32 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

وقت اور سمت کا صحیح انتخاب

صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
وقت اور سمت کا صحیح انتخاب
08/11/2013


صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین نے یاد فرمایا ٗ تو میں اپنے صاحبزادے کامران کے ہمراہ ٹھیک
پونے تین بجے ایوانِ صدر میں اُن کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا۔
وہ بڑی محبت سے ملے اور اُن کے ساتھ پون گھنٹے تک گفتگو ہوتی رہی۔ اُن کی علمی ٗ دینی اور
ادبی شخصیت میں ایک سادگی اور ایک رعنائی ہے جس نے مجھے ہر بار متاثر کیا ہے۔
اُنہوں نے اپنے حالیہ حج کے چشم کشا واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ خادم الحرمین اور اُن کے ولی عہد نے
پاکستانی صدر ہونے کی حیثیت سے مجھے بے حد عزت دی اور منیٰ اور جدہ میں جن شاہانہ ضیافتوں کا اہتمام ہوا
اُن میں وہ دیر تک میرا ہاتھ تھامے پاکستان کے ساتھ غیر معمولی یگانگت کا اظہار کرتے رہے۔
وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان ہمارا دوسرا وطن ہے اور ہم اِس کی قوت اور شان میں اضافے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک طرف ترک صدر اور دوسری طرف مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور یوں وہ
دلی قربت کا احساس دلاتے رہے اور عرب و عجم کے مابین اخوت کے رشتے مضبوط کرتے رہے۔
دورانِ گفتگو میں نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ ایوانِ صدر کو قومی یک جہتی اور افکارِ تازہ
کا سرچشمہ ہونا چاہیے جہاں تمام صوبوں سے ادیبوں ٗ دانش وروں ٗ صحافیوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ
کو تبادلۂ خیال کے لیے دعوت دی جائے اور ادبی مکالمے کے فروغ کا اہتمام کیا جائے۔
اِس طرح قومی یک جہتی نشوونما پائے گی ٗ پاکستانی سوچ کو فروغ حاصل ہو گا اور یہ خبر خوشبو
کی طرح پھیلے گی کہ ایوانِ صدر پورے پاکستان کا ہے اور یہاں فکرودانش کو جِلا ملتی ہے۔
صدرِ محترم نے کہا کہ میں خود اِنہی خطوط پر سوچ رہا تھا اور مجھے آپ کی باتوں سے بہت حوصلہ ملا ہے۔
میرا یہ پختہ عزم ہے کہ ہر طرح کی سیاسی وفاداریوں سے الگ تھلگ رہ کر ملکی وحدت کی ایک
زندہ علامت بن جاؤں
اور میرے دروازے تمام اربابِ فکر و دانش کے لیے کھلے رہیں جن کے افکار سے میرے وطن کو تابندگی ملتی رہے۔
اسلام آباد میں دو تین دن قیام رہا اور وہاں کی فضا کو سونگھنے اور باخبر لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔
یہ سراغ بھی ملا کہ اِس بار نواز شریف کی حکومت فیصلہ سازی میں سست روی کا شکار کیوں ہے۔
بیوروکریسی اقتدار پر قابض ہو کر اب سستا رہی ہے جبکہ سیاسی قیادت چیلنجوں کے تھپیڑوں
اور عدالتِ عظمیٰ کے تازیانوں کی دہشت سے اپنے خول میں بند ہے۔
اِس کی کارفرما سوچ یہ ہے کہ جب پُل آئے گا ٗ تو اُسے عبور کرنے کی تدبیر کر لی جائے گی۔
میڈیا کے ’’راسپوٹین‘‘ عجب عجب گُل کھِلا رہے ہیں اور جو صحت مند اور معتدل عناصر موجود ہیں
اُن کے ساتھ حکومت کے میڈیا مینیجروں کا رابطہ بہت کم ہے۔
یوں ایک انتشار کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔
ہم جب اِسلام آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے ٗ تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ ہمیں راستے میں دو اندوہناک
خبریں سننے کو ملیں۔
ایک یہ کہ پاکستانی طالبان کے امیر حکیم اﷲ محسود ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں اور دوسری یہ کہ
ہمارے عزیز اور قابلِ فخر دوست جناب رؤف طاہر کی نہایت باشعور اور سلیقہ شعار اہلیہ انتقال کر گئی ہیں۔
دل بہت اُداس ہوا۔ اِن دونوں واقعات سے پیدا ہونے والے نتائج کا خوف منڈلانے لگا۔
رؤف طاہر ہماری صحافت کی ایک بیش قیمت متاع ہیں جن کی تاریخ ٗ ادب ٗ سیاسی رجحانات پر گہری نظر ہے۔
وہ ایک عشرے کے لگ بھگ جدہ میں اُردو نیوز کے لیے کام کرتے رہے۔
اُسی زمانے میں نوازشریف جلاوطن ہو کر جدے میں شاہ عبداﷲ کے مہمان تھے۔
جناب رؤف طاہر اُن کے دکھ میں شریک رہے۔
فروری 2010ء میں پاکستان آئے ٗ توجمہوری طاقتوں بالخصوص نواز لیگ کو صحافتی کمک فراہم کرتے رہے۔
اُن کی اہلیہ عیدالفطر کے بعد بخار میں مبتلا ہوئیں اور ڈیڑھ ماہ بعد ڈاکٹروں نے سرطان کی تشخیص کی۔
حکومتِ پنجاب کی ہدایت پر اتفاق ہسپتال میں مرحومہ کا اچھا علاج ہوتا رہا۔
اِسی دوران جناب رؤف طاہر کے گھر دو بار چوری ہوئی اور وہ اپنے تمام تر اندوختے سے محروم ہو گئے۔
یکے بعد دیگرے اُن پر بہت ساری بلائیں نازل ہوئیں جن کا ہمارے بہادر دوست نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔
اﷲ تعالیٰ اُن کی دستگیری فرمائے!
حکیم اﷲ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت سے ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔
ہمارے شعلہ بار وزیرِ داخلہ جناب چودھری نثار علی خاں نے امریکہ پر امن مذاکرات قتل کرنے کا الزام لگایا ہے
اور دھواں دھار پریس کانفرنس میں پاک امریکی تعلقات پر نظرثانی کی دھمکی دی ہے۔
جناب عمران خاں نے 20نومبر کے بعد نیٹو سپلائی بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن جو ایک زیرک سیاست دان تصور ہوتے ہیں ٗ اُنہوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ
اگر امریکہ ڈرون حملے میں ایک کتے کو بھی مارے گا ٗ تو میں اُسے بھی شہید کہوں گا۔ طالبان کے
ترجمان کا بیان آیا ہے کہ’’ امریکی غلاموں‘‘ کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے اور پاکستان کے
طاغوتی نظام کو تہہ و بالا کر کے دم لیں گے۔
ایک ایسی جذباتی فضا بنتی جا رہی ہے جس میں امریکہ سے تصادم کا خطرہ پیدا ہو چلا ہے۔
قومی اسمبلی میں جو تقاریر ہوئی ہیں ٗ اُن کا لُبِ لباب یہ ہے کہ امریکہ ہمارا خدا نہیں اور
ہمیں قومی غیرت کا ثبوت دینا چاہیے۔ سینیٹ میں ایک اور ڈراما چل رہا ہے۔
وزیرِ داخلہ نے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے سویلین افراد سے متعلق جو اعدادوشمار دیے
اُنہیں اپوزیشن نے چیلنج کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا جو ابھی تک جاری ہے اور اب پارلیمنٹ کے گیٹ پر متوازی اجلاس منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اِس پُراسرار کہانی کے کردار زیادہ تر وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو عام انتخابات میں بڑی حد تک عوامی حمایت کھو بیٹھی ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے واشنگٹن سے جو کچھ حاصل کیا ٗ اُسے مستحکم کرنے کے بجائے منتشر کرنے
کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
اُنہوں نے قائدانہ صلاحیت کے ذریعے ٹوٹے ہوئے رشتے بحال کرنے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا اور
اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کا ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جوڑا ہے۔
اُنہی کی کوششوں سے 300ملین ڈالر کا سپورٹ فنڈ بحال ہوا اور 1.6ارب ڈالر کی اقتصادی
اور فوجی امداد جاری ہوئی۔
واشنگٹن مذاکرات میں یہ بھی طے پایا کہ امریکہ توانائی کے بحران پر قابو پانے میں تعاون کا دائرہ وسیع کرے گا اور جنوبی ایشیا میں توازن قائم کیا جائے گا۔
جس کا مطلب ہے کہ بھارت کی بالادستی کے آگے بند باندھا جائے گا۔ افغانستان سے انخلا کے بعد
پیدا ہونے والے حالات پر بھی گہرائی کے ساتھ مذاکرات ہوئے
اور اہم فیصلے کیے گئے۔ 2011ء میں نیٹو سپلائی روکنے کا عمل شروع ہوا جو سات ماہ جاری رہا۔
ہماری طرف سے مطالبہ ہوا تھا کہ امریکہ معافی مانگے اور نقصانات کی تلافی بھی کرے۔
جواب میں صرف ’’افسوس‘‘ کا اظہار ہوا جبکہ پاکستان کی معیشت پابندیوں کی زد میں آ گئی۔
توکیا ہم وہی تجربہ دہرا کر اپنی تباہی کو دعوت دینا چاہتے ہیں۔
میاں نوازشریف اعتدال کی راہ پر چل رہے ہیں ٗ تاہم اُنہیں ذہنی اور سیاسی خلجان سے نجات دلانے کے لیے
قائدانہ انداز میں قوم سے خطاب کرنا چاہیے۔
ہمیں عمدہ سفارت کاری اور مربوط حکمتِ عملی کے ذریعے طالبان سے امن مذاکرات کے راستے ڈھونڈ لینا
اپنی خودمختاری کی قابلِ اعتماد حفاظت کے لیے صحیح وقت اور صحیح سمت کا انتخاب
اور اپنے پیکرِ خاکی میں جان پیدا کرنا ہو گی۔ عزمِ نو کی جنگی مشقوں نے قوم کو بہت حوصلہ دیا ہے
اور وزیراعظم نے مژدہ سنایا ہے کہ وہ دن گئے جب ایک فون کال پر خارجہ پالیسی تشکیل پاتی تھی۔
اب خود اعتمادی اور خود انحصاری کا ایک نیا عہد طلوع ہو رہا ہے۔

https://shanurdu.com/category/breaking-news/column/altaf-hassan-qureshi/altaf-hasan-qureshi-2013/

 

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles