صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
واشنگٹن مذاکرات سے آگے
01/11/2013
وزیراعظم نوازشریف امریکہ کیا گئے کہ میڈیا میں خیال آرائیوں اور ظن و تخمین کا ایک دبستاں کھل گیا
اور کیسے کیسے تبصرے اور تجزیے پڑھنے میں آ رہے ہیں
مخالفت میں زیادہ حمایت میں کم۔ عموماً یہی ہوتا آیا ہے کہ اہلِ اقتدار کے حصے میں کانٹے زیادہ آتے ہیں
اور اُن کی اچھی باتوں کا حقیقت پسندانہ تجزیہ بھی خوشامد کی ذیل میں شمار کیا جاتا ہے۔
اِس کے باوجود حوصلہ مند لوگ ’’سرکاری سچ‘‘ کہنے سے باز نہیں آتے۔ پچھلے دنوں ہمارے
دانش ور وزیرِ اطلاعات و نشریات جناب پرویزرشید نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ٗ شوقِ فراواں میں ایک بلیغ بیان داغ دیا کہ
وزیراعظم نے دورے کے تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں اور آنے والے دن اِس عظیم حقیقت کی شہادت دیں گے
جبکہ اخبارات کے صفحات اور ٹی وی پروگرام پوری قوت کے ساتھ یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ
اِس دورے میں پیسہ بھی ضائع ہوا اور ملک بہت بڑی سبکی سے بھی دوچار ہوا ٗ
کیونکہ اِس کا ایک مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا ٗ
بلکہ ممبئی دہشت گردی کے حوالے سے حافظ محمد سعید ٗ جماعۃ الدعوۃ کے خلاف سخت کارروائی
اور امریکی ہیرو شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کے مطالبات اُٹھا دیے گئے۔
کچھ معلوم نہیں کہ ہمارے بعض دانش ور اور تجزیہ نگار سونے کو مٹی بنا دینے میں کیوں
خوشی محسوس کرتے اور شامِ اودھ کو شامِ غریباں ثابت کرنے میں لطف اُٹھاتے ہیں۔
بلاشبہ ہمارا ملک اِس وقت جس ناگفتہ بہ حال میں ہے ٗ اِس کے ذمے دار زیادہ تر ہمارے حکمراں ہی ہیں
کہ اُن کی عاقبت نااندیشیوں سے ہمارے عوام آج پس ماندہ اور ہلاکت زدہ ہیں اور ہماری ملکی سلامتی
اور ہماری قومی خود مختاری پر آئے دن حملے ہو رہے ہیں۔ یہ زوال اِس لیے آیا کہ جب عوام کے مفادات
کے محافظ ہی اُن کے حقوق اور وسائل پر ڈاکے ڈال رہے تھے اور مانگے تانگے کی امداد سے
دولت کی ریل پیل تھی ٗ تو ملک میں حقیقی مزاحمت کے بجائے محض الفاظ کی تیر اندازی جاری رہی
اور اہلِ دانش کا ایک حلقہ برائی سے مفاہمت اور فیوض و برکات کی گنگا میں اشنان کرتا رہا۔
ہمارے گزشتہ بارہ تیرہ برس ہماری قومی متاع لٹ جانے کا نوحہ ثابت ہوئے۔ جنرل پرویزمشرف نے اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کے لیے امریکہ کی غلامی قبول کر لی اور
پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ مسلط کر ڈالی۔ اُن کے بعد صدر آصف علی زرداری نے پارلیمانی نظام کی روح اور
مسلمہ روایات کے خلاف صدرِ مملکت کے منصب کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اپنے پاس رہن رکھ لی
اور پاکستان پر برائے فروخت کا لیبل چسپاں کر دیا۔ اُن کے دورِ حکومت میں قومی وسائل کی
وہ لوٹ مار ہوئی جس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ عدلیہ کے ساتھ بدترین محاذ آرائی ٗ
ناقابلِ بیان بدعنوانی اور بدانتظامی اور بے لگام خواہشات کی ہوس ناکی نے حکومت کا ڈھانچہ ہلا کے رکھ دیا
تو اِسے سنبھالا دینے کے لیے امریکی بے ساکھیوں کا سہارا لیا گیا۔ اِس مصنوعی سہارے کے عوض
امریکہ کی ہر خواہش کے آگے سرِ تسلیم خم ہوتا رہا۔ سی آئی اے کے سینکڑوں کارندوں کو
انٹیلی جنس کلیرئنس کے بغیر واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے ویزے جاری ہوئے جنہوں نے
پاکستان میں اپنا الگ جاسوسی نظام قائم کر لیا۔ اِس نیٹ ورک نے ریمنڈ ڈیوس ٗ ایبٹ آباد آپریشن
اور سلالہ چیک پوسٹ جیسے حادثات کی راہ ہموار کی جن کے باعث پاک امریکی تعلقات دو سال تک
تقریباً نزع کی حالت میں رہے۔ پاکستان کی جواں عزم قوم نے یہ صبر آزما دور بھی اِس اُمید کے
ساتھ برداشت کر لیا کہ انتخابات کے بعد اچھے دن آنے والے ہیں۔
میاں نوازشریف جب تیسری بار اقتدار میں آئے ٗ تو ملک پر ساٹھ ارب ڈالر کے قرضے چڑھے ہوئے تھے
امریکہ سے تعلقات عملی طور پر منقطع تھے۔ سرکاری خزانہ اہلِ ہوس کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔
عوام دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے گزر رہے تھے۔ ڈالر 105روپے سے تجاوز کر چکا تھا۔
امریکہ نے سپورٹ فنڈز اور کیری لوگر ایکٹ کے تحت دی جانے والی گرانٹ دو برسوں سے روک رکھی تھی۔
اِن مشکلات کے علاوہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا اور اِس کے بعد اُبھرنے والی
غیریقینی صورتِ حال کا سامنا تھا۔ اِن حالات میں وزیراعظم پاکستان کے دورۂ امریکہ کی تین
کلیدی ترجیحات ہو سکتی تھیں۔ 1۔ امریکہ سے تعلقات کی آبرومندانہ بحالی 2۔ پاکستان میں
انتہا پسندی اوردہشت گردی کا بہتر حکمتِ عملی سے خاتمہ 3 ۔ ملکی معیشت کا اُبھار اور
توانائی کے شعبے میں روز افزوں ترقی۔بعض انتظامی کوتاہیوں کے باوجود نوازشریف کے دورے کی تیاری
اور انتظامات کے نتیجے میں پہلی زبردست کامیابی یہ حاصل ہوئی کہ صدر اوباما نے سپورٹ فنڈز
جاری کرنے کی کانگرس سے فوری درخواست کر دی جس پر عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔
پاکستان کے خزانے میں 300ملین ڈالر جلد آنے والے ہیں۔ 1.6ارب ڈالر کی امداد جو گزشتہ
دو برسوں سے رکی ہوئی تھی ٗ وہ بھی بحال کر دی گئی ہے۔ مشیرِ خارجہ جناب سرتاج عزیز نے
یہ مژدہ بھی سنایا ہے کہ امریکہ توانائی کے شعبے کی نشوونما کے لیے ایک ارب ڈالر مہیا کرے گا۔
گویا چند ہفتوں میں پاکستان کے زرِمبادلہ میں خاطرخواہ اضافہ ہونے والا ہے جس کی بدولت
ڈالر نیچے آئے گا اور پٹرولیم مصنوعات نسبتاً ارزاں ہوں گی اور یوں فائدہ ملک اور عوام کو پہنچے گا۔
سب سے اہم ترجیح امریکہ سے ٹوٹے ہوئے تعلقات کی بحالی تھی جس کے حصول میں
جناب وزیراعظم اور اُن کی ٹیم پوری طرح کامیاب رہی۔ صدر اوباما نے مشترکہ پریس کانفرنس
میں اِس حقیقت کا اعلان کیا کہ پاکستان ہمارا قابلِ اعتماد سٹریٹیجک پارٹنر ہے
اور اِس کے ساتھ تعلقات کی ایک نئی ابتدا ہوئی ہے۔ دو گھنٹے تک سپر پاور کے صدر سے ملاقات کرنا
اور تمام بنیادی ایشوز کو زیرِ بحث لانا اور مضبوطی کے ساتھ پاکستان کا موقف بیان کرنا
ایک قابلِ ستائش سلسلہ تھا جس کی امریکی اور مغربی میڈیا نے تعریف کی ہے۔
تیسری بڑی کامیابی یہ رہی کہ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ جو ایک مدت سے منقطع تھے ٗ
اُن کا سلسلہ مارچ 2014ء میں شروع ہو جائے گا جو ایک ایسے میکانزم کو تشکیل دے گا
جس کے ذریعے تعاون کا دائرہ وسیع ہو گا اور پاکستان کی ضرورتوں کا ازخود خیال رکھا جائے گا۔
بہت اہم بات یہ کہ پاکستان امریکہ سے تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہا ٗ
لیکن بہت بڑی پیش قدمی افغانستان کے سلسلے میں ہوئی ہے جس کے لیے ملاقات کا یہی وقت
سب سے مناسب تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم ٗ امریکی نائب صدر ٗ وزیرِ خارجہ ٗ وزیرِ دفاع ٗ قومی سلامتی کے مشیر اور ڈائریکٹر سی آئی اے سے گھنٹوں اِن مسائل پر گفتگو کرتے رہے کہ افغانستان سے انخلا میں
پاکستان کیا رول ادا کرے گا اور بعد کے حالات کو معمول پر لانے اور امن قائم رکھنے کے لیے
دونوں ممالک کیا کیا قدم اُٹھائیں گے۔
اب اہم ترین ضرورت یہ ہو گی کہ اِن کامیابیوں میں استحکام لانے کے لیے قومی سطح پر
مزید سوچ بچار کے لیے سیمینار منعقد کیے جائیں۔ جناب وزیراعظم نے گھر درست کرنے کی جو بات کی ہے
اِس کے لیے بھی ایک مربوط اور قابلِ عمل لائحہ عمل مرتب کرنا بڑی دانش مندی کا تقاضا کرتا ہے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جن عوامی مطالبات کے بارے میں دونوں ملکوں کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں ٗ اُنہیں دور کرنے کے لیے کس قسم کی سیاسی اور سفارتی کاوشیں درکار ہوں گی۔
نوازشریف جو محنت اور جرأت کا زندہ استعارہ ہیں ٗ اُنہوں نے اپنے وطن کی گود ایسی کامیابیوں سے بھر دی ہے
جن سے مستقبل کے راستے کشادہ ہوتے جائیں گے۔