25 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

negative relationship|آستین کے سانپ

 

آج صبح سے گھر میں ماحول مکّدر تھا۔ وجہ وہ چپقلش تھی جو گزشتہ کئی دنوں سے اُن میاں بیوی میں چل رہی تھی۔ کچھ دن پہلے یہی گھر پیارومحبت کا عملی نمونہ تھا۔

رشتے دار اور ملنے جلنے والے ان کے گھرانے کی مثالیں دیا کرتے تھے مگر اب یہی گھر امن و سلامتی کی بجائے میدانِ جنگ کا روپ دھار چکا تھا۔

ہوا کچھ خاص نہیں تھا گو بات ذرا سی تھی مگر بڑھتے بڑھتے خوفناک رُخ اختیار کر چکی تھی اور اب اس الجھی ڈور کا کوئی بھی سرا ڈھونڈ کر اسے سلجھانا ناممکن ہو چکا تھا۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے ’’میاں بیوی کا ایک دوسرے کی طرف محبت کی نظر سے دیکھنا بھی ثواب اور نیکی کا کام ہے، دونوں جب ایک دوسرے کی طرف محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو اللہ خوشی کا اظہار فرماتا ہے جبکہ شیطان غصے اور طیش میں آ کر دونوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے‘‘۔(صحیح بخاری،مسلم ترمذی)

ایک ہنستا بستا گھر اُجڑنے کو تھا

ایک دن جب ہارون کے آفس جانے کے بعد نازیہ اپنے چھوٹے سے سجے ہوئے پرسکون گھر کے لان میں چائے کے چھوٹے چھوٹے جُرعے لیتی شاداں و فرحاں بیٹھی پھولوں کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک اُس کی برسوں پرانی ایک دوست اُس سے ملنے چلی آئی۔ کافی طویل عرصے بعد اُن کی ملاقات ہو رہی تھی۔

دونوں سہیلیاں اکٹھی ہوئیں تو گفتگو کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بظاہر دوستی کا دم بھرنے والی دوست، اُس کے ٹھاٹھ باٹھ اور عیش وآرام دیکھ کر اندرہی اندر سلگ اٹھی کیونکہ اس کی اپنی زندگی بہت مشکلات میں گھِری ہوئی تھی اور اس کا شوہر انتہائی نکما اور لاپروا تھا۔

آئے روز دونوں میں جھگڑا ہوتا اور کئی کئی دن دونوں میں بات چیت بھی بند رہتی۔ ایسے میں اپنی سہیلی کو اس کی ازدواجی زندگی میں یوں پھولوں کی طرح کھلتے دیکھ کر وہ انگاروں پر لوٹنے لگی مگر اپنے رویے سے کچھ ظاہر نہ ہونے دیا۔

باتوں باتوں میں اُس نے نازیہ سے اولاد کے بارے میں پوچھا۔ نازیہ کچھ اداس سی ہو گئی اور بولی کہ جب اللہ کو منظور ہو گا تب وہ نواز دے گا۔

سہیلی نے ہمدردی کی آڑ میں تسلی کے دو لفظ لپیٹتے ہوئے اسے اکسایا کہ اسے ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا مکمل چیک اپ کروانا چاہیے اور شوہر کو بھی علاج پر راضی کرنا چاہیے۔

نازیہ کہنے لگی کہ ہارون کا ماننا ہے کہ اگر اولاد قسمت میں ہوئی تو وہ ذات انہیں ضرور نوازے گی لیکن ڈاکٹروں کے پاس جا کر وقت اور پیسہ برباد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

اس کی سہیلی نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا

یہ مرد ذات بہت ڈھونگی ہوتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تمہارا شوہر تمہیں جان بوجھ کر علاج کے لیے نہیں لے جانا چاہتا ۔ یہ سب اس کے بہانے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ جانتا ہو کہ وہ تمہیں اولاد نہیں دے سکتا۔ یوں تمہیں بیوقوف بنا کر اسے مفت کی ملازمہ جو ملی ہوئی ہے۔ چار جوڑے کپڑے اور دو وقت کھانا کھلا کر بدلے میں اس نے پورے گھر کی ذمہ داری جو تمہارے کاندھوں پر ڈالی ہوئی ہے۔ اسے اور کیا چاہیے‘‘۔

نازیہ کا دل کانپ اٹھا۔

نہیں نہیں! وہ تو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ میری ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔ مجھے آج تک ان سے کوئی شکایت نہیں ہوئی‘‘۔

دوست پہلو بدلتے ہوئے بولی

ارے میری بھولی رانی!یہی تو بات ہے۔ تمہیں اسی لیے اتنا کچھ دے رکھا ہے تاکہ تم اسے چھوڑنے کا کبھی نہ سوچو ۔ اولاد جیسی نعمت کے آگے ان معمولی چیزوں کی کیا اوقات۔ خود سوچو کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تمہارے بچے ہوں، گھر میں ان کی رونق ہو۔ مجھے تو پکا یقین ہے کہ بھائی صاحب اپنی خود غرضی کی وجہ سے ہی تمہیں آج تک ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر گئے۔ اتنے ہی مخلص ہوتے تو کیا ان کا دل نہ چاہتا اولاد کو؟ اب تم خود ہی الو بن رہی ہو تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ اچھا بہن میں چلتی ہوں ۔ تمہیں اپنا یہ سونا گھر بار مبارک ہو‘‘۔

اتنا کہہ کر دوست تو چلتی بنی مگر نازیہ کی سوچوں کو ایک نیا اور منفی رخ دے گئی۔ وہ تمام دن الٹی سیدھی سوچوں میں غلطاں رہی اور کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہ کر پائی۔

آج اسے نجانے کیوں ہارون کے وہ تمام دلاسے اور محبت بناوٹی لگ رہی تھی۔

پانچ سال ہونے کو آئے اور وہ ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ نازیہ نے کبھی اس محرومی کا ذکر کیا بھی تو ہارون اسے تسلی دیتا اور کہتا کہ جب اللہ کو منظور ہو گا وہ نواز دے گا۔ وہ اسے بہلانے کے لیے  شاپنگ پر  لے جاتا تو کبھی کھانا کھلانے۔  وہ اسی میں خوش ہو کر سب کچھ بھول جاتی۔

بعض اوقات تو اس کی اتنی وارفتگی پر دل سے شکرگزار ہوتی کہ اس نے عام مردوں کی طرح بیوی کو کبھی اولاد نہ ہونے کا طعنہ نہیں دیا تھا۔

زندگی پھولوں کی سیج پر گزر رہی تھی مگر آج اسے لگا کہ جیسے اس کی دوست کی باتوں نے کانٹے بچھا دیے ہوں۔ اب اسے ہارون کا وہ تمام خلوص ڈراما لگنے لگا تھا۔ اس نے سوچ لیا کہ وہ ہارون سے دو ٹوک بات کرے گی۔

شام کوجب اس نے ہارون سے انتہائی ترش اور اکھڑ لہجے میں بات کی تو ہارون کو تو جیسے آگ لگ گئی۔ اس کی پیاری بیوی اسی کے خلوص اور محبت پر شک کر رہی تھی۔

مرد جتنا بھی کھلے دل و دماغ کا ہو،اپنے خلوص اور محبت پر شک کی ایک چھینٹ بھی برداشت نہیں کرتا۔

وہ نازیہ کی فضول بکواس پر حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔ وہ تو ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ ہر کام کے ہونے نہ ہونے میں صرف اللہ ہی کی کوئی مصلحت اور مرضی ہوتی ہے۔

اگر ان کے نصیب میں اولاد ہوئی تو وہ ضرور ملے گی لیکن یوں ڈاکٹروں کے پاس چکر کاٹ کاٹ کر وہ خود کو اور نازیہ کو الٹے سیدھے علاج اور امیدوبیم کے ہنڈولے لینے والی زندگی سے بچانا چاہتا تھا لیکن اس کی بیوقوف بیوی اسی پر شک کر بیٹھی تھی۔

سب نے نازیہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر شک کا سیاہ ناگ اُس کے پورے وجود میں کُلیلیں بھر رہا تھا، شیطان قہقہے لگا رہا تھا۔ نازیہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھی اسے ہارون سے علیحدگی چاہیے تھی اور ہارون اسے چھوڑنے پر تیار نہ تھا۔

ان کے مابین جھگڑا روز بہ روز طول پکڑتا جا رہا تھا اور اس سب فساد کی جڑ وہ ’’ہمدرد‘‘ سہیلی ایسے غائب تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اس کا کردار بس اتنا ہی تھا۔

شیطان اپنی چال چل چکا تھا۔ اب اس کے چیلے صرف تماشا دیکھتے اور ہنستے ہوئے اپنے گرو کی واہ واہ کرتے تھے اور وہ ذات باری اپنی مخلوق کے یوں شیطان کے بہکاوے میں آ جانے سے ناراض تھی۔ میاں بیوی کے خوبصورت، پاکیزہ ترین رشتے کو یوں لہولہان ہوتے دیکھ کر اللہ بہت ناراض تھا۔

وہ فرشتے جو کبھی اُن کے پیارومحبت اور مسکراتے چہروں کو دیکھ کر ثواب، ثواب لکھا کرتے تھے، اب وہی فرشتے لعنت،لعنت لکھ کر خود بھی جیسے شرمسار سے تھے۔

دیکھا جائے تو ہمارے اردگرد ہر طرف، ہر جگہ حسد، چغلی، منافقت اور غیبت کا کاروبار گرم ہے۔ ہر دوسرے گھر میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جن سے اچھے بھلے، ہنستے کھیلتے گھر برباد ہو جایا کرتے ہیں۔

یہ صرف واقعات نہیں ہر گھر کی کہانی ہے۔ کہیں بھی چلے جائیں، ایسے رشتے دار اور دوستوں سے ہمارا سامنا ہوتا رہتا ہے جو بظاہر ہمدردی کی آڑ میں یہ گھناؤنا کھیل کھیلتے ہوئے گھروں میں آگ لگاتے اور پھر تماشا دیکھتے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ کب ،کیسے اور کیوں ہم ایسے لوگوں کی میٹھی باتوں میں آ کر اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا بیٹھتے ہیں۔

کاش ہم اپنے شعور کا بروقت استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی پہچان کر سکیں۔ جن کے بارے میں حضرت علیؓ کا قول ہے کہ

ایسے لوگوں کی مثال اس مکھی جیسی ہوتی ہے جو پورے خوبصورت اور صحتمند جسم کو چھوڑ کر صرف زخم پر ہی بیٹھتی ہے۔

ایسے لوگ اس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب کسی کے زخم سے پردہ ہٹے اور پھر یہ اپنی باتوں کا نمک ان زخموں پر ڈالیں۔

احساسِ کمتری، #حسد اور منافقت ایسے لوگوں کی فطرت ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ تو خود زندگی میں کوئی مقام حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو خوش دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے #فسادی اور #منافقین تقریباً ہر خاندان، #برادری اور #حلقۂ احباب میں پائے جاتے ہیں۔#

آپ ان کو اپنا جتنا بھی ہمدرد اور مخلص سمجھیں، یہ ڈسنے اور لگائی بجھائی کرنے سے باز نہیں آ سکتے کہ یہ تو ان کی فطرت میں شامل ہے۔ کسی کی عادت تو بدلی جا سکتی ہے مگر فطرت نہیں۔ انہیں نہ تو دنیا کا خوف ہوتا ہے نہ اپنی عزت کا اور نہ ہی اللہ کا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ترجمہ:’’اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘،اور بے شک وہ فساد پھیلانے والے ہیں، لیکن ان کو احساس نہیں‘‘۔ (سورۃ البقرہ،۱۲۔۱۱)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے ایک شخص نے پوچھا

یا رسول اللہﷺ میرے کچھ ناتے والے ہیں۔ میں ان سے احسان کرتا ہوں اور وہ بُرائی کرتے ہیں۔ میں بردباری کرتا ہوں اور وہ جہالت کرتے ہیں۔

آپﷺ نے فرمایا کہ اگر حقیقت میں تُو ایسا ہی کرتا ہے تو، ان کے منہ پر جلتی ہوئی راکھ ڈالتا ہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا جو تم کو ان پر غالب رکھے گا جب تک تُو اس حالت میں رہے گا (صحیح مسلم کتاب ۳۲، حدیث ۶۲۰۴)۔

ان کو یہ فکر تک نہیں ہوتی کہ اپنی ایسی حرکتوں سے وقتی دلی تسکین محسوس کر کے ، کسی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر وہ تمام عمر کے لیے آہوں اور بددعاؤں کی پوٹلیاں بھر رہے ہوتے ہیں۔

حضرت شیخ سعدی ؒ کا قول ہے ’’دشمن سے ہمیشہ بچو، اور دوست سے اس وقت، جب وہ تمہاری تعریف کرنے لگے‘‘۔

double face people does exist in this world
double face people does exist in this world

حماد ایک پرائیویٹ فرم میں معقول تنخواہ پر ملازم تھا۔ اس کا گزارا بہت زیادہ اچھا نہیں تو بہت بُرا بھی نہیں ہو رہا تھا۔ زندگی کی تمام ضروریات بخوبی پوری ہو رہی تھیں ، صرف عیاشیاں کرنے کے لیے کھلا پیسہ نہیں تھا۔ سوچ سمجھ کر خرچ کرنے سے مہینہ آرام سے گزر جاتا تھا۔

ایک دن اس کا کالج کا دوست کافی عرصے بعد اس سے ملنے آیا اور اسے اتنا مطمئن و پرسکون دیکھ کر کڑھ کر رہ گیا۔ کہاں وہ سکول و کالج کا دبو اور عام سا حماد اور اب کہاں اتنی معقول نوکری اور خوش و خرم زندگی گزارتا ہوا۔

یہ بات اسے کچھ ہضم نہ ہوئی کیونکہ وہ خود آج کل بے روزگار تھا۔ اس نے باتوں باتوں میں حماد کو کریدا کہ اس کے کام کی نوعیت کیا ہے اور تنخواہ کتنی ہے وغیرہ ؟

غیر محسوس طریقے سے حماد کو احساس دلایا کہ جتنا کام وہ کرتا ہے اس کے مقابلے میں تو اس کی تنخواہ بہت معمولی ہے۔

اُسے تو اس سے کہیں زیادہ اچھی اور بہتر نوکری مل سکتی ہے ۔ اس نے حماد کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے باس سے تنخواہ بڑھانے کی بات کرے اور اپنی اہمیت کا احساس دلائے۔

حماد نے وقتی طور پر تو اس کی بات مذاق میں ٹال دی مگر اس کے جانے کے بعد کافی دیر وہ سوچتا رہا۔ بالآخر وہ اسی نتیجے پر پہنچا کہ اس کا دوست اس کی بھلائی کے لیے ہی صحیح مشورہ دے رہا تھا۔

شیطان اپنے خونی پنجے گاڑ چکا تھا اور بس اب اس کا شکار اپنے آخری دموں پر تھا۔ اگلے دن حماد نے باس سے اپنی تنخواہ میں اضافے کی بات کی اور درخواست منظور نہ ہونے کی صورت میں نوکری چھوڑ جانے کا ذکر بھی کیا۔باس نے اس کا مطالبہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے وارننگ دی کہ وہ اس قسم کے خیالات کو دماغ سے نکال دے اور شارٹ کٹ کی بجائے محنت سے زینہ بہ زینہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھے تو زیادہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے مگر حماد کے سر پر تو اپنی قابلیت کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔

وہ اس زعم میں مبتلا ہو چکا تھا کہ وہ کمپنی کی ضرورت بن چکا اور اگر وہ چاہے تو اپنی قابلیت کی بنا پر کہیں بھی اس سے اچھی نوکری بآسانی حاصل کر سکتا ہے۔

وہ ناسمجھ نہیں جانتا تھا کہ اگر نوکری ملنا اتنا ہی آسان ہوتا تو اس کا دوست بے روزگار کیوں پھرتا جبکہ وہ حماد سے کہیں زیادہ ذہین، قابل اور خود اعتماد تھا۔

ملازمت چھوڑنے کے بعد حماد کو حقیقتاً احساس ہوا کہ اُس نے جذبات میں آ کر دوست کے غلط مشورے پر عمل کر کے اپنا کتنا بڑا نقصان کیا تھا۔ اُسے مہینوں جوتیاں چٹخانا پڑیں مگر کہیں بھی پہلے سے اچھی اور بہتر ملازمت نہ ملی۔

اب وہ جی بھر کے پچھتایا اور پرانے باس سے معذرت بھی کی لیکن اب اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس کی جگہ پر کوئی اور آ چکا تھا اور ویسے بھی اس کا باس اسے دوبارہ رکھ کر اعتبار کرنے سے انکاری تھا۔

حماد کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا۔ وہ شیطان نما دوست کے بہکاوے میں آ کر اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار چکا تھا مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔

حماد نے اپنے اس دوست سے رابطہ کیا اور اس سے گلہ کیا ۔ جواب میں اس کے دوست نے اُلٹا اسی پر خفگی دکھاتے ہوئے کہا کہ اس نے تو صرف ایک مشورہ دیا تھا اور اس سب کا وہ ذمہ دار نہیں۔

یاد رکھیے کہ ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘ ۔آپ جانے انجانے میں بعض اوقات خود اپنے قیمتی راز دوسروں کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں اور پھر اُن سے امید رکھتے ہیں کہ وہ نہ صرف آپ کے راز کی حفاظت کرے بلکہ آپ کی مدد بھی کرے۔

https://shanurdu.com/bridge-up-communication-gap/

بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے دکھ اور غم ہر ایک کو بتانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔شاید انہیں لگتا ہو کہ ایسا کرنے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے اور غم بانٹنے سے کم ہو جاتا ہے۔

نہیں،یہ سوچ کم از کم آج کے زمانے کے لیے موافق نہیں۔ آج کے دور میں یہ پہچان کرنا انتہائی مشکل کام ہے کہ کون آپ کے ساتھ واقعی مخلص ہے اور کون بے ایمان۔

اس لیے غم اور دکھ بانٹنے کا نتیجہ بعض اوقات بھیانک ہی نکلتا ہے اور آپ پہلے سے کئی گنا زیادہ اذیت اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اپنے دکھوں کی سرِ عام تشہیر کرنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ آپ جس بھی مصیبت یا پریشانی سے گزر رہے ہوں، آپ کو اپنے راز صرف اور صرف اللہ سے بیان کرنے چاہئیں ۔

اپنی پریشانیوں کا حل صرف اُسی ذات پاک سے مانگنا چاہیے۔ رشتوں میں، گھروں میں فساد ڈالنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔

ایک وہ، جن کو آپ اپنا ہمدرد جان کر خود اپنے مسائل شیئر کرتے ہیں. دوسرے وہ، جو باتوں باتوں میں آپ سے کرید کرید کر سوالات کرتے ہیں اور پھر ان معمولی باتوں کو بڑھاوا دے کر آپ کی ذہنی رو بھٹکاتے ہیں۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اپنا راز اور اپنی پریشانیاں جیسے آپ خود حل کر سکتے ہیں ویسے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ آپ پر کیا گزر رہی ہے یہ صرف آپ جان سکتے ہیں کوئی اور نہیں۔

لہٰذا گھر آنے والے مہمانوں یا رشتے داروں کے سامنے اپنی نجی یا گھریلو زندگی کے اشتہار لگانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ نوجوان لڑکیوں کو بھی اپنے سسرال کی باتیں اپنے میکے میں کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کا دل بیٹی کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتا ہے اور بعض اوقات ایک ماں ہی بیٹی کو صبر اور حوصلے کی تلقین کرنے کی بجائے اسے کچھ ایسے مشورے دے دیتی ہے ، جو ہرگز اس کے حق میں نہیں ہوتے اور بعض بچیاں سسرال میں ہونے والی ذرا ذرا سی باتوں کو برداشت کرنے اور معاملہ فہمی کی بجائے ہر بات میں اپنے بڑوں کو شامل کر لیتی ہیں۔

پھر بات صرف میاں بیوی کی نہیں رہتی، دو خاندانوں اور گھر کے بڑوں کی ’’انا‘‘ کا مسٔلہ بن جاتی ہے۔ یوں اگر لڑکی پھر مفاہمت کرنا بھی چاہے تب اُس کے ’’بڑے‘‘ اسے ایسا نہیں کرنے دیتے۔

گھر کے مسائل اور جھگڑے کبھی بھی اپنے آفس یا کولیگز کے ساتھ شیئر نہیں کرنے چاہئیں۔

یہ فرق ذہن نشین رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ آپ کے ملنے جلنے والے،دفتر کے ساتھی، دوست احباب،سب کی اپنی الگ حیثیت اور مقام ہوتا ہے۔ گھریلو اور پروفیشنل زندگی کو کبھی بھی یکجا نہیں کرنا چاہیے۔

بعض لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے اور پھر لوگوں کے اُلٹے سیدھے مشورے مان کر اپنی زندگی میں مزید الجھنیں پیدا کر لیتے ہیں۔ کبھی بھی کسی کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ آپ سے آپ کی گھریلو زندگی پر گفت و شنید کرے ۔

آپ اندر سے کتنے ہی ٹوٹے اور ہارے ہوئے ہوں ،لیکن دوسروں کے سامنے خود کو ہمیشہ مضبوط رکھیں کیونکہ ہو سکتا ہے آپ کو کوئی گھریلو پریشانی درپیش ہو اور آپ جذباتی ہو کر اُس کا ذکر لوگوں میں کر بیٹھیں اور کچھ دن میں یا اگلے ہی دن آپ کی وہ پریشانی ختم یا حل ہو چکی ہو، تب آپ پچھتائیں گے کیونکہ لوگ نہیں بھولتے۔

وہ آپ سے بار بار اسی بات کا نہ صرف ذکر کریں گے بلکہ اسے آگے بھی پھیلائیں گے۔ ہمدردی کی آڑ میں آپ کے جذبات سے کھیلیں گے بھی اور اس کا تماشا بھی بنائیں گے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ مشکل وقت میں حوصلے اور صبر سے کام لیتے ہوئے، اپنی پریشانی کو اللہ کی آزمائش سمجھتے ہوئے خود اُس کا سامنا کریں اور اس کے حل کے لیے صرف اللہ کی بارگاہ میں رازونیاز کریں۔ جو بے شک اپنے بندے کا پردہ رکھتا ہے۔

گھر کے بچوں کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کریں جو آپ کسی کے سامنے نہیں کرنا چاہتے اور بچوں کو آنے جانے والوں کے پاس تنہا مت چھوڑیں۔

اگر باالفرض کوئی آپ سے کچھ کہے یا مشورہ دے تو پہلے اُسے اپنے طور پر اچھی طرح سوچیں، سمجھیںاور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے یہ بھی مد نظر رکھیں کہ آپ کے اٹھائے گئے قدم سے کس طرح کے متوقع نتائج نکل سکتے ہیں۔

خاص طور پر اگر آپ کو محسوس ہو کہ کوئی آپ کو بھڑکانے والے یا کسی پر تہمت لگانے والے مشورے دے رہا ہے تو فوراً ایسے شخص کی حوصلہ شکنی کریں اور آئندہ کے لیے اس سے محتاط ہو جائیں۔

یاد رہے کہ آپ کے مخلص ہمدرد کی پہلی اور سب سے بڑی نشانی یہ ہو گی ، وہ آپ کو ہمیشہ مثبت حل بتائے گا ۔  آپ کا خفیہ دشمن اور تماشائی ہمیشہ بغاوت اور منفی اقدامات پر اکسائے گا۔

یہی نہیں بلکہ وہ آپ کے غلط کاموں کی تعریف کرے گا اور آپ کے اچھے کاموں میں نقص نکالے گا۔

ایسے ظالم ہمدرد دوستوں اور رشتے داروں کی صحبت میں رہنے سے اچھا ہے کہ آپ خلوت میں اپنے پاک پروردگار سے لو لگائیں.  لوگوں سے اُسی قدر ملیں جس سے وہ آپ اور آپ کی گھریلو زندگی اور ذاتیات میں غیر ضروری نہ تو دخل دے سکیں. نہ ہی انہیں موقع ملے کہ وہ آپ کو اپنی وقت گزاری اور دل لگی کاذریعہ بنا سکیں۔

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
https://www.theatlantic.com/family/archive/2020/01/negativity-can-ruin-relationships/604597/

 

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles