31 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

یہ کیسا افسر ہے؟

سر آپ افسر تو لگتے ہی نہیں 

بریگیڈئیر بشیر آراٸیں
Pak Army

1995 میں جب میں بوسنیا سے واپس آ کر یو این مشن ہسپتال کا سامان آرمڈ فورسز میڈیکل اسٹورز ڈپو کراچی میں جمع کروا رہا تھا تو حادثاتی طور پر کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل لہراسب خان سے آمنا سامنا ہو گیا۔
تعارف ہوا تو انتہائی محبت بھرے لہجے میں کہنے لگے تھر میں لوگوں کے لیے ایک نیکی کا کام شروع کرنا ہے۔ تم بوسنیا ہسپتال کا سامان چھور کینٹ لے جانے کی تیاری کرو۔ جی ایچ کیو سے اس کی اجازت اور تمہاری پوسٹنگ کا بندوبست ہو جائے گا ۔

پتا چلا کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو صاحبہ نے تھر کے لوگوں کے علاج معالجے کی سہولت کے لیے کور کمانڈر کراچی کو کچھ فنڈز دیے تھے اور لیفٹیننٹ جنرل لہراسب خان کے فیصلے کے مطابق ان فنڈز سے چھور کینٹ میں ایک ہسپتال بنانے کی تیاری ہو رہی تھی اور اس طرح آرمی یونٹوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں کو بھی علاج کی سہولتیں مہیا کی جانی تھیں۔ اب صرف جی ایچ کیو سے اجازت لینی باقی رہ گٸی تھی ۔

میری پوسٹنگ 8 فیلڈ میڈیکل بٹالین چھور کینٹ ہوگئی۔ بہت عرصے بعد چیف آف آرمی اسٹاف بننے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی اس وقت ہمارے بریگیڈ کمانڈر تھے۔ چھور کینٹ زرو و شور سے بن رہا تھا اور ہسپتال کی بنتی بلڈنگ کی دیکھ بھال ہماری میڈیکل یونٹ کے ذمہ لگ گئی ۔

فیلڈ میڈیکل بٹالین میں ڈاکٹرز کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت نہیں ہوتی مگر کور کمانڈر  نے کہا کہ اگر لوکل پاپولیشن کو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے، تو چپ چاپ شروع کر دیں ۔
میں یونٹ میں سیکنڈ ان کمانڈ تھا ۔
سی او نے ہسپتال کے آفیسرز وارڈ کو عارضی طور پر میس بنانے کی اجازت دے دی اور میں دوسرے چند آفیسرز کے ساتھ وہیں اسپتال کے اندر رہائش پزیر ہو گیا ۔ ارد گرد کے علاقوں میں اعلان کیا کہ فوجی ڈاکٹرز سے معمولی اخراجات پر سویلین لوگ علاج کروا سکتے ہیں ۔
تھر کے لوگ انتہائی غربت کا شکار نظر آتے تھے اور کینٹ کے اندر آنا ان کے لئے بالکل نیا تجربہ تھا ۔ بریگیڈیر اشفاق پرویز کیانی نے حکم صادر کر دیا کہ مریضوں کو اندر آنے سے بالکل نہ روکا جائے ۔ لوگ دھڑا دھڑ آنے لگے ۔

میں ان سب کا محبت سے استقبال کرتا ۔ چاٸے پلواتا ۔ زیادہ لوگ بوڑھے والدین کو علاج کے لئے لاتے یا خواتین بچے کی ڈلیوری کے لئے آتیں ۔
گھر میں دائی سے کیس خراب ہو جاتا تو وہ خاتون کو گدھا گاڑی یا بیل گاڑی میں ڈال کر ہمارے پاس لے آتے۔ ہاسپٹل کا خرچہ پوچھتے تو میرا سوال ہوتا کہ آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں ۔
کوئی ہزار پندرہ سو بھی کہہ دیتا تو میں سمجھاتا کہ یہ تو بہت زیادہ ہیں ۔ اس میں آپریشن کرکے بھی کچھ پیسے بچ جائیں گے ۔
ان دنوں لوگ مجبوری میں چھور عمرکوٹ سے حیدرآباد تک ایمبولنس کا کرایہ ہی 4000 روپے دیتے تھے ۔ ہم نے کبھی کسی کو یہ احساس نہ ہونے دیا کہ پیسے کم ہونے کی وجہ سے اس کا علاج یا آپریشن نہیں ہو سکے گا ۔
اس سارے کام میں کور کمانڈر لیفیٹیننٹ جنرل لہراسب خان ۔ بریگیڈ کمانڈر اشفاق پرویز کیانی اور ہمارے سی او کرنل نور محمد میمن کی زیادہ مہربانیاں شامل تھیں ۔ میجر ارشد نسیم (اب میجر جنرل ہے)
میڈیکل اسپیشلسٹ ۔
میجر اعظم سرجن ۔
میجر روبینہ گائناکولوجسٹ اور میجر اطہر مختار صدیقی بےہوشی کے اسپیشلسٹ کی خدا ترسی نے میرا کام اور بھی آسان کر دیا تھا ۔
سیکنڈ ان کمانڈ ہوتے ہوٸے میں تو بس سہولت کار کی ڈیوٹی نبھاتا تھا ۔

میں نے وہیں تھر کے لڑکوں کو ہسپتال کا چائے کا اسٹال دے دیا ۔ کسی کو شہر سے دوائی لانے اور کسی کو میس ویٹر لگا کر ان کے دل سے فوج سے ڈرنے والا عنصر کچھ ہی دنوں میں دور کر دیا۔

اب میرے سندھ کے معتبر دوست زمیندار اور سول آفیسر بھی ملنے آنا شروع ہو گئے ۔ مریضوں کے لئے کچھ سفارشیں بھی کردیتے مگر میرا سب مریضوں اور لوگوں کے ساتھ ایک جیسا ہی رویہ ہوتا تھا ۔ ہر کوٸی یہی سمجھتا کہ اس کا خیال سب سے زیادہ رکھا جا رہا ہے ۔
مجھے حیرت اس وقت ہوتی جب تھر کے وڈیرے ۔
زمیندار اور کاروباری لوگ مجھے ایک ہی بات سمجھاتے کہ سر آپ ان گدھا گاڑیوں اور بیل گاڑیوں میں آنے والوں سے جس طرح ملتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ آپ افسر لگتے ہی نہیں ہیں ۔
آفیسرز کا اپنا ایک اسٹیٹس ہوتا ہے اور وہ ہر ایرے غیرے سے ہاتھ بھی نہیں ملاتے اور آپ ہیں کہ ان سے گلے ملتے رہتے ہیں اور چائے پلاتے ہیں ۔
دن بدن آپ کا سارا فوجیوں والا رعب اور دبدبہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ میں یہ باتیں سن کر مسکرا کر دوستوں سے کہتا کہ نہیں نہیں لوگ مجھ سے بہت ڈرتے ہیں آپ فکر نہ کریں ۔

مدتیں گزر گٸیں ۔ میں ریٹٸرڈ زندگی گزار رہا ہوں مگر تھر کے باسی مجھ سے اب بھی ملنے آتے ہیں ۔ میں اب بھی ان سے اٹھ کر گلے ملتا ہوں ۔ تھر میں پانی کے کنویں لگوانے شروع کر دیے ہیں ۔ بس اب فرق یہ ہے کہ وہ چائے کے اسٹال والا لڑکا عمرکوٹ میں ایک خوبصورت ہوٹل چلاتا ہے ۔
وہ شہر سے دوائی لانے والا غریب سا لڑکا اب آرمی ہسپتالز کا میڈیسن کنٹریکٹر ہے
اسلام آباد میں کسی کے ساتھ مل کر دواٸیوں کی فیکٹری لگا رہا ہے ۔
اکثر مجھے آم دینے کے بہانے ہر سال ملنے آتا ہے .
اسے دیکھ کر میں خوش ہوتا ہوں کہ انسان کو بس چھوٹی سی راہنماٸی کس طرح مددگار ثابت ہوتی ہے ۔

لوگوں کی آفیسر نہ لگنے والی سوچ کی ایک جھلک مدتوں بعد مجھے پھر نظر آئی ۔
میں سی ایم ایچ ملیر میں میجر اور لیفٹیننٹ کرنل کے رینک میں بھی پوسٹنگ کاٹ چکا تھا اور سب ہسپتال کا مستول سویلین عملہ یعنی سویپرز ۔ مالی ۔ میس ویٹرز اور باورچی مجھے پچھلے 15 سال سے جانتے تھے ۔
میں جب برگیڈیر بن کر سی ایم ایچ کی کمانڈ کرنے پہنچا تو یہ سب لوگ مجھے باری باری ملنے اور سلام کرنے آنے لگے ۔
میں اپنے آفس سے باہر آ کر ان سے خوشدلی سے گلے ملتا ۔ ان کے نام لے کر ان کا حال پوچھتا اور وہ خوشی اور حیرت سے مجھے دیکھتے واپس جاتے ۔
ایک دن میں نے خود سنا کہ ایک مالی مجھ سے ملنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا ۔
اوئے بھاٸیو یہ تو بالکل بھی نہیں بدلا ۔ برگیڈیر تو کہیں سے نہیں لگتا ۔ کیسا اٹھ اٹھ کر گلے ملتا ہے ۔

میں اب تک یہ گتھی سلجھا نہیں سکا کہ محبت سے گلے ملنے والا آخر آفیسر کیوں نہیں لگتا ۔ آخر لوگ کیوں کہتے تھے کہ یہ تو برگیڈیر لگتا ہی نہیں ہے ۔
کبھی کبھی بیٹھا سوچتا رہتا ہوں کہ میں صاحب بہادر کیوں نہ بن سکا
جبکہ ہماری پوری قوم کو تو صرف صاحب بہادر آفیسرز کی ضرورت ہے
جو اپنی رعایا سے ہاتھ ملانا بھی اپنی توہین سمجھتے ہوں ۔
ہماری قوم کے آفیسرز کا آخر ایک دبنگ اسٹیٹس تو ہونا چاہیے ناں ۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles