22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

چائے کی چسکی اور ادب کی چاشنی

چائے کی چسکی اور ادب کی چاشنی

تحریر: جاوید ایاز خان

بیٹھ جاتا ہوں جہاں  چائے بنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے 

کہتے ہیں ادب اور چائے کا بڑا پرانا یارانہ اور ساتھ ہے۔ چائے نہ ہو تو ادبی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔
میرے بچپن کے دوست شاعر و ادیب اور صحافت کی دنیا میں ایک بڑا نام انجم لشاری مرحوم،  جو بعد میں روزنامہ جنگ کراچی کے ایڈیٹر بھی رہے، کہا کرتے تھے کہ کوئی دوست مجھے چائے کے لیے پوچھ لے تو میرے پیر زمین میں دھنس جاتے ہیں اور چائے پینے سے پہلے باہر نہیں نکلتے۔
وہ چائے پینے کے ساتھ ساتھ بلا کے سگریٹ نوش بھی تھے۔ ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اور دوسرے ہاتھ میں سلگتا ہوا سگریٹ ان کی پہچان بن گیا تھا۔
جب بھی تشریف لاتے چائے کی فرمائش کرتے تو میری والدہ کو بڑا غصہ آتا تھا، کیونکہ ان دنوں چائے کے لیے لکڑی سے آگ جلانی پڑتی تھی۔
اس لیے جب وہ انجم لشاری کا نام سنتی تو چائے تھرماس میں بھر کر بھجواتی تھیں تاکہ وہ وقفے وقفے سے پیتے رہیں۔
وہ کہتا تھا یار جاوید میری سانسوں میں سگریٹ کا دھواں اور میری رگوں میں چائے دوڑتی ہے کیونکہ من پسند شخص کی توجہ اور چائے جتنی بھی مل جائے کم ہوتی ہے۔
انجم واقعی جلتی سگریٹ اورٹھنڈی چائے کا دیوانہ تھا ۔ ایک دن انجم چائے اور سگریٹ پیتے پیتے سوچوں میں گم ہو گیا۔ میں نے کہا یار کیا سوچ رہے ہو؟ تو  اس نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا یار میں سوچ رہا ہوں جب چائے نہیں ہوتی تھی سگریٹ بھی نہیں تھے۔
تو یہ اتنے بڑے شاعر کیسے شعر لکھتے ہوں گے؟
سب سے بڑھ کر بغیر چائے کے سننے والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا ؟
خالی حقے کے کش سے تو شاعری نہیں ہوتی ؟ وہ کہتا تھا چاے اور عشق دونوں میں  کچھ نہ کچھ  رشتہ ضرور ہے ایک کو بنانا پڑتا ہے اور دوسرے کو منانا پڑتا ہے۔
ان دونوں کی لذت صرف دل  اور دماغ والے لوگ ہی جانتے ہیں ۔ شام ادب ہمیشہ چائے کی خوشبو میں سجتی اور  مہکتی ہے۔
شاعر اور اس کی شاعری میں دم خم چائے کےہی دم سے  ہوتا ہے۔
ٹی ہاوس کی رونقیں ،شاعروں ادیبوں کی سجنے والی نشستیں اور سامعین کے ذوق کی تسکین اس کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہوتی ہے ۔
چائے خانوں میں دانشورں کی ہلکی پھلکی ادبی  گپ شپ اور غیر روائتی مشاعرے سب ایک کپ  کے بغیر ادھورے رہ جاتے ہیں ۔
چائے خانے ایسی بیٹھک ہوتے ہیں جہاں ادبی گفت و شنید اور چائے ساتھ ساتھ چلتےہیں ۔اچھی کتاب کو چائے کے بغیر پڑھنا کتنا مشکل ہے یہ صرف قاری جانتا ہے۔
ارود شاعری  بھی چائے کے بغیر سننا یہ صرف سامع جانتا ہے۔
چائے پر لکھے گئے ہزاروں شعر اس بات کے غماز ہیں کہ شاعر اور چائے کا رشتہ ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔
ادب سماج کا  آئینہ ہوتا ہے اور آئینے سے  بھلا چائے کیسے چھپ سکتی ہے ۔
اردو ادب میں کلام شاعر بہ زبان  شاعر بغیر چائے ادھورا  رہتا ہے ۔
چائے اور ادیب و شاعر کی نجی یا قلمی زندگی کا چولی دامن کا ساتھ چلا آ رہا ہے۔ ان کی رومانی شاعری ہو یا اداس نظم اس کا تذکرہ ضرور نظر آئے گا۔
اردو شاعری میں چائے کا تصور یقیناً ایک وسیع موضوع ہے جسے چند صفحات میں سمیٹنا ناممکن ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ  “اچھی کتاب  اچھے شعر اور اچھی چائے سے بڑھ کر کوئی  نعمت نہیں ہو سکتی۔ ”
اس لیے آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے چند اشعار حاضر ہیں مگر اپنے لیے چائے خود بنوا لیں ۔۔۔۔۔

جن کا نعم البدل نہیں ممکن
چائے انھیں میں شمار ہوتی ہے

ہاے یہ چائے کی میزوں پے قہقپوں کے شریک
دلوں میں جھانک کے دیکھو تو سب کے سب تنہا

کیتلی پر نگاہ ان کی ہو
کیسے چائے کا پھر نہ دم نکلے

نہ وہ آیا نہ بجھی چشم سبک گام میری
چائے کے کپ میں پڑی  گھلتی رہی شام میری

ہنس پڑی شام کی اداس فضا
اس طرح چائے کی پیالی ہنسی

آدھی  رات اور گہرے ساے
خالی کرسی میں اور چائے

کھو سا جاتاہوں کسی شام کی چائے میں کبھی
اور پھر چائے بناتے ہوے رو پڑتا ہوں

چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والوں
یہ تماشے سر بازار نہیں ہونے کے

کبھی کبھی تو فقظ چائے کی پیالی سے
خزاں کی بوڑھی تھکن کو بہار کرتے رہے

چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ
یاروں کو عہد رفتہ کے قصے سنائیے

چائے  نے ہمارے ادیبوں اور شاعروں کو طنزو  مزاح  کا بھی موقع خوب دیا ہے۔
مزاح کے لفظی معنی ہنسی مذاق اور طنز کے معنی طعنہ یا چھیڑ کے ہوتے ہیں۔
اُردو ادب میں طنزو مزاح ایک مقبول ترین صنف سخن ہے جو لوگوں کے دلوں کو گدگداتی اور ہنسنے مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
یہ صنف سخن سادہ اور آسان لفظوں میں ہوتی ہے اور عام لوگوں میں بڑی جلد مقبول ہو جاتی ہے۔ چند اشعار آپ کے ذوق سلیم کے لیے پیش ہیں ۔

غالبا’ غیر شعوری سے کسی جذبے سے
چائے شوہر کو بہت کالی پلائی ہو گی

بے وفائی کی خیر ہے لیکن
ہاے ظالم  نے چائے نہ پوچھی

چائے کا کپ تھا ہاتھ میں ورنہ
ایسے طعنے پہ اُٹھ کے آ جاتا

گھر کی صفائی ،کھانا ،بچوں کی دیکھ بھال
لڑکی کو چائے لانا مہنگا بہت پڑا

ہمارے معیشت دانوں  اور سیاستدانوں  کی نگاہیں اب ہماری چائے کی پیالی اور کیتلی تک آ پہنچی ہیں جو ہم غریبوں کی مہمان نوازی کا بھرم رکھے ہوئے ہے۔
مہمانوں کا سواگت اس سے سستا ممکن نہیں ہوسکتا ۔آج کے معاشرے میں  یہ ہمارے  غریب مزدور  کی سب سے بڑی عیاشی تصور کی جاتی ہے۔  یہ چائے اب تمام کاروبار، دفتروں اور دکانوں کی زینت بن چکی۔
جس کے بغیر جینے کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے ۔اگر چائے کو  اپنا قومی مشروب کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا ۔چائے ہماری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ ہے۔
گھر گھر میں چائے کے دو گھونٹ سے ہی دن کا آغاز اور اختتام ہوتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں چائے وہ واحد گرم مشروب ہے جو غصہ ٹھنڈا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے  ۔

دو کی بجاے چائے بنائی ہے ایک کپ
افسوس ! آج تو بھی فراموش ہو گیا

ہمارے وزیر اور سیاستدان احسن اقبال صاحب نےجب ایک کپ چائے کم کرنے کا مشورہ دیا تو ہماری چائے زدہ قوم تڑپ اُٹھی اور ادیب شاعر اور دانشور تو  پریشان ہو کر رہ گئے ہیں۔ کیونکہ اب تو پوری قوم کی رگوں میں خون کی بجائے چائے گردش کر رہی ہے ۔
ہمارے معاشرے میں چائے کی ایک پیالی ذہن کو تازہ کر دیتی ہے۔ تھکاوٹ کو مٹاتی ہے ۔
دکھ سکھ کی گھڑی ہو یا ٹینشن سے نجات پانا، سر درد ہو یا اکیلےمیں، کسی  خاص کے ساتھ وقت گزارنا ہو،  چائے ایک خوشگوار بہانہ ہی نہیں ہماری تہذیب وتمدن اور روایات کا اہم جزو بن چکی ۔
اگر کسی کو چائے نہ پلائی جائے تو کہتے ہیں، ” ایک کپ چائے بھی نصیب نہ ہوئی۔ یار کنجوسی کی بھی حد ہے۔ ایک کپ چائے بھی نہ پلائی۔ “دراصل یہ ان کے غصہ کا اظہار ہوتا ہے ۔
“خدارا چائے کا احترام کیا کرو۔ یہ تمام مشروبات کی مرشد ہے “

چائے ہی چائے بدن میں ہے لہو کے بدلے
دوڑتا اب ہے رگوں میں یہی تتا پانی

میری ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ غریبوں کی مہمان نوازی اور ادیبوں کی تنہاہی اور اداسی کے آخری سہارے چائے کو اپنی ماہرانہ رائے سے نہ چھیڑا جائے، کیونکہ ہمیں اس کے چھوڑنے اور کم کرنے کے تصور سے ہی تکلیف ہوتی ہے۔
جب سے آپ نے ایک کپ چائے کم کرنے کا کہا ہے، ہماری چائے کی پیالی میں بھی ایک طوفان برپا ہے۔ ایسا نہ ہو یہ طوفان پیالی  کے ساتھ ساتھ ہماری آنکھوں سے بھی سے بھی چھلک جائے، کیونکہ معیشت کی تباہی میں غریبوں اور ادیبوں کی چائے کا کوئی ہاتھ نہیں ۔
ہماری زندگی بہت مختصر ہے۔  چند چائے کی پیالیاں ہماری معیشت کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ ”
چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والوں
یہ تماشے سر بازار نہیں ہونے کے”
کیونکہ

میں نے چھوڑ کر بھی دیکھی ہے
میرا چائے کے بن گزارہ نہیں

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles