20 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

گمراہ

تحریر، جاوید راہی

یہ جو تم ہر وقت نوکری کے خواب دیکھنے میں مصروف رہتے ہو نا یہ درست نہیں‘‘میں نے چائے بناتے ہوئے اسے درخواست لکھتے دیکھ کر ٹوکا۔
’’امجد میں نے جس مشکل حالات میں بی اے کیا ہے وہ تمہارے سامنے ہے نوکری کر کے اپنے گھر والوں کا بوجھ بانٹنا چاہتا ہوں، چاہے آٹھ نو سو روپے کی کلرکی کیوںنہ کرنی پڑے‘‘ناصر نے کپ پکڑتے بڑے مضبوط ارادے سے مجھے جواب دیا۔
ناصر میرا بہت گہرا دوست تھا بڑا ملن ساز، وقت پر کام آنیوالا میں اس کے سارے حالات جانتا تھا باپ ایک پرائیوٹ فرم میں ایجنٹ تھا،تین جوان بہنیں دو چھوٹے بھائی جو ابھی تک زیر تعلیم تھے اوپر سے ناصر کا اپنا بھی بوجھ ابھی تک باپ کے بوڑھے کندھوں پر تھا ۔ چائے کا بل حسب روایت میں نے ہی ادا کیا ۔میں اپنے آفس اور ناصر نوکری کی تلاش میں روانہ ہو گیا ناصر ہفتہ میں ایک دو بارمجھے ضرور ملتا۔ جب بھی ملتا نوکری کا ہی رونا روتا میں نے اسے پروف ریڈر کی آسامی پر کام کرنے کی پیشکش کی تھی مگر اس نے یہی کہہ کر معذوری ظاہر کی کہ مسلسل ایک جگہ نظر نہیں لگاسکتا آنکھوں میں سے پانی بہنے لگتا ہے۔
گھر آتے ہی سب سے پہلا پیغام جو گڑیا نے دیا وہ ناصر کا تھا کہ شام کو وہ گھر آئے گا اور انتظار کرنے کا پابند کر گیاتھا میں نے ایک دوکام کرنے تھے مگر ناصرکے انتظارکرنے کا سن کر دوسرے روز پر رکھ دیئے ۔شام کو ناصر آیا اور آتے ہی پہلے کھانے کا کہا اور پھر شروع ہو گیا۔’’یار امجد دفتر اس لئے نہیں آیا وہاں تم توجہ سے بات نہیں سنتے ایک کام ہاتھ آیا ہے مگر تمہاری مدد کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا‘‘!۔ بیگم نے کھانا گڑیا کے ہاتھ بھجوادیا ناصر کھانے کے ساتھ ساتھ مجھ سے باتیں بھی کرتا جاتا۔
’’امجد اگر دس ایکڑ کا انتقال حاجی ارشد کے نام ہوجائے تو وہ اسے ٹائون بنا دے گا مجھے نوکر ی کے ساتھ ساتھ دس مرلے کا پلاٹ بھی مل جائیگا۔‘‘
’’مجھے کرنا کیا ہوگا؟‘‘میں نے گڑیا کے ہاتھ سے چائے کے برتن پکڑتے ہوئے ناصر سے دریافت کہا۔
’’بس حاجی ارشد کے نام زمین کا انتقال اس نے باقی سارا کام کروا رکھا ہے تحصیلدار سے مل کر پٹواری سے انتقال کروانا ہے پٹواری بات ہی نہیں سنتا۔‘‘
’’اچھا تم صبح حاجی ارشد صاحب کو ساتھ لے آنا میں دفتر سے تمہارے ساتھ چلوں گا۔ اگر کام سیدھا ہوا تو ضرور ہو جائیگا‘‘
دوسرے روز ناصر اور حاجی ارشد صاحب دفتر آئے اس کے پاس تمام کاغذات مکمل تھے میری تھوڑی سی کوشش سے انتقال اس کے نام ہو گیا ۔زمین شہر کی حدود میں تھی اس لئے بلدیہ سے نقشہ پاس کروانے تک ناصر میرے دفتر آتا رہا پھر اس کا آنا جانا اچانک کم ہو گیا میں نے بھی کوئی خاص توجہ نہ دی۔
میں دفتر سے چھٹی کر کے بس کے انتظار میں کھڑا تھا کہ اچانک ایک گاڑی کے رکنے پر چونکا، اسٹیرنگ پر ناصر بیٹھا مسکرا رہا تھا اسے کئی روز کے بعد سامنے پاکر مجھے خوشی ہوئی۔
’’امجد آئو‘اس کے دروازہ کھولنے پرمیں اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ ’’ناصر کہاں رہے اتنے روز‘‘؟
’’بتاتا ہوں ذرا دم تو لو‘‘ناصر نے اشارہ کھلتے ہی گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔
پھر ہم ایک اعلیٰ درجے کے ریسٹورنٹ کے کونے میں بیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ ’’وہ ٹائون تو خاصا کامیاب رہا ، حاجی ارشد نے پلاٹ بھی دیا اور جو پلاٹ میں اپنی محنت سے فروخت کرواتا اس کا دس فیصد کے حساب سے کمیشن بھی دیتا، کچھ میں رجسٹری کروانے کے حصول سے کر کرا لیتا۔ آج کل میں خود ایک پراجیکٹ پر کام کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، میرے ساتھ مرزا منور نامی ایک دوست سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ریلوے میں آڈٹ کے شعبہ میں ہیںدعا کر کامیاب ہو جائوں‘‘۔اس نے کپ میرے آگے رکھتے بتایا۔’’اور یہ گاڑی وغیرہ ‘‘میں نے چائے کا گھونٹ بھرتے پوچھا۔’’اپنی ہے ‘‘ناصر نے فخریہ انداز میں بتایا مجھے واقعی اس پر رشک آنے لگا ہم دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے پھر وہ مجھے بڑی سڑک پر اتار کر پھر ملنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔گھر آکر میں نے ناصر کے بارے میں بتایا تو بیگم لگی کوسنے مجھے اور میرے اخبار کو۔
میں خاموشی سے لباس تبدیل کرتا رہا۔ناصر نے واقعی وہ کر دکھایا تھا جس کا اس نے ارادہ کر رکھا تھا۔ اس نے منور ٹائون کی بنیاد رکھ لی تھی گو وہ جگہ شہرسے خاصی دور تھی مگر اس کی دور اندیشی نہ جانے کیا تھی جس جگہ اس نے منور ٹائون قائم کیا تھا اس کے بارے میں اشتہار دینے آیا تو بتایا کہ وہ تین ایکڑ جگہ کسی ریٹائرڈ کرنل کی تھی جس نے وہ ٹھیکہ پر دے رکھی تھی اور خود ملک سے باہر رہ رہا تھا بڑی بھاگ دوڑ کے بعد اس نے وہ تین ایکڑ زمین آسان ادائیگی کی شرط پر خرید ی پہلی قسط تین لاکھ کی تھی جو منور نے اور ناصر نے مل کر ادا کر دی اور باقی رقم ٹائون کی فروخت کے پلاٹوں کی رجسٹریاں مختار عام سے کروا کر ساتھ ساتھ دیتے رہنے کا معاہدہ کیا۔ اس نے مجھے بھی دعوت دی کہ میں بھی منور ٹائون میں دس مرلہ کاایک پلاٹ قسطوں پر اس سے لے لوں مگر میں نے انکار کر دیا۔ ناصر کام میں اتنا الجھ گیاتھا کہ اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ بالکل ختم ہو گیا میں نے بھی اسے فراموش کر دیا۔ اس نے وہ مکان بھی فروخت کر ڈالا تھا جس میں اس کا خاندان رہ رہا تھا۔ اس نے مکان فروخت کرنے کی وجہ یہ بیان کی کہ گاڑی پارک کرنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے وہ رشتہ بھی اس سے ختم ہو گیا جس کے ناطے سے وہ میرا محلے دار تھا۔
دفتر آتے ہی سب سے پہلے جس چیز پر میری نظر پڑی وہ ایک خوبصورت شادی کارڈ تھا ،کارڈکھول کر دیکھا تو خوشی ہوئی ناصر کی شادی کا پروگرام درج تھا ، ایک سائیڈ پر تمام گھروالوں کو ساتھ لانے کی تاکید لکھی تھی۔ گھر آکر میں نے بیگم کو بتایا اسے بھی ناصر کی شادی کا سن کر خوشی ہوئی مگر وہ ساتھ ہی فکر مند ہوگئی۔
’’امجدشادی میں خالی ہاتھ تو نہیں جایا جائیگا ابھی تو تم نے پچھلے روز ایڈوانس لیا تھا شیخ صاحب اب تو کسی قیمت پر بھی قبل از وقت تنخواہ نہیں دیں گے وہ مقرر وقت پرہی تنخواہ دے دیں تو بڑی بات ہے ‘‘بیگم نے کوٹ پکڑتے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’بات تو ٹھیک ہے مگر شادی میں شرکت بھی تو ضروری ہے‘‘میں نے گڑیا کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے کہا۔
اپنی تنگدستی کے پیش نظر میںواقعی ناصر کی شادی میں شرکت نہ کر سکا یوں شادی کی تاریخ گزر گئی میرے نہ آنے پر ناصر کا رد عمل جانے کیا رہا ہو گا مگر میں اس روز بہت غمگین رہا پھر یہ بات بھی پرانی ہو گئی ۔شادی کارڈ پر جو ایڈریس درج تھا وہ میں نے اتار کر اپنی ڈائری میں لکھ لیا تھا آخر میں، بیگم اور گڑیا بیٹی کے ساتھ اس ایڈریس پر پہنچ گیا جو ناصر کے شادی کارڈ پر درج تھا’’گھر تو بہت خوبصورت ہے‘‘بیگم نے ناصر کے گھر پر نظریں گھماتے ہوئے کہا۔
’’ہاں واقعی بہت پیارا گھر ہے‘‘میں نے بھی تائید کی۔
دروازہ کھولنے والا ناصر کا چھوٹا بھائی تھا ہمیں دیکھ کر وہ مسکرا دیا۔
’’ناصر گھر پر ہے؟‘‘میں نے اس کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ہاں اپنے کمرے میں ہیں‘‘اختر نے بتایا اور ہمیں ڈرائینگ روم میں بٹھا کر اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد گھر کے دیگر لوگ بھی آگئے ناصر کے والد صاحب شادی میں شریک نہ ہونے کا گلہ کر رہے تھے میں نے معقول بہانہ بنا کر ٹال دیا بیگم اور گڑیا ناصرکی والدہ اور بہنوں کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔ چائے وغیرہ آگئی مگرناصر آیا اور نہ ہی دلہن، میںنے دبی آواز میں ناصر کا پھر پوچھا تو منی نے بتایا کہ بھائی جان تو سوئے ہوئے ہیں اور بھابھی سوئیٹر بنا رہی ہے میں نے بتایا تھا آپ لوگوں کا انہوںنے اٹھانے سے منع کر دیا اور کہا کہ انہیں کہنا کہ پھر کسی روز آجائیں۔
میرے دل پر ایک چوٹ سی لگی تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد ہم دلہن کا اور ناصر کا سوٹ پیس اور حسبِ توفیق کچھ روپے دے کر واپس آگئے۔ تمام راستے بیگم گم سم رہی اس بات کا میرے دل پر بہت بڑا اثر ہوا کیونکہ ناصر نے دوسرے روز کیا کئی روز تک فون نہ کیاجس کا مطلب صاف ظاہر تھا کہ وہ ہم سے ملنا پسند نہیں کرتا۔ میں روز مرہ کے کاموں میں ایسا الجھا کہ مجھے کچھ یاد نہ رہا نہ کبھی بیگم نے ناصر کا ذکر کیا۔
میں ڈاک دیکھ رہا تھا کہ راولپنڈی کے نامہ نگار کی بھیجی ہوئی خبر پڑھ کر بری طرح چونکا شائد میں اس خبر کو روٹین کی خبروں میں شامل کر تا مگر خبر کی تفصیل سے پتہ چلتا تھا کہ خبر ناصر کی ہی ہے اس نے اپنی بیوی کو تیز دھار آلے کی مدد سے قتل کر ڈالا تھا اور روپوش ہو گیا تھا۔ پولیس اس کی تلاش میں تھی وہ راولپنڈی کب گیا اس کا مجھے کوئی نہ علم نہ تھا۔ میرے دل کے کسی کونے میں اس کیلئے ہمدردی کی کرن پھر جاگ اٹھی ۔ سارا دن میں اس کیلئے پریشان رہا دفتر سے فارغ ہوکر میں گھر جانے کی بجائے اس کے گھر کی طرف چل پڑا جہاں وہ رہتے تھے وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ تو کب کے گھر فروخت کر کے پنڈی شفٹ ہو گئے۔ میرے دل میں جو خدشہ غیر یقینی تھا وہ پکا ہو گیا کہ ناصر نے واقعی قتل کر دیا ،گھر آکر میں نے بیگم سے بات کی اس نے بھی اس بات کا کافی اثر لیا۔
کئی روز تک میں پریشان رہا ،رہ رہ کر مجھے ناصر کے قاتل ہونے کا یقین نہ آتا مگر جو ہونا تھا وہ وہ کر رہتا ہے مجھے ناصر کے ایڈریس کا علم نہ تھا ورنہ ضرور رابطہ کرتا ایک ترکیب میرے ذہن میں آئی وہ یہ کہ نامہ نگار کی وساطت سے ناصر کے کوائف منگوائے جو پنڈی میں مقیم تھا۔ اس نے تھانے سے ناصر کے بارے میں ایف آئی آر کے مطابق معلومات حاصل کر کے مجھے بجھوائیںاس سے یہ وضاحت ہوگئی کہ واقعی یہ کوئی اور ناصر نہیں، میری سوچ صحیح ثابت ہوئی جو معلومات نامہ نگار سے مجھے روانہ کی تھیں ان کی روشنی میں یہ ثابت ہو گیا کہ ناصر ہی قاتل تھا جس نے مفرور ہونے کے بعد نہ صرف گرفتاری پیش کر دی بلکہ اپنی بیوی کے قتل کا اعتراف بھی کر لیا۔نامہ نگار کی اطلاع نے میرے شک و شبہ کی مزید تصدیق کر دی تو میری پریشانی میں اور اضافہ ہو گیا۔ گھر آکر میں نے بیگم سے مشورہ کیا کہ اگر وہ اجازت دے تو میں پنڈی جاکر ناصر سے ملاقات کر لوں؟بیگم نے نیم رضامندی کا اظہار کیا۔
تنخواہ ملتے ہی میں دو روز کی چھٹی لے کر راولپنڈی روانہ ہو گیا۔جیل میں ناصر سے رسائی حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔جیلر نے جیل کی پہلی راہداری میں ملاقات کی اجازت دے دی۔
تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑا پھر بڑے آ ہنی گیٹ کا چھوٹا سا دروازہ کھلا اور نمبردار کے ہمراہ ناصر میرے سامنے کھڑا تھا مجھ پر نگاہ پڑتے ہی وہ پھیکی سی ہنسی ہنس کر مجھ سے لپٹ گیا۔جب مجھ سے جدا ہوا تو اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگے ہوئے تھے۔
آپ ادھر بینچ پر بیٹھ جائیں نمبردار نے دیوار کیساتھ رکھے بینچ کیطرف اشارہ کیا ہم دونوں وہاںجا بیٹھے ،نمبردار شائد ہماری نگرانی پر مامور تھا دور ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
’’ناصر یہ سب کیسے ہوگیا‘‘میں نے اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’امجد حالات ہی ایسے پیدا ہو چکے تھے اگر میںایسانہ کرتا تو شائد پھر میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ‘‘ ناصر نے سگریٹ سلگاکر جواب دیا۔
’’شائد تمہیں پتہ ہو ہم سب مبارک باد دینے آئے تھے لاہور والے گھر ‘‘میں نے اسے بتایا۔
’’ہاں امجد میں بہت شرمندہ ہوں اس واقعہ کیلئے دراصل میں اتنی بڑی غلطی کر بیٹھا تھا جس کا احساس مجھے شادی کے بعد ہوا۔ آپ لوگوں کے آنے کے بارے میں امی جان نے بتایا تھا۔ امجد تم تو ایک طرف مجھے اپنے گھر میں رہتے ہوئے گھر والوں سے کھل کر بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کاش میں نے اس کم ظرف اور بدکردار عورت سے شادی ہی نہ کی ہوتی‘‘ناصر نے دھواں اپنے اندر جذب کرتے ہوئے دکھ بھرے انداز میں کہا۔
’’یہ رشتہ تمہیں کیسے ملااور کیا تمہارے گھر والوں کی پسند تھی‘‘؟میں نے پوچھا۔
’’نہیں امجد،یہ میری بد قسمتی کا نتیجہ تھا میرے پارٹنر حاجی ارشد کے ایک ملنے والے دوست اظہر بٹ جو بہت اچھے اور ملن ساز شخصیت کے حامل تھے کے حوالے سے ملا مگران دونوں کا کیا قصور ہر اچھا دوست تو دوست کیلئے بہتر ہی سوچتا ہے۔ نسیم پڑھی لکھی اور خوبصورت تھی پہلے میں اسے ملا پھر سارے گھر والے ، سب نے نسیم کو پسند کر لیا نسیم راولپنڈی میں ہی ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتی تھی شادی سے قبل اس نے ملازمت ترک کرنے کا وعدہ بھی کر لیا میں مطمئن ہو گیا۔ کاروبار سیٹ ہو چکا تھا بیوی کا ملازمت کرنامجھے اچھا نہ لگا اس لئے میں نے قبل ازیں بھی بات کر لی شادی سے کچھ روز قبل اظہر بٹ اور حاجی ارشد نے مجھے دبی زبان میں کہاکہ ناصر اچھی طرح دیکھ بھال کر کے شادی کرنا کیونکہ ہم نسیم کے والدین کو صرف سلام دعا کی حد تک جانتے ہیں لیکن تمہارا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ نسیم کا جادو میرے سر پر کسی بھوت کے سایہ کی طرح سوار تھا میں نے وہ تمام خواب پورے کئے جو ایک مجھ جیسے آدمی کے ہوتے ہیں شادی کے چند روز بعد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ شادی مجھے برباد کر کے رکھ دے گی۔ نسیم کی بے دریغ فضول خرچی میرے گھر والوں کی بات بات پر بے عزتی میرے یا میرے گھر والوں کے ملنے جلنے والوں سے ایسا رویہ کہ وہ کبھی دوبارہ ہمارے گھرکا رخ نہ کریں، جب اس کا کوئی اپنا آتا تو وہ سر سے پائوں تک اس پر نچھاور ہونے کی کوشش کرتی میں اس حال میں بہت پریشان رہنے لگا جس بات نے مجھ پر زیادہ گہرا اثر چھوڑا وہ نسیم کا باس تھا سکندر،جو کسی نہ کسی بہانے راولپنڈی سے لاہور آنے جانے کے چکر میں رہتا ۔لاہور آتا اور نسیم کو نہ ملناایسے تھا جیسے وہ لاہور آیا ہی نہ ہو جس روز سکندر آتا نسیم کسی کو اپنے کمرے کے آگے سے گزرنے تک نہ دیتی اگرمیں کوئی اعتراض کرتا تو بدتمیزی پر اُتر آتی میں نے اکثر اسے نوکری چھوڑنے کا کہا مگر وہ مجھے بری طرح جھڑک دیتی۔ اس کے رویہ سے میں اتنا دل برداشتہ رہنے لگا کہ میرا کام کی طرف سے دھیان یکسر طور پر ہٹ گیا۔ میرے ساتھ کام کرنے والے سارے دوست ایک ایک کر کے مجھے چھوڑ گئے۔کچھ پیسہ میں نے مکان پر لگا دیا تھا اور کچھ شادی پر خرچ ہو گیا کام ٹھپ ہو گیا تو مجبوراً مجھے ایک دوست کی اسٹیٹ ایجنسی میں نوکری کرنا پڑی ۔اُدھر نسیم نے میراد ماغ خراب کر رکھا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ میں لاہور سے پنڈی شفٹ ہو جائوں پہلے پہل تو میں اسے ٹالتا رہا پھر آخر میںنے بھی فیصلہ کر لیا والد صاحب سے بات کی تو انہوںنے بھی یہی کہا کہ بیٹا تمہیں سکھی دیکھنے کی تمنا ہے اگر بہو کی اسی میں رضا مندی ہے تو اس مکان کو فروخت کر کے پنڈی چلے چلتے ہیںیہاں اور وہاں میں کیا فرق ہے۔ امجد ! میں نے لاہور والا مکان بھی فروخت کر دیا اور پنڈی آکر ایک چھوٹا سا مکان خریدا اور یہاںاپنی ایک اسٹیٹ ایجنسی قائم کر لی یہاںمیرے ساتھ جو پارٹنر بنا وہ بہت مدبر اور پنڈی کا معروف شخص تھا ،حسین نام ہے اس کا وہی میرے کیس کی پیروی کر رہا ہے۔ ہمارا کام چل نکلا اس کا میرے گھر آنا جانا ہو گیا۔ اس نے نسیم کو دیکھا اور بری طرح چونکا میں اس کی حالت دیکھ کر سمجھ گیا کہ حسین کا اس طرح چونکنا ضرورکوئی بات ہے۔ دو تین روز تک تو اس نے کوئی بات نہ کی۔ ہم دونوں اس کی گاڑی میں اسلام آباد سے واپس آرہے تھے کہ اس نے بات چھیڑ دی مجھے اس نے مخاطب کر کے کہا۔
’’ناصر تمہاری بیوی کا نام نسیم ہے نا اور یہ سکندر اینڈ کمپنی میں کام کرتی ہے۔‘‘
’’ہاں مگر آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں‘‘؟میں نے اندرونی پریشانی کو دباتے ہوئے جواب دیا۔
’’ناصر زیادہ باتیں میں کرنا پسند نہیں کرتا بس اتنا ہی کہوں گا کہ تم اس کو نوکری سے الگ کرنے کی کوشش کرو ہوسکتا ہے تمہاری بیوی کو یہ بات پسند نہ آئے مگر بہتری اسی بات میں ہے ‘‘یہ کہہ کر حسین نے بات ختم کر دی اور مجھے اندرونی اذیت میں مبتلا کر دیا۔
شام کو گھر آکر میں نے نسیم کو نوکری چھوڑنے کی وارننگ دی جو اس نے حسبِ توقع ہوا میں اڑا دی۔ میں آپے سے باہر ہوگیااور اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔امجد اسی روز سے ہمارے درمیان عداوت کی دیوار کھڑی ہوگئی۔نسیم نے مجھ سے ایک گھر میں رہتے ہوئے علیحدگی اختیار کر لی۔ سارے گھر والے انتہائی پریشان تھے امی سارا دن بستر پر پڑی آنسو بہاتی رہتیں۔ تمام چھوٹے بہن بھائی گھر میں سہمے ہوئے پھرتے اس سنگدل عورت نے میرے گھر کو جہنم بنا کر رکھ دیا تھا۔ میں بے بسی سے رات بھر اوندھے منہ پڑا اپنی قسمت کو کوستا، ذرا سی بات ہوتی تو وہ مجھ سے طلاق طلب کرتی۔ا س کے گھر والے اس کا پوری طرح ساتھ دیتے تھے۔ اس لئے ان سے بات کرنا بے سود تھا۔سکندر یہاں بھی آزادی کے ساتھ آتا دو ٹائم تو اس کے مقرر تھے لینے آنا اور چھوڑنے آنا جب وہ گاڑی میں بیٹھتی اور اُترتی تو دیکھنے والے لوگ ہماری طرف عجیب نظروں سے دیکھتے ،آتے جاتے مجھے یوں لگتا جیسے سارے محلہ کی نظریں میرا تعاقب کر رہی ہوں۔ میں اپنی بیوی کو راہ راست پر نہ لا سکا مجھے مکمل طور پر اپنی بیوی کے کردارکے بارے میں یقین ہو چکا تھا کہ وہ سکندر کے ساتھ مل کر گناہ کی زندگی گزاررہی ہے۔مجھ سے شادی صرف ایک دکھاوا تھی ۔کئی بار اس نے مجھے دعوت دی تھی کہ سکندر چاہتا ہے کہ تم اس سے مل کر اسٹیٹ ایجنسی قائم کر لو مگر میں اس کی چال کو خوب سمجھتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے تاکہ سکندر کو ملنے جلنے میں اسے کوئی دقت نہ رہے ۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا مگر نسیم اپنی ڈگرسے ایک انچ نہ ہٹی۔ اب اس نے زیادہ تر اپنے ماں باپ کے گھر رہنا شروع کر دیا تھا جہاں سکندر کے آنے جانے میںکوئی پابندی نہ تھی۔ رات گئے تک وہ نسیم کے ساتھ رہتا، میں گھر میں اکیلا پڑا اس کے دیئے گائو پر آنسوئوں کی مرہم لگاتا رہتا۔ سکندر میری زندگی میں اور میری بیوی کے ساتھ رہ رہا تھا اور میں بے بس تھا میرے والد اور والدہ نسیم کے گھر گئے اسے راہ راست پر لانے کیلئے تو اس نے ان بزرگ ہستیوں کا بھی کوئی خیال نہ کیااور بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا۔ امی جان تو روتی ہوئی اندر چلی گئیںمگر والد صاحب اپنے اوپر ضبط نہ کر سکے اور بے اختیار میرے سامنے رو پڑے’’بیٹا اس کو بھولنے کی کوشش کرو ،وہ ہمارے لائق نہیںرہی اب تو اس سے کنارہ کرنا ہی بہتر ہے ہمیں تو اس سے اتنی امید نہیں تھی مگر بہو نے ہماری بزرگی کا لحاظ بھی نہیں کیا اس نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ تم سے طلاق حاصل کر کے رہے گی اور وہ جو دو لاکھ روپے کی شرط ہے وہ بھی تم سے عدالت میںمقدمہ کرکے وصول کرے گی۔ ‘‘یہ بتا کر والد صاحب خاموش ہو گئے ۔ امجد میرے اندر طوفان اٹھ رہا تھامیں نے ایک فیصلہ کیا اور جیسے میرے اندرایک ٹھہرائو پیدا ہو گیا شام کو میں اٹھا اور تیار ہوکر صدر آگیا ایک سٹور پر رُک کر میں نے گوشت کاٹنے والا چھُرا خریدا اور اسے اپنے نیفے میں چھپا لیا۔ وقت گزارنے کے بہانے سیروز میں آگیا،کوئی انگریزی فلم تھی پتہ نہیںسٹوری کیا تھی بس سکرین پر مجھے نسیم اور سکندر ہی نظر آرہے تھے۔ شو ختم ہو ا تو میں ٹیکسی میں بیٹھ کر نسیم کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔میرا قیاس درست ثابت ہوا سکندر کی گاڑی مکان کے آگے کھڑی تھی میں نے ٹیکسی کچھ فاصلے پر چھوڑ دی اور پیدل ہی مکان تک آیا۔ باہروالے کمرے کے سامنے رک کر میں اندر کی آوازوں کا جائزہ لینے لگا اندر سکندر اور نسیم کی دبی دبی ہنسی کی آواز آرہی تھی۔ میرے اندر نفرت کی آندھی کروٹ لے کر بیدار ہو گئی میںنے جوش میں دروازے کو دھکا دیا تو اندر کی طرف جا پڑا مسہری پر سکندر لیٹا ہوا تھا اور نسیم اس کے پہلو میں بیٹھی خشک میوے کے دانے چُن چُن کر اس کے منہ میں ڈال رہی تھی۔ سکندر تو اٹھ کر بوکھلاہٹ میں اندر کی طرف بھاگا اور نسیم پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ چھرا میرے ہاتھ میں تھا اور میں غصہ سے بے قابو ہوکر اس پر پل پڑا پہلے وار سے اس کی گردن تن سے جداہو گئی۔ جب تک میرا غصہ حاوی رہا میں اس پر وار کرتا رہا۔ اس کے گھرمیں کہرام مچ گیا میںچھرا فضا میںلہراتا ہوا وہاں سے فرار ہو گیا۔ کئی روز تک بری امام کے آس پاس چھپا رہا پھر میں نے اپنی گرفتاری رضاکارانہ طور پر پیش کر دی۔‘‘
وہ خاموش ہو گیا ،میں اس کی سنائی ہوئی باتوں میں ایسا گم ہو ا کہ احساس ہی نہ ہوا وقت کے گزرنے کا، میںاس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے واپس آگیا۔اس کی بربادی کا مجھے انتہائی صدمہ تھا کئی سال تک ناصر کا کیس چلا اس کو پانچ سال کی سزا ہوگئی میرے اور ناصر کے درمیان ایک بار پھر سالوں کا خلا حائل ہوگیا۔
٭٭٭٭٭

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles