30 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

انگوٹھا چھاپ(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

گیارہویں قسط

انگوٹھا چھاپ

شکیل احمد چوہان

بلال اُس دن عصر کے بعد بابا جمعہ کے پاس گیا تو محمد طفیل پہلے سے موجود تھا جو ظہر کے بعد ہی سے بلال کا انتظار کر رہا تھا۔
بلال نے بابا جمعہ اور طفیل صاحب کو سلام کیا اور بیٹھ گیا۔ جسٹ اقرأ ہائی اسکول کا انویلپ کھولا تو اس میں اشٹام پیپر پر ایک تحریر تھی جو بلال نے بابا جمعہ کی طرف بڑھا دی۔ بابا جمعہ نے بغیر پڑھے، محمد طفیل کی طرف کر دی اور سنجیدگی سے بولے:
’’محمد طفیل…! اس کو پڑھ لو اور پھر دستخط کر کے انگوٹھا لگا دینا۔
محمد طفیل نے پڑھنا شروع کیا تحریر کا مضمون انتہائی مختصر تھا۔
’’میں بلال احمد بیس لاکھ روپیہ محمد طفیل کو قرض دے رہا ہوں بغیر کسی شرط اور فائدے کے جس کے گواہ ہیں۔
جمعہ خاں میواتی محمد اقبال میو۔‘‘
’’محمد طفیل…! قرآن میں اللہ کا حکم ہے جب لین دین کرو تو لکھ لو اور گواہ بھی رکھو یہ میرا مشورہ تھا۔ ‘‘
بابا جمعہ محمد طفیل کی طرف دیکھ کر بولے۔ محمد اقبال ایک کپ چائے لے کر آگیا تھا۔ اقبال نے چائے کا کپ محمد طفیل کی طرف بڑھا دیا۔ بلال نے پین اور تھم پیڈ محمد طفیل کے آگے رکھ دیا محمد طفیل نے بغیر کسی حیل و حجت کے دستخط کر دیے اور انگوٹھا لگا دیا پھر چائے پینے میں مصروف ہو گیا ۔ اس کی نظروں میں عقیدت کی روشنی تھی… جیسے کسی مسیحا نے اُس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہو ۔
بلال نظریں جھکائے بابا جمعہ کو دیکھ رہا تھا جو گواہ کی جگہ پر سائن کر رہے تھے اور انگوٹھا لگا رہے تھے۔ اب دوسرے گواہ کی باری تھی۔ محمد اقبال میو کے نیچے اقبال نے اپنا نام لکھا اور اپنا انگوٹھا لگایا اور کاغذ بلال کے حوالے کر دیا۔
بلال نے اپنے بلیک کوٹ کی اندرونی پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور بیس لاکھ کا چیک بابا جمعہ کے حوالے کر دیا۔ بابا جمعہ نے چیک پر بیس لاکھ کی رقم کو غور سے دیکھا اور محمد طفیل کے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’دیکھو محمد طفیل! اس بچے کی حق حلال کی کمائی ہے۔ جس طرح لے رہے ہو، اسی طرح خوشی سے واپس بھی کر دینا۔‘‘
’’جی جی … جی بابا جی …ضرور ان شاء اللہ۔ ‘‘محمد طفیل بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ نہیں تھے۔ اس نے ایک بار پھر بلال کے رخسار کی زیارت کی جس پر ہلکا سا تبسم تھا۔ اس نے آنکھوں سے شکریہ ادا کیا۔ بلال نے آنکھوں کی پتلیاں بند کر کے اس کے شکریہ کا جواب دیا۔
محمد طفیل کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے وہ بابا جمعہ اور بلال کا شکریہ ادا کرے۔
وہ اٹھا اور بولا :
’’میں مٹھائی لے کر آتا ہوں۔ ‘‘
’’نہیں محمد طفیل مٹھائی مت لاؤ۔‘‘
’’وہ کیوں جی…؟ ‘‘محمد طفیل نے پوچھا۔
’’بلال تو کھاتا نہیں اور میں کتنی کھا لوں گا؟ہاں بچوں کے لیے ضرور  لے جانا۔ ‘‘
’’نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ محمد طفیل کہتے ہوئے چلا گیا۔
مغرب کی اذان کا وقت ہونے والا تھا جب محمد طفیل مٹھائی کا ڈبا ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔ ساتھ ہی K بلاک کے کمرشل ایریا میں ایک مشہور مٹھائی کی دکان تھی۔ اس نے دیکھا کہ بابا جمعہ ، محمد اقبال اور بلال دائرہ بنائے بیٹھے دعا کر رہے تھے۔ اُسی لمحے نورانی مسجد سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا، مغرب کی اذان ہورہی تھی۔ ان تینوں نے ہاتھ منہ پر پھیرے اور کھجوروں سے روزہ افطار کیا، بابا جمعہ کی نظر محمد طفیل پر پڑی۔
’’آئو محمد طفیل…! ‘‘بابا جمعہ نے دعوت دی ۔
’’جی وہ مگر … جی ضرور … ضرور‘‘
ان سب نے آرام سکون سے روزہ کھولا، نورانی مسجد میں جماعت ہوچکی تھی۔ بابا جمعہ نے دوبارہ جماعت کرائی اور ان تینوں نے بابا جمعہ کے پیچھے نماز ادا کی۔
ناشتے کی میز پر اعجاز جنجوعہ اپنے مخصوص انداز میں بیٹھا ہو اخبار میں گم تھا ۔ وہ اپنی عادت کے مطابق بائیں ہاتھ سے اپنی انگوٹھے کی پڑوسن انگلی سے اپنی مونچھوں کی مالش کر رہا تھا اوپر سے نیچے پھر اوپر سے نیچے۔
فرح کی آواز پر اس کا ہاتھ رک گیا، وہ سخت لہجے میں تیور دکھاتے ہوئے بولی :
’’وہ فراک اور شال کس کے لیے ہے…؟‘‘
’’بیگم…! فراک آپ کے لیے اور شال خالہ کے لیے …رات بتایا تو تھا۔ ‘‘
’’جنجوعہ صاحب…! جو آپ کی گاڑی میں ہیں… میں ان کی بات کر رہی ہوں‘‘
’’فرح بیگم…! وہ بلال نے منگوائی تھیں، میں بھول گیا، آپ بچوں کو چھوڑنے گئی تھیں، ساتھ لے جاتیں، خیر چھٹی کے وقت پہنچادیجیے گا‘‘
اعجاز جنجوعہ اخبار پرنظریں جمائے اطمینان کے ساتھ بول رہا تھا، فرح ڈائننگ ٹیبل کی دوسری طرف کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’جنجوعہ صاحب…! ادھر میری طرف دیکھیں ‘‘
’’جی فرمائیں ‘‘اعجاز جنجوعہ نے چشمے کے اوپر سے دیکھا۔
’’جنجوعہ صاحب…! کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں…؟‘‘فکر مندی سے بولی۔
’’آپ سے جھوٹ کب بولا ہے، آپ خود بلال کو دیجیے گا‘‘جنجوعہ نے جواب دیا۔
’’کچھ کھلائیں گی بھی یا خالی باتوں سے ہی …‘‘
’’ماسی رشیداں…!جنجوعہ صاحب کا ناشتہ لے آئو، جب سے آپ طارق رامے کے ساتھ ہیں، مجھے کچھ کھٹکا سا لگا رہتا ہے ‘‘
’’وہ کس لیے…؟ ‘‘اعجاز جنجوعہ نے کہا۔
’’فوزیہ بتارہی تھی… طارق رامے کے بڑی لڑکیوں سے چکر ہیں ‘‘
’’ کون فوزیہ…؟‘‘اعجاز جنجوعہ نے پوچھا۔
’’بلال کے آفس میں کام کرتی ہے اور ایک چکر تو اس کی سہیلی کی بڑی بہن کے ساتھ تھا۔ اس کمینے نے وعدہ کیا تھا لبنیٰ سے شادی کا‘‘
’’اب یہ لبنیٰ کون ہے…؟‘‘اعجاز جنجوعہ نے بیزاری سے کہا۔
’’لبنیٰ جس سے چکر تھا طارق رامے کا ‘‘فرح نے تفصیل بتائی۔
’’میں ناشتہ کروں یا جائوں، صبح صبح فضول باتیں…میں مکان بناتا ہوں، وہ بیچ دیتا ہے، پلاٹ چاہیے وہ ڈیل کروا دیتا ہے، اس کا کمیشن پورا دیتاہوں، فارغ اوقات میں اس کے آفس میں بیٹھتا ہوں۔ ہفتہ کی رات کھانا اکٹھے کھالیتے ہیں بس … آپ پتہ نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہیں ‘‘اعجاز جنجوعہ نے خفگی سے کہا۔
’’بیگم صاحبہ…! ناشتہ‘‘ماسی رشیداں نے ناشتہ ڈائننگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’ماسی رشیداں تم جائو اور ڈرائنگ روم صاف کردو‘‘فرح گردن موڑ کر ماسی رشیداں کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔
’’جنجوعہ صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں، ماسی رشیداں کے سامنے ہی شروع ہوگئے‘‘ خفگی سے بولی۔
’’فرح بات تم نے شروع کی تھی ماسی کے سامنے، دیکھو فرح اگر کچھ طارق رامے میں خامیاں یا برائیاں ہیں بھی تو مجھے اس سے کیا، اس کا پرسنل میٹر ہے، میرے ساتھ اس کے معاملات بالکل ٹھیک ہیں، مجھے کبھی بھی اُس نے برائی کی دعوت نہیں دی، سگریٹ، شراب یا عورت سچی بات ہے میں نے تو اتنے سالوں میں ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا، ہاں سنا بہت کچھ ہے اس کے بارے میں ‘‘
فرح اپنے شوہر اعجاز جنجوعہ کو اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا تھا اور اس کے موڈ سے بھی واقف تھی اگر جنجوعہ صاحب چھڑ گئے تو شانت ہونا مشکل ہے، اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’سوری بابا سوری…میں غلط تھی…وعدہ آئندہ آپ پر شک نہیں کروں گی‘‘فرح نے اعجاز کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ اس کے گورے گالوں میں ڈمپل پڑے ہوئے تھے۔
’’آپ پلیز ناشتہ کریں‘‘ سلائس توڑ کر اعجاز جنجوعہ کے منہ میں ڈالا، دوسرا نوالہ اپنے منہ میں ڈالا۔
’’بلال کس کو دے گا، شال اور فراک‘‘فرح نے ناشتہ کرتے ہوئے پوچھا ۔
’’شال تو اپنی نانی کو دے گا فراک کا پتہ نہیں ‘‘اعجاز جنجوعہ کا موڈ ٹھیک ہوچکا تھا اور وہ چائے پینے میں مصروف تھا۔
’’جنجوعہ صاحب…ایک بات کروں…اگر آپ غصہ نہ کریں تو…؟‘‘
’’جی ضرور…‘‘ اعجاز جنجوعہ نے اجازت دی۔
’’ماہ رخ…باجی نسرین کی بڑی بیٹی…اگر اس کا رشتہ بلال سے ہوجائے تو ‘‘
’’فرح بیگم آپ بھی کمال کرتی ہیں‘‘ اعجاز جنجوعہ نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’کیوں کیا برائی ہے، ماہ رخ نے بی ایڈ کیا ہوا ہے، گوری چٹی، اونچی لمبی، جوان ہے، باجی نسرین جب بھی واہ کینٹ سے فون کرتی ہیں تو کہتی ہیں، لاہور میں کوئی رشتہ دیکھو، بھلا بلال سے اچھا رشتہ کوئی ہوسکتا ہے کیا … ؟‘‘
اعجاز جنجوعہ فرح کی بات پر زیرِ لب مسکرا دیا۔
مسز نقوی بلال کے آفس میں داخل ہوئیں۔
’’ Where is Bilal‘‘مسز نقوی نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔
بلال اپنی کرسی پر بیٹھا کام میں مصروف تھا۔ مسز نقوی کو دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا، ان کے ساتھ ایک خوبصورت جوان لڑکی بھی تھی۔
’’Meet herیہ میری چھوٹی بہن ہے ڈاکٹر منال نقوی، شیخ زید Hospitalمیں ہائوس جاب کر رہی ہے۔ یہ Mr Bilal ہیں ‘‘مسز نقوی نے تعارف کروایا۔
’’آپ…تشریف رکھیں۔ ‘‘بلال شائستگی سے بولا۔
وہ صوفے پر بیٹھ گئیں فوزیہ غور سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔
’’کچھ لیں گی …آپ…؟‘‘بلال نے پوچھا۔
مسز نقوی نے اپنے گلاسز ماتھے کے اوپر بالوں پر لگائے ہوئے تھے۔ بال پہلے ہی شولڈر کٹ تھے بائیں بازو میں اپنا بیگ لٹکایا ہوا تھا۔ ڈاکٹر منال نقوی نے غور سے بلال کو دیکھا جو ڈارک گرے ٹو پیس میں ملبوس تھا، وائٹ شرٹ کے ساتھ۔
’’ کلر سفید، ہائیٹ okکرلی ہیئر، Dress تو اچھا پہنا ہے ، اب دیکھنا ہے Addressکیسے کرتا ہے ۔ Toneبھی ٹھیک ہے۔ Educationٹھیک ہے، School Principal چلے گا، Idealنہیں نہیں Just ok‘‘ منال نقوی نے دل ہی دل میں کہا تھا۔
ڈاکٹر منال نقوی نے اپنی بڑی بہن کو آنکھوں سے اشارہ کیا ok، اس دوران مسز نقوی بلال کے ساتھ گلابی انگلش میں باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔ بے تکی بے مقصد باتیں جنہیں آج کل گو سپ کا نام دیا جاتا ہے۔ مسز نقوی نے کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا پھر کہا:
’’Please allow me to go‘‘
’’بلال…! آپ سے مل کر اچھا لگا۔ ‘‘ڈاکٹر منال نے آنکھوں کے تیر چلاتے ہوئے اپنی بات کہی۔
’’مگر آپ نے کچھ چائے، کافی، کولڈ ڈرنک تو…‘‘
بلال کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی منال بول پڑی۔
’’آپFacebook ، WhatsApp وغیرہ استعمال کرتے ہیں ‘‘
’’نہیں…‘‘ بلال نے جواب دیا۔
ڈاکٹر منال حیرت سے بول پڑی :
’’نہیں…‘‘ اس کے نہیں میں حیرت، سوال، کیوں، مگر اگر سب کچھ تھا۔
’’موبائل نمبر لے لو‘‘مسز نقوی نے مشورہ دیا۔
فوزیہ نے جھٹ پٹ وزیٹنگ کارڈ ڈاکٹر منال کو پکڑا دیا، اُس نے دیکھے بغیر اپنے پرس میں رکھ لیا۔
گاڑی میں بیٹھ کر دونوں بہنیں جوہر ٹائون کنال روڈ پر شیخ زید ہسپتال کی طرف جارہی تھیں۔ جب دو نمبر انڈر پاس کے قریب سے گزرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے پہلے ڈاکٹر منال نے کارڈ دیکھا تو اس میں آفس کے سارے نمبر تھے، سوائے موبائل نمبر کے، اس کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ تھی اور دل میں ایک سچا کھرا خیال آیا۔
’’ڈاکٹر منال نقوی…! کوئی تو ہے جس نے تمھیں گھاس نہیں ڈالی‘‘
’’کیسا تھا ‘‘مسز نقوی کی آواز سن کر، خیال جلدی سے بھاگ گیا اور ڈاکٹرمنال ڈر گئی۔
’’اوہ میں ، آپی کہیں کھوگئی تھی۔Ideal واقعی مختلف، اچھا لگا، جس کو ملے گا ۔ وہ…‘‘
ڈاکٹر منال کے ہونٹوں کے درمیان وہ کافی دیر سفر کرتا رہا۔
’’وہ کیا…؟منال تم نے مجھے بتایا نہیں۔ ‘‘ مسز نقوی دوبارہ بول پڑیں۔ گاڑی اب شیخ زید ہسپتال کی پارکنگ میں تھی۔
’’Ideal پرسنالٹی کا مالک، بہت اچھا، مگر وہ مجھ میں انٹرسٹڈ نہیں تھا۔ میں دوبارہ ملنا چاہوں گی مگر اس حوالے سے نہیں، آپ کی پسند واقعی لاجواب تھی۔ اپنے لیے بھی اور میرے لیے بھی۔ احسن بھائی کو Thanksکہہ دیجیے گا، میری طرف سے۔ ‘‘
ڈاکٹر منال نے اپنا وائیٹ کوٹ پکڑا اور گاڑی سے اُتر گئی۔ مناہل نقوی اُس کی بڑی بہن اسے دُور تک جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اب اس کے ہونٹوں میں Thanks پھنس گیا تھا۔
’’Thanks…مگر کیوں…؟‘‘مناہل احسن نقوی سوچ رہی تھی۔
’’سر ! آپ واقعی Facebook وغیرہ استعمال نہیں کرتے، سر ! میں تو جب تک لیاقت علی سے شارجہ، Skype پر دو گھنٹے بات نہ کر لوں، مجھے تو نیند ہی نہیں آتی اور میرا WhatsApp تو پورا دن On رہتا ہے اور Facebook کے بغیر تو زندگی ہی نامکمل ہے ‘‘
’’فوزیہ جی Viberکا کیا قصور ہے ‘‘بلال نے یاد دہانی کرائی۔
’’سر ! آپ مذاق تو نہ کریں۔ ‘‘خفگی سے بولی۔
’’سر ! اگر آ پ اسے Facebook کی Id بتا دیتے تو کیا جاتا آپ کا …سر ! یہ تو آپ نے جھوٹ بولا ہے۔‘‘
’’میں نے جھوٹ نہیں بولا میں Facebook استعمال کرتا ہوں مگر اپنے نام سے نہیں Just اقرأ کے نام سے ID ہے۔ اس میں میرے کوئی فرینڈز وغیرہ نہیں ہیں بس کچھ Pages لائیک کیے ہوئے ہیں، ان کی اَپ ڈیٹ وغیرہ پڑھ لیتا ہوں اور بس …‘‘
’’سر یہ تو وہی بات ہو گئی کہ مرا نہیں ہے بس روح نکل گئی ہے۔ ‘‘
’’فوزیہ جی…آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ یہ ایک طرح سے جھوٹ ہی تھا۔ مجھے اسے سچ بتانا چاہیے تھا، اللہ معاف کرے۔ ‘‘ بلال نے اپنی غلطی مان لی۔
’’ویسے سر ! یہ اس سال آپ کا 13واں رشتہ آیا ہے۔ جنوری سے نومبر تک ابھی ایک مہینہ باقی ہے ‘‘فوزیہ نے شرارتی انداز میں بلال کی طرف دیکھ کر کہا۔
بلال نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’’سر! قسم سے …ڈاکٹر منال خوبصورت اور اچھی لڑکی ہے۔ مناہل نقوی تو نمونی ہے بھئی انگلش نہیں آتی تو نہ بولو کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے آپ کو کیسی لگی ؟‘‘
’’زیادہ فری مت ہوا کرو۔‘‘ بلال نے مصنوعی غصے سے کہا۔
مہینے میں ایک دو بار بلال فوزیہ سے سارا وقت اُس کی بک بک سنتا رہتا اور اِدھر اُدھر کی فضول باتیں کرتا رہتا۔ آج بھی کچھ ایسا ہی دن تھا، ویسے تو بلال کو اپنے کام سے محبت تھی مگر محبت کبھی سو بھی جاتی ہے۔
’’سر ! کافی چائے اور بسکٹ بول دوں … ؟‘‘
’’ہاں بول دو…‘‘ بلال نے آفس چیئر کے ساتھ ٹیک لگائی اور اوپر دیکھنے لگا ۔
’’سر…یہ مسز نقوی کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ ‘‘ فوزیہ نے سوال پوچھا۔
’’کیا…کیا کہا تم نے؟ ‘‘ بلال نے فوزیہ کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’سر…میں نے پوچھا تھا ، مسز نقوی کا کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’کیوں کیا ہوا …؟ ‘‘ بلال نے تفصیل مانگی۔
’’سر ! وہ عجیب سی حرکتیں کرتی ہیں، سوچ سوچ کر بولتی ہیں۔ اتنے خوبصورت ان کے بال تھے وہ بھی کٹوادیے۔‘‘
’’فوزیہ جی…! آپ نے ڈاکٹر احسن نقوی کو دیکھا ہے۔ انتہائی پڑھے لکھے اور نفیس انسان ہیں۔ ان کے چچا کے بیٹے ہیں۔ دونوں کی یہ لَو میرج ہے۔ ڈاکٹر صاحب پڑھتے گئے یہ گھر میں مصروف ہو گئیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بہن بھائی بھی پڑھے لکھے ہیں۔ مسز نقوی کی دونوں بہنیں بھی ڈاکٹر ہیں۔
ایک یہ جو آئی تھی اور ایک اس سے بڑی اس کی شادی ہو گئی۔ اب وہ کینیڈا میں ہے ۔
اُن کو بھی مسز نقوی لے کر آئی تھیں۔ یہ بےچاری کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہو گئی ہیں۔
حالانکہ ڈاکٹر صاحب ان سے خوش ہیں اور وہ محبت کرتے ہیں۔ یہ کبھی Spoken English کی کلاسز شروع کر دیتی ہیں۔ کبھی جم جوائن کرلیتی ہیں اور آج کل سیلون ان کی پسندیدہ جگہ ہے ۔یہ سمجھتی ہیں کہ اگر مجھے انگلش بولنا آ جائے تو میں پڑھے لکھوں میں شمار کی جاؤں گی۔ ‘‘
آفس بوائے ٹرے لے کر آ گیا۔ بلال اپنی کرسی سے اٹھا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔ فوزیہ نے کافی بلال کو پیش کی اور خود چائے کا سپ لیا اور بسکٹ ہاتھ میں پکڑ کر بولی:
’’سر! انگلش بولنے کا کیا تعلق پڑھے لکھے اور اَن پڑھ سے۔‘‘
’’یہی بات تو ان کو سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ ہر پڑھا لکھا انگلش نہیں بول سکتا اور ہر انگلش بولنے والا پڑھا لکھا نہیں ہوتا۔ اَن پڑھ انگریز بھی ہوتے ہیں مگر وہ انگلش فرفر بولتے ہیں کیونکہ ان کی زبان ہے۔
اسی طرح ہر عربی بولنے والا عالم دین نہیں ہو سکتا۔ تمہارا لیاقت علی بھی تو عربی بول لیتا ہے مگر وہ عالم دین تو نہیں ہے۔
اسی طرح جن کو انگلش بولنا آتی ہے وہ اپنے آپ کو ہائی کوالیفائیڈ بنا کر پیش کرتے ہیں اور جن کو عربی کے چار الفاظ آتے ہوں۔ وہ دین کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔ ابوجہل عربی بولتا بھی تھا اور سمجھتا بھی خوب تھا مگر ایمان کی دولت سے محروم رہا۔
اسی لیے میں اسکول میں بچوں کو صرف بولنے کے لیے کہتا ہوں۔ عربی، انگلش، فارسی اور اُردو بچوں سے صرف بولیں ان کو زبان سکھائیں۔ تمہارے لیاقت علی نے زبان بول کر سیکھی ہے پڑھ کر نہیں۔ ویسے وہ کتنا پڑھا لکھا ہے ؟‘‘
فوزیہ نے بلال کو اپنے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا دکھاتے ہوئے کہا:
’’سر ! وہ انگوٹھا چھاپ ہے مگر اس کے باوجود مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں B.Com کر کے بھی اس کے آگے بے کام سی ہوں۔ ‘‘ فوزیہ نے لیاقت علی کو یاد کرکے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر سے لب کشائی کی :
’’سر…!یہ ڈاکٹر صاحب کس شعبے کے ڈاکٹر ہیں …؟‘‘
’’فوزیہ جی…!دماغ کے۔ ‘‘ بلال نے بتایا۔
’’کرو بات …سر میں اگر ڈاکٹر ہوتی تو لیاقت علی ایسی حرکتیں کرتا تو میں نے اس کا دماغ ٹھکانے لگا دینا تھا۔ قسم سے… ڈاکٹر صاحب بھی ایویں ہیں، بیوی کا علاج ہوتا نہیں اور ڈاکٹر بنے پھرتے ہیں ‘‘
’’فوزیہ جی…!تم بالکل پاگل ہو.‘‘ بلال نے ہنستے ہوئے کہا۔

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles