24 C
Lahore
Tuesday, October 8, 2024

Book Store

عبرت ناک

تحریر، جاوید راہی

ہمارے گاؤں کا ماحول یوں تو سبھی دیہاتوں جیسا تھا مگر جو خاص بات اس میں تھی وہ یہ کہ یہاں نہ تو کوئی وڈیرا تھا اور نہ ہی کوئی بڑا زمیندار جس کی بہت سی زمینیں ہوتیں اور اس کے بہت سے ڈیرہ دار جو ہر وقت اپنی دال روٹی کے چکر میں زمیندار کے آگے کسی نہ کسی کی اچھائی یا برائی کرنے میں لگے رہتے ۔اس ماڈل گاؤں جس کا نام داخلی سکھ پور تھا میں واقعی چاروں طرف سکھ ہی سکھ تھے ہر کاشتکار کے پاس اپنے گزارے کے لئے تھوڑی بہت زمین تھی جس پر وہ ہل چلا کر اپنی ضرورت کے پیش نظر اناج پیدا کر لیتا۔ گائوں میں ایک پرائمری سکول تھا گاؤں کا ایک خاندانی جراح ہی حکمت کے ذریعے لوگوں کا علاج وغیرہ کرتا یا پھر گاؤں والے شہر کا رخ کرتے۔
میں اپنے گھر میں بڑا تھا باقی مجھ سے ایک بھائی اسلم اور بہن سکینہ چھوٹے تھے میں پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا اور اس کے بعد اپنے والد کے ہمراہ اپنے ہی کھیت پر کام میں ان کا ہاتھ بٹاتا اس گاؤں سکھ پور کے بہت کم لڑکے تھے جو شہر جاکر مشکل سے میٹرک کر سکے یا تو وہ شہر میں ہی رہ گئے یا وہ کسی دور دراز دیہی آبادی میں سکول ٹیچر جا لگے۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا مگر والد صاحب کو اکیلا چھوڑنا بھی میرے بس کی بات نہ تھی کیونکہ اسلم ابھی اس قابل نہیں ہوا تھا کہ کام میں ہاتھ بٹا سکتا۔
دیہاتوں کے لڑائی جھگڑے روایتی مسئلہ میں ہمارا گاؤں بھی کسی سے پیچھے نہیں تھا مگر آج تک ایسی کوئی لڑائی نہیں ہوئی تھی جو دشمنی اختیار کر لیتی کوئی جھگڑا وغیرہ ہو جاتا تو سارے گاؤں کا تایا نور محمد اپنے جیسے چند سمجھ دار اکٹھے کر کے دونوں گھروں کے درمیان راضی نامہ کروا دیتا۔
سکھ پور میں دکھوں کی ہوا اس وقت چلی جب گاؤں کے قبرستان میں ایک پیر صاحب اپنے تین چیلوں کے ہمراہ آ براجمان ہوئے ۔پیر صاحب کی کرامتوں کے چرچے آہستہ آہستہ گاؤں کے ہر فرد کی زبان پر ہونے لگے یہاں تک کہ آس پاس کے کئی دیہاتوں سے بھی لوگ تعویذ گنڈا لینے ہمارے گائوں کا رخ کرنے لگے ۔ آنیوالوں میں زیادہ تر عورتیں ہوتیں جو اپنے ساتھ نذرانے کی شکل میں گھی زندہ مرغے ، بھیڑ بکریاں اور گند م وغیرہ لاتیں جو پیر صاحب یا تو لنگر کی مد میں پکوا کر لوگوں میں تقسیم کر دیتے یا ارد گرد بیٹھنے والوں میں بانٹ دیتے۔ پیر صاحب جو بابا سائیں کے نام پر مشہور تھے اپنی اس فیاضی کی بدولت بھی لوگوں میں خاصے مقبول ہو تے جارہے تھے۔ گائوں کے زیادہ تر بے فکرے اب بابا سائیں کی بیٹھک پر ہی نظر آتے جو لنگر وہاںسے کھا لیتے اور دن بھر یا تو قوالی سنتے رہتے یا بابا سائیں کی ٹانگیں د بانے میں لگے رہتے۔ ہمارے گائوںکے سادہ لوح لوگ پیر صاحب کی شخصیت کے اتنے قائل ہو چکے تھے کہ اپنے خاندان کے ہر فرد کا ان کی خدمت میں جانا بطور تبرک تصور کرتے تھے میرے والد صاحب پہلے پہل تو ان پیر صاحب کے خلاف تھے مگر اس دن سے وہ بھی ان کے مرید ہوگئے جب انہوںنے ہماری گائے کو اپنے کراماتی انجیکشن سے دودھ دینے کے قابل بنا دیا۔ پہلے روز جو دودھ دوہیا وہ پیر صاحب کی کرامت کے عوض ان کو بھیج دیا گیا جو میری والدہ اور بہن سکینہ دینے گئی ۔ میں نے شام کو اپنی والدہ کو سختی سے کہا کہ اسلم گھرمیں تھا اس کے ہاتھ بھیج دیا ہوتابہر حال بات ختم ہوگئی ۔ پیر صاحب کی کرامات میں سب سے زیادہ اہم کرامات پانی میں آگ لگانا اور بغیر کسی ماچس وغیرہ کی مدد سے آگ بھڑکا دینا تھی علاوہ ازیں پھلوں کی بارش اور لوگوں میں نوٹ بانٹنا ان کی روز مرہ کی ڈیوٹی تھی اور یہ کام وہ ایسے لوگوں کی موجودگی میں کرتے جو یا تو تیز آنکھ رکھنے والے ہوتے یا جن کے چہرے پر پیر صاحب غیر یقینی کی فضا دیکھتے۔
لالچ بری بلا ہے میں بھی آہستہ آہستہ پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ی دینے لگا میرے گھر والے اور میرے جاننے والے اکثرکہا کرتے تھے کہ میں ضرورت سے زیادہ ذہین ہوں اب خدا بہتر جانتا تھا کہ ایسی بات تھی یا نہیں مگر اتنا ضرور تھا کہ میں جس چیز کی جستجو میں لگ جاتا اسے حاصل ضرور کر لیتا ۔میں اکثر سوچتاکہ پیر صاحب جبکہ اتنی شکتی اور روحانی قوت کے مالک ہیں تو اس دور دراز گائوں کا انتخاب کیوں؟ ان کی اس طاقت کی ضرورت تو زیادہ آبادی والے علاقہ میں ہونی چاہئے تھی۔
ہماری زمین کو پانی کی وار بندی رات دو بجے شروع ہونی تھی جبکہ پانی موڑنے کیلئے مجھے قبرستان کے عقب میں بہنے والے کھال سے پانی کا ٹنا تھا میرے والد نے مجھے رات کے ایک بجے اٹھا دیا میں کَسّی اور ٹارچ لیکر بڑے کنویں کا چکر کاٹتے ہوئے مسجد والی گلی سے ہوتا ہوا قبرستان کی طرف بڑھنے لگا جب میں گائوں کے داخلی راستے پر پہنچا تو دور سے تیز روشنی دکھائی دی جو شائد کسی کا ر وغیرہ کی معلوم ہو رہی تھی میں بڑا حیران ہوا کہ گائوں میںماسوائے چند ٹریکٹروں کے ایسی سواری کسی کے پاس نہیں تھی میرے سوچتے ذہن کے ساتھ ساتھ روشنی بتدریج قریب آتی جارہی تھی میں اچانک کچھ سوچ کر تیزی سے نظام دین کی زمین میں جمع توڑی کے بڑے سے کپ کی آڑ میں ہو گیا چند لمحوں کے انتظار کے بعد وہ سواری تیزی سے دھول اڑاتی ہوئی قبرستان والی سڑک پر آگے برھ گئی وہ ایک جیپ تھی میں حیرانگی کے عالم میں چلتا ہوا دوبارہ اس راستے پر چلنے لگا جو قبرستان کے عقت والے کھال کی طرف جاتا تھا۔
چونکہ وہ راستہ آگے چل کر ختم ہو جاتا تھا جس پر جیپ آگے گئی تھی میرا خیال درست نکلا وہ جیپ بابا سائیں کے جھونپڑے سے کچھ دور کھڑی دکھائی دی میرے دل میں فوراً خیال آیا کہ شائد کوئی پیر صاحب کا شہری مرید ہو جو کوئی روحانی فیض حاصل کرنے اتنی رات گئے آیا ہو کیونکہ کچھ ٹونے ٹوٹکے ایسے بھی ہوتے ہیں جو خفیہ طور پر کرنے پڑتے ہیں اس لئے میں اپنے آپ کو مطمئن کرتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔
پانی کاٹ کر جب میں واپس آرہا تھا تو میں جیپ کے آس پاس کچھ سائے تیزی سے حرکت کرتے محسوس کئے جیسے کچھ عجلت میں کوئی بھاری چیز جیپ کے اندر رکھنے کی کوشش کررہے ہوں میرا تجسس بڑھا اور میں راستہ کاٹ کر درختوں کی اوٹ میں ہوتا ہوا جھونپڑے کے عقب میں پہنچ گیا ۔
چاندنی رات میں پیر صاحب اور ان کے وہ تینوں خاص مرید جیپ میں دوسرے آدمیوں کے ہمراہ ایک بھاری بھر کم بوری ٹھونسنے میں مصروف تھے ان کے باتیں کرنے کی آواز مدھم تھی جیسے کوئی راز کی بات ایک دوسرے سے کر رہے ہوں میں اپنے ذہن میں تانے بانے درست کرنے میں مصروف تھا کہ یہ کیا ہو سکتا ہے اگر گندم وغیرہ ہوتی تو رات گئے چوروں کی طرح اٹھانے کا کیا مطلب اگر کچھ اور تھا تو بوری میں کیا ہوسکتا ہے ؟میں کھسکتا ہوا جھونپڑے کے کچھ نزدیک پہنچ گیا اب میں ان کی باتیں قدرے سن سکتا تھا۔
ارے جمال ملک صاحب کہہ رہے تھے کہ ہڈیوں کو ذرا احتیاط سے نکالا کرو اکثر ڈھانچے نامکمل رہ جاتے ہیں اور پچھلی دفعہ جو دو بچوں کے ڈھانچے بھیجے تھے ان میں ایک کی کھوپڑی بالکل تڑخ گئی تھی شائد قبر کھودتے وقت تمہارے آدمی احتیاط نہیںکرتے۔
ان نووارد آدمیوں سے ایک بوری رکھواتے پیر صاحب سے مخاطب تھا تو پیر صاحب کا نام جمال ہے میں نے ذرا آگے ہوکر خود سے کہا میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے کہ پیر صاحب اس قبرستان میں مرنیوالوں کی لاشیں چوری کر کے شہر بھیج رہے تھے پہلے تو سوچا کہ ان کو للکار کر سامنے آجائوں پھر کچھ سوچ کر میں مزید انکشافات کی توقع میں دبک گیا۔
حسن وہ ماونٹی وغیرہ تو نکالنا۔اسی آدمی نے اپنے ساتھی کو مخاطب کیا وہ آدمی جسے حسن کہہ کر بلایا گیا تھا اس نے جیپ سے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکال کر اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ لو جمال اپنی جادوگری جس سے گائوں والوں کو تم نے اُلو بنا رکھا ہے اور ہاں تمہارے اس کیس کے وارنٹ گرفتاری نکلے ہوئے ہیں پولیس ملک صاحب کے پاس آئی تھی انہوںنے تم سے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ اس بار پیر صاحب بولے رشید علی یہ ان کی خوش قسمتی ہے جو میرے وار سے بچتے آرہے ہیں جب ذرا فرصت ملی تو انکی خبر ضرور لوں گا۔پیر صاحب نے وہ جادو کا ڈبہ پکڑتے جواباً کہا۔اچھا کوئی پیغام وغیرہ ہو تو کہو ۔نہیں بس سب ٹھیک ہے ۔اگلی بار آتے ہوئے کلو برابر ساوی ضرور لیتے آنا کم بخت سارا دن اناج خراب کرنیوالے بہت جمع ہوگئے ہیں نہ سارا دن ان کو ہوش آئے گا اور نہ مفت کی روٹیاں توڑیں گے ۔اور کچھ؟ اس نے ڈرائیور سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا بس یہاں سب کچھ آسا نی سے مل رہا ہے ۔ پھر رات کی پرہول تاریکی میں جیپ کے انجن کی گھڑگھڑاہٹ ہوئی اور پھر جیپ کی سرخ بتی نظروں سے دور ہوتی گئی پیر صاحب اپنے مریدوں کے ہمراہ جھونپڑے میں چلا گیا۔
میں کسّی اپنے کندھے پر رکھے ہوئے اپنے کھیت کی طرف چل پڑا۔راہ چلتے پیر صاحب کی مکروہ شخصیت کے بارے میں بھی سوچتا جا رہا تھا کہ اس بے غیرت شخص کو تو ذرا برابر بھی خوف خدا نہیں جو اس بے رحمی سے قبروں کو چاک کر کے مرنے والوں کی لاشیں اور ہڈیاں نہ معلوم کس مقصد کیلئے شہر بھجواتا تھا ایک بار تو مجھے محسوس کرکے جھرجھری آگئی۔ صبح تک تو پانی کے چکر میں پڑا رہا رات کا جاگاہوا تھا اس لئے گھر آکر سوگیا۔ دوپہر تک سوتا رہا جاگنے کے ساتھ ہی رات والا منظر میری نگاہوں میں گھوم گیا پڑے پڑے مجھے سعید کا خیال آیا وہ اور میں گہرے دوست تھے ویسے بھی میری طرح وہ بھی کسی کی پرواہ کرنے والا نہیں تھا گھر کے کام کاج سے نمٹ کر میں سعید کی طرف چل دیا وہ گھر پر ہی مل گیا میں اسے لے کر باہر ڈھاری پر آگیا اور رات کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا۔ میری باتوں کو وہ غیر یقینی سے سن رہا تھا مگر جب میں نے اس سے کہا کہ میں حقیقت بیان کر رہا ہوں تو اس نے پیر صاحب کو بے نقاب کرنے کا مشورہ دیا میں نے کہا کہ کیوں نہ پہلے اسے اکیلے مل لیا جائے اس کے تاثرات دیکھ لیتے ہیں سعید نے کہا تو رات کو جب رش کم ہو گا تو پیر صاحب سے ملیں گے۔ ٹھیک ہے تم میرے پاس آجانا میں نے اسے تاکید کی ۔
سعید حسب وعدہ شام ہی کو میرے پاس گھر آگیا ہم باہر بیٹھ کر ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے پھر اندھیرا پھیلتے ہی ہم دونوں قبرستان کی طرف چل پڑے۔ پیر صاحب اپنے جھونپڑے کے باہر آگ کے الائو کی جانب منہ کئے بیٹھے تھے اور ان کے خاص مریدوں میں سے ایک قریب ہی بیٹھا تھا جبکہ دوسرے نظر نہیں آرہے تھے آگ کے چاروں طرف گائوں کے کچھ لوگ ابھی تک عقیدت سے بیٹھے ہوئے تھے ہم دونوں بھی ایک کونے میں بیٹھ گئے ۔میری نظریںپیر صاحب عرف خطرناک بدمعاش جمال کا جائزہ لے رہی تھیں کہ اس بہروپئے نے ایسا سوانگ رچایا تھا کہ گائوں کے سیدھے سادھے لوگ کس طرح اس سے عقیدت رکھنے لگے تھے ۔ بابا سائیں آپ کے دوعقیدت مند حاضر ہو ئے ہیں پیر صاحب کے ساتھی نے ہولے سے کہا۔ اس نے ایسے آنکھیں کھولیں جیسے کسی گہرے مراقبے سے چونکا ہو۔
آگے آجائو پیر صاحب کے ساتھی نے ہمیں مخاطب کیا ہم دونوں اٹھ کر پیر صاحب کے قریب یوں آبیٹھے جیسے واقعتا ہم دونوں بھی ان کے عقیدت مند ہوں پیر صاحب نے پیار دینے کے سے انداز میں ہاتھ میرے سر کی طرف کیا تو میں ذرا سا جھک کر قریب ہو گیا یہی موقع مجھے درکار تھا میں نے بڑے محتاط انداز میں لب کھولے’’پیر صاحب ہمیں آپ سے تنہائی میں کچھ کہنا تھا جو آپ کے حق میں بہتر ہو گا۔‘‘
پیر صاحب بری طرح چونکے ۔ہاں پیر صاحب رات کی پوری کاروائی دیکھ چکا ہوں اس بار وہ اور بھی گڑبڑا گیا ۔پیر صاحب کی حالت پر وہ جس نے ہمیں پیرصاحب سے ملوایا تھا بھی پریشان ہو گیا۔
’’فضل محفل برخاست کر دو کہتے ہوئے پیر جھونپڑے کے اندر چلا گیا سبھی لوگ اٹھ کر چلے گئے اب صرف ہم دونوں رہ گئے ۔ فضل پریشانی کی حالت میں پیر صاحب کے پیچھے اندر گیا پھر فوراً باہر آکے ہم سے مخاطب ہوا باباسائیں اندر بلا رہے ہیں ہم دونوں اٹھ کر اندر گئے اندر سے جھونپڑا کسی خوبصورت کمرے کی طرح تھا ،کونے میں ولائتی لیمپ روشن تھا پیر صاحب تخت پوش پر بیٹھے ہماری طرف دیکھ رہے تھے ’’ہاں تم نے کہا تھا کہ رات کی کاروائی میں دیکھ چکا ہوں‘‘
’’ہاں،جمال اس بار میں نے اس کا نام لے کر مخاطب کیا‘‘۔اسے واقعی میری بات کا یقین ہو گیا۔
’’اب تم لوگ کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’یہ بتائو کہ یہ لاشیں تم کیوں شہر بھیجتے ہو؟‘‘
تم اس میں کیوں دلچسپی لے رہے ہو؟۔ اس بار جمال کے لہجہ میں تلخی تھی۔ سعید ذرا اکھڑ مزاج بھی تھا بول پڑا۔’’بابا سائیں یہ ہمارا گائوں ہے تمہار ا شہر نہیں ہماری ذرا سی آواز پر تیرے پرخچے اڑ جائیں گے تم اتنے وحشی ہو کہ تمہارے کرتوت اگر گائوں والوں پر کھل گئے تو اس کا انجام شائد تم نہیں جانتے‘‘جواب میں فضل بولا’’اب تم چاہتے کیا ہو‘‘؟۔یہی کہ پہلے بتائو تم لاشیں اور ہڈیاں کیا کرتے ہو۔میں بتاتا ہوں جمال کروٹ بدلتے کہنے لگا۔
’’یہ ڈھانچے جو ہم نکال کر شہر بھیجتے ہیں یہ انسانیت کی بھلائی کے کام آتے ہیں ان ڈھانچوں کو باہر کے ملکوں میں اسمگل کر دیا جاتا ہے وہاں ان کو جوڑ کر مختلف کاموں میں لایا جاتا ہے ۔بعض ہڈیاں زندہ انسانوں کے کام آتی ہیں ڈاکٹران ڈھانچوں کے ذریعے ڈاکٹروں کی تعلیم حاصل کر تے ہیں۔‘‘
بس ۔۔بس۔۔۔یہ لیکچر بند کرو تم جو کچھ بھی کرتے ہو انسانیت اس کی اجازت نہیں دیتی تم اس کاروبار سے دولت سمیٹ رہے ہو مگر تمہیں آخرت کا کوئی علم نہیں۔
دیکھو تم لوگ ہمارے کام میں مداخلت مت کرو ہم تمہیں اس کے عوض ہر ماہ معقول رقم منہ بند رکھنے کی مَد میں دے دیا کریں گے۔ اس بار ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ٹھیک ہے ہم تمہیں کل بتائیں گے اس بار سعید نے جواب دیا اور مجھے اٹھنے کا اشارہ کیا پھر ہم دونوں جھونپڑے سے باہر نکل کر گائوں کی طرف بڑھنے لگے۔
راجہ۔۔۔۔راہ چلتے سعید نے مجھے مخاطب کیا ، یار اگر پیر صاحب کی بات مان لیں تو اس میں حرج کیا ہے اگر وہ مردے نکال کر باہر بھیجتے ہیں تو کیا ہمارے کہنے پر رُک جائیں گیاگر فرض کرلو وہ یہاں سے دفع بھی ہو جائیں تو یہی دھندا کسی دوسری جگہ کرنا شروع کر دیں گے لہٰذا ان کی ہی بات مان لیتے ہیں۔
جیسے تمہاری مرضی مگر جو بات بھی جمال سے کرنا ذرا ہوشیاری سے کرنا آدمی بڑا خطرناک ہے دیکھا نہیں وہ سانپ کی طرح بل کھا رہا تھا۔
تم فکر نہ کر و سعید نے مجھے تسلی دیتے کہا۔
دوسرے روز سعید کی ان سے تین ہزار روپے پر بات پکی ہو گئی ۔نوٹوں کی بڑی گرمی ہو تی ہے جب دو ہزار میری جیب میں اور ایک ہزار سعید کی جیب میں پڑا تو ہماری نیند اڑ گئی اور یہ تو ہر ماہ کا سلسلہ بن گیا تھا اس لئے پرواہ کیسی۔جمال گینگ کے ساتھ ہماری دوستی ہو چکی تھی اس لئے اب ہماری وہاں آئو بھگت بھی خوب ہوتی ۔
ایک روز میں کام کاج سے فارغ ہو کر جمال کے جھونپڑے میں آیا تو اندر کا منظر ہی اور دیکھا ایک نوجوان لڑکی رسیوں سے جکڑی کراہ رہی تھی اس کے قریب کوئی ناگوار بدبو والی چیز سلگ رہی تھی اور وہ بے بسی سے ناک کبھی ادھر اور کبھی اُدھر کرتی مگر فضل بے دردی سے اس کے بال کھینچ کر اس دھونی پر اسے جھکا دیتا ایک کونے میں چند عورتیں اوردوتین مرد بیٹھے تھے جو اس گائوں کے تو نہیں تھے شائد کسی اور جگہ سے آئے تھے مجھ پر نظر پڑتے جمال نے ناگواری سے مجھے گھورا اور پھر ایک طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا۔میں بھی حیران سا ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا وہ لڑکی بے بسی سے چیخی خدا کیلئے اب بس کر و مجھ پر رحم کرو۔ جواب میں جمال کی گرج دار آواز گونجی بتا تو کون ہے ؟میں بار بار بتا چکی ہوں کہ میں رضیہ ہوں لڑکی نے روتے جواب دیا۔ تو ایسے نہیں بتائے گی جمال نے جلال میں آکر اپنے پاس پڑی چھڑی اٹھا کر اس لڑکی پر برسانا شروع کر دی۔وہ بری طرح چیخ رہی تھی فضل نے آگ کے دہکتے کوئلوں پر پتہ نہیں کیا واہیات چیر پھینکی کہ پورا جھونپڑا بدبو سے بھر گیا میں شائد اٹھ جاتا مگر تجسس کے مارے وہاں بیٹھا رہا۔پھر وہ کونے میں بیٹھے ان مردعورتوں سے مخاطب ہوا اس پر بدروحوں کا سایہ ہے اسے مکمل علاج کی ضرورت ہے تمہارا گائوں چونکہ بہت دور ہے اگر اس گائوں میں تمہارا کوئی عزیز ہو تو ٹھیک ہے ورنہ تم یہاں رہ سکتے ہومیں اپنی جگہ پر بل کھا کر رہ گیا۔
پتہ نہیں اس بیچاری کو کیا بیماری تھی جو اس پر بدروحوں کا حملہ بیان کر رہا تھا میں بو ل پڑتا مگر کیا کرتا زبان بند رکھنے کا وعدہ کرچکا تھا۔ لڑکی جس کا مار کھاتے کھاتے برا حال ہو چکا تھا ڈر کے مارے مسلسل کانپ رہی تھی۔ جمال مجھے پوری توجہ سے دیکھتے پا کر ایک دم سے بولا، راجہ کیسے آئے ہو؟۔بس با باسائیں حاضری بھرنے آیا ہوں میں نے سدھائے ہوئے جانور کی طرح پوری وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔ اچھا اب تم جائواور آرام کرو میں آج کسی سے نہیں ملوں گا جمال نے جلال میں آتے ہوئے اپنا ہاتھ پانی سے بھرے ٹب میں جھٹکا ایک دم سے تڑاک تڑاک کی آواز پانی کی سطح پر پیدا ہو ئی اور پل بھر کو آگ بھڑکی اور ناگوار بدبو پانی کی سطح پر سے اٹھ کر پورے جھونپڑے میں پھیل گئی وہاں موجود سبھی جن میں میں بھی شامل تھا کھانسنے لگے ۔پیر صاحب یہ عمل اتنی ہوشیاری سے کرتے تھے کہ کسی کو خبر تک نہ ہوتی خدا معلوم وہ کیا شعبدہ بازی تھی جہاں تک پانی میں آگ بھڑکنے کا سوال تھا تو اس بارے میں ضرور کوئی گڑ بڑ تھی ورنہ وہ بد بخت لاشیں چور اور کہاں پانی میں آگ کی کرامات میں اس بد نصیب لڑکی رضیہ کے بارے میں رنجیدہ سا واپس اپنے گھر لوٹ آیا ۔ رات گئے چار پائی پر لیٹا اسی کے بارے میں سوچتا رہا ان بھیڑ وں کے نرغے میں وہ معصوم اپنی عزت کی پاسدار ی کیسے کر سکے گی۔
دوسرے روز میں نے جمال کی ساری کاروائی سعید کو بتائی تو اس نے جواب میں وہی کہا راجہ کیوں آتے ہیں لوگ ایسے دھوکے باز اور جعلی پیر وں فقیروںکے پاس۔ اب اگر ہم ان کو منع بھی کریں تو وہ لوگ کبھی نہیں مانیں گے لہٰذا تم مت دخل اندازی کرو اور پھر ہم دونوں بھی تو اب اسی کے ساتھی ہیں ۔میں سعید کی بات سن کر خاموش ہو گیا مگر دل میں اب بھی رضیہ کی ہمدردی تھی، دوسرے روز میں ذرا جلدی ہی قبرستان پہنچ گیا یہ دیکھنے کیلئے کہ دیکھوں اس لڑکی کا کیا ہوا ہے جھونپڑے سے باہر شفیع اور فضل کھڑے کسی بات پر الجھ رہے تھے مجھے دیکھ کر خاموش ہوگئے کیا معاملہ ہے بھئی میں نے ان کے پاس رکتے پوچھا۔ کچھ نہیں راجہ ہر بات میں ٹانگ مت اڑایا کرو شفیع نے بیزاری کا اظہار کیا ۔میں نے تو یونہی پوچھ لیا ورنہ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے میں نے اندر جانے کیلئے قدم بڑجائے مگر فضل نے مجھے روک لیا۔راجہ اندر پیر صاحب لڑکی کو دم کر رہے ہیں انہوںنے سب کو اندر آنے سے روک رکھا ہے میں وہیں رک گیا لڑکی کے سارے ورثاء بھی ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے ۔چند پل میں ان کے قریب رُکا رہا پھر میںنے فضل کو مخاطب کیا ۔فضل کیا پیر صاحب نے آج لڑکی کی بدروحوں کو اکیلے قابو کر رکھا ہے میرا مطلب اس روز تو تم بھی ان کی مدد کر رہے تھے۔ میری بات پر وہ تھوڑا سا کھیسا نہ ہو کر رہ گیا۔ راجہ بزرگوں کے معاملہ میں ہم تم دخل دینے والے کون ہوتے ہیں فضل نے پیچھا چھڑانے والے انداز میں میری بات کا جواب دیا۔لو فضل، تاج بھی آگیا ہے شفیع نے تاج کو آتے دیکھ کر فضل کو بتایا یہ ان کو چوتھا ساتھی تھا تاج دیکھنے میں بڑا سیدھا سادھا لگتا مگر ساری حرامزدگی اس کے ذمہ تھی قبروں کو کھولنا، ان سے لاشیں اور ہڈیاں برآمد کرنا پیر صاحب نے تاج کو اس قبرستان کا گورکن مقرر کر رکھا تھا جو دکھاوے کے طور پر قبروں کی دیکھ بھال کرتا مرنے والوں کیلئے قبریں تیار کرتا پہلے یہ کام لوگ خود کرتے تھے اب وہ کرنے لگا تو مرنے والے کے لواحقین کیلئے آسانی ہو گئی۔جمال اپنی جھونپڑی میں رضیہ کے ساتھ خدا معلوم کس حالت میں ہو، شیطان سے اچھائی کی توقع کرنا بیوقوفی کے مترادف تھا ۔بہر حال چند پل ادھر اُدھر کی ہانک کر اپنے کھیتوں کی طرف آگیا دوسرے روز معلوم ہوا کہ رضیہ بالکل تندرست ہو کر واپس چلی گئی تھی۔ پیر صاحب کے چیلوں کے مطابق رضیہ رسیوں میں جکڑی آئی تھی اور آزاد ہو کر اپنے گھر گئی تھی پتہ نہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جکڑی گئی تھی یا کچھ کسر باقی رہی ہوگی۔
صبح حیات کے گھر کے سامنے کافی لوگ جمع تھے ان لوگوں میں سعید بھی کھڑا تھا ہمارے گائوں کا گلزار کھوجی اپنی چھڑی کی مدد سے پیروں کے نشانات کے گرد حاشیے لگا کر ان کوذہن نشین کر رہا تھا ۔کیا ہوا سعید ؟میں نے پاس رُکتے دریافت کیا۔ چوروںنے تو کوئی قیمتی چیزباقی نہیں چھوڑی بیچارے کی دونوں بیٹیوں کا جہیز بھی لوٹ لے گئے کم بخت۔ سعید نے بڑے دکھ سے کہا ،کھوجی اپنے ہمراہ حیات سمیت چند ایک گائوں والے لیکر کھروں کے نشانات کے پیچھے چل پڑا ۔میں اور سعید باتیں کرتے گائوں کی بڑی دکان کے آگے پڑے تخت پوش پر آ بیٹھے، اب ہماری گفتگوکا رخ رضیہ کی طرف تھا جس کو جمال نے جنات اتارنے کے بہانے تمام دن اور تما م رات اپنے جھونپڑے میں رکھا ،یار راجہ وہ بد بخت اپنے گناہوں میں اضافہ در اضافہ کرنے میں مصروف ہے اور ہاں کل ہمارا کمائی کا دن ہے یعنی پیر صاحب کی طرف سے تنخواہ ملنے والی ہے سعید نے مسکراتے ہوئے کہا ہاں یار سعید ضمیر ملامت کرتا ہے میں نے آہستہ سے کہا ۔کچھ نہیں ہوتا سعید نے شانے جھٹک کر جواب دیا پھر ہم دونوںاٹھ کر اپنے اپنے کھیتوں کی طرف چل دیئے۔
شام کو گائوں کے چوک میں سارے گائوں والے جمع تھے کھوجی گلزار بڑے اعتماد سے ایک ہی بات کہہ رہا تھا کہ کھرے تین مختلف پیروں کے ہیں اور قبرستان سے باہر کسی سمت نہیں نکلتے میرا علم کبھی غلط نہیں ہو سکتایہ پیشہ میرے خاندان میں کئی پشتوں سے چلا آرہا ہے قبرستان میں تو صرف بابا سائیں رہتے ہیں ان کے پاس سینکڑوں لوگ دن رات آتے ہیں اب کس پر شک کیا جائے وہاں موجود کئی ایک لوگ بولے مگرمیں اور سعید ایک ہی سطح پر سوچ رہے تھے تین مختلف پیروں کے نشان اور وہ بھی قبرستان کے اندر گم ہورہے تھے،ہم دونوں چپکے سے نکل کر ایک طرف آگئے۔تمہارا دل کیا کہتا ہے میں نے چلتے چلتے سعید کو مخاطب کیا۔وہی جو تمہارا دل کہہ رہا ہے تو پھر کس طرح بات کی جائے۔رات کو جب رش کم ہوگا تو بات کرنے کا موقع تلاش کرکے اس چوری کی واپسی کا تقاضا کریں گے اگر انہوںنے بات مان لی تو ٹھیک ہے ورنہ اس کے برعکس کوئی اقدام اٹھانے کے بارے میں سوچیں گے سعید نے ایک جگہ رک کر سگریٹ سلگایا۔
شام کو ہم پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے ہم سے پہلے وہاں ساوی کا دور چل رہا تھا کئی پیالے خالی کر چکے تھے اورکئی ابھی تک پیالوں میں بھرا سبز سبز سیال مادہ اپنے اپنے حلق سے اتارنے کی کوشش میں مصروف تھے۔
سعید ،اس کم بخت نے تو اب گائوں میں بھنگ کا نشہ پھیلانے کاآغاز کر دیا ہے۔
پیر صاحب نے اپنی نیم وا آنکھوںسے مجھے دیکھا اور سر ہلا کر ہمارے سلام کا جواب دیا۔ باباسائیں آج آپ سے کچھ تنہائی میں بات کرنی ہے میں نے آگے سر کتے دھیمی آواز میں کہا۔ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے رضا مندی کا اظہار کیا۔پھر رات کو ہم دونوں جھونپڑے میں اس کے روبرو بیٹھے تھے لیمپ کی لرزتی مدہم روشنی میں پیر صاحب کا تاریک سایہ کسی عفریت کی مانند ناچ رہا تھاکافی دیر خاموشی کے بعد جمال ہی نے سکوت توڑا۔ ہاں راجہ بتائو کیا بات ہے،جمال ایک گزازش ہے کہ یہ سمجھ کر قبول کرلینا کہ اس میں ہم دونوں کا بھلا ہے اس گائوں سکھ پور میں جو کچھ تم کر رہے ہو اس کا تجھے اور ہمیں بخوبی علم ہے حیات کے گھر چوری کی واردات تمہارے ارد گرد گھومتی ہے گائوں والوں کی نظر میں تم اپنے اندر کافی کرامات رکھتے ہو اس سے بیشتر کہ بات بگڑ ے تم حیات کا چوری شدہ مال کسی بھی طریقے سے واپس کردو۔جمال بل کھا کر رہ گیا،کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کہ چوری میں ہمارا ہاتھ ہے اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ تمہارے اور تمہارے ان آدمیوں کے سوا گائوں میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو دولت کا پچاری ہو۔ اب تو تم دونوں بھی ہمارے ساتھ ہو جمال نے زہریلی مسکراہٹ کے درمیان ہمیں احساس دلایا۔جمال یہ مت بھولو کہ ہم تمہارے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے عوض یہ معمولی رقم تم سے لے رہے ہیں اس بار سعید نے اس کی بات کا جواب دیا۔
’’اچھا بند کرو اپنا منہ اور دفع ہوجائو یہاں سے نہ ہمیں چوری کا پتہ ہے اور نہ ہم نے چوری کی ہے جمال نے غصہ میں آگ بگولاہوتے کہا۔سوچ لو جمال ابھی ہم گائوں جاکرلوگوں کو تیرے کرتوت بتادیں گے اور آگے کیا ہوگا شائد تم نہیں جانتے۔فضل جو ساری باتیں سن رہا تھا وہ بیچ میں بول پڑا بابا سائیں یہ دونوں اپنے کام کے آدمی ہیں ان کی بات مان جائیں۔پتہ نہیں دونوں کے درمیان کیا اشارہ ہوا تھا کہ جمال خاموش ہو گیا۔راجہ جائو کل رات آکر اپنا مال لے جانا اور یہ لو اپنا ماہانہ اس نے جیب سے رقم نکال کر میری طرف بڑھا دی،میں روپے پکڑ کر سعید کے ہمراہ باہر نکل آیا۔
یار راجہ سب کچھ توقع کے برعکس ہوا ہے نامعلوم کیوں،سعید یہ اب ہم سے بہت خوف کھانے لگے ہیں میں نے آدھے روپے اسے دیتے ہوئے جواب دیا۔ دوسرے روزرات کو ہم دونوں جمال کے جھونپڑے میں پہنچ گئے وہ سبھی جھونپڑے میں موجود تھے۔جمال نے ایک بڑی سی پوٹلی اٹھا کر ہمارے سامنے کی اور کہا راجہ یہ میں بہت کچھ کسی دبائو سے نہیں کر رہا بس یہ سمجھ لے کہ تم لوگ بھی ہمارے ساتھی ہو اور یہ سارا کچھ اسی وجہ سے ہو رہا ہے اسی اثنا ء میں فضل چائے کے پیالے سب کے سامنے رکھنے لگا لو پیو۔ میں نے اور سعید نے بھی چائے پکڑ کر پینی شروع کردی،چائے ختم کرنے کے بعد بوجھ محسوس کرتا رہا راجہ یہ مال تم کس طرح پہنچائو گے شفیع نے پوچھا،اس کی فکر نہ کرو ہم دونوں سنبھال لیں گے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میرا ذہن بھاری ہو تا جارہا ہے۔ایک دو بار میں نے سر کو جھٹکا دیا مگراپنی آنکھوں پر بتدریج بوجھ محسوس کیا کچھ پل بعد میں پیر ڈھیلے چھوڑے پڑا خراٹے لے رہا تھا پھر آہستہ آہستہ میرا ذہن بھی تاریکی میں ڈوب گیا پتہ نہیں کب تک یونہی بے ہوشی کا عمل رہا میں نے غنودگی کے سے عالم میں ٹٹول کر دیکھا میں چٹائی پر پڑا تھا اس گھپ اندھیرے میں صرف سونگھ سکتا تھا دیکھ نہیں سکتا تھا۔
میری ناک میں ایسی بو گھس رہی تھی جیسے کسی سیلاب زدہ جگہ پر سے سرانڈ اٹھ رہی ہو میرا ذہن جب سوچنے کے لائق ہو ا تو گزرا ہوا سارا واقعہ میری آنکھوں میں گھوم گیا میں نے ہاتھوں کی مدد سے دیوار کا سہارا لیا اور آہستہ آہستہ رینگتا ہوا اس کمرے کا جائزہ لینے لگا جس میں مجھے بند کیا گیا تھا۔وہ چھوٹا سا کمرہ تھا جس کے چاروں طرف کوئی روشندان تھا نہ کوئی کھڑکی میں نے دو چار آوازیں سعید کو دیں مگر میرے سوا اس کمرے میں اور کوئی بھی نہیں تھا۔جس کو میرا پیر لگا تھا وہ ایک مٹی کا چھوٹا سا گھڑا تھا جس میں پانی رکھا تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں چند سیڑھیاں تھیں جو اوپر کو جاتیں یا دیوار کے اندر اندر بنی زیر دیوار لوکبھی تھی جس کے ذریعہ ہوا کا گزر ہوتا تھا میں بے بسی سے اسی چٹائی پر بیٹھ گیا میں نے اچانک کچھ یاد کر کے اپنے زیر جامہ کو ٹٹولا تو مطمئن ہو گیا جمال کے دیئے ہوئے روپے محفوظ تھے جب کافی دیر بیت گئی میں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہو ا تو اٹھ کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اب میرے ہاتھ زور زور سے دروازہ پیٹ رہے تھے دور سے کسی کے بولنے کی آواز آئی جیسے کوئی بیزاری سے چلتا ہوا اس طرف آیا ہو پھر دورازے کی درزوں سے روشنی کی باریک باریک کرنیں اندر آنے لگیں۔ قفل میں چابی لگنے کی آواز کے ساتھ دروازہ کھل گیا میرے سامنے ایک مضبوط جسم کا بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی ایک ہاتھ میں رائفل اور دوسرے ہاتھ میں لیمپ تھامے کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔
’’کیا تکلیف ہے تمہیں؟کیوں دروازہ پیٹ رہا تھا‘‘۔
مجھے یہاں کون لایا ہے اور مجھے بند کیوں کر رکھا ہے میں نے روہانسی آواز میں پوچھا۔
یہ سب کچھ ملک صاحب بتائیں گے اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتائو ورنہ آرام سے پڑ کر ان کے آنے کا انتظار کرو۔ اتنا کہہ کر وہ دروازہ بند کرنے لگا تو میں نے ایک پٹ کو ہاتھ سے پکڑ کر اسے روکا میرے ساتھ میرا دوست سعید بھی تھا وہ کہاں ہے؟مجھے اس کا کوئی پتہ نہیں صرف اس حویلی میں اور اس تہہ خانہ میں تجھے ہی لایا گیا ہے کہتے ہوئے اس نے دروازہ باہر سے بند کرکے تالا لگا دیا میں پریشانی کے عالم میں نیچے آکر چٹائی پر لیٹ گیا بھوک سے میرا بُرا حال تھا مگر کھانے کی طرف میری طبیعت مائل نہیں تھی اٹھ کر میں نے پانی پیا اور آنے والے حالات کا جائزہ لینے لگا اسی اڈھیر بن میں مجھے نیند آگئی۔
پائوں کی ٹھوکر سے میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا وہی آدمی جو میری نگرانی پر مامور تھا ہاتھ میں کھانے کے برتن پکڑے کھڑا تھا لیمپ کی روشنی سے اب وہ کمرہ کافی حد تک روشن تھا اس کی روشنی سے میں نے اس کا جائزہ لیا وہ پرانی طرز کی چھوٹی اینٹوں سے بنایا گیا کمرہ تھا جس کی چھت دروازہ سے کافی اونچی تھی یہ برتن پکڑ اور اس کمرے کا جائزہ لینا چھوڑ کیونکہ تو یہاں سے بھاگنے کا تصور نہیںکرسکتا باہر اس حویلی کی دیواریں اونچی ہی نہیں اس کے چاروں طرف مسلح آدمی ہر وقت پہرہ دیتے ہیں اور ملک صاحب کے خوفناک کتے خاصے سدھائے ہوئے ہیں اس لئے اندر سے باہر نکلنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے ۔ میں نے خاموشی سے برتن پکڑااور چٹائی پر رکھتے ہوئے خود میں ہمت پیدا کی۔میر ا قصور اتنا سنگین تو نہیں جتنی سزا مل رہی ہے۔’’ تمہیں کس نے مشورہ دیا تھا جمال سے دشمنی لینے کا‘‘اگرآپ میری جگہ ہوتے تو یہی کرتے جو میں نے کیاہے۔’’اب بھگتو‘‘اس نے رائفل اٹھا کر گلے میں ڈالی اور لیمپ اٹھانے کیلئے جھکا تو میں نے اسے لیمپ کمرہ میں ہی رکھنے کی التجا کی وہ چند ساعت کیلئے رُکا اور لیمپ چھوڑ کر واپس اوپر جانے کیلئے سیڑھیاں عبور کرنے لگا پھر باہر سے کنڈی چڑھا کر تالا لگا دیا گیا۔ میں نے لیمپ کی بتی ذرا دھیمی کی اور کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا۔
رات میں نے کروٹیں بدل کر گزاری رہ رہ کر مجھے اپنے گھروالوں اور سعید کا خیال پریشان کر رہا تھا صبح کا پتہ دروازہ کھلنے سے چلا وہی نگران مجھے رائفل کی زد میں اوپر لایا ۔ ایک بڑا سا دالان تھا جس کے آخری کونے میں کمروں کا سلسلہ آخر تک تھایہ حویلی دیکھنے میں کوئی پرانی سرائے معلوم ہوتی تھی ۔وہ سامنے کمرے کے اندر باتھ روم ہے اگر حاجت وغیرہ ہو تو زیادہ سے زیادہ دس منٹ صرف کرنا اور ہاں باہر خونخوار کتے آزاد گھوم رہے ہیں اگر کوئی حرکت کی تو تمہارے جسم کے حصے الگ الگ کردیںگے اس نے رائفل دیوار کے ساتھ رکھتے اور سگریٹ سلگاتے ہوئے مجھے وارننگ دی ۔میں خاموشی سے باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔مجھے اس تہہ خانہ کی قید تنہائی میں پڑے پڑے آٹھ دن گزر چکے تھے مگر میری قسمت کا فیصلہ کرنیواے وہ شخص جس کو ملک صاحب کہا جاتا تھا ابھی تک نہیں آیا تھا اس دوران میں نے اپنے نگران نذیر کی ہمدردیاں حاصل کر لیں وہ اب موقع محل دیکھ کر مجھے تہہ خانہ سے نکال کر اوپر کمرے میں لے آتا اور مجھ سے ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہتا میں نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ حویلی کسی ویران علاقہ میں ہے اور اس حویلی میں جس کے کمرے بہت سے تھے اور بقول نذیر کے ہر کمرہ کے نیچے تہہ خانوں کا جال بچھا ہوا تھا۔جہاں نامعلوم کیا کیا دھندا ہوتا تھااکثر راتوں کو حویلی کے باہر ٹرک وغیرہ رکنے اور چلنے کی آوازیں آتیں۔آخر وہ دن بھی آگیا جب نذیر مجھے لے کر ملک صاحب کی خدمت میں پیش کرنے آیا میں دھڑکتے دل سے اورلرزتی ٹانگوں سے اس کے پیچھے اوپر آگیا کئی بڑے کمروں سے ہوکر ایک سجے ہوئے کمرہ میں مجھے پہنچا دیا گیا۔
چند پل انتظار کے بعدپردہ لہرایا اور ایک دبلا پتلا بارعب شخصیت والا آدمی اندر داخل ہوا ۔نذیر نے ایک دم آنکھیں جھکاتے اس آدمی کو ملک صاحب کہہ کر سلام کیا وہ سرہلاتا ہوا صوفہ پر بیٹھ گیا۔ اچھا تو یہ ہے وہ حرام خور جو ہمیں بلیک میل کر رہا تھا ،جی سرکار ،نذیرنے باادب ہوکر جواب دیا۔پہلے اس کو اپنا تعارف تو کروادیں ملک صاحب نے عجیب چمکتی آنکھوں سے میرا جائزہ لیتے ہوئے کہا اور نذیر کو اشارہ کیا وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ میں پریشان سا کھڑا ملک صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا چند لمحوں کے انتظار کے بعد نذیر اپنے ہمراہ تین ہٹے کٹے آدمی لیکر آگیا ایک ہاتھ میں بید کی چھڑی تھی میں سمجھ گیا کہ میری پٹائی ہوگی۔میں ملک صاحب کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھنے لگا مگر اس کے چہرے پر سختی کے آثار تھے۔ میرے تمام کپڑے اتار کر مجھے مادر زاد لباس میں ملبوس کر دیا گیا نذیر سمیت ان دو آدمیوں نے مجھے قابو کر لیا اور ایک میری ننگی پیٹھ پر بید برسانے لگا۔میری دردناک چیخیں پورے کمرے میں گونجنے لگیں جب میں مار کھاتے کھاتے نڈھال ہو گیا تو ملک صاحب نے انہیں روک دیا۔
’’نذیر اسے خان کے آدمیوں کے سپرد کردینا‘‘بہتر ملک صاحب ۔’’اور اللہ دتہ اس کا ساتھی ان کے حوالے کر دیا تھا‘‘جی ملک صاحب وہ تو کیمپ میں بھی پہنچ چکا ہے کل اس کے پہنچ جانے کا پیغام مل گیا اور اس کی رقم بھی ناصر نے وصول کر لی ہے۔’’ ٹھیک ہے اسے بھی ٹھکانے لگا دینا‘‘ کہتے ہوئے ملک صاحب دوبارہ اٹھ کر اسی پردہ کے پیچھے غائب ہوگئے۔
میں نے بڑی مشکل سے اپنے کپڑے پہنے خوش قسمتی سے روپے اب بھی ان کی نظروں سے پوشیدہ رہے درد سے میرا برا حال تھا، میری پیٹھ سے خون رس رہا تھا میں منہ کے بل چٹائی پر پڑا اپنی قسمت پر آنسو بہا رہا تھا۔ رات کو نذیر نے ترس کھاتے ہوئے گرم پانی سے میری پیٹھ پر سے خون صاف کیا اور سرسوں کا تیل میری پیٹھ پر لگا یا۔نذیر کی زبانی پتہ چلا کہ سعید کا بھی یہی حال ہوا تھا اور اسے بیگار کیمپ بھجوادیا گیا تھااور اب میری منزل بھی وہی تھی۔ آخر تیسرے روز مجھے بھی رات کی تاریکی میں ٹرک کے ذریعہ بے ہوشی کی حالت میں اگلی منزل کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ سفر بہت لمبا تھا راستے میں مجھے ذرا سا ہوش آیا تو دوبارہ میرے بازو میں سرنج داخل کرکے مجھ پر بے ہوشی طاری کر دی گئی۔
مجھے جب دوبارہ ہوش آیا تو میرا سر بھاری اور جسم بری طرح درد کر رہا تھا جب میں نے پائوں سیدھے کرنے کی کوشش کی تو مجھے احساس ہوا کہ میرے دونوں پائوں سنگل اور کڑوں میں جکڑے ہوئے ہیں جہاں میں پڑا تھا وہاں زمین سے سینکڑوں کھونٹے اور سنگل دور تک بکھرے ہوئے تھے اور گندگی اور غلاظت بکھری پڑی تھی جس چیز کو میں نے محسوس کیاوہ کوئی بھاری مشین تھی جس کی آواز کبھی بڑھ جاتی اور کبھی کم ہوتی جب بڑھتی تو یوں لگتا جیسے بھاری پتھر ریزہ ریزہ ہورہے ہوں یہ جگہ بہت اونچے پہاڑ وںکے درمیان تھی جہاں میں پازنجیر پڑا تھا نقاہت سے میرا برا حال تھا پیاس کی شدت سے میرا حلق خشک ہو رہا تھا میں نے ادھر اُدھر نظردوڑا کر اس اجنبی ماحول کا جائزہ لیا جابجا گھاس پھونس کے بڑے بڑے چھپرسے بنائے گئے تھے اور وہاں چار پائیاں پڑی تھیں۔ کبھی کبھار کوئی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی وہ بھی کہیں دور سے آتی محسوس ہوتی بھوک اور پیاس نے مجھے نڈھال کررکھا تھا پتہ نہیں کب مجھ پر دوبارہ غشی کا دورہ پڑا اور کب میں تاریکیوں میں ڈوب گیا۔
اپنے منہ پر پڑنے والے پانی سے میری آنکھیں آہستہ سے نیم وا ہوئیں تو میں نے اپنے چاروں طرف گدھے بندھے دیکھے جن کے درمیان میں بھی پڑا تھا۔ایک مریل سا آدمی مجھ پر جھکا ہوا پانی کی مدد سے مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پانی دیکھ کر میں بے صبری سے اس کے ہاتھوں کی طرف جھپٹا اور جگ منہ کو لگا کر غٹا غٹ چڑھا گیا۔
جب کچھ ہوش آیا تو دیکھا کہ ان چھپروں کے نیچے میرے جیسے کئی بد نصیب سنگلوں سے بندھے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ او بھائی اٹھو اور کھانا کھالو اس آدمی نے مٹی کے برتن میں رکھی دال روٹی میرے آگے رکھتے ہوئے کہا۔میں نے خدا کا لاکھ شکر ادا کر کے دال روٹی سے پیٹ کا دوزخ بھرا اور پائوںسیدھے کر کے بیٹھ گیا۔میں سمجھ چکا تھا کہ یہ وہی کیمپ تھا جس کا ذکر ملک کے آدمی نے کیا تھا یہ جو بندھے ہوئے اور لوگ پڑے تھے یہ بھی میری طرح یہاںآئے ہوں گے۔رات بھر بدبو اور مچھروں نے پریشان کئے رکھا یہاں بڑا سخت پہرہ تھا پہاڑوں کے اوپر اور ہمارے درمیان کئی ایک لوگ ہاتھوں میں تیز روشنی کی بیٹریاں اور اسلحہ لئے پہرہ دے رہے تھے دوسرے روز مجھے بھی کھول کر ایک گدھے کے ساتھ پتھر ڈھونے پر لگا دیا گیا پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑے گدھے پر لاد کر نیچے سے اوپر اس جگہ جمع کئے جاتے تھے جہاں پتھر کرش کرنے والی مشینیں لگی تھیں۔ میری نظریں بار بار چاروں طرف گھوم کر سعید کو تلاش کرنے میں مصروف تھیں مگر وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ ہمیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کی اجازت نہ تھی،مجھے بس اتنا معلوم ہوسکا جس جگہ ہم کام کر رہے تھے یہ خشک پہاڑوں کے نام سے یاد کی جاتی ۔یہاں کا خان بہت بڑا سمگلر اور بدمعاش تھا۔ اسے تو کسی نے نہیں دیکھا تھا البتہ اس سارے نظام کو دلبر خان نامی خان کا بہت بھروسے والا ایک سفاک آدمی سنبھالے ہوئے تھا۔
خان کے کئی ایک اور پہاڑ بھی تھے جہاں لوگ اسی طرح کام کرتے اگر کوئی فرار ہونے کی کوشش کرتا تو اسے سب کے سامنے تڑپا تڑپا کر مار دیا جاتا ہمارے درمیان کوئی بیمار پڑجاتا تو اسے کسی جانور کی طرح ہانکتے ہوئے کام پر لے جایا جاتا مجھے یہ تک بھول گیا کہ میں کون ہوں اور کب یہاں آیا تھا۔ بعض اوقات دوسرے پہاڑوں پر کام کرنے والوں کی کمی بیشی کے دوران ادھر سے اُدھر آدمی بھیجے جاتے میں بھی کئی دفعہ دوسرے لوگوں کے ہمراہ ٹرکوں پر بیٹھ کر گیا تھا ۔
ایک روزہمیں لینے کیلئے ٹرک آیا میرے سمیت اور بھی چند لوگ اس میں سوار کروادیئے گئے جس پہاڑ پر ہمیں کام کیلئے بھیجا گیا تھا وہ سبز سنگ مر مر کاتھا جب ہم وہاں پہنچے تو میرے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی میری آنکھوںکے سامنے سعید بڑا سا پتھر کندھے پر اٹھائے چلا آرہا تھا اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا مگر آنکھ دبا کر مخاطب نہ کرنے کا اشارہ کیا ،میںسر ہلاتا آگے بڑھ گیا۔ ہمیں بھی کاٹے ہوئے سنگ مرمر کے پتھر اٹھانے پر لگا دیا گیا۔فاصلہ کم ہوا تو میں نے آہستہ آواز میں سعید کو مخاطب کیا۔ سعید میرے بھائی تم خیریت سے تو ہو ؟بس زندگی کو سزا سمجھ کر کاٹ رہا ہوں تم کہو۔بس یہی حال میرا ہے میں نے اسے جواب دیا۔ایک بار بھاگنے کی کوشش کی تھی بد بختی نے ساتھ نہ چھوڑا پکڑا گیا ظالموں نے سلاخیں گرم کرکے پورا جسم داغ دیا وہ تو ابھی زندگی کی تلخیاں باقی تھیں جو بچ گیا ورنہ کب کا مر چکا ہوتا۔ بہر حال اب فکر نہ کرو خدا بہتر کرے گا میں نے اسے تسلی دی۔
شام کو کام سے فارغ ہو کرسب کو ٹولیوں میں بانٹ دیا گیا۔خوش قسمتی سے میں سعید کی ٹولی میں شامل ہو گیا کئی ماہ کے بچھڑے ہوئے تھے تمام رات دکھ سکھ کی باتیں کرتے رہے۔ یہاں نگرانی بہت سخت تھی مجال ہے کوئی پرندہ بھی پر مار سکتاہم دونوںنے فرار ہونے کے کئی منصوبے بنائے مگر کسی پر عمل کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
خان کا چھوٹا بھائی مشین کے سامنے کھڑا پتھر کی کٹائی کا معائنہ کر رہا تھا میں کاٹا ہوا پتھر الٹا اٹھا کر ترتیب سے رکھ رہا تھا کہ اچانک وہ پتھر اپنی جگہ سے کھسک گیا اور وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا جس پر پائوں رکھے کھڑا تھا اگر میں پیچھے سے پکڑ کر اسے کھینچ نہ لیتا تو خان دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا۔ خان کو بچاتے ہوئے میں گرا اور پائوں شدید زخمی ہو گیا۔خان کئی منٹ تک ساکت کھڑا ٹھنڈے پسینے پونچھتا رہا میرے پائوں سے مسلسل خون بہہ رہا تھا مشین فوراً بند کر دی گئی اور خان کی زندگی بچ جانے کی خوشی میں تمام نگران فائرنگ کرنے لگے پہاڑوں کے درمیان بارود کی بد بو پھیل گئی۔
خان کے حکم پر مجھے اٹھا کر ان کی جیپ میں بٹھا دیا گیا ان کے بیٹھ جانے پر جیپ آگے بڑ ھ گئی۔جس جگہ جیپ رکی تھی یہ کوئی چھوٹی سی بستی تھی جس کے بالکل ایک طرف بہت بڑی حویلی کی طرز پر بنی عمارت تھی ڈرائیور نے مجھے سہارا دے کر نیچے اتارا اور برآمدے میںپڑی ہوئی آ ہنی کرسیوں پر سے ایک کی گدی بنا کر مجھے بٹھا دیا۔گل خان حکیم صاحب کو بلا لائو میں خان بھائی کو خبر کرتا ہوں کہہ کر چھوٹا خان اندر چلا گیا۔ڈرائیور پاس کھڑے نوکر کو اشار ہ کرتے باہر نکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد اندر سے دونوں خان برآمد ہوئے ۔بڑے خان نے میرا بغور جائزہ لیا اور مجھے مخاطب کیا ملک صاحب کی طرف سے آئے ہو۔جی خان صاحب۔کام کرتے تھے یا ویسے خطا کار ہو خان نے براہ راست میری آنکھوں میں دیکھتے کہا۔ میں نے درس سے کراہتے ہوئے اپنا رخ بدلا اور بولا خان صاحب قصور بس اتنا ہے کہ ملک صاحب کے ایک کارندے جمال کو قبرستان سے لاشیں چوری کرنے اورسادہ لوح دیہاتی عورتوں کی عصمت دری کرنے سے روکا تھا بس ہم دھر لئے گئے۔ کوئی اور بھی تمہارے ساتھ ہے؟۔جی ہاں میرا دوست سعید وہ بھی آپ کے پاس ہے۔
اتنے میں حکیم صاحب آگئے انہوںنے میرے کچلے ہوئے پائوں کو صاف کیا اور مرہم لگاتے ہوئے پٹی باندھ دی اور آرام کرنے کا کہہ کر صندوقچی اٹھاتے ہوئے چلا گیا۔
اس دوران بڑا خان صوفہ پر بیٹھا نامعلوم کیا سوچتا رہا مجھے حویلی کے سرونٹ حصہ میں گھر کے خاص ملازم کے ساتھ ٹھہرا دیا گیا جو اکیلا ہی رہتا تھا۔ کئی ماہ کے بعد مکمل آرام ملا تھا یہاں میرا ہر طرح سے خیال رکھاجاتا ، دونوں خان کبھی کبھی میرا حال دریافت کرنے آ جاتے۔ گل خان کی زبانی معلوم ہوا کہ سعید کو کام سے ہٹا کر نگرانی پر لگا د یا گیا ۔میرے زخم بھرنے میں تین ہفتے لگ گئے تھے اب میں تھوڑا بہت چلنے کے قابل ہو گیا تھا۔ حویلی میں رہتے حویلی میں رہنے والوں کے رہن سہن کا بھی پتہ چل گیا تھا بڑے خان کے ہاتھ بہت لمبے تھے اکثر ان سے ملنے کیلئے بڑے بڑے لوگ آتے خوب ضیافتیں ہوتیںمجھ پر کڑی نگرانی تھی مگر اس کے باوجود میں خود کو آزاد محسوس کرتا۔
ایک روز بڑے خان نے مجھے اپنے کمرے میں طلب کیا میں اپنے دل میں کئی ایک خیال کرتا ہوا گل خان کے ہمراہ ان کے کمرے میں آگیا۔ تم جائو انہوںنے گل خان کو جانے کا اشارہ کیا۔ بیٹھ جائو راجہ،میں قالین پر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ راجہ میں کوشش کے باوجود تم دونوں کو آزاد نہیں پایادنیا میں مجھے ہر چیز سے پیارا میرا بھائی ہے جس کی جان بچا کر تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ ہم پٹھان احسان کا بدلہ اپنی عزت اور جان کے برابر سمجھتے ہیں ۔میں نے تمہارے لئے ایک فیصلہ کیا ہے شائد تم اس کو قبول کر لو راجہ، دنیا میں ایمان کے بعد رزق ہے جو انسان کیلئے بہت مشکل عمل بنا ہوا ہے ہر شخص دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے چاہے وہ کسی ذریعے سے ہاتھ آتی ہو۔ میں کچھ رقم تمہارے دونوں گھروں میں منی آرڈر کرکے انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تم دونوں زندہ ہو اس کے بعد جو کام میں نے تمہارے لئے سوچا ہے وہ زیادہ مشکل نہیں اس کام میں تمہیں حصہ دیا جائے گا اور وہ بھی برابر کا جب میں محسوس کروں گا کہ تم میرے لئے خطرناک نہیں تو میں وعدہ کرتا ہوں تم دونوں کو واپس بھیج دیا جائیگا۔
میں نے اس دوران اپنی آنکھیں نیچے رکھیں میرے جیسے کئی اور لوگ تھے جن کو خان نے اپنے بیگار کیمپ میں اکٹھا کر رکھا تھا قدرت نے مجھے موقع دیا اور میں نے اپنی ذہانت سے چھوٹے خان کو پکڑکر کھینچ لیا ورنہ میں کہاں اور میرے لئے یہ مراعات کیسی۔اب تم جائواور ہاں ایک بات جس کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ دھوکا اور فرار کا دوسرا نام موت ہے میرے آدمی رحم کے نام سے آشنا نہیں خان نے مجھے وارننگ دی۔ خان صاحب میں آپ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائوں گا کہتے ہوئے میں واپس کوارٹر میں آگیا۔ اب مجھے حویلی سے باہر آنے جانے کی اجازت مل گئی تھی بظاہر مجھے نگرانی سے آزاد کر دیا گیا تھا مگر گائوں کا ہر شخص مجھ پر نگاہ رکھتا جس کو میں محسوس کئے بغیرنہ رہ سکا۔
بڑے خان کے حکم پر مجھ سے چھوٹے موٹے کام لئے جانے لگے تھے۔ کام کی نوعیت بس ایسی تھی میں دو تین آدمیوں کے ہمراہ پہاڑو ں کے درمیان دن رات خچروں کے ذریعے سفر کرتا جو سامان ہمارے پاس ہوتا وہ ہم ایک مخصوص مقام پر پہنچا دیتے اور جو وہاں سے ملتاوہ ہم واپس بڑے خان کے پاس لے آتے میں نے کبھی یہ دلچسپی نہیںلی تھی کہ ہم لے کر کیاجاتے ہیں اور لے کر کیا آتے ۔خان کو میرے بارے میں رپورٹ مل رہی تھی اس لئے وہ مجھ پر خاصے خوش تھے انہوںنے اب میرے رہنے کا بندوبست بھی الگ کردیا تھا۔ اب گائوں کے وسط میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ،میرے کہنے پر سعید کو بھی میرے پاس آنے جانے کی اجازت مل گئی تھی وہ بھی اب اپنے آپ کو قیدی محسوس نہ کرتا تھا۔ کھانے پینے اور گھومنے پھرنے کی مکمل آزادی تھی میںنے اسے سمجھا دیا تھا کہ بھاگنے کا دوسرا نام موت ہے اب تو صرف بڑے خان کو یقین دلانا ہے کہ ہم دونوں اس کے وفادار ہیں اور پھر ہو سکتا ہے کہ ہم زندہ سلامت اپنے اپنے گھروں کو واپس پلٹ جائیں پہلے تو گھر والے رو دھو کربیٹھ گئے مگر جب سے ان کو ہماری طرف سے رقم ملی تو ان کو ہمارے زندہ ہونے کا ثبوت مل چکا تھا میری بات سے سعید نے بھی اتفاق کیا۔
خان کی طرف سے ملنے والے پیغام نے مجھے حیران کر دیاوہ بات ہی ایسی تھی میں اور سعید دونوں مال لے کراکیلے جائیں اور وہاں سے مال لے کر اکیلے آئیں راستے میرے دیکھے ہوئے تھے اس لئے ان کی پرواہ تو نہیں تھی مگر اتنی بڑی ذمہ داری کی سمجھ نہیں آرہی تھی بہرحال میں نے زیادہ سوچنا مناسب نہیں سمجھا اور ان کے حکم کے مطابق سعید کو لیکر سفر پر روانہ ہوگیا۔ تمام راستے ہم اپنے چاروں طرف نظر رکھے ہوئے تھے یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی نظر نہ آنے والی ہستی ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہم نے منزل پر پہنچ کر مال و صول کیا اور واپسی کیلئے روانہ ہوگئے۔ سعید خچر کی سواری سے خاصا لطف اندوز ہو رہا تھا ویسے بھی جو خچر اسے دیا گیا تھا وہ اصیل تھا۔ شام کا سرمئی آنچل دن کے اجالے کو آہستہ آہستہ ڈھانپ رہا تھا میں پریشان ہو گیا کیونکہ جس جگہ پڑائو کرنا تھا وہ مقام ابھی کافی دور تھا میں نے سعید کو مخاطب کیا کہو راجہ سن رہا ہوں اس نے خشک گوشت چباتے ہوئے جواب دیا۔ یار اندھیرا بڑھنے سے پہلے ہمیں کوئی محفوظ جگہ کا انتخاب کرلینا چاہئے ورنہ ہم کہیں بھٹک نہ جائیں۔ راجہ یہ تمہارا کام ہے میرا تو پہلا سفر ہے جبکہ تم بار بار ادھر آچکے ہو۔ اچھا خیر دیکھ لیتے ہیں میں نے چاروں طرف دیکھتے اس سے کہا۔
آخر ایک پہاڑ کی آگے کو ابھر ی ہوئی بڑی سی چوٹی کے سائے میںہم نے اپنے خچر روک دیئے اور مال کے تھیلے اتار کر جھاڑیوں میں چھپا دیئے اور خود صاف سی جگہ پر دراز ہوگئے۔سفر نے چور چور کر دیا تھا اس لئے پڑتے ہی نیند آگئی رات کا پتہ نہیں کون سا پہر تھا کہ میں ہڑبڑا کر جاگ گیا وہ کوئی شور تھا جس نے میری آنکھ کھولی تھی جس پہاڑ کی اوٹ میں ہم لیٹے تھے اس کے نشیب میں کھلا میدان تھا جس میں جگہ جگہ آگ کے الائو روشن تھے اور ان کی روشنی میں بہت سے لوگ متحرک نظر آئے سعید بھی جاگ گیا وہ بھی میری طرح حیرانگی سے اسی طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے اس نشیب کا ہم دونوں نے اچھی طرح جائزہ لیا تھا اس وقت کوئی آثار ایسے نہیں تھے جو اس وقت نظر آرہے تھے اور اس غیر آباد علاقہ میں ڈھول تاشے۔راجہ یہ کیا معاملہ ہے؟۔۔۔ سعید نے دریافت کیا۔ شائد میری شادی کی رسم ادا ہو رہی ہے میں نے مسکرا کر جواب دیا۔ آئو چل کر دیکھیں سعید نے اٹھتے ہوئے کہا ہم دونوں نشیب کی طرف جانے والے راستے پر نیچے اترنے لگے چند منٹ کے بعد ہم وہاں پہنچ گئے واقعی وہ شادی کی رسم تھی مرد ، عورتیں، بچے ادھر اُدھر بھاگے پھر رہے تھے۔
ہمیں یوں حیرانگی سے دیکھتے پا کر ایک ادھیڑ عمر شخص ہمارے پاس آکر رکا اور خوش اخلاقی سے ہمارا خیر مقدم کرتے ہوئے ہمیں ساتھ لے کر ایک خالی چار پائی پر بٹھا دیا اور اتنے میں دوسرے لوگوں کی طرح ہمارے سامنے بھی دو پیالے گرما گرم سوپ کے رکھ دیئے ۔ زندگی میں پہلی بار سوپ پیا تھا جس کا ذائقہ بڑا ہی لذیذ لگا دولہا اور دلہن آس پاس بیٹھے تھے جبکہ دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے گلے مل کر خوشی کا اظہار کر تے اور ایک دوسرے کو تحفے پیش کرتے مہمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو تا جارہا تھا۔سوپ کے بعد تمام لوگوں کے آگے قسم قسم کے کھانے سجا دیئے گئے ہم دونوں ہونق بنے ساری کاروائی دیکھ رہے تھے سب کے ساتھ ہم نے بھی کھانا کھایا اور ان کی خوشی میں شریک رہے اب بہت سی خوبرو لڑکیاں آگ کے الائو کے ارد گرد ڈانس کرے میں مصروف تھیں ساز کی دھن اتنی روح پرور تھی کہ اس بات کا ہوش بھی نہ رہا کہ ہم کہاں ہیں پتہ نہیں کب آنکھ بند ہو گئی۔
صبح جب ہوش آیا تو سعید مجھے ہلاہلا کر جگانے کی کوشش کر رہا تھا میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا میرے ذہن میں رات کی ساری کاروائی گھوم گئی چاروں طرف سپاٹ میدان میں ہم دونوں اکیلے پڑے تھے یا ہمارے ادھر اُدھر آگ کے سرد آلائو یا بکھری ہوئی ہڈیاں وغیرہ تھیں۔ سعید یہ سب کیا تھا اور وہ لوگ کون تھے؟میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا یار راجہ میرا تو مارے خوف کے برا حال ہے خدارا بھاگنے کی تیاری کرو سعید نے پریشانی سے جواب دیا میں جلدی سے اٹھ کر اس کے ساتھ اوپر جانے والے راستے کی طرف چلنے لگا اوپر پہنچ کر ہم نے خچر کھولے اور مال نکال کر بھاگ اٹھے۔ بہت سا سفر طے کرنے کے بعد ہمارے اوسان بحال ہوئے تو ہمیں احساس ہوا کہ رات جس شادی میں ہم لوگ شریک ہوئے تھے وہ انسانوں کی نہیں بلکہ کوئی دوسری مخلوق تھی مگر ان کی مہمان نوازی سے ہم دونوںمتاثر تھے جنہوںنے نہ صرف ہماری خاطر تواضع کی بلکہ کوئی نقصان پہنچائے بغیر ہم کو سوتا چھوڑ کر چلے گئے۔
ہم دونوں اس واقعہ پر حیرت زدہ ہوئے اور صحیح سلامت اپنی منزل تک پہنچ گئے۔خان ہماری کارکردگی پر بہت خوش ہوا ۔خان کو یقین ہو گیا کہ ہم اس کے وفادار ہیں گل خان کو ہم نے راستے کی کاروائی سنائی تو اس نے جواب دیا کہ آپ لوگ خوش نصیب ہیں جو جنات کی شادی میں شامل ہوئے یہ علاقہ تو ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے ۔نواز بابا کے پاس تو ایسے سینکڑوں جن بھوت آجاتے ہیں گل خان نے قہوہ ڈالتے ہوئے بتایا۔گل خان یہ نواز بابا کون ہے؟کوئی سو سال سے زیادہ عمر ہوگی مگر ابھی تک اپنے ہاتھ پائوں سے کام کرتا ہے ہم تو اس کو اکیلا ہی دیکھتے چلے آرہے ہیں وہ خشک پہاڑوں کے پار چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے کبھی کبھار گائوں آتا ہے اس نے بتایا۔بات ختم ہوگئی سعید کو دوبارہ واپس بھیج دیا گیا جبکہ میں خان کے اگلے حکم کا منتظر تھا خان کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ بغیر کام کے کسی کو زیادہ وقت نہیں دیتا۔ اس لئے میں خان کی طرف سے بے فکر تھا کہ وہ کب مجھے بلا بھیجتا ہے۔چھوٹے خان نے شکار کا پروگرام بنایا اور مجھے بھی ساتھ لے لیا گیا خان کو تیتر کے شکار کا شوق تھا کتوں کے علاوہ چھوٹے خان کا باز بھی ساتھ تھا جس کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ خان کے ذرا سے اشارے پر آنکھیں نو چ لیتا ہے۔ اس کی آنکھوں پر پڑے چمڑے کے چھوٹے چھوٹے خول اس وقت تک نہ اتارے جاتے جب تک خان کا حکم نہ ہوتا باز کو ہر وقت گل خان سنبھالتا تھا اس لئے آج بھی وہ اس کے ہاتھ پر چوکس بیٹھا تھا۔ چھوٹے خان کے اور بھی بہت سے دوست تھے جو شہر سے آئے ہوئے تھے تین جیپیں آگے پیچھے کتوں کے شور میں بڑھ رہی تھیں میرے ہاتھ میں جس کتے کی زنجیر تھی وہ خونخوار ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا طاقتور بھی تھاجس نے کھنچ کھنچ کر میرا برا حال کر ڈالا تھا۔ جنگل میں ایک جگہ پہنچ کر جیپیں روک دی گئیں اور چھ سات نوکر جو ساتھ تھے وہ خیمے نصب کرنے لگے۔
میری ڈیوٹی کتوں پر تھی اس لئے میں ان کی دیکھ بھال میں لگ گیا یہ میرے لئے نیا تجربہ تھا کہ میں شکار ہوتے دیکھوں اس سے پہلے سن رکھا تھا مگر دیکھنے کا اتفاق پہلی بار ہورہا تھا۔ سفر کی تھکاوٹ ذرا کم ہوئی تو کھانے وغیرہ کا انتظام ہونے لگا یہ پروگرام کئی دن کا تھا اس لئے راشن پانی کا بھی خیال رکھاگیا تھا۔ یہاں جو بات میں محسوس کر رہا تھا وہ میری نگرانی تھی جب بھی میں ذرا بھر کو آنکھ اوجھل ہوتا تو فوراً مجھے آوازیں آنے لگتیں میں جہاں بھی کام میں مصروف ہوتا آگے سے ان کو آواز دے کر اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتا۔ رات کو سرچ لائٹ کی مدد سے شکار کھیلا گیا۔ تیتروں، خرگوشوں اور چکوروں کے ڈھیر لگ گئے چھوٹے خان کا نشانہ بڑا اچھا تھا نشانہ تو میں نے بھی درست کر رکھا تھا مگر مالک کی موجودگی میں نوکر کی کیا مجال جو بندوق اٹھاتا ویسے ہم سب کے پاس بندوقیں تھیں۔ جنگل میں آئے تیسرا روز ہو چکا تھا شکار جو کیا جاتا وہ سب کھاتے اس میں کسی کا امتیاز نہیں تھا بلکہ سارے خان نوکروں کو پہلے کھانے کو دیتے یہ پٹھان کی مثال تھی۔
رات کو میں پہرہ پر تھا کہ کتے زور زور سے بھونکنے لگے میں چوکنا ہوکر چاروں اطراف میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ ایک بڑی جھاڑی کے پیچھے مجھے کوئی چیز حرکت کرتی نظر آئی۔جنگل کا ماحول بھی عجیب تھا ویسے بھی سبھی لوگ کتوں کے شوروغل کے عادی ہوچکے تھے اس لئے کسی نے بھی ان کے بھونکنے کی پرواہ نہ کی ۔کتے بار بار اچھل کر اس طرف زنجیر کھینچ رہے تھے جس طرف میں کوئی سیاہ چیز حرکت کرتے دیکھ چکا تھا۔ پل بھر کو مجھے سرخ سرخ دو آنکھیں چمکتی نظر پڑی تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی جنگلی درندہ تھا میںنے بندوق سیدھی کر لی اور بڑے اعتماد سے ان چمکتی دو آنکھوں کے درمیان نشانہ لیا اور پورا جنگل فائر کی آواز سے لرز اٹھا ۔فائر کی آواز کے ساتھ ہی خوفناک غراہت ابھری کسی بھاری بھرکم وجود کے تڑپنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اتنے میں سارے خیمے روشن ہوگئے چھوٹے خان نے سرچ لائٹ روشن کر کے جب جھاڑی کی طرف دیکھا تو وہاں ایک بڑاسا ریچھ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ چھوٹے خان نے میری طرف حیرانگی سے دیکھا اور میری پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے مجھے شاباش دی ۔
صبح روشنی میں دیکھا ریچھ بہت بڑا اور بھاری بھر کم تھا چھوٹے خان نے گل خان کو اور ڈرائیور کو بھیجا کہ واپس گائوں جاکر دو چار غیر مسلم ساتھ لے آئیں تاکہ ریچھ کی کھال وغیرہ اور چربی حاصل کر لی جائے۔ گل خان کے جانے سے میرے ذہن نے کروٹ لی کیونکہ زیادہ تر گل خان ہی مجھ پر کڑی نگاہ رکھتا تھا ۔شام تک گل خان اور ڈرائیور واپس نہ آئے میرے لئے یہی موقع اچھا تھا میں نے کسی پر ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں اپنے دل میں فرار ہونے کا پکا ارادہ کر چکا ہوں۔ رات شکا ر پر جانے کا پروگرام تھا مگر موسم بدلتے دیکھ کر خان صاحب نے ارادہ تبدیل کر دیا جنگل کا راستہ اپنے ذہن میں نقش کر چکا تھا اگر میں کسی طرح خشک پہاڑ تک پہنچ جاتا تو شائد ان لوگوں کی دسترس سے باہر ہو جاتا میرے دل میں فرار کے ساتھ ساتھ سعید کا بھی خیال تھا مگر آزادی کی جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا یہ اس لئے میں نے اسے خدا کے سپرد کیا اور رات کا انتظار کرنے لگا۔
جب مجھے یقین ہو گیا کہ سبھی لوگ اپنے آپ سے بے خبر ہیں میں نے اللہ کا نام لیتے ہوئے اٹھ کر جھاڑیوں کی طرف رینگنا شروع کر دیا اور پھر جب مجھے یقین ہو گیاکہ میں خیموں سے کافی دور آگیا ہوں تو سمت کا اندازہ لگاتے ہوئے تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا آزادی کی جدوجہد میں یہ بھول گیا کہ جنگل میں کوئی درندہ بھی مل سکتا ہے بندوق میں نے وہیں چھوڑ دی تھی بھاگتے بھاگتے میری سانس پھول رہی تھی مگر میں جھاڑیوں، درختوں سے الجھتا خشک پہاڑ والی سمت کی طرف بھاگا جا رہا تھا۔ ندی کو دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ میں صحیح راستے پر جارہا ہوں چند منٹ تک سانس بحال کرکے پھر بھاگنا شروع کر دیا میرے بھاگتے رہنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک میں تھک کر ایک جگہ گر نہ گیا۔ کافی دیر تک پڑا ہانپتا رہا پھر اٹھ کر بھاری قدموں سے چلتا ہوا آگے بڑھنے لگا چاند کی روشنی اب جنگل کو منور کرنے لگی تھی، ایک دو بار رک کر میںنے جنگل میں آوازوں کا تعین کیا مگر مجھے اپنے پیچھے کوئی بھی باز گشت نہ سنائی دی۔
صبح کا ہلکا ہلکا اجالا پھوٹ رہا تھا پرندوں کی آوازیں آنے لگیں میں نے ایک درخت کی چوٹی پر چڑھ کر جائزہ لیا پہاڑ کا ہیولہ سا نظر آرہا تھا میرے اندر آزادی کی نئی لہر دوڑ گئی۔
میںنے اتر کر پھر بھاگنا شروع کر دیامیرے پائوں شل اور جسم خراشوں سے بھرا پڑا تھا مگر میںاس سے بے نیاز اپنے فرار کو یقینی بنانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ میرے سر پر سورج کا دھمکتا گولہ تپش کا بازار گرم کئے ہوئے تھا پیاس کے مارے میری زبان اکڑ رہی تھی اور گلے میں کانٹے پھنستے جارہے تھے میری نظریں پانی کی تلاش میں بھی بھٹک رہی تھیں مگر مجھے کوئی بھی ایسی جگہ نظر نہ پڑی جہاں پانی دکھائی دیتا۔ جنگل کا گھنا پن اب ختم ہو رہا تھا جوں جوں میں جنگل کو پیچھے چھوڑتا آرہا تھا میرے حوصلے بڑھ رہے تھے ایک جگہ چھوٹے سے گڑھے میں مجھے پانی دکھائی دیاجس کے اوپر سبز کائی جمی ہوئی تھی اور پانی سے سڑانڈ اٹھ رہی تھی میں نے اسی سے اپنے خشک ہونٹ تر کئے اور ایک دو گھونٹ کسی کڑوی مکسچر کی طرح حلق سے نیچے اتارے اور پھر اپنا سفر جاری کر دیا جنگل کو چھوڑ کر اب میں کھلے آسمان کے نیچے چل رہا تھا پہاڑوں کا راستہ بتدریج قریب ہوتا جارہا تھا۔ میں نے بڑے خان کے گائوں والوں سے سن رکھا تھا کہ خشک پہاڑ کے پار بڑے خان کا راج ختم ہوجاتا ہے یہی بات میری ہمت بڑھا رہی تھی اور آخر سورج ڈھلنے سے پہلے میں پہاڑ کی چڑھائی پر چڑھ رہا تھا۔ جنگل اب پیچھے سے ایک دھبہ سا دکھائی دے رہا تھا میرے پائوں چلنے سے جواب دے چکے تھے مگر میں ان کو پھر بھی ہمت سے گھسیٹ کر آگے لئے جارہا تھا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں اب چھوٹے خان کی دسترس سے خاصا دور نکل آیا ہوں تو میںایک محفوظ مقام پر چھپ کر لیٹ گیا بھوک اور تھکاوٹ سے برا حال ہو رہا تھا پتہ نہیں کب نیند نے مجھے ہر چیز سے بے نیاز کر دیا۔
جب میں جاگا تو دن کی تپش قدرے کم ہوچکی تھی سورج پہاڑوں کے پیچھے گم ہو رہا تھا ۔تھکاوٹ سے تو کچھ نجات مل گئی تھی اب بھوک کا مسئلہ تھا میں نے اٹھ کر دور تک نگاہ دوڑائی مگر ماسوائے چٹیل پہاڑوں کے اور کچھ بھی دکھائی نہ دے رہا تھا۔ میں نے خدا کو یاد کیا اور جس پہاڑ کے دامن میں چھپا ہوا تھا ا سکی اترائی کی طرف نیچے اترنے لگا ۔
سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ میں پہاڑ کے درمیان بنے راستے پر پہنچ گیا جو آگے جارہا تھا میں نے اسی کا انتخاب کیا اورچل پڑا اندھیرا پھیل رہا تھا اور میں ہر ایک سے بے نیاز تن تنہا خاموش پہاڑوں کے پھیلے سلسلے میں چلا جا رہا تھا اب مجھے پکڑے جانے کا بھی خوف نہیں تھا فکر تھا تو صرف بھوک پیاس کا مجھے اپنی بے وقوفی پر غصہ آرہا تھا کہ بھاگنے سے پہلے راشن پانی کا انتظام کیوں نہ کر لیاجبکہ وہاں ہر چیز وافر مقدار میں موجود تھی۔اب کیا ہو سکتا تھا اندھیرا چاروں طرف پھیل رہا تھامیں احتیاط سے چلتا ہوا خودکو کسی محفوظ مقام پر لے جانے کیلئے آگے بڑھتا رہا ۔چھوٹی سی پہاڑی کو عبور کر کے بعد میں پھر میدان آیا تو میں نے کچھ کچھ ہر یائی محسوس کی مجھے اب پانی کی امید بندھ گئی واقعی میرا اندازہ درست نکلا دور تک بل کھاتا ایک چھوٹا سا نالہ نظر پڑا جس کا صاف پانی چاند کی روشنی میں متحرک تھا میں نے اس کے کنارے پر منہ رکھ کر خوب سیر ہو کر پانی پیا اور خدا کا شکر ادا کر تے اسی کے کنارے کنارے آگے بڑھنے لگا مجھے اپنی منزل کا کچھ پتہ نہ تھا کہ میں کدھر بڑھ رہا ہوں میں نے رات کے پہلے پہر کا تعین کر کے محسوس کیا کہ رات کے تقریباً دس گیارہ کا عمل ہوگا پانی پینے کے بعد میری بھوک تو کم ہو چکی تھی مگر اس کا احساس اسی طرح موجود تھا۔ ایک جگہ رک کر میں نے دیکھا کہ نالے کے اوپر ایک درخت گرا کر دوسرے پار جانے کا راستہ بنایا گیا تھا اس کا مطلب تھا کہ میں کسی آبادی کے قریب پہنچ چکا تھا میں نے احتیاط سے وہ نالا عبور کیا اور اس پگڈنڈی پر چلنے لگاجو چاند کی روشنی میں نظر آرہی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد میں نے دور سے آبادی کے مدہم سے آثار دیکھے میرے اندر آگے بڑھنے کی تحریک نے اور زور پکڑ لیا میرے قدموں میں تیزی آگئی اب میں گرتا پڑتا آبادی کی طرف جارہا تھا جو گھر سب سے پہلے آیا میں نے اس کا دروازہ زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا۔ چند پل کے بعد ایک آدمی آنکھیں ملتا ہوا باہر آیا اس نے مجھے سر سے پائوں تک دیکھا اور بولاکون ہو تم ؟اور اتنی رات گئے میرا دروازہ کیوں پیٹ رہے ہو؟۔ میں مسافر ہوں خدا کیلئے میری بھوک کا کچھ کریں ورنہ میرا دم نکل جائے گا۔ اچھا اچھا تم ٹھہرو اس آدمی نے بستر بچھا کر مجھے بیٹھنے کو کہا اور اندر چلا گیا مجھے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا میں کھانے پر بھوکے بھیڑیئے کی طرح ٹوٹ پڑا وہ حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا جب میں اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیا مجھے یقین ہو گیا کہ اب میں سوچ بھی سکتا ہوں اور ہر بات کا جواب بھی دے سکتا ہوں میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے محسن کا نام دریافت کیا نام اس نے کیلاش بتایا اور علاقہ جس میں اس وقت موجود تھا کافرستان کا ایک دور افتادہ دیہات برونی بیان کیا میں نے اپنا نام راجہ ہی بتایا اور وقتی طور پر غلط بیانی سے کام لیکر ایک فرضی کہانی گھڑ کر کیلاش کو مطمئن کر دیا پھر وہ مجھے آرام کرنے کا کہہ کر دوبارہ اندر چلا گیا پتہ نہیں مجھے کب نیند آگئی۔
صبح کافی دن چڑھ آیا تھا جب کیلاش مجھے جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کر رہا تھا میں اٹھ کر بیٹھ گیا اس کے ہمراہ دو چار عمر رسیدہ آدمی بھی تھے جو چارپائی پر بیٹھ گئے مجھ سے سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا ان میں ایک شخص جسے سارے کاکا کہہ رہے تھے وہ مجھے بڑے تیکھے انداز میں دیکھ رہا تھا میں نے وہی کہانی بیان کی جو میں کیلاش کو بتا چکا تھا کہ اپنے گائوں کے ظالم زمیندار کی قید سے بھاگ کر آیا ہوں جو مجھ سے زبردستی بیگار لیتا تھا سارا دن کام کرواتا رات کو سنگل لگا کر باندھ دیتا میں نے وہ نشان بھی دکھائے جو میرے دونوں پائوں کے ٹخنوں سے اوپر بندھنے سے صاف دکھائی پڑتے تھے کاکا نے مجھے مخاطب کر تے کہا کہ اب تم ہمارے مہمان ہو تمہاری ذمہ داری کیلاش پر ہے اگر تمہیں کسی قسم کی کوئی مدد یا ضرورت پڑے تو ہم گائوں والے حاضر ہیں میں نے سب کا شکریہ ادا کیا پھر وہ لوگ واپس چلے گئے کیلاش نے چھاچھ پیالہ اور نمکین روٹی میرے آگے رکھ دی اور مجھے اپنے گھر کے افراد کا تعارف کروانے لگا اس نے بتایا کہ گھر میں میری بوڑھی ماں ،بیوی اور بیوی کی ایک بہن اور دو چھوٹے بچے تھے دیہات میں تھوڑی سی زمین کو زیر کاشت لاکر اپنے گھر کا نظام چلاتا یا جنگل سے جنگلی سیب ، انگور وغیرہ تلاش کر کے انہیں گائوں میں فروخت کر تا اس نے دو چار جانور بھی رکھے ہوئے تھے جن میں ایک گائے ددو بیل جس سے ہل چلاتا اور تھوڑی سی بکریاں تھیں مکان کچا تھا مگر کافی کشادہ ہونے کی وجہ سے خوبصورت لگتا مجھے سر چھپانے کی جگہ تو مل گئی تھی اور دو وقت کا کھانا بھی دو دن تک تو مشکل سے میری تھکن دور ہوئی پھر میں نے کیلاش سے کہا کہ مجھے بھی کام پر ساتھ رکھے پہلے تو وہ ٹال گیا مگر میرے اصرار پر اس نے مجھے بھی جنگل سے پھل تلاش کرنے کیلئے ساتھ لے لیا۔ میں اس کے ہمراہ صبح نکل جاتا اور دن ڈھلنے سے قبل ہم واپس آجاتے جو پھل وغیرہ وہاں سے حاصل کرتے تھے ان کو کیلاش کی بیوی اور بہنیں صاف کر کے گائوں کے گھروں میں بیچ آتیں ۔ اب میں بھی باقاعدہ اس گھر میں ان کے ایک فرد کی حیثیت سے رہ رہا تھا اس ماحول نے مجھے اپنا گھر اور اپنے گھر والے یاد دلا دیئے تھے ان لوگوں کی محبت میںمیںنے وقتی طور پر اپنے آپ سے سمجھوتہ کر لیا مجھے گھر کے کونے والے چھوٹے سے کمرے میں ٹھہرا دیا گیا تھا۔ میرے پاس جو رقم تھی اس میں سے میں نے کچھ اپنے پہننے کیلئے کپڑے خرید ے جو گائوں ہی سے مجھے مل گئے اس لباس میں مجھے کوئی خطرہ نہ رہا تھا کیونکہ اسے پہننے سے میرا حلیہ خاصا بدل چکا تھا ۔بھابھی کرونٹا کی چھوٹی بہن ہتانلی نہ صرف میرے کام کرتی بلکہ مجھ میں کافی دلچسپی لینے لگی تھی مگر میں ہر بار صفائی سے نکل جاتا۔
ایک روز شام کو کیلاش گائوں کے کسی بیمار کی مزاج پرسی کرنے کی غرض سے گیا ہو اتھا ساتھ میں بھابھی کرونٹا بھی تھی گھر میں ماں جی بچے ہتانلی اور میں رہ گئے تھے یہ موقع اس نے غنیمت جانا اور میری کوٹھڑی میں آتے ہی مجھے مخاطب کیا راجہ تمہیں ایک بات کہوں ۔ہاں بولو میں سن رہا ہوں۔ جنوری کے دوسرے ہفتے گائوں کی تمام لڑکیوں کے بَر بولے جائیں گے یہ کام گائوں کے کاکا جی کی موجودگی میں ہوتا ہے اتنا کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔میں تذبذب میں پڑ گیا کہ کیا کروں ؟اس نے بلا خوف سب کچھ کہہ ڈالا اور میں اتنی دیر سے اس کے سامنے یہ بھی اظہار نہ کر سکا کہ میں بھی اسے چاہنے لگا تھا۔ میں ہتانلی کے جانے کے بعد سوچ میں پڑ گیا کہ میں اس موضوع پر کیلاش سے کس طرح بات کروں خدا معلوم ان کی کیا رسم و رواج تھے۔ ہتانلی کی معصومیت اور سادگی کی وجہ سے خاصا متاثر تھا پھر میں نے اس خیال کو دل سے جھٹک دیا کیونکہ مجھے تو اپنی منزل کا علم نہ تھا میں کسی دوسرے کو کیسے لے کر چل سکتا تھا پہلے تو میرا دل اس فیصلے پر تھوڑا سا لچک گیا پھر میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ میں ہتانلی سے صاف صاف کہہ دوں گا کہ میرا خیال دل سے نکال دے۔
جب وہ مجھے قہوہ دینے آئی تو میں نے اسے مخاطب کیا۔ جی اس نے پائوں کے انگوٹھے کو زمین پر رگڑتے جواب دیا۔ ہتانلی میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے کسی کام نہیں آسکوں گا ہوسکتا ہے میرے مقدر کی سیاہی تمہیں بھی داغدار نہ کردے میری دعا ہے کہ آپ لوگ سدا سکھ اور آرام سے رہیں وہ افسردہ سی میرے کمرے سے باہر نکل گئی میں قہوہ کی پیالی سے اٹھتی پ کی آڑی ترچھی لکیروں میں اپنا مقدر تلاش کر نے لگا جو مجھے دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کئے ہوئے تھا۔ ہتانلی کا رویہ مجھ سے بدل گیا جس محبت اور یکسوئی سے وہ میرا کام کرتی اب وہ اس میں اتنی دلچسپی نہ رکھتی۔ میں بھی سمجھ گیا کہ میرے کھرے جواب نے اسے کافی صدمہ پہنچایا ہے یہاں رہتے میرے اندر کا حوصلہ دوبارہ ابھر آیا تھا مجھ میں آگے بڑھنے کا عزم کچھ اور کہہ رہا تھا میں اکثر سعید کے بارے میں سوچتا کہ میرے بھاگ آنے کے بعد پتہ نہیں اس کا کیا حال کیا گیا ہو وہ لوگ بہت خوفناک تھے۔
ایک دن میں چپکے سے کیلاش کے گھر اور گائوں کو خیر آباد کہہ کر اپنے اگلے سفر پر روانہ ہو گیا وہاں رہ کر میں نے ارد گرد کے راستوںکا اچھا خاصا پتہ لگا لیا تھا۔ مجھے سفر جاری رکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہو رہی تھی ۔پتھر ڈھونے والے ٹرک خشک پہاڑوں کے درمیانی راستے پر آگے پیچھے دکھائی دیئے یہی میری منزل تھی میں نے اندازہ لگالیا تھا کہ جب تک یہ سڑک پر آئیں گے میں اونچے نیچے راستوں کو پھلانگتا سڑک پر آجائوں گا۔ میرا سانس پھول رہا تھا میں جلد از جلد سڑک پر آنا چاہتا تھاتاکہ ہاتھ دیکر ٹرک روک سکوں ٹرک کو لمبا راستہ کاٹ کر سڑک پر آنا تھا جبکہ میں اس بیشتر سڑک پر آگیا جب دور سے مجھے ٹرک آتا دکھائی دیا تو میں سڑک کے درمیان آگیا میرے اندازے کے مطابق ٹرک رک گیا میں نے ڈرائیور صاحب سے شہر جانے کی بات کی پہلے اس نے میری طرف سر سے پائوں تک دیکھا اور پھر پیچھے بیٹھ جانے کی اجازت دے دی ۔ میں نے خداکا شکر ادا کیا۔ راستے میں ایک جگہ رک کر ٹرک کے تمام عملہ نے کھانا کھایا مجھے بھی انہوںنے خدا ترسی کے حوالے سے ساتھ شریک کر لیا میں نے اپنے بارے میں من گھڑت کہانی سنا کر مطمئن کر دیا کہ میں شہر کام دھندہ کرنے جارہا ہوں۔
رات بھر سفر کیا صبح اندھیرے ہم لوگ شہر کا بڑاپل کراس کر رہے تھے بڑی عمارتیں اور آنے جانے والی اِ کا دُوکا ٹریفک نے ماحول کو بڑا خوبصورت بنا دیا تھا ایک جگہ ٹرک روک کر ڈرائیور نے مجھے نیچے اترنے کا کہا میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نیچے آگیا ٹرک کی سرخ بتیاں دور ہوتی گئیں اور میں چند پل رک کر سڑکوں کا تعین کرتا رہا پھر اسی سڑک پر آگے بڑھنے لگا جس طرف ٹرک گیا تھا۔ کئی ماہ کے بعد میں نے آزاد فضا میں سانس لی تھی اور اپنے آپ کو خاصاہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا اسی طرح میں مختلف سڑکوں کے چکر کاٹتا ہوا اسٹیشن پر پہنچ گیا شائد کوئی گاڑی آنے والی تھی اس لئے خاصی رونق نظر آرہی تھی میں نے ایک سٹال پر رک کر چائے وغیرہ کا آرڈر دیا اور اپنے زیر جامہ چھپے ہوئے پیسوں کا جائزہ لینے لگا اتنے میں ایک آدمی میرے قریب آکر رکا اور اس نے بھی چائے کا آرڈر دیا اور اس کے سامان کے ساتھ جو ہینڈ بیگ تھا اس نے سٹال کے ساتھ لگے بوتلوں کے کریٹ پر بوتلوں کے اوپر رکھ دیا اور سگریٹ سلگانے لگا وہ خاصا بے چین نظر آتا تھا چائے کے کپ ایک ساتھ سٹال والے نے ہمارے آگے رکھ دیئے۔ میں نے چائے کے ساتھ کیک پیس لیا اور کھانے کے ساتھ ساتھ پلیٹ فارم پر رکتی گاڑی کا بھی جائزہ لینے لگا وہ آدمی چائے کے بڑے بڑے گھونٹ بھر کر کپ کو خالی کرتے پیسے رکھ کر سامان سمیت بھیڑ میں گم ہو گیا میں نے کونسا کہیں جانا تھا اس لئے تسلی سے چائے پیتا رہا ۔گاڑی اپنا ٹائم پور کر کے اپنے اگلے سفر پر روانہ ہو گئی اب پلیٹ فارم بھی تقریباً پر سکون ہو رہا تھا میں نے چائے وغیرہ کے پیسے ادا کئے اور باہر جانے والے راستے کی طرف بڑھنے لگا ابھی میں تھوڑی دور گیا تھاکہ سٹال والے نے مجھے آواز دی پہلے تو میں سمجھا کسی اور کو بلا رہا ہے جب ہاتھ کے اشارہ سے اس نے مجھے بلایا تو میں واپس سٹال پر آگیا۔
’’بھائی جی آپ کا بیگ‘‘اس نے بوتلوں پر پڑے اس ہینڈ بیگ کی طرف اشارہ کیا۔
میں بری طرح چونکا کیونکہ یہ بیگ تو اس آدمی کا تھا جس نے میرے ساتھ کھڑے ہوکر چائے طلب کی تھی میں نے بغیر سوچے سمجھے وہ بیگ اٹھا لیا مگر میرا دل اس خوف سے دھڑک رہا تھا کہ وہ بیگ میرا تو نہیں اگر اس کا اصل مالک آگیا تو کیا ہوگا۔ جلدی سے میں نے شکریہ کہا اور باہر جانے والے گیٹ کی طرف بڑھنے لگا۔ میں تیزی سے بڑھ رہا تھا سڑکوں پر آمدورفت بڑھ رہی تھی مجھے کسی محفوظ مقام کی تلاش تھی جہاں رک کر میں اس بیگ کا جائزہ لے سکتا۔ وہ ایک پارک تھا جس میں لوگ گھوم پھر رہے تھے میں نے اس کا گیٹ عبور کیا اور ایک خاموش سے کونے میں پہنچ کر گھاس پر بیٹھ گیا۔
جب مجھے یقین ہو گیاکہ میری طرف کوئی بھی متوجہ نہیں تو میں نے اس بیگ کی زیپ کھینچ کر اسے کھولا اندر نظر پڑتے ہی میں بری طرح چونکا بیگ کے اندر لائن میں مگر پٹی کے اندر سونے کی کئی چوکور ڈلیاں چمک رہی تھیں میں نے اس کے دیگر خانوں کی تلاشی لی تو دو چھوٹے چھوٹے پیکٹ بھی ملے جن میں چھوٹے چھوٹے سفید موتی تھے میں نے وہ ڈلیاں گنیں جو تعداد میں بیس تھیں جن کو میں نے احتیاط سے نکال کر اپنے لباس میں چھپا لیا اور وہ دونوں پڑیاں بھی ٹھکانے لگا لیں اور پھر بیگ کو میں نے ایک گھنے پودے کی شاخوں میں چھپا دیا۔ میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا میری زندگی نے ایک دم پلٹا کھایا تھا اور میں لمحہ بھر میں لاکھ پتی ہو گیا۔ اب میرا رخ کسی محفوظ ترین پناہ گاہ کی طرف تھا جو مجھے تلاش کرنے میں زیادہ دقت پیش نہ آئی۔
وہ شہر کا ایک بہترین ہوٹل تھا جس میں مجھے کمرہ مل گیا کمرہ میں نے اندر سے بند کیا اور دوبارہ اس خدا داد خزانے کا جائزہ لینے لگا جو وہ نیک بخت انسان میرے لئے چھوڑ گیا اور خود وہ نجانے کس مصیبت میں پھنس گیا ہو گا مجھے اس سے کیا ۔بات یہ تھی کہ میں اتنا بے حس ہو چکا تھا کہ اپنے سوا سوچنے کی اور کوئی فرصت نہ تھی۔ سونا وغیرہ میرے لباس کے اندر چھپا ہوا تھا کوئی میرے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں غیر قانونی طور پر سامان ساتھ ساتھ اٹھا ئے پھرتا ہوں اب اس سامان کو ٹھکانے لگانا ایک مسئلہ تھا میں نے ایک ڈلی نکال کر جیب میں ڈالی اور کمرہ لاک کر تے ہوئے سنار بازار کی طرف چل پڑا۔مختلف دکانوں کا جائزہ لیتا ہوا ایک بڑی دکان کے اندر داخل ہو گیا کائونٹر پر بیٹھا ہوا آدمی مجھے معقول نظر آیا میں نے اس کی خوش اخلاقی کے پیش نظر اندازہ لگا لیا کہ یہ آدمی سونا خریدنے میں میرا معاون ثابت ہو گالہٰذا میں نے بے دھڑک وہ چوکور ڈلی نکال کر کائونٹر پر رکھ دی اس نے اٹھا کر اس کا جائزہ لیا اور سر ہلاتا اپنے پیچھے بنے ہوئے دروازے کے اندر چلا گیا چند پل انتظار کے بعد وہ بولا آپ اندر جائیں اس نے کائونٹر کے ایک سائیڈ لگا تختہ ہٹاتے ہوئے مجھے اندر آنے کو کہا میں اٹھ کر اس کے پیچھے اس دروازے کو عبور کر کے ایک کمرے میں پہنچ گیا جہاں ایک کرسی پر موٹا سا آدمی بیٹھا تھا اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ ڈلی کو ہاتھ میں لئے اس کا بغور جائزہ لے رہا تھا ۔’’تم جائو اور چائے وغیرہ بھیج دو کوئی فون آئے تو خود ہی بات کر لینا‘‘جی بہتر وہ آدمی باہر نکل گیا۔
اس نے مجھ سے پوچھا کیا آپ باہر سے تشریف لائیں ہیں ۔نہیں اندر یہ سے آیا ہوں میںنے جیب سے موتی والی پڑیا نکالتے جواب دیا۔ موتی دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اچھا اچھا ٹھیک ہے آپ مال کی بات کریں نا میں نے سمجھا کہ ایک ہی ڈلی ہے نہیں بیس کے قریب ہیں میں نے بتایا۔ میں پانچ فیصد پر کام کرتا ہوں ایک دم ذمہ داری پر اس نے فون اٹھایا اور کہیں نمبر ڈائل کرنے لگا پھر وہ سونے اور موتیوں کی بات کرتارہا اتنے میں چائے آگئی میں نے کپ اٹھالیا اور چائے پینے لگا۔کہاں ٹھہرے ہیں ؟۔ آپ یہ بتائیں کہ مال کہاں لے کر آنا ہے ۔ادھر میرے پاس ،آپ ریٹ کا فکر نہ کریں مارکیٹ میں ایک پیسے کا فرق نکلا تو دو پیسے دوں گا۔ ٹھیک ہے یہ آپ رکھیں اور میں جاتا ہوں یہ کہہ کر میں دوکان سے نکل آیا۔ ہوٹل آکر میں نے سونا اورموتی نکالے اور احتیاط سے ان کو سنبھالتا ہوا دکان کی طرف چل دیا وہاں پہنچ کر میں نے بقایا موتی اور ڈلیاں اس سنار کے سپرد کر دیں اور اگلے اقدام کی تیاری میں بیٹھ گیا میں نے خود کو یوں ظاہر کر رکھا تھا جیسے میرا یہ پرانا کاروبار ہو۔
سنارنے موتی اور سونا اچھی طرح پرکھ کر ان کی تعداد اور وزن نوٹ کیا اور مجھے بیٹھنے کا کہہ کر وہ دکان سے نکل گیا۔ مجھے کافی دیر انتظار کرنا پڑا دل گھبرا بھی رہا تھا مگر میں اپنے آپ کو ہر طرح سے تیار کئے بیٹھا تھا اس نے آتے معذرت کی اور کہا کہ رقم نہ ملنے میں دیر ہوگئی تھی پھر اس نے اپنی اندرونی جیبوں سے بڑے بڑے نوٹو ں کی کئی گڈیاں نکال نکال کر میرے سامنے رکھنا شروع کر دیں۔
’’گِن لیں تیس لاکھ چالیس ہزار روپے ہیں یہ رہی پرچی اس پر سونے اور موتی کی فروخت کا ریٹ ہے یہ رہا میرا کمیشن یہ ادا کردیں۔‘‘
اس نے دونوں پرچیاں میرے آگے رکھ دیں میں نے اس کی کمیشن والی پرچی پر درج رقم گن کر اس کے سپرد کر دی اور بقایا گن کر اپنے لباس میں رکھ لی اور اجازت لے کر دکان سے باہر آگیا۔
میرے وجود میں رقم کا بوجھ عجیب لطیف احساس تھا۔ ہوٹل پہنچ کر میں نے کائونٹر پر ہوٹل کا حساب چکایا اور اپنا تھوڑا بہت سامان سمیٹ کر ہوٹل چھوڑدیا۔ میں جلد یہ شہر چھوڑ دینا چاہتا تھا اسٹیشن جانے سے میں گریز کر رہا تھا اس لئے بس میں سوار ہوگیا ،دن رات کے تھکادینے والے سفر کو خیر آباد کہتے ہوئے میں بس میں سے نیچے اترآیا۔ لاہور کی خوبصورتی تو سن رکھی تھی مگر اپنی آنکھوں سے پہلی بار دیکھ رہا تھا ویسے بھی پنجاب کی ہوا سے جنم لیا تھا اس لئے اس کی مہک کا نشہ ہی اور تھا ۔سارا دن میں نے گھوم پھر کر گزارا اصل میں میرے دل کی بات کچھ اور تھی میں ایسے کسی شخص سے ملنا چاہتا تھا جو میری مشکل آسان کر دیتا میں اچھی ساخت کا ایک ریوالور چاہتا تھا جس ہوٹل میں رہنے کا میں نے بندوبست کیا تھا وہ اسٹیشن کے قریب ایک درمیانے درجہ کا تھا ایسے ہوٹل میں نقصان کے کم چانس ہوتے ہیں اس لئے میں لاکھوں کی رقم رکھتے بھی لا پرواہ بنا ہوا تھا ہوٹل کے بیرے کو میں یار بنا لیا تھا اس سے میں نے ریوالور کی بات کر دی پہلے تو کترایا جب میں نے اسے لالچ دیا تو اس نے وعدہ کر لیا کہ میں کوشش کروں گا میرا ایک جاننے والا قلی ہے اسٹیشن پر شائد وہ اس بارے میں کوئی مدد کر سکے۔
شام کو وہ میرے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ کام بن جائیگا مگر دوہزار روپے سے کم ایک پیسہ بھی وہ قبول نہیں کریگاسپیشل کوالٹی ہوگی میں نے خریدنے کی حامی بھر لی ۔ رات کو وہ میرے ساتھ گیا اور اسٹیشن پر رکے ڈبوں میں میری ملاقات اس نے ایک ادھیڑ عمر قلی سے کروائی جس نے اپنے نیفے میں چھپا ریوالور نکال کر مجھے دکھایا۔ ریوالور واقعی کسی اچھے کاریگر کا بنا ہوا تھا میں نے اچھی طرح تسلی کر لینے کے بعد قلی کورقم ادا کر دی اور ریوالور اپنے قبضہ میں کر کے بیرے کے ساتھ واپس ہوٹل آگیا۔ بیرے کو بھی میں نے معقول انعام دے کر ریوالور اس کے حوالے کر دیا کہ جب میں جائوں گا تو لیتا جائوں گا۔ اب ریوالور اور گولیاں میرے پاس تھیں اور میرے اندر انتقام کی آگ نے شدت اختیار کر لی ۔
جمال اور اس کے ساتھیوں کی مکروہ شکلیں میری آنکھوں کے سامنے ناچ رہی تھیں۔ میں نے اپنے گھر والوں اور سعید کے گھر والوں کے لئے ڈھیر ساری چیزیں خریدیں اور ایک رات چپکے سے سامان اور ریوالور وغیرہ لے کر ہوٹل کو چھوڑ دیا۔
میرے اندر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی یاد نے زور پکڑ لیا تھا میں جلد از جلد اپنے گائوں پہنچ جانا چاہتا تھا اس لئے میں نے ٹرین کا ٹکٹ لیا اور بیٹھ گیا اسٹیشن پر اترنے والے چند لوگوں میں میں بھی شامل تھا ابھی دن نکلنے میں دو گھنٹے باقی تھے اس لئے میں نے سامان مسافر خانے کے ایک کونے میں رکھا اور چائے کی پیالی کے لئے ادھر اُدھر دیکھنے لگا مگر مجھے کوئی بھی جگہ ایسی نظر نہ آئی جہاں سے مجھے چائے مل جاتی میں سامان کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ سامان سے ہر آنے جانے والے کو یوں لگتا جیسے میں کسی باہر کے ملک سے آیا ہوں دو گھنٹے گزارنے میرے لئے مشکل ہو رہے تھے۔ اتنی ڈھیر ساری رقم اور سامان کی موجودگی میں مجھے نیند بھی نہیں آرہی تھی پہلی اذان کے ساتھ اسٹیشن پر رونق سی ہونے لگی میں بھی اٹھ کربیٹھ گیا کیونکہ ایک آدھ تانگے والا اسٹیشن کے باہر آرکا تھا میںنے داخلی سکھ پورجانے کیلئے کوچوان سے بات کی وہ چلنے پر آمادہ ہو گیا میں نے منہ مانگا کرایہ دینے کا وعدہ کر کے اسے سامان تانگہ میں رکھنے کا کہا وہ میرا سامان اٹھا اٹھا کر تانگے میں رکھنے لگا جب سامان وغیرہ اس نے رکھ لیا تو تسلی کرنے کے بعد مجھے اس نے سوار ہونے کا کہا میں بیٹھ گیا۔ تانگہ اسٹیشن والی سڑک چھوڑ کر تاروں کی چھائوں تلے داخلی سکھ پور کو جانے والی سڑک پر آگے بڑھنے لگا۔
میرا دل انجانے جذبوں سے موجزن تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔گھوڑا تیزی سے گائوں کی طرف بھاگا جا رہا تھا تانگے والے کو میں نے راستہ میں بتایا کہ گھر تک لے آیا۔
مجھے دیکھ کر گائوں والے میرے گرد اکٹھے ہوگئے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاکر میرے آنے کی خبر دی ۔میرے گھر والے خوشی سے دیوانے ہوکر دوڑے اتنی لمبی مدت کے بعد میں ان کو مل رہا تھا میرے ضبط کے سارے بند ٹوٹ گئے میں اپنے گھر والوں کو باری باری ملا پھر سامان اٹھا کر تانگے والے کو فارغ کر دیا اندر پہنچ کر سب سے پہلے میں نے یہ سوال کیا کہ پیر سائیں ہے یہاں ؟تو میرے والد صاحب نے کہا کہ بیٹا پہلے آرام کر لوپھر میں بتاتا ہوں۔میں بے آرام تو تھا ہی میںنے تھوڑی دیر سونے میں بھلا جانااور کمرے میں آکر سو گیا۔
شام کے سائے ڈھل رہے تھے کہ میرے کانوں نے اپنے والد کی آوازسنی اور میں جاگ گیا۔ چھوٹی بہن دودھ کا گرم پیالہ لے کر آگئی اور چارپائی پر میرے قریب ہی بیٹھ گئی مگر میرے والد نے اسے جانے کا اشارہ کیا اور وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ بیٹا تم نے پیر سائیں کا پوچھا تھاوہ بدبخت گائوں کی لڑکی کو بھگا کر لے گیا ہے سنا ہے کہ آجکل وہ ڈھاری سدھار کا میں رہ رہا ہے اور وہاں کا ایک نامی گرامی بدمعاش اس کو پناہ دیئے ہوئے ہے بہت کوشش کی لڑکی کے گھر والوں نے کہ وہ بازو واپس کر دے مگر وہ بے غیرت اپنے ساتھیوں اور اس بدمعاش وارث مسیح کے بل پر کوئی پلہ نہیں پکڑا رہا ۔اپنے والد کے منہ سے یہ بات سن کر میرا خون جوش مار کر رہ گیا۔ مجھے اپنا دکھ تو تھا ہی اوپر سے گائوں کی عزت کا بھی خیال دل میں بیٹھ گیا اور میں نے اپنے والد پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں اپنے دل میںکیا فیصلہ کر بیٹھا تھا جمال کو سبق دینے کا۔رات گئے تک جہاں گھروالوں کے ساتھ ہنسی خوشی میں گم رہا مگر اندر سے جلد از جلد اس کم بخت تک پہنچنا چاہتا تھا ۔
صبح اٹھ کر میں دوستو ں کو ملا جو سامان میں سعید کے گھر والوں کیلئے لایا تھا وہ ان کے سپرد کر دیا اور خود سعید کو واپس لانے کی تدبیریں ترتیب دینے لگا۔ پولیس وہاں مداخلت نہیں کر سکتی تھی نہ میںوہاں پہنچ سکتا تھا ۔سعید کو واپس لانا بھی ضروری تھا وہ خود میں اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ وہاں سے فرار ہو سکتا کیونکہ میرے فرار نے بڑے خان کو خاصاہوشیار کر دیا ہوگا۔ پھرمیں گھر آگیا ،اپنے اندر بنائے پروگرام کے مطابق میں شام کو ڈھاری سدھارکا جانا چاہتا تھا جو ہمارے گائوں سے تقریباً گھنٹہ بھر کا راستہ تھا۔ دن کا اجالا اندھیرے کی جانب محو سفر تھا میں نے پستول اور گولیاں سنبھالتے گھر پر پڑا سائیکل اٹھا یا اور بغیر کسی کو بتائے جمال کی طرف چل پڑا۔
سائیکل چلانے کا میں ماسٹر مانا جاتا تھا اسی لئے دن کی روشنی میں ہی ڈھاری کے قریب پہنچ گیا ۔ایک دوکان سے وارث مسیح کے گھر کا پتہ چل گیا اور میں وہاں پہنچ گیا ۔گھر کافی بڑا تھا اور وارث کی دھاک کا بھی پتہ چل گیا کہ وہ واقعی نامی گرامی بدمعاش ہوگا۔
دستک دینے پر باہر آنیوالا فضل تھا جو مجھ پر نظر پڑتے ہی سکتہ میں آ گیا میں نے اپنے اندر کی نفرت کنٹرول کر تے ہنس کر اس سے ہاتھ ملایا اور بابا سائیں کا پوچھا ۔ آجائو کہتا ہوا وہ مجھے ساتھ لے کر اندر کی جانب چل پڑا۔ گھر کے ایک سائیڈ پر دو تین کمرے الگ سے بنے ہوئے تھے کمروں کے آگے برآمدہ سا بنا ہوا تھا جہاں چارپائیاں اور کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کر تے اس نے آواز دے کر جمال کو بلایا ۔جب وہ کمرے سے باہر آیا تو اس کا بھی منہ حیرت سے کھلا رہ گیا ارے آئو راجہ تم کب آئے ۔ بس آہی گیا ہوں تمہاری دعا سے میں نے سر سے پائوں تک اس کا جائزہ لیتے جواب دیا۔ فضل رضیہ سے چائے بنانے کا کہنا ۔فضل اندر کمرے میں چلا گیا ۔جمال میں تم سے لڑکی واپس کرنے کی عرض لیکر آیا ہوں۔ کون لڑکی؟ وہ ہی جس کو تم بھگا کر لائے ہو۔ وہ تمہاری کچھ لگتی ہے جس کا تمہیں اتنا فکر ہے۔میرے گائوں کی عزت ہے وہ ۔ اب وہ میری عزت ہے اور میرے بچے کی ماں بننے والی ہے جمال نے شیطانی مسکراہٹ میں مجھے جواب دیا۔جمال بہتری اسی میں ہے کہ تم لڑکی واپس کر دو ۔اگر نہ کروں تو کیا کرو گے تم جمال کے چہرے پر ہنسی کے آثار ابھر آئے۔ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔تو کب کرو گے پھر سب کچھ۔ جمال مجھے مجبور مت کرو۔ جائو جائو اپنا کام کرو بڑا آیا لڑکی واپس لے جانے والا اس نے اٹھتے ہوئے حقارت سے کہا۔ میرے اندر نہ جانے کہاں سے اتنی جرأت آگئی کہ میں نے جھٹ سے پستول نکالا اور پہ در پہ دو فائر کر دیئے۔ ایک اس کے ماتھے پر اور دوسرا سینے میں اتر گیا۔ ۔فائر کی آواز سن کر فضل اندر سے بھاگا وہ کچھ سمجھتا مگر میرے ریوالور سے نکلنے والے فائر نے اسے بھی زمین بوس کر دیا۔ فائرنگ کی آواز پر ڈھاری کے لوگ نکل آئے مگر کسی کی جرأت نہ پڑی میرے قریب آنے کی ۔دونوں کی لاشیں تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو چکی تھیں۔ میں نے آواز دے کر اندر سے اس لڑکی جس کا نام رضیہ تھا کو باہر بلایا اور ریوالور لہراتا ہوا سب لوگوں کے درمیان سے اسے سائیکل پر پیچھے بٹھا کر ڈھاری سے باہر جانے والے راستے کی طرف چل پڑا۔
پولیس آئی اور مجھے دو قتل کرنے کے جرم میں پکڑ لیا۔اب جیل کی زندگی گزار رہا ہوں راجہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خاموش ہو گیا۔

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles