں خون کی صفائی کا عمل ہے نہ کہ گردوں کی صفائی کا۔
کیا ڈائیلسز صرف ایک دو بار کروانا کافی ہے؟

Dialysis process


یاد رہے کہ ایک بار ڈائیلسز کروا لینا ہی کافی نہیں۔ مستقل طور پر جسم کو زہریلے مواد سے پاک رکھنے کے لیے لگاتار ڈائیلسز کروانے پڑتے ہیں۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک بیمار گردے دوبارہ کام نہ شروع کر دیں یا پھر نیا گردہ نہ لگوا لیا جائے۔

تمام دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ گردے عارضی طور پر خراب ہوئے یا مستقل بنیادوں پر۔ عارضی بیماری میں ڈائیلسز صرف گردہ ٹھیک ہونے تک کیا جاتا ہے۔ مستقل خراب ہو جانے والے گردے میں خون کی صفائی کا عمل باقاعدگی سے ساری عمر کروانا پڑتا ہے۔
پانی کم پئیںیا زیادہ؟ یہ کیسے پتا چلے؟#
عام خیال یہی ہے کہ اگر گردوں کی بیماری لاحق ہو جائے تو مریض کو زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے۔
حقیقت اس کے برعکس ہے۔ گردوں کی تمام بیماریاں زیادہ پانی کی محتاج نہیں۔ اگر گردے کام کرنا چھوڑ دیں تو پانی کے زیادہ استعمال سے یہ جسم میں اکٹھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جو پاؤں اور منہ پر سوجن کا باعث بنتا ہے۔ یہ پانی #پھیپھڑوں میں جمع ہو جائے تو سانس میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پانی کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے۔
خون کی صفائی کا عمل کب شروع کیا جائے؟

infected kidney


علامات ظاہر ہوتے ہی اگر بیماری کی تشخیص جلد ہی ہو جائے تو دوائیوں کے استعمال اور خوراک میں پرہیز کرنے سے، گردے فیل ہونے کے عمل کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اس طرح ممکن ہے کہ کافی عرصے تک خون کی صفائی کرنے کی نوبت نہ آئے۔ لیکن اگر ایک بار گردے فیل ہو جائیں تو پھر مستقل خون کی صفائی لازمی ہو جاتی ہے۔
کوشش یہ کرنی چاہیے کہ طبیعت زیادہ بگڑنے کا انتظار نہ کیا جائے۔ وقت سے پہلے ہی ڈائیلسز شروع کروا لیے جائیں۔ اس سے مریض زیادہ صحتمند رہتا ہے۔
کیا ڈائیلسز سے موت واقع ہو جاتی ہے؟
یہ خیال بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ مریض کی #موت کی وجہ ڈائیلسز ہے۔
پروفیسر شفیع نے اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ:
’’اس افواہ کی مثال ایسی ہے جیسے اگر کسی درخت میں کیڑا لگ جائےاور اس پر دھیان نہ دیا جائے۔ بڑھتے بڑھتے وہ کیڑا پورے درخت کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کی جڑیں اور تنا کھوکھلا کر دے۔ تب اس پر کیڑے مار سپرے کیا جائے۔

تب تک درخت اتنا کھوکھلا ہو چکا ہوتا ہے کہ پھر کوئی دوا یا اسپرے اسے نہیں بچا سکتا۔ یوں وہ درخت آخر کار گر جاتا ہے۔
اسی طرح گردے کا مریض آخر وقت تک ڈائیلسز سے بھاگتا رہے اور جب بالکل ختم ہونے والا ہو۔ اس کے تمام اندرونی اعضا آہستہ آہستہ بے کار ہو چکے ہوں۔ تب وہ ڈائیلسز کی طرف آتا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک یہ آخری حل ہے۔ تب کوئی ڈاکٹر یا ڈائیلسز اسے نہیں بچا پاتا۔ وہ جلد ہی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔

لواحقین کہتے ہیں کہ ڈائیلسز شروع کرواتے ہی مر گیا۔
ایسی #غلط فہمیاں اور #افواہیں مریضوں کو ڈائیلسز سے ڈراتی ہیں اور الزام ڈاکٹر یا علاج پر آ جاتا ہے۔ جبکہ گردے کمزور یا فیل ہوتے ہی مریض کی پہلی ترجیح ڈائیلسز ہونی چاہیے۔
یہ سب لاعلمی کا کھیل ہے اور کچھ نہیں۔ البتہ دیگر کچھ ایسی بیماریاں ہیں جنہیں قابو میں نہ کیا جائے تو اس صورت میں ڈائیلسز کے باوجود #مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

#sugar and #blood pressure

شوگر یا بلڈ پریشر کا بڑھنا باعث تشویش
اگر مریض ذیابیطس یا فشارِ خون کا شکار ہو اور وہ اپنی شوگر یا بلڈ پریشر کنٹرول میں نہ رکھے۔ اس سے گردے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ ڈائیلسز کروانے کے باوجود مریض کو بچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس طرف سے لاپروائی کرنا اور مورد الزام ڈائیلسز کو ٹھہرانا بالکل بھی صحیح نہیں۔
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ اکثر مریض تب ڈائیلسز کے لیے تیار ہوتے ہیں جب پانی سر سے اُونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ اُن کی حالت بے حد مخدوش ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ اُمید کرتے ہیں کہ ڈائیلسز سے کوئی #جادو ہو جائے اور گردے ٹھیک ہو جائیں۔ ایسی صورتحال میں یہ ممکن ہی نہیں۔
انسانیت اور اس شعبے کا تقاضا ہے کہ کوئی ڈاکٹر مریض کو صاف انکار نہیں کرتا کہ اب ڈائیلسز کا کوئی فائدہ نہیں اور آپ مرنے والے ہیں۔
ایسا کوئی ڈاکٹر کہہ سکتا اور نا ہی کر سکتا ہے۔ مسیحا آخر وقت تک مریض کو سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
خون کی #صفائی کے کتنے طریقے ہیں؟
خون کی صفائی جسے عام طور پر گردوں کی صفائی کا نام دیا جاتا ہے، کے بنیادی تین طریقے ہیں۔
۔ پیٹ کے ذریعے خون کی صفائی
۔ مشین کے ذریعے خون کی صفائی
۔ گردے کی #پیوند کاری

٭ #پیٹ کے خون کی صفائی ایک عارضی طریقۂ علاج ہے۔
یہ اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب مریض کی حالت گردے فیل ہونے کی وجہ سے خراب ہو جائے اور مشین کے ذریعے صفائی کی سہولت موجود نہ ہو۔
مریض کی عمر بہت زیادہ ہو اور اسے دل کا عارضہ بھی ہو۔ بہت چھوٹی عمر کے بچوں میں بھی یہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر گردے کی پیوند کاری ممکن نہ ہو تو پھر اس طریقۂ علاج کو مستقل طور پر اپنایا جاتا ہے۔
اس میں گردن کے نیچے ایک نالی عارضی طور پر خون کی نالی میں ڈالی جاتی ہے۔ جب ڈائیلسز ہونا ہو تو اسے مشین میں لگے فلٹر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ خو ن سے مضر صحت مواد صاف کر دیتا ہے۔
٭ مشین کے ذریعے خون کی صفائی میں پہلے کلائی یا بازو پر ایک چھوٹا سا آپریشن کیا جاتا ہے۔ اسے اے وی فسٹولا فارمیشن کہتے ہیں۔ اس آپریشن میں خون کی شریان اور ورید کو آپس میں ملا دیا جاتا ہے۔
کچھ عرصے بعد ورید جو شریان کے ساتھ لگائی گئی تھی، بڑی ہو جاتی ہے تو سوئیاں ان رگوں میں ڈالی جاتی ہیں۔

ان سوئیوں کو پلاسٹک کی نالیوں کے ذریعے مشین میں لگے فلٹر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
ایک نالی کے ذریعے جسم سے زہریلے مواد والا خون فلٹر میں داخل ہوتا ہے۔ فلٹر خون سے یہ زہریلا مواد نکال دیتا ہے اور پھر دوسری نالی کے ذریعے صاف شدہ خون واپس جسم میں چلا جاتا ہے۔
اس طریقے سے خون کی صفائی میں تقریباً چار گھنٹے لگتے ہیں اور یہ ہفتے میں ایک یا دو بار لازمی کروانا پڑتا ہے۔ وہ اس لیے کہ مریض کے بیمار پڑنے سے پہلے ہی خون کی صفائی ہو جائے اور وہ اپنے کام کاج بخیر و خوبی انجام دے سکے۔

#hemodialysis

ایک تیسرا #طریقہ ہیمو ڈائیلسز بھی ہے۔ مریض اور اس کے لواحقین تعلیم یافتہ ہوں تو وہ ایک ہفتے کی ٹریننگ سے مریض کا ڈائیلسز گھر پر بھی کر سکتے ہیں۔ اس میں پیٹ کے اندر ایک مستقل پلاسٹک کی نالی ڈال دی جاتی ہے۔ ایک چھوٹا سا سِرا باہر نکلا رہتا ہے۔ جس سے ڈائیلسز کے محلول والی بوتلیں جوڑ دی جاتی ہیں۔
یہ ایک مشکل طریقہ ہے جسے باقاعدہ ڈاکٹر سے سمجھنا اور سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔
٭ گردے کی پیوند کاری ڈاکٹر سب سے زیادہ تجویز کرتے ہیں۔ پیوند کاری کے بعد ڈائیلسز سے نجات مل جاتی ہے۔ نیا گردہ کبھی تو فوراً ہی کام شروع کر دیتا ہے یا اسے کچھ دن لگ سکتے ہیں۔ اس دورانیے میں ڈائیلسز سے مدد لی جا سکتی ہے۔
ڈائیلسز سے #خوف مت کھائیے
ہر مریض اور اس کے لواحقین کو علاج شروع کرنے سے پہلے کچھ خوف اور خدشات ہوتے ہیں۔ مثلاً کہیں ڈائیلسز تکلیف دہ عمل تو نہیں؟ یا اس سے کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا؟ لوگ کیا سوچیں گے؟ ترس کھائیں گے یا ہمدردی کریں گے؟ اس کے شروع ہونے کے بعد مستقل اس کے محتاج ہو کر رہ جائیں گے وغیرہ۔
ایک بات یاد رکھیں کہ گردے کی بیماری پورے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے۔

جب زندگی کی ڈور خطرے میں ہو۔ کوئی راستہ نظر نہ آتا ہو۔ ایسے میں صحت پانے اور زندگی کے مزید کئی سال جینے کی خواہش پوری کرنے کے لیے اگر مریض کو اس کی محتاجی ہو بھی جائے، تو یہ مہنگا سودا نہیں۔ کون مریض یہ کہے گا کہ مجھے مرنا منظور ہے مگر ڈائیلسز نہیں۔ شاید سو میں سے ایک یا دو۔

Prof. Dr. #Tahir Shafee


پروفیسر ڈاکٹر طاہر شفیع کے چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ آ گئی۔ مجھے میرے تمام سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی مل گئے تھے مگر…ابھی بھی ایک گرہ باقی تھی۔
آخر لوگوں کو اس تمام پراسیس اور اس کے غیر نقصان دہ ہونے اور فوائد سے کیسے آگاہ کیا جائے؟ کیسے انھیں قائل کیا جائے کہ #زندگی بہت #خوبصورت ہے۔ اسے بے جا خوف اور بزدلی کے باعث موت کی نذر مت کیجیے۔
بلا شبہ زندگی اور موت اس رب پاک کے ہاتھ میں ہے مگر اس نے بہت سے مسائل اور آزمائشوں کے حل کا اختیار اشرف المخلوقات کو بھی عطا کر رکھا ہے۔ ان میں علاج، دعا اور صدقات خیرات جیسے اعمال کی بدولت وہ ذات پاک زندگی بڑھانے پر بھی قادر ہے اور دعائیں قبول کرنے پر بھی۔ یاد رہے مایوسی گناہ ہے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور او پی ڈی سے باہر آ گئی۔

لاؤنج میں بے شمار مریض اپنی باری آنے کے انتظار میں بیٹھے گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک میں اپنے دل کی دھڑکن کو ضم ہوتا محسوس کر رہے تھے۔ آنکھیں مایوسی، اضطراب، بے چینی، اُمید، پریشانی، اداسی اور نا جانے کتنے ہی رنگ بیک وقت دکھا رہی تھیں۔

who is #technician?

ڈائیلسز مشین کا #پیچیدہ نظام اور #ٹیکنیشن کا اہم کردار

یہ تو طے ہو گیا کہ ڈائیلسز جان بچاتا ہے جان لیتا نہیں۔ پر یہ ڈائیلسز مشین کا اتنا خوف کیوں ہوتا ہے؟ یہ بھاری بھرکم پیچیدہ مشین دیکھنے میں اتنی بھیانک کیوں لگتی ہے؟
بجلی کے مانند ایک خیال میرے دماغ میں کوندا۔ ڈاکٹر تو یہ طے کرتے ہیں کہ کسی مریض کاڈائیلسز کب اور کیسے ہونا ہے؟ لیکن اس کے بعد اصل کام تو مشین اور اسے چلانے والے ٹیکنیشن کا ہے۔ وہ اس مشین کے ساتھ مریض کی سانسیں جوڑتا ہے۔ اس کے خون کی ایک ایک بوند کا ہر پل ’’حساب‘‘ رکھتا ہے۔
مجھے اس ماہر ’’حسابی کتابی‘‘ سے بھی ملنا ہو گا۔ یہ جاننا ہو گا کہ یہ مشین کیسے کام کرتی ہے؟ اسے چلانے والا ٹیکنیشن کیسے اس کی مدد سے مریض کی سانسیں بحال رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے؟
اب میری اگلی منزل ڈائیلسز سنٹر ہے۔ یہاں ایک مستعد، مستند اور پھرتیلا فرض شناس عملہ بھاری بھرکم خوفناک مشینوں کی آوازوں اور خون کی جا بجا نالیوں کے درمیان پھنسے مریضوں کی خدمت پر معمور ہے۔ ان سے بھی مجھے کچھ سوالات کرنے ہیں۔


یہ مشین کیسے کام کرتی ہے؟ اس کا طریقۂ کار کیا ہے؟
مریض اور مشین کے درمیان تال میل بنانے والا ماہر ٹیکنیشن ہی ڈاکٹر کے بعد اصل مسیحا ہے۔ اسے ہر پل کی خبر رکھنی ہوتی ہے کہ کس مریض کو کیسے ٹریٹ کرنا ہے۔

اس کمرے کے اندر کی دنیا صرف ان کی ہے۔ یہاں کسی ڈاکٹر، نفرالوجسٹ یا یورالوجسٹ سے زیادہ ایک ٹیکنیشن اہم ہے۔ جسے اس مشین کو ہینڈل کرنا اور ساتھ ہی مریض کی ہمت باندھنا بھی کرنا ہے۔
یہاں ماہر ٹیکنیشن فاروق سے ہوئی گفتگو بشمول میرے، سبھی کے لیے بہت نافع اور معلوماتی ہے۔ آئیں ہم ذرا اس مشین سے دوستی کریں۔
٭ ڈائیلسز مشین کو چلانے میں #مہارت حاصل کرنے کا ایک ڈپلوما کورس کیا جاتا ہے۔ یہ عموماً میٹرک (سائنس) یا ایف ایس سی کے بعد کیا جاتا ہے۔ اسے ڈائیلسز ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔ یہ دو سالہ ہوتا ہے۔
٭ ایک ٹیکنیشن کے لیے ضروری ہے کہ اسے نہ صرف اس مشین کے بارے میں مکمل آگاہی ہو بلکہ وہ ڈرے سہمے لوگوں کو اپنی محبت، شفقت اور دل جوئی سے پُرسکون کرنے میں بھی پیش پیش ہو۔
ڈائیلسز کے لیے آنے ولا مریض اپنی زندگی سے اس قدر مایوس اور تھکا ہوتا ہے کہ پیار کے دو بول اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر مسکراہٹ لا سکتے ہیں۔
٭ ڈائیلسز مشین پر مہارت کے ساتھ ساتھ ایک ماہر ٹیکنیشن کے لیے ضروری ہے کہ اسے مریض کو ڈائیلسز کٹ کی سوئیاں #شریانوں اور #رگوں میں لگانے کی پوری #پریکٹس ہو۔
ایک اچھا ٹیکنیشن ہی یہ جانتا ہے کہ آیا یہ بھاری بھرکم سوئیاں بازو کے فسٹولا میں لگانی چاہئیں یا گردن کے ذریعے جسے ڈائریکٹ لائن کہا جاتا ہے۔
٭ جس وقت ڈاکٹریہ فیصلہ کرتا ہے کہ اب مریض کا ڈائیلسز ہونا ناگزیر ہے تو ٹیکنیشن کو بلا کر مریض سے ملوایا جاتا ہے تاکہ ٹیکنیشن یہ جائزہ لے سکے کہ مریض کا ڈائیلسز کس طریقۂ کار کے تحت ہو گا؟
مریض نے اگر فسٹولا بنوا رکھا ہے تو ایک ماہر ٹیکنیشن ہی یہ بتا سکتا ہے کہ مریض کے بازو کی رگیں اور شریانیں خون کا دباؤ اور بہاؤ برداشت کر سکتی ہیں یا نہیں؟ یہ فیصلہ صرف اس کا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اس میں قطعی عمل دخل نہیں دیتا۔
٭ ایک ٹیکنیشن کو بیک وقت صرف دو مریضوں کی نگرانی اور ان کے ڈائیلسز کا کام سونپا جاتا ہے۔ بعض اوقات زیادہ مریض ہونے کی صورت میں ایک ٹیکنیشن بڑی مہارت کے ساتھ ایک وقت میں دس سے بارہ مریضوں کا ڈائیلسز کرتے ہیں۔

#Mental #Fitness


اس دوران ان کی پھرتی، شفقت اور دھیان رکھنے کی ڈیوٹی میں ذرا بھی کمی نہیں آتی۔ وہ ہر مریض پر مکمل نظر رکھے ہوتے ہیں۔ سبھی کو برابر توجہ دی جاتی ہے۔
٭ دورانِ ڈائیلسز مریض کا بی پی چیک کرتے رہنا، مشین کی کارکردگی پر نظر رکھنا، مریض کے ساتھ گپ شپ کر کے اس کا حال پوچھتے رہنا، یہ سب ایک اچھے ٹیکنیشن کی خوبیاں ہیں۔
٭ ایک مریض کا ڈائیلسز ختم ہونے کے بعد دوسرے مریض کی باری آنے میں تقریباً ۴۰ منٹ کا وقفہ آتا ہے۔ ان چالیس منٹوں میں ٹیکنیشن مشین پر سے پرانے مریض کی استعمال شدہ کِٹ(جس سے خون گزرتا ہے) اُتار کر ویسٹ میں ڈالتا اور نئی کٹ لگاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مشین میں مختلف #کیمیکل ڈال کر اس کے اندرونی حصے کو واش ہونے پر لگا دیا جاتا ہے۔ یہ واشنگ تقریباً چالیس منٹ کی ہوتی ہے۔ مریض کے بستر کی چادر کو بھی تبدیل کیا جاتا ہے۔ پوری طرح سے نیا بستر اور مشین اگلے مریض کے لیے تیار کی جاتی ہے۔

٭ لوگ کہتے ہیں کہ ایک ٹیکنیشن اپنی آسانی کے لیے جان بوجھ کر مریض کو سوئیاں گردن سے لگانے پر ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں۔ ہر ٹیکنیشن کی کوشش ہوتی ہے کہ ڈائیلسز بازو سے ہی کیا جائے کیونکہ بازو سے خون کا بہاؤ بہت آرام سے دستیاب ہوتا ہے۔

گردن میں نالی ڈال کر ڈائیلسز کرنے میں بسا اوقات خون کی وہ روانی یا بہاؤ نہیں ملتا جو ڈائیلسز کے لیے درکار ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر بلڈ پریشر لو یعنی نیچے ہو جائے تو خون کا نالیوں میں آنا جانا مشکل ہو جاتا ہے اور اس سے مریض کو چکر، الٹیاں بھی آنے کا خدشہ رہتا ہے۔

٭ ہر مشین کے ساتھ ایک بی پی چیک کرنے کا آلہ بھی لگا ہوتا ہے۔ یہ مشین ڈائیلسز کے ساتھ ساتھ مریض کی پل پل کی رپورٹ سے ٹیکنیشن کو آگاہ کرتی ہے۔
اگر #بلڈ پریشر یا #سانس لینے میں ذرا بھی کمی بیشی ہو تو یہ مشین ایک مخصوص الارم کے ذریعے ٹیکنیشن کو آگاہ کر دیتی ہے، نیز اگر فلٹر کرنے والا کیمیکل کم پڑ جائے تب بھی یہ مشین الارم بجا دیتی ہے۔

٭ ایک ٹیکنیشن اس حد تک ٹرینڈ ہوتا ہے کہ اگر دوران ڈائیلسز مشین میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو ٹیکنیکل اسٹاف فوری طور پر مریض کا ڈائیلسز روک کر اسے دوسری مشین پر منتقل کر دیتا ہے۔
اس دوران مشین کی خرابی دور کرنے کا کام بھی ایک ماہر ٹیکنیشن کاہی ہوتا ہے۔ چھوٹی معمولی خرابیاں ٹیکنیکل اسٹاف خود ہی ختم کر سکتا ہے۔ جب تک کہ کوئی بڑی فنی خرابی نہ ہو۔

اس کی نوبت اس لیے بھی نہیں آتی کہ یہ مشینیں ہر دو یا تین دن بعد چیک کی جاتی ہیں۔ باقاعدگی سے ان کی سروس کروائی جاتی ہے۔ یہ ذمہ داری بھی ایک اچھے ٹرینڈ ٹیکنیکل اسٹاف کی ہوتی ہے۔

٭ مریض کی ہر ہفتے کی باقاعدہ #رپورٹ بنائی جاتی ہے۔ اس کا بلڈ گروپ، ٹیسٹ وغیرہ کی رپورٹیں، پوری فائل بنانا بھی اسی ہنر مند ٹیکنیکل اسٹاف کی ذمہ داری ہے۔

گویا ایک ڈاکٹر جب اپنے مریض کو ایک ٹیکنیشن کے سپرد کرتا ہے تو پھر وہ خود اسی ٹیکنیشن کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق مریض کے علاج میں کمی بیشی یا ردّو بدل کرتا ہے۔

شریف میڈیکل سٹی اسپتال کی ایک ڈوبتی ہوئی سوگوار شام کا منظر


میں نے یہ قیمتی معلومات فرا ہم کرنے پر فاروق صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اپنے اتنے قیمتی وقت میں سے مجھے کچھ وقت دیا تاکہ میرے توسط سے ہزاروں لوگوں تک یہ معلومات بہم پہنچ سکیں۔ لاعلمی کی دیوار پوری نہ گرے تو بھی اس میں شگاف ضرور پڑ جائیں۔
شام کے چھے بجنے کو ہیں۔

اب میں پھر اسی طویل ٹھنڈے کاریڈور سے گزر رہی ہوں، جہاں کل تھی۔

کڑوی کافی نے زندگی کی تلخی سے بھی روشناس کروایا تھا۔ جب اس خاتون کے شریکِ حیات چل بسے تھے اور پہلے سے ہی اداس شام مزید سوگوار ہو گئی تھی۔

میں دھیرے دھیرے چلتی راہداری کے ایک طرف بنے خوبصورت، آرام دہ، پرائیویٹ کمروں کی ایک قطار کی طرف بڑھ رہی ہوں۔
کل تک میں بھی شاید ڈری ہوئی تھی۔ مجھے اس خاتون میں نہ جانے کیوں اپنا عکس نظر آیا تھا۔ میں خوفزدہ ہو گئی تھی، کہ جانے کب کس وقت منظر پھر سے وہی ہو اور بس چہرے بدل جائیں۔
لیکن اب میری سوچ بدل چکی اور فکر و غور کے نئے #زاویے کھل چکے۔ اب میں خوفزدہ نہیں۔ بات صرف #علم و آ گہی کی ہے۔ اب مجھے پتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔

میں اپنے کمرے تک پہنچ چکی۔ دروازہ کھول کر میں اندر داخل ہوتی ہوں۔ ایک دوستانہ مہربان مسکراہٹ مگر اداس آنکھیں، میری جانب اُٹھتی ہیں اور پوچھتی ہیں،
’’میں ٹھیک ہو جاؤں گا نا؟‘‘
میں طمانیت سے مسکرا کر کہتی ہوں،

’’ ہاں! ان شا اللہ۔ اب کچھ نہیں ہو گا۔ اب میں جانتی ہوں کہ ہمیں کس راہ پر چلنا ہے۔‘‘
ارے! آپ کو میں نے شروع میں کہا تھا نا؟ کہ میں اس #اسپتال میں کیا کر رہی ہوں… تو سُنیے۔
وہ مہربان، اداس مسکراہٹ والا، میرا دوست ہے… میرا شوہر۔
٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles