34 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

Aakhri tasveer|آخری تصویر|Maqbool Jahangir

آخری تصویر

مقبول جہانگیر

تین سو برس پرانی وہ تصویر آج بھی ہمارے گھر میں موجود ہے۔ اُس کا رنگ روغن، کاغذ، لکڑی کا وہ بیش قیمت فریم بھی ویسا ہی ہے جیسا تین سو برس پہلے تھا۔
ماہ و سال کی اِس طویل گردش نے تصویر کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے مصور نے ابھی چند لمحے قبل اِسے مکمل کر کے فریم میں جڑا ہے اور اَگر ہمارے پاس قدیم کاغذات محفوظ نہ ہوتے،
تو یہ ثابت کرنا دشوار ہو جاتا کہ تصویر مغل شہنشاہ شاہ جہان کے زمانے کے شہرہ آفاق مصور نادر زماں خان کے مُوقلم کا شاہکار ہے۔
جی ہاں، وہی نادر زماں جس کا فن مانی و بہزاد کے ہم پلہ تھا۔
جس کے استاد تبریزی خاں مصور کا تذکرہ اُس دور کی ہر مسندِ تاریخ کے اوراق کی زینت ہے۔

مَیں جس تصویر کا ذکر کرتا ہوں، وہ نادر زماں خاں کی آخری تصویر تھی۔ کہتے ہیں  بعد میں  اُس نے اپنے تمام برش، قلم اور رَنگ و روغن ضائع کر دیے تھے ۔
مرتے دم تک کوئی اور تصویر نہ بنانے کی قسم کھا لی تھی۔ اُس کے قدردانوں نے بہت کوشش کی کہ نادر زماں اپنی قسم توڑنے پر رضامند ہو جائے۔
اِس کے لیے وہ اُسے ہر وہ شے دینے کو آمادہ تھے جو نادر زماں اُن سے طلب کر سکتا تھا، لیکن بےسود ….. دنیا کی بڑی سی بڑی قیمتی چیز، زر وَ جواہر اَور ہر آسائش اُس کے نزدیک ہیچ تھی۔
اُس نے کہا وہ نادر زماں جو تصویریں بنایا کرتا تھا، مر چکا۔ اُس کی روح پژمردہ ہو چکی، اب اُس کا قالب ایک ٹھنڈی راکھ ہے جس میں حرارت کی ایک چنگاری بھی نہیں ہے۔

نادر زماں نے مصوری کیوں ترک کی، اِس کے پیچھے ایک المناک اور دَرد انگیز داستان پھیلی ہوئی ہے۔
ایسی داستان جو اَبھی تک سینوں میں دفن تھی، لیکن اب تین صدیاں گزرنے کے بعد مَیں اُسے کاغذ پر اتارنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
یہ داستان میرے جدِاعلیٰ مرزا ترک تاز خان کو خود نادر زماں خاں نے سنائی تھی۔
یہ تصویر بھی اُسی نے اُنھیں عطا کی تھی۔ سرسری طور پر دیکھیں، تو اِس میں کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوتی،
لیکن جُوں جُوں نظر گہری ہوتی ہے، تُوں تُوں تصویر کے خال و خط اُبھرتے ہیں، آہستہ آہستہ تصویر کا ماحول جاندار ہونے لگتا ہے۔ لکیریں، زاویے، قوسیں، دائرے اور رَنگ سبھی سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔
تماشائی اپنے آپ کو اُس جیتے جاگتے ماحول کا ایک حصّہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ یہی اُس تصویر کی خوبی ہے۔

پس منظر میں ایک عالی شان حویلی کا سجا سجایا کمرا، فرش پر قالین بچھا ہوا، محراب نما دروازوں اور کھڑکیوں پر ریشمی پردے آویزاں، چھت گیری کے عین درمیان انتہائی بیش قیمت نفیس جھاڑ لٹکا ہوا۔
دائیں بائیں دیواروں پر کنول اور فانوس، کمرے کے وسط میں ایک پری چہرہ حور پیکر نازنین سر سے پاؤں تک سفید ریشمی لباس پہنے کھڑی ہے۔
اُس کی عمر سولہ سترہ برس  ہو گی۔ اُس پر حیا اور معصومیت کے ساتھ ساتھ کسی قدر گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہیں۔ دلفریب چہرے پر باریک جالی کی نقاب ہے جس میں اُس کا روئے تاباں جھلک رہا ہے۔
ترشے ہوئے حسین لبوں پر مصور نے نہایت چابک دستی سے کپکپاہٹ کا وہ جذبہ بھی ہمیشہ کے لیے قید کر دیا ہے جسے دیکھنے کے لیے بہت باریک بینی کی ضرورت ہے۔
پھیلے ہوئے سایوں سے پتا چلتا ہے کہ جھٹ پٹے کا وقت ہے۔ اُس حسین لڑکی کے ہاتھ میں چھوٹا سا نازک شمع دان ہے جس میں شمع جل رہی ہے اور اُس کی روشنی سیدھی اُس کے چہرے پر پڑ رہی ہے۔

کچھ فاصلے پر ایک قوی ہیکل ادھیڑ عمر کرخت صورت آدمی سیاہ لباس پہنے موجود ہے۔ اُس کی آنکھیں انتہائی چمک دار، ہونٹ خونِ کبوتر کی مانند سرخ اور ناک طوطے کی چونچ کی طرح مڑی ہوئی ہے۔
سر پر چھوٹی سی سیاہ پگڑی ہے جس کی کلغی میں ایک نادر ہیرا جڑا ہے۔
اُس ہیبت ناک شخص کے دائیں پہلو میں تلوار لٹکی ہے۔
جس جڑاؤ دستہ اُس کے ہاتھ میں ہے اور اُس کے انداز سے صاف پتا چلتا تھا کہ وہ میان سے تلوار کھینچتا ہے، بلکہ غور سے دیکھا جائے، تو تلوار کسی قدر کھینچی ہوئی بھی نظر آ جائے گی۔
اُس شخص کے گلے میں موتیوں اور ہیروں کے کئی ہار بھی پڑے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے یہ شخص کوئی بڑا مغل عہدےدار ہے۔
چہرے کے نقوش اگرچہ واضح نہیں، تاہم صاف پتا چلتا ہے کہ اُس کا تعلق منگول نسل سے ہے۔
وہی کلوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں، وہی بھاری لمبی ناک، وہی موٹے موٹے ہونٹ اور غلافی آنکھیں، لیکن بےحد روشن، ستاروں کی مانند چمکتی ہوئی۔
دیکھنے والا پہلی نظر میں ہی فیصلہ دے دے گا کہ یہ ایک ایسے شخص کا چہرہ ہے جو سفاکی، درندگی اور شقاوت میں اپنے اُن آبا و اَجداد کا ہم پلہ ہو گا جو مفتوح اور محکوم قوموں کے افراد کی کھوپڑیوں کے مینار اَپنی فتح کی یادگار میں تعمیر کیا کرتے تھے۔
جن کی لغت میں رحم، ہمدردی، شفقت اور محبت کے الفاظ کبھی شامل نہیں رہے۔

مصور نے اُس کی شبیہ اتارنے میں اپنے فن کا پورا زور صَرف کر دیا ہے اور یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے کہ اُس نازنین کو دیکھ کر ناظر کے ذہن میں جو پاکیزہ اَور اَچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں، اُس مغل عہدےدار کی تصویر پر نگاہ ڈالتے ہی ہوا ہو جاتے ہیں۔

اُن کی جگہ نفرت اور حقارت کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں۔ کوئی شخص بھی زیادہ دَیر تک اُس تصویر پر نگاہ جمانے کی تاب نہیں رکھتا۔

اور یہ حور وش نازنین فیروزہ تھی۔ تبریزی خان مصور کی حقیقی بھانجی، جسے اُس نے باپ اور ماں بن کر پالا تھا۔ جس زمانے میں طاعون پھیلا اور بےشمار لوگ لقمۂ اجل ہوئے، تبریزی خان کا سارا خاندان اُس وبا کی لپیٹ میں آ گیا تھا، پھر اچانک ایک ایک کر کے سبھی رخصت ہو گئے۔
بھرے پرے گھر میں صرف دو فرزند بچے۔ فیروزہ اَور تبریزی۔ فیروزہ اُن دنوں پانچ سال کی تھی۔
تبریزی دل و جان سے اپنی اُس ننھی بھانجی کو چاہتا تھا۔ اُس نے بڑے ناز و نعم میں اُس کی پرورش کی اور تعلیم و تربیت سے بھی آراستہ پیراستہ کیا۔ فیروزہ جوان ہوئی، تو جیسے قیامت اپنے ساتھ لے کر آئی۔
بڑے بڑے جاگیردار، رؤسا اور نواب اُس کی طلب گاری کے خواب دیکھنے لگے۔
یہاں تک کہ عظیم شاہی خاندان کے شہزادوں نے بھی فیروزہ کا ذکر سنا اور دَرباری مصوروں سے سو حیلوں بہانوں سے اُس کی عمدہ سے عمدہ تصویریں کھینچ کر محلوں میں پہنچائیں ….. لیکن تبریزی کوئی معمولی آدمی نہ تھا۔
سب جانتے تھے کہ وہ شہنشاہ کا منظورِ نظر مصور ہے اور اَگر اُس نے کسی کی شکایت شہنشاہ گیتی پناہ سے کر دی، تو اُس کا زن بچہ کولہو میں پلوا دِیا جائے گا۔
تبریزی جانتا تھا ابھی فیروزہ معصوم ہے، اُسے دنیا کی اونچ نیچ اچھے برے کی تمیز نہیں ہوئی۔ شعور ذرا پختہ ہو جائے، تب اُس کی شادی کرے گا …..
لیکن اُسے کیا خبر تھی کہ فیروزہ کا دِل کبھی کا گھائل ہو چکا اور تبریزی خاں کے نوجوان شاگرد نادر زماں کو وُہ رُوح کی گہرائیوں سے زیادہ چاہنے لگی ہے۔

کچھ یہی کیفیت نادر زماں کی بھی تھی۔ اُس نے لاکھ کوشش کی وہ فیروزہ کی طرف مائل نہ ہو، اُس کا تصوّر، اُس کا خیال ذہن سے جھٹک دے، مگر بےسود۔
اُس کی ہر کوشش بری طرح ناکام ہو چکی تھی۔ وہ خوب جانتا تھا کہ تبریزی خاں اپنی بھانجی کی شادی کسی ایسے شخص سے کرے گا جس کی کوئی حیثیت ہو، اُس حسین لڑکی کے لیے اونچے مالدار گھرانوں کے اچھے سے اچھے نوجوانوں کی کمی نہ تھی،
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تبریزی خاں، فیروزہ کا ہاتھ نادر زماں کے ہاتھ میں دے دے جس کے پاس کھانے کو تھا، نہ پہننے کو اور وُہ اَپنی ضروریات کے لیے ہر طرح اپنے استاد کا محتاج تھا۔
ہاں یہ الگ بات ہے کہ خود نادر زماں مردانہ حسن و صحت کا بہترین نمونہ تھا۔
خوش رَو، خوش نہاد، خوش اخلاق اور خوش جمال، اگر وہ مفلس نہ ہوتا، تو بےشک فیروزہ کے لیے وہ بہترین شوہر ثابت ہو سکتا تھا، لیکن دولت مند بننے اور نام پیدا کرنے کے لیے بھی بڑی محنت کی ضرورت تھی۔
وہ اَپنے کام میں کھو جاتا۔ دن رات تصویریں بناتا۔
کئی اور شاگرد بھی تبریزی خاں سے مصوری سیکھنے اُس کے عالی شان مکان پر آیا کرتے، لیکن جتنے ادب اور سعادت مندی سے نادر زماں اپنے استاد سے پیش آتا، اُن میں سے کوئی بھی شاگرد پیش نہ آتا۔
یہی وجہ تھی کہ بہت جلد تبریزی خاں اُس پر اعتماد کرنے لگا۔ اُسے معلوم ہو گیا کہ نادر زماں شریف نوجوان ہے، اُس پر بھروسا کیا جا سکتا ہے۔
اُسے کام سیکھنے کا شوق بھی ہے، چنانچہ اُس نے نادر زماں کو اَپنی حویلی کا ایک کمرہ دَے دِیا اور اُس کی تمام ضروریات کا کفیل بن گیا۔

پھر وہ دِن بھی آیا جب نادر اَور فیروزہ کی آنکھیں چار ہوئیں۔ ایک نہ بجھنے والی آگ تھی جس میں دو ذی روح جلنے لگے۔ ملاقاتیں بڑھیں، بےتکلفی ہوئی، عہد و پیمان باندھے گئے
۔ ہمیشہ ایک ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائی گئیں۔ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود ایک دوسرے سے محبت کیے چلے جا رہے تھے اور اُن کی اِس محبت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہ تھا۔

دن تیزی سے گزر رَہے تھے۔ فیروزہ اور نادر کا عشق عروج پر آیا، لیکن اُس میں کسی قسم کی نفسانیت کا شائبہ تک بھی نہ تھا۔ وہ گھنٹوں آمنے سامنے بیٹھے باتیں کرتے رہتے اور وَقت پَر لگا کر اڑنے لگتا۔
نادر زماں اُس شام اکیلا اپنے تصویر خانے میں موجود تھا اور ایک تصویر بنانے میں ایسا منہمک کہ اُسے دنیا و مافیہا کی کچھ خبر نہ تھی۔ وہ دَراصل ایک مغل شہزادی کی تصویر کئی دنوں سے بنا رہا تھا
۔ عجیب بات تھی کہ ہمیشہ تصویر میں کہیں نہ کہیں خامی رہ جاتی یا کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جاتی کہ پہلا خاکہ رد کر کے دوسرا خاکہ بنانا پڑتا۔
اب تک وہ چار پانچ خاکے بنا کر ضائع کر چکا تھا اور چھٹا خاکہ بنانے میں لگا ہوا تھا۔ بہت دیر بعد اُسے پتا چلا کہ خامی دراصل کہاں ہے۔

ہوتا یہ تھا کہ غیرارادی طور پر وہ شہزادی کی آنکھیں، پیشانی اور ہونٹ بالکل فیروزہ کے سے بنا دیتا اور جونہی تصویر اپنے خد و خال سمیت ابھرنے اور نمایاں ہونے لگتی، نوجوان مصور گھبرا کر مُوقلم ہاتھ سے پھینک دیتا۔
اُس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ
آخر ہر بار فیروزہ ہی کی تصویر کیوں بن جاتی ہے جبکہ اُس کی نگاہوں کے بالکل قریب ایک اونچی سی تپائی پر اُس مغل شہزادی کی ایسی تصویر دھری تھی، جسے کسی اور مصور نے بنایا تھا، لیکن یہ تصویر شہزادی کو پسند نہیں آئی۔
شہنشاہ نے تبریزی خاں کو حکم دیا تھا کہ وہ اُس کی پیاری بیٹی کی نئی تصویر بنائے۔
تبریزی خاں نے یہ کام نادر خاں کے سپرد کر دیا تھا اور جتنی مہلت اُسے دی گئی تھی، وہ بس ختم ہی ہونے والی تھی، چنانچہ نادر زماں اپنے تمام حواس مجتمع کر کے اور مصمم ارادے کے ساتھ کہ اب فیروزہ کا خیال بھی اپنے پاس پھٹکنے نہ دے گا، نیا خاکہ بنانے میں جسم و جاں کی تمام توانائیوں کے ساتھ مصروف تھا۔
اُسے خبر بھی نہ ہوئی کہ کب تبریزی خاں کے دوسرے شاگرد رُخصت ہوئے، کب سورج غروب ہوا اَور کب حویلی کا بوڑھا ملازم وہ شمع دان روشن کر کے وہاں رکھ گیا جس میں لمبی لمبی سفید چھ شمعیں جلا کرتی تھیں۔
اِس دوران میں ایک بار بھی فیروزہ کا خیال نادر زماں کے ذہن میں نہ آیا۔
خاکہ مکمل کرنے کے بعد اُس نے تنقیدی نگاہ ڈالی اور یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ اِس مرتبہ وہ اَپنی کوششوں میں سو فی صد کامیاب رہا۔ خاکہ شہزادی کا تھا جو بلاشبہ حسین و جمیل تھی، لیکن فیروزہ کے حسن و جمال کی برابری نہ کر سکتی تھی۔

نادر زماں نے سرمئی چاک رکھ کر چینی کی پیالی اور ننھا سا برش سنبھالا۔ اُس پیالی میں گلابی رنگ تھا اور وُہ اَب خاکے میں رنگ بھرنے کا آغاز کرنے والا تھا۔
ابھی اُس نے دو تین مرتبہ ہی برش چلایا ہو گا کہ عقب میں ہلکی سی آہٹ سن کر وہ چونکا اور ایک دم مڑ کر دیکھنے لگا۔ اُس کا خیال تھا یہ بےپاؤں کمرے میں آنے والا فیروزہ کے سوا اَور کوئی نہیں ہو سکتا۔
اکثر ایسا ہوتا کہ شام کو، سورج چھپنے کے فوراً بعد چند لمحوں کے لیے وہ اِس کمرے میں آتی تھی اور وُہ بھی اُس وقت جب کہ تبریزی خاں حویلی میں موجود نہ ہو۔
اپنے ماموں کی موجودگی میں اُس کی مجال نہ تھی کہ حویلی کے مردانے حصّے میں بغیر اجازت قدم بھی رکھ سکے، یہ اور بات تھی کہ تبریزی خاں نے اُسے کبھی نادر زماں سے پردہ کرنے کا حکم نہ دیا تھا۔
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ وہ نادر زماں کو گھر کے اندر بلا لیا کرتا اور وُہ تینوں رات کو کھانا ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھاتے۔ تبریزی خان کو اَپنے نوجوان شاگرد پر کچھ ایسا ہی بھروسا تھا۔

نادر زماں نے جونہی مڑ کر دیکھا، اُس کا بدن یک لخت پتھر کا ہو گیا۔ فیروزہ کے بجائے اُس کے سامنے ادھیڑ عمر کا ایک قوی ہیکل، بدشکل شخص سر سے پاؤں تک سیاہ چغہ پہنے کھڑا تھا۔
اُس کی آنکھیں بےحد چمک دار، موٹے موٹے ہونٹ سرخ اور گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں۔ اُس کے سر پر سیاہ پگڑی تھی جس کی کلغی میں بیش قیمت ہیرا جڑا ہوا جگمگا رہا تھا۔
دائیں پہلو میں تلوار لٹک رہی تھی جس کا دستہ جڑاؤ تھا۔ یہ اجنبی کون ہے؟ کدھر سے آیا اور اِس کمرے میں کیا کر رہا ہے؟ یہ تھے وہ سوال جو معاً نوجوان مصور کے ذہن میں ابھرے۔
اپنے لباس اور صورت شکل سے وہ کوئی مغل سردار یا بڑے عہدےدار نظر آتا تھا۔
مصور نے یہ بھی دیکھا کہ اجنبی کے بائیں ہاتھ میں آبنوس کی خوبصورت چھڑی بھی ہے جس کی شام خالص سونے کی بنی ہوئی تھی۔

اجنبی سے نگاہ دوچار ہوتے ہی مصور کو یوں محسوس ہوا، جیسے اُس کی کھوپڑی میں جسم کا سارا خون منجمد ہو گیا ہو۔
دہشت کی ایک انتہائی سرد لہر اُس کی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی چلی گئی۔
عجیب بات تھی کہ حویلی کا صدر دَروازہ اور دُوسرے تمام چھوٹے دروازے کھڑکیاں اندر سے ہمیشہ بند رہتی تھیں اور کوئی پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا تھا۔ پھر یہ شخص کدھر سے آیا؟

نادر زماں نے گھبرا کر منہ پھیر لیا۔ اُس میں مزید آنکھیں چار کرنے کی ہمت نہ تھی۔ نووارد اَب بھی بےحس و حرکت اُسی انداز میں اپنی جگہ کھڑا رَہا۔
اب اُس کی نظریں اُس خاکے پر جمی ہوئی تھیں جس میں مصور رَنگ بھرنے والا تھا۔

’’جناب! کیا آپ آقا تبریزی سے ملاقات کے لیے تشریف لائے ہیں؟‘‘ مصور نے بہت ادب سے پوچھا۔

’’ہاں! اِسی لیے آیا تھا۔‘‘ اجنبی نے کرخت اور بھاری آواز میں کہا۔ ’’لیکن اِس وقت وہ مکان میں نہیں۔ کیا تم اُسے میرا پیغام دے سکتے ہو؟‘‘

’’ارشاد فرمائیے ….. آپ کا پیغام من و عن اُن تک پہنچاؤں گا۔‘‘
نوجوان مصور نے گردن کو خم دے کر کہا۔
’’آپ مجھ پر بھروسا کر سکتے ہیں۔ مَیں آقائے تبریزی کا ادنیٰ شاگرد نادر زماں ہوں۔‘‘

’’ہوں …..‘‘ اجنبی نے حقارت سے نادر زماں کو دیکھا اور اُسی نخوت بھرے لہجے میں بولا
’’کہہ دینا اُس سے کہ صوبےدار جلال آباد تشریف لائے تھے اور کل اِسی وقت وہ اَپنی حویلی میں حاضر رہے، ہم پھر آئیں گے۔ ایک اہم معاملے پر ہم تبریزی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اِن الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ہی وہ مڑا اَور اَپنے نپے تُلے قدم اٹھاتا کمرے سے باہر چلا گیا۔ ایک نرالی بات یہ تھی کہ جاتے ہوئے اُس کے قدموں کی آہٹ بالکل پیدا نہ ہوئی۔
تین چار لمحے نادر زماں سکتے کے عالم میں اپنی جگہ کھڑا رَہا۔ ایسا پُراسرار آدمی جیسا یہ جلال آباد کا صوبےدار تھا، پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
اُس نے جلدی سے حویلی کے اندرونی صحن کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے جھانکا۔ یہاں سے صدر دَروازہ بخوبی نظر آتا تھا۔
نادر زماں کا خیال تھا وہ اُس مہیب شخص کو باہر جاتے دیکھ سکے گا، لیکن وسیع صحن ویران پڑا تھا۔
برآمدوں میں سناٹا اور صدر دَروازہ اَندر سے بند۔ ویسے بھی اُسے کھولنا اکیلے آدمی کی قوت سے باہر تھا۔
دروازے کے دائیں پٹ کے نچلے حصّے میں بنا ہوا چھوٹا سا کھڑکی نما دروازہ بھی بند تھا۔
نادر زماں نے اب دوڑ کر وہ کھڑکی کھولی جو اُس کے کمرے کے بیرونی رخ پر تھی اور اُس کھڑکی سے وہ گلی میں دور تک کا منظر دیکھ سکتا تھا۔
خاصی دیر تک وہ پلک جھپکائے بغیر گلی میں آتے جاتے اِکا دُکا لوگوں کو دیکھتا رہا، لیکن صوبےدار جلال آباد کا نام و نشان نہیں تھا۔

اللہ ہی بہتر جانتا ہے اُسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا، وہ آپ ہی آپ کہنے لگا۔ کسی صورت وہ میری نگاہوں سے بچ کر باہر نہیں جا سکتا ….. لیکن وہ پھر کہاں گیا؟
اِس سوال نے نادر زماں کو حیران و پریشان کر ڈالا۔ ممکن ہے حویلی اور دروازے کے مابین کوئی خفیہ راستہ بھی ہو۔ اُس نے سوچا۔ ہاں ایسا ہی ہو گا۔
اِس قسم کی عظیم الشان پرانی حویلیوں میں اکثر و بیشتر خفیہ راستے، سرنگیں اور تہہ خانے بنوائے جاتے ہیں تاکہ نازک اوقات میں اُن کے ذریعے فرار ہوا جا سکے یا اُن میں پناہ لی جا سکے۔
جلال آباد کا یہ صوبےدار یقیناً ایسے ہی کسی خفیہ راستے سے ضرور آگاہ ہے، تاہم یہ کتنی غیرمناسب بات ہے کہ کوئی شخص یوں چپ چپاتے حویلی میں داخل ہو اَور …..

وہ اَپنے تصویر خانے سے باہر نکلا۔ اُس نے دروازہ بند کر کے لوہے کا بھاری قفل اُس میں ڈالا اور کنجی بڑی احتیاط سے اپنے لمبے چغے کی اندرونی جیب میں رکھی پھر حویلی کے وسیع و عریض صحن کا بغور معائنہ کیا۔
دونوں طرف برآمدوں میں مشعلیں روشن تھیں جن کی روشنی پورے صحن میں پھیلی ہوئی تھی۔
نادر زماں نے دونوں برآمدوں کی سنگین دیواروں کو ہاتھوں سے خوب ٹھوک بجا کر دیکھا۔
اُس کا خیال تھا شاید اِنہی دیواروں میں کہیں خفیہ راستہ موجود ہو گا مگر بےسود ….. کہیں سے بھی دیوار نے کھوکھلے پن کا ثبوت نہ دیا۔

آخر میں وہ تیس ہاتھ اونچے اور دَس ہاتھ چوڑے صدر دَروازے کی طرف گیا جو لکڑی کے موٹے موٹے شہتیروں سے بنا تھا اور جس کے اوپر نیچے اور دَرمیان میں لوہے کی بھاری چادریں میخیں ٹھونک کر لگائی تھیں۔
یہ دروازہ کوئی ڈیڑھ سو برس سے اِسی طرح کھڑا تھا۔
بہت کم مواقع ایسے ہوتے جب اُسے پورا کھولا جاتا۔ وہ بھی اُس وقت کہ کوئی امیر یا وزیر اپنے ہاتھی پر سوار ہو کر حویلی کے اندر آتا، ورنہ آمد و رفت کے لیے بغلی چھوٹے دروازے ہی استعمال کیے جاتے یا وہ چھوٹا سا کھڑکی نما دروازہ جو بڑے دروازے میں بنایا گیا تھا ۔
جس میں سے ایک اونچے قد کا آدمی گردن جھکائے بغیر اندر دَاخل نہ ہو سکتا تھا۔
سبھی دروازے اندر سے مقفل اور اُن کی کنجیاں بوڑھے چوکیدار اَفضل بیگ کے پاس تھیں۔

اتنے میں افضل بیگ حویلی کے زنانہ حصّے سے نکل کر مردانہ حصّے میں آیا۔ اُس نے نادر زماں کو صدر دَروازے کے قریب کھڑے دیکھا، تو سخت حیران ہوا۔ قریب آ کر کہنے لگا:
’’کیا بات ہے برخوردار، کچھ پریشان سے نظر آتے ہو۔ خیر تو ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں بابا۔‘‘ اُس نے گھبرا کر جواب دیا۔
’’مَیں دیکھ رہا ہوں، اِس حویلی میں اِن دروازوں کے علاوہ آنے جانے کا کوئی اور رَاستہ بھی ہے یا نہیں۔‘‘

افضل بیگ نے گھور کر نوجوان مصور کو دیکھا۔ اُس کی بوڑھی وفادار آنکھوں میں شک و شبے کے سائے لرزنے لگے ….. ’’کوئی اور رَاستہ؟‘‘
بوڑھے نے بلند آواز سے کہا۔
’’کیا کہتے ہو نادر زماں، آخر تمہیں اِس وقت یہ سُوجھی کیا ہے؟‘‘

’’اوہ کچھ نہیں، کچھ نہیں ….. بس یونہی!‘‘ ….. نادر نے بات ٹالنا چاہی۔
اُس نے سوچا جلال آباد کے پُراسرار صوبےدار کی آمد کا قصّہ آقائے تبریزی کے سوا اَبھی کسی اور سے کہنا مناسب نہ ہو گا۔
’’یہ بتاؤ بابا جان کہ آقا حویلی میں تشریف رکھتے ہیں یا نہیں؟‘‘

’’وہ آج ذرا دَیر سے آئیں گے۔‘‘ بوڑھے نے جواب دیا۔
’’کسی امیر کے ہاں اُن کی دعوت ہے، کہہ گئے تھے کہ دسترخوان پر اُن کا انتظار نہ کیا جائے۔
فیروزہ کی طبیعت بھی کچھ خراب ہے۔ اُس نے کہہ دیا ہے کہ وہ کھانا نہ کھائے گی، آپ کھانا اندر کھائیں گے یا باہر؟‘‘

’’فیروزہ کی طبیعت خراب ہے؟‘‘ نادر زماں ایک دم بےچین ہو گیا۔ ’’کب سے؟‘‘

’’ابھی کوئی نصف ساعت گزری ہو گی۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔
فیروزہ کو شاید وہ تبریزی سے زیادہ چاہتا تھا۔
وہ بیٹھی ایک کتاب دیکھ رہی تھی، یکایک اُس پر کپکپی طاری ہو گئی۔
کہنے لگی بابا! مجھے جلدی سے کمبل اوڑھا دو۔ مَیں نے اُسے کمبل اوڑھا دیا۔ کپکپی پھر بھی نہ گئی، تب مَیں نے ایک اور کمبل اُس پر ڈال دیا اور اَنگیٹھیاں بھی سلگا دیں۔
اُس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا اور وُہ بار بار کہہ رہی تھی۔ ’بابا! مجھے کیا ہو گیا ہے، میرا دِل کیوں بیٹھا جا رہا ہے۔‘ مَیں وہاں سے آ کر تمہیں بتانا چاہتا تھا، لیکن فیروزہ نے مجھے اپنے پاس سے ہلنے بھی نہ دیا۔
پھر وہ آپ ہی آپ بڑبڑانے لگی ’بابا! اللہ کے لیے یہاں سے نہ جاؤ ….. اگر تم چلے گئے، تو وہ یہاں آ جائے گا ….. اِس وقت وہ مکان میں موجود ہے ….. مجھے اُس سے ڈر لگتا ہے ….. وہ بہت خوفناک ہے ….. بابا! یہاں سے نہ جانا ….. مجھے تنہا مت چھوڑنا …..، فیروزہ کی یہ حالت دیکھ کر مَیں بےحد خوف زدہ ہوا۔
اُس کے اندر سے کوئی اور ہی آواز آ رہی تھی ….. دفعتاً وہ پُرسکون ہو گئی، کپکپی جاتی رہی ….. اُس نے کمبل اتار کر پرے پھینک دیے اور ناراض ہو کر بولی ’یہ دہکتی انگیٹھیاں یہاں کس لیے لائی گئی ہیں۔ اِنھیں فوراً ہٹا دو۔‘ مَیں نے حکم کی تعمیل کی۔ اب وہ بستر میں لیٹی بےخبر سو رہی ہے۔‘‘

’’نادر زماں دم بخود یہ کہانی سنتا رہا۔ بوڑھے افضل بیگ کے ہر جملے پر اُسے اپنے دل کی دھڑکن بند ہوتی محسوس ہوئی ….. کوئی اُس کے قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے پکار رَہا تھا ….. فیروزہ …..!

افضل بیگ کے ساتھ وہ پہلی بار فیروزہ کی خواب گاہ میں داخل ہوا، تو اُس کا تمام بدن مارے ہیبت کے پسینے میں تر تھا۔ ایک خوبصورت چھپرکٹ پر مخملی گدّوں اور ریشمی چادروں میں لپٹی ہوئی اُس کی محبوبہ خوابِ ناز کے مزے لُوٹ رہی تھی۔
اُس کے معصوم چہرے پر سکون تھا اور کسی خوشگوار خواب کے زیرِاثر اُس کے لب مسکرا رَہے تھے۔ نادر زماں مطمئن ہو کر دبے پاؤں اپنے کمرے میں لَوٹ گیا۔

’’صوبےدار جلال آباد؟‘‘ آقائے تبریزی نے نادر زماں کے تصویر خانے میں ٹہلتے ہوئے کوئی دسویں بار یہ جملہ دہرایا۔ ’’صوبےدار جلال آباد؟ لیکن مَیں ایسے کسی صوبےدار کو نہیں جانتا ….. کیا حلیہ بتایا تم نے نادر؟ ہاں ….. مجھے یاد نہیں پڑتا، مَیں کبھی ایسے شخص سے ملا ہوں ….. بالکل یاد نہیں آتا ….. اُس نے بتایا نہیں آخر وہ کس مقصد کے لیے مجھ سے ملنا چاہتا ہے، خیر مَیں یہاں اُس کا انتظار کر لیتا ہوں ….. کل جب وہ آیا تھا، تو کیا وقت ہوا تھا۔ مغرب کے فوراً بعد ….. سات بجے ….. اچھا اچھا ….. چلو اَبھی بھید کھلا جاتا ہے۔ اُسے آنے تو دو ….. لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ سات بجنے والے ہیں اور صوبےدار کا کہیں پتا نہیں۔‘‘

جناب اُنھوں نے سخت تاکید سے فرمایا تھا کہ وہ کل اِسی وقت تشریف لائیں گے۔ اُنھیں کسی اہم معاملے پر آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘
نوجوان مصور نے ادب سے عرض کیا۔
’’میرا خیال ہے وہ آیا ہی چاہتے ہوں گے۔‘‘

’’ممکن ہے وہ اَپنی یا اپنے کسی عزیز کی تصویر بنوانا چاہتے ہوں۔‘‘
تبریزی نے کہا۔
یہی بات ہو گی۔ اِس سے زیادہ اَہم بات اور مجھ سے وہ کیا کریں گے؟ مَیں وزیر نہ امیر، نہ بڑے عہدےدار، ایک معمولی مصور ہوں۔

نادر زماں نے کمرے کی دونوں کھڑکیاں کھلی چھوڑ دی تھیں۔ ایک وہ جو گلی میں اور دُوسری وہ جو اَندرونی صحن کی جانب کھلتی تھی۔ وہ باری باری دونوں کھڑکیوں سے جھانکتا رہا، تاکہ صوبےدار جلال آباد کو آتے ہوئے دیکھے اور فوراً اپنے استاد کو خبر دے لیکن ہر بار اُس کی نگاہیں ناکام پلٹ آتیں۔
آخر شہر کے گجر نے شام کے سات بجنے کا اعلان کیا، جونہی گجر کی آواز تھرتھراتی ہوئی فضا میں گم ہوئی، نادر زماں نے اپنے اعصاب میں ایک حیران کن تناؤ محسوس کیا۔
دل کی دھڑکن آپ ہی آپ تیز ہونے لگی۔ اپنی یہ کیفیت وہ آقائے تبریزی کی نگاہوں سے بچانے کے لیے گلی کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے قریب جا کھڑا ہوا۔
وہ جانتا تھا کہ جو کوئی بھی حویلی میں داخل ہونا چاہے، خواہ صدر دَروازے سے، خواہ دَائیں بائیں چھوٹے بغلی دروازوں سے، اُسے بہرحال گلی ہی میں سے آنا ہو گا۔
ہر راہ گیر کے قدموں کی چاپ سن کر وہ چونک اٹھتا اور خوب غور سے دیکھتا، لیکن صوبےدار جلال آباد کا کہیں پتا نہ تھا۔

’’بھئی وہ شخص ابھی تک نہیں آیا۔‘‘ تبریزی نے بےچینی سے کہا
’’کیا تم نے سنا نہیں کہ سات بج چکے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ دوبارہ کمرے میں ٹہلنے لگا، پھر اُس نے باری باری اُن تصویروں پر نظر دوڑائی جو نادر زماں نے تیار کر کے ایک طرف سجا دی تھیں۔
جلال آباد کا صوبےدار! اللہ جان کون شخص ہے …..وہ پھر بولا
’’حیرت ہے مَیں خود آج تک جلال آباد نہیں گیا ….. اُس نے اپنا نام بھی بتایا تھا؟‘‘

’’جی نہیں ….. صرف اتنا ہی کہا تھا کہ وہ جلال آباد کے صوبےدار ہیں۔ اِس سے پیشتر کہ مَیں اُن سے کچھ دریافت کرنے کی جرأت کرتا، وہ ایک دم تشریف لے گئے، تاہم وہ اَپنی چال ڈھال، لباس اور گفتگو سے واقعی معزز، باوقار اَور اَچھی حیثیت کے نظر آتے تھے۔
اُن کی پگڑی میں جو ہیرا لگا تھا، مَیں نے آج تک اتنا بڑا اَور قیمتی ہیرا نہیں دیکھا۔
میرا خیال ہے جناب اِس ہیرے …..‘‘

یکایک تصویر خانے کا دروازہ آواز پیدا کیے بغیر کھلا اور جلال آباد کا صوبےدار اَندر دَاخل ہوا۔ اُس کا لباس وہی تھا جو اُس نے گزشتہ شام پہن رکھا تھا۔
نادر زماں نے اُسے گلی میں سے آتے نہ دیکھا تھا، لیکن یہ موقع اِس امر پر غور کرنے کا نہ تھا کہ پھر کدھر سے آیا۔ اُس نے جلدی سے اُس کا تعارف کراتے ہوئے کہا:

’’جناب! معزز ملاقاتی تشریف لے آئے ہیں۔‘‘
پھر وہ آنے والے سے مخاطب ہوا۔
’’یہ ہیں محترم آقائے تبریزی جن سے ملاقات کے آپ متمنی تھے۔‘‘

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آقائے تبریزی اپنی جگہ بت بنا کھڑا تھا۔ اُس نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھانے کی جرأت بھی نہ کی۔
صوبےدار نے دہکتی آنکھیں تبریزی کے چہرے پر جما دیں۔ نادر زماں نے دیکھا کہ اُن آنکھوں سے چنگاریاں سی پھوٹ رہی تھیں۔ چند لمحے کمرے میں بھیانک خاموشی چھائی رہی۔
ایسی خاموشی جس میں استاد شاگرد، دونوں ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن بخوبی سن رہے تھے۔

’’آقائے تبریزی! مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ نووارد نے بھاری، تحکمانہ لہجے میں کہا۔

’’فرمائیے جنابِ عالی! مَیں ہمہ تن گوش ہوں، لیکن کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ آپ میرے ساتھ دوسرے کمرے میں تشریف لے چلیں۔ وہاں آپ کے تشریف رکھنے کا شایانِ شان انتظام ہے۔‘‘
آقائے تبریزی نے مرعوب ہو کر بھرائی ہوئی آواز میں درخواست کی۔

صوبےدار نے بےپروائی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ’’نہیں! وہ بات یہیں ہو گی اور بیٹھنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ….. مجھے فوراً واپس جانا ہے۔ سمجھے؟‘‘

’’سمجھ گیا عالی جاہ! حکم فرمائیے ….. مَیں ہر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔‘‘ تبریزی نے تھرتھر کانپتے ہوئے کہا۔
چند لمحوں کے اندر اَندر اُس کی حالت میں ایک عظیم تغیر رونما ہو چکا تھا۔
اب وہ صوبےدار کے سامنے ادنیٰ غلام کی طرح دست بستہ کھڑا تھا، حالانکہ آقائے تبریزی وہ شخص تھا جو شہنشاہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنا تو جانتا ہی نہ تھا۔
بڑے بڑے آدمیوں کو اَپنے دروازے سے یہ کہہ کر لَوٹا دیتا کہ ملاقات کی فرصت نہیں۔
یوں بھی اپنے زمانے کا لاثانی مصوّر تھا اور اُسے خوشامد، تملّق اور چاپلوسی سے فطری طور پر نفرت تھی، مگر اب وہی تبریزی ایک معمولی صوبےدار کے سامنے پالتو کتے کی طرح دم ہلا رہا تھا۔
یہ سب باتیں نادر زماں کے ذہن میں ایک دم آئیں اور گزر گئیں۔ خود اُس کی باطنی حالت تبریزی سے کم نہ تھی۔ صوبےدار جلال آباد کی شخصیت کا رعب اُس پر بھی تو بیٹھ چکا تھا۔

’’کیا حضور سے مجھے پہلے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے؟‘‘ تبریزی نے گردن جھکائے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں ….. یہ پہلا موقع ہے کہ تم ہمیں دیکھ رہے ہو۔‘‘
صوبےدار مسکرایا، مگر اُس کی آواز میں ابھی تک ویسا ہی تحکم تھا جیسے وہ مخاطب کو اپنا زرخرید غلام سمجھتا ہو۔
’’ہم تمہیں اپنے علاقے میں بھی طلب کر سکتے تھے، لیکن پھر ہم نے یہی مناسب سمجھا کہ خود تمہارے پاس جائیں، بات ہی کچھ ایسی ہے تبریزی۔‘‘

’’میری بڑی خوش نصیبی ہے عالی جاہ کہ آپ نے غریب خانے پر قدم رنجہ فرمایا۔ بےتکلف ارشاد فرمائیے، مَیں کیا خدمت بجا لاؤں۔‘‘

صوبےدار نے نادر زماں کی طرف دیکھا جو اَب حد درجہ خوف زدہ ہو کر اَپنے آقا کی پشت پر جا کھڑا ہوا تھا۔ ’’تبریزی! کیا یہ نوجوان قابلِ اعتماد ہے؟‘‘

’’بےشک سرکار! یہ میرا نہایت ہونہار شاگرد نادر زماں ہے اور ہر طرح بھروسے کے لائق ہے۔‘‘

’’بہت خوب …..!‘‘ صوبےدار نے کہا اور اَپنے لبادے میں ہاتھ ڈال کر ہاتھی دانت کا بےحد نازک اور بیش قیمت ڈبا برآمد کیا۔
’’اِس میں کچھ جواہر اور زیور ہیں۔‘‘ اُس نے بھاری آواز میں کہا۔
’’اِس نوجوان کو حکم دو کہ ابھی یہ ڈبا لے کر کسی اچھے جوہری کے پاس جائے اور اِن تمام زر و جواہر کی مالیت کا اندازہ کروا کر وَاپس لائے۔
جتنی قیمت بھی اِن کی لگے، وہ ایک کاغذ پر لکھی ہونی چاہیے۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے تبریزی کی طرف ڈبا بڑھا دیا۔

اُس نے بڑے ادب سے دونوں ہاتھوں میں اُسے تھام لیا۔ اب وہ صوبےدار جلال آباد سے بےحد مرعوب ہو گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پورا ڈبا جواہر اور سونے کے زیوروں سے بھرا ہے۔
تبریزی نے ڈبا کھولے بغیر نادر زماں کی طرف بڑھا دیا اور صوبےدار کے الفاظ دہرا دِیے۔
نوجوان نے اپنے چغے کے اندر ڈبا چھپا لیا اور گردن کو خم دے کر دروازے سے باہر نکلا۔
اُس کے ہاتھ پیر بری طرح لرز رہے تھے۔ اِس کیفیت پر قابو پانے کی ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بدروح اُس کے تعاقب میں ہے۔

حویلی سے باہر نکل کر اُس کے حواس کچھ قابو میں آئے اور ذہن کام کرنے کے قابل ہوا۔ وہ حیران تھا کہ صوبےدار جلال آباد کیا اِسی اہم بات کے لیے تبریزی کے پاس آیا ہے؟
آخر اپنے اِس زر و جواہر کی قیمت وہ خود بھی کسی جوہری سے لگوا سکتا تھا۔ پھر اُس نے آقائے تبریزی کو اِس کام کے لیے کیوں منتخب کیا؟
نادر زماں جتنا اِس سوال پر سوچتا، اتنا ہی پریشان ہونے لگتا۔ یہ ایسا معاملہ تھا جو اُس کے لیے ناقابلِ فہم ثابت ہو رہا تھا۔

دو تین بازاروں سے نکل کر وہ ایک چھوٹی سی تنگ گلی میں داخل ہوا جہاں فانوس اور مشعلوں کی روشنی میں گویا دن نکلا ہوا تھا۔
یہ شہر کا صرافہ بازار تھا اور نامی گرامی جوہریوں کی دکانیں یہیں تھیں۔ اُن میں سے کئی جوہری اُسے اچھی طرح جانتے پہچانتے تھے، کیونکہ وہ اُن کی تصویریں بنا چکا تھا۔
اپنے شناسا ایک جوہری کی دکان پر پہنچ کر اُس نے ہاتھی دانت کا ڈبا چغے کے اندر سے نکال کر اُس کے سامنے دھر دیا۔ جوہری نے اشتیاق بھری نظروں سے اُس کا جائزہ لیا اور کہنے لگا:

’’آؤ میاں مصور! کیسے آنا ہوا، اِس ڈبے میں کیا لائے ہو؟‘‘

’’مجھے کچھ خبر نہیں اِس میں کیا ہے۔‘‘ نوجوان نے پھولا سانس درست کرتے ہوئے کہا۔
’’آقائے تبریزی کے پاس ایک معزز مہمان تشریف لائے ہیں۔ یہ ڈبا اُن کا ہے اور وُہ فرماتے ہیں اِس میں جو کچھ ہے، اُس کی مالیت ایک کاغذ پر لکھوا کر لے آؤ۔‘‘

جوہری نے احتیاط سے ڈبے کا ڈھکنا کھولا اور حیرت سے اُس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ڈبا اوپر تک لعل و یاقوت، الماس اور سونے کے بھاری زیوروں سے بھرا تھا۔ تیز روشنی اُن جواہر پر پڑی، تو آنکھیں چندھیانے لگیں۔

’’اللہ کی پناہ ….. اِس کی قیمت کا مَیں کیا اندازہ کروں۔‘‘ جوہری چلّا اُٹھا۔
’’میرا خیال ہے اعلیٰ حضرت شہنشاہ کے جواہر خانے میں بھی ایسے نادر اَور نایاب پتھر نہ ہوں گے۔ بہرحال اِن کی قیمت کا سرسری اندازہ کئی لاکھ روپے کے لگ بھگ ہو گا۔
یہ ڈبا بجائے خود خاصی قیمت کا ہے اور مَیں دیکھتا ہوں بےحد پرانا بھی، تاہم اِسے بڑی حفاظت سے اب تک رکھا گیا ہے۔‘‘

جوہری بار بار ایک ایک ہیرا اُٹھاتا اور دِیوانہ وار خوشی سے جھومتے ہوئے اُس کی تعریف میں قصیدے کہنے لگتا۔ ’’غضب ہو گیا ….. میاں ایسا نایاب الماس تو دنیا بھر میں کہیں نہ ملے گا ….. اور یہ زمرد …..
اکیلا یہی ایک لاکھ روپے کا ہو گا ….. اور یہ جڑاؤ ہار ….. خالص سونے کا ہے ….. اِس میں کھوٹے برائے نام ہے ….. کسی ماہر کاریگر کے ہاتھ کا شاہکار ہے ….. ایسے باکمال لوگ اب کہاں؟ بھئی یہ نادر خزانہ ہے۔‘‘

’’جناب! مجھے واپس بھی جانا ہے۔‘‘
نوجوان نے دبی آواز میں جوہری سے کہا۔
’’آپ کی بڑی نوازش ہو گی، اگر ایک کاغذ پر مالیت کے بارے میں کچھ تحریر فرما دیں۔‘‘

’’ابھی لو ….. ابھی لو …..‘‘ جوہری نے اپنی تجوری کھول کر خاص کاغذ نکالا اور ذرا سی دیر میں حساب کتاب کر کے نادر زماں کے حوالے کیا۔
نوجوان مصور نے احتیاط سے تمام زر وَ جواہر دوبارہ ڈبے میں ڈالے، اُسے بند کیا، اپنے چغے کے اندر رَکھا اور سلام کر کے رخصت ہونے لگا۔ جوہری نے آہستہ سے کہا:

’’دیکھو میاں! اگر اِس مال کو بیچنے کا اِرادہ ہو، تو سیدھے یہیں آنا ….. میرا خیال ہے قیمت میں کچھ اور اِضافہ بھی ہو سکتا ہے ….. مَیں دوسروں سے کچھ زیادہ ہی دینے کو تیار ہوں۔‘‘

’’جناب! اِس بارے میں کوئی فیصلہ آقائے تبریزی کے مقتدر و معزز ملاقاتی ہی فرما سکتے ہیں جن کی ملکیت یہ جواہر ہیں۔ مَیں تو صرف قیمت کا اندازہ کروانے حاضر ہوا تھا۔‘‘

جب وہ وَاپس حویلی میں پہنچا، تو اُس نے اپنے کمرے میں آقائے تبریزی اور صوبےدار جلال آباد کو محوِ گفتگو پایا۔ اُس نے ڈبا ادب سے پیش کیا۔ پھر جوہری کی تحریر بھی حوالے کر دی۔
صوبےدار نے بےپروائی سے ڈبا ایک طرف رکھ دیا۔ کاغذ پر نگاہ ڈالی اور اُسے تبریزی کی طرف بڑھا دیا۔
تبریزی نے اُسے پڑھا۔ اُس کے چہرے پر خوف کے پھیلے ہوئے آثار کے ساتھ ساتھ اب حیرت کے آثار بھی شامل ہو گئے۔

نادر زماں نے وہاں سے رخصت ہونے کی اجازت طلب کی، مگر تبریزی نے اُسے وہیں ٹھہرنے کا حکم دیا۔ ظاہر ہے ایسے قابلِ اعتماد نوجوان سے کوئی بات چھپائی نہ جا سکتی تھی۔ وہ اَدب سے ایک جانب کھڑا ہو گیا۔

’’جنابِ والا! آپ نے ابھی تک ارشاد نہیں فرمایا کہ اِس خادم کے غریب خانے تک زحمت فرمانے کی اصل وجہ کیا ہے؟‘‘ تبریزی نے کہا۔ ’’ظاہر ہے زر وَ جواہر کی قیمت کا تخمینہ تو آپ خود بھی کہیں سے لگوا سکتے تھے۔‘‘

’’بےشک ….. میرے آنے کی ایک خاص وجہ ہے تبریزی۔‘‘
صوبےدار نے کہا۔ نادر زماں نے دیکھا کہ وہ پلک جھپکائے بغیر تبریزی کو دیکھ رہا ہے اور اُس کی نگاہوں میں عجب سحر کی سی تاثیر ہے۔ خود نادر زماں کو اپنی قوتِ ارادی سلب ہوتی محسوس ہوئی۔

’’بیان فرمائیے، مَیں ہمہ تن گوش ہوں۔‘‘

’’سنو کوئی چار ماہ پہلے کا ذکر ہے تم ہماری جاگیر جلال آباد کے قریب سے گزرے تھے ….. بلاشبہ تم قصبے کے اندر دَاخل نہیں ہوئے، ورنہ ہمارے آدمی تمہیں فوراً ہم سے ملا دیتے ….. ہم نے تمہاری تعریف سنی ہے اور جانتے ہیں کہ تم بہت پائے کے مصور ہو ….. خیر تمہارا قافلہ قصبے کے باہر ہی رک گیا تھا۔
ایک خاص وجہ کے باعث ہم تم سے ملنے کے لیے نہ آ سکتے تھے۔
بہرحال تم مغرب کی نماز پڑھنے اُس قدیم مسجد میں گئے تھے جو عرصۂ دراز سے غیرآباد اَور وَیران پڑی تھی۔
وہیں ہم نے تمہیں دیکھا۔ تمہارے ساتھ ایک خادم تھا اور تمہاری نوجوان بھانجی فیروزہ بھی ….. ہم نے فیروزہ کو دیکھا اور پسند کیا ….. وہ حُسن و جمال میں یکتا ہے۔
اِس قابل ہے کہ کسی بڑے گھر میں بیاہی جائے، اگرچہ ہم بڑے جاگیردار نہیں، لیکن تم دیکھتے ہو کہ ہمارے پاس بادشاہوں سے کہیں زیادہ مال و دولت ہے، اگر تم فیروزہ کو ہمارے نکاح میں دے دو، تو وہ ہر طرح خوش رہے گی۔
فیروزہ کا نکاح تم کب تک میرے ساتھ کر سکو گے ….. مَیں پختہ وعدہ چاہتا ہوں اور اِس سلسلے میں کسی تاخیر یا ٹال مٹول کو پسند نہ کروں گا۔‘‘

آقائے تبریزی پر اِس تحکمانہ تقریر اور بےجا مطالبے پر جو گزری، سو گزری، نوجوان مصور نادر زماں کا مارے طیش کے برا حال ہو گیا۔
اُس کا بس چلتا، تو وہ خبیث صورت جاگیردار بڈھے کا سر پاش پاش کر دیتا۔
کیا وہ پتھر کے چند چمک دار ٹکڑوں کے عوض فیروزہ کو خریدنے آیا ہے، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔
ہرگز نہیں ہو سکتا ….. اُس کا چہرہ لال بھبوکا ہو گیا جیسے بدن کا سارا خون کھینچ کر چہرے اور آنکھوں میں سمٹ آیا ہو۔

وہ سمجھ رہا تھا کہ اب آقائے تبریزی کے صبر کی انتہا ہو چکی ہو گی۔ جلال آباد کے اِس احمق صوبےدار کو اِس کی موت ہی یہاں لے آئی ہے۔ کس گستاخی اور بےباکی سے وہ فیروزہ کا سودا کرنے آیا ہے۔
کوئی بھی غیرت مند آدمی اِسے برداشت نہیں کر سکتا ….. لیکن ….. اُس نے دیکھا کہ آقائے تبریزی اُسی طرح بےحس و حرکت بیٹھا رہا۔ اُس کے منہ سے مخالفت یا انکار میں ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔
البتہ اُس کے چہرے پر پھیلی ہوئی حیرت کے آثار اَب اور بھی گہرے ہو گئے تھے۔
خود اُسے بھی صوبےدار جلال آباد سے اِس قسم کے مطالبے کی توقع نہ تھی۔ آخر اُس نے حد درجہ ندامت اور اِنکسار آمیز لہجے میں کہنا شروع کیا۔

’’عالی جاہ! مَیں نے آپ کا ارشاد سماعت کیا۔ میری عین خوش قسمتی ہے کہ آپ کی نگاہِ انتخاب میری بھانجی فیروزہ پر پڑی ہے۔
یقیناً اُسے آپ سے بہتر شوہر نہیں مل سکتا، اگر میرے اختیار میں ہو، تو مَیں ابھی اِسی وقت ہاں کر دیتا، لیکن آپ جانتے ہیں کہ مَیں نے آج تک فیروزہ پر اَپنی رائے یا مرضی مسلط نہیں کی۔
ہمیشہ اُسے اپنے معاملات میں آزادی سے سوچنے اور عمل کرنے کی اجازت دی ہے اور یہ تو اُس کی زندگی کا سب سے اہم معاملہ ہے۔ اُس سے مشورہ کیے بغیر مَیں کیونکر وعدہ کر سکتا ہوں؟‘‘

’’بہانے بنانے کی کوشش مت کرو تبریزی۔‘‘ صوبےدار غرّایا اور اُس کے نتھنے طیش کے باعث پھڑکنے لگے۔ آنکھیں جو پہلے ہی سرخ تھیں، لال انگارہ ہو گئیں۔ اُس کی خوفناک آواز حویلی کے در وَ دِیوار سے ٹکرا ٹکرا کر گونجنے لگی جیسے سینکڑوں بدروحیں چلّا رہی ہوں۔
’’مَیں سمجھتا ہوں تمہاری اِن چال بازیوں کو۔ تم اُس کے ہر طرح سرپرست اور وَلی ہو ….. بولو کیا مَیں غلط کہتا ہوں؟
اگر تم چاہو، تو سب کچھ ممکن ہے۔ فیروزہ کو تمہارے حکم سے سرتابی کی مجال ہی نہیں ہو سکتی ….. اور مجھے فیروزہ پسند آ گئی ہے مَیں اُسے حاصل کر کے رہوں گا۔‘‘

’’مجھے اِس رشتے سے کوئی انکار نہیں ہے۔‘‘ تبریزی نے کہا۔
’’مَیں تو اِس معاملے میں صرف فیروزہ کی رضامندی حاصل کرنے کی بات کر رہا تھا ….. آپ دولت کے ذریعے فیروزہ کو تمام خوشیاں تو دے سکیں گے ….. لیکن رشتے ناتے کرنے میں صرف دولت ہی کو تو نہیں دیکھا جاتا، حسب نسب بھی کوئی چیز ہے۔
ہم لوگ اِس معاملے میں خاصے سخت ہیں۔ مجھے ابھی تک آپ کے حسب نسب کے بارے میں کچھ بھی جاننے کا موقع نہیں ملا۔‘‘

صوبےدار مسکرایا اور اَپنے سیاہ لبادے کے اندر ہاتھ ڈال کر پرانے کاغذوں کا ایک چھوٹا سا پلندہ برآمد کیا۔

’’مَیں جانتا تھا تم یہ سوال ضرور کرو گے، اِس لیے اپنے شجرے کے کاغذات ساتھ ہی لے آیا۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے وہ پلندہ تبریزی کی طرف پھینک دیا۔
تبریزی نے جھک کر فرش سے کاغذ اُٹھائے، اُنھیں ایک نظر دیکھا، اثبات میں کئی بار گردن ہلائی، جیسے مطمئن ہو گیا ہو۔ پھر یہ کاغذ اُسے واپس کرتے ہوئے کہا:

’’مجھے اطمینان ہو گیا ہے عالی جاہ کہ آپ بہت اعلیٰ حسب نسب کے مالک ہیں …..‘‘

’’بس، تو پھر تاخیر نہ کرو۔‘‘ بڈھے نے ایک اور کاغذ برآمد کرتے ہوئے کہا۔ یہ ہمارے اور تمہارے درمیان ایک معاہدہ ہے جس کے تحت مَیں اپنا زر وَ جواہر سے بھرا ہوا یہ ڈبا تمہارے پاس چھوڑے جا رہا ہوں۔
اِس کی وصولیابی کی رسید مجھے دو اَور کاغذ پر لکھ دو کہ فیروزہ کی شادی مجھ سے کر دو گے۔
مَیں زیادہ دھوم دھڑکا پسند نہیں کرتا ….. یہ کام بالکل خاموشی سے ہونا چاہیے ….. اب فوراً اِس پر دستخط کر کے میرے حوالے کر دو۔‘‘

’’مگر ….. حضور ….. اتنی جلدی ….. مجھے کچھ غور کرنے کا موقع تو دیجیے۔‘‘ تبریزی گڑگڑایا۔

’’موقع!‘‘ صوبےدار نے قہقہہ لگایا۔
’’مَیں نے ہر طرح تمہاری تسلی کر دی ہے اور تم ہو کہ برابر بہانے بنا رہے ہو ….. جلد دستخط کر دو۔ میرا خیال ہے کہ ایک دن کی مہلت مناسب رہے گی۔‘‘

اُس نے ایک بار پھر اپنے سیاہ لبادے میں ہاتھ ڈالا اور ایک عمدہ قلم دان نکال کر سامنے رکھ دیا۔

’’اگر تمہارے پاس قلم دان نہیں، تو یہ موجود ہے۔ مَیں احتیاطاً ساتھ لیتا آیا تھا۔‘‘

تبریزی نے قلم روشنائی میں ڈبویا اور کپکپاتے ہاتھ سے دستخط کر دیے۔

’’اِدھر آؤ نوجوان!‘‘ صوبےدار نے نادر زماں سے کہا۔ ’’تم اِس کاغذ پر بطور گواہ دَستخط کرو۔‘‘

ایک سحرزدہ غلام کی مانند نادر زماں نے بھی اُس پروانے پر دستخط ثبت کر دیے جس کے تحت صرف ایک دن بعد جلال آباد کا صوبےدار ہمیشہ کے لیے فیروزہ کا مالک بن جانے کا حق رکھتا تھا۔
دستخط ہوتے ہی اُس نے معاہدے کا کاغذ لپیٹ کر اپنے لبادے کی خفیہ اندرونی جیب میں رکھ لیا اور دَروازے کے قریب جاتے ہوئے بولا:

’’تبریزی! مَیں کل رات ٹھیک نو بجے تمہارے مکان پر پہنچ جاؤں گا اور غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے مابین جو تحریری معاہدہ ہوا ہے، تم ہر طرح اُس کی پابندی کرو گے۔‘‘

یہ کہتے ہی رخصتی سلام اور مصافحہ کیے بغیر وہ دَروازے سے باہر نکل گیا۔ ناردزماں لپک کر گلی کی جانب کھلنے والی کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔ گلی سنسان پڑی تھی ۔
اُسے پورا یقین تھا کہ اب وہ صوبےدار کو اِس راستے سے جاتے ہوئے ضرور دَیکھ سکے گا، لیکن وقت گزرنے لگا ….. صوبےدار گلی میں نمودار نہ ہوا …..۔
نہ وہ صدر دَروازے سے باہر گیا ….. بلکہ وہ تو حویلی کے کسی بھی دروازے سے باہر نہ آیا ….. سبھی دروازے بعدازاں اندر سے مقفل پائے گئے۔
یہ ایک ایسی دہشت انگیز دریافت تھی جس نے نوجوان مصور کو ہلا کر رکھ دیا۔
وہ سوچنے لگا کہ یہ صوبےدار کون ہے؟ کہیں انسانی قالب میں کوئی بھوت پریت، شیطان یا جن تو نہیں؟ پھر اُس نے اپنے آقا کو دیکھا جو گم صم اپنی جگہ کھڑا تھا۔
نادر زماں کو واپس آتے دیکھ کر وہ چونکا اور سرد آہ بھر کر بولا:

’’میرا خیال ہے یہ شخص کچھ سنکی ہے ….. یہی جلال آباد کا صوبےدار ….. لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ آدمی دولت مند اور خاندانی ہے ….. مَیں حیران ہوں اُس نے فیروزہ کو کیسے دیکھا؟
واقعی مَیں چار ماہ قبل حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ کے مزار کی زیارت کے لیے گیا تھا اور فیروزہ ساتھ تھی۔
مجھے یاد نہیں پڑتا راہ میں جلال آباد نام کی کوئی جاگیر بھی آئی تھی، لیکن وہ تو یہاں سے خاصی دور ہے ….. کیا خیال ہے تمہارا نادر ….. فیروزہ کی شادی ایسے آدمی سے ٹھیک رہے گی نا؟‘‘

کاش! آقائے تبریزی کو اِن دونوں کی محبت کا حال معلوم ہوتا، تب وہ یہ سوال نادر زماں سے نہ کرتا۔
نوجوان نے بڑی مشکل سے اپنے آنسو ضبط کیے، لیکن اِس ضبط کے باوجود اُس کی اتھاہ گہرائیوں سے سرد آہ نکل ہی گئی۔
وہ لڑکھڑایا اور اَگر تبریزی آگے بڑھ کر اُسے سنبھالا نہ دیتا، تو شاید وہ پختہ فرش پر اوندھے منہ جا گرتا۔

’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ تبریزی نے پوچھا۔ ’’تم نے آج کھانا بھی نہیں کھایا۔‘‘

’’مجھے آج بھوک لگی ہی نہیں جناب۔ بس ویسے ہی ایک چکر سا آ گیا تھا۔ اب آپ اپنے محل میں تشریف لے جائیں اور مجھے اجازت دیں۔
ایک ضروری کام سے مجھے باہر جانا ہے، مَیں رات کو واپس نہ آ سکوں گا۔ بابا افضل بیگ سے کہہ دیجیے گا وہ میرا اِنتظار نہ کرے۔‘‘

وہ ڈرتا تھا کہیں اُس کی اور فیروزہ کی محبت کا راز فاش ہی نہ ہو جائے۔ یقیناً جذبات سے مجبور ہو کر وہ کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے گا جس سے یہ سربستہ راز کھل سکتا تھا، لہٰذا حویلی سے چلے جانا ہی مناسب تھا۔

تبریزی نے زر و جواہر سے بھرا ہوا وُہ ڈبا ساتھ لیا اور سیدھا فیروزہ کی خواب گاہ میں پہنچا۔ اُسے پورا بھروسا تھا کہ وہ اُس کی بات نہ ٹالے گی۔

’’فیروزہ بیٹی کیا حال ہے؟ نصیبِ دشمناں طبیعت تو خراب نہیں تمہاری …..‘‘

’’اب تو مَیں ٹھیک ہوں ماموں جان۔ آپ کل اپنے اُس طبیب دوست کو ضرور بلوا لیجیے گا جنہوں نے پہلے بھی میرا علاج کیا تھا۔ کل سے آپ ہی آپ میرا جی گھبرا رَہا ہے ….. کلیجا جیسے بیٹھا جاتا ہے ….. سر میں چکر آتے ہیں اور عجیب طرح کے ڈراؤنے خواب نظر آنے لگتے ہیں۔‘‘

’’اچھا! کسی نے مجھ سے ذکر ہی نہ کیا۔‘‘ تبریزی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’خیر طبیب بھی کل آ جائے گا۔ اب تم ایک خوشخبری سنو۔
بیٹی تم جانتی ہو، مجھے تم دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز اور پیاری ہو ….. مَیں نے تمہارے لیے ایک ایسا آدمی چُنا ہے جو تمہیں پسند کرتا ہے اور مجھے یقین ہے وہ ہمیشہ تمہیں خوش رکھنے کی کوشش کرے گا۔
اُس کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں۔ آج وہ میرے پاس آیا تھا۔ یہ دیکھو ….. تمہارے لیے وہ کتنے نادر ہیرے اور کیسے عمدہ زیور لایا ہے۔
وہ جلال آباد کا صوبےدار ہے بیٹی۔ بڑا وَجیہ ….. مَیں اُس کی شخصیت سے بےحد متاثر ہوا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر اُس نے وہ ڈبا کھول کر ہیرے دکھانے شروع کیے، مگر فیروزہ نے نظر اٹھا کر ایک مرتبہ بھی اُس ڈبے کی طرف نہ دیکھا، بلکہ ایک دم اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور بری طرح رونے لگی۔
یہ تو اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اِس طرح اُس کے جذبات کچل دیے جائیں گے اور یوں دولت کے عوض اُس کے جسم و جاں کا سودا ہو گا۔

’’مَیں نے یہ سب کچھ تمہارے شاندار مستقبل کے لیے کیا ہے بیٹی۔‘‘ اُس نے پھر کہا۔
’’کہیں نہ کہیں آخر تمہاری شادی تو کرنی ہی تھی اور مَیں سمجھتا ہوں ایسا شوہر تمہیں نہ ملتا۔ وہ تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔
مَیں نے اِس بھروسے پر کہ تم اپنے ماموں تبریزی کو ذلیل ہوتے دیکھنا نہ چاہو گی، ہاں کر دی ہے۔ اب وہ کل شب نو بجے آئے گا، اُسی وقت تمہارا نکاح ہو گا اور پھر تم رخصت ہو جاؤ گی۔

فیروزہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جواب دینے کا موقع تھا بھی کہاں۔ اُس کے حسین خواب چکنا چُور ہو چکے تھے۔ گویا نادر زماں سے اُس کی شادی نہیں ہو سکتی تھی۔
وہ مفلس اور قلاش تھا جو شاید فیروزہ کو ایک نیا جوڑا بھی سلوا کر دینے کے قابل نہ تھا، مگر فیروزہ کو تو کچھ نہیں چاہیے ….. زیور ….. ہیرے ….. جواہر ….. بیش قیمت کپڑے ….. اور کسی علاقے کا جاگیردار یا نواب ….. اُسے اِن میں سے کسی سے ذرہ برابر دلچسپی نہ تھی۔ تبریزی نے اُس کی آرزوؤں، امیدوں اور خواہشوں کا غلط اندازہ کیا تھا۔

اگلے روز بھی تبریزی نے وقت کا بڑا حصّہ فیروزہ کو سمجھانے بجھانے اور مستقبل کی روشن تصویر دکھانے میں گزارا۔ لڑکی برابر گہرہائے اشک برسا رہی تھی۔
اِس دوران اُس نے ایک لفظ بھی منہ سے نہ کہا، نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ ایک دن میں اُس کے چہرے کا رنگ روپ اور آب و تاب سب غائب ہو گئی اور وُہ برسوں کی بیمار دِکھائی دے رہی تھی۔

دوپہر کو نادر زماں حویلی میں آیا۔ وہ اِتنا مضمحل، اتنا نحیف نظر آتا تھا کہ تبریزی اُس کی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ آنکھیں سُوجھی ہوئیں، بال بکھرے اور اُلجھے ہوئے اور لباس ازحد کثیف۔
ہونٹوں پر پپڑیاں جمی تھیں۔ تبریزی نے آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اُس کا سارا بدن بری طرح پھنک رہا تھا۔

’’تمہیں تو خاصا تیز بخار ہے نادر۔‘‘ تبریزی چلّایا۔ ’’مَیں ابھی طبیب کو بلواتا ہوں۔ گزشتہ دو روز سے فیروزہ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔ کہتی ہے سر چکراتا ہے۔‘‘

’’آپ براہِ کرم میرے لیے طبیب کو بلوانے کی زحمت نہ فرمائیے۔‘‘ نوجوان نے رک رک کر نہایت ادب سے التجا کی۔ ’’مَیں اِس قسم کی بیماریوں کا عادی ہوں، البتہ یہ درخواست ضرور کروں گا کہ فی الحال فیروزہ کے لیے بھی طبیب کو طلب نہ کیجیے۔
آپ صوبےدار جلال آباد سے جو وعدہ فرما چکے ہیں، اُسے پورا کرنے کے انتظامات فرمائیے۔ ممکن ہے طبیب اُس میں مخل ہو اَور اِس طرح صوبےدار ناراض ہو جائے۔‘‘

’’سچ کہتے ہو ….. سچ کہتے ہو۔‘‘ تبریزی نے خوش ہو کر کہا۔ ’’ابھی تم اپنی نگرانی میں حویلی کی صفائی وغیرہ کروا دَو۔ نوکر وغیرہ آنے والے ہیں۔ اُس کے بعد بڑے کمرے میں معزز مہمان کی نشست کا انتظام کرنا ہو گا۔ رات کے کھانے پر تم بھی ہمارے ساتھ شرکت کرو گے۔ باہر سے میرا اِرادہ کسی کو مدعو کرنے کا نہیں۔‘‘

نوجوان نے اپنے استاد کے تمام احکام کی تعمیل جان توڑ کر کی اور پوری حویلی کو آئینے کی مانند چمکا دیا۔ نشست کے کمرے میں نئے قالین بچھائے گئے اور ایک جانب شاندر مسند دولہا کے لیے تیار ہوئی۔
شاہی رکاب داروں سے جلدی جلدی کئی کھانے پکوائے اور اُنھیں معزز مہمان کے آنے سے پیشتر ہی رخصت کر دیا گیا۔ نو بجنے میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔
حویلی میں اُس وقت نکاح خواں قاضی، اُس کے دو شاگردوں، تبریزی، بابا افضل بیگ اور نادر زماں کے سوا کوئی نہ تھا۔ قاضی سے طے پا چکا تھا کہ نکاح کی رسم ادا ہوتے ہی وہ تشریف لے جا سکیں گے۔

جونہی شب کے نو بجے کا گجر بجا، حویلی پر ایک ہیبت ناک سکوت طاری ہو گیا۔ شعلوں اور فانوسوں کی تیز روشنی کے باوجود ہر فرد ڈرا ڈرا سہما سہما نظر آ رہا تھا۔
یکایک بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز آئی، دونوں بھاری دروازے گڑگڑاہٹ کے ساتھ الگ الگ ہوئے، پھر صحن میں قدموں کی آہٹ بلند ہوئی اور اَگلے ہی لمحے نشست گاہ میں جلال آباد کا صوبےدار اپنی ساری آن بان لیے موجود تھا۔
حسبِ معمول اُس کا لباس سر سے پیر تک سیاہ، ہاتھوں پر چڑھے ہوئے دستانے، جوتے اور جرابیں تک سیاہ۔ جو چھڑی اُس کے دائیں ہاتھ میں تھی، اُس کا رنگ بھی سیاہ تھا۔

تبریزی لپک کر اُس کے استقبال کو آگے بڑھا اور شاہانہ مسند پر لے جا کر بٹھا دیا۔ صوبےدار نے جوتے اتارنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ حقارت کی نظر سے دائیں بائیں دیکھتا ہوا مسند پر جا بیٹھا اور کرخت آواز میں بولا:

’’تبریزی! میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ فوراً نکاح کی رسم ادا ہونی چاہیے۔‘‘

’’بہت بہتر جناب! سب لوگ حاضر ہیں۔‘‘
اُس نے نادر زماں کو اِشارہ کیا۔ وہ دُوسرے کمرے سے نکاح خواں اور اُس کے شاگردوں کو بلا لایا۔ اُنھوں نے آتے ہی معزز مہمان کو فرشی سلام کیا۔ قاضی صاحب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور ایک لاکھ اشرفی مہر کے عوض فیروزہ کا نکاح صوبےدار جلال آباد سے ہو گیا۔
اِس تمام عرصے میں صوبےدار نے ایک مرتبہ بھی پلک نہیں جھپکائی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اُس کی پلکیں مصنوعی ہیں اور اُن میں جھپکنے کی حِس ہی نہیں۔ ایک پُراسرار سی ہیبت تمام حاضرینِ محفل پر چھائی رہی۔
نکاح کی رسم ادا ہوتے ہی اُس نے لبادے میں ہاتھ ڈال کر چند اشرفیاں نکالیں اور نکاح خواں کی طرف پھینک دیں۔ ایک بار پھر تسلیمات اور آداب کے مرحلے طے ہوئے اور قاضی صاحب اپنے شاگردوں کو لے کر رخصت ہو گئے۔

’’تبریزی! دلہن رخصتی کے لیے تیار ہے؟‘‘ صوبےدار نے پوچھا۔

’’جی عالی جاہ ….. لیکن آپ کھانا تو تناول فرما لیجیے۔‘‘

’’نہیں ….. ہمیں بہت جلدی ہے ….. تم جانتے ہو جلال آباد یہاں سے خاصی دور ہے اور رَاستے میں ڈاکوؤں، لُٹیروں کا خطرہ بھی ہے،
اِس لیے ہم زیادہ تاخیر پسند نہیں کریں گے۔ حویلی سے باہر ہماری گھوڑا گاڑی ہے۔
فوراً دلہن کو ہمارے ساتھ کر دو۔‘‘

اب یہاں سے اِس داستان کا وہ ہوش رُبا آغاز ہوتا ہے جس کا علم میرے جدِ امجد ترک تاز خان کو خود نادر زماں کی زبانی ہوا۔
فیروزہ اَور صوبےدار کی شادی سے نوجوان مصور کی دنیا ویران ہو گئی، لیکن آفرین ہے اُس کے صبر و اِستقلال پر کہ اُس نے ایک لفظ بھی منہ سے شکایت کا نہ نکالا۔
تبریزی خاں پھر اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں گم ہو گیا۔
اُسے مطلق احساس نہ تھا کہ نادر زماں کے دل و دماغ پر کیا بِیت رہی ہے اور وُہ ایک ایسی آگ میں جل رہا ہے جو اُس کی موت کے ساتھ ہی ٹھنڈی ہو سکے گی۔

نادر زماں نے اپنے آپ کو مصوری کے فن میں ڈبو دینے کی کوشش کی۔ وہ سولہ سولہ اور بیس بیس گھنٹے مسلسل اپنے تصویر خانے میں مصروف رہنے لگا۔
اُس کی صحت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی، مگر اُسے کوئی ہوش نہ تھا۔ حویلی کا بوڑھا چوکیدار اَفضل بیگ اُسے کبھی کبھار سمجھاتا بجھاتا، لیکن بےسود۔ نادر زماں پند و نصیحت کا اب کوئی اثر قبول کرنے سے قاصر تھا۔
اُس کی جان شمع کی مانند آہستہ آہستہ گھلتی جا رہی تھی۔

وقت اپنی رفتار سے گزرنے لگا ….. ایک مہینہ ….. دو مہینے ….. تین مہینے۔
اِس تمام عرصے میں ایک بار بھی فیروزہ کی خیر خبر سننے میں نہ آئی اور نہ جلال آباد سے اُس کے شوہر نے کوئی خط تبریزی کے نام ارسال کیا۔ تبریزی نے اسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی اتا پتا نہ ملا۔
ایک دن تبریزی اور نادر خان نے کہیں سفر کے دوران کچھ دُور دو سیاہ رنگ کے شاندار گھوڑے بندھے چارہ کھاتے دیکھے۔ کچھ فاصلے پر بہت نفیس ایک بگھی کھڑی تھی۔
تبریزی نے فوراً پہچان لیا کہ یہ وہی گھوڑے اور وُہ گاڑی ہے جو جلال آباد کا پُراسرا صوبےدار شب کے نو بجے اپنے ساتھ لایا تھا اور اِسی میں وہ فیروزہ کو سوار کر کے لے گیا تھا۔
دونوں نے اپنی اپنی تلواریں نیام سے کھینچ لیں۔
اُن کا خیال تھا شاید یہاں صوبےدار کے آدمی ہوں اور کوئی فتنہ فساد برپا کریں، مگر چند لمحوں بعد ستر اسّی برس کا ایک بوڑھا، مکان کے اندرونی کھنڈر سے باہر آیا اور اُنھیں دیکھ کر کہنے لگا:

’’آپ لوگ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘

’’مجھے صوبےدار جلال آباد سے ملنا ہے ….. بڑے میاں کیا آپ اُن کا پتا بتا سکتے ہیں؟’’

’’صوبےدار جلال آباد …..‘‘ بوڑھے نے حیرت سے کہا۔ ’’مَیں نہیں جانتا وہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے؟‘‘

’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘ تبریزی چلّایا۔ ’’یہ گھوڑے اور گاڑی کیا اُسی کی نہیں؟‘‘

’’جناب! آپ اطمینان سے میری بات سنیں، تو عرض کروں۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔
’’براہِ کرم یہ تلواریں نیام میں رکھ لیجیے۔ میرا کوئی ارادہ آپ سے جنگ و جدل کا نہیں۔ آئیے کمرے میں تشریف رکھیے۔‘‘

وہ اُنھیں ایک صاف ستھرے کمرے میں لے گیا جہاں چند مونڈھے پڑے تھے اور ایک جانب بستر لگا تھا۔

’’اِن گھوڑوں اور بگھی کی داستان بھی عجیب ہے جناب۔‘‘
بوڑھے نے بستر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ تبریزی اور نادر زماں اُس کے قریب ہی مونڈھوں پر بیٹھ گئے۔
’’میرا نام ضیغم ہے اور مَیں اِس علاقے میں گزشتہ پچاس برس سے آباد ہوں۔
ایسا عجیب و غریب واقعہ مجھے کبھی پیش نہیں آیا۔ یہ کوئی ایک سال پہلے کی بات ہے۔
سورج غروب ہونے ہی والا تھا۔ میرے بیٹے اور پوتے اُس روز کسی تقریب کے سلسلے میں جلال آباد گئے ہوئے تھے اور مَیں یہاں تنہا تھا۔
اِس علاقے میں سورج غروب ہونے کا منظر بہت حسین ہوتا ہے اور مَیں اُسے بڑے شوق سے دیکھنے کا عادی رہا ہوں۔ چنانچہ ٹہلتا ٹہلتا اپنے مکان سے ذرا دُور اُس سڑک پر نکل گیا جو سیدھی جلال آباد کو جاتی ہے۔

’’ابھی مَیں شفق کے سنہری، نارنجی اور سرخ رنگوں میں گم تھا کہ مَیں نے کچھ فاصلے پر گھوڑوں کے دوڑانے کی آواز سنی۔
ہر آن بڑھتے ہوئے اندھیرے میں مجھے ایک شاندار گھوڑا گاڑی دکھائی دی جو اُس سڑک پر آ رہی تھی۔ اُس میں سیاہ رنگ کے دو قدآور اور بےحد قیمتی گھوڑے جُتے ہوئے تھے۔
گاڑی کا رنگ بھی سیاہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی میرے قریب آ کر رک گئی۔ گھوڑے پسینے میں نہا رہے تھے اور پتا چلتا تھا کہ بہت دور سے آ رہے ہیں۔
کوچبان کی نشست پر سیاہ لبادہ پہنے، ہاتھوں میں لمبا سا چابک تھامے ایک ادھیڑ عمر اور بھاری مضبوط جسم کا آدمی تھا۔ وہ چھلانگ لگا کر نیچے اترا۔
پہلے اُس نے دونوں گھوڑوں کی پشت اور گردن پر باری باری ہاتھ پھیرا۔
مَیں نے دیکھا گھوڑے نامعلوم دہشت سے کانپ رہے تھے۔
پھر اُس کوچبان نے گاڑی کا دروازہ کھول کر ہاتھ اندر بڑھایا اور چند لمحے بعد ایک حسین و جمیل نازنین کو سہارا دَے کر باہر نکالا۔
مَیں نے ایسی خوبصورت عورت زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ وہ عروسی جوڑا پہنے ہوئے تھی، لیکن یہ دیکھ کر مجھے ازحد تعجب ہوا کہ وہ زار و قطار رَو رَہی ہے۔‘‘

’’میری بچی ….. ‘‘ تبریزی نے کہا اور اُس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔
’’مجھے معاف کر دینا! مَیں نے تم پر بڑا ظلم کیا۔‘‘

’’کیا وہ لڑکی آپ کی کوئی عزیزہ یا بیٹی تھی؟‘‘ بوڑھے ضیغم نے پوچھا۔

’’ہاں! وہ میری حقیقی بھانجی تھی۔ مَیں اُسی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔‘‘
تبریزی نے فرطِ غم سے نڈھال ہوتے ہوئے جواب دیا۔
’’جس شخص کو آپ نے دیکھا، وہی اپنے آپ کو جلال آباد کا صوبےدار کہتا تھا ۔ مَیں نے اپنی بھانجی کی شادی اُس سے کر دی تھی۔ خیر! تم آگے سناؤ، پھر کیا ہوا؟‘‘

’’لڑکی اُس کے پنجے سے آزاد ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگی ۔ اُس کے رونے کی آواز مزید بلند ہو گئی۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔
مَیں نے آواز دے کر کہا ’کون ہو تم اور اِس بےچاری کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو؟‘
جواب میں اُس شخص نے اِس زور سے تمانچہ میرے منہ پر مارا کہ مَیں الٹ کر زمین پر گرا ۔ پھر مجھے تن بدن کا کچھ ہوش نہ رہا۔

’’آنکھیں کھلیں، تو مَیں ابھی تک اُسی جگہ پڑا تھا۔ آسمان پر تارے جھلملا رہے تھے اور تھوڑی دیر بعد پچھلے پہر کا چاند بھی نکل آیا۔ مَیں نے گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھا۔
آپ لوگ میری حیرت کا اندازہ نہیں کر سکتے جب مَیں نے سیاہ گاڑی اور دونوں گھوڑوں کو اُسی مقام پر کھڑے پایا۔ اللہ جانے وہ پُراسرار کوچبان اُس معصوم صفت لڑکی کو لے کر کہاں غائب ہو گیا تھا۔
اُس کے تمانچے کی ضرب سے میری گردن اور جبڑا بری طرح دُکھ رہا تھا۔

’’قصہ مختصر مَیں اٹھ کر گاڑی کے قریب گیا اور کھلے دروازے سے اندر جھانکا۔ اُس میں کوئی نہ تھا۔ پھر مَیں نے گھوڑوں کی باگ پکڑی اور اُنھیں گاڑی سمیت اپنے مکان پر لے آیا۔
یہ ہے وہ دَاستان۔ آپ نے گھوڑے صحن میں بندھے دیکھے ہوں گے۔ گاڑی بھی وہیں موجود ہے۔
وہ دِن اور آج کا دن مَیں اُس شخص کا منتظر ہوں جو اَپنی گاڑی اور گھوڑے چھوڑ کر نہ جانے کہاں چلا گیا۔
میرے بیٹے اور پوتے واپس آئے، تو مَیں نے اُنھیں سارا قصہ سنایا۔
اُنھوں نے میلوں تک ایک ایک کھنڈر اَور ایک ایک کونا کھدرا دَیکھ ڈالا، نہ اُس لڑکی کا کہیں پتا چلا نہ اُسے گھسیٹ کر لے جانے والے کا۔‘‘

اِس داستان نے تبریزی اور نادر زماں پر عجیب اثر کیا۔ ایک کی آنکھیں تر تھیں اور دُوسرے کی خشک۔ وہ فیروزہ کا سب کچھ تھا اور دُوسرا کچھ بھی نہیں۔
ایک کا غم ظاہری تھا، دوسرے کا باطنی۔
جب وہ وَاپس عالی شان حویلی میں پہنچے، تو اندوہ و اَلم سے اُن کی حالت مردوں سے بھی بدتر تھی۔
اِس سفر میں تبریزی پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ نادر زماں کے تصورات اور خیالات پر کس کی حکمرانی ہے۔

کئی مہینے مزید بِیت گئے۔ تبریزی اپنی بھانجی اور اُس کے پُراسرار شوہر کی تلاش میں آئے دن مارا مارا پھرتا، لیکن کہیں سے سراغ نہ ملتا۔ تلاش کی ہر ایسی مہم میں نادر زماں اُس کا رفیق ہوتا۔
سردیوں کے دن تھے، استاد اَور شاگرد دونوں رات کے کھانے سے فارغ ہو کر آتش دان کے قریب گردنیں جھکائے بیٹھے تھے۔
یکایک صدر دَروازے کی جانب سے مسلسل دستکوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
وہ دونوں چونک کر ایک دوسرے کی طرف تکنے لگے۔ بوڑھا چوکیدار جلدی سے دروازے کی طرف دوڑا۔
یہ دونوں بھی کمرے سے نکل کر حویلی کے صحن میں آ گئے۔

دستکیں برابر دی جا رہی تھیں۔ جونہی چھوٹا دروازہ کھلا، کوئی اندر آیا ….. تبریزی اور نادر زماں دونوں کی نگاہیں بیک وقت آنے والے پر پڑیں ….. اور اُن کے بدن میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔
وہ فیروزہ تھی ….. اُس کا لباس پھٹا ہوا اَور جابجا چیتھڑے سے لٹک رہے تھے۔
پھول سا چہرہ کملا گیا تھا، آنکھیں زرد اَور اَندر دَھنسی ہوئیں …..
وہ دَھڑام سے فرش پر گری اور بےہوش ہو گئی۔

تبریزی اور نادر زماں دونوں بےاختیار اُسے اٹھانے کے لیے لپکے۔ اُنھوں نے اُسے کمرے میں لا کر آتش دان کے پاس لٹا دیا۔ اس کا جسم یخ ہو رہا تھا اور ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے۔
چند لمحوں بعد اُس نے ہوش میں آ کر آنکھیں کھول دیں اور خوف سے کانپتی ہوئی آواز میں بولی:

’’پانی ….. پانی ….. اللہ کے لیے مجھے پانی پلاؤ۔ پیاس سے جان نکلی جاتی ہے۔‘‘

اُنھوں نے جلدی سے اُسے پانی پلایا۔ سانس لیے بغیر وہ سارا پیالہ پی گئی۔ نہ معلوم کب کی پیاس تھی۔

’’اب مجھے کچھ کھانے کو دو ….. فوراً ….. ورنہ مَیں مر جاؤں گی۔‘‘

نعمت خانے سے اُسی وقت بھنے ہوئے گوشت کا ایک بڑا سا ٹکڑا لایا گیا۔ نادر زماں نے اُسے چھری سے کاٹ کر فیروزہ کو کھلانا چاہا، لیکن اُس میں صبر کی اتنی بھی تاب نہ تھی۔
اُس نے نوجوان کے ہاتھ سے جھپٹ کر گوشت کا ٹکڑا چھین لیا اور دَانتوں سے کاٹ کاٹ کر چبائے بغیر نگلنے لگی۔
پھر وہ اَپنے حواس میں آئی۔
اُس نے پہلی بار اَپنے ماموں تبریزی اور اَپنے محبوب نادر زماں کو پہچانا، پھر شرم سے چہرہ ہاتھوں میں ڈھانپ کر رونے لگی۔

’’ بیٹی! یہ کیا حال ہے اور وُہ تمہارا شوہر کہاں ہے؟‘‘ تبریزی نے پوچھا۔

’’وہ ….. وہ ….. ماموں جان ….. اللہ کے لیے اُس کا ذکر نہ کیجیے۔‘‘
فیروزہ نے تھرتھر کانپتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر آئی ہوں ….. وہ تو نہ جانے کون ہے۔‘‘

’’اِس وقت وہ کہاں ہے؟‘‘ تبریزی نے پوچھا۔ ’’مَیں اُسے اِس سنگدلی کا مزہ چکھا دوں گا۔‘‘

’’آہ ….. ماموں جان دیر نہ کیجیے ….. جلد کسی کو بھیجیے۔
یہاں شہر میں کوئی اچھا سا عامل ضرور ہو گا ….. اُسے بلوا لیجیے، ورنہ وہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ وہ لازماً یہاں آئے گا۔‘‘

’’عامل کا یہاں کیا کام فیروزہ بیٹی؟ مَیں اُس بدمعاش سے نپٹنے کے لیے اکیلا ہی بہت ہوں۔
اگر وہ زیادہ تیزی دکھائے گا، تو شہنشاہ سے کہہ کر اُسے سزا دِلوا دُوں گا۔‘‘

’’ہائے ماموں جان! آپ سمجھتے کیوں نہیں ….. وہ گوشت پوست کا آدمی نہیں، ایک شریر جن ہے۔ اس نے انسانی قالب میں آ کر یہ شیطانی چکر چلا رکھا ہے۔
جلد کسی عامل کو طلب فرمائیے اور ہاں مجھے ایک لمحے کے لیے بھی تنہا نہ چھوڑا جائے۔
یہ سختی سے ہدایت کرتی ہوں۔ اگر آپ نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا، تو وہ مجھے پھر پکڑ کر لے جائے گا۔‘‘

تبریزی اور نادر زماں حیرت سے فیروزہ کے اکھڑے اکھڑے اور بےمعنی جملے سن رہے تھے۔
شریر جن ….. شیطانی قالب ….. عامل ….. نادر زماں کی نگاہوں کے سامنے صوبےدار جلال آباد کی بھیانک شبیہ رقص کرنے لگی۔
بند دروازوں میں سے اُس کا ایک دم نمودار ہونا اور اَچانک غائب ہو جانا ….. آہٹ پیدا کیے بغیر چلنا ….. اپنے لبادے میں سے یک لخت قلم دان برآمد کر لینا ….. پھر یہ نادر ہیرے اور زیور …..
کیا دنیا میں ایسا جناتی وجود بھی ممکن ہے جو حسین و جمیل انسانی دوشیزہ سے شادی کرے، اُسے اپنے ساتھ لے جائے ….. آخر کیوں؟

’’گھبراؤ نہیں ! اب وہ خبیث اِس حویلی میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرے گا۔‘‘ تبریزی نے کہا۔
’’مجھے پہلے بھی شبہ تھا کہ وہ کوئی بہت بڑا ساحر ہے ….. مَیں ابھی افضل بیگ کو بھیجتا ہوں۔
یہاں شہر میں ایک بزرگ عملیات و تعویذات کے فن میں کامل ہیں۔ امید ہے اُن کے عمل سے سحر کا اثر زائل ہو جائے گا۔‘‘

اُنھوں نے فیروزہ کو اُس کی خواب گاہ میں پہنچا دیا۔ وہ اِتنی متوحش اور بےکل تھی کہ تبریزی کو اُس کے پاگل ہو جانے کا شبہ پیدا ہوا۔
وہ بار بار یہی کہتی کہ اُسے اکیلا بالکل نہ چھوڑا جائے۔ اُنھوں نے جھٹ پٹ کمرے میں سارے فانوس اور شمعیں روشن کر دیں اور ہر کھڑکی اور دَروازے کو اچھی طرح بند کر دیا۔

ابھی وہ اِس کارروائی سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ دفعتاً فیروزہ نے نہایت مدھم آواز میں جیسے کوئی سرگوشی کرتا ہے، کہا :
’’اللہ کی پناہ ….. وہ حویلی میں آ گیا ….. وہ حویلی میں آ گیا ….. ماموں جان اُسے روکیے ….. وہ مجھے لینے آیا ہے ….. مَیں اُس کے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گی ….. دیکھو ….. دیکھو ….. وہ رَہا …..
اب وہ صحن سے گزر کر ماموں جان کے کمرے میں جا چھپا ہے۔‘‘
اِن الفاظ کے ساتھ ہی اُس کے بدن میں تھرتھری چھوٹ گئی، آنکھیں ابل پڑیں۔ ہونٹوں کے کنارے جھاگ سے بھر گئے اور وُہ بےحس و حرکت ہو گئی۔

نادر زماں نے تبریزی کو وہیں رہنے کا اشارہ کیا اور خود تلوار کھینچ کر باہر نکلا۔
اُسے یوں لگا جیسے ایک انسانی ہیولا سا صحن سے ہوتا ہوا آقائے تبریزی کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ نادر زماں اُدھر دوڑا، اُس نے کمرے کا ایک ایک گوشہ اچھی طرح دیکھا بھالا، مگر وہاں کوئی نہ تھا۔
البتہ وہ یہ حلفیہ بیان دینے کے لیے تیار تھا کہ اُس نے ایک پُراسرار اِنسانی سائے کو حرکت کرتے ضرور دَیکھا ہے۔ دہشت سے نادر زماں کا بدن بھی کانپنے لگا۔
ایسا لگتا ہے جیسے اِس عظیم الشان حویلی میں کسی جگہ کوئی نادیدہ وُجود بھی حاضر ہے اور اِن کی تمام حرکات و سکنات کا بخوبی جائزہ لے رہا ہے۔

نادر زماں نے رومال نکال کر چہرے پر اِس سردی میں آیا ہوا پسینہ پونچھا اور دوبارہ فیروزہ کی خواب گاہ میں آیا۔ تبریزی اُس کے چھپرکٹ کے قریب ایک آرام کرسی پر مستعد بیٹھا تھا۔
اُس نے سوالیہ نگاہوں سے نادر زماں کی طرف دیکھا۔ اِس دوران میں فیروزہ بھی ہوش میں آ چکی تھی اور پلک جھپکائے بغیر نادر زماں کی جانب تک رہی تھی۔

’’جناب! مَیں نے حویلی کا ایک ایک کونہ چھان مارا، وہاں تو کوئی بھی نہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے فیروزہ بیگم کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہی تھیں، شاید یہ اُسی کا اثر ہے۔‘‘

’’ہرگز نہیں …..‘‘ فیروزہ نے کہا۔ ’’مَیں نے خود اُسے حویلی میں داخل ہوتے دیکھا ہے۔
یہ اونچی اونچی دیواریں اور بڑے بڑے بھاری دروازے اُس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے ….. مَیں اُسے اچھی طرح جانتی ہوں ….. آہ ….. وہ اَب اِس کمرے میں آ گیا ہے ….. یہ دیکھو ….. وہ میرے سامنے کھڑا ہے۔‘‘
اُس نے بری طرح چیخنا چلّانا شروع کر دیا۔
تبریزی اور نادر زماں دونوں حد درجہ مضطرب ہو کر تلواریں ہاتھوں میں لیے اِدھر اُدھر پھرنے لگے۔
اُنھیں وہ پُراسرار وُجود دِکھائی تو نہ دے رہا تھا، لیکن وہ اُس کی موجودگی محسوس کر سکتے تھے۔

’’ہائے ….. اُسے باہر نکالیے ماموں جان! مَیں مر جاؤں گی۔ اللہ کے لیے مجھے تنہا نہ چھوڑیے، ورنہ وہ مجھے گھسیٹ کر لے جائے گا۔
کیا آپ کو خبر نہیں کہ آگ اور مٹی کا میل کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
اِس کے ساتھ ہی فیروزہ نے بستر سے اُٹھ کر تبریزی خاں کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’مَیں آپ کو یہاں سے جانے نہ دوں گی ماموں جان۔ آپ یہیں رہیں گے، اِسی کمرے میں۔
ورنہ یاد رَکھیے پھر آپ کبھی میری صورت نہ دیکھ سکیں گے۔‘‘

اُنھوں نے بڑی مشکل سے فیروزہ کو دوبارہ بستر پر لٹایا۔ اُس کی حالت لمحہ بہ لمحہ غیر ہوتی جا رہی تھی اور جُنوں کے آثار عروج پر نظر آنے لگے تھے۔
اتنے میں ایک سفید پوش بزرگ جن کے چہرے پر نورانیت جلوہ فگن تھی، افضل بیگ کی معیت میں اندر دَاخل ہوئے۔ اُن کے آتے ہی فیروزہ ایک دم خاموش ہو گئی اور کہنے لگی:

’’وہ بھاگ گیا ….. اِس کمرے سے چلا گیا، لیکن وہ حویلی سے باہر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘

تبریزی خاں اور نادر زماں نے سفید ریش بزرگ کو ادب سے سلام کیا۔ اُن کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ پھر تبریزی نے مختصر انداز میں فیروزہ اَور صوبےدار جلال آباد کے واقعات بیان کیے۔

یہ سفید ریش بزرگ جن کا نام سیّد اکمل بنوری تھا، زہد و تقویٰ اور علمیت میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔
اُن کے بارے میں مشہور تھا کہ بھوت پریت اور شریر جنات اِن کی صورت دیکھتے ہی راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔
سیّد صاحب نے کچھ پڑھ کر فیروزہ پر دم کیا، پھر ایک تعویذ مرحمت فرمایا کہ اِسے گلے میں ڈالا جائے۔
اِس کے بعد اُنھوں نے لوہے کی چند میخیں طلب فرمائیں۔
اُن پر کچھ پڑھ کر دم کیا اور کہا کہ حویلی کے چاروں گوشوں میں یہ میخیں ٹھونک دی جائیں۔

جب تک سیّد اکمل بنوری وہاں موجود رَہے، فیروزہ پُرسکون نظر آئی، لیکن اُن کے رخصت ہوتے ہی اُس نے آنکھیں کھول دیں اور دوبارہ چیخنے چلّانے لگی۔
اتنے میں گجر نے آدھی رات ہونے کا اعلان کیا۔ گجر کی آخری آواز کے ساتھ ہی حویلی میں بےپناہ شور اُٹھا جیسے آندھی آ گئی ہو۔ دروازے اور کھڑکیاں آپ ہی آپ کھلنے اور بند ہونے لگے۔
تصویریں دیواروں پر سے گر کر ٹوٹنے لگیں۔ برتن اور فرنیچر آپس میں ٹکرا گئے۔ جھاڑ اور فانوس دھماکوں سے فرش پر گر پڑے اور ایک ایک کر کے سب بجھ گئے۔
حویلی میں قبر کی سی تاریکی پھیل گئی۔ اِس شور میں فیروزہ کے چیخنے کی آواز برابر سنائی دے رہی تھی۔

’’ماموں جان ….. نادر زماں ….. جلد روشنی کرو ….. وہ اَندھیرے میں وار کرے گا۔
جلدی روشنی کرو۔ اندھیرا خطرناک ہے۔‘‘

وہ دونوں فیروزہ کی خواب گاہ میں تھے اور بیک وقت چراغ جلانے کے لیے اُٹھے۔
اُن کے کمرے سے باہر جاتے ہی ہولناک آواز کے ساتھ فیروزہ کی خواب گاہ کا دروازہ آپ ہی آپ بند ہو گیا۔ پھر اُنھوں نے فیروزہ کی لرزہ خیز چیخیں سنیں۔
وہ دَروازے کی طرف بھاگے، اتنے میں یہ طوفانِ بلاخیز تھم چکا تھا۔ افضل بیگ شمع دان روشن کر کے لایا۔ فیروزہ کی خواب گاہ کا دروازہ بند تھا۔
اُنھوں نے اُسے کھولنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر بےسود۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کوئی نادیدہ قوت اِس دروازے کے پیچھے ہے۔
فیروزہ کی چیخیں مسلسل اُن کے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی مانند اتر رہی تھیں، لیکن وہ دونوں کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔
پھر اُنھوں نے اُس کمرے کی وہ کھڑکی کھلنے کی آواز سنی جو گلی کی جانب تھی۔ اِس کے ساتھ ہی فیروزہ کی آخری چیخ بھی سنائی دی۔

’’جلدی کرو ….. نادر زماں ….. اُدھر جاؤ۔‘‘
تبریزی چلّایا۔ ’’وہ شاید فیروزہ کو اُدھر سے لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
لیکن نادر زماں جب ایک طویل چکر کاٹ کر بیرونی کھڑکی کے قریب پہنچا، تو وہاں کوئی نہ تھا۔ البتہ تیز ہوا میں کھڑکی کے کھلے پٹ بار بار ٹکرا رَہے تھے۔
واپس آیا اور اَبھی وہ دَروازہ توڑنے کی تدبیر عمل میں لا ہی رہے تھے کہ دروازہ خودبخود کھل گیا۔ وہ دِیوانوں کی طرح کمرے میں داخل ہوئے …..
فیروزہ کا چھپر کٹ خالی پڑا تھا۔ اُنھوں نے کھڑکی میں سے جھانکا۔ آدھی رات کے اِس بےکراں سناٹے میں گلی ویران اور سنسان پڑی تھی۔

یہ واقعہ ایسا نہ تھا کہ چھپا رہتا۔ بہت جلد آگ کی طرح فیروزہ کے غائب ہونے کی خبر پھیل گئی۔ شہنشاہ نے تبریزی کو طلب کر کے سارا وَاقعہ سنا اور اَزحد تعجب کا اظہار کیا۔
پھر شہنشاہ کے حکم سے جاسوس پورے ملک میں پھیل گئے، لیکن ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ بڑے بڑے عاملوں کی خدمات حاصل کی گئیں اور اُنھوں نے بھی سیکڑوں ہزاروں جتن کیے، مگر لاحاصل۔
تبریزی اِسی غم میں سُوکھ کر کانٹا ہو گیا اور گھل گھل کر مر گیا۔ مرنے سے پہلے اُس نے اپنی ساری دولت اور جائداد نادر زماں کو سونپ دی تھی، لیکن نادر زماں اُس دولت کا کیا کرتا۔
اُسے اپنا کچھ ہوش نہ تھا۔ دیوانوں کی طرح چاکِ گریباں، دیدۂ گریاں اور سینہ بریاں، گلی کوچوں، شہروں اور قصبوں میں آوارہ پھرتا کہ شاید کہیں اُس محبوبۂ دل نواز کی ایک جھلک دکھائی دے۔
کوئی ترس کھا کر کھانے کے لیے کچھ دے دیتا، تو کھا لیتا، ورنہ بھوکا ہی کسی جگہ پڑا رہتا۔

اِسی طرح گھومتے گھومتے وہ جلال آباد کے نواح میں اُسی جگہ جا نکلا جہاں اُس کی اور تبریزی کی ملاقات بوڑھے ضیغم سے ہوئی تھی۔
ضیغم مر چکا تھا، لیکن اُس کے بیٹے اور پوتے اُسی کھنڈر حویلی میں موجود تھے۔ نادر زماں کو وہ سیاہ گھوڑے اور بگھی یاد آئی۔

ضیغم کے بیٹوں نے اُسے بتایا کہ ایک رات کسی شخص نے اُن کی حویلی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
دروازہ کھولا گیا،تو سیاہ لبادہ سر سے پاؤں تک اوڑھے ایک ادھیڑ عمر کا آدمی کھڑا تھا۔ رات کی تاریکی میں اُس کی آنکھیں اِس طرح چمکتی تھیں جیسے دو قندیلیں روشن ہوں۔
اُس کے دائیں پہلو میں تلوار لٹک رہی تھی۔ اُس نے پوچھا، ضیغم کہاں ہے؟ ضیغم اُس وقت بیمار تھا، تاہم اُس اجنبی کے حکم پر اُسے حویلی کے باہر لایا گیا۔
ضیغم نے جونہی اُس کی صورت دیکھی، خوف سے تھرتھر کانپنے لگا۔ اجنبی نے کرخت آواز میں کہا:

’’او بڈھے! ہمارے گھوڑے اور بگھی کدھر ہے؟‘‘

’’جناب! آپ کی امانت اِس خادم کے پاس ہر طرح محفوظ ہے۔‘‘ ضیغم نے جواب دیا۔
یہ سن کر اجنبی مسکرایا اور بولا ’’جلدی حاضر کرو۔‘‘
چنانچہ گھوڑے، گاڑی میں جوتے گئے اور وُہ اُنھیں لے کر چلا گیا۔ ہاں جاتے جاتے اُس نے بوڑھے ضیغم کو ایک تھیلی دی جس میں سونے کی ایک سو اشرفیاں تھیں۔

نادر زماں کو جلال آباد کے نواح میں بڑی راحت ملتی تھی۔ یہاں ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔ کہیں کہیں قدیم عمارتوں کے کھنڈر تھے۔
پرانے وقتوں کا ایک قبرستان بھی دکھائی دیا جس میں خود رو جھاڑیاں تھیں اور حشرات الارض نے اپنے بِل بنا رکھے تھے۔
اِس قبرستان کے آخری کنارے پر خاصی پرانی ایک مسجد کے آثار بھی نادر زماں کو دکھائی دیے۔ مسجد پر حسرت برس رہی تھی۔
ایسا معلوم ہوتا تھا یہاں برسوں سے کسی نے اذان دی ہے نہ نماز پڑھی ہے۔
اللہ جانے نادر زماں کو کیا جوش آیا۔ اُس نے کنوئیں سے پانی کھینچ کر نکالا، وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔

رات گئے تک وہ اَللہ کے حضور جھکا رہا، سجدے میں گرا روتا رہا۔
حیرت انگیز طور پر اُس کی روح اور بدن کو تسکین پہنچ رہی تھی۔ پھر اُس پر نیند نے غلبہ کیا اور وُہ وَہیں مسجد کے سنگین فرش پر لیٹ کر سو گیا۔
نہ جانے کتنی دیر وہ سویا رہا، پھر کسی نے اُس کا بازو ہلا کر جگایا۔ نادر زماں نے آنکھیں کھولیں، تو اُسے ایک سفید سفید انسانی سایہ اپنے قریب دکھائی دیا۔
یہ ایک عورت کا ہیولا تھا جس نے سفید چادر اَپنے جسم پر لپیٹ رکھی تھی۔ اُس کا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا، بائیں ہاتھ میں تانبے کا چھوٹا سا شمع دان۔
وہ نادر زماں سے کچھ فاصلے پر خاموش کھڑی تھی۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور اُس کا دل دھڑکنے لگا۔

’’کون ہو تم اور رَات گئے یہاں مسجد میں کیا کر رہی ہو؟‘‘ نادر زماں نے پوچھا۔
عورت نے کوئی جواب نہ دیا اور مسجد سے باہر نکل کر ایک طرف کو چل پڑی۔ پھر اُس نے رک کر نادر زماں کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میرے پیچھے چلے آؤ۔ نارد زماں اُس کے عقب میں ہو لیا۔
عورت ایک ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر چلی جا رہی تھی۔ یہ پگڈنڈی اُسی قدیم قبرستان میں سے گزر رَہی تھی۔ چاروں طرف موت کی سی خاموشی چھائی تھی اور نادر زماں شکستہ قبروں کے بیچ میں سے مڑتا، بَل کھاتا، پھلانگتا برابر عورت کے پیچھے چلا جا رہا تھا۔
دور ایک سیاہ عمارت کے کھنڈر دِکھائی دیے جس کے اردگرد اُونچے اونچے درختوں کا گھنا جھنڈ تھا۔
نادر زماں نہ پہچان سکا کہ یہ درخت کس قسم کے تھے، وہ تو عورت کے قدموں پر نگاہ رَکھے ہوئے تھا۔
اُن دونوں کا درمیانی فاصلہ دس بارہ ہاتھ سے زیادہ نہ تھا، کبھی کبھی وہ مڑ کر دیکھ لیتی کہ نادر زماں آ رہا ہے یا نہیں، پھر مطمئن ہو کر آگے چل پڑتی۔

عمارت کے قریب پہنچ کر وہ رُک گئی۔ نادر زماں اُس کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔
شمع دان ابھی تک عورت کے ہاتھ میں تھا۔ دائیں ہاتھ سے اُس نے ایک دم سیاہ نقاب الٹ دیا۔

’’فیروزو …..!!‘‘ نادر زماں کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی۔

’’شش ….. خاموش …..‘‘ فیروزہ نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ نادر زماں کے ذہن میں سینکڑوں سوالات ابھرنے لگے، لیکن وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔
فیروزہ نے اُسے چپ رہنے کا حکم جو دیا تھا۔ پھر فیروزہ نے پھونک مار کر شمع بجھا دی۔
دھوئیں کی ایک پتلی سی لکیر بجھی ہوئی شمع سے نکلی اور فضا میں تحلیل ہو گئی۔

نادر زماں صرف اتنا سمجھ سکا کہ یہ عمارت کسی بادشاہ کا مقبرہ ہے جو امتدادِ زمانہ کے باعث کھنڈر میں تبدیل ہو گیا ہے، لیکن سوال یہ تھا کہ فیروزہ یہاں کیا کر رہی ہے۔
اب وہ پھر چل پڑی تھی۔ ایک لمبی سے غلام گردش سے گزر کر وہ کھلے صحن میں داخل ہوئی۔ یہاں بھی قبریں ہی قبریں اور خود رو جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔
اُن سے پرے ایک گول چبوترہ سا بنا ہوا تھا۔ چبوترے کے اوپر رات کی تاریکی میں کسی ہیبت ناک دیو کے سر کی مانند ایک گیند سا دکھائی دیا۔

فیروزہ چند سیڑھیاں چڑھ کر چبوترے پر گئی۔ ایک گوشے میں سنہری رنگ کا چھپر کٹ پڑا تھا۔
اُس کے اردگرد سیاہ چادریں تنی ہوئی تھیں۔ چھپر کٹ کے قریب پہنچ کر اُس نے نادر زماں کو اِشارے سے نزدیک بلایا، پھر پردے کا ایک گوشہ اٹھا دیا۔
نادر زماں نے بڑی مشکل سے چیخ روکی۔ کیا دیکھا کہ صوبےدار جلال آباد بستر پر لیٹا گہری نیند سو رہا ہے۔
نادر زماں نے اُسے پہچاننے میں ذرا دیر نہ لگائی۔
ابھی وہ اُس کا بھیانک سراپا دیکھ ہی رہا تھا کہ صوبےدار نے آنکھیں کھول دیں۔ نادر زماں بےہوش ہو کر وہیں گر پڑا۔

علی الصبح اُدھر سے گزرنے والے چند کسانوں نے نادر زماں کو وہاں سے اٹھایا۔ ہوش میں آنے کے بعد وہ پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑتا رہا۔
وہ یہ یقین کرنے کو کسی طرح آمادہ نہ تھا کہ اُس نے کوئی خواب دیکھا ہے۔ وہ بڑی سے بڑی قسم کھانے کو تیار تھا کہ یہ سب کچھ عالمِ بیداری میں ہوا ہے۔
فیروزہ یہیں کہیں کسی کھنڈر میں قید ہے، لیکن کس کھنڈر میں، وہاں تو میلوں تک شکستہ عمارتوں کے کھنڈر پھیلے ہوئے تھے۔

نادر زماں کو یقینِ کامل تھا کہ اُس نے خواب ہرگز نہیں دیکھا۔ کیا وہ خواب اور بیداری کے معاملات میں تمیز نہیں کر سکتا تھا؟
وہ یقیناً گوشت پوست کی بنی ہوئی فیروزہ ہی تھی۔ تبریزی خاں مرحوم کی بھانجی اور نادر زماں کی روح میں رچی بسی فیروزہ۔
اُس کا دل گواہی دیتا تھا کہ فیروزہ مری نہیں، زندہ ہے اور جلال آباد کا وہ پُراسرار صوبےدار دَولت خاں جو نہ جانے کون تھا، فیروزہ کو وہیں کہیں زمانۂ قدیم کے اِن کھنڈروں میں چھپائے ہوئے ہے
جو جلال آباد کے نواح میں کوسوں دور تک پھیلے ہوئے تھے۔

نادر زماں کی حالت اُن دیوانوں کی سی تھی جسے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا اور جو اَپنی دھن میں دنیا و مافیہا سے بےپروا ایک ایسی منزل کی جانب رواں دواں رہتے ہیں جس کی خبر خود اُنھیں بھی نہیں ہوتی کہ کہاں ہیں۔
ہاں ایک ہی صورت اُس کے سامنے ہر دم رقصاں رہتی اور وُہ صورت فیروزہ کی تھی۔ وہ خوب جانتا تھا کہ فیروزہ کو فراموش کر دینا اُس کے لیے ناممکن ہے۔
بعض اوقات خودفراموشی کے ایسے لمحات بھی نادر زماں پر آتے جب اُسے یہ بھی یاد نہ رہتا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے، تاہم اِس عالم میں بھی اُس کی روح میں سے فیروزہ فیروزہ کی آوازیں اٹھتی رہتی تھیں۔

نادر زماں کی خواہش تھی کہ ایک مرتبہ پہلے کی طرح فیروزہ اُسے پھر دکھائی دے اور وُہ اُس سے پوچھے کہ صوبےدار جلال آباد کا ٹھکانہ کہاں ہے اور  تمہیں اُس کے شیطانی پنجے سے کیونکر چھڑایا جا سکتا ہے۔
اِسی دھن میں وہ ویرانوں کے چکر کاٹتا رہتا۔
تھک جاتا، تو کسی بوسیدہ سی قبر کے پاس لپٹ کر سو جاتا۔ کوئی راہ گیر اُدھر سے گزرتا، تو نادر زماں کو رحم کی نگاہوں سے دیکھتا اور اُسے بیدار پا کر کچھ کھلانے پلانے کی کوشش کرتا۔
اِس کوشش میں بہت کم لوگ کامیاب رہتے۔ وہ کسی سے سوال کرتا نہ کسی کے گھر جاتا اور نہ کسی سے بات کرتا۔

آہستہ آہستہ گرد و نواح میں اُس کی شہرت ایک مجذوب اور پہنچے ہوئے فقیر کی حیثیت سے پَر لگا کر اڑنے لگی۔ اُس کی زبان میں حیرت انگیز تاثیر آ گئی تھی۔
عالمِ بےہوشی میں جو کچھ اُس کی زبان سے نکلتا، پورا ہو جاتا۔ دنیا کے ستائے ہوئے اور اَپنی خواہشوں کے مارے ہوئے بےشمار اَفراد دِن رات اُسے گھیرے رہنے لگے۔
کوئی حاجت مند اُس کے پاؤں دباتا، کوئی پنکھا جھلتا، کوئی اُس کے لیے عمدہ مٹھائیاں اور لذیذ کھانے پکوا کر لاتا اور کوئی زر و جواہر نچھاور کرنے کے یے ہر وقت تیار رَہتا، لیکن یہ مجذوب ایسا نرالا تھا کہ کسی شے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔
اگرچہ اُس کے بدن پر چیتھڑے لٹک رہے تھے، ڈاڑھی، مونچھوں اور سر کے بال بڑھ کر ایک ہو گئے تھے۔ ہاتھ پیروں پر خاک دھول اٹی ہوئی تھی، لیکن چہرے پر جلال کی وہ کیفیت تھی کہ کسی کو اُس سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔
وہ ہمہ وقت گردن جھکائے آپ ہی آپ پُراسرار آواز اور اَنوکھے لہجے میں کسی نادیدہ ہستی سے باتیں کرتا دکھائی دیتا۔
عقیدت مند خیال کرتے کہ فقیر نہ جانے کس مقام پر ہے اور معرفت و حقیت کی کون سی منزلیں سر کر رہا ہے۔
اِن خیالوں کے ساتھ ساتھ عقیدت بھی بڑھتی جاتی حتیٰ کہ دن رات کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جب دو چار حاجت مند اور اَپنی مرادیں پوری کروانے والے نادر زماں کے گرد دَست بستہ نہ کھڑے ہوں۔

اُس رات بھی یہی کیفیت تھی۔ نادر زماں نے ایک مرتبہ اپنے عجیب و غریب مراقبے سے چونک کر جھرجھری سی لی، آنکھیں کھولیں، تو اِردگرد چند افراد اَدب سے حلقہ باندھے خاموش بیٹھے دکھائی دیے اور اَپنی اپنی رام کہانی کہنے لگے۔
نادر زماں نے اپنا پھٹا پرانا کمبل جسم پر لپیٹا اور کسی سے کچھ کہے بغیر ایک طرف چل پڑا۔ لوگوں نے اُس کے پیچھے آنے کی کوشش کی، لیکن اُس نے کرخت آواز میں ڈانٹ ڈپٹ کر سب کو بھگا دیا۔
کوئی غیرمرئی طاقت اُسے نہ جانے کدھر لیے جا رہی تھی۔
آسمان پر گہرے بادل چھا رہے تھے اور مغرب کی جانب سے تیز ہوا کا طوفان آنے ہی والا تھا۔

جب وہ قبرستان میں سے گزرا، تو یکایک سیاہ رَنگ کی ایک بہت بڑی بلی ایک شکستہ قبر میں سے اچھل کر نکلی اور جبڑا کھول کر بری طرح غرانے لگے۔
نادر زماں نے اتنی بڑی بلی پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ وہ فوراً رُک گیا۔
بلی چند گز دور کھڑی مسلسل غرا رَہی تھی۔ اُس کے سفید نوکیلے دانت اندھیرے میں چمک رہے تھے اور سبز آنکھیں مشعلوں کی مانند روشن تھیں۔
آہستہ آہستہ اُس کی چیخیں اور غراہٹیں تیز ہونے لگیں اور اُن بھیانک آوازوں سے زمین لرزنے لگی۔

نادر زماں اپنی جگہ پتھر کا بت بنا کھڑا رہا۔ بلی آگے بڑھی، اُس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور وُہ نادر زماں پر حملہ کرنے کے لیے تیار نظر آتی تھی۔
نادر زماں کے پاس اپنی مدافعت کے لیے کوئی ہتھیار نہ تھا۔ اُس نے جلدی سے ایک پتھر اٹھایا اور پوری قوت سے بلی کی کھوپڑی پر دے مارا۔
پتھر لگتے ہی بلی کے سر سے خون کا فوارہ اُبل پڑا اَور وُہ بری طرح چیختی غراتی پلٹ کر بھاگی۔
دیر تک اُس کی لرزہ خیز آوازوں سے قبرستان گونجتا رہا۔
نادر زماں کے بدن پر کپکپی طاری ہو گئی اور وُہ بغیر سوچے سمجھے ایک طرف بھاگنے لگا۔

رات ازحد تاریک اور سرد تھی، ہوا لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ پھر آسمان کے سوتے کھلے گئے۔ موسلادھار بارش ہونے لگی۔ بجلی کی کڑک اور بادل کی گرج نے ہر شے کو اَپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
نادر زماں پانی میں بھیگتا اور ٹھنڈ سے کانپتا ہوا پناہ کی تلاش میں بھاگتا رہا۔ نہ جانے کتنی بار وُہ ٹھوکریں کھا کر زمین پر گرا، اُٹھا اور پھر دوڑا۔
اب وہ قبرستان سے نکل کر آگرے کو جانے والی سڑک پر دوڑ رہا تھا۔ دائیں جانب پہاڑی ٹیلوں کا ایک طویل و عریض سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔
فیروزہ کی تلاش میں دن کے وقت وہ بارہا اِن ٹیلوں کی جانب آیا تھا اور یہاں کا ایک ایک چپہ چپہ اُس کا دیکھا بالا تھا۔

دفعتاً اُس کی نگاہ اُٹھی اور اُس نے اپنے بالکل سامنے ایک جھونپڑی میں چراغ جلتا ہوا پایا۔ وہ وَہیں ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا اور حیرت سے سوچنے لگا یہ جھونپڑی کس کی ہے اور اِس خوفناک طوفان میں یہ کیسا چراغ ہے جو برابر روشن ہے اور بجھتا نہیں۔
وہ حد درجہ تجسّس کے ساتھ آہستہ آہستہ جھونپڑی کی طرف بڑھا۔ قریب پہنچا ہی تھا کہ اندر سے ایک پُرجلال آواز آئی:

’’نادر زماں! اندر چلے آؤ۔‘‘

یہ آواز سنتے ہی اُس کا کلیجا کانپ گیا۔ اُس آواز میں اور صوبےدار جلال آباد کی آواز میں کتنی مشابہت تھی۔
ایک لمحے کے لیے اُسے یوں لگا جیسے اُس کے قلب کی حرکت رک گئی ہو۔
وہ وَہاں سے بھاگنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ وہی مہیب آواز پھر اُس کی سماعت سے ٹکرائی:

’’ڈرو نہیں نادر زماں! بےخوف ہو کر اَندر آ جاؤ۔‘‘

اُس نے پھر بھاگنا چاہا، لیکن زمین نے جیسے پاؤں تھام لیے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے اپنے آپ کو جھونپڑی میں پایا۔ ایک شکستہ بوریے پر نہایت کہن سال بزرگ گردن جھکائے دوزانو بیٹھے تھے۔
اُن کی سفید ریش ناف تک لمبی تھی۔ بھنوئیں اور پلکیں بھی انڈے کی طرح سفید تھیں۔ قریب ہی ایک پتھر پر دیا روشن تھا۔
اُن پیرِ مرد کی عمر کا کوئی اندازہ نادر زماں کو نہ ہو سکا۔ اُس کے اندر دَاخل ہوتے ہی بزرگ نے گردن اٹھائی۔ اُن کی نگاہوں میں ہیبت اور جبروت کی بجلیاں سی کوند رہی تھیں۔
نادر زماں بےاختیار اُن کے قدموں میں گر پڑا اَور سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔ اُسے محسوس ہوا کہ رونے سے چھاتی پر رکھا ہوا بےانداز بوجھ ہلکا ہو رہا ہے۔
جب وہ گنگا جمنا بہا چکا، تو بزرگ نے اُس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر کہا:

’’نادر زماں! کیا اللہ کی رحمت سے مایوس ہو چکے ہو؟ مرد کو یوں رونا زیب نہیں دیتا۔‘‘

غریب شکستہ حال، شکستہ دل مصور نے پھر اُن پیرِ مرد کے پاؤں پکڑ لیے اور عقیدت سے بوسہ دے کر بولا:

’’حضور پر میرا حال سب روشن ہے۔ مَیں اپنی کج زبان سے کیا عرض کروں۔‘‘

’’نہیں! تم خود بیان کرو۔ ہم کوئی صاحبِ کشف نہیں۔‘‘ پیرِ مرد نے محبت سے کہا۔
’’ہم نے تمہارا ذِکر لوگوں سے سنا ہے اور ایک آدھ مرتبہ تمہیں اِدھر سے گزرتے بھی دیکھا۔
جب اِس طوفانی شب میں ہم نے کسی انسان کے دوڑنے کی آواز سنی، تو ہم سمجھ گئے کہ یہ نادر زماں کے سوا اَور کوئی شخص نہیں ہو سکتا۔
اِس لیے ہم نے بےتکلف اپنے قیاس پر اعتبار کر کے آواز دی اور اَللہ کا شکر، ہمارا قیاس صحیح نکلا۔
ہم کسی قدر تمہاری مصیبت سے بھی آگاہ ہیں، لیکن تفصیلات تمہاری زبانی سننے کے مشتاق ہیں۔‘‘

اور تب نادر زماں نے آنسوؤں، آہوں اور ہچکیوں کے ساتھ ساتھ اپنی بپتا الف سے ے تک کہہ سنائی۔ پیرِ مرد ضبط و تحمل سے سنتے رہے۔
ایک دو بار اُنھوں نے اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے نادر زماں کو دیکھا، آپ ہی آپ مسکرائے اور کچھ کہے بغیر گردن جھکا کر اُس کی الم ناک داستان سننے لگے۔
آخر میں نادر زماں نے قبرستان کی سیاہ بلی کا ذکر کیا، تو وہ ایک دم چونک پڑے اور کہا:

’’اِس کا مطلب ہے کہ وہ خبیث ابھی تک جلال آباد کے نواح میں موجود ہے۔‘‘

’’کیا آپ کی مراد صوبےدار جلال آباد سے ہے؟‘‘ نادر زماں نے پوچھا۔

’’ہاں! وہ نہایت شریر جن ہے اور میری معلومات کے مطابق اِس نواح میں بہت عرصے سے رہ رَہا ہے۔ اِس سے پیشتر بھی وہ اِنسانی بھیس میں آ کر کئی حسین لڑکیوں کو لے جا چکا ہے۔
اُس کے پاس بعض قوتیں ایسی ہیں جو اِس قسم کے شیطانی کاموں میں اُس کی مدد کرتی ہیں۔ سیاہ بلی کے بھیس میں وہی تھا۔ تم نے اچھا کیا کہ پتھر اُس کی کھوپڑی پر مارا۔
آئندہ وہ اِس شکل میں آئے، تو بےدریغ اُسے ہلاک کر ڈالنا۔‘‘
یہ کہہ کر پیرِ مرد نے اپنے بوریے کے نیچے سے ایک چھوٹا سا خنجر نکال کر نادر زماں کو دیا۔

’’اِسے اپنے پاس حفاظت سے رکھو۔ وہ دوبارہ کسی نہ کسی روپ میں پھر تمہیں دکھائی دے گا۔ جونہی موقع ملے، یہ خنجر اُس کے جسم میں گھونپ دینا …..
خواہ وُہ سیاہ رنگ کی صورت میں ہو یا سیاہ بلی کی شکل میں۔ یہ دونوں اجسام ایسے خبیث جنات کو زیادہ پسند ہیں اور وُہ اَکثر اُنہی میں حلول کر کے انسانوں کو ڈرایا کرتے ہیں۔
تمہارا وَاسطہ جس جن سے ہے، وہ خود بہت بڑا عامل ہے اور یہی سبب ہے کہ معمولی درجے کے عمل اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔

پہلے وہ دَکن کی جانب واقع پہاڑی غاروں میں سے ایک میں رہتا تھا، لیکن جب سے حضرت خواجہ محمد گیسودرازؒ وہاں تشریف لے گئے، تو اُن کے قدموں کی برکت سے یہ شریر جن فرار ہوا اَور جلال آباد کے نواح میں ایک بوسیدہ مسجد کے قریب اپنا ٹھکانا بنا لیا۔
علاقے کی حسین عورتوں کو برسوں اُس نے پریشان کیا اور اَب اُس کے حوصلے یہاں تک بڑھے کہ انسانوں کی شکل اختیار کر کے عورتوں کو اٹھا کر لے جانے لگا ہے۔
فیروزہ اُسی کی قید میں ہے اور جب تک وہ مر نہیں جائے گی، یہ جن اُس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ یہ نامراد کئی صدیوں سے اِنہی شیطانی حرکتوں میں مصروف ہے، لیکن شاید اب اُس کا وقت پورا ہونے والا ہے۔‘‘

’’حضرت! کیا کوئی طریقہ ایسا نہیں جس سے فیروزہ کو آزاد کرایا جا سکے؟‘‘ نادر زماں نے پوچھا۔

’’طریقہ صرف یہ ہے کہ اُس ناری مخلوق پر جس کی حکومت ہے، اُس سے سارا حال بیان کیا جائے، وہی اُسے سزا دَے سکتا ہے اور اُسی کے حکم سے فیروزہ وَاپس انسانوں کی دنیا میں صحیح سلامت آ سکتی ہے۔
ہم صرف اُس سے ملاقات کا قاعدہ تمہیں تلقین کر سکتے ہیں، باقی کام تمہیں خود کرنا ہو گا، لیکن یہ سوچ لو کہ اِس میں جان کا خطرہ ہر وقت لاحق ہے۔
اگر ذرا بھی اپنی حفاظت سے غافل ہوئے یا اُس عمل میں ناکام رہے جو ہم تمہیں بتائیں گے، تو یہ شریر جن حاوی ہو جائے گا۔ پھر تم اُس کے رحم و کرم پر ہو گے۔‘‘

اِن الفاظ کی برکت ایسی تھی کہ نادر زماں کے دل میں جرأت و ہمت کی بجھی ہوئی چنگاری روشن ہو گئی۔ فیروزہ کے لیے وہ اَپنی جان پر کھیل جانا ایک معمولی بات سمجھتا تھا،
چنانچہ اُس نے پھر اُن بزرگ کے قدموں کو بوسہ دیا اور کہا کہ وہ عمل ارشاد فرمائیں۔
وہ ہر ممکن کوشش کر کے اُس پر پورا اُترے گا۔ پیرِ مرد نے یہ سن کر کہا کہ پہلی شرط اِس میں یہ ہے کہ ہر دم پاک صاف رہنا ہو گا تاکہ شریر روحیں اور جنات تمہارے قریب نہ آ سکیں۔
پھر جلال آباد کی پرانی مسجد میں بیٹھ کر اسمِ ذات تین راتوں میں سوا لاکھ مرتبہ پڑھنا ہو گا جو اِس مقصد کے لیے بتایا جائے گا۔ اُس میں کامیابی کے بعد راستہ آسان ہے۔
اِس عمل کو خراب کرنے کی پوری کوشش جنات کی جانب سے کی جائے گی اور وُہ عامل کو بھی طرح طرح سے دھوکا دے کر حصار سے باہر نکالنے کی جدوجہد کریں گے، لیکن عامل کو اُن کی کوئی پروا نہ کرنی چاہیے۔
جنات حصار کے اندر دَاخل ہونے کی جرأت نہ کریں گے۔ جب عمل پورا ہو جائے، تو شاہِ جنات سے رابطہ قائم کرنا کچھ دشوار نہ ہو گا۔

اُن بزرگ کا نام سیّد صالح تھا اور اِس وقت اُن کی عمر ۱۲۵ برس کی تھی۔ نادر زماں نے اُس جھونپڑی میں رہنا شروع کر دیا اور سیّد صالح سے اُس عمل کے تمام قواعد اچھی طرح معلوم کر کے ذہن نشین کیے۔
اِس دوران میں ایک عجیب انکشاف یہ ہوا کہ جب تک وہ جھونپڑی میں رہتا، کسی قسم کا خوف اُس کے نزدیک نہ آتا، لیکن جونہی وہ جھونپڑی سے باہر قدم رکھتا، طرح طرح کے وسوسے، وہم اور اِضطراب انگیز تصورات اُس پر حاوی ہونے لگتے۔
فضا میں پُراسرار آوازیں سنائی دیتیں اور کبھی ایسا معلوم ہوتا جیسے کوئی نادید دُشمن اُس کے دائیں بائیں موجود ہے جو نادر زماں کی ہر حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
ایسے وقت میں وہ سیّد صالح کا عطا کردہ خنجر نکال کر اپنے ہاتھ میں تھام لیتا۔
سیّد صالح کی ہدایت کے مطابق اُس نے سر، مونچھوں اور ڈاڑھی کے غیرضروری بال ترشوا دیے اور پاکیزگی و صفائی کا نہایت خیال رکھنے لگا۔

آخر وہ شب آئی جب اُسے جلال آباد کی پرانی مسجد میں داخل ہو کر ٹھیک بارہ بجے اپنا عمل شروع کرنا تھا۔
سیّد صالح نے اُسے شب و روز میں سورج اور چاند کی نقل و حرکت کا ایک واضع زائچہ بنا کر دیا تھا جس کے حساب سے نادر زماں کو حصار میں بیٹھ کر عمل کا آغاز کرنا تھا۔

نادر زماں نے میرے جدِ امجد ترک تاز خاں کو اَپنی آخری تصویر کے ساتھ کاغذوں کا ایک بھاری پلندہ بھی دیا تھا۔ وہ پلندہ برسوں ایک کوٹھڑی میں پڑا رَہا اور کسی نے اُس کی طرف توجہ نہ دی۔
آخر ایک روز کسی ضرورت سے یہ تاریک کوٹھڑی کھولی گئی، تب وہ پلندہ دِکھائی دیا۔ اکثر کاغذ ایسے تھے جنہیں دیمک چاٹ چکی تھی، تاہم توجہ دی گئی، تو اکثر کاغذوں کی عبارت پڑھنے میں آ گئی۔
یہ نادر زماں کا روزنامچہ تھا جسے اُس نے فصیح اور شستہ فارسی میں قلم بند کیا تھا۔ اُس کے اوراق ترتیب دیے گئے، تو ایک حیرت انگیز مگر ہولناک داستان سامنے آئی۔
بہتر یہی ہے کہ ہم اوراق کا خلاصہ اردو زبان میں پیش کریں تاکہ ہمارے قارئین اِس داستان سے اچھی طرح لطف اندوز ہو سکیں۔

۱۰ شعبان المعظم ۱۰۵۱ ہجری

سیّد صالح کی جب سے مجھے زیارت ہوئی ہے، میری زندگی میں عجیب انقلاب برپا ہوا ہے۔ یہ شخص علومِ ظاہری و باطنی کا بہت ماہر ہے اور اُس کی عمر کا بڑا حصہ سیر و سیاحت میں بسر ہوا ہے۔
مَیں نے شیخ کی زبانی انتہائی تعجب خیز کہانیاں سنی ہیں جو لفظ بہ لفظ بیان کروں، تو ایک نئی الف لیلیٰ تیار ہو سکتی ہے۔

شیخ صالح نہ صرف عارفِ کامل ہے، بلکہ بہت بڑا کیمیاگر بھی ہے۔ اگرچہ وہ اِس فن کو مردود قرار دَے کر ترک کر چکا ہے، لیکن ایک روز مجھے اُس خام کو کندن میں بدل کے دکھایا۔
اِس کے علاوہ اُسی قبیل کے بقیہ چار علوم کا بھی جاننے والا ہے جنہیں کیمیا، سیمیا اور رِیمییا کہتے ہیں۔ شیخ کا بیان ہے کہ یہ پانچوں علم ایسے ہیں کہ اُن سے دنیا کی کایا پلٹی جا سکتی ہے، مگر اُن کا جاننا، سیکھنا اور اُن پر عمل کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔
شیخ نے مجھے بتایا کہ اِن پانچوں علوم کے ابتدائی حرفوں سے ایک کلمہ بنتا ہے کل سرے یعنی یہ تمام علومِ ستری ہیں ….. چھپے ہوئے ہیں اور ہر کس و ناکس کو عطا نہیں کیے جاتے۔
اِنہی میں وہ علم بھی ہے جو شیخ نے مجھے سکھانے کا ارادہ کیا ہے، یعنی روح کو ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل کرنے کا عمل۔

اُس کا عملی مظاہرہ بھی شیخ نے میرے سامنے کیا اور مَیں بڑی مشکل سے اپنے دل کو حرکت بند کرنے سے روک سکا۔ اتنی دہشت مجھ پر طاری رہی کہ اللہ کی پناہ۔ شیخ نے ایک شب اپنی روح اپنے پالتو طوطے میں منتقل کر دی۔
اِس دوران میں شیخ کا جسم ایک مقام پر بےحس و حرکت پڑا رَہا اور طوطے نے شیخ کی زبان میں بولنا شروع کیا، اگر یہ تماشا مزید چند لمحے جاری رہتا، تو شاید پھڑپھڑا کر میرا دَم نکل ہی جاتا۔ مَیں تھرتھر کانپنے لگا۔ اتنے میں شیخ اِلا للہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
مَیں نے عرض کیا کہ طوطے کی روح کہاں تھی؟ فرمایا ’’میرے بدن میں۔‘‘
شیخ نے حبسِ دم کی بھی جوانی میں بڑی مشق کی تھی اور اَبھی تک یہ مشق چھوڑی نہیں۔
میرا خیال ہے اُن کی درازیٔ عمر کا راز بھی اسی حبسِ دم کی مشق میں پنہاں ہے۔ مجھے اُس نے ازراہِ کرم اسمِ ذات کے عمل کی تلقین اور اِجازت دی ہے۔

شب سخت تاریک اور ڈراؤنی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فضا کسی کے سوگ میں ویران اور خاموش ہے۔ آسمان پر کوئی تارہ بھی جھلملاتا دکھائی نہیں دیتا۔
مَیں شیخ صالح کی بابرکت جھونپڑی سے نکل کر جلال آباد کی اُس پرانی مسجد کی طرف بڑھ رہا ہوں جو قبرستان کے کنارے واقع ہے۔
جس کی بوسیدہ چھتوں میں چمگادڑوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ میرے اندازے کے مطابق، وہاں تک پہنچنے میں کوئی ڈھائی کوس کا فاصلہ طے کرنا ہے۔

میرے اردگرد پہاڑی ٹیلے پھیلے ہوئے ہیں اور اَندھیرے میں اُن کی شکلیں ہر لمحہ بدل رہی ہیں، کبھی کچھ، کبھی کچھ۔ آس پاس سخت پتھریلی بنجر زمین پر ناگ پھنی قسم کے پودے کثرت سے ہیں۔
اونچے اونچے، چھوٹے چھوٹے، پھیلے پھیلے، سمٹے سمٹے، مَیں اُن پر نگاہ جماتا ہوں، یہ پودے بھی عجیب بھیانک شکلیں اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ یکایک پودا میرے سامنے سمٹا، پھر اونچا اٹھنے لگا، پھر ناگ بن کر اُس نے اپنا چوڑا پھن پھیلایا اور قدآدم ہو کر جھومنے لگا۔
اس کی دو شاخہ زبان بھی لہراتی، تڑپتی ہوئی مَیں نے دیکھی اور ننھی ننھی سرخ آنکھیں انگاروں کی مانند دہکتی پائیں۔

میری سماعت نے اُس کی پھنکار بھی اچھی طرح سنی، لیکن مجھ پر خوف کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا۔ مَیں شیخ صالح کا خنجر تھامے ہوئے ہوں اور آیۃ الکرسی کا ورد کرتا چلا جا رہا ہوں۔
آگے بڑھ کر مَیں اُس ناگ کو غور سے دیکھتا ہوں اور خنجر کے ایک ہی وار سے اُس کا پھن کاٹ ڈالتا ہوں۔
چشمِ زدن میں وہ ناگ دوبارہ پودے میں ہو کر چھوئی موئی کی مانند سمٹ کر زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ اُس کی ایک شاخ کٹ کر الگ پڑی ہے۔

ابھی مَیں نے نصف فاصلہ طے کیا ہے کہ یکایک ایک پہاڑی ٹیلے کے عقب سے بچے کے رونے کی آواز آتی ہے۔
مَیں حیران ہوں کہ اِس اجاڑ بیابان میں نصف شب کے وقت یہ بچہ کہاں سے آیا۔
اُس آواز پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور تیزی سے اپنا راستہ طے کرتا ہوں کہ اتنے میں بچے کے رونے اور چیخنے کی آواز میرے بالکل قریب آ جاتی ہے۔ مَیں تھم جاتا ہوں۔
مجھ سے کوئی دس ہاتھ آگے تین چار سال کا ایک بچہ کھڑا رَو رَہا ہے۔ اُس کے رونے کی آواز میرے دماغ کو برمے کی مانند چھیدتی ہوئی گزر رَہی ہے۔

’’مجھے گھر لے چلو ….. ۔‘‘
بچہ رو رَو کر کہہ رہا ہے۔ اُس نے دونوں ہاتھ پھیلا دیے ہیں۔ یک بیک یہ ہاتھ لمبے ہونے لگتے ہیں اور میری گردن دبوچنے کے لیے حرکت میں آتے ہیں۔
مَیں خنجر کا وار کرتا ہوں۔ دونوں بازو مولی کی طرح کٹ کر زمین پر گرتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی وہ پُراسرار بچہ، جو کوئی شریر جن ہے اور صوبےدار جلال آباد کا بھیجا ہوا معلوم ہوتا ہے، ویرانے سے چیختا چلّاتا بھاگ جاتا ہے۔
اُس کے قدموں کی آواز دیر تک زلزلے کی مانند بیاباں میں گونجتی رہتی ہے۔
مَیں مسلسل کلامِ الٰہی کی زیرِلب تلاوت کرتا مسجد کی طرف بڑھ رہا ہوں اور اَب دوڑنا شروع کرتا ہوں۔
دفعتاً مسجد سے کچھ دور مجھے ہلکی ہلکی روشنی نظر آتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے وہاں دس بارہ چراغ روشن ہیں۔ یہ چراغ گردش میں ہیں۔ نزدیک جاتا ہوں، تو حیرت اور خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔
وہاں فیروزہ اَپنی تمام تر رعنائیوں اور حسن و جمال کے جلو میں کھڑی ہے۔ ایک سنہری تھالی میں کئی چراغ جل رہے ہیں اور یہ تھالی فیروزہ کے ہاتھ میں ہے۔

’’آؤ نادر زماں ….. مَیں کتنی دیر سے تمہارا اِنتظار کر رہی ہوں۔ اُف خدایا ….. یہ تمہارے ہاتھ میں خون آلود خنجر کیسا ہے؟
اِسے پھینک دو جانِ من! مجھے اپنے بازوؤں میں لے لو۔ مَیں تم سے ملنے کے لیے تڑپ رہی ہوں۔‘‘

’’ تم یہاں اِس ویرانے میں کیا کر رہی ہو؟ مَیں کہتا ہوں۔ جلد بتاؤ وُہ خبیث صوبےدار جلال آباد کہاں ہے؟ اب وہ مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتا۔‘‘

فیروزہ کی مترنم ہنسی فضا میں گونجتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ میرے قریب آ رہی ہے۔ ایک بار پھر مَیں اُس کا چہرہ دَیکھتا ہوں۔
یہ خال و خط، یہ قوسیں، یہ لکیریں، یہ آبرو، یہ رخسار یہ لب یہ زنخداں بےشک سب اُسی کے ہیں، لیکن نہ جانے کیوں میرے دل میں کراہت اور نفرت کا ایک الاؤ خودبخود سلگ اٹھا ہے۔
مَیں کلامِ الٰہی پڑھ کر پھونک مارتا ہوں اور دَفعتاً تھالی میں رکھے ہوئے تمام چراغ گُل ہو جاتے ہیں۔
پھر ایک مکروہ بھیانک قہقہہ ہوا کے دوش پر سوار ہو کر آتا ہے اور میرے کانوں سے مسلسل ٹکراتا ہے۔
مَیں یہ آواز پہچان لیتا ہوں۔ یہ وہی صوبےدار جلال آباد ہے۔ اُس کا یہ فریب بھی ناکام ہو گیا ہے۔

مَیں جلدی سے مسجد میں داخل ہو جاتا ہوں۔ ہر طرف اب گہرا سناٹا ہے۔ اِس نواح میں حشرات الارض اَن گنت ہیں۔ برابر اُن کے بولنے اور چیخنے کی آوازیں سنتا رہا ہوں، لیکن اِس وقت سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
جھینگر بھی چپ ہیں اور مینڈک بھی نہیں ٹرا رَہے۔ مسجد کے در و دِیوار پر حسرت برس رہی ہے۔
مَیں شیخ صالح کی ہدایت کے مطابق ساعتوں کا اندازہ کر کے مسجد کے ایک کچے حجرے میں اپنے خنجر کی نوک سے ایک وسیع دائرہ کھینچتا ہوں۔
یہ حصار ہے۔ شیاطین سے میری سلامتی اور حفاظت کا حصار اَور مجھے اُسی کے اندر بیٹھ کر اسمِ ذات کا عمل پورا کرنا ہے اور یہ وقت طلوعِ آفتاب سے پہلے تک کا ہے۔

حصار کے اندر دَاخل ہو کر مَیں ہمیانی میں ہاتھ ڈال کر ایک چراغ اور کُپی میں سے سرسوں کا تیل نکالتا ہوں، پھر چقماق پتھروں کو رگڑ کر چراغ روشن کرتا ہوں۔
اُس کی روشنی میں مسجد کا صحن، اندرونی حصّہ اور دَروازہ سبھی بخوبی دکھائی دے رہے ہیں۔ خنجر اپنے سامنے رکھ کر مَیں چغے میں سے تسبیح نکال کر ورد شروع کر دیتا ہوں۔
حسبِ ہدایت مجھے اپنی آنکھیں پورے عمل کے دوران کھلی رکھنی ہیں۔ اِس عمل میں نیند کا آنا سخت مہلک ہے۔ چراغ کی روشنی میں میرا سایہ سامنے والی دیوار پر پڑ رہا ہے۔
جب مَیں معمولی سی بھی حرکت کرتا ہوں، تو یہ سایہ بری طرح تھرتھراتا ہے، حالانکہ چراغ کی لَو بالکل سیدھی ہے اور مسجد کے اِس حصّے میں اونچی اونچی دیواروں کی وجہ سے ہوا کا دباؤ بھی زیادہ نہیں۔
مَیں اپنی توجہ اُس طرف سے ہٹا کر اپنے عمل کی جانب مرکوز کرتا ہوں۔

جُوں جوں میرے عمل میں تیزی آ رہی ہے، تُوں توں میرے دائیں بائیں عجیب و غریب آوازیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مَیں ایک پُرہجوم بازار میں ہوں اور لوگ طرح طرح کی باتیں ایک دوسرے سے کر رہے ہیں۔ مَیں بڑی مشکل سے اپنی سماعت پر قابو پا کر اُن پُراسرار آوازوں کو ذہن سے جھٹک دیتا ہوں۔
تھوڑی دیر بعد یہ آوازیں ختم ہو جاتی ہیں اور اَب ایسا لگ رہا ہے جیسے اَن دیکھے بعض اجسام میرے قریب ہی موجود ہیں۔
مَیں اُن کے سانس لینے کی آوازیں بھی سن سکتا ہوں۔ پھر یکایک میری نگاہ دِیوار پر تھرتھراتے ہوئے اپنے ہی سائے پر پڑتی ہے اور یہ دیکھ کر میرا کلیجا کانپ اٹھتا ہے کہ سایہ دائیں دیوار سے ہٹ کر بائیں دیوار پر منتقل ہو گیا ہے۔ یہ ایسا خلافِ توقع شعبدہ ہے کہ چند لمحوں کے لیے میری زبان گنگ ہو جاتی ہے۔
دیکھتے دیکھتے میرا سایہ سمٹ کر انسانی شکل اختیار کرتا ہے اور دِیوار سے اتر کر عین میرے سامنے، مگر حصار کے باہر بیٹھ جاتا ہے۔

یہ ایک دوسرا نادر زماں ہے جو مجھے دیکھ دیکھ کر مسکرا رَہا ہے جب مَیں اُس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، تو اُس کی صورت بدل کر بھیانک ہو جاتی ہے۔
آنکھوں سے شعلے اٹھ رہے ہیں اور سر کا ایک ایک بال کھڑا ہے۔ مجھ پر ہیبت طاری ہو رہی ہے۔ آنکھیں بند کرنے کا حکم نہیں، مجھے لازماً یہ سب تماشا دیکھنا اور اَپنے ہوش و حواس بھی برقرار رَکھنے ہیں، لیکن حلق خشک ہو رہا ہے اور عمل پڑھنے میں سخت اذیت ہو رہی ہے۔
چند لمحوں بعد یہ حالت ہوئی کہ الفاظ زبان سے نکلنے دشوار تھے۔ مَیں نے گردن دوسری جانب موڑی، تو وہ چہرہ پھر سامنے تھا۔ کوئی دو ساعتوں تک یہی کیفیت رہی۔
آخر وہ منحوس صورت نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اُس کے بعد طلوعِ سحر تک مَیں نے اطمینان سے اپنا عمل پڑھا، پھر چراغ گُل کر کے حصار سے باہر آ گیا۔

شیخ صالح مجھے مسجد سے باہر ہی مل گئے۔ اُنھوں نے گلے سے لگا لیا اور مبارک باد دِی کہ پہلے امتحان میں سرخرو رَہا۔ اللہ نے چاہا، تو آئندہ دو رَاتیں بھی کامیابی سے عمل پڑھوں گا۔ خود مجھے بھی اللہ کی ذات سے ایسی ہی امید ہے۔

۱۱ شعبان المعظم ۱۰۵۱ ہجری

دوسری شب مَیں شیخ کی جھونپڑی سے نکل کر مسجد کی طرف چلا۔ نصف راہ تک کسی نے مجھے حیران نہ کیا۔ خوش ہوں کہ بلائیں ٹل رہی ہیں اور عمل پورا ہونے کے بعد فیروزہ مجھے مل جائے گی اور مَیں اُس شریر جن کا قصّہ ہمیشہ کے لیے پاک کر دوں گا۔
جونہی مَیں مسجد کے نزدیک پہنچتا ہوں، ایک بڑی چمگادڑ مغرب کی جانب سے نہایت نیچی پرواز کرتی ہوئی آتی ہے اور مجھ پر ایک دم حملہ کر دیتی ہے۔
مَیں دایاں ہاتھ اوپر اٹھا کر خنجر اُسے دکھاتا ہوں اور وُہ ہولناک آوازیں نکالتی ہوئی مشرق کی جانب چلی جاتی ہے۔

مسجد میں جا کر اُسی جگہ حصار کھینچتا ہوں اور مقررہ ساعت پر وِرد شروع کر دیتا ہوں۔ کل کی نسبت آج میرے اوسان بھی بحال ہیں اور اَعصاب بھی مضبوط۔
مَیں یقین کیے ہوئے ہوں کہ حصار کے اندر کوئی شے داخل ہو کر مجھے نقصان پہنچانے پر قادر نہیں، لہٰذا بےفکری سے عمل جاری رکھنا چاہیے۔
ابھی یہ تصورات میرے ذہن ہی میں ہیں کہ حجرے کے روشن دان سے کوئی پرندہ پھڑپھڑاتا ہوا اَندر آتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے بالکل غیراختیاری طور پر گردن گھما کر دیکھتا ہوں۔ یہ پرندہ نہیں، میری ہی شکل و صورت کا ایک آدمی ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہ دو ہو گئے، پھر تین ….. پھر چار۔ اُن سب کی صورتیں ایک جیسی ہیں۔ وہ میری طرف دھیان دیے بغیر آپس میں کانا پھوسی کر رہے ہیں۔
پھر زور زور سے گردنیں ہلا کر ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اُن کی بھیانک اور مکروہ آوازوں سے مسجد گونج رہی ہے۔ میرے عمل میں ایک دو لمحوں کے لیے خلل پڑتا ہے۔
اُس کے بعد مَیں اُن کی طرف سے دھیان ہٹا کر عمل کی جانب متوجہ ہو جاتا ہوں۔ جب دل پر گھبراہٹ طاری ہونے لگتی ہے، تو خنجر ہاتھ میں لے کر اُن شکلوں کو ڈراتا ہوں۔
خنجر ہاتھ میں لیتے ہی وہ خوف زدہ ہو کر حصار سے پرے ہٹ جاتے ہیں اور پھر آپس میں سرگوشیاں شروع کر دیتے ہیں۔

یکایک بیرونی دروازے سے ایک قوی ہیکل حبشی اندر آتا ہے۔ اُس نے اپنی پشت پر لوہے کا ایک بڑا کڑہاؤ اُٹھا رکھا ہے۔ اُس کا وزن کسی طرح بھی دس پندرہ من سے کم نہ ہو گا۔
حبشی لال لال زبان اور سفید سفید دانت نکال کر میری طرف دیکھتا ہے اور دَھڑام سے وہ آہنی کڑہاؤ مسجد کے صحن میں پٹخ دیتا ہے۔ پھر دوسرا حبشی اندر آتا ہے۔
اُس کی پشت پر منوں لکڑیاں لدی ہیں۔ وہ لکڑیوں کا بھاری گٹھا صحنِ مسجد میں پھینک کر باہر نکل جاتا ہے۔ میری شکل وصورت کے چاروں آدمی جلدی سے وہ لکڑیاں جمع کر کے آگ لگا دیتے ہیں۔
شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔

اب جو دیکھتا ہوں، تو وہ آہنی کڑہاؤ آگ پر دھرا ہے، پھر ایک قوی ہیکل حبشی آیا اور اُس نے ہاتھ سے نہ جانے کیا اشارہ کیا کہ کڑہاؤ میں تیل بھر گیا، آناً فاناً تیل کھولنا شروع ہوا اَور آگ کی لپٹیں حصار تک پہنچنے لگیں۔
مسجد کے در و دِیوار تپتے ہوئے دکھائی دیے۔ خود مَیں محسوس کر رہا تھا کہ نارِ جہنم میں کچھ ایسی ہی تپش ہوتی ہو گی۔
معاً وہ سب صورتیں غائب ہو گئیں اور اُن کی جگہ صوبےدار جلال آباد نمودار ہوا۔ اُس کا لباس ویسا ہی تھا جیسا مَیں نے اوّل مرتبہ دیکھا۔
وہ نہایت اطمینان سے اپنی جگہ کھڑا مجھے گھورتا رہا، پھر غضب ناک لہجے میں بولا:

’’اے نوجوان! اب بھی وقت ہے، یہ ڈھونگ چھوڑ دے اور اَپنی جان سلامت لے کر یہاں سے نکل جا۔
شاید تُو میری قوت سے آگاہ نہیں۔ ایسے ایسے سینکڑوں عمل مَیں خود جانتا ہوں اور اِن سب کا توڑ بھی میرے پاس ہے۔ اگر کہے، تو تماشا دکھاؤں؟

مَیں خاموش رہا۔دل ہی دل میں اپنا وظیفہ برابر پڑھے جاتا تھا۔ گاہے گاہے خنجر پر بھی نگاہ ڈال لیتا۔ صوبےدار نے تالی بجائی اور مجھے یوں لگا جیسے کسی نے آہنی گرز میرے سر پر دے مارا ہو۔
پلک جھپکنے میں وہی حبشی غلام سیّد صالح کو گھسیٹتے ہوئے مسجد میں لے آیا۔ شیخ کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، سفید ریش لہو سے رنگین تھی۔
بدن پر جا بجا زخم تھے جن سے مسلسل خون رِس رہا تھا۔ اُن کی حالت سخت ابتر تھی۔
مَیں عمل بھول کر اُن کی طرف حیرت و خوف سے تکنے لگا۔ شیخ صالح نے بےحد نحیف آواز میں کہا:

’’نادر زماں ….. مَیں تمہیں حکم دیتا ہوں، یہ عمل ترک کر دو۔ اِسی میں تمہاری بھلائی ہے۔
مَیں اپنی شکست تسلیم کرتا ہوں۔ صوبےدار کا حکم ہے کہ اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو نہ صرف وہ مجھے مار ڈالے گا، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیروزہ کو بھی تم سے چھین لے گا۔‘‘

اگر اللہ کی رحمت میرے شاملِ حال نہ ہوتی، تو مَیں اُس فریب میں ڈوب ہی گیا تھا۔ غیرشعوری طور پر مَیں نے خنجر اٹھایا۔
خنجر کا اٹھانا تھا کہ صوبےدار نے چلّا کر حبشی کو حکم دیا شیخ صالح کو کھولتے تیل میں ڈال دو۔ یہ الفاظ ابھی اُس کے منہ سے ادا ہوئے ہی تھا کہ مَیں نے شیخ کو تیل کے کڑہاؤ میں پایا۔ آناً فاناً اُس کا بدن جل کر کوئلہ ہو گیا۔ صوبےدار نے قہقہہ لگایا اور بولا:

’’اب اِس بےوقوف مصور کا بھی یہی حشر کیا جائے گا۔‘‘

حبشی قدم بڑھاتے ہوئے میری جانب آیا۔ ایسا لگا جیسے اُس نے ایک پاؤں حصار میں رکھ دیا ہو۔ مَیں نے خنجر پوری قوت سے اُس کے پاؤں پر مارا۔ ایک ہولناک آواز کے ساتھ سب کچھ غائب ہو گیا۔
نہ کڑہاؤ رہا، نہ آگ کے شعلے، نہ صوبےدار جلال آباد اور نہ وہ مکروہ صورت حبشی۔ مَیں بدستور اپنے حصار میں بیٹھا تھا اور چراغ روشن۔

۱۲ شعبان المعظم ۱۰۵۱ھ

آج اِس عمل کی تیسری اور آخری رات ہے۔ گزشتہ روز صبح جب مَیں مسجد سے باہر نکلا، تو شیخ صالح کو اپنا منتظر پایا۔ اُنھوں نے فرمایا
’’بس اب کامیابی سمجھو۔ جنات نے تمہیں ڈرانے دھمکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر آفرین ہے تمہاری ہمت اور اِستقلال پر، تم نے اُن کا ہر داؤ ناکام بنا دیا۔
اب پوری توجہ اور حواس کی تمام بیداری کے ساتھ عمل پڑھنا۔ ممکن ہے جنات آج رات تمہیں ورغلانے اور عمل سے ہٹانے کے لیے کوئی نیا حربہ آزمائیں۔
وہ خواہ کچھ کریں، تم ہرگز وقتِ مقررہ سے پہلے حصار نہ چھوڑنا۔
مَیں نے شیخ سے وعدہ کیا کہ اِن شاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہو گا اور کوئی شیطانی قوت مجھ پر غالب نہ آ سکے گی۔

شیخ نے ایک تعویذ بھی میرے گلے میں باندھا۔ یہ رات پچھلی دو رَاتوں سے کہیں زیادہ وَحشت انگیز اور تاریک تھی۔ قدم قدم پر یوں لگتا جیسے ہزاروں اَن دیکھے اجسام میرے تعاقب میں ہیں۔
مَیں اُن کے قدموں کی آہٹیں اور آوازیں بھی سن رہا تھا، لیکن نظر کوئی نہ آتا تھا۔ جُوں جوں مسجد کی جانب بڑھتا گیا، تُوں توں اُن پُراسرار اَور نہ دکھائی دینے والے اجسام کی قربت کا احساس زیادہ ہوتا چلا گیا۔
پھر میرے کانوں میں رونے اور بین کرنے کی ڈراؤنی آوازیں آنے لگیں۔ سینکڑوں عورتوں کے بین کرنے کی آوازیں، جیسے کسی کا ماتم ہو رہا ہو۔
یہ آوازیں نہیں، نادیدہ برچھیاں سی تھیں جو میرے دل میں کھبی جاتی تھیں۔
یہ شور میرے آگے پیچھے، دائیں بائیں اتنی شدت سے ہو رہا تھا کہ کانوں کے پردے پھٹنے لگے اور آنکھوں کے آگے ستارے سے ناچتے نظر آئے۔

مَیں نے اونچی آواز میں کلامِ الٰہی کی تلاوت شروع کی اور رَفتار تیز کر دی۔ دیر تک چلنے کے باوجود بھی مسجد نگاہوں سے اوجھل رہی۔ رونے اور بین کرنے کی دماغ پاش آوازیں ابھی تک کانوں میں آ رہی تھیں۔ مَیں نے گھپ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اِردگرد دَیکھا۔
یہ ایسا راستہ تھا جس پر مَیں کبھی نہ آیا تھا۔ اب پہلی مرتبہ دہشت سے رونگٹے کھڑے ہوئے۔ مَیں نے سوچا کیا شریر جنوں اور شیطانی روحوں نے مجھے راہ سے بھٹکا دیا ہے؟
ایک جگہ رک کر مَیں نے اپنے حواس درست کیے، شیخ کا عطا کردہ تعویذ گردن میں ٹٹولا۔
اُسے چھونے سے عجب طرح کی تسکین دل کو ہوئی اور خوف کی وہ حالت یکسر جاتی رہی۔

یکایک مَیں نے ایک روشن سائے کو بیاباں میں حرکت کرتے دیکھا۔ یہ انسانی قد و قامت کا سایہ تھا۔ غیرارادی طور پر مَیں اُس کے تعاقب میں چل پڑا۔
تھوڑی دیر بعد مَیں نے خود کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ میرے دیکھتے دیکھتے وہ سایہ مسجد کے اندر دَاخل ہوا اَور ٹھیک اُس حجرے کے پاس رکا، جس میں حصار باندھ کر مَیں اپنا عمل پڑھا کرتا تھا۔
مجھے اُس سائے سے کوئی ڈر نہ لگا اور خود بخود یہ بات میرے دل میں جم گئی کہ یہ سایہ میری حفاظت اور نگہبانی کے لیے ہے۔ ابھی مَیں چراغ روشن کر کے خنجر کی نوک سے حصار باندھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ لرزہ خیز چیخ مسجد کے صحن میں گونجی اور مَیں نے دیکھا کہ صوبےدار جلال آباد اوندھے منہ وہاں پڑا ہے۔
اُس کا جسم آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور شعلوں کا ایک دائرہ اُس کے گرد رَقص کر رہا تھا۔
صوبےدار کے حلق سے بھیانک چیخیں نکل رہی تھیں جیسے وہ سخت اذیت میں ہو۔ یہ منظر دیکھ کر مَیں پتھر ہو گیا اور حصار باندھنا یاد نہ رہا۔ عین اُس وقت کسی نے میرے کان میں کہا:

’’نادر زماں! کیا غضب کرتے ہو؟ جلد حصار مکمل کر کے اُس میں پناہ لو، ورنہ دشمن وار کیا ہی چاہتا ہے۔‘‘

اللہ کی پناہ! یہ آواز آقائے تبریزی کی تھی۔ جی ہاں ….. مَیں یہ آواز کبھی نہیں بھول سکتا ….. آقائے تبریزی تو مر چکا تھا ….. پھر یہ آواز ….. مَیں نے جلدی سے حصار باندھا اور اُس میں محصور ہو گیا۔
حصار کے اندر جانے کی دیر تھی کہ صوبےدار جلال آباد کی چیخیں مزید بلند ہو گئیں۔ در وَ دِیوار لرزنے لگے اور حجرے کی بوسیدہ چھت یوں گڑگڑائی جیسے ابھی میرے سر پر آن گرے گی۔
شعلوں کا دائرہ غائب ہو گیا اور وُہ زنجیریں بھی ٹوٹ گئیں جن میں یہ شریر جن جکڑا ہوا تھا۔

مَیں نے اپنا ورد شروع کیا اور صوبےدار نے رونا چلّانا۔ وہ بری طرح چیخ رہا تھا کہ یہ عمل بند کرو، ورنہ مَیں جل جاؤں گا۔ جس طرح تم کہو گے، ویسا ہی کروں گا۔
اگر فیروزہ کو چاہتے ہو، تو ابھی اُسے آزاد کیے دیتا ہوں۔ اُسے اپنے ساتھ لے جاؤ اور حضرت سلیمان اعظم ؈ کی قسم کھا کر عہد کرتا ہوں کہ دوبارہ اُسے یا تمہیں اور تمہاری آئندہ ذریّت کو تنگ نہ کروں گا۔ وہ عاجزی اور اِنکساری سے توبہ کر رہا تھا کہ مجھے اُس پر رحم آنے لگا۔
دل کے کسی دور اُفتادہ گوشے سے صدا آئی کہ نادر زماں! تمہیں فیروزہ سے مطلب ہے، اگر یہ شریر جن عہد کرتا ہے کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے گا، تو تمہیں عفو سے کام لینا چاہیے۔
ایک لمحے کے لیے مَیں نے عمل ترک کر کے صوبےدار کی جانب نگاہ اُٹھائی۔ اُس کا سارہ بدن لہولہان تھا جیسے کوئی نادیدہ قوت اُسے مسلسل زخمی کر رہی ہو۔ ہر بار وُہ مرغِ بسمل کی طرح فرش پر تڑپتا، لَوٹتا اور بھیانک آواز میں روتا۔

دفعتاً وہ رَوشن انسانی سایہ دیوار سے اتر کر حصار کے نزدیک آیا اور پھر مَیں نے وہاں آقائے تبریزی کو کھڑے پایا۔ تبریزی جو کئی ماہ پہلے مر چکا تھا، فنا ہو چکا تھا ….. اب پھر میرے سامنے موجود تھا یا شاید اُس کی روح تھی۔ مَیں نے دیکھا صوبےدار جلال آباد کا رونا چلّانا یک دم رک گیا ۔
اَب اُس پر ویسی ہی ہیبت طاری ہونے لگی جیسی پہلی مرتبہ صوبےدار کو اَپنی حویلی میں دیکھ کر آقائے تبریزی پر طاری ہوئی تھی۔

’’تحویل جن! شاید تمہارا آخری وقت آن پہنچا۔‘‘
تبریزی کے وجود یا روشن ہیولے میں سے آواز نکلی۔
’’تم نے صدیوں تک انسانوں کو اذیتیں دی ہیں اور تم اپنی سیہ کاری میں اِس حد تک آگے بڑھے کہ دھوکے اور فریب سے ہماری بہو بیٹیوں کو بھی انسانوں کے بھیس میں آن کر لے جانے لگے۔
بھول گئے کہ بدی بدی ہے اور نیکی نیکی، بدی کبھی نیکی پر غالب نہیں آ سکتی۔
اُس ربِ قہار وَ جبار کو بھی فراموش کر دیا جو ایک ایک ذرے کا علم رکھتا ہے۔
جس کے قبضۂ قدرت میں انسانوں اور جنوں کی جانیں ہیں۔
تم نے جو کچھ پایا، وہ اُنہی خاکی انسانوں سے پایا، تم نے سارے عمل اُنہی سے سیکھے جن کی عزتوں پر وار کیا۔ تمہیں اپنے علم پر بڑا غرور ہے، ایسا ہی غرور تمہارے استادِ ازل، ابلیس لعین کو تھا۔
کیا تم نہیں جانتے کہ وہ رَاندۂ درگاہ اِسی تکبر کے باعث ہوا۔
تمہاری موت اب قریب ہے۔ بہتر یہی ہے کہ انسانی لبادہ اُتارو اَور اَپنے اصل روپ میں سامنے آؤ۔‘‘

اب مجھے معلوم ہوا کہ اِس شریر جن کا نام تحویل ہے۔ آقائے تبریزی کے روشن سائے نے آہستہ آہستہ جن کی طرف قدم بڑھائے اور وُہ خوف کے مارے سکڑنے لگا۔
سکڑتے سکڑتے ایک ننھے چوہے میں بدل گیا۔ اُسے راہِ فرار نہیں مل رہی تھی۔ مسجد کے کونوں کھدروں میں پناہ لینے کے لیے اِدھر سے اُدھر بھاگا پھرنے لگا …..
تبریزی کا سایہ اُس کے تعاقب میں تھا۔ آنِ واحد میں دونوں نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔
مَیں نے اطمینان سے باقی عمل پورا کیا۔ اُدھر صبح صادق کی روشنی مشرقی اُفق پر پھیلی، اِدھر مَیں حصار سے باہر آیا۔ میرا عمل کامیاب ہو چکا تھا۔

نادر زماں کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ منزلِ مقصود قریب تھی اور وُہ فیروزہ کو پانے کے لیے بےتاب تھا۔ شیخ صالح اُسے اپنی جھونپڑی میں لے گئے۔
نادر زماں نے تبریزی کی روح کے آنے اور تحویل سے مکالمہ کرنے کا سارا قصّہ کہہ سنایا۔ شیخ غور سے سنتے رہے۔ اُن کے جھریوں بھرے بوڑھے چہرے پر حیرت اور تجسّس کے آثار تھے۔
اُنھوں نے نوجوان کو تلقین کی کہ اگر دوبارہ تبریزی کا ہیولا نظر آئے، تو وہ اُس سے فیروزہ کا احوال ضرور معلوم کرے۔ اِس طرح کام زیادہ آسان ہو جائے گا۔
تحویل جن اِس اثنا میں فیروزہ کو جلال آباد کے نواح سے کہیں اور لے جانے کی کوشش کرے گا، مگر ہم اُسے ایسا موقع ہی نہ دیں گے۔
شیخ نے اپنے پُراسرار علوم میں سے ایک کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اُنھوں نے گوشت کے ایک لوتھڑے پر کچھ پڑھ کر دم کیا، پھر نادر زماں سے کہا:

’’یہ لوتھڑا اَپنے تھیلے میں رکھو اور مغرب کی طرف ناک کی سیدھ میں روانہ ہو جاؤ۔ تین کوس کے فاصلے پر بےشمار پہاڑی چٹانیں اور غار پائے جاتے ہیں۔
اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جنات کا مسکن ہیں۔ رات تو کیا، وہاں دن کو بھی کوئی نہیں جاتا۔ سورج جب نصف النہار پر ہو، تو اُس میدان کے عین درمیان کھڑے ہو کر آٹھ مرتبہ اصحابِ کہف کے کتے قطمیر کو آواز دینا۔ جونہی آٹھویں بار تم یہ نام پکارو گے، ہر طرف سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آئیں گی۔
خبردار! اُن آوازوں سے خوف مت کھانا۔ تھوڑی دیر بعد ایک گرانڈیل سفید کتا نمودار ہو گا۔
فوراً گوشت کا یہ لوتھڑا اُس کے آگے ڈال دینا۔
جب وہ اِسے کھا چکے گا، تو خود بخود ایک طرف کو روانہ ہو جائے گا۔ تم بےخوف و خطر اُس کے پیچھے چلے جانا۔ اُس کے بعد اللہ کی قدرت کا تماشا ملاحظہ کرنا۔‘‘

نادر زماں نے اِن ہدایات پر عمل کیا۔ ٹھیک اُس وقت جب سورج سر پر تھا اور نادر زماں کا سایہ اُس کے قدموں میں آ گیا تھا، وہ چٹانوں سے گِھرے ہوئے اُس میدان میں داخل ہوا۔
یہاں پر ہول سناٹا طاری تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہزاروں برس سے اِس علاقے میں کسی انسان نے قدم نہیں رکھا۔ سیاہ رَنگ کی مخروطی چٹانیں گردنیں اٹھائے سینہ تانے نہ معلوم کب سے کھڑی تھیں۔
اُن چٹانوں کے اندر کثرت سے غار دِکھائی دیے۔ نادر زماں نے وقت ضائع کیے بغیر آٹھ مرتبہ اصحابِ کہف کے کتے قطمیر کو آواز دی۔ اُس کی آواز چٹانوں میں گونجتی ہوئی پرے ہٹتی گئی۔
پھر چند لمحے بعد ایسی ہی آوازیں مسلسل سنائی دینے لگیں۔ یہ قطمیر کو پکار رَہی تھیں۔

یہ نادر زماں ہی کی صدائے بازگشت تھی۔ آپ ہی آپ، اپنی آواز سن کر اُس پر دہشت طاری ہونے لگی۔ اُسے شش جہت سے قطمیر قطمیر کی پکار سنائی دینے لگی۔ آواز رکی، تو ہر طرف سے کتوں کے بھونکنے کا شورِ عظیم بلند ہوا۔
یہ ایسی بھیانک آواز تھی کہ نادر زماں کا خون رگوں میں جمنے لگا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ہزاروں، لاکھوں کتے چٹانوں کے عقب سے بھونکتے اور لپکتے ہوئے چلے آ رہے ہیں، اُس پر حملہ کرنے کے لیے۔
اُسے کچا چبا جانے کے لیے، لیکن آہستہ آہستہ یہ مہیب شور تھمتا گیا اور ایک بار پھر اُس بیابان میں ہولناک سناٹا چھا گیا۔ یکایک ایک غار میں سے سفید رنگ کا بڑا سا کتا برآمد ہوا اَور دوڑتا ہوا نادر زماں کی طرف آیا۔
اُس کی کھال دھوپ میں خوب چمک رہی تھی۔ ایسا خوبصورت اور قوی ہیکل کتا نادر زماں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
سر سے لے کر دُم تک انڈے کی مانند سفید، اُس کا قد ایک عام گدھے کے برابر ہو گا۔ جونہی وہ نزدیک آیا، نادر زماں نے تھیلے میں سے گوشت کا لوتھڑا نکال کر اُس کے آگے پھینک دیا۔

کتے نے دم ہلائی۔ تھوڑی دیر محبت کی نگاہ سے نادر زماں کو دیکھا۔ پھر اطمینان سے گوشت کھانے میں مصروف ہو گیا۔
گوشت کھانے کے بعد دو تین مرتبہ ڈکار لی، پھر ہلکی چال چلتا ہوا ایک جانب روانہ ہوا۔
نادر زماں اُس کے پیچھے کچھ بھاگنے، کچھ چلنے اور کچھ لمبے لمبے ڈگ بھرنے کی سی کیفیت کے ساتھ چلا۔
کتا وقفے وقفے سے مڑ کر نادر زماں کو دیکھتا اور یہ جان کر کہ وہ تعاقب میں ہے، پھر آگے چلنے لگتا۔
بہت جلد وہ اُسے چٹانوں کے اندرونی حصّے میں لے گیا۔ یہاں تاریک غار کثرت سے تھے۔
زمین اتنی بھربھری اور خشک تھی کہ جونہی کوئی پتھر نادر زماں کے قدموں تلے آتا، پس کر ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے کرۂ ارضی سے نکل کر کسی اور سیارے میں پہنچ گیا ہے جہاں کی دنیا ہی نرالی ہے۔

دفعتاً کتا ٹھہر گیا۔ اب وہ ایک غار کے دہانے پر کھڑا تھا جس کی اونچائی نادر زماں کے اندازے کے مطابق دلی کے قطب مینار سے کسی طرح کم نہ تھی اور اُس عمودی چٹان پر چڑھنا کسی انسان کے بس میں نہ تھا۔
نادر زماں سوچنے لگا اگر اِس پر چڑھنا ہے، تو یہ بظاہر ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ ویسے بھی ایک ایسے شخص کے لیے جس کی زندگی کا بڑا حصّہ رنگوں اور برشوں میں کٹا ہو، چٹانوں اور پہاڑوں کی چڑھائی ایک دشوار گزار عمل ہے۔
ابھی وہ اِسی سوچ میں گم تھا کہ سفید کتے نے اپنے اگلے پنجوں سے نرم نرم زمین کھودنی اور مٹی اڑانی شروع کی۔ نادر زماں حیرت سے یہ کارروائی دیکھتا رہا۔
کتا بڑی تیزی سے زمین کھود رَہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک دروازہ سا ظاہر ہوا اَور کتا اُس کے اندر دَاخل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
نادر زماں کے سامنے تجسّس اور اِسرار کی ایک نئی دنیا آ گئی تھی۔ دوسرے ہی لمحے وہ بھی اُس دروازے میں قدم رکھ کر اَپنے آپ کو اندھیرے کے سپرد کر چکا تھا۔
غار میں داخل ہونے کے بعد اُس کے احساسات و تاثرات کیا تھے، بہتر ہے کہ مَیں اُسی کے روزنامچے سے مدد لوں۔

’’جب مَیں سفید کتے کے پیچھے پیچھے اللہ کو یاد کرتا ہوا اُس دروازے میں داخل ہوا، تو زندہ وَاپس آنے کی ساری توقعات ختم ہو چکی تھیں۔ مَیں جنات کی بستی میں جا رہا تھا اور یہ بالکل ممکن تھا کہ وہاں تک شیخ صالح کی رسائی نہ ہوتی۔
اب تک مَیں اُسی کے اعمال کی برکت سے اُن شریر جنوں اور شیطانی روحوں سے محفوظ رہا تھا۔ شاید مَیں بھی ہمیشہ کے لیے فیروزہ کی طرح اُس خوفناک جن کا قیدی بن جاتا جو صدیوں سے اپنے اِن مکروہ عزائم کی تکمیل کرتا چلا آیا تھا، جنہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔
غار میں داخل ہوتے ہی میری بینائی نے جواب دے دیا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود مجھے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ صرف اتنا محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدموں تلے نرم ریتلی زمین ہے۔
جہاں تک میرے ہاتھ پہنچ سکتے تھے، مَیں نے آس پاس کا حال جاننے کی کوشش بھی کی، مگر ناکام رہا۔ میرے ہاتھوں نے کسی شے کا لمس محسوس نہ کیا۔
سفید کتا نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔ غالباً اُس کا فرض اتنا ہی تھا کہ مجھے اِس تاریک قبر میں پہنچا دے جس کی وسعتوں کا کوئی اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ تب مجھے یاد آیا کہ مَیں اسمِ ذات کا عامل ہوں اور جو اَیسے اسم کا عامل ہو، اُس کے لیے کیا دشوار ہے۔
مَیں نے فوراً دل ہی دل میں اُس اسمِ اعظم کا ورد شروع کیا۔ جُوں جوں اُسے پڑھتا جاتا، تُوں توں اپنے اردگرد ایک ہالہ سا بنتا ہوا نظر آنے لگا۔
حتیٰ کہ اُس اسمِ پاک کے نور سے اتنا اجالا ہو گیا کہ مَیں نہ صرف اپنے وجود کا تعین کرنے کے قابل ہو گیا، بلکہ اُس تاریک غار میں بکھری اور پھیلی ہوئی انوکھی دنیا کا نظارہ بھی کرنے لگا۔

’’کیا بیان کروں مَیں نے کیا دیکھا؟ ہر طرف سونے اور چاندی کے انبار لگے تھے۔ اشرفیاں اور زر وَ جواہر۔ مَیں نے اُس عظیم ڈھیر میں سے چند اشرفیاں اور سکّے اٹھائے اور اُس ہالے کی روشنی میں اُنھیں غور سے دیکھا۔ یہ مختلف زمانوں اور پرانے ادوار کے سکّے تھے۔
بڑے، چھوٹے، بھاری، ہلکے غرض ہر حجم کے سکّے اور ٹھوس سونے کی اشرفیاں۔ اُن میں اکثر سکّے سلطان محمود غزنوی کے دورِ حکومت کے تھے۔
بیشتر سلاطینِ دکن کے عہد کے قطب شاہیوں اور بہیمنوں کی مہریں صاف پڑھی جاتی تھیں۔ اُن کے علاوہ خلجیوں، لودھیوں اور رَاجپوت بادشاہوں کے استعمال میں آنے والے سونے چاندی کے برتن جن کی تعداد کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ یہ سب ڈھیر میری نظروں کے سامنے تھا۔
جُوں جوں مَیں آگے بڑھتا گیا، اسرار کی نئی دنیائیں سامنے آتی گئیں۔
ایک گوشے میں انسانی اور حیوانی ہڈیوں کا عظیم انبار لگا تھا، قریب ہی کوئلے اور جانوروں کی سڑی سوکھی لید کے ڈھیر دکھائی دے رہے تھے۔
مجھے یاد آیا کہ ہڈیاں، کوئلے اور جانوروں کی لید جنات کی مرغوب غذائیں ہیں۔

’’مَیں دولت کا یہ بےانداز خزینہ دیکھنے میں محو تھا جس کی مثال میں کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کا خزانہ بھی ہیچ تھا۔ ہر شے پر گردوغبار کا ایک انبار تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ خزانہ صدیوں سے اِسی جگہ پڑا ہے۔
اُس میں بیش قیمت ہیرے جواہر بھی تھے۔ پھر مجھے ہاتھی دانت کا وہ ڈبا یاد آیا جو صوبےدار جلال آباد آقائے تبریزی کو دے گیا تھا۔ اُس میں بھی ایسے ہی نادر و نایاب جواہر تھے۔
جی میں آیا کہ جتنے اٹھا سکوں، اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈال لوں، مگر اُسی لمحے فیروزہ کا خیال آ گیا اور مَیں اُس ڈھیر پر نفرت کی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گیا۔
اب دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی اور مَیں آس پاس نادیدہ اَجسام کی نقل و حرکت محسوس کر رہا تھا۔
ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ کسی نے مجھے پشت کی طرف سے دھکا دیا، اگر مَیں سنبھل نہ جاتا، تو اوندھے منہ زمین پر گرتا اور لازماً ایک آدھ دانت ٹوٹ جاتا۔
مَیں نے اونچی آواز سے اسمِ ذات کا ورد شروع کر دیا اور اُسی وقت یہ پُراسرار نقل و حرکت رک گئی۔

’’کچھ فاصلے پر ایک پرانی عمارت کے آثار دِکھائی دیے اور مَیں اُسے دیکھ کر نقشِ حیرت بن گیا۔ یہ وہی عمارت تھی جس میں ایک مرتبہ فیروزہ مجھے لے گئی تھی اور جہاں مَیں نے ایک چھپرکھٹ پر صوبےدار جلال آباد کو محوِ خواب پایا تھا۔
وہی چبوترا تھا، وہی وسیع و عریض دالان اور اُس سے پرے ہشت پہلو مقبرہ جس کی کالی کالی اینٹیں صاف نظر آ رہی تھیں۔ مقبرے کے اوپر سیاہ رَنگ کا نارنگی گنبد۔
یقیناً یہ کسی بادشاہ کا مقبرہ تھا۔ مَیں بےتحاشا اُس طرف دوڑنے لگا۔ آہ …..! مقبرے کے اندرونی صحن میں ایک طرف وہی منحوس چھپرکھٹ بچھا تھا جس کے چاروں طرف پردے لٹکے ہوئے تھے۔
مَیں نے آگے بڑھ کر ایک پردہ نوچ ڈالا ….. پھر جیسے حواس نے ساتھ چھوڑ دیا ….. چھپرکھٹ پر خون ہی خون تھا ….. تازہ ….. گہرا سرخ خون ….. وہاں دو لاشیں پڑی تھیں …..
ایک صوبےدار جلال آباد کی اور دُوسری فیروزہ کی تھی۔ اُن کے سر تن سے جدا تھے اور ٹانگیں الگ الگ۔ وہ مقبرہ تیزی سے گھومتا ہوا محسوس ہوا ….. پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔‘‘

نادر زماں کی آنکھ کھلی، تو اُس نے اپنے آپ کو شیخ صالح کی جھونپڑی میں پڑے پایا۔
وہ دَیر تک شیخ کا چہرہ تکتا رہا۔ پھر بےاختیار رَونے لگا۔ شیخ نے اُسے صبر کی تلقین کی اور بتایا کہ اُس شریر جن کا نام تحویل تھا، اُس نے اپنے ساتھ فیروزہ کو بھی مار ڈالا۔
وہ اَپنی شکست برداشت نہیں کر پایا۔ نادر زماں کی نظروں میں اب دنیا اندھیر تھی۔
کچھ عرصے تک وہ شیخ صالح کی صحبت میں رہا اور اُن سے کسبِ علم حاصل کرتا رہا۔ جب شیخ کا وصال ہوا، تو وہ آگرہ واپس آیا۔

آقائے تبریزی کی حویلی ویران پڑی تھی۔ بابا افضل بیگ زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہا تھا۔
نادر زماں کے آتے ہی اُس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ لوگوں کو نادر زماں کی آمد کا پتا چلا، تو جوق در جوق آئے، لیکن اُس پر دیوانگی طاری تھی۔
اُس نے کسی سے بات نہ کی بلکہ بہت سوں کو تو پہچاننے سے بھی انکار کر دیا۔ دن بھر اپنے تصویر خانے میں بند رہتا۔ اُنہی دنوں اُس نے زندگی کی آخری تصویر بنائی۔

ایک شام میرے جدِ امجد ترکتاز خاں شہنشاہ کے حکم سے آقائے تبریزی کی حویلی میں گئے، تو اُنھوں نے دیکھا کہ نادر زماں بڑی محویت سے تصویرکشی میں مصروف ہے۔
تصویر مکمل کر کے اُس نے اطمینان کا سانس لیا۔ پھر پہلی بار ترکتاز خاں کو اَپنی زندگی کی المناک اور نہایت حیرت انگیز کہانی سنائی۔
ترکتاز خاں نے خیال کیا کہ مصور کا دماغ جواب دے گیا ہے، لیکن جب نادر زماں نے اُنھیں اپنا لکھا ہوا روزنامچہ دکھایا اور اُنھوں نے اُسے شروع سے آخر تک پڑھا، تو اُنھیں یقین آ گیا۔
اُنھوں نے نادر زماں سے بہت اصرار کیا کہ شہنشاہ کے حضور میں چلے اور یہ داستان خود اَپنی زبانی عرض کرے، مگر وہ بےنیازی سے مسکرایا اور بولا:

’’نہیں! اب مَیں کہیں اور جانے کی تیاریاں کر رہا ہوں۔ یہ تصویر اور یہ کاغذات مَیں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔
حویلی آقائے تبریزی مرتے وقت میرے سپرد کر گیا تھا۔
اِس کا تمام مال اسباب بھی تمہیں دیتا ہوں اور دَیکھنا اِس میں ہاتھی دانت کا ایک چھوٹا سا ڈبا بھی ہے جس میں دنیا کا بیش قیمت خزانہ بند ہے۔ اُسے فروخت کر کے تمام دولت غریبوں میں تقسیم کر دینا۔‘‘

اِس واقعے کے تین دن بعد خبر مشہور ہوئی کہ نادر زماں وفات پا گیا ۔
اُس رات جو لوگ اُس کے قریب تھے اور جنہوں نے اُسے نزع کے عالم سے گزرتے دیکھا، اُن کا بیان ہے کہ وہ کسی عورت سے باتیں کر رہا تھا اور بار بار اُس سے کہتا کہ گھبراؤ نہیں، مَیں آ رہا ہوں ….. مَیں آ رہا ہوں ….. اور یہی کہتے کہتے اُس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔
نادر زماں کا جنازہ جب قبرستان میں لے جایا گیا اور اُسے قبر کے سپرد کر کے لوگ جب واپس پلٹے، تو اُنھوں نے ایک حسین و جمیل نوجوان عورت کو دیکھا۔
وہ قبر کے پاس کچھ دیر تک کھڑی رہی، پھر آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو گئی۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles