24 C
Lahore
Tuesday, October 8, 2024

Book Store

دلدل

تحریر، جاوید راہی

 ’’ملک صاحب! میں آپ کو بار بار بتا چکا ہوں کہ اس سے آپ کو نقصان ہی پہنچے گا مگر آپ سنتے ہی کب ہیں ؟ہم دونوں آپ کے وفا دار ہیں، وہ کل آپ کی چھتر چھائوں میں آیا اورآپ نے اسے سارے کاروبارکا نگران بنا دیا ۔ ہم کئی سالوں سے آپ کے اشاروں پر ناچ رہے ہیںمگر ہمیں آپ نے ایک سائیڈ پر کر دیا ہے ۔‘‘
میں نے اپنی ساری گفتگو کا اثر ملک صاحب کے چہرے پر دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ موبائل پر کسی لڑکی سے اُلجھ رہے تھے کہ’’ اپنی کمائی سے آدھا حصہ مجھے بھی دو‘‘۔ملک صاحب کے اس جملے پر میں نے عبدل کی طرف دیکھا جو حیرانگی سے میری جانب ہی متوجہ تھا اس کے چہرے پر ملک صاحب کے منہ سے نکلنے والے جملے نے گہری پریشانی کے تاثرات رقم کر ڈالے تھے نہ مجھے ایسی اُمید تھی اور نہ عبدل کو کہ اب ملک صاحب تمام غیر قانونی دھندوںکے بعد خواتین سے بھی آدھا حصہ طلب کر رہے تھے۔
اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ ملک صاحب کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔
’’سکندر تم کچھ کہہ رہے تھے؟‘‘ملک صاحب کے لہجے کی کاٹ کو میں محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔
’’تو پھر؟‘‘انہوں نے ہم دونوں کی طرف اشارتاً انداز میں دیکھا۔
اس بار میں خاموش رہا عبدل نے جھٹ سے جواب دیتے کہا کہ وہ بغیر سوچے سمجھے گولی داغ دیتا ہے وہ تو خیر ہو ئی جو پرسوںموٹر سائیکل والا بچ گیا جس کی جیب سے صرف تین سو روپے نکلے تھے اس غصہ میں توکل نے فائر کر دیا وہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ گولی اس کے قریب سے گزر گئی ورنہ تین سو روپے کی خاطر ایک بے گناہ زندگی گنوا دیتا۔ عبدل نے پیچ و تاب کھاتے توکل کی شکایت کی۔
’’اچھا تم دونوں فکر نہ کرو میں اسے سمجھا دوں گا ۔اب تم جائو جا کر آرام کرو اور ہاں توکل سے مت اُلجھنا وہ پڑھا لکھا لڑکا ہے میں اسے خودسمجھا دوں گا ۔ ‘‘ملک صاحب نے ہم دونوں کو تاکید کی اور ہم اُٹھ کر ڈیرہ کے سائیڈ والے حصہ میں آگئے جہاں ہمارے لئے کمرے بنائے گئے تھے۔
توکل اپنے کمرے کے باہر پڑی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھا کوئی رسالہ پڑھ رہا تھا ذرا بھر کو اس نے نظر اُٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور دوبارہ پڑھنے میں مشغول ہو گیا میں اور عبدل لا پرواہی سے گزر کر اپنے کمرے میں آگئے۔
کام پر جانے کیلئے ہم دونوں پیر صاحب کے دربارپر جا کر حاضری دیتے اور نیاز بانٹتے تھے یہ ہمارا عقیدہ تھا ۔ توکل کا ذہن کافروں سے ملتا جلتا ہونے کا سبب شائد ا س کا پڑھا لکھا ہونا ہو گا۔ وہ درگارہ کے باہر ہی رُک کر ہمارا انتظار کرتا جب ہم دونوں باہر آتے تو وہ زہریلی ہنسی کے درمیان بولتا ’’رشوت دے آئے بابا جی کو ۔ ‘‘
ملک صاحب کو کئی بار شکایت کر چکے تھے مگر وہ بھی ہنس کر ٹال دیتے تھے۔
آج کی واردات میں جو پلان تھا وہ کچھ یوں بناکہ توکل پیچھے سے ویگن میں سوار ہو کر آئے گا صبح فجر کی پہلی ویگن میں جمعہ کو بڑے دوکاندار مال کی خریداری کیلئے فیصل آباد جاتے تھے اور ان کے پاس خاصی رقم ہوتی تھی ۔ فیصل آباد کے راستے میں ایک دو جگہ سے سڑک خاصی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور ٹریفک کی رفتار قدرے کم ہو جاتی بس یہی موقع ہوتا واردات کرنے کا۔ جس جگہ ویگن لوٹنے کا پروگرام بنا وہ یہی راستہ تھا ہم دونوں کھیتوں میں موٹر سائیکل کھڑے کرکے توکل کے فون کا انتظار کر رہے تھے جس نے ڈرائیور کو پستول کے زور پر اسی مقام پر روکنا تھا جہاں ہم پہلے سے تیار کھڑے تھے۔ ابھی سورج نمودار نہیں ہوا تھا کہ میرے فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف توکل نے ہوشیار رہنے کا کہا۔
زیادہ دیر نہ لگی کہ دور سے ویگن کی لائٹیں نظر آئیں سڑک پراِکا دُکا ٹریفک ر واں تھی۔ ہم نے خود کو تیار کرلیا تھا فراٹے بھرتی ویگن یکدم آہستہ ہو گئی پھر سڑک سے اُتر کر سائیڈ میں رُک گئی ۔ہم دونوں نکل کر تیزی سے بھاگتے ویگن کے پاس آگئے، توکل پستول سے ڈرائیور سمیت ساری ویگن کی سواریوں کو یرغمال بنائے بیٹھا تھا۔ ہمارے پہنچ جانے پر ویگن میں سوار سارے لوگ سہم گئے۔ ہمارے حکم پر درائیور نے ویگن کھیتوں کے اندر جانے والے کچے راستے پر ڈال دی۔ سڑک سے ہمارا فاصلہ خاصا زیادہ ہو گیا تھا توکل اور عبدل سارے مسافروں سے لوٹ مار کر چکے تو میں نے دونوں کو موٹر سائیکلوں کی طرف جانے کا کہتے ویگن کے اگلے ٹائر پر فائر کر کے ٹائر پھاڑ دیا اور خود بھی ان کے پیچھے چل پڑا وہ دونوں موٹر سائیکلیں میرے قریب ہی لے آئے تھے پھر میں عبدل کے پیچھے بیٹھ گیا ویگن کے سارے مسافروں کو جان سے مار دینے کی دھمکی کام کر گئی تھی۔اس لئے کوئی مزاحمت نہ ہوئی اور ہم ڈکیتی کر کے صحیح سلامت ڈیرے پر پہنچ گئے سارا مال ملک صاحب کے سپرد کرتے اپنے اپنے کمروں میں آگئے دوپہر کا کھانا اور ناشتہ اکٹھا ہی کیا۔
’’میرے خیال میں پانچ لاکھ سے اوپر ہی تھا ‘‘عبدل نے مجھے مخاطب کرتے اپنا عندیہ دیا۔
’’بڑی نظر رکھتا ہے توکل مگر میں نے پھر بھی ہاتھ مار ہی لیا۔ تیس پنتیس ہو گا میرے پاس ‘‘عبدل نے اپنی بنیان کے اندر پھینکے ہزار ہزارکے نوٹ نکالتے جواب دیا جب گِنے تو وہ کُل اٹھائیس ہزار ہوئے آدھے آدھے کرنے کے بعد ہم سو گئے۔رات بھر کے جاگے ہوئے تھے۔
مجھے اور عبدل کو ایک مقدمہ میں پولیس نے مفرور قرار دیتے وارنت گرفتاری نکال رکھے تھے ۔ اپنے ہم پیشہ دوستوں کے پاس چھپتے چھپاتے ملک صاحب تک پہنچ گئے ۔ تب سے ان کے زیر سایہ پڑے ہوئے تھے ۔ جس مقدمہ میں ہم دونوں مفرور تھے وہ لڑائی کا تھا جس میں مخالف پارٹی کے دو بندے فائر نگ میں زخمی ہو گئے تھے اور ہمیں فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ کئی ہفتے ذخیرہ میں روپوش رہے پھر اِدھر اُدھر ہاتھ مار کے ملک صاحب تک رسائی ہو گئی۔
لوٹ مار کے مال سے جو بچا لیتے وہی ہمارا حصہ ہو تا ورنہ سب کچھ ہمیں پناہ دینے کی مَد میں ملک صاحب ہڑپ کر جاتے۔ انکے ڈیرہ پر پولیس کی رسائی نہیں تھی کیونکہ انکی ساکھ سیاسی طور پر بھی مضبوط تھی۔ توکل کو بھی کسی سیاسی وڈیرے نے ان کے پاس بھجوا رکھا تھا۔ جب سے وہ یہاں آیا تھا اس سے ہماری نہیں بنی تھی۔ ڈیرہ کے کامے رمضان نے ہمیں اطلاع دی کہ ملک صاحب نے بلایا ہے جب ہم ان کے کمرے میں پہنچے تو وہاں پہلے سے توکل موجود تھا۔
’’ آئو بیٹھو!‘‘ ملک صاحب نے بات ادھوری چھوڑتے ہمیں بیٹھنے کو کہا ہم دونوں بھی قریب بیٹھ گئے۔
’’ سکندر تم دونوں کو پولیس تلاش کرتے کرتے یہاں پہنچ گئی ہے تمہیں کچھ دِنوں کیلئے یہاں سے جانا ہوگا، توکل کو میں آگے کسی دوست کے پاس بھیج رہا ہوں‘‘۔ ملک صاحب نے جیب سے کچھ رقم نکال کر میری طرف بڑھاتے مجھے مخاطب کیا۔
میں نے وہ روپے پکڑکر عبدل کی طرف بڑھا دیئے اور نظریں نیچی کرتے ملک صاحب کے اگلے حکم کو سننے کیلئے تیار ہو گیا۔
پھر انکی آواز نے خاموشی توڑی ’’اگر تم دونوں اپنی مرضی سے کہیں جانا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میں تمہیں بھی ایک دوست کے سپرد کر دیتا ہوں‘‘۔
میرے جواب دینے سے پہلے عبدل بول پڑا’’ ملک صاحب اس کی ضرورت نہیں ہم خود ہی اپنا بندوبست کر لیں گے ‘‘۔
’’ تو پھر ٹھیک ہے اس سے پہلے کہ پولیس ڈیرہ تک پہنچے تم تینوں آج رات کو ہی یہاں سے اِدھر اُدھر ہو جائو‘‘۔
’’جی بہترملک صاحب !‘‘میں اُٹھ کر کھڑا ہو گیا میرے ساتھ ہی عبدل بھی ان کے کمرے سے نکل کرباہر کی طرف چل پڑا۔
رات کو تھوڑا بہت سامان ہم دونوں نے پیک کیا اور اپنے اپنے ریوالور سنبھالتے ہم آگے بڑھ گئے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کچھ دن فور ایل کے علاقہ میں رُکیں گے اور پھرکوئی اگلا پروگرام سوچنا ہو گا۔
جب ملک صاحب کے ایریا کو کافی پیچھے چھوڑ دیا تو ہمیں محسوس ہو ا کہ جیسے بہت ساری آنکھیں ہمارے تعاقب میں ہیں ۔ عبدل کے بتانے پر میرا شک یقین میں بد ل گیا۔ مجھے بھی ایک آدھ باریہی لگا۔
دریا کی طرف اُترنے والی گھاٹی ابھی ہم نے اُتری ہی نہیں تھی کہ چاروں جانب سے پولیس ہتھیار سنبھالے سامنے آگئی ۔
عبدل نے یکدم فائر کھول دیا میں تیزی سے زمین پر لیٹ گیا مگر چاروں جانب سے آنے والی گولیاں عبدل کے جسم کو چیرتی ہوئی گزر گئیں۔ میں یونہی بے حس و حرکت زمین پر اوندھے منہ پڑا ہوا تھا میرے بازو پیچھے سے جکرتے مجھے گرفتار کر لیا گیا ۔ عبدل کی لاش کو اُٹھا کر پولیس والوں نے بے دردی سے وین میں پھینکتے مجھے اپنی تحویل میں لے لیا ۔
یہ بتا کر سکندر خاموش ہو گیا۔
٭٭٭٭٭

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles