25 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

اغوا برائے تاوان

تحریر، جاوید راہی

اکرام کے چہرے پر پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے فیضاں نے بڑی اپنائیت سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسے مخاطب کیا کہ تم تنگدستی کی بنا پر گھر چھوڑ کر جانا چاہتے ہو نا۔ ہاں فیضی، اکرام اسے فیضاں کی بجائے فیضی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ تو میں نے پھر سوچ لیا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہو گا فیضاں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے دھیمی آوز میں کہا۔ کیا؟اکرام نے آگے جھکتے ہوئے پوچھا ۔ مجھے رحمت کے گھر کام کرتے خاصا وقت ہو چلا ہے مجھے گھر کے کونے کونے کا علم ہے وہ اپنا سب کچھ کہاں کہاں رکھتے ہیں میں موقع پا کر سب کچھ نکال لوں گی اور ہم سب کچھ چھوڑ کر یہاں سے بھاگ جائیں گے ویسے بھی آج کل غلام محیی الدین مجھے بہت طعنے دینے لگا ہے اگر تم میری بات مان لیتے تو میری شادی اس سے تو نہ ہوتی فیضی نے دُکھ بھرے لہجہ میں کہا۔
دیکھو فیضی میں میں تمہیں ایسا مشورہ نہیں دونگا کہ تم ایسا سوچو یا کرو اگر میں نے تمہیں بھگا کر ہی لے جانا ہوتا تو میں کب کا یہ سب کچھ کر چکا ہوتا۔ کیا میں نے کبھی تمہیں نوکرانی یا کسی کی بیوی ہونے کا طعنہ دیا ہے ۔نہیں اکرام یہ بات نہیں میں تو تمہاری پریشانی کی وجہ سے کہہ رہی ہوں۔ اچھا میں چلوں تمہیں بھی کام سے دیر ہو رہی ہے اکرام نے گلی کے کونے پر کھڑی اپنی موٹرسائیکل کی طرف مُڑتے فیضاں سے اجازت لی دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو کر اپنے اپنے راستے پر چل دیئے۔
اکرام حجرہ چوک کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر کرم دین اور اشفاق پر پڑی جو ہوٹل کے باہر کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے وہ بھی موٹرسائیکل کھڑی کرتے ان کے پاس آبیٹھا۔ اشفاق نے اس کیلئے بھی چائے کا آرڈر دیا اور باتیں کرنے لگے ۔کرم دین نے کام دھندے کا پوچھا اور جواباً اکرام نے کہا کہ سوچ رہا ہوں کراچی چلا جائوں۔ اشفاق نے برجستہ کہا کہ فیضاں اور غلام محیی الدین بھی جائیں گے تمہارے ساتھ۔ جواباً اکرام چپ کر گیا نہیں ایسی کوئی بات نہیں وہ تو بیچاری میرے لئے بہت پریشان ہے اکرام نے چائے کا کپ جو لڑکا رکھ گیا تھا اٹھاتے ہوئے اشفاق کو بتایا۔ کرم دین جو بنیادی طور پر کریمنل سوچ رکھنے والا شخص تھا اس نے اکرام کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ میں تو اشفاق کو کہہ رہا تھا کہ آج کل سب سے آسان کام ڈکیتی ہی رہ گیا ہے مگر یہ ٹھہرا ڈرو بندہ اس نے اپنے حقیقی سالا کا مذاق اڑاتے اکرام کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔یار اشفاق میں فیضان کو مل کر آرہا ہوں اس نے کہا کہ ہے کہ رحمت کے گھر چوری کر کے یہاں سے نکل جاتے ہیں آج کل اس کا خاوند اسے میرے بارے میںبہت تنگ کر رہا ہے۔ کرم دین نے اسے اپنی طرف کرتے ہوئے کہا کہ رحمت خاصا مالدار آدمی ہے اگر فیضاں مدد کرے تو کسی روز اسے قابو کر لیتے ہیں اس سے ہمارے ہاتھ تو مال بھی لگ جائے گا اور فیضاں پر بھی کوئی شک شبہ نہیں ہو گااگر پولیس نے اس سے پوچھ کچھ بھی کی تو وہ ہوشیا ر ہے سب سبنھال لے گی۔ اسی اثناء میں اشفاق درمیان میں بول پڑا یار چھوڑو کوئی اور بات کرو۔ چلو پھر ایک اور کام کر لیتے ہیں اسکی مدد سے رحمت کا بچہ اٹھوا لیتے ہیں۔ اس سے کیا ہوگا؟ اکرام نے پوچھا ۔اس سے رقم مانگیں گے اور کیا ہوگا اس بار کرم دین نے آنکھ دباتے دونوں کی طرف داد طلب انداز میں دیکھا۔ یار ڈر لگتا ہے اس طرح کے کاموں سے ۔ تم بھی اشفاق کی طرح سوچتے ہو کرم دین نے مصنوعی غصہ سے اکرام کی جانب دیکھتے اسے ڈانٹا۔ اچھا میں بات کر وں گا فیضان سے کہتے اکرام نے چائے کا آخری گھونٹ بھر ااور ان سے اجازت لیکر وہاں سے اُٹھ گیا۔
شام کو اس نے فیضاں سے پوچھا کہ تم میرے کہنے پر کیا کرسکتی ہوں تو فیضاں نے جواباً اسے کہا کہ تم کچھ کہہ کر تو دیکھو ۔ تو پھر تم نے یہ کام کرنا ہے رحمت کے چھوٹے لڑکے کو ہمارے سپرد کرنا ہے میرا مطلب ہے کہ کرم دین ،اس کا سالا اشفاق، میں اور تم اس واردات میں شامل ہونگے بچہ اغوا کر کے محفوظ مقام پر رکھیں گے اور بذریعہ موبائل فون اس بچے کے بدلے اس کے والد سے رقم مانگیں گے اب تم بتائو وہ کتنا مال آسانی سے دے پائیگا تم تو خاصاوقت اس گھر میں رہتی ہو۔ وہ خاصا مال دار ہے چاہے کروڑ روپیہ مانگ لو ،حسن میں اس کے باپ کی جان ہے جب وہ کبھی گھر سے باہر ہو تو دن میں کئی بار فون کر کے سب سے پہلے محمد حسن کے بارے میں بات کریگا ۔ ٹھیک ہے تم تیار رہنا۔ کرم دین نے سب پلان ترتیب دیتے مجھے اور اشفاق کو الرٹ رہنے کا کہا ہے ۔
کئی دن تک وہ تینوں اغوا برائے تاوان کے سلسلہ میں پلاننگ کرتے رہے اور یہ بات اکرام پر آرُکی کہ فیضاں گھر سے بچے کو اٹھا کر اکرام کے سپرد کرے گی۔ فیضاں کام کرنے کے دوران ننھے محمد حسن پر بھی نظر رکھے ہوئے تھی اور اس کا رابطہ موبائل فون پر اکرام سے بھی جاری تھا ۔ آخر کار وہ موقع پاکر حسن کو گود میں اٹھاتی باہر نکل گئی باہر گلی کے کارنر پر اشفاق اور اکرام موٹرسائیکل پر تیار کھڑے تھے وہ حسن کو فیضاں سے لے کر گولی کی طرح آگے نکل گئے۔ اسی تیزی سے فیضاں بھی واپس گھر میں داخل ہو کر اِدھر اُدھر کے کام میں مصروف ہو گئی۔
کچھ دیر بعد اچانک حسن کی والدہ کو جب اپنا بیٹا نظر نہ آیا تو اس نے نوکرانی فیضاں کو آواز دیتے حسن کا پتہ کرنے کا کہا۔ فیضاں نے کچھ دیر باہر اندر جانے کے بعد پونے دو سالہ محمد حسن کے نہ ملنے کے بارے میں بتایاکہ بی بی جی حسن باہر بھی نہیں اور نہ ہی اندر ہی ملا ہے ۔ ماں کے کلیجہ پر جیسے کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو وہ دیوانہ وار گلی کے گھروں میں حسن کا پتہ کرنے لگی ساتھ میں فیضاں اور گھر کی دیگر خواتین بھی بچہ کو تلاش کر رہی تھیں کمسن حسن کے والد رحمت ولد محمد شریف کو اطلاع دی گئی تو حجرہ میں کہرام مچ گیا۔ مسجدوں میں اعلان ، لائوڈ اسپیکر پر اعلان، پولیس کو اطلاع کر دی گئی۔ ڈی پی او بابر بخت قریشی نے فوراً تھانہ سٹی حجرہ کے انسپکٹر محمد اسلم مجھیانہ ، سب انسپکٹر زبیر شاہ اور دیگر پولیس پارٹی کو بچے کی گمشدگی کے بارے میں اپنی نگرانی میں تلاش کرنے کا حکم دیا۔
اُدھر کرم دین نے اکرام اور اشفاق کے ذریعہ محمد حسن کو اپنے رشتہ دار رحمت علی ولد محمد صدیق کے گھر سرائے مغل میں منتقل کرتے پہلا فون حسن کے والد رحمت کو کیا کہ تمہارا بیٹا ہمارے قبضہ میں ہے یہ اس کی آواز سن لو، معصوم محمد حسن کی آواز سن کر باپ تڑپ اُٹھا اور اس کی منت سماجت کرتے کہا کہ میرے بچے کو کچھ مت کہنا جو تم کہتے ہو میں مانتا ہوں۔ تو ٹھیک ہے 20لاکھ روپے کا بندوبست کرو اگر پولیس کو اطلاع کی تو پھر تم جانتے ہو میں کیا کروں گا کہہ کر کرم دین نے کال کاٹ دی۔
فیضاں پل پل کے حالات کا جائزہ لے رہی تھی اکرام  نے اپنی اس داشتہ کو اس کام پر مامور کیا تھا کہ تم گھر کے سارے لوگوںپر نظر رکھنا اگر کوئی گڑ بڑ دیکھو تو مجھے آگاہ کر نا۔ رحمت بار بار اپنے دوستوں ، رشتہ داروں سے رابطہ میں تھا فون سن کر اس نے فوراً پولیس انسپکٹر اسلم مجھیانہ کو اس کا ل کے بارے میں آگاہ کیا تو اس نمبر بارے مانیٹرنگ شروع کر دی۔ اس کام کیلئے سب انسپکٹر زبیر شاہ کا انتخاب کیا گیا جو محکمہ پولیس کا ہونہار آفیسر سمجھا جاتا تھا جس نے رحمت علی کو اپنے پاس بلا کر اگلی فون کال کا انتظار کرنا شروع کردیا۔
اُدھر فیضاں نے اکرام کو کال کرکے بتایا کہ رحمت علی نے فون بارے پولیس کو آگاہ کر دیا ہے اور اس کو سٹی تھانہ حجرہ کے سب انسپکٹر زیبر شاہ نے اپنے پاس بلا لیا ہے ۔ کرم دین کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے دوبارہ فون کرتے رحمت علی کو مخاطب کیا کہ میں نے تمہیں سختی سے منع کیا تھا مگر تم نے وعدہ خلافی کر کے میرے قہر کو آواز دی ہے اگر اپنے بچے کی سلامتی چاہتے ہو تو رقم کا بندوبست کرو اس بار پولیس سب انسپکٹر زیبر شاہ نے فون رحمت علی سے لیتے اپنے بارے میں بتایا کہ میں بچے کا ماموں ہوں ہم لوگ سفید پوش لوگ ہیں 20لاکھ کا انتظام نہیں ہو سکتا ۔ اتنا سُنتے دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی۔
اُدھر پولیس کو کرم دین کی سمت کا اندازہ ہو گیا تھا وہ سرائے مغل کے آس پاس تھا انسپکٹر مجھیانہ  نے زبیر شاہ اور دیگر پولیس اہلکار سادہ کپڑوں میں رحمت علی سمیت الگ الگ موٹرسائیکلوں پر نکل پڑے ۔ جب رحمت علی نے گھر فون کر کے بتایا کہ اغوا کاروں کا پتہ چل گیا ہے وہ سرائے مغل کے آس پاس ہی کہیں ہیں، پولیس کے ہمراہ تلاش میں جا رہا ہوں آپ لوگ دعا کرنا ۔ فیضاں بھی پاس موجود تھی اس نے چھت پر جاتے اکرام کو آگاہ کر دیا کہ پولیس کو علم ہو گیا ہے کہ تم لوگ سرائے مغل کے آس پاس ہو لہٰذا اپنا بندوبست کر لو۔ پولیس پارٹی اپنے طریقہ کے مطابق ادھر ادھر مشکوک لوگوں پر نظر رکھے کئی گھنٹوں تک خوار ہو کر واپس حجرہ آگئی۔
اس دوران اس گینگ نے رحمت علی سے کوئی رابطہ نہ کیا ۔ رات پونے تین بجے ایک بار پھر رحمت علی کے فون کی گھنٹی بجی پورا گھر غم و یاس کی کیفیت میں تھا فیضاں بھی نظاہر ان کے دکھ میں شامل تھی اس نے اپنے گھر جانے کی بجائے وہاں ان لوگوں کے بیچ رہ کر تمام حالات پر نظررکھے ہوئی تھی ۔ اس بار کرم دین نے اپنے لہجہ میں سفاکی بھرتے رحمت علی کو مخاطب کرتے دھمکی دی کہ اگر تم  نے پولیس کو پھر خبر کی تو اس کا انجام تمہارے بیٹے کی موت ہو گا ، میں خود رقم20لاکھ سے کم کر کے 10لاکھ مقرر کر رہا ہوں، صبح اگر تم نے انتظام نہ کیا تو پھر میں نے کیا کرنا ہے اس بارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہتے کرم دین نے کال کاٹ دی۔
رحمت علی نے 10لاکھ کا بندوبست کرنے کے لئے اپنے عزیزوں سے رابطہ کر کے پیسوں کا انتظام شروع کر دیا۔ فیضان 10لاکھ کا سن کر مطمئن ہو گی اور اس نے اکرام کو خبر کرتے بتایا کہ رحمت علی اپنے رشتہ داروں سے رقم اکٹھی کر رہا ہے ۔
دوسرے دن اس نے گھر سے جاتے سب کو یہ کہہ دیا کہ میں رقم لے کر بغیر پولیس کو بتائے ان سے ان کے بتائے پتہ پر رابطہ کروں گا۔ دراصل اسے فیضاں پر شک ہو گیا تھا اس لئے اس نے انسپکٹر اور سب انسپکٹر سے رابطہ کرتے فون کال اور 10لاکھ کا بتایا انہوںنے کال مانیٹرنگ کا پتا لگوایا تو انہیں معلوم ہوا کہ ملزمان حجرہ کے آس پاس ہی تھے ۔ رحمت علی فون کال کے ا نتطار میں تھا کہ صبح دس بجے کے قریب پھر اسی نمبر سے کال آئی کہ رقم لیکر راجو وال روڈ پر آؤ اور اکیلے آنا ورنہ انجام اچھا نہ ہو گا اگر کسی کو ساتھ لائے یا پولیس کو خبر کی تو اپنے بچے سے ہاتھ دھو بیٹھو گے ۔
سب انسپکٹر زبیر شاہ اور اسلم مجھیانہ انسپکٹر سٹی حجرہ پولیس نے فوراً ایک ویگن کا بندوبست کی ااور ملازمین کو باراتیوں کی شکل میں اندر بٹھا تے رحمت علی کو موٹرسائیکل پر آگے آگے کافی فاصلے پر چلنے کو کہا ۔ ایک جگہ رحمت علی نے موٹرسائیکل کی رفتار کم کی تو ویگن ڈرائیور نے بھی اپنی رفتار کر دی ۔ زبیر شاہ نے دیکھا کہ وہ فون سن رہا تھا پھر اس نے راستہ تبدیل کرتے موٹرسائیکل کا رخ حجرہ چوک کی طرف کر دیا۔ ویگن ڈرائیور نے بھی دھیمی رفتار میں اپنا رخ موٹر سائیکل کے پیچھے کر دیاتھا۔
ویگن کے اوپر ڈھول اورسجے پھول دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا تھا کہ اندر پولیس الرٹ بیٹھی ہے۔ دور سے انسپکٹر اسلم مجھیانہ نے دو موٹرسائیکل سوار وں کو مخالف سمت سے آتے رحمت علی کو کراس کر تے دیکھا جو ویگن پر چپٹی سی نگاہ ڈالتے گزر گئے۔ زبیر ان پر نظر رکھو مجھے یہ دونوں مشکوک لگے ہیںانسپکٹر جو دیہاتی لباس میں باراتی لگ رہا تھا  نے پیچھے بیٹھے زبیر شاہ سب انسپکٹر کو کہا۔ جی سر کہتے وہ گھوم کر ان موٹرسائیکل سواروں کو دیکھنے لگا جو شائد آگے جاکر واپس پلٹ رہے تھے۔ ایک بار پھر وہ ویگن کو تیزی سے کراس کر گئے آگے بیٹھے انسپکٹر اسلم مجھیانہ نے دونوں کی شکلوں کو اپنے ذہن میں بٹھا لیا۔
آگے آگے رحمت علی چل رہا تھا اور پیچھے اکرام اور اشفاق تھے پھر وہ رحمت علی کے قریب جاتے آہستہ ہو گئے۔ رحمت علی کے موٹرسائیکل کی رفتارقدرے کم ہوتے دیکھ کر پولیس پارٹی ہو شیار ہو گی۔ دونوں موٹرسائیکلیں رینگنے کی رفتار میں تھیں اور رحمت علی رقم کا شاپر ان کی طرف بڑھا رہا تھا وہی لمحہ تھا پولیس کے پاس ۔باراتیوں کی شکل میں انسپکٹر، سب انسپکٹر اور دیگر ملازمین گولی کی سی رفتار میں ویگن کے دروازے جو پہلے سے کھے ہوئے تھے سے کود کر باہر نکل آئے اس سے پہلے کہ وہ دونوں فرار ہوتے زبیر شاہ نے اور انسپکٹر اسلم مجھیانہ نے دونوں کو قابو کر لیا رقم جو اکرام کے ہاتھ میں تھی اور دونوں کے پستول موبائل قبضہ میں لیتے انسپکٹر نے بچے کے بارے میں پوچھا تو اشفاق نے اپنے رشتہ دار رحمت ولد صدیق سکنہ سرائے مغل کے گھر بتایا ۔ دونوں کو ویگن میں گرفتارکرکے بٹھاتے ویگن سرائے مغل کی طرف موڑ دی ۔
کرم دین موقع واردات سے فرار ہو گیا۔ مغوی محمد حسن جو رحمت ولدصدیق کے گھر میں چھپایا ہو ا تھا جسے بچے کے والد کی شناخت پر بازیاب کرواتے اس کے سپر د کر دیا گیا۔ بچہ جو 48گھنٹے تک اپنے ناکرہ جرم کی سزا بھگت رہا تھا اپنے باپ کے سینے سے لگا سہمی نظروں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
ڈی پی او بابر بخت قریشی نے اپنی پریس کانفرنس میں جو بریفنگ دی اس کے مطابق پولیس نے 20لاکھ روپے تاوان کیلئے اغوا ہونیوالے پونے دو سالہ بچے کو 48گھنٹوں کی قلیل مدت میں بازیاب کرتے ملزمان کو گرفتار کر لیا جبکہ اغوا برائے تاوان کا ماسٹر مائنڈ ملزم کرم دین فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ فیضاں کو گھر میں قابو کر تے مقدمہ نمبر109/14 مورخہ2-2-14 دفعہ365/Aدہشت گردی ایکٹ7-ATAکے تحت چالان کر کے جیل بھجوادیا۔
ان دونوں افسران کو اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے نبھانے پر ڈی پی او بابر بخت قریشی اور آئی جی پنجاب خان بیگ نے شاباش دی ۔ملزمان کا مقدمہ دہشتگردی کورٹ نمبر2میں زیر سماعت ہے ۔ لواحقین نے پولیس کی کارکردگی پر خراج تحسین پیش کر تے پیسڈی ٹرائل کے ذریعے سنگین ترین جرم کرنے والے ان بد ترین معاشرے کے ناسور افراد کو قانون کے مطابق سزا سنانے کی استدعا کی ہے ۔

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles