35 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

ڈنمارک کے قلعے کے تہ خانے میں بیٹھا ہولگا ڈانسک

خوش و خرم لوگوں کا ملک 
ڈنمارک

سولہواں حصہ

ڈنمارک کے قلعے کے تہ خانے میں بیٹھا ہولگا ڈانسک

طارق محمود مرزا، سڈنی

ہلنسگور کے پورٹ پر متعدد جہاز لنگر انداز تھے جو مسافروں کو سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور خطے کے دیگر جزائر پر لے جاتے ہیں کیونکہ یہ خطہ بے شمار جزیروں پر مشتمل ہے۔

اس پورٹ کے پاس سے گزر کر ہم اپنی آج کی منزل مقصود یعنی کراؤن بورگ کے شاندار تاریخی قلعے کے سامنے جا پہنچے۔
اس قلعے کی ہیبت، رُعب اور دبدبہ دیکھ کر میں مبہوت رہ گیا۔ یہ انتہائی پُرشکوہ، بلند و بالا اور مضبوط قلعہ ہے۔
صدیوں قدیم ہونے کے باوجود اس کی شان وشوکت، پائیداری اور تاریخی حُسن انسان کو مسحور کر دیتا ہے۔
آ سمان کو چھوتی ہوئی بلند و بالا فصیلیں، عظیم الشان بُرج، رُعب دار محرابی صدر دروازہ، مُنفرد دریچے اور پانی میں گھری دیواریں دیکھ کر میں دیکھتا رہ گیا۔
یہ قلعہ دیکھ کر میری چشمِ تصور مجھے صدیوں قبل کے دور میں لے گئی جب ڈینش فوج کیل کانٹے سے لیس یہاں موجود تھی۔ اس کے اِذن کے بغیر کوئی جہاز، کوئی کشتی یہاں سے گزر نہیں سکتی تھی۔

اس وقت ڈنمارک اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے درمیان کتنی کشیدگی تھی اور اب حالات کتنے بدل گئے ہیں ۔اتنی صدیاں جنگیں لڑنے کے بعد اُنہوں نے سیکھ لیا ہے کہ جنگوں میں کچھ نہیں رکھا ۔ امن ہی سب کچھ ہے ۔
اس قلعے کے تین اطراف میں سمندر اور ایک جانب خشکی ہے۔ ا س کے ارد گرد مٹی کے بلند ٹیلے ہیں جن کے اندر آج بھی مورچے بنے ہیں۔ ان ٹیلوں، قلعے کی بلند فصیلوں اور چھت پر آج بھی توپیں نصب ہیں۔
قلعے کی چھت سے آگے کو جھکے پرنالے اور قلعے کے چاروں اطراف پانی کی گزرگاہ ہے۔
نصر ملک نے بتایا۔
یہ پرنالے اس غرض سے بنا ئے گئے ہیں کہ دشمن اگر اتنا قریب آ جائے کہ قلعے کی دیواروں تک پہنچ جائے تو ان پرنالوں کے ذریعے ان پر تیزاب گرایا جائے۔

گویا اُس دور کی جنگی تدابیر میں کوئی کسر روا نہیں رکھی گئی تھی۔ حالانکہ یہ قلعہ بغرضِ دفاع کم اور جارحانہ مقاصد کے لیے زیادہ استعمال ہوتا تھا ۔
اس قلعے کے ذریعے اس سمندری پٹی سے گزرنے والے جہازوں سے جبریہ ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔
کراؤن بورگ کا چھوٹا قلعہ ۱۴۲۰ء میں ڈنمارک کے بادشاہ ایرک آ ف پومیرانیا نے تعمیر کروایا تھا۔ جو بحری جہاز اس سمندری پٹی سے گزر کر بحیرہ بالٹک میں داخل ہوتے تھے یا وہاں سے نکل کسی دوسری سمت کا رُخ کرتے تھے۔

اس کا بنیادی مقصد ان بحری جہازوں سے جبراً محصول کر نے والے ڈینش سرحدی محافظوں کو ایک مضبوط و مستحکم مقام مہیا کرنا تھا ۔ قرونِ وسطیٰ کے دور کے تعمیر کردہ اس قلعے کی تعمیرِ نو ۱۵۷۴ء سے ۱۵۸۵ء کے درمیان بادشاہ فر یڈرک دوم  نے کرائی۔

بالآخر۱۷۳۵ء میں اس کی فصیل کی تعمیر نے اسے ایک شاندار اور مضبوط مزاحمتی قلعے میں یوں بدل دیا کہ اس عہد میں اور اب تک بھی کسی دوسری جگہ اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس قلعہ کی وجہ سے عسکری ہتھیاروں کے بنانے میں جو پیش رفت ہوئی وہ آگے جا کر یورپ میں عسکری ٹیکنالوجی کے لیے بےحد سود مند ثابت ہوئی اور توپ خانے ایجاد ہو ئے۔
کر اؤن بورگ قلعہ کے تین اطراف میں توپیں نصب کر دی گئیں، جو اب تک وہاں موجود ہیں۔ ان کے دھانے سمندری پٹی کی طرف رکھے گئے تاکہ محصول ادا نہ کرنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔ تاہم اس جبری محصول کا زمانہ کب کا لد چکا۔
ایک مضمون میں نصر ملک نے لکھا، کراؤن بورگ قلعہ کے حوالے سے اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ بارھویں صدی کے آخیر اور تیرھویں صدی کے وسط تک ایک اساطیری کردار ہولگر ڈانسک کی فتوحات کی کہانیاں زبان زد عام ہو گئیں۔
لوگوں میں یہ اعتقاد پیدا ہو گیا کہ کوئی ہولکا ڈانسک نامی غیبی دیوتا ہے جو ڈنمارک کے بادشاہ اور مملکت ’ڈنمارک‘ کے خلاف اُٹھنے والی قوتوں کی سرکوبی کے لیے اچانک نمودار ہوتا اور پلک جھپکتے ہی ملک کو فتح و نصرت سے ہمکنار کر کے غائب ہو جاتا ہے۔

اسی لیے ڈنمارک کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جب بھی ایسی کوئی آفت آئے گی، ہولگا ڈانسک جو کرائون بورگ قلعہ کے تہہ خانہ میں ایک مجسمے کی صورت اپنی ہی سوچ و فکر میں گم بیٹھا ہوا ہے اٹھے گا اور ڈنمارک کے خلاف تمام بلاؤں کا خاتمہ کر دے گا۔
ہولگا ڈانسک کے اس کردار کے حوالے سے ڈینش ادب میں کئی کہانیاں موجود ہیں۔ بچوں کے لیے طلسماتی کہانیاں لکھنے والے عالمگیر شہرت کے حامل مصنف و شاعر ہانس کریسٹن اینڈرسن نے ایک بہت ہی خوبصورت اور دلچسپ کہانی تخلیق کی جو ادب میں ہولگا ڈانسک کے حوالے سے ایک عظیم تخلیق سمجھی جاتی ہے۔

ہولگا ڈانسک کی ماورائی و دیوتائی فوج کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک قدیم ڈینش عوامی گیت میں اس کا اظہار یوں کیا گیا کہ جب کبھی ڈنمارک کو ضرورت پڑی، ہولگا ڈانسک جاگے گا اور مدد کرے گا۔
میں، نصر ملک اور طاہر عدیل کے ہمراہ قلعے اور سمندر کے درمیانی ٹیلے پر کھڑا تھا۔ سورج اس دن کا فریضہ ادا کر کے یہاں غروب اور یہاں سے ہزاروں میل دور میرے مسکن آسٹریلیا میں طلوع ہوا چاہتا تھا۔
اس ٹیلے سے غروبِ آفتاب کا منظر انتہائی حسین تھا۔

سمندر کے نیلے پانی کے اس پار سویڈن کی آبادیوں کے پیچھے غائب ہوتے سورج  نے آسمان شفق رنگ کر دیا تھا۔ یہ شفق قلعہ کی فصیلوں، برجوں، سمندر میں تیرتی کشتیوں حتیٰ کہ میرے ہمراہیوں کے چہروں پر بھی عیاں تھی۔ اس بلند ٹیلے پر گھاس، پھول، پودے شفق میں نہائے تھے۔ ہر سو شفق رنگ بکھرا تھا۔

اس وقت ہمارے علاوہ اس قلعے کی سیر کرنے والے صرف چند اور افراد تھے۔ کوپن ہیگن سے آنے والی سیاحوں کی ٹولیاں کب سے بسوں میں بیٹھ کر جا چکی تھیں۔

خنکی میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ گرد و پیش کے گل رنگ منظر قدم روکتے تھے تو یخ بستہ بحری ہوائیں قدم اُٹھانے اور واپسی کی راہ لینے پر مجبور کر رہی تھیں۔ بادل نخواستہ ہم اس ٹیلے سے اُترے۔ سمندر کے کنارے صدیوں سے ایستادہ عظیم الشان قلعے اور اس کے تہ خانے میں سوچوں میں گم ہولگا ڈانسک کو خدا حافظ کہا اور کارپارک کی جانب چل دیے۔
https://shanurdu.com/holga-dansk-and-danish-castle/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles