31 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

ویڈیو گیمز کا نشہ

رخا خالد

It is said that #Video #game #addiction known as #gaming #disorder or #internet gaming disorder. It is #Generally #defined as the #problematic, #compulsive use of video games that #results in #significant #impairment to an #individual’s #ability to #function in #various #life #domains over a #prolonged #period of #time.

ٹی وی پر سارے بچے #ویڈیو #گیم لگا کر بیٹھے تھے۔ ان کی من پسند مقبول زمانہ گیم #ماریو کی آخری اسٹیج تھی۔
یہ مشہور و معروف گیم بچوں کی سب سے پسندیدہ تھی۔ اس میں اچھلتا کودتا ماریو، سب کو لبھاتا۔ اسے ۹۰ کی دہائی کی سب سے #کامیاب ویڈیو گیم مانا جاتا ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کیسٹوں میں یا #پلے اسٹیشن کے ذریعے گیمز صرف بچے یا کالج کی عمر کے #نوجوان کھیلا کرتے تھے۔ اس دور میں گھر کے بڑے ایک #مخصوص وقت میں ہی #ٹی وی پر گیم لگانے کی #اجازت دیا کرتے جو صرف ایک یا دو گھنٹوں پر محیط ہوتا۔

وقت تیزی سے گزرا اور پھر گیمز کا ایک #بحرِ بیکراں اُمڈ آیا اور چھوٹے بڑے، سبھی اس میں ڈبکیاں لگانے لگے۔ مگر یہ ہوا کیسے…؟
ذیل میں کچھ ایسی ہی #دلچسپ و #عجیب ایپلی کیشنز اور گیمز کا ذکر ہے جنہوں نے انسان کو عملی زندگیوں میں #مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔


کینڈی کرش (Candy Crush)

اس گیم سے کون واقف نہیں۔ یہ وہ کھیل ہے جو ۲۰۱۴ء میں #متعارف کروایا گیا۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے آکاس بیل کی طرح #نیٹ کی #دنیا اور #موبائل فونز میں اپنے پر پرزے پھیلانا شروع کر دیے۔

شروع میں یہ گیم محض نوجوانوں کی #توجہ کا مرکز بنی رہی پھر آہستہ آہستہ اس نے بزرگوں کی بڑی تعداد کو اپنی #لپیٹ میں لے لیا۔ #نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ گھر تو گھر #دفاتر، #مارکیٹوں، #دکانوں اور #ویگنوں میں بھی اس کے #شیدائی نظر آنے لگے۔

پھر ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ نوجوانوں سے زیادہ #ریٹائرڈ #بزرگوں نے اس #کھیل کو اپنا #ہمدم و #ساتھی بنا لیا۔ انھیں ایک اچھی #مصروفیت ہاتھ لگ گئی تھی اور وہ دنیا و #مافیہا سے گم #کینڈی #کرش میں کھوتے چلے گئے۔ ہمارے #دفتر میں بھی ایک #پروفیسر صاحب ہوا کرتے تھے۔

ان کا بھی سب سے بڑا #شغل کینڈی کرش کھیلنا تھا۔ وہ اُس وقت تک شاید ۵۰۰ سے بھی زائد لیول کھیل چکے تھے۔ یاد رہے اس گیم کے #لیول کی کوئی حد نہیں۔

تادمِ تحریر اس گیم کے ۵ ہزار سے زائد لیول ہیں۔ یہ کھیل ایک ایسا #نشہ ہے جس میں انسان ایک بار #مبتلا ہو جائے تو وہ دن رات کی #تمیز کیے بغیر #مسلسل لیول کراس کرتے رہنا چاہتا ہے۔ اس نے بہت سے لوگوں کی بینائی کو سخت #متاثر کیا۔#
ایک #رپورٹ کے مطابق کینڈی کرش بنانے والی کمپنی ’’#کنگ‘‘ کو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً آٹھ لاکھ #ڈالر کی خطیر رقم #صارفین کی طرف سے #موصول ہوتی ہے جو اگلے لیول کا #لاک کھولنے کے لیے #کریڈٹ #کارڈ کے ذریعے #سونے کی #اینٹ خریدتے ہیں۔

ان کی ایک اور رپورٹ کے مطابق تقریباً آدھے #ارب سے زائد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اسے #ڈاؤن #لوڈ کر کے کچھ عرصہ کھیلا پھر #ڈیلیٹ کر دیا، لیکن چند دن بھی وہ اس سے دور نہ رہ پائے اور انھوں نے اسے دوبارہ #انسٹال کیا۔
تحقیق کہتی ہے کہ اس گیم کو ایک خاص #ڈیزائن کے تحت بنایا گیا ہے جو کھیلنے والے کا #دماغ مکمل طور پر اپنے #قبضے میں کر لیتا ہے۔

بالکل #ٹیلی #پیتھی کی طرح اس کی #آواز اور #موسیقی انسان کو #ہپناٹائز کرنے جیسی #کشش رکھتی ہے اور انسان چاہ کر بھی اسے بند نہیں کر پاتا۔
دماغی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے انسان کے #دماغ میں دو قسم کی تبدیلیاں ہونا ممکن ہے۔ ایک #مثبت دوسرے #منفی۔
٭ مثبت رحجان
اس گیم کو پوری #یکسوئی اور #دلچسپی سے کھیلنے سے دماغ میں ایک #ہارمون جنم لیتا ہے جسے #ڈوپامائن  کہتے ہیں۔ اس ہارمون کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بیک وقت مثبت اور منفی #اثرات رکھتا ہے۔

اگر دماغ اس کے مثبت اثرات قبول کر لے تو نتیجے میں انسان خود کو #خوش ،#پُرسکون اور #مطمئن محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے مزاج میں ایک #لطافت اور #نرمی کا #عنصر #جنم لیتا ہے۔
٭ منفی رحجان
اگر ڈوپامائن کے منفی اثرات حاوی ہونے لگیں تو نتیجتاً انسان #غصیلا، #چڑچڑا پن اور #بیزاری محسوس کرنے لگتا ہے۔
بہرحال #حقیقت یہ ہے کہ فی الحال اس کھیل کا #جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

سب وے سرفرز(SubwaY Surfers)

موبائل کی یہ گیم دوسرے #نمبر پر آتی ہے جس نے گیمز کی دنیا میں #تہلکہ مچایا۔

اس گیم میں ایک #چور کے پیچھے #پولیس کا #سپاہی بھاگتا ہے۔ کھیل یہ ہے کہ سپاہی چور کے پیچھے بھاگتا رہے گا اور چور کھڑی ٹرینوں کے اوپر اور اطراف سے بھاگتا سونے کے سکے پکڑتا جاتا ہے۔

ٹرین سے یا پُل سے ٹکراتے ہی پولیس کا آدمی اسے آن دبوچتا ہے۔ بظاہر اس گیم میں کچھ خاص نہیں لیکن سکے پکڑنے، #ہائی #جمپ لگانے اور زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری کا #ریکارڈ بنانا ہی اس گیم کی اصل دلچسپی ہے جس نے ہزاروں لاکھوں صارفین کو اپنا #دیوانہ بنا لیا۔

اس قدر کہ وہ دن رات کھانے پینے اور پڑھنے لکھنے کا #ہوش گنوائے ٹرینوں کے اوپر نیچے #چھلانگیں لگاتے پائے جاتے اور #موبائل سے آتی پولیس مین کی #سیٹیوں کی آوازیں اس گیم کی #نشاندہی کرتیں۔ اس گیم کا #میوزک اور سیٹیوں کی آوازیں ہر گھر سے سنائی دیتی تھیں۔

پھر نئی آنے والی گیموں نے اس کا #جنون کچھ کم ضرور کیا مگر ختم نہیں ہو سکا۔ اس میں الجھ کر #نسلِ نو تعلیمی #میدان میں #کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بجائے #پولیس کو #چکمہ دینے جیسے #گُر سیکھ رہی ہے۔

لڈو اسٹار(Ludo Star)

یہ زیادہ پرانی نہیں۔ اسے منظرِ عام پر آئے محض ایک آدھ سال ہی ہوا مگر اس نے بڑی تیزی سے ہر گھر میں #ڈیرا ڈال لیا ہے۔

جن گھروں میں موبائل ہیں وہاں اب #گتّے کا #لکڑی کی وہ #خوبصورت اور #پائیدار لڈو نہیں پائی جاتیں جو کسی زمانے میں بچوں اور بوڑھوں کے کھیلنے کی بہترین چیز اور #سردیوں میں اپنے اپنے بستر میں #لحافوں میں گھس کر گرم گرم #چائے، #کافی کے ساتھ #مونگ پھلی کھاتے ہوئے شرطیں لگا کر کھیلی جاتی اور بہن بھائی، دادا دادی، والد یا والدہ اس میں ساتھی(پارٹنر) ہوا کرتے۔

ایک گوٹی مر جانے پر پورا کمرا شور و غل سے گونج اُٹھتا۔ایک دوسرے پر #دھوکا دہی کے الزامات لگائے جاتے، جھگڑا ہوتا اور پھر #صلح ہو جانے کے بعد دوبارہ #بازی جمائی جاتی۔ رشتوں کی خوبصورتی یونہی مل بیٹھ کر وقت گزارنے سے ہو جاتی تھی مگر موبائل کی #ڈیجیٹل #لڈو نے ہمیں اس سے بھی #محروم کر دیا۔

اس گیم نے جیسے آناً فاناً #جنگل میں آگ کی طرح دوڑ لگا دی اور مہینوں کے اندر اندر اس نے #مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔
ایک #افّواہ اس گیم کے بارے میں یہ بھی پھیلی کہ یہ شاید کسی #بھارتی #جاسوسی #تنظیم کی طرف سے #لانچ کی گئی ہے تاکہ #پاکستانیوں کی #آئی #ڈی اور #معلومات وغیرہ #ہیک کی جا سکیں۔

کچھ عرصہ یہ افواہ گردش میں رہی اور اس گیم کو پاکستان میں خطرناک جانتے ہوئے موبائلوں سے ڈیلیٹ کرنے کا ’کارِ خیر‘ بھی شروع ہوا مگر جب افواہ نے کوئی خاص ’گُل‘ نہ کھلایا تو اسے ری انسٹال کر لیا گیا۔

اس گیم کے نشے میں ہزاروں ماؤں کے گُل پڑھائی کے چراغ گل کیے اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں۔

نہ صرف جوان بلکہ عمر رسیدہ ریٹائرڈ لوگ بھی اس میں مصروف رہتے ہیں۔ گویا آوے کا آوا ہی خطرناک حدوں تک بگڑ رہا اور جو ہاتھ پہلے موبائل چھینا کرتے تھے ، وہی خود نت نئے فون خرید رہے تا کہ ان گیمز کا مزا لیا جا سکے۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی انسان تنہا ہو اور اس کے پاس جینے کے لیے رشتوں اور تعلقات کے مضبوط سہارے نہ ہوں۔

ایسا شخص گیمز کے ساتھ وقت گزارے تو یہ بری بات نہیں ،لیکن ایک ہی گھر میں اگر آپ کے بہن بھائی، دوست، کزن، بزرگ موجود ہوں اور آپ الگ کمرے میں بیٹھ کر موبائل کی چھوٹی سی اسکرین پر آنکھیں پھوڑتے ہوئے غیروں کے ساتھ ٹیم بنا کر جب آن لائن لڈو کھیلنا شروع کر دیں تو یہ یقیناً قابلِ تشویش ہے۔

بلیو وہیل یا سوسائیڈ گیم(Blue Whale )

اسے سوسائیڈ گیم بھی کہا جاتا ہے۔ اس جان لیوا گیم نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا جب اس کو کھیلنے والے پے در پے خودکشیاں کرنے لگے۔ یہ گیم کیا کرتی ہے آئیے جانتے ہیں۔
اس میں پلیئر کو ۵۰ دن میں۵۰ ٹاسک پورے کرنے اور ان کے پورا ہونے کا دستاویزی اور تصویری ثبوت بھی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ گیم کے شروعاتی ٹاسک عام سے ہوتے ہیں جیسے آدھی رات کوتنہا بیٹھ ڈراؤنی فلم دیکھنا یا آدھی رات کو اٹھ کر چھت یا کسی سنسان جگہ پر جانا۔

اس کے بعد ٹاسک مشکل ہوتے جاتے ہیں۔ اس میں کھلاڑی سے کہا جاتا کہ وہ خود کو نقصان پہنچائے یا منشیات کی زیادہ مقدار لے کر دکھائے یا پھر کسی اُونچی عمارت پر چڑھ کر بالکل کنارے پر کھڑا ہو جائے۔ یہ فضول شرائط یا ٹاسک کھلاڑی اس لیے ماننے پر مجبور ہوتا کیونکہ ان تمام مراحل میں وہ اپنی ذاتی شناختی اور ذاتی معلومات بھی گیم کے ایڈمنز کو فراہم کرتا رہتا ہے۔

ان معلومات کو بعد میں بلیک میل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ گیم کا ہر ٹاسک مکمل کرنے پر کھلاڑی کو کہا جاتا کہ اپنے بازو پر چاقو سے نشان بنائے۔ جیسے جیسے ٹاسک مکمل ہوتے جاتے بازو پر بلیو وہیل کی شکل بنتی جاتی ہے۔

گیم کے پچاسویں دن پچاسویں ٹاسک میں اسے خود کشی کرنے کا کہا جاتا ہے، جس سے انکار پر اس کی ذاتی معلومات شائع کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے گیم شروع کرنے والے کے لیے ایک بار گیم شروع کر کے واپس آنا مشکل ہے۔
پہلے اس گیم سے متعلق ایسی باتوں کو محض افواہ قرار دیا جاتا رہا اور اس کے کھیلنے والے کی اچانک موت کو اتفاقیہ سمجھا جاتا۔ مگر جب آئے روز ایسے جان لیوا حادثات ہونے لگے اور ہر بار خودکشی کرنے والا نوجوان لڑکا یا لڑکی اس گیم کا کھلاڑی پایا گیا تب دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اس گیم کے جد امجد کا پتا لگایا گیا کہ اس نے ایسی گیم کس مقصد سے بنائی؟
اس کا آغاز ۲۰۱۳ء میں روس میں ہوا۔ اس گیم کو فلپ بوڈکن نے تخلیق کیا تھا۔ اس کا تصور ساحل پر آنے والی وہیل سے لیا گیا جس کے مطابق ساحل پر پھنسنے والی کچھ وہیل خودکشی کرنے کے لیے ساحل کا رخ کرتی ہیں۔

اسی کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس گیم کے آخر میں کھلاڑی کو بھی خود کشی کرنے کا کہا جاتا ہے۔ اس کو کھیلنے کے نتیجے میں جب نوجوانوں کی اموات زیادہ ہونے لگیں تب فلپ کو روس میں حراست میں لے لیا گیا۔ اسے سولہ نوجوان لڑکیوں کو خودکشی پر اُکسانے کا مجرم مانا گیا۔

اس نے اپنے بیان میں اسے بنانے کا مقصد بتاتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس گیم کو بنانے کا مقصد خودکشی کے ذریعے معاشرے کے فالتو لوگوں کا صفایا ہے۔
اس کے علاوہ کئی اور افسوسناک خبریں بھی ہمارے سامنے آئیں۔ انٹرنیٹ ریکارڈ کے مطابق اب تک اس گیم کی وجہ سے دنیا کے بہت سے ممالک میں تقریباً ۱۵۰ سے زائد نوجوان خود کشی کر چکے۔
سعودی عرب کے ایک تیرہ سالہ لڑکے ميتلاق آفاس البوغامی اپنے کمرے میں خودکشی کر لی جس کی لاش اس کی ماں نے دریافت کی۔ لڑکے نے خودکشی کے لیے پلے اسٹیشن کی تاروں کا استعمال کیا۔

اس کی موت کو بلیو وہیل سے منسلک کیا گیا۔ وہ ملک میں اس گیم کا پہلا شکار تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے بازو پر بھی بلیو وہیل کا آدھا نقش بنا پایا گیا۔

ارجنٹائن میں ایک چودہ سالہ لڑکے کو انتہائی نگہداشت میں داخل کیا گیا جو بلیو وہیل کا کھلاڑی تھا۔ لاپلاتا میں ایک بارہ سالہ لڑکی کے دادا نے ایک پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی کہ اس نے اپنے بازو کو بلیو وہیل کی وجہ سے کسی تیز دھار آلے سے زخمی کر لیا ہے۔
اس کے علاوہ چین، انڈونیشیا، بھارت سمیت اور کئی ممالک میں بھی اس قسم کے دلخراش و افسوسناک واقعات دیکھنے اور سننے میں آئے۔ کئی نوجوانوں نے محض یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی بھی انسان گیم کھیل کر خود کو کیسے ختم کر سکتا ہے؟

ایک چیلنج کی طرح اسے کھیلنا شروع کیا اور وہ بھی اس کے پنجے سے نہ بچ پائے۔ شاید پاکستان واحد ایسا ملک ہے جہاں اسے کھیلنے والے ایک بھی کھلاڑی نے خود کشی جیسا اقدام نہیں اٹھایا اور یا پھر یہ ہماری خوش قسمتی کہ پاکستان میں اس گیم کے پھیلتے ہی اس کے خالق و مالک فلپ کو گرفتار کر لیا گیا اور یہ گیم بند کر دی گئی۔

پب جی (PubG)

یہ پرانے گیم بیٹل روئل کا نیا ورژن ہے اور اس کا جادو نوجوانوں کو مسلسل اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔

یہ عام طور پر دو یا اس سے زیادہ لوگ مل کر آن لائن ٹیم بنا کر کھیلتے ہیں اور اس میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے آپ کو ہر وقت الرٹ رہتے ہوئے ایک وقت میں سو لوگوں کو فائرنگ سے ہلاک کر کے اگلے ٹاسک یا مشن پر جانا ہوتا ہے۔ اس گیم میں اصل ٹارگٹ ایک چکن ڈنر ہے جو آخر میں جیتنے والے کو ملتا ہے۔

اس موضوع پر ہالی وڈ میں دو فلمیں بھی بن چکیں۔ یہ گیم نشے کی حد تک نوجوانوں کو چمٹ چکی ہے اور اسے کھیلنے والے کو نہ دن کا ہوش رہتا ہے نہ رات کا۔ ایک بار وہ یہ گیم اسٹارٹ کر دے تو چاہے آندھی آئے یا طوفان، کھلاڑی اسے بند کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

ابھی حالیہ دسمبر۲۰۱۸ء میں دبئی میں اس کا لائیو گیم شو منعقد کیا گیا جس میں کئی ممالک کے نوجوانوں نے حصہ لیا۔ جیتنے والی ٹیم کو نوٹ ۱۰ اور بھاری رقم بطور کیش (اندازاً پاکستانی دس لاکھ روپے) انعام مقرر کیا گیا۔
٭٭٭
موبائل گیمز زیادہ تر ان معاشروں کے لیے بنائی جاتی ہیں جہاں رشتے ناتے موجود نہیں اور نہ ہی اخلاقی قدریں موجود ہیں جن میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ خود کو بندھا محسوس کریں۔ وہاں آزاد معاشرہ اور ہر انسان اکیلا خود مختار ہے۔

ایسے میں یہ گیمز ان کی وقت گزاری کا بہترین ذریعہ ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں یہ موبائل کی جادو نگری جہاں سے انسان چاہ کر بھی باہر نا آ پائے، نِری بے راہ روی اور وقت کا انتہائی زیاں ہے۔ دوسری طرف رشتوں سے خود کو جان بوجھ کر دور کرنے کے مترادف ہے۔

یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو کیا ہے۔

گیمز سے دھیان ہٹے تو کچھ ایسی ایپلی کیشنز سامنے آ جاتی ہیں جو گیمز سے بھی بدتر معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہی ہیں۔ ان کا استعمال ہر عمر کا فرد بے جھجک اور بے دھڑک کر رہا۔

یہاں تک کہ گھر کی خواتین تک ان کی دیوانی ہیں اور بچیاں کھلے عام ان پر اپنی طرح طرح کی ویڈیو اپ لوڈ کر رہی ہیں جو ڈاؤنلوڈ کی آپشن کے ذریعے ہر ایک کے فون میں بآسانی منتقل ہو جاتی ہیں۔
مختلف ایپلی کیشنز کا نشہ یا پاگل پن
ان میں کچھ ایسے دلچسپ فیچر شامل کیے جاتے ہیں کہ جوان تو جوان بڑے بزرگ بھی اپنا آپ بھلا بیٹھتے اور اس میں کھو جاتے ہیں۔ ان ایپلی کیشنوں نے جیسے ہر طرف آگ لگا رکھی ہے جس میں وطنِ عزیز کا بچہ بوڑھا جوان جھلستا جا رہا ہے۔

سنیپ چیٹ(Snap Chat)


یہ آفت کا پرکالہ #ایپلی کیشن لوگوں میں عقل و سوجھ بوجھ کا فرق بھلا دینے والی ہے۔

اس میں #کیمرا کے ساتھ موجود کچھ ایسے مزاحیہ اور دلچسپ فلٹر لگے ہیں جو انسان کے چہرے اور آواز کو کسی بھی اور جانور یا روبوٹ جیسی آواز میں بدل دیتے ہیں۔

اس سے اصلی شکل کی پہچان بالکل نہیں ہوتی۔ بے تحاشا لوگ اس کے استعمال سے سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر اپنے ویڈیو چینل بنا کر مشہور ہو چکے۔

ٹک ٹاک (Tik Tok)


چین میں بنی اس ایپلی کیشن نے ایشیا میںمقبولیت، بیہودگی، فحاشی، شہرت، ان سب کے بیک وقت ایسے ریکارڈ توڑے کہ فی الحال اس کے مقابلے میں اور کوئی ایپلی کیشن کھڑی نظر نہیں آتی۔

یہاں تک کہ انڈونیشیا نے حال ہی میں اس پر بین لگا دیا اور وجہ یہ بیان کی کہ اس کے استعمال سے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے نوجوانوں نے تخلیقیت کے جوہر بھی اسی کے ذریعے دکھائے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے اس کے ذریعے واہیات، فحش اور ذاتی ویڈیوز بنا کر سستی شہرت کے لالچ میں نیٹ پر پھیلا دیا۔

قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ ہماری بچیاں اچھے برے، غلط صحیح کی تمیز کیے بغیر بے خوف و بے دھڑک اپنی ویڈیوز اس پر اپ لوڈ کر رہی ہیں جن میں وہ فلمی گانوں پر ناچتی، مکالموں پر اداکاری کرتیں یا کوئی اور تفریح کرتی دیکھی جاتی ہیں۔

لڑکے، لڑکیوں کا روپ دھار کر عجیب و غریب حرکتیں کر رہے ہیں۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ انھیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں؟ آخر کون روکے گا جب بزرگ ہی خود اس کا حصہ بنے ہوئے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔

یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کسی سڑک پر ناچنا شروع کر دیں اور لوگ آپ کو دیکھ کر تالیاں بجائیں، واہیات جملے کسیں اور آپ اسے اپنی شہرت سمجھنے لگ جائیں۔ اسی ٹک ٹاک نے ایک خطرناک چیز کو بھی جنم دیا وہ ہے نت نئے چیلنج۔ جن کا نہ کوئی مطلب نا کوئی وجہ۔

جس کے دل میں جو خیال آئے، چاہے وہ کتنا ہی فضول کیوں نہ ہو، وہ اس پر عمل کرتے ہوئے اس کی ویڈیو بناتا اور اسے چیلنج کا نام دے کر ٹیگ کر دیتا ہے کہ اگر کر سکتے ہو تو کر کے دکھاؤ۔ اوراس کے بعد ہزاروں ’’احمق‘‘ اسے پورا کرنے میں جی جان سے لگ جاتے ہیں چاہے پھر اس میں پیسے کا ضیاع ہو، قیمتی چیزوں کا یا پھر جان کا۔ انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔

عجیب، مشہور اور خطرناک چیلنج اور ان کے نتائج


انھی گیمز اور ایپلی کیشنز کے نتیجے میں کچھ ایسے فضول اور خطرناک چیلنج بھی سامنےآئے جنہوں نے کئی لوگوں کو نہ صرف مشکل میں ڈالا بلکہ کچھ کی جان بھی چلی گئی۔
۔آئس بکٹ چیلنج

اس میں چیلنج قبول کرنے والے کو اپنے اُوپر برف سے بھرے ٹھنڈے یخ پانی کی بالٹی انڈیلنا ہوتی ہے اور وہ بھی سردیوں کی ٹھنڈی رات یا شام میں۔ کئی ہزار لوگوں نے اس چیلنج کو پورا کرتے ہوئے اپنی ویڈیو بنائی اور سوشل سائٹس پر اپ لوڈ بھی کی۔

ڈاکٹروں نے انتباہ کیا کہ ایسا کرنے سے اچانک دل کی دھڑکن تھم سکتی اور موت واقع بھی ہو سکتی ہے۔ وجہ یہ کہ جسم کا درجۂ حرارت اچانک اتنی ٹھنڈ وہ بھی مائع حالت میں، بعض اوقات برداشت نہیں کر پاتا اور خون کی شریانیں منجمد ہونے سے دل متاثر ہو سکتا ہے مگر کسی نے ایسی وارننگز پر کان نہیں دھرے اور سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں جتے رہے۔
۔ کی کی چیلنج:KiKi Challange


اس چیلنج کو قبول کرنے والے بلیو وہیل کی طرح اکثر موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس میں چلتی گاڑی سے اتر کر گاڑی کے ساتھ ساتھ چلنا اور رقص کرتے ہوئے ویڈیو بنانا ہے۔

چین، انڈونیشیا سمیت بھارت میں اس چیلنج پر پولیس کو مجبوراً بین لگانا پڑا کیونکہ اس کی وجہ سے بے تحاشہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

چلتی گاڑی سے اتر کر گاڑی کے ساتھ چلنا اور رقص کرتے ہوئے ویڈیو بنانا احمقانہ ہی نہیں خطرناک ترین کام بھی ہے کیونکہ سارا دھیان موبائل کیمرے پر ہونے کی وجہ سے اطراف سے آتی جاتی گاڑیوں سے ٹکرانا، پھسل کر گِر جانا جیسے حادثات میں بہت تیزی آتی گئی، تب پولیس کو دخل اندازی کرنا پڑی۔

بھارت کے شہر گجرات میں اُوپر تلے دو تین لڑکے لڑکیاں اس حادثےکا شکار ہوئے۔ لڑکی بری طرح زخمی ہو کر اسپتال جا پہنچی جبکہ دونوں لڑکے اپنا چیلنج پورا کرتے وقت ویڈیو بناتے ہوئے اور رقص کرتے ہوئے مخالف سمت سے آنے والی گاڑی سے ٹکرا کر جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

بھارت میں اب ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانے پر موقع پر گرفتاری اور ساتھ دو ماہ کی قید کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
۔موبائل کیچ چیلنج:(If you Can)

اس میں آپ کو اپنا موبائل جتنا بلندی پر ممکن ہو، ہوا میں اچھالنا اور پھر اسے صحیح سلامت پکڑنا ہے۔ کئی ایک نے یہ چیلنج پورا کرنے کے چکر میں اپنے قیمتی موبائل ہوا میں اُچھالے اور کیچ نہ کر سکنے کی صور ت میں انھیں توڑ بیٹھے اور پھر ایپلی کیشن کو کوستے نظر آئے۔

اس میں ایپلی کیشن کا نہیں، ان لوگوں کا قصور ہے جو اس احمقانہ عمل کا حصہ بنے اور بروقت موبائل نہ پکڑنے کی صورت میں اس سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کسی بھی ایجاد اور جدید ٹیکنالوجی سے کس طرح کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یہ کُلی طور پر ہم پر منحصر ہوتا ہے۔ ہم کسی سہولت یا تفریح کا غلط استعمال کر کے پھر اس کے بنانے والے کو کوستے اور برا بھلا کہتے ہیں۔

ہمیں احساس ہی نہیں کہ یہ ایپلی کیشنز اور سافٹ وئیر ہمارا کس قدر اخلاقی، معاشی اور معاشرتی استحصال کر رہے اور ہم ان کے ہاتھوں استعمال ہو کر ذہنی پستی اور پاتال میں گرتے ہی جا رہے ہیں۔
یہ جانچنا بہت آسان ہے کہ کہیں آپ ان گیمز اور ایپلی کیشنز کے نشے کی لت میں مبتلا تو نہیں ہو چکے؟

اگر آپ میں مندرجہ ذیل کوئی ایک بھی خاصیت پائی جاتی ہے تو سمجھ لیں آپ خطرے میں ہیں۔
۱۔ اگر آپ نے اسے ایک دفعہ ڈیلیٹ کر کے ری انسٹال کیا ہو۔
۲۔ اگر گیم نہ کھیلنے کے دورانیے میں آپ کا کسی سے بات کرنے یا ملنے کو جی نہ چاہے اورآپ تنہا رہنے ترجیح دینے لگیں۔
۳۔ کسی کام میں دل نہ لگنا اور بار بار اسی گیم کا خیال آتے رہنا۔
اگر ایسا آپ کے ساتھ ہو رہا ہے تو آپ یقیناً اس نشے کے عادی ہو چکے ہیں۔ فوراً اس جادو نگری سے باہر آئیے اور خود کو جیتی جاگتی زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار کیجیے۔


٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles