تحریر، جاوید راہی
ٹھائیں…ٹھائیں…ٹھائیں،سیون ایم ایم کی کرخت آواز نے رات کے سکوت کا سینہ چیر ڈالا حویلی میں یکدم بھگدڑ مچ گئی ۔ کئی کمرے روشن ہوگئے بڑے دالان کی بوگن بیلیا کی جڑ کے پاس کرم علی کی لاش تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو چکی تھی۔جب تک گائوں جاگتا وہ گھوڑے کو نہر کی بڑی کچی سڑک پر ڈال چکا تھااورسیون ایم ایم کی رائفل اس نے گلے میں ڈال کر مضبوطی سے بغل میں دبا رکھی تھی ۔میاں صاحب کے آدمی جب تک اس کا پیچھا کرتے وہ ان کی دسترس سے بہت دور نکل آیا تھا۔
کیکر کے ایک درخت کی اوٹ لے کر اس نے اپنے پیچھے کے راستے کا جائزہ لیا صرف اس کے گھوڑے کے پائوں کی دھول چاندنی رات میں اُڑ رہی تھی ۔
’’کب تک بچو کے میاں ؟‘‘اس نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگایا اور ایک دو بھرپور کش لے کر دھواں ایک طرف پھینکتے گھوڑے کو آگے بڑھا یا۔
اب اس کا رُخ ذخیرے کی طرف تھا۔ اسے ذخیرے میں بھٹکتے دوسرا سال شروع ہو چکا تھا اس کا یہ دوسرا قتل تھا۔
پہلا قتل اس نے اس وقت کیا تھا جب وہ ایک محنت کش تھا اور نوری کے پیار میں سرشار ہر وقت وہ میاں نیاز علی کے کھیتوں میں کام کرتا اور شام کو حویلی کے بڑے ڈیرے پر گر پڑتا ۔ جب نوری حویلی سے نکل کر اسے روٹی دینے آتی تو اس کے تمام دن کی تھکن پل بھر میں ہوا ہو جاتی اور وہ آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتا محبت کا سمندر لئے نوری کے استقبال کیلئے اُٹھتا اور روٹی والے برتن اس کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ۔
نوری اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں پل بھر کو دیکھتی اور یوں سمٹ جاتی جیسے چھوئی موئی کی ڈالی اور جلدی سے ڈیرے کا اندرونی دروازہ پھلانگ جاتی ۔ توکل مسکراتا ہوا روٹی کھانے میں مشغول ہو جاتا توکل کے ماں باپ کب کے مر چکے تھے وہ کئی دروازوں پر گرتا پڑتا بڑی کے حویلی کے دروازے کا ہو کر رہ گیا۔ دوسرے کئی ملازموں کے ہمراہ وہ بھی حویلی کا بے دام غلام ہو گیا۔
حویلی کا قانون باہر کے قانون سے ذرا مختلف تھا۔ یہاں نوکروں کو صرف دن کام کرنے اور رات آرام کرنے کی اجازت تھی ان کے نزدیک کوئی خوشی اور دُکھ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ سال میں دو تین بار لباس ملتا اور گائوں کے موچی سے دو بار جوتے ۔ حویلی کے اندر کام کرنے والی نوکرانیاں بڑی بی بی جی کے ماتحت تھیں کیا مجال جو بڑی بی بی جی کی مرضی کے خلاف کام ہو سکے۔ میاں صاحب کے دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی جو شہر میں پڑھ رہے تھے ۔ وہاں ان کی دوسری بیوی کے پاس رہتے جس کو چھوٹی بی بی جی کا رتبہ حاصل تھا ۔ میاں صاحب اپنے علاقے کے بااثر آدمی مانے جاتے ۔ نوری میاں صاحب کے پرانے ملازم علی محمد کی چھوٹی بیٹی تھی بڑی بیٹی اس نے ساتھ کے گائوں میں بیاہ دی تھی اور لڑکاشہر میں میاں صاحب کی کوٹھی پر رہتا۔
توکل اور نوری ایک ساتھ پروان چڑھے تھے اس لئے اندر ہی اندر ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے اکثر توکل نوری سے کہتا کہ’’ نوری میں تیرے بابا سے تیرا ہاتھ مانگ لوں مگر بڑی بی بی جی سے ڈر لگتا ہے ۔ پتہ نہیں وہ تیرے لئے کیا سوچتی ہیں۔؟‘‘
’’ میں کیا جانوں؟‘‘نوری چاروں طرف دیکھ کر دھیرے سے جواب دیتی۔
’’اچھا جائو ،کوئی دیکھ نہ لے‘‘ نوری اسے جانے کا کہتی اور تو کل ٹھنڈی سانس بھرتے دوسری طرف نکل جاتا ۔
ایک روز باتیں کرتے ہوئے کرم علی نے دیکھ لیا اور اس نے منشی کو بتایا ۔ جو میاں صاحب کیلئے کھلی آنکھیںاور کھلے کان کا درجہ رکھتا تھا۔ اس نے جھٹ یہ خبر میاں نیاز کے گوش گزار کر دی بس پھر کیا تھااندر نوری کی اور باہر توکل کی شامت آگئی۔ بڑی بی بی جی نوری کے دونوں ہاتھ چارپائی کے پائیوں کے نیچے رکھوا کر اوپر خود بیٹھ گئیں ۔ نوری کی مارے در کے چیخیں بلند ہو نے لگیں۔ کیا مجال تھی جو محمد علی زبان سے اُف بھی کرتا اس کی بیٹی کے ساتھ اس کی موجودگی میں وحشیانہ سلوک کیا جا رہا تھا مگر وہ بے بس تھا وہ حویلی کے قانون کو بخوبی جانتا تھا ۔
اُدھر ڈیرے پر توکل کو چار پائی سے باندھ کر اس کی پیٹھ پر لاٹھیاں بر سائی جا رہی تھیں۔ میاںصاحب تخت پوش پر حقے کی نلی منہ میں لئے اس کی چیخوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب اپنے دل کی حسرت نکال چکے تو اسے آزاد کرنے کا اشارہ کیا پھر حکم ملا کہ آج سے تیر ا حویلی میں آنا جانا بند تو صرف ڈھاری پر رہے گا اور مال ڈنگر کی رکھوالی کرے گا، دودھ دوہے گا اور گوبر سنبھالے گا۔ نوری اس کی آنکھوں سے دور ہو گئی وہ تڑپ کر رہ گیا منشی اور کرملی پر اسے قہر کا غصہ تھا مگر بے بس تھا۔
کبھی کبھار ملک تصدیق کے آدمی میاں نیاز علی کا ڈھور دنگر چوری کر کے لے جاتے پھر میدان لگتا دونوں طرف خوب رسہ کشی ہوتی یہ سلسلہ دونوں طرف سے چلا آرہا تھا۔ توکل کو ڈھاری پر آئے کئی ماہ گزر چکے تھے، اگر توکل کانوری بِنابُرا حال تھا تو نوری بھی اس کیلئے پریشان تھی مگر دونوں بے بس تھے۔
ایک رات وہ ڈھاری پر اکیلا ہی تھا سجوار کسی کام کی غرض سے شہر گیا ہوا تھا ۔ گرمی کی راتیں بڑی جان لیوا ہوتی ہیں مچھروں نے اسے تنگ کر رکھا تھا اس نے مال سے ذرا ہٹ کر چار پائی ڈالی ہوئی تھی اور قریب ہی دھواں کر رکھا تھا تا کہ مچھر دور رہیں ۔ ابھی اسے لیٹے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ کتے نے زور زور سے بھونکنا شروع کر دیا وہ تیزی سے اُٹھ گیا مگر چند قدم دور آٹھ نو آدمیوں کو دیکھ کر وہیں ٹھٹھک گیا وہ آدمی اسلحہ سے لیس منہ پر کپڑے باندھے ہوئے تھے دو آدمی اس کے قریب آگئے۔
’’اگر آواز نکالی تو بھون کر رکھ دیں گے۔‘‘
وہ سہم گیا مگر جلدی سنبھل کر اس نے حالات کا جائزہ لیا اور فوری فیصلہ کرتے ہوئے اس نے اس کو مخاطب کیا ’’اگر تم ملک صاحب کے آدمی ہو تو میں خود یہ مال تمہارے ساتھ لے جانے کو تیار ہوں ورنہ جان دے دوں گا مگر تم ڈنگر میری زندگی میں نہیں کھول سکتے۔‘‘
’’تم ملک صاحب کے پاس کیوں جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’اس لئے کہ میں پناہ چاہتا ہوں‘‘ توکل نے نفرت بھرے لہجے میں کہا ۔
انہوں نے چند پل آپس میں مشورہ کیا اور اسے ساتھ لے جانے پر رضا مند ہو گئے۔ ساری ڈھاری کا مال اکٹھا کرکے ایک انتہائی خوفناک فیصلہ کرتے وہ ان کے ہمراہ چل پڑا ۔ اس کے دل میں نیاز علی کیلئے جو نفرت کا طوفان دبا ہوا تھا اسے صرف ملک تصدیق کی پناہ میں ہی رہ کر پورا کیا جاسکتا تھا۔
دوسرے روز جب اسے ملک صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے ساری داستان کہہ سنائی لوہا گرم دیکھ کر ملک تصدیق نے چوٹ لگائی
’’توکل! فکر مت کر و تیرا اور میرا ایک ہی دشمن ہے جلد نمٹا لیں گے تم ابھی کچھ روز آرام کرو۔ جائو رفیق اسے ذخیرہ میں لے جائو باقی میں سنبھال لوں گا اور مال بارڈر پار بھجوا دو‘‘۔
’’بہتر ملک صاحب !‘‘رفیق نامی آدمی نے احترام سے جواب دیا ور توکل کو ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔
تقریباً ایک ماہ کے عرصہ میں توکل ہر ٹریننگ میں ماہر ہو گیا اس دوران وہ ملک کے آدمیوں کے ہمراہ دو تین بار چوری چکاری بھی کرنے گیا وہ سارے گُر سیکھ چکا تھا۔ ملک تصدیق نے ایک روز اسے بلابھیجا ۔ وہ دوسری بار ملک صاحب کے پاس کھڑا تھا
’’جی ملک صاحب! ‘‘توکل نے نظر یں جھکا تے پوچھا۔
’’اپنا انتقام یاد ہے یا بھول چکے ہو؟‘‘
’’ملک صاحب یہ کوئی بھولنے والی بات ہے جس نے ساری عمر کی خدمت کا یہ صلہ دیا ہو ،اسے کیسا بھولنا؟‘‘توکل کے لہجے میں سارے جہان کی نفرت اُبھر آئی۔
’’تو ٹھیک ہے آج رات تیار رہنا تم دو آدمی اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو مگر واپس آئو تو تمہارے ہاتھوں سے لہو کی بو آنی چاہئے ۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ بُزدل اور ناکام آدمی مجھے پسند نہیں۔‘‘
’’ایسا ہی ہوگا ملک صاحب!‘‘
’’اب تم جا سکتے ہو‘‘۔
توکل نے اس سے بیشتر چوری چکاری میں تو ملک صاحب کے آدمیوں کا ساتھ دیا تھا مگر جس کام کیلئے وہ جانے ولاا تھا اس کا تجربہ اس کیلئے نئی بات تھی اس کے اندر ایک طرح کا خوف سا اُٹھ رہا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنے بھروسے کے دو آدمی ساتھ لئے گھوڑے کو میاں نیاز علی کے گائوں کی طرف کر دیا ۔اسے معلوم تھا کہ رات دس گیارہ بجے تک میاں ڈیرے میں ہی لوگوں کے ساتھ بیٹھا رہتا تھا اس کے بعد وہ حویلی کے بڑے دالان والے دروازے سے گزر کر اندر چلا جاتا تھا۔ توکل نے ڈیرے کی پچھلی دیوار کا انتخاب کیا تھا وہ اس لئے کھیتوں کے راستے ڈیرے کی طرف بڑھ رہا تھا دونوںآدمی اس نے پیچھے ہی چھوڑ دئیے اور خود رینگتا ہوا ڈیرہ کی عقبی دیوار تک پہنچ گیا ۔ رائفل اس نے دیوار کے اوپر رکھی اور بغیر آواز پیدا کئے اندر کود گیا۔
دیوار کے اندر لگی کارڈینا کی باڑ کی اوٹ لیتا ہوا رائفل کو مضبوطی سے تھامے اس طرف بڑھنے لگا جہاں میاں نیاز علی بیٹھا نظر آرہا تھا ۔اس وقت میاں صاحب کے پاس تین چار نوکروں کے علاوہ گائوں کے کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ منشی میاں صاحب کی ہی چار پائی پر بیٹھا شائد اخبار پڑھ کر سنا رہا تھا ۔ فاصلہ کم کر کے توکل نے پوزیشن درست کی اور رائفل کا منہ میاں نیاز علی کے سر کی طرف کر کے لبلبی دبا دی۔
’’ٹھائیں‘‘ کی خوفناک آواز کے ساتھ ایک شور پڑ گیا اس نے اندھا دھند کئی فائر کئے اور دیکھے بغیر کہ کون مرا ہے بھاگ کر دیوار پھلانگ کر کھیتوں کی طرف بھاگنے لگا۔ جب تک میاں صاحب کے آدمی اسلحہ وغیرہ لاتے وہ تینوں گھوڑے دوڑاتے گائوں کو پیچھے چھوڑ آئے۔ میاں نیاز علی تو بچ مگر منشی پہلی گولی لگتے ہی ڈھیر ہو گیا۔
دوسرے روز ملک صاحب نے اسے بلاکر بتایا کہ’’ تمہارا نشانہ خطا گیا بہر حال تمہاری گولی نے منشی کا کام تمام کر دیا ہے یہ بھی تمہاری کامیابی ہے ۔ اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا نشانہ بھی درست کرو کیونکہ اب تم قاتل بن چکے ہو ۔ اکثر پولیس تمہارے پیچھے رہے گی اور ہو سکتا ہے تمہیں اپنی حفاظت کیلئے پولیس سے مقابلہ بھی کرنا پڑے اس لئے تمہارا نشانہ سچا ہو نا ضروری ہے جائو اور خوب پریکٹس کرو ،بارود کی تمہیں کوئی کمی نہیں‘‘۔ملک صاحب نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
’’بہتر ملک صاحب !‘‘توکل نے جھک کر شکریہ ادا کیا اور واپس ذخیرہ میں آگیا اپنے دو ساتھیوں کے پاس۔
توکل دن بہ دن ملک صاحب کے قریب ہو تا گیا ۔ ملک صاحب ا س پر ہر طرح کا بھروسہ کرنے لگے ۔ ڈپٹی کمشنر گوگیرہ مٹر برکلے بڑھتی ہوئی وارداتوں کے ہاتھوں بڑا پریشان تھا مگر ہزار کوشش کے باوجود اسے گرفتار نہ کروا سکا۔ میاں نیاز علی توکل کے خوف سے ڈیرہ پر کم ہی بیٹھتا تھا جب ہاہر نکلتا تو اپنے ساتھ اسلحہ سے لیس آدمی رکھتا۔ منشی کا پرچہ توکل کے خلاف درج کر لیاگیا۔ میاں کوشش کے باوجود ملک تصدیق کو اس قتل میں ملو نہ کر سکا۔
اِدھر نوری کی شامت آئی رہتی بڑی بی بی جی نے اس کا جینا حرام کر رکھا تھاہر وقت طعنہ زنی کر تی رہتی کہ یہ سب کچھ تیرے پیروں سے اُٹھا ہے نہ تو اس حرام خور سے رابطہ بڑھاتی اور نہ یہ دن دیکھنے نصیب ہوتے۔نوری دل میں کڑھتی رہتی مگر زبان پر حرف شکایت نہ لاتی۔ اُدھر توکل ہر رشتے سے بے نیاز ہو چکا تھا وقت نے اس کے ماتھے پر گہری ناکامیوں کی داستان رقم کر دی اس کے دل میں صرف میاں نیاز علی کے قتل کی خواہش تڑپتی رہتی جس کو پوار کرنے کیلئے و ہ آج بھی حویلی آیا اور مداخلت کرنے اس نے کرم علی کو بھون ڈالا ۔
کرم علی میاںنیاز علی کا باڈی گارڈ تھا جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ۔ بڑے دالان میں اس کی چار پائی تھی جو عین میاں صاحب کے کمرے کے آگے تھی۔ توکل آگے بڑھتا مگر وہ جاگ گیا اس سے پہلے کہ وہ اپنی بندوق پکڑتا توکل نے چیتے کی سی پھرتی سے اوپر تلے فائر کر کے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیااور اس بار بھی وہ صاف بچ نکلا۔
ذخیرہ پہنچ کر وہ جھگی میں بچھی پیل پر گر پڑا۔ تھکن سے اس کا بُرا حال ہو رہا تھا۔ سجاول جو سب آدمیوں کیلئے کھانا وغیرہ بناتا تھا اس کے قریب آکر بیٹھ گیا ۔ اس نے اندازہ لگالیا تھا کہ توکل خالی نہیں لوٹا۔
’’کیوںتوکل کیسا رہا ہے؟‘‘سجاول نے اس کی ٹانگ دبانے کیلئے اپنی طرف کرتے ہوئے دریافت کیا۔
’’اس بار بھی بچ نکلا ہے کمینہ مگر اس کا آدمی بھون ڈالا‘‘ توکل نے سگریٹ سلگاتے ہوئے جواب دیا۔
’’کب تک بچے گا؟ ایک روز تیرے ہاتھوں اس کو ختم ہونا ہی پڑے گا ۔ صبح ملک صاحب کو خبر مل جائے گی اور ہاں شائد اب یہ جگہ بھی تبدیل کرنی پڑے۔ ملک صاحب کو اطلاع ملی ہے کہ پولیس جلد ذخیرہ کا گھیرائو کرنے والی ہے ہو سکتا ہے بارڈر کی طرف نکلنا پڑے ملک صاحب سے صبح بات ہو گی۔‘‘
ملک صاحب نے توکل سمیت اپنے سارے آدمی خشک بیاس پار بھیج دیئے ۔ پولیس نے سارا ذخیرہ چھان مارا مگر کوئی بھی آدمی ہاتھ نہ لگا میاں نیاز علی کو اس بات کا بھی صدمہ ہو اکیونکہ اس نے بڑی مشکل سے انگریز ڈپٹی کمشنر برکلے کو راضی کیا تھا اور اس بات کی ضمانت بھی دی تھی کہ ملک تصدیق کے آدمی ذخیرہ میں چھپے ہوئے ہیں۔ ملک صاحب کو اپنے خاص پولیس کے آدمی سے اس کاروائی کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی ورنہ اس بار میاں نیاز علی خاصا ہاتھ مارتا۔
اس آپریشن کے بعد علاقہ میں امن عامہ کی صورتحال کچھ ماہ کیلئے بہتر ہوگئی۔ میاں نیاز علی کو بھی یقین ہو گیا کہ اب ملک تصدیق کی تخریبی کاروائیاں رُک گئی ہیںحالانکہ بات اس کے برعکس تھی ۔
توکل کو اطلاع ملی کہ نوری کی شادی نیاز علی نے اپنے ایک ملازم شہاور ماچھی سے کر دی ہے توکل کے دل پر چھریاں چل گئیں وہ چیخ اُٹھا اس کے دل کے اندر کچھ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گیا اسے یوں لگا جیسے ساری دنیا اس کی آنکھوں میں اندھیر ہو گئی ہے وہ پاگلوں کی طرح سارا دن جنگل میں بھٹکتا رہا وہ اس خبر کیلئے بالکل تیار نہ تھا مگر یہ سنتے ہی کہ نوری کی شادی ہو گئی ہے وہ اپنے آپ پر قابونہ رکھ سکا پھر اس نے فیصلہ کر کیا۔
وہ ملک صاحب کے اگلے پیغام کے انتظار سے پہلے ہی ایک رات چپکے سے اپنے ساتھیوں سے آنکھ بچاکر اسٹین گن سمیت بھاگ نکلا گھوڑا اگرکھولتا تو ان کو شک ہو جاتا اس لئے پیدل ہی نکل کھڑا ہوا۔
تمام رات سفر کرتا وہ بہت دور آگیاتھا۔ دن کو تھوڑی دیر ایک جگہ آرام کرنے کے بعد دریا کی کندھی کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اسے سفر جاری رکھتے ہوئے کوئی خطرہ نہ تھا کیونکہ یہ علاقہ انسان نام کے کسی سائے سے بھی پاک تھااس لئے وہ بغیر کسی خوف و خطر کے آگے بڑھ رہاتھا ۔
گن اس نے اپنی چادر کے نیچے چھپا رکھی تھی اسے ایک گھوڑے کی ضرورت تھی مگر راستے میں ابھی تک کسی گائوںکا نشان تک بھی نہیں آیا تھا۔ دن ڈھلنے تک وہ بمشکل مچھیروں کی جھگیوں تک پہنچ سکا۔ وہ بھوک سے نڈھال ہو چکا تھایہاں اسے کھانا مل گیا اور رات بسر کرنے کیلئے جگہ بھی۔
دوسرے روز وہ منہ اندھیرے نکل کھڑا ہوا ۔ توکل کو اگلے سفر کیلئے ان لوگوں سے خاصی معلومات مل چکی تھیں۔ دوپہر تک وہ بہادر سنگھ گائوں کے قریب پہنچ چکا تھا تھوڑی دیر تازہ دم ہونے کے بعد اس نے گن ایک جگہ چھپائی اور گائوں میں داخل ہو گیا ۔وہ گھوم پھر کر جائزہ لینا چاہتا تھا کہ وہ گھوڑا کہاں سے چوری کر سکتا ہے پھر ایک ڈیرہ پر اسے گھوڑی بندھی نظر آگئی بڑی سبک رفتارگھوڑی رکھی ہوئی تھی توکل سر ہلاتا راستے کو ذہن نشین کرتا واپس چل پڑا ۔
گائوں سے واپسی پر اس نے کھانے کیلئے کچھ چیزیں خریدی تھیں، پیٹ کا دوزخ بھرنے کے بعد وہ دریا کنارے درختوں کے جھنڈ میں لیٹ کربے خبر سو گیا ۔رات گئے تک وہ سوتا رہا پھر اُٹھ کر اس نے جھاڑیوں میں سے اپنی اسٹین گن نکالی اور گائوں کی جانب قدم بڑھا نے لگا جہاں گھوڑی بندھی تھی۔
اس ڈیرہ تک جانے میں اسے کوئی مسئلہ درپیش نہ آیا کئی منٹ تک وہ دیوار کی اوٹ میں کھڑاہو کر اِرد گر د کا جائزہ لیتا رہا پھر وہ لکڑی کا جنگلا پھلانگ کر دبے قدموں چلتا ہوا کھرلی تک آگیا گھوڑی نے ناک کی پھنکار سے توکل کو دیکھ کر ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنے دونوں کان پیچھے کی جانب کھینچ کر کھونٹے پر اِدھر اُدھر بدکنے لگی ۔دو رچار پائی پر لیٹا ہوا آدمی ایک دم سے اُٹھ کر بیٹھ گیا اور چاروں طرف دیکھ کر دوبارہ کروٹ لیتا ہوا لیٹ گیا ۔ توکل کچھ دیر ساکت و جامدوہیں پڑا رہا پھر رینگتا ہوا گھوڑی کے قریب پہنچ گیا آہستہ آہستہ اس نے گھوڑی کی گردن سہلائی اور پھر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا گھوڑی نے اپنے اصیل ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کان ہلانے شروع کر دیئے۔ توکل نے رَسّہ کھولا اور اس کے دونوں پچھلے پائوں آزاد کرتے ہوئے گھوڑی کو لے کر باہر نکل آیا۔
گائوں کا جو راستہ اس نے منتخب کیا تھا وہ آبادی سے باہرجاتا تھا ایک جگہ پر رُک کر توکل نے رَسے کی با گ بنائی اور گھوڑی کی پیٹھ پر سوار ہو کر اسے ایڑ لگا دی۔
گھوڑی کمان سے نکلے تیر کی طرح سر پٹ دوڑنے لگی۔ توکل گھوڑ سواری میں اتنا ماہر ہو چکا تھا کہ بغیر کسی تکلیف کے مسلسل سفر کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ راستے میں ایک دو بار رُک کر اس نے راستے کا تعین کیا اور پھر صحیح سمت کااندازہ کر کے مطمئن انداز میں آگے بڑھتا رہا ۔
وہ اذان ہونے سے پیشتر میاں نیاز علی کے گائوں پہنچ جانا چاہتا تھا اب جس راتے پر وہ چل رہا تھا وہ اس کا دیکھا ہوا تھا اس لئے آگے بڑھنے میں اسے کوئی دقت نہیں ہو رہی تھی اب وہ دریا کی کندھی چھوڑ کر ذخیرہ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا گھوڑی نے شائد پہلی بار اتنا لمبا سفر کیا تھا۔ اس کا سارا بدن پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔
جوں جوںتوکل آگے بڑھ رہا تھا اس کے سینے میں میاں نیاز علی کیلئے نفرت کا الائو اتنا ہی شدت اختیار کرتا جا رہا تھا گائوں سے باہر رُکتے ہوئے اس نے گھوڑی ایک درخت کے ساتھ باندھ دی اور اپنی اسٹین گن کو اچھی طرح چیک کرتے ہوئے حویلی کی طرف پیدل ہی چل پڑا وہ بغیر کسی خوف سے تیز تیز قدموں سے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
فجر کی اذان کب سے ہو چکی تھی ۔ گائوں میں نماز ی مسجد کی طرف آجا رہے تھے۔ وہ حویلی کے دروازے پر پہنچ کر رُکا اور پھر گھوم کر ڈیرے کی طرف آگیا ۔ سامنے دالان کے بڑے تھڑے پر میاں نیاز علی بیٹھا مسواک کر رہا تھا اور ایک نوکر پانی کا لوٹا پکڑے قریب کھڑا تھا توکل نے اسٹین گن کا لیور کھینچا اور ایک دم میاں نیاز علی کے سامنے آگیا۔
’’میاں! دیکھو میری طرف تمہاری موت بن کر آیا ہوں ۔تمہیں کہا تھا نا کہ کسی بے قصور پر ظلم مت کر و مگر تو اپنی فطرت سے مجبور فرعونیت کا دعویدار بنتا تھا تو نے مجھ پر بے شمار ظلم کئے ،نوری کو مجھ سے جد اکر دیا تو شائد اپنے انجام سے بے خبر تھا تو نے میرے کَسّی پکڑنے والے ہاتھوں میں بندوق پکڑا دی‘‘۔
اس سے پیشتر کہ میاں نیاز علی بھاگتا توکل نے اندھا دھند فائرنگ کرکے میاں کے پرخچے اُڑا دیئے ۔ فائرنگ کی آواز پر میاں کے پالتو اسلحہ لے کے بھاگے۔ توکل نے دوسری بار جو فائرنگ کی تو اس سے میاں کے تین آدمی اور ڈھیر ہو گئے مگر توکل اپنے پیچھے سے بے خبر تھا بارہ بور کے ایک ہی ایل جی کارتوس نے توکل کا بھیجا اُڑا دیا وہ چکرا کر گر اور ٹھنڈا ہو گیا۔
دوسرے لوگوں کے ہمراہ نوری بھی وہاں پہنچ گئی۔ توکل کی لاش دیکھ کر اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے دو آنسو پھسل کر اس کے گالوں پر رینگنے لگے۔
٭٭٭٭٭