تحریر، جاوید راہی
سپرنٹنڈنٹ جیل کے ساتھ مختلف سیل دیکھتے میں انتہائی خطرناک قیدیوں کے سیل والے حصہ سے گزر رہا تھا کہ میری نظر 15/16سالہ لڑکے پر پڑی جو قید تنہائی کی پوزیشن میں تھا۔ اس کے پاس والے تمام سیل بالکل خالی تھے۔ آمنے سامنے بنے کئی لاک اَپ قبرستان جیسا ماحول پیدا کر رہے تھے۔
میں نے خان صاحب کو مخاطب کرتے پوچھا کہ یہ لڑکا الگ تھلگ کیوں بند ہے ؟ یہ خود کش حملہ آور تھا۔ کسی وجہ سے جیکٹ کو اُڑا نہیں پایا ۔اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں بٹن دبانے کی ہمت نہیں پڑی یا سرکٹ میں کوئی خرابی ہو گئی۔ اسے لوگوں نے دبوچ لیا۔
کوئی انکشاف کیا اس نے ؟
نہیں ابھی تو یہ کئی روز سے اِدھر بند ہے۔ جب تفتیشی ٹیم آئے گی تو ہی کچھ سامنے آئے گا۔ خان صاحب نے چلتے چلتے میرے سوال کا جواب دیا۔
کیا میں اس سے مل سکتا ہوں؟
نہیں جب تک اس کی تفتیش مکمل نہیں ہو پاتی، اس سے کوئی نہیں مل سکتا ۔
میں جس قیدی کو ملنے آیا تھا۔ اس نے گھر کی مالکن اور اس کے خاوند کو چُھری سے وار کر کے موت کی نیند سُلا دیا تھا۔
افضال ،عمر 22سال ، رنگ گندمی ، قدپانچ فٹ سات انچ، آنکھیں بھوری جسم کسرتی اور پھرتیلا ، سرد مزاج۔ گھر کے سارے کام توجہ سے کرنے کا عادی تھا۔ جس گھر میں اس نے واردات کی تھی، اس میں تقریباً دو سال سے ملازم تھا ۔ بیک وقت باورچی، ڈرائیور، مالی ، چوکیدار ۔ غرض یہ کہ وہ گھر کا ہی فرد تھا۔
جیلر صاحب دو بار موت کی سزا پانے والے قیدی افضال کے چھوٹے سے سیل کے قریب آ کے رُکے۔ مجھے مخاطب کیا کہ آپ اس کے پاس رکیں اور بات چیت کریں۔ میں معائنہ کر کے آتا ہوں ۔ آپ یہاں سے فارغ ہو کر میرے آفس آ جائیے گا ۔ کھانا اکٹھا کھائیں گے۔ آج آپ کو قیدیوں کا کھانا کھلاتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا لیجئے گا کہ جیلوں کا کھانا کیسا ہوتا ہے؟ حالانکہ میں پورے پاکستان کی جیلوں میں آنے جانے کے باعث خوب جانتا تھا کہ جیلوں میں ملنے والی خوراک کا معیار بہتر ہوتا ہے۔
میرے ہمراہ ڈپٹی جیلر اور دو وارڈن موجود تھے۔ سیل کے باہر اسٹول پڑے تھے۔ ڈپٹی صاحب نے میرا اسٹول سیل کے قریب رکھتے تاکید کی کہ آپ اس خطرناک قیدی سے فاصلہ رکھئے گا۔ خود وہ تینوں سیل کے سامنے بنے اندر آنے والے گیٹ کے قریب اسٹولوں پر جا بیٹھے۔
افضال کے تمام کوائف میں سُن چکا تھا میں نے بغور سر سے پاؤں تک اس کا بھرپور جائزہ لیا۔ مجھے اس میں کوئی بھی سفاکیت دکھائی نہ پڑی تو میں نے اسے مخاطب کیا۔
ہاں تو افضال تم نے یہ دو قتل کئے تھے؟ جن کی تمہیں سیشن کورٹ نے الگ الگ دو بار سزائے موت سنائی۔
وہ توقف کے بعد بولا۔
جی ہاں میں نے یہ قتل کئے ہیں۔
اگر تمہیں اس بارے میں کچھ بتانا ہے تو میں اسے تمہاری زبانی لوگوں تک پہنچاؤں گا ، مگر صرف حقیقت بیان کرنا ہو گی تمہیں۔
حقیقت میں تو بہت کچھ بے نقاب کرنا پڑے گا مجھے۔ اس نے سیل کی سلاخوں کو ہاتھوں سے چھوتے جواب دیا۔
ہاں یہ تو ہے۔
ٹھیک ہے میں ایف آئی آر کو ایک طرف رکھتے ہوئے ، جو پولیس نے اپنی مرضی سے مرتب کی تھی، آپ کو سب کچھ بتاتا ہوں۔ میں شائستہ کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔
کون شائستہ؟ میں نے وضاحت چاہی۔
میری مالکن، جو قتل کی بنیاد بنی ۔
گاؤں سے محنت مزدوری کرنے آیا۔ کئی دن تک اِدھر اُدھر چھوٹے موٹے کام کرتا پھرتا رہا ۔ اسی دوران زندہ برائلر سپلائی کرنے والی ویگن پر بطور مرغی سپلائر پکی نوکری مل گئی۔ آٹھ ہزار روپے ماہوار تنخواہ،رہائشی کھانا ساتھ میں تھا۔ کچھ دن تک ان ٹرینڈ کبھی ان کی کسی ویگن پر اور کبھی کسی ویگن پر چلتا رہا۔ الیاس بھائی کا خاصا وسیع کاروبار تھا۔ دور دور کے فارموں پر سے مال اکٹھا کیا جاتا۔ صبح سپلائی کے بعد اس کی چکن شاپ پر مرغی کا گوشت بنانے میں سب کے ساتھ لگ جاتا۔ الیاس بھائی کی خدمت کر کے مجھے بہت اچھا لگتا۔ وہ بھی مجھے کافی عزت اور پیار دیتے تھے۔
پہلی بار شائستہ اسی چکن شاپ پر گوشت لینے آئی۔ میں نے گوشت صاف ستھرا کر کے بنایا اور خود اس کی گاڑی تک شاپر چھوڑنے اس کے ساتھ آیا۔ خدا جانے اس کے سراپے میں کونسی کشش تھی، میں خود کو روک نہ پایا اور شاپر لے کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
پھر دوسرے تیسرے دن وہ آتی۔ میں گوشت بناتا اور اس کے ہاتھ میں شاپر پکڑاتے ، اشارے سے بغیر پیسے لئے بھیج دیتا۔ شائستہ نے مجھے اپنا فون نمبر دے دیا تھا۔ میں رات کو اکثر اس سے چوری چھپے بات کرنے لگا تھا ۔ وہ بھی اپنے شوہر امتیاز سے آنکھ بچا کر گھر میں ادھر اُدھر ہوتے بات کر لیتی ۔ بڑا بیٹا ساجد پانچویں میں اور چھوٹا واجد چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا ۔اس کے میاں کی پلاسٹک کے برتن وغیرہ کی دکان تھی۔ گھر اور دکان ذاتی ملکیت بتاتی تھی۔
اس کے باوجود شائستہ کی بھوک باقی تھی۔ ایک دو بار میں نے اس کے اور اس کے دونوں بچوں کے لئے کپڑے وغیرہ خرید کر اسے دیئے جو اس نے بغیر کسی حیل و حجت کے رکھ لئے ۔ سوزوکی پرانے ماڈل کی رکھی ہوئی تھی اس کے میاں نے۔ دونوں اسے لئے پھرتے تھے۔ دن بہ دن اس کی ضرورتوں میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ وہ مجھ سے بے دھڑک فون پر کہہ دیتی۔ میں رات کو مال کے پاس ہی ہوتاتھا ۔ الیاس بھائی مجھے ایماندار سمجھتے۔ ہر ذمہ داری مجھ پر چھوڑ دیتے تھے ۔ میں رات کو آنکھ بچا کر 10/12برائلر نکالتا اور ادھر اُدھر جا کر بیچ آتا۔ صبح جب دوکان پر بیٹھتا تو سب کی آنکھ بچا کر پیسے بھی اُڑا لیتا۔
اسی عرصہ میں ایک دو بار شائستہ کے گھر اس سے ملا بھی ۔ اس کا شوہر دکان پر چلا جاتا ۔ دونوں بچے سکول ہوتے۔ مجھے وہ فون کر کے کوئی نا کوئی چیز منگوانے کی آڑ میں بلا لیتی۔ یہ سلسلہ بڑی خاموشی سے چل رہا تھا ۔ الیاس بھائی کی ویگنوں پر میں نے ٹھیک ٹھاک ڈرائیوری بھی سیکھ لی تھی ۔
ایک روز مجھے رنگے ہاتھوں مرغیاں ذبح کرتے رات کو الیاس بھائی کے ایک ڈرائیور تنویر نے پکڑ لیا۔ بہت کوشش کی اس کو اپنے ساتھ حصہ دار بنانے کی، مگر اس نے میری ایک نہ سُنی اور الیاس بھائی کو فون کر کے شاپ پر بلا لیا۔
انہوں نے مجھے اسی وقت شاپ سے نکل جانے کا کہا ۔ میں نے بہت منت سماجت کی مگر میری نہ چلی اور میں اپنا مختصر سامان لے کر شاپ سے نکل آیا ۔ اس صورتحال کا میں نے شائستہ سے ذکر کیا تو اس نے مجھے تسلی دی کہ فکر نہ کرو۔ یہ رات تم کسی جگہ کاٹو ، صبح بات کریں گے۔
رات کو اس نے اپنے شوہر کو راضی کر لیا کہ گھر میں کام کرنے کے لئے ایک ملازم ہونا ضروری ہے۔ ایک لڑکا ہے۔ بڑا محنتی۔ وہ ڈرائیور بھی ہے اور باورچی بھی ۔ میری ایک سہیلی کے گھر پانچ سال سے کام کر رہا ہے۔ بڑا ایماندار اور شریف ہے۔ وہ لوگ کراچی شفٹ ہو رہے ہیں۔ تین ہزار میں گھر کے سارے کام کرے گا ۔ رات باہر برآمدے میں سوئے گا تو چوکیدار ی بھی ہو جایا کرے گی۔
دوسرے دن صبح دکان پر جانے سے پہلے اس نے اپنے خاوند امتیاز سے میری ملاقات کروا دی ۔ پہلی بار اس کے شوہر سے میرا آمنا سامنا ہوا تھا۔ وہ روایتی دکاندار سا دکھائی دیا۔ تھوڑی بہت بات چیت کے بعد امتیاز نے مجھے اپنے گھر ملازم رکھ لیا ۔ ضمانت کے طور پر میرا شناختی کارڈ اس کے پرس میں شفٹ ہو گیا ۔ کھانا میں نے محکمہ فون جو ہمارے گاؤں کے ساتھ ساتھ زمین دوز تاریں بچھا رہا تھا، کی نوکری کے دوران پکانا سیکھا تھا ۔ ان کے باورچی سے جو پوری ٹیم کا کھانا بناتا تھا۔ نوکر ی بھی مجھے اس کے ہیلپر کی حیثیت سے ملی تھی ۔
ڈرائیونگ الیاس بھائی چکن شاپ کی ویگنوں کے ڈرائیوروں سے سیکھ لی تھی۔ اس لئے دونوں ہنر شائستہ کے قریب ہونے کا باعث بنے۔ باقی سارا کچھ شائستہ نے خود ہی سر انجام دیا تھا۔ اپنے خاوند کو شیشے میں اُتارنے کا۔
میں بڑی ذمہ داری سے شائستہ کے گھر کے کام کرتا۔ دونوں بچوں کی دیکھ بھال کرنا، گھر کی صفائی، کھانا بنانا ۔رات کو امتیاز جب واپس آتا تو اس کو دبانا، سر میں تیل لگانا۔
اس طرح کی ڈیوٹی دینے پر وہ بھی خوش ہوتا۔ پندرہ بیس روز ہو چکے تھے مجھے شائستہ کے گھر آئے۔ ایک روز اس نے مجھے مخاطب کرتے کہا کہ افضال میری والدہ کا آپریشن ہے ۔ امتیاز کا کام بھی مندا جا رہا ہے۔ مجھے روپوں کی سخت ضرورت ہے۔ کوئی بندوبست نہیں ہو رہا ۔ ایک دو جاننے والوں سے بات کر چکی ہوں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
تمہارا کوئی ہے ایسا جاننے والا؟ جس سے بیس ہزار اُدھار لے سکو۔ جلدی واپس کر دوں گی۔ مجھے اس کی پریشانی دیکھتے جھٹکا لگا۔ گاؤں کی زندگی میں چوری چکاری کا ہنر بھی میرے ہاتھ میں تھا، سو میں نے کوئی فیصلہ اپنے اندر کرتے اسے مطمئن کر دیا کہ کوشش کروں گا۔
میں نے جو سوچا تھا وہ ہوم مارٹ میں چوری کا پلان تھا۔ شام کو گھر کے لئے سودا سلف لینے کے دوران میں نے پورے ہوم مارٹ کا جائزہ لیا کہ کس طرح یہاں چوری ممکن ہو گی؟ ہوم مارٹ کے پچھواڑے فرنیچر کی ورکشاپ تھی جو شام کو بند ہو جاتی۔ اس کے اندر جا کر ساتھ لگتی دیوار پر سے ہوتے ہوئے ہوم مارٹ کی بلڈنگ میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔
دو روز تک میں نے اچھی طرح جائزہ لیا اور تیسری رات چپکے سے میں پلاس وغیرہ لے کر اس ورکشاپ کی دیوار پھلانگ گیا۔ چند پل کا انتظار کرتا رہا جب یقین ہو گیا کہ کسی نے نہیں دیکھا تو اُٹھ کر ورکشاپ کی چھت پر پہنچ گیا۔
دیوار کے ساتھ ہوم مارٹ کے اے سی یونٹ لگے ہوئے تھے۔ ان کے حفاظتی جنگلے پر چڑھ کر میں آسانی سے گودام والے حصہ میں پہنچ گیا۔ گودام کی گرل اور جالی کو پلاس سے کاٹ کر اندر چٹخنی کھولتے گرل کی ایک سائیڈ سے گزرنے کا راستہ بنا لیا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ چند پل یونہی سانس روکے پڑا رہا ۔ جب اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت بحال ہوئی تو میں نے ٹٹول کر ہوم مارٹ کے نیچے کی طرف جانے والے دروازے کو اندر سے باہر کی طرف دھکیلا ۔
دروازہ ہلکی سی آواز کے ساتھ باہر کی جانب کھل گیا ۔ نیچے جاتی سیڑھیوں میں ہلکی ہلکی روشنی تھی جو باہر لگے ہوم مارٹ کے نیون سائن کی تھی ۔ اس کے باعث سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ میں دبے قدموں سے چلتا ہوا کاؤنٹر کے پاس گیا ۔ پے منٹ دراز کو تالا لگا ہوا تھا جو میں سکرو ڈرائیو کی نوک سے باہر کی جانب کھینچ لیا۔
خانوں میں مختلف چھوٹے بڑے نوٹوں کو الگ الگ کر کے رکھا گیا تھا ۔ میں نے تمام نوٹ اور حتیٰ کہ ریزگاری تک اٹھا کر جیبوں میں بھر لی۔ خاصی رقم تھی ۔کچھ دیر تک میں باہر کی آوازوں پر کان لگائے ساکت کھڑا رہا ۔ جب یقین ہو گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے، تو میں کاسمیٹکس والے حصہ میں آ گیا۔
جہاں پر طرح طرح کے پرفیوم، کریمیں ،لپ اسٹکس ،نیل پالش اور جیولری سجی ہوئی تھی۔ بڑا سا بیگ اٹھا کر میں نے اس میں مختلف سامان بھرنا شروع کر دیا۔ پھر لیڈیز ضروریات کی چیزیں اور بچوں کے کھانے اور کھیلنے کا سامان رکھا ۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں یہ سب کچھ آسانی سے لے کر جا سکتا ہوں، تو میں نے واپسی والا راستہ اختیار کرتے بیگ سنبھالا اور اوپر آ گیا۔
یہاں آ کر میں نے بڑی احتیاط سے چاروں جانب جائزہ لیا، پھر بیگ سنبھالتے گودام سے ہوتا ہوا اے سی یونٹ والی گرل کے اوپر بیگ گرا دیا۔ جب یقین ہو گیا کہ کسی طرف سے کوئی دھیان نہیں ہوا تو میں اسی طرح گرل پر قدم رکھتا بیگ اٹھاتے اٹھاتے ورکشاپ کی دیوار کا سہارا لیتا نیچے اتر آیا۔
چاروں جانب خاموشی کا راج تھا۔ میں دم سادھے کھڑا جائزہ لیتا رہا، پھر بڑی پھرتی سے دیوار پھلانگ کر باہر آ گیا۔ اب میرا راستہ وہ نہیں تھا جس پر سے میں ورکشاپ کی طرف آیا تھا۔ اب میں مخالف سمت کو جا رہا تھا۔ جس راستہ کا میں نے انتخاب کیا تھا وہ کافی گھوم کر مین سڑک کی طرف آتا تھا، مگر آمدورفت نہ ہونے کے برابر تھی۔ بیگ میں نے کندھوں پر یوں لٹکا رکھا تھا جیسے کوئی مسافر ہوں۔
ہوم مارٹ کافی پیچھے رہ گیا تھا ۔ میری یہ واردات انتہائی کامیاب رہی ۔ گلیوں بازاروں سے ہوتا میں واپس گھر پہنچ گیا۔ دروازہ میں باہر سے لگا کر آیا تھا جو بغیر کھٹکا کئے کھولتے اندر آ کر بند کیا اور دبے قدموں اپنی چارپائی جو برآمدے میں ہوتی تھی اس کے نیچے بیگ احتیاط سے رکھا اور جوتے اتار تے کٹے درخت کی مانند بستر پر گرتے لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ جس دلیری سے میں نے یہ واردات کی تھی اس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ دیہات کی نسبت شہر میں چوری کرنا آسان تھا۔ جب اوسان بحال ہوئے تو میں جیبوں سے نوٹ اور ریزگاری نکال پر اپنے بستر پر رکھتے نوٹوں کو ترتیب دینے لگا۔ تمام رقم چوراسی ہزار آٹھ سو باون روپے تھی ۔آٹھ سو باون کی ریزگاری اور چوراسی ہزار کے چھوٹے بڑے نوٹ ۔ میں نے ریزگاری الگ رکھ دی اور ساٹھ ہزار روپے الگ کرتے چوبیس ہزار اپنے تکیے کے اندر رکھ لئے شائستہ کو دینے کے لئے۔ بیگ جس انداز سے میں نے چارپائی کے نیچے چھپایا تھا، وہ خود دیکھنے پر ہی نظر آنے والا تھا ورنہ نہیں۔
صبح روٹین میں میں نے اٹھ کر ناشتہ تیار کیا بچوں کو تیار کر وا کر سکول اور امتیاز کو شاپ پر بھیج کر بیگ سے ایک دو پرفیوم اور میک اپ کا سامان اور دیگر چیزیں نکال کر شائستہ کے کمرے کی طرف آیا جو شائد بسترپر آرام کر رہی تھی مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھی۔ آئو ایفی کیا بات ہے۔ تمہاری یا د کھینچ لائی میں نے اس کے قریب بیٹھتے پیار سے اسے دیکھتے جواب دیا۔ بس امی کے آپریشن کی وجہ سے پریشان ہوں۔ تمہیں پتہ ہے نا میں تجھے پریشان نہیں دیکھ سکتا میں نے جیب سے چوبیس ہزار کے نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے کہا۔ یکدم اس کا چہرہ کھل اٹھا میں الٹے پائوں واپس آیا اور وہ چیزیں جو میں باہر رکھ آیا تھا لا کر اس کے بستر پر رکھ دیں۔ وہ حیرانگی سے سب کچھ دیکھ رہی تھی یہ سب کچھ تم۔۔۔۔وہ کچھ بولتی میں نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے چپ کروا دیا۔
دوسرے روز صبح اُٹھ کر میں گھر کا سامان لینے کی غرض سے ہوم مارٹ والے راستے کی طرف چل دیا اندر جاکر دیکھا وہاں کوئی بھی خاص بات نظر نہ آئی جیسے وہ واردات ان کیلئے کوئی اہمیت نہ رکھتی ہو۔ دو ایک ضروری چیزیں لے کر کائونٹر پر آیا اور بل دے کر بارہ آگیا۔ شائستہ بہت خوش تھی میرے اس اقدام پر گھر سے چلتے وقت میں نے تیس ہزار روپے اپنے پاس رکھ لئے تھے جو اپنے گھر منی آرڈرکرنے جی پی او جانا تھا۔ اس کام سے فارغ ہو کر گھر کیلئے راشن لیا واپس آیا تو شائستہ بن سنور کر تیار بیٹھی تھی اپنی والدہ کے گھر جانے کیلئے مجھے جلد واپس آنے کا کہتی گاڑی لے کر باہر نکل گئی میں کھانا تیار کرنے میں لگ گیا۔
میں نے اِدھر اُدھر چھوٹی موٹی وارداتیں کرنا شروع کر دیں تھیں ۔شائستہ کو علم ہو گیا تھا کہ میں پیسے کہاں سے لاتا تھا۔ اب میں باقاعدہ اسے بتا کر جاتا جو بھی ہاتھ لگتا لاکر اس کے قدموں میں رکھ دیتا۔
ایک رات میں چوری کیلئے ایک گھر کے اوپر والے حصہ میں گھسا ہی تھا کہ نیچے والے کسی کمرے کی بتی روشن ہوئی اور میں جلدی سے بیڈ کے نیچے چھپ گیا سیڑھیوں پر اوپر آنے کی آواز پر میرا سر گھوم گیا دروازہ جو میں ہلکا سا بند کیا تھا یکدم کھلا اور پھرسارا کمرہ روشنی میں نہا گیا مجھے یقین ہو گیاکہ گھر والوں کو پتہ چل گیا ہے میرے بارے میں۔میںنے چھُری پر گرفت سخت کرتے آنیوالے خطرہ سے نمٹنے کیلئے خود کو تیار کر لیا مگر آنیوالے آدمی نے ایک الماری کھولی اور میڈیسن نکال کر الماری بند کر تے لائٹ بجھا دی اور باہر نکل کر دروازے کی کنڈی چڑھا دی اور سیڑھیاں نیچے اُتر گیا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ اوپر آنیوالے نے اپنے کمرے کی بتی بند کر دی ہے تو میں نے جیب سے پن ٹارچ نکالتے کمرے کا جائزہ لیا یہ سٹور تھا اور اس میں کئی چھوٹے بڑے اٹیچی اور لوہے کے صندوق اوپر نیچے پڑے تھے پھر میں کمرے کی جانب متوجہ ہوا جس کا روشن دان فٹ بائی فٹ کی آ ہنی گر ل سے بند تھا اور کوئی راستہ نہیں تھا باہر جانے کا ،دروازہ باہر سے بند تھا مجھے یقین ہو گیا کہ آج مجھے پکڑے ہی جاناتھا۔تمام رات میں نے کمرے میں جاگ کر گزار دی دن کی روشنی کی کرنیں دروازے کی درزوںمیں سے گز رکر اندر آرہی تھیں نیچے چلنے پھرنے کی آوازیں اور برتنوں کا شور صاف سنائی دے رہا تھا کوئی معجزہ ہی تھا جو میں بچ کر نکلتا۔ نیند سے میری آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں بڑی مشکل ہو رہا تھا جاگنا۔جب ہمت جواب دے گئی تو میں دوبارہ بیڈ کے نیچے گھس گیا پتہ نہیں کب نیند نے دبوچ لیا ۔
جس آواز پر میں ہڑبڑا کر جاگا وہ آہنی ٹرنک کھولنے کی آواز تھی میری آنکھوں کے سامنے ایک ادھیڑ عمر خاتون صندوق سے کپڑے نکال کر دوسرے صندوق کے اوپر رکھ رہی تھی جیسے کوئی کپڑا تلاش کر رہی تھی پھر وہ دروازے کی طرف گھوم کر سیڑھیوں کی طرف گئی اور کسی کو آواز دی پھر آواز دی جب کوئی جواب نہ آیا تو بڑبڑاتی ہوئی سیڑھیاں نیچے اُتر نے لگی میں نے جھٹ فیصلہ کرتے اپنی جگہ چھوڑی اور خود کو سیدھا کرتے دروازے کی طرف کھسک گیا اِدھر اُدھر جھانک کر جائزہ لیا خاتون شائد برآمدے سے ہوتی گھر کے اندر چلی گئی تھی یہی موقع غنیمت جانتے میں نے جلدی میں سیڑھیاں عبور کیں اور باہر نکلنے والے راستے کی جانب دوڑ لگا دی ۔دروازہ کھولا اور بغیر کسی طرف دیکھے جدھر منہ آیا بھاگ پڑا مجھے بھاگتے دیکھ کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا تو میں نے احتیاطاً پیچھے گھوم کر دیکھا جب مجھے یقین ہو گیا کہ کوئی تعاقب میں نہیں تو میں نے اپنی رفتار آہستہ آہستہ کم کردی۔
تمام رات خوف اور بے چینی پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھی۔ شائستہ نے دورازہ کھولتے میرا لٹکا چہرا دیکھتے اندازہ لگالیا تھا کہ میں ناکام لوٹاہوں وہ کوئی بات کئے بغیر واپس پلٹ گئی میں دروازہ بند کرتے سیدھا اپنے بستر پر جاگرا کب نیند میں ڈوب گیا کچھ خبر نہیں دوپہر تک میں بے خبر پڑا سوتا رہا جب خود بخود میری آنکھ کھلی تو خود کو قدرے بہتر پایا سیدھا واش روم پہنچ کر جلدی جلدی منہ ہاتھ دھویا اور کچن میں آگیا۔شائستہ سبزی بنا رہی تھی مجھ پر نگاہ پڑتے اس نے پوچھا کہاں تھے رات بھر میں نے تمام صورتحال اس پر آشکار کرتے اپنے بچ کر آنے کا بتایا اس کے ہاتھ سے چھری لیتے اسے جانے کا کہا وہ ہاتھ صاف کرتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
میں کئی دن تک اپنے ساتھ ہونیوالے اس واقعہ کے خوف سے صرف اپنے کام سے کام رکھے ہوئے تھا۔ اسی دوران گھر میں امتیاز کا بھتیجا کاشف آگیا جو بڑا بے تکلف تھا شائستہ سے ۔سارا دن اس کے کمرے میں گھسا رہتا ایک دوبار اس نے خاصی بدتمیزی کی مجھ سے مگر شائستہ نے اسے کوئی روک ٹوک نہ کی وہ اپنے چچا کے گھر اس لئے آیا تھا کہ اسے ہوسٹل میں کمرہ نہیں ملا تھا اس لئے اسے اوپر والا سٹور صاف کروا کر اس میں بستر لگوا دیامجھ سے۔ وہ یونیورسٹی سے آکر شائستہ کے کمرے میں گھس جاتا بچے میرے پاس آجاتے میرے اندر رقابت کی آگ دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی ادھر شائستہ کا رویہ مجھ سے بدلتا جا رہا تھا۔ میں نے کئی بار اسے کہا کہ مجھے تمہارا کاشف سے اس بے تکلفی سے ملنا ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر اس نے میری کسی بات کا نوٹس نہ لیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ میرے گھر کامعاملہ ہے تمہیں اس کی فکرکرنے کی ضرورت نہیں اگر تم سے برداشت نہیں ہوتا تو بے شک کہیں اور بندوبست کرلو اپنا۔ شائستہ کے منہ سے اس طرح کی کھر ی کھری سن کر میرے دل کو خاصی ٹھیس لگی۔ امتیاز کی طرف سے اسے کوئی فکر نہیں تھی وہ رات گئے اپنے کاروبار سے واپس آتا تھا اسی دوران چچی بھتیجا گاڑی میں باہر نکل جاتے کئی کئی گھنٹے باہر گزار کر واپس آتے پیچھے میں بچوں کو بھی سنبھالتا اور گھر کا کام بھی کرتا۔ شائستہ کی محبت میں میرا پورا وجود گرفتار تھا جس سے رہائی پانا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میں ہر ممکن اس کا دل جیتنے کی کوشش میں لگا رہتا مگر کاشف کے جادو نے اسے مجھ سے کوسوں دور کردیا تھا
ایک روز میں نے اس کے شوہر امتیاز سے دبی زبان میں ان کے لچھن اس پر واضح کئے مگر اس نے کوئی نوٹس نہ لیا اُلٹا وضاحت کرتے جواب دیا ان چچی بھتیجامیں بہت پیار ہے تمہیں اس طرح کی بات سوچتے شرم آنی چاہئے جب شائستہ کے نوٹس میں یہ بات آئی تو اس نے مجھے اپنا بندوبست کرنے کا کہتے اپنے کمرے میں جاکر اندر سے خود کو لاک کر لیا۔ میرے لئے اس کا رویہ ناقابل برداشت ہی نہیں قابل نفرت بھی ہو گیا۔ شام کو کاشف نے یونیورسٹی سے آکر مجھ سے ہاتھا پائی کرتے فوراً گھر سے نکل جانے کا حکم دیا جواب میں میں نے امتیاز کے گھر آنے کا کہا کہ میں اس سے پوچھ کر اور اپنا شناختی کارڈ لے کر چلا جائوں گا۔ وہ غصہ کی حالت میں منہ سے جھاگ اڑاتا شائستہ کے کمرے میں جاکر بند ہو گیا۔ میرے کانوں میں ان کی ہنسی نشتر بن کر چبھ رہی تھی مگر ماسوائے جلنے کڑہنے کے اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
شائستہ کیلئے میں نے اپنی مطمئن زندگی میں آگ بھر لی تھی چوری، دغا فریب اور اس انتہائی اچھے انسان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے سے لے کر میں نے ہر وہ کام شائستہ کے پیار میں ڈوب کر کیا جو میری سوچ میں بھی نہیں تھامگر وہ بدکردار عورت اپنے سگے رشتوں کی بھی دھجیاں اڑانے میں مصروف تھی۔
رات کو امتیاز آیا تو دونوں نے اس کے خوب کان بھرے وہ ان کی سن کر سیدھا کچن میں آیا اور مجھ پر برس پڑا میں نے اپنی صفائی میں اسے ہر طرح کی یقین دہانی کروائی کہ میں نے وہی بتایا جو دیکھا مگر اس نے میرا گریبان پکڑتے مجھ پر تھپڑوں کی بارش کر دی اور جیب سے میرا شناختی کارڈ نکالتے میری طرف اچھال دیا اور گھر سے نکل جانے کا حکم دیا میں نے اپنا مختصر سامان جو برآمدے میں پڑی چارپائی کے نیچے پڑا رہتا تھا اٹھاتے آخری نظر گھر کے درودیوار پر ڈالی اور شائستہ کے کمرے کی طرف بھیگی نظروں سے دیکھا اور گھر سے باہر نکل آیا۔
تھوڑی دور کالونی کا پارک تھا میں ایک نیم تاریک گوشے میں آن بیٹھا ۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے جب دل کا سارا غبار میری آنکھوں کے راستے بہہ گیا تو میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نے کام کرنا شروع کر دیا میرے ساتھ جو اس گھر میں ہوا وہ سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹ رہا تھا ان تینوں کے لئے میرے اندر نفرت اور انتقام کا الاؤ بھڑک رہا تھا پھر میرے اندر سفاک اور نڈر چور نے کروٹ لی اور میں نے اپنے بیگ میں پڑی بڑی سی چھُری جو میں چوری چکاری کے دوران اپنے ساتھ رکھتا تھا نکالی اور اسے اپنے زیر جامہ کرتے پارک سے نکل کر کالونی سے باہر جانیوالے راستے پر چل پڑا ۔ خالی رکشہ میرے قریب سے گزرا جسے ہاتھ دے کر میں اس پر سوار ہو گیا ایک جاننے والے ہوٹل کا پتہ بتا کر اگلے اقدامات پر غور کرنے لگا۔
ہوٹل کا مالک گوشت لینے آتا تھا جس سے میری تھوڑی بہت دعا سلام تھی۔ وہ بڑے تپاک سے ملا۔ میں نے اپنا سامان اس کے پاس رکھتے اِدھر اُدھر کی باتوں میں وقت گزارا تھوڑا سا کھانا کھانے کے بعد یہ کہہ کر اس سے اجازت لی کہ صبح سامان لے جاؤں گا۔ مجھے علم تھا کہ وہ لوگ رات گئے تک گپ بازی میں مصروف رہتے تھے وقت گزارنے کیلئے ایک ڈھابے پر چائے کا آرڈر دیتے پرانی پنجابی فلم دیکھنے والوںمیں جا بیٹھا جو وہاں رات گئے تک بیٹھے رہتے تھے۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ سب سونے کیلئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ہوں گے تو میں چھُری کو ٹٹولتے اس ڈھابے سے اٹھ کر شائستہ کے گھر کی جانب چل پڑا۔
رکشہ میںنے اس لئے نہیں پکڑا تھا کہ مزید وقت گزارنا چاہتا تھا۔ گلیوں بازاروں سے ہوتا ہوا میں شائستہ کے گھر کے قریب پہنچ گیا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا سڑک کراس کرتے میں نے اِدھر اُدھر جائزہ لیا اور ساتھ والے گھر کی دیوار جو قدرے نیچی تھی پر چڑھ کر شائستہ کے گھر کی دیوار پر اُتر گیا مجھے گھر کا کونہ کونہ ازبر تھا اس لئے میں اندر کی جانب لٹک کربرآمدے میں آ گیا۔ میری چارپائی دیوار کے ساتھ لمبائی کی جانب کھڑی کر دی گئی تھی ۔چند پل میں کھڑا اپنی سانس درست کرتا رہا پھر جب یقین ہو گیا کہ کسی کو میرے اندر آنے کی خبر نہیں ہوئی تو میں دبے قدموں سے چلتا اس کمرے کے آگے آن ٹھہرا جہاں میں نے شائستہ کے ساتھ کافی وقت گزارا تھا۔
دروازہ کھلا تھا جسے میں نے کھولتے اندر کا جائزہ لیا،وہ دونوں میاں بیوی الگ الگ بیڈ پر پڑے سو رہے تھے۔ بچے دوسرے کمرے میں سوتے تھے شائستہ پر نظر رکتے نفرت کا طوفان میرے پورے وجود میں سرائت کر گیا۔ امتیاز کا بیڈ دیوار کے ساتھ تھا جبکہ شائستہ میرے سامنے تھی میں انتقام میں اندھا ہو چکا تھا ۔دوسرے پل میرے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں اس کی گردن تھی جو میں نے پوری قوت سے دبوچ رکھی تھی جب مجھے یقین ہو گیا کہ اس نے ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دیئے ہیںتو میں نے کرسی پر رکھی چھُری اٹھاتے بے دردی سے اس کی گردن پر چلا دی ۔
خون کا فوارہ اس کی گردن سے اُبل پڑا کھٹکے کی آواز پر یکدم امتیاز اٹھا اور شائستہ پر نظر پڑتے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اس سے پہلے کہ وہ کوئی آواز نکالتا میں بجلی کی سی پھرتی سے اس کی طرف پلٹا اور ہاتھ میں پکڑی چھُری اس کے سینے میں اتار دی۔اس کی خوفناک چیخ پر بچے بھی جاگ گئے اور کاشف بھی بھاگتا ہوا اوپر سے نیچے کمرے میں آگیا اس نے جب کمرے کا منظر دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے ۔ میں اس کی طرف پلٹا وہ گولی کی طرح پیچھے مڑکر باہر دروازے کی طرف بھاگا اس کی چیخ و پکار پرلوگ گھروں سے باہر نکل آئے ۔میں چھُری لہراتا ان سب کے سامنے سے گز ر گیا مگر کسی نے آگے بڑھنے کی ہمت نہ کی ۔میں تھانے پہنچ گیا اور اپنی گرفتاری پیش کر دی۔
یہ سب بتاتے ہوئے وہ خاموش ہو گیا۔۔۔۔۔۔