19 C
Lahore
Saturday, December 14, 2024

Book Store

Trump |A new crisis in world politics| ٹرمپ کی ایرانی جوہری معاہدے سے دستبرداری

ٹرمپ کی ایرانی جوہری معاہدے سے دستبرداری۔۔عالمی سیاست میں نیا بحران

(فرخند اقبال)

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 8مئی کو ایرانی جوہری معاہدے (Joint Comprehensive Plan of Action) (JCPOA)سے امریکہ کی دستبرداری کا اعلان کرکے عالمی سطح پر ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ان کے فیصلے کے بعد 2015میں ہونے والے اس معاہدے کے مستقبل پر خدشات منڈلانے لگے ہیں۔ اگرچہ دیگر یورپی فریق ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس معاہدے کو زندہ رکھنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں لیکن ایران کے اندرونی حالات اور یورپی یونین کا امریکی دباو کا سامنا کرنے کی مناسب اہلیت نہ رکھنے کے عوامل اس معاہدے کو طویل عرصے تک برقرار رکھنے کے لئے سازگار نہیں رہیں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنے فیصلے میں ایران پر پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے اعلان کے بعد ایرانی عوام میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ مشرق وسطی کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی عوام کی کثیر تعداد سمجھتی ہے کہ اس معاہدے کی وجہ سے ملکی معیشت گزشتہ کئی دہائیوں کی بہ نسبت کافی بہتر ہوئی ہے،لیکن اب اچانک امریکہ کی جانب سے نئی پابندیوں کی نفاذ کے بعد معیشت ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ خبر رساں ادارے مڈل ایسٹ آئی کی ایک سروے میں اکثرایرانی تاجروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ نئی پابندیوں کے باعث ایران کی سیاحتی صنعت شدید متاثر ہوگی اور غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں بڑی کمی ان کے کاروباروں کو دیوالیہ ہونے کے قریب لے جائے گی۔ اس کے علاوہ ایران کے تیل و گیس شعبے بھی پابندیوں کی زد میںآئیں گے جس کی وجہ سے معیشت کی بہتری کی رفتار رک جائے گی۔ صدر حسن روحانی کے لئے اس دباو کو طویل عرصے تک برداشت کرنا آسان نہیں رہے گاکیونکہ سخت گیر عناصر کے علاوہ ایران میں طاقت کے مرکز سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای شروع دن سے اس معاہدے کو زیادہ پسند نہیں کررہے اور وہ اکثر امریکہ پر اپنی بداعتمادی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ صدر حسن روحانی کے بیرونی “سپورٹ بیس “یعنی معاہدے میں شامل برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ نے ان کی کمپنیوں کو بھی چھ ماہ کے اندر اندر ایران میں اپنے کاروبار بند کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں متعددمسائل پیدا ہوئے ہیں اوردفاعی معاملات میں یورپی یونین کے خلاف بیانات دینے اور اس کے رکن ممالک پر تجارتی ٹیرف نافذ کرنے کے بعد حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ بلاک کے صدرڈونلڈ ٹسک نے 16مئی کو بلغاریہ میں تنظیم کے رہنماوں پر زور دیا کہ وہ ایرانی جوہری معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دیں،انھوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا ” ڈونلڈ ٹرمپ جیسے دوستوں کے ہوتے ہوئے کسی کو دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے”۔ لیکن اس تنظیم کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس نے ہمیشہ امریکہ کے ہر فیصلے کی مکمل حمایت کی ہے اور اس مرتبہ بھی “متحدہ محاذ “کی کامیابی کے کوئی چانسز نہیں ہیں ۔ حال ہی میں جب یورپی یونین کے سرکردہ ممالک نے ا مریکہ کااسرائیل میں اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی تو کئی رکن ممالک مثلاً جمہوریہ چیک، ہنگری اور رومانیہ امریکہ کی حمایت میں سامنے آئے تھے۔ جبکہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی حالیہ دنوں میں پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ یورپ کے پاس امریکہ سے تعلقات برقرار رکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے، تمام مشکلات کے باوجود ہمارے تعلقات زبردست اہمیت کے حامل ہیں اور رہیں گے۔ اس کے علاوہ برطانیہ بھی اگلے سال یورپی یونین سے الگ ہونے کی تیاریاں کررہا ہے اور اس کی توجہ مستقبل میں دوطرفہ قسم کے تعلقات پر مرکوز ہوگی اور وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ امریکہ کو طویل عرصے تک ناراض رکھے۔ ان عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یورپی یونین امریکہ کے خلاف متفقہ پالیسی تشکیل دینے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی امریکہ کو تنہائی کی طرف لے جارہی ہے اور ان کی مدت اقتدار کے اختتام تک امریکہ عالمی سیاست میں بہت کمزور ہوچکا ہوگا۔

 

کیا ڈونلڈ ٹرمپ ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں؟

ایران جوہری معاہدے کی مکمل پاسداری کررہا ہے اور اس نے اپنا ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام روک دیا ہے، اس بات کی تصدیق خود امریکہ کے اتحادی ممالک اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاو کے لئے قائم ادارہ International Atomic Energy Agency بھی کرتا ہے ۔ تو پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معاہدہ آخر کیوں توڑا؟ بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے کی وجہ سے ایران کی معیشت مستحکم ہورہی تھی اور یہ اس کی معاشی خوشحالی کے لئے نہایت اہم ہے۔ لیکن ٹرمپ معاہدہ توڑ کر ایرانی معیشت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ، ان کی کوشش ہے کہ ایرانی عوام میں بے چینی پھیلے اور وہ حکومت کے خلاف بغاوت کرکے اس کا خاتمہ کردیں۔ اگرچہ وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی مشیر جان بولٹن نے اس خیال کی تردید کی ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کا اپنا ریکارڈ بذات خود اس امر کے حق میں گواہی دیتا ہے۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں جب ایران میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تھے تو ٹرمپ نے برملا اعلان کیا تھا کہ امریکہ مظاہرین کو”بڑی مدد”فراہم کرے گا۔اس وقت بھی ان کی تنقید اور اس پیشکش کو امریکہ کی رجیم چینج(حکومت تبدیلی) پالیسی کا تسلسل قرار دیا گیا تھا۔جان بولٹن کو بھی طویل عرصے سے ایران میں حکومت تبدیلی کاسخت حامی سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے گزشتہ برس فرانس کے شہر پیرس میں Grand Gathering of Iranians for Free Iran کے فورم سے اپنے خطاب میں کہا تھا”اگر کوئی آپ سے کہتا ہے کہ ایرانی حکومت جوہری معاہدے کی مکمل پاسداری کر رہی ہے ،تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایران کے ممکنہ ایٹمی ہتھیاروں کے مسئلے کا واحد حل بذات خود حکومت کو تبدیل کرنا ہے اورایسا 2019سے پہلے پہلے ہوگا۔”انھوں نے مارچ 2015میں نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا”ایران کا بم روکنے کے لئے ایران پر بمباری کرو”۔اس کے بعد جنوری میں انھوں نے وال اسٹریٹ جنرل میں ایک آرٹیکل لکھا جس میں کہا گیاتھاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اس کی 40ویں سالگرہ سے قبل ختم کردو۔

تو کیا ایران پر جنگ کے بادل منڈ لارہے ہیں ؟

شام، لیبیا، عراق اور یمن کے تنازعات کے باعث مشرق وسطی پراکسی اور خانہ جنگیوں کی زد میں ہے، اور ان تنازعات میں خطے کی تین بڑی طاقتیں ایران، سعودی عرب اور اسرائیل ملوث ہیں۔ کسی بھی بڑی جنگ سے بچنے کے لئے ان تینوں ممالک کے درمیان طاقت کا توازن Balance of Powerبرقرار رکھنا نہایت ضروری ہے۔ باراک اوبامہ کی انتظامیہ یہاں بہت سمارٹ انداز میں کھیل رہی تھی۔ اس نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرکے خطے میں اس کے عزائم کسی حد تک قابو میں رکھے تھے اور دوسری جانب اپنے اتحادیوںسعودی عرب اور اسرائیل کی بھی اندھی حمایت کرنے سے گریز کیا۔ لیکن ٹرمپ نے اقتدار میں آکر امریکہ کا سارا وزن سعودی عرب اور اسرائیل کے پلڑے میں ڈالنا شروع کردیااور ایران کے ساتھ کھلے تصادم کی راہ اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا ایران جوہری معاہدے سے نکلنے کے اعلان کے صرف دو روز بعد شام اور گولان پہاڑیوں میں ایران اور اسرائیل کے درمیان زبردست جھڑپ ہوئی۔ایک بات واضح ہے کہ ایران بیک فٹ پر کبھی نہیں جائے گا۔وہ ماضی میںاس خطے کی ایک عظیم تہذیب رہنے کے زعم اور مضبوط فوجی طاقت کے ساتھ دیگر ممالک کی اندرونی سیاست میں پوری طرح ملوث ہے۔ اس کا کسی بھی تنازعے میں پیچھے ہٹنا حریف ممالک کو پیش قدمی کا موقع فراہم کرنے کا باعث ہوگا اور یہ بات اس کے طاقت کے مراکز یعنی سپریم لیڈر اور پاسداران انقلاب کے لئے نظریاتی طور پر کسی بھی طرح
قابل قبول نہیںہے۔ نتیجہ کسی بھی وقت جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے ۔بڑی طاقتوں کوحالات سازگار رکھنے کے لئے سامنے آنا ہوگا کیونکہ ان کی اپنی معیشتوں کا دارومدار اس خطے کے تیل وگیس ذخائر پر ہے اور یہاں کوئی بھی بڑی جنگ عالمی معیشت کو بحران سے دوچار کرسکتی ہے۔

ٹرمپ کے فیصلے نے عالمی طاقتوں کی کشمکش میں روس اور چین کو ایک اور موقع فراہم کردیا

کیا ٹرمپ کے اقتدار سے پہلے کوئی یہ تصور کرسکتا تھا کہ جرمنی امریکی فیصلے کے خلاف روس سے مدد مانگے گا؟ نہیں تو اب یہ سلسلے بھی شروع ہوگئے ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اس سلسلے میں 18مئی کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کررہی ہیں(ان سطور کی اشاعت کے وقت یہ ملاقات ہوچکی ہوگی)۔روس نے 2014میں ایران سے 20بلین ڈالر مالیت کا توانائی معاہدہ کیا ہے اور چین بھی ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ چین اور ایران اگلے دس برس میں اپنی تجارت 600بلین ڈالر تک بڑھانے کا معاہدہ رکھتے ہیں۔ روس اور چین ایرانی جوہری معاہدے کے فریق بھی ہیں اور دونوں چاہتے ہیں کہ یہ معاہدہ بہرصورت بحال رہے ۔ امریکہ کی دستبرداری کے بعد ان دونوں کا بڑے یورپی ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ اس معاہدے میں تعاون کرنا اور یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کا یہ بیان کہ” ٹرمپ کے ہوتے ہوئے کسی کو دشمن کی کیاضرورت ہے؟ـ” عالمی سیاست کو امریکہ کی موجودہ حیثیت کے خلاف ہموار کرنے کی مضبوط بنیادیں فراہم کرسکتے ہیں۔ چین امریکہ کو ون بیلٹ ون روڈ ، ایشیائی انفراسٹرکچر ترقیاتی بنک جیسی پالیسیوں اور روس شام میں امریکہ کو پہلے ہی آوٹ کلاس کرچکے ہیں۔

شمالی کوریا کو کیا پیغام جاتا ہے؟

امریکہ نے دسمبر 2003میں لیبیاء کے ساتھ جوہری، کیمیائی، بیالوجیکل ہتھیاروں اور میزائل پروگرام روکنے کا معاہدہ کیا تھا اور پھر 2011میں عرب بہار انقلاب کے دوران اسی غیر مسلح لیبائی آمر معمر قذافی پر حملہ کرکے انھیں ہلاک کردیا۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای شروع دن سے کہہ رہے تھے کہ امریکہ پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے سے نکل کر اس سوچ کو مزید تقویت فراہم کردی ہے۔ جنگجویانہ قسم کے کم جونگ ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ٹرمپ کو کھلا ڈیل دیں گے باوجودیکہ دونوں کے درمیان سنگاپور میں خوشگوار ملاقات ہوچکی ہے۔اسی طرح بالآخر شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان حالیہ سفارتی گرمجوشی دوبارہ ماند پڑ جائے گی۔ لیبیاء کی بہ نسبت شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام مکمل ہوچکا ہے اور اس نے چھ ایٹمی تجربے بھی کئے ہیں۔ اس ملک نے اپنی ساری دولت اور توانائی اس پروگرام پر خرچ کی ہے اور ٹرمپ کا یہ بیان “بے وقوفانہ” سے کم نہیں ہے کہ جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل صاف کرنا ہوگا۔ اس صورت میں ٹرمپ کے لئے شمالی کوریا سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ وہ جوہری عدم پھیلاو کو جواز بنا کر دیگر ممالک کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی پالیسی میں تنہا رہ سکتے ہیں کیونکہ ایران معاہدے سے نکلنے کے بعد وہ اب اپنے اتحادی ممالک کا اعتماد بھی کھوچکے ہیں۔ امریکہ پہلے دشمنوں کے لئے قابل اعتبار نہیں تھا ،اب دوستوں کے لئے بھی نہیں رہا۔

(فرخند اقبال)
farkhundiqbal@yahoo.com

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles