نواں باب
سیول کا ناسٹلجیا
محمد توفیق
یہ گھپلا کچھ ہوائی سفروں میں ہی ہوتا ہے. کہیں دن فرار ہو جاتا ہے ، کہیں سے رات چرا لی جاتی ہے۔
ایتھوپین ایئر لائن کا طیارہ سیول کے انچون ایئر پورٹ پر لینڈ کر گیا ہے۔
اس کے انجن طویل مسافت کے باعث ہانپ رہے ہیں۔ اس کے چار طاقتور انجنوں میں کئی ہزار گھوڑوں کا اصطبل ہے۔ سیول سے میری بڑی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔
1988ء اولمپکس اور عالمی سائیکلنگ فیڈریشن کے اجلاس میں شرکت کا اعزاز ملا تھا۔ اس وقت ہم قدیم ”گمپو“ ایئر پورٹ پر اترے تھے۔
سیول سے پندرہ کلومیٹر باہر ”انچون“ ایئر پورٹ کا افتتاح 2001ء میں ہُوا ہے۔تب سیول ایک مرقع اور مرتب خوبصورت شہر کی صورت میں سامنے آیا لیکن میرے لیے یہ ایک بڑا صبر آزما مگر سبق آموز تجربہ ثابت ہُوا۔
زادِ سفر کے طور پر جو ہزار ڈالر ہمراہ تھے ، وہ سوٹ کیس بیجنگ میں رہ جانے کے باعث مجھے اٹھارہ روز 32 ڈالر میں گزارنے پڑے۔
خیر یہ کہانی پھر سہی۔ سیول اولمپکس کی حاصلِ کلام یادگار امریکا کے کارل لیوئس اور کینیڈا کے بین جانسن کا 100 میٹر کا ڈیش حافظے میں محفوظ ہے۔
یہ مقابلہ تو بین جانسن نے ورلڈ ریکارڈ کے ساتھ جیت لیا لیکن چند ہی گھنٹوں بعد اس کے یورین سیمپل میں ڈوپنگ ثابت ہونے پر اسے نہ صرف گولڈ میڈل سے محروم ہونا پڑا بلکہ رسوا کُن انداز میں سیول سے دیس نکالا کا سامنا بھی کرنا پڑاتھا۔
پھر الجزائر کے نورالدین مارسیلی کو کون بھلا سکتا ہے
جنہوں نے 1500 میٹر میں طلائی تمغہ جیتنے کے بعد یادگار جملہ کہا تھا
” When I am running, I am always thinking, who will be Second, who will be Third”
سیول انچون ایئر پورٹ پر ہمارے ساتھ ”خصوصی برتاؤ“ روا رکھا گیا
یعنی وہی جو باقاعدہ ”القاعدہ“ کے سرگرم رکن کے ساتھ کیا جاتا ہو گا۔
بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ اب بین الاقوامی سفر طوالت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اعتبار سے بھی بہت مشکل ہو گیا ہے کہ
تخریب کاروں کی کسی متوقع واردات کی خوفزدگی میں ایئر پورٹ انتظامیہ پتا کھڑکنے کی آواز سے بھی چونک پڑتی ہے، جس کا رد عمل آئے دن کی پابندیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ جن لوگوں کو خصوصی سفارتی مراعات حاصل ہیں۔
اب ان کے بھی جوتے، گھڑیاں، بیلٹس اتروا کر انہیں بار بارسکیورٹی آلات کے سامنے ”ہینڈز اَپ“ ہو کر اپنی حمیت اور غیرت سے آنکھیں چرانی پڑتی ہیں۔
قصہ مختصر ہمارے ساتھ بھی ایسی ہی ”کتوں والی“ صورتِ حال درپیش ہے۔
(7ستمبر 2021ء)