31 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

Pak-India war1965|پاک بھارت جنگ

> اللہ الرحمٰن الرحیم
>
> بت شکن پاکستانی فوج ، قوم سے کون لڑے بھلا ؟ پاکستانی بڑے لڑیّا جن کی
> سہی نہ جائےمار !!
>
> (یہ جنگ صرف پاکستانی فوج یا قوم نے نہیں لڑی گئی، بلکہ حضور ﷺ سمیت
> صحابہ کرام بھی اس جنگ میں کفار کے خلاف صف آراء تھے )
>
> واد ی ٔکشمیر کی مشک بیز فضا دھوئیں اور انسانی گوشت کی سڑاند سے معمور ہوتی
> چلی گئی
>
> تحقیق و تحریر:پروفیسرڈاکٹـرسیّـدمجیب ظفرانوارحمیدی
>
>  ء کی پاک بھارت جنگ نے پاکستان کو دنیا سے متعارف کروا دیا ۔ اس جنگ
> میں عسکری تاریخ کے دو عالمی ریکارڈ قائم ہوئے ۔پاکستان کا ہر شہری سیسہ
> پلائیہوئی دیوار بن کر بھارت کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔جنگیں، بظاہر قتل و
> غارت گری کا باعث بنتی ہیں اور انسانوں کے ساتھ ساتھ املاک کا بے حد نقصان
> بھی برداشت کرنا پڑتا ہےلیکن 1965ء کی پاک بھارت ٗ بین الاقوامی سطح پر
> پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کا پیغام لے کر آئی ۔اس سے پہلے دنیا کے
> بیشتر ممالک پاکستان کو بھارت کا حصہ ہیتصور کرتے تھے لیکن جب پاکستان کی
> بہادر افواج نے بھارت جیسی دنیاکی چھٹی عسکری طاقت کو میدان جنگ میں ناکوں
> چنے چبوا دیئے تب لوگوں پر یہ بات آشکارا ہوئی کہپاکستان ایک الگ آزاد
> اور خود مختار ریاست ہے جو ہر مشکل گھڑی میں اپنا دفاع کرنےکی صلاحیت بھی
> رکھتی ہے ۔جب ہم پاک بھارت جنگ کی بات کرتے ہیں تو ذہنوں میں یہ
> سوالاُبھرتا ہے کہ آخر، یہ جنگ شروع کیسے ہوئی؟ اور وہ کون سے محرکات اور
> عوامل تھے کہپاکستان اور بھارت دونوں کی افواج کو میدان جنگ میں اتارنا
> پڑا ۔آئیے ان حقائق سےقارئین کو بھی آشنا کرتے چلیں ۔1947ء میں ہندُستان
> کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو انگریزوں نے جواہر لعل نہرو کی دوستی کی آڑ میں
> کئی ایسے علاقے بھی بھارت میں شامل کردیئےجن کومسلمانوں کی تعداد کے
> اعتبار سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیئے تھا اس کےعلاوہ بھارتی فوج نے
> انگریزوں کے ایما پر اور اپنی فوجی برتری کی آڑ میں نہ صرفوادی کشمیر میں
> اپنی فوج اتار کر قبضہ کرلیا جس میں 90 فیصد آبادی مسلمان تھی اوراسے ہر
> حال میں پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا بلکہ ریاست جونا گڑھ اور حیدر
> آباددکن میں بھی بھارتی فوجوں نے قبضہ کرکے ناانصافی اور بددیانتی کی
> مثال قائم کردیحالانکہ ریاست جونا گڑھ اور حید ر آباد دکن کے مہاراجوں نے
> ( جو الحمداﷲ مسلمانتھے ) باقاعدہ پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان بھی
> کردیا تھا چونکہ 1947ء میںپاکستان کے پاس نہ تو کوئی وسائل تھے اور نہ ہی
> اس کی ابھی فوج ہی معرضِ وجود میںآئی تھی بلکہ فوج کی وہ یونٹیں جن میں
> مسلمان تعدادمیں زیادہ تھے دانستہ ان کوبھارت کے دور دراز علاقوں میں روک
> لیا گیا تاکہ ہجرت کے وقت وہ اپنے مسلمان بھائیوںکو بے رحم اور درندہ صفت
> سکھوں اور ہندؤں سے نہ بچا سکیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کیتاریخ میں پہلی
> مرتبہ اتنی بڑی ہجرت ہوئی جس میں۱۱؍ لاکھ سے زائد مرد عورتیں
>
> اور معصوم بےگناہ بچے نہایت درندگی کامظاہرہ کرتے ہوئے شہید کردیئے گئے
> ۔وادیٔ کشمیر میں کشمیریمجاہدین نے غیور قبائلیوں کے اشتراک سے بھارتی
> فوج کا راستہ روکنا چاہا لیکن آدھےسے بھی کم حصہ وہ بھارتی فوج سے چھین
> سکے جو آج آزاد کشمیر کی شکل میں ہمارے پاسموجود ہے ۔اس وقت بھی جب
> مجاہدین سری نگر اور جموں پر قبضہ کرنے والے تھے تو بھارتخود واویلا کرتا
> ہوا اقوام متحدہ جا پہنچا اور امریکہ اور روس کی حمایت سے جنگ بندیکی
> قرار داد پاس کروانے میں یہ کہتے ہوئے کامیاب ہوگیا کہ بھارت بہت جلد
> کشمیر میںاستصواب رائے کروائے گا ۔کشمیر ی عوام پاکستان اور بھارت میں سے
> جس کے ساتھ رہناپسند کریں گے ان کے فیصلے کااحترام کیاجائے گا اقوام
> متحدہ کی قرار داد کے بعد جنگبند ی تو ہوگئی لیکن بھارت وادی کشمیر میں
> استصواب رائے کروانے کا وعدہ بھی دانستہبھول گیا بلکہ کشمیر میں بھارتی
> فوج کی وسیع پیمانے پر مزید آمد اور فوجی چھاؤنیوںکو تعمیر کرکے کشمیر پر
> نہ صرف اپنا قبضہ مضبوط کرلیا بلکہ اسے اپنا اٹوٹ انگ قراردینے لگا ۔
> پاکستان نے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بار بار استصواب رائے کی یاددہانی
> کروائی لیکن روس اور امریکہ جیسی بڑی طاقتیں ہی جب بھارت کی سرپرست بن
> جائیںتو بھارت کشمیر میں کہاں استصواب رائے کروا سکتا تھا ۔چنانچہ کشمیر
> پر بھارتی قبضےکے خلاف کشمیر مجاہدین مسلسل جدوجہد کرتے چلے آرہے تھے
> ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھساتھ بھارت نے آزادی مانگنے والے نہتے کشمیریوں
> پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروعکردیئے جبکہ رائے شماری کی قرار داد پاس
> کرنے والی اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنگئی ۔ یہ دیکھ کر کشمیریوں کے صبر
> کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے 8 اگست 1965ء کو بھارت کے جبر و تشدد
> کے خلاف اعلان بغاوت کردیا ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میںانقلابی کونسل قائم
> ہوگئی ۔ پوری وادی کا درد و کرب “صدائے کشمیر” کیصورت میں انسانیت کے
> ضمیر کو جھنجھوڑنے لگا۔بھارت نے کشمیری مجاہدین کو پاکستانیحملہ آور قرار
> دے کر ان کا قتل عام شروع کردیا ان کے گھر جلنے لگے ان کے بچے ذبحکردیئے
> گئے ۔ وادیٔ کشمیر کی مشک بیز فضا دھوئیں اور انسانی گوشت کی سڑاند
> سےمعمور ہوتی چلی گئی پھر ایک رات بھارت نے اچانک پاکستان کے ایک سرحدی
> گاؤں اعوانشریف پر گولہ باری کرکے کئی نہتے پاکستانیوں کو شہید کردیا۔ اس
> کے بعد بھارتیفوجوں نے آزاد کشمیر پر بھی حملہ کردیا۔ پاکستان نے یکم
> ستمبر 1965ء کو جوابیکاروائی شروع کی ۔پاکستانی فوجیں مقبوضہ کشمیر میں
> بھارتی افواج کے مضبوط ترینقلعوں کو توڑتی ہوئی آگے بڑھنے لگیں پھر 6
> ستمبر کو علی الصبح بھارت نے اعلان جنگکیے بغیر مغربی پاکستان پر زبردست
> حملہ کردیا ۔ اس کے بعد سیالکوٹ میں ٹینکوں کیسب سے بڑی جنگ لڑی گئی ۔
> راجسِتھاں بھی میدان جنگ بنا ۔ فضائی اور بحری فوجیں بھیحرکت میں آگئیں ۔
> پاکستانی افواج نے بھارت کی چھ گنا فوجی طاقت کا حملہ نہ صرفپسپا کردیا
> بلکہ اسے واضح شکست سے بھی ہمکنار کردیا ۔17 روزہ گھمسان کی جنگ کے
> بعدفائر بندی ہوگئی اس وقت تک بھارت کے 130 ہوائی جہاز تباہ ٗ 500 ٹینک
> تباہ اور 7000سے زائد فوجی جہنم واصل ہوچکے تھے جبکہ 800 قیدی بن کر
> پاکستان کی جیلوں میں بندہوچکے تھے ۔ سینکڑوں توپیں ٗ ہزاروں فوجی گاڑیاں
> اور بہت سا دوسرا جنگی سازو سامانغارت ہوچکاتھا جبکہ اس کے مقابلے میں
> پاکستان کا نقصان ایک چوتھائی بھی نہیں تھا ۔پاکستانیافواج نے ان سترہ
> دنوں میں ہماری تاریخ کا روشن ترین باب رقم کردیا۔ یہ جنگ نہ صرفہماری
> تاریخ میں بلکہ دنیا بھر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی ۔ یہ جنگ
> پاکستاناور پاکستانی قوم کے لیے بہت بڑا چیلنج تھی یہ قومی آزمائش کا بہت
> کٹھن مرحلہ تھاپاکستان اور پاکستانی قوم نے اس چیلنج کا جواب جس جواں
> مردی ٗ بہادری ٗ شجاعت اورعزم واستقلال سے دیا اس پر پوری دنیا حیرت زدہ
> رہ گئی لیکن ان دنوں میں وقت لمحہبہ لمحہ اور ساعت بساعت کس طرح گزرا؟
> جنگ روز بروز کیاصورت اختیار کرتی گئیپاکستانی عوام کے جذبات و احساسات
> کی کیفیت کیا رہی ؟ انتظار ٗ اضطراب اور جوش وخروش کی گھڑیاں کس طرح
> گزرتی رہیں ان تمام کیفیات کو الفاظ میں بیا ن کرنا ممکن نہیں۔
>
> اس جنگ میںپاکستانی فضائیہ ٗ بحریہ اور بری فوج نے جو عظیم جنگی کارنامے
> سرانجام دیئے ان کیمختصرتفصیل ذیل میں درج ہے :
>
> پاک فضائیہ کےکارنامے:
>
> بھارتی فضائیہٗ مجموعی طور پر پاک فضائیہ سے پانچ گنا بڑی اور طاقت وَر
> تھی تاہم اس سترہ روزہجنگ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے ایک سو گیارہ جنگی
> جہاز تباہ کیے ۔ 19 جنگی جہازوںکو نقصان پہنچایا ۔ 149 ٹینک تباہ کیے اور
> 56ٹینکوں کو نقصان پہنچایا 62 توپیںتباہ کیں 19 توپوں کو نقصان پہنچایا
> 666 فوجی گاڑیاں تباہ جبکہ بھارت کے سات ہواباز گرفتار کرلیے ۔ اس کے
> برعکس پاکستان کے صرف 14ایف 86 جہاز اور دو بی 57 طیارےتباہ ہوئے ۔ ان
> میں سے بھی دو جہاز اپنی توپوں کی زد میں آکر ضائع ہوئے جبکہ چارتکنیکی
> خرابیوں کی وجہ سے ضائع ہوئے پاک فضائیہ کا صرف ایک ہوا باز اور دو نیو
> یگٹیر دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔
>
> پاکستان بحریہ:
>
> پاکستانی بحریہنے اپنے کسی نقصان کے بغیر بھارت کا ایک جہاز” فرنگیٹ ”
> غرق کیا اورکاٹھیا وار کے ساحل پر دشمن کاایک بحری اور فضائی اڈہ دوارکا
> ( سومناتھ ) تباہ کیا۔ اس اڈہ پر دشمن کاساحلی توپ خانہ ٗ راڈر سٹیشن اور
> ہوائی اڈہ بھی تھا جو مکملطور پر تباہ کردیاگیا اس جگہ پاکستانی بحریہ کی
> توپوں سے دشمن کے تین ہوائی جہازبھی تباہ ہوئے ۔
>
> بَرِّی فوج:
>
> پاکستان کی بریفوج نے کارگل اور ٹٹیوال سے لے کر راجستھان تک دشمن کی کئی
> گنا زیادہ طاقت کانہصرف مقابلہ کیا بلکہ ہر محاذ پردشمن کو پسپاکرکے اس
> کے 1617 مربع میل علاقے پر بھیقبضہ کرلیا ۔ ہر جگہ پاکستانی فوج کو اپنے
> سے کم از کم چھ گنا زیادہ فوج اور جنگیسازو سامان کامقابلہ کرنا پڑا ۔
> ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں بھارتکے سات ہزار سے زائد فوجی
> ہلاک اور آٹھ سو سے زائد گرفتار ہوئے ۔ اس کے 516 ٹینکتباہ کیے گیے اور
> 18 ٹینک ٹھیک حالت میں پاکستانی فوج کے قبضے میں آئے ۔دشمن کابہت سا جنگی
> سازو سامان ٗ گولہ بارود ٗ توپیں ٗمشین گنیں اورہزاروں رائفلیں ٗ
> امریکیاسلحہ کے انبار اور بے شمار فوجی گاڑیاں ہاتھ لگیں ۔ان گاڑیوں میں
> بھارتی جرنیلراجندر پرشادکی ایک جیب بھی شامل تھی جس میں سے بھارت کے
> جنگی منصوبوں سے متعلقدستاویزات بھی موجود تھیں بھارت کا منصوبہ یہ تھا
> کہ وہ 72 گھنٹے میں مغربیپاکستان پر قبضہ کرکے مشرقی پاکستان پر چڑھائی
> کردے گا لیکن 72 گھنٹے کی یہ مدتگزرنے پر بھارت کے جنگ باز وزیر دفاع نے
> انتہائی مایوسی کے عالم میں بھارتی پارلیمنٹمیں بتایا کہ بعض وجوہ کی بنا
> پر لاہور اور قصورکے محاذپر ہماری فوجیں کچھ پیچھےہٹ گئی ہیں اور اس وقت
> پاکستانی توپوں کے گولے فیروز پور شہر کے قریب گر رہے ہیں ۔
>
> 23ستمبر 1965ء کی صبح تین بجے فائر بندی ہوئی اس وقت مختلف سیکٹروںمیں
> دونوں ملکوں کے تسلط میں ایک دوسرے کا جو علاقہ تھا اس کی تفصیل یہ ہے ۔
>
> پاکستان کے زیرقبضہ بھارتی علاقے:
>
> اکھنو ر سیکٹر340 مربع میل
>
> لاہور، سیالکوٹایک مربع میل
>
> کھیم کرنفاضلکا 36 مربع میل
>
> سلیمانکی ٗفاضلکا 40 مربع میل
>
> راجستھان میرپورخاص 1200 مربع میل
>
> کُل : 1617مربع میل علاقہ
>
> بھارت کے زیرقبضہ پاکستانی علاقہ:
>
> کارگل 10 مربعمیل
>
> ٹیٹوال 2 مربعمیل
>
> اوڑی پونچھ 170مربع میل
>
> سیالکوٹ 140مربع میل
>
> لاہور 100 مربعمیل
>
> راجستھان میرپور24 مربع میل
>
> کُل: 446 مربعمیل علاقہ
>
> لکھنے کا مقصدیہہے کہ بھارتی جرنیلوں نے پاکستان پر قبضہ کرنے اور
> لاہورمیں جم خانہ کلب میں شرابکے جام ٹکرانے کا جو سنہرا خواب دیکھا تھا
> پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اسخواب کو نہ صرف اپنے جذبہ حیرت سے پاش
> پاش کردیا بلکہ بھارت کو یہ بات بتا دی کہپاکستان بظاہر اس سے کہیں زیادہ
> چھوٹا اور کم وسائل ملک ہے لیکن پاکستانی عوام اورافواج پاکستان کے جوان
> بھارت سے کہیں زیادہ جذبہ حیریت سے لبریز ہیں وہ دیکھنے میںتو گوشت پوشت
> کے انسان دکھائی دیتے ہیں لیکن جب میدان جنگ میں ڈٹ جاتے ہیں توفولاد سے
> بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں ۔ ؎”ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم +
> رزمِ حق و باطل ہوتوفولادہےمومن”(علامہ ڈاکٹرسر محمداقبالؔ)
>
> جنگِ65عیسوی کے کُچھ رُوحانی پہلو:
>
> اس کے باوجودکہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کو ہوئے 54 سال کا عرصہ گزر چکاہے
> ، جن پاکستانیوں نے یہجنگ شعور کی حالت میں دیکھی یا اس میں خود بھی حصہ
> لیا ان میں سے اکثر اس دنیا سےرخصت ہوچکے ہیں یا رخصت ہونے کے لیے تیار
> بیٹھے ہیں جبکہ موجود نسل کو یہ تو پتہہے کہ پاکستان اور بھارت میں ایک
> جنگ 1965 میں ہوئی تھی لیکن یہ نہیں پتہ کہ اسوقت ہواکیا تھا اور پاک فوج
> اور پاکستانی قوم کس طرح اور کن کن لمحات میں بھارت کیٹڈی دل فوج اور
> عسکری طاقت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی تھیکہ بھارت
> کو لاہور پر قبضے کاشوق چھوڑ کر اپنی سلامتی کی فکر کرنی پڑی ۔ یہ سچ
> ہےکہ جنگیں اسلحے اور فوجوں کی تعداد سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ میدان جنگ
> میں وہی کامیابوکامران ٹھہرتے ہیں جو ایمان کی طاقت ٗخدا پر کامل بھروسہ
> اور اپنے قوت بازو پراعتماد کرتے ہیں ۔کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والا ملک
> پاکستان دنیا کا واحد ملک ہےجس کی فوج کا ہر جوان اور افسر صرف شہادت کا
> خواب لےکر کرفوج میں شامل ہوتا ہے اسجذبے اور ولولے میں نہ پٹھان قوم
> پیچھے ہے نہ پنجابی ٗ نہ سندھی اور نہ ہی بلوچی ۔بلکہ علامہ اقبال کے
> فلسفہ قومیت کی طرح پاکستان کا ہر شہری اپنی شناخت کو بھول کرخود کو ایک
> ذمہ دار اور وطن کی حفاظت کرنے والا پاکستانی ہی تصور کررہا تھا ۔ اگر
> یہکہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس جنگ نے 10 کروڑ پاکستانیوں کو ایک لڑی
> میں پرو دیاتھا یہ سوچے بغیر کہ وہ خودکون ہے اور کہاں کارہنے والا ہے اس
> کے پیش نظر صرف ایک ہیمقصد تھاکہ بھارت کو ہر محاذ پر اور ہر حال میں
> شکست دینی ہے فوج کی وردی پہننےوالے تو فرنٹ لائن پر بھارتی سے دست بدست
> جنگ کررہے تھے لیکن شہریوں کاعالم بھی یہبھی تھا وہ اپنے فوجی بھائیوں کی
> مدد کے لیے ان کے مورچوں تک پہنچ گئے تھے بطورخاص لاہور میں زندہ دلان
> شہری جو ہاتھوں لاٹھیاں لے کر واہگہ سرحد کی جانب چل پڑےتھے کہ فوج کے
> جوانوں نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ جب تک پاک فوج کا ایک بھیجوان
> زندہ ہے بھارت ٗ پا ک سرزمین پر قدم رکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا اس وقت
> تک آپاپنے گھر واپس جائیں اور شہروں کا نظم ونسق سنبھالیں تاکہ دشمن کو
> شہروں میں اپنےچھاتہ بردار اتارنے اور پروپیگنڈہ کرکے شہریوں کو خوفزدہ
> کرنے کاموقع نہ ملے ۔تاریخاس بات کی شاہدہے کہ جتنے دن بھی یہ جنگ جاری
> رہی سرحد پر دشمن کے سامنے برسرپیکارفوجی جوانوں کا ناشتہ لاہور کے شہری
> ہی انہیں پہنچاتے رہے.جب بھارتی جنگی طیارےلاہور کی فضاؤں میں بمباری کے
> لیے نمودار ہوتے تو سرگودھا سے پاک فضائیہ کے شاہینبھی ان کی خاطر مدارت
> کرنے کے لیے پہنچ جاتے پھر لاہور کے شہری خوفزدہ ہوکر مورچوںاور پناہ
> گاہوں میں پناہ لینے کی بجائے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر بھارتی طیاروں
> کےساتھ شاہینوں کے سلوک کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ۔ یہ بات بھی
> تاریخ کا اہمحصہ ہے کہ بھارتی فضائیہ 17 روزہ جنگ کے دوران لاہور کے قریب
> دریائے راوی کے واحدپل کو بھی بمباری کرکے توڑ نہیں سکے ۔ بعداز اں
> بھارتی پائلٹوں نے اپنی مشاہداتیکتابوں میں لکھا کہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم
> نیچے پرواز کرکے راوی کے پل پر بم گراتے ہیںلیکن کوئی بھی بم ٹھیک نشانے
> پر نہیں لگتا اس پل پر سبز لباس والا ایک بزرگ کھڑادکھائی دیتاہے جو پل
> پر گرنے والے بمبوں کو کرکٹ گیند کی طرح کیچ کرکے اپنے بغلیتھیلے میں ڈال
> لیتا ہے وہ بزرگ کون ہے ہم یہ جاننے سے قاصر ہیں ۔(وہ بزرگ حضرتداتا گنج
> علی ہجویری ؒ ہیں جنہیں محافظ لاہور کا خطاب بھی دیا جاتا ہے )،اسی طرحکا
> ایک اور واقعہ حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ( المعروف کرماں والے ) کی کتاب
> میںدرج ہے کتاب کامصنف لکھتاہے کہ 1965 عیسوی کی جنگ سے چار پانچ دن پہلے
> حضرت کرماںوالے بزرگ لاہور کے میوہسپتال میں داخل تھے جہاں ان کا مثانے
> کاآپریشن تھا زخمتازہ ہونے کی بنا پر ڈاکٹروں نے انہیں سفر سے منع
> کررکھاتھا اس لیے وہ واپس اپنےگاؤں جانے کی بجائے لاہور میں ہی اپنے ایک
> مرید ( گلبرگ ) میں عارضی طور پر قیامپذیر تھے کہ تین ستمبر 1965 کی صبح
> آپ ؒ نے حکم دیا کہ وہ واہگہ بارڈ ر پر جانےکاارادہ رکھتے ہیں ان کے جانے
> کا انتظام کیا جائے ۔ قریبی مریدوں نے کہا حضرت صاحبآپ کے زخم تازہ ہیں
> اور ڈاکٹروں نے آپ کو سفر سے منع کررکھا ہے آپ واہگہ بارڈر پرکیاکرنے
> جارہے ہیں مریدوں کی یہ بات سن کر حضرت کرماں والی سرکار ؒ نے فرمایا جس
> باتکا پتہ نہ ہو اس پر اصرار نہیں کرتے آپ کو جو کہا گیاہے اس پر عمل کرو
> ۔چنانچہ کارپر بیٹھ کر ( جبکہ آپ کو پیشاب کے نکاس کی نالیاں بھی لگی
> ہوئی تھیں ) واہگہ بارڈرجا پہنچے وہاں بھارت کی جانب رخ کرکے کچھ دیر
> قرآنی آیات کا ورد کرتے رہے پھر دائیںہاتھ میں مٹی اٹھا کر بھارت کی جانب
> پھینک دی اور واپس گھر آگئے ۔سفر کی وجہ سےزخموں سے خون بہنے لگا تکلیف
> میں حد درجہ اضافہ ہوگیا طبیعت میں بے چینی پہلے کینسبت زیادہ بڑھ گئی
> لیکن چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں تھے ۔ اگلی صبح پھر آپ نےحکم دیا کہ
> گاڑی تیار کرو برکی ہڈیارہ سرحد پر جانا ہے ۔ مریدوں نے پھر آپ کوروکنا
> چاہا لیکن آپ نے اشارہ کرکے سب کو خاموش کردیا اور گاڑی پر برکی ہڈیارہ
> سرحدپر جا پہنچے کچے پکے راستوں پر سفر کرنے کی وجہ سے تکلیف میں پہلے سے
> بھی زیادہ اضافہہوگیا لیکن آپ نے وہاں بھی چند قرآنی آیات کاورد کر کے
> بھارت کی جانب پھونک ماریپھر مٹی کو مٹھی میں لے کر بھارت کی جانب پھینکا
> اور گھر واپس آگئے ۔زخموں میں خونبہنے کی وجہ سے ساری رات سو نہ سکے
> تکلیف اور بھی پریشان کردیا لیکن اگلی صبح پھرآپ نے حکم دیا کہ گاڑی تیار
> کریں مریدوں نے پوچھا آج کہا ں جانے کاارادہ ہے آپ ؒنے فرمایا آج گنڈا
> سنگھ قصور کی سرحد پر جانے کاحکم ملا ہے ۔چنانچہ آپ لاہور سے 65کلومیٹر
> دور گنڈا سنگھ بارڈر پرجا پہنچے اور وہی عمل دھرائے جو اس سے پہلے
> واہگہاور برکی کے مقام پر ہو چکے تھے ۔جب آپ تھکے ماندے اور زخموں سے چور
> واپس لاہورپہنچے تو سجدے میں گر کر آپ اس قدر زارو قطار روئے کہ مریدوں
> کی بھی چیخیں نکل گئیںآپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے:
>
> “اے ﷲ ٗ نبی کریم ﷺ نے پاکستان کی سرحدیں محفوظ کرنے کی مجھےجو ذمہ داری
> سونپی تھی وہ میں نے پوری کردی ہے اب تو ہی پاکستان کوہر قسم کی
> جارحیتاور پریشانی سے محفوظ رکھ ۔”
>
> خدا کی قدرت کہ5 ؍ ستمبر کی رات حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری المعروف کرماں
> والے گنڈا سنگھ بارڈرپر قرآنی آیات پڑھ کر واپس لوٹے تھے کہ 6 ستمبر کی
> صبح انہی مقامات پر بھارت نے ٹینکٗ توپوں سے مسلح ایک ڈویژن فوج سے
> زبردست حملہ کردیا اس وقت یہ تینوں مقامات بالکلخالی تھی پاک فوج کشمیر
> میں برسرپیکار تھی پاک فوج کی صرف ایک کمپنی میجر شفقتبلوچ کی کمانڈ میں
> برکی ہڈیارہ سیکٹر پر ابھی رات کے پچھلے پہر آکر ٹھہری تھی کہچند گھنٹے
> بعدہی اسے بھارتی یلغا ر کا سامنا کرنا پڑا ۔میجر شفقت بلوچ نے مجھے
> خودبتایاکہ بھارتی ٹینک اور فوج ہڈیارہ ڈرین کے دوسرے کنارے پر صرف 200
> فٹ دور رہ گئیتھی وہ ہڈیارہ ڈرین کے بند پر کھڑے مجھے واضح طور پر دیکھ
> رہے تھے جبکہ میں بھارتیٹینکوں میں بیٹھے ہوئے بھارتی فوجیوں کو دیکھ رہا
> تھا لیکن قدرت کا کرم ایساہوا کہانہوں نے مجھ پر جتنی بھی گولیاں چلائیں
> ان میں سے صرف ایک گولی میرے بازو کو چھوتیہوئی گزرگئی جس سے ایک خراش
> لگی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بھارتی فوجی مجھے دیکھنےکے باوجودان کی
> بندوقوں سے نکلنے والی گولیوں کارخ کوئی غیبی طاقت موڑ دیتی تھی
> ۔میجرشفقت نے بتایا کہ اگر میں ہڈیارہ بند کے نیچے اتر آتا تو بھارتی
> ٹینکوں اور فوج ہمیںروندتے ہوئے چند گھنٹوں میں لاہور فتح کرچکے ہوتے ۔جب
> بھارتی ٹینک بہت قریب آگئےتومیں نے ان پر ٹینک شکن توپ کو فائر کرنے کا
> حکم دیا بھارتی اتنے قریب پہنچ چکےتھے کہ میری آواز کو بھی سن رہے تھے
> لیکن چند ہی لمحوں بعد ہماری ٹینک شکن توپ کےگولوں نے ٹینکوں کو تباہ
> کرکے بھارتی فوج کی پیش قدمی روک دی ۔ہمارے پاس چونکہاسلحہ نہ ہونے کے
> برابر تھا اس لیے ہم بھارت کی فائرنگ کے جواب میں صرف چند فائر ہیکرتے
> تاکہ انہیں احساس ہو کہ پاک فوج ہڈیارہ ڈرین کے اس پار موجود ہے ۔ میجر
> شفقتبلوچ نے مجھے بھارتی جرنیلوں کی چند کتابیں بھی دکھائیں جس میں انہوں
> نے لکھا تھاکہ واہگہ سرحد عبور کرنے کے بعد ہم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ
> وہ کونسی فولادی دیوارہےجو بھارتی فوج کو پیش قدمی نہیں کرنے دے رہی اور
> دس گھنٹے تک کئی بھارتی بریگیڈ کوروکے رکھا ۔ دنیا کی تاریخ میں یہ
> ریکارڈآج تک ناقابل تسخیرہے کہ صرف ایک کمپنی جسمیں صرف 110 جوان ہوتے
> ہیں اس نے پورے بریگیڈ کونہ صرف دس گھنٹے تک روکے رکھابلکہاسے تباہ بھی
> کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فولادی طاقت اس روحانی طاقت کی تھی جسنے
> حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کو سرحدیں محفوظ کرنے کے لیے بیماری کی حالت
> میںبھی بھارتی سرحد پر بھیجا تھا اور ان کے ہاتھوں سے نکلی ہوئی وہ مٹی
> تھی جو بھارتیفوجیوں کی آنکھوں کو اندھا کرگئی کہ وہ 200 فٹ دور ہڈیارہ
> ڈرین بند پر کھڑے ہوئےپاکستانی فوج کے میجر شفقت بلوچ کا نشانہ نہ لے سکے
> ۔اسی جنگ میں بی آر بی کا دفاعکرتے ہوئے میجر عزیز بھٹی شہید نے بھی جام
> شہادت نوش کیا جس کے صلے میں انہیںپاکستان کی عسکری تاریخ کا دوسرا نشان
> حیدر بعدازشہادت عطاکیا گیا ۔ یاد رہے کہ بیآربی نہر دفاع لاہور اور دفاع
> پاکستان کا وہ آخری دفاعی لائن تھی جس کے بعد لاہورشہر پر بھارتی قبضے کو
> روکنا تقریبا ناممکن تھا اس عظیم جنگی معرکے میں میجر عزیزبھٹی شہید ٗ
> میجر حبیب شہید کے علاوہ پاک فوج کے سینکڑوں افسروں اور جوانوں نےاپنے
> لہو سے ایسی لکیر کھینچ دی جس کو تمام تر کوشش اور اسلحی برتری کے
> باوجودبھارتی فوج عبور نہ کرسکی ۔آج بھی بی آربی کے کنارے بنی ہوئی وہ
> یادگار اپنے شہیدوںکے عظیم جنگی کارناموں کی داستان سناتی ہے ۔بی آر بی
> کو اگر شہیدوں کی نہر کہاجائےتو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کا پانی شہیدوں کے
> لہو سے سرخ ہوچکا تھا اور اس لہو کیسرخی تاقیامت پاکستان کی حفاظت کرتی
> رہے گی ۔
>
> قرآن پاک میںسورہ الانفال میں، ﷲ کریم فرماتا ہے،اُردو(مفہوم)ترجمہ: ” اے
> میرے حبیب جنگبدر میں جب آپ نے اپنی مُٹھِّی میں کنکر بھر کر دشمنوں کی
> طرف پھینکے تھے وہ مٹھیآپ کی نہیں آپ کے رب عظیم کی تھی ۔” سوچنے والی
> بات ہے ، پھر اس کے آگے دنیاکی کون سی طاقت رک سکتی ہے ؟
>
> ایک اور واقعہعمار صدیقی کی کتاب “مجاہدین صف شکن” میں درج ہے ۔ یہ ایک
> ایسے شخص کاخط ہے جو مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ پر حاضر تھا جس روز
> لاہور پر بھارت کا حملہہوا ، اُسی رات مدینہ منورہ کے کئی افراد نے ایک
> ہی خواب دیکھا کہ روضۂ اقدس سےحضرت محمد ﷺ بہت عجلت میں ایک بہت خوبصورت
> تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوکر ”بابِاسلام” میں تشریف لے گئے ۔ صحابہ
> کرام نے عرض کی:” یا رسول ﷺ اس قدر جلد ، گھوڑےپر ،کہا ں تشریف لے جارہے
> ہیں؟” فرمایا :”پاک سِتاں!” میں جہاد کے لیے ٗ پھر یکدم برق کی مانند
> روانہ ہوگئے آپ ﷺ کے پیچھےمواجہ شریف سے ہی پانچ حضرات اسی راستے ”پرواز
> کرتے” ہوئے نکل گئے ۔ یہ اس باتکا ثبوت ہے کہ یہ جنگ صرف پاکستانی فوج
> یا قوم نے نہیں لڑی بلکہ حضور ﷺ سمیت صحابہکرام بھی اس جنگ میں کفار کے
> خلاف صف آراء تھے انہوں اﷲ تعالی کے حکم سے فرشتوں کیتائید خداوندی بھی
> حاصل تھی ۔ جن لوگوں نے اپنی ہوش میں یہ جنگ دیکھی ہے ان کو یقینایہ بات
> یاد ہوگی کہ عین جنگ کے دوران آسمان پر ایک مکمل تلوار نموار ہوئی تھی
> جسکا رخ بھارت کی جانب تھا اور پکڑنے والے ہتھی پاکستان کی جانب تھی ۔
>
> جنگِ1965عیسوی کےخارجی پہلو:
>
> یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ذوالفقارعلیبھٹو جو اس وقت پاکستان
> کے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے تاشقند معاہدےکے خلاف
> پاکستان واپس آکر اس قدر واویلا کیا جیسے جنرل محمدایوب خان تاشقند
> میںپاکستان کا سودا کرآئے ہیں اور یہ شوشہ چھوڑ کر نوجوانوں کو اس عظیم
> شخص کے خلافکھڑا کردیا جس نے میدان جنگ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی نہ
> صرف جنگ جیتی تھیبلکہ ہر محاذ پر بھارت کو منہ توڑ جواب بھی دیا تھا ۔اگر
> بھٹو کے اس شوشے کی حقیقتجاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہوگا ۔
>
> بھارت کمانڈرانچیف بی ایم کول اپنے کتاب “کہی ان کہی ” میں لکھتے ہیں کہ
> میری بیوینے مجھے سویرے جگا کر بتایا کہ اسے تھوڑی دیر پہلے معلوم ہوا کہ
> وزیر اعظم شاستریکا تاشقند میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا ۔
> شاشتری کی موت یقینا اس ذہنیدباؤ کا نتیجہ تھی جو مذاکرات کے میز پر
> انہیں جنرل محمد ایوب کے سامنے بیٹھ کرکرنا پڑا تھا ۔ شاستری کی موت
> کاذکر کرتے ہوئے جے بی کرپلانی نے لوک سبھا میں کہامیرا خیال ہے تاشقند
> میں جو دباؤ ڈالا گیا تھا اس کی وجہ سے شاستری کے دل و دماغ میںایک کشمکش
> پیدا ہوگئی ہوگی جس کے نتیجے میں وہ اپنے عوام سے کیا ہوا یہ وعدہ
> بھولگئے کہ یقین دہانی کے بغیر فوج پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ شاستری نے اس
> ذہنی کشمکش سےنجات حاصل کرنے کے لیے اعلان تاشقند پر دستخط کردیئے ۔
>
> یہ حالات ثابتکرتے ہیں کہ 1965 میں اگر پاکستانی قیادت ذمہ دار
> اور جرات مند نہ ہوتی تو بھارتکب کا پاکستان کو ہڑپ کرچکا ہوتا ۔ 1965ء
> کی پاک بھارت جنگ میں کامیابی کا سب تمامانحصار جنرل محمدایوب خان کو
> جاتا ہے جن کے ایک ایک لفظ میں پاکستانی قوم اورافواج پاکستان کے بجلی
> بھری پڑی تھی ۔اس عظیم جنگی معرکے کا کریڈٹ افواج پاکستانکے ہر اس افسر
> اور جوان کو جاتا ہے جس نے مشکل ترین حالات میں بھی موت کے خوف سےبالاتر
> ہوکر بھارتی فوج کے پرخچے اڑا دیئے ۔چونڈہ سیالکوٹ کے محاذ پر ہونے والی
> دنیاکی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ ٗ ( جس میں بھارت نے 600 ٹینک سے حملہ
> کیا تھا ) کاتذکرہ کیے بغیر پاکستان کی عسکری تاریخ نامکمل ہے یہ ایسی
> جنگ تھی جس میں ایک لمحےکی ناکامی بھی پاکستان کی واضح شکست میں تبدیل
> کرسکتی تھی لیکن شواہد کے مطابقاپنے جسموں سے بم باندھ کر جس طرح پاک فوج
> کے افسروں اور جوانوں نے نیچے لیٹ کر ٹینکوںکے کچھ اس طرح پرخچے اڑ ا
> دیئے کہ بھارتی فوج اپنے حواس کھو بیٹھی اور ذہنی طور پراپنی شکست تسلیم
> کرلی ۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے تین اہم ترین عسکری
> ریکارڈقائم ہوئے جن کا تذکرہ دنیا کی جنگی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے شامل
> ہوچکا ہے ان میںایک ریکارڈ یہ ہے کہ لاہورہڈیارہ سیکٹر پر بھارتی فوج کے
> ایک بریگیڈ کو پاک فوج کیایک کمپنی نے میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں دس
> گھنٹے تک نہ صرف روکے رکھا بلکہ پورےبریگیڈ کو تباہ کردیا ۔دوسر ا عالمی
> ریکارڈ ائیر کموڈور ایم ایم عالم کا ہے جنہوںنے صرف چند منٹوں میں بھارت
> کے پانچ جنگی طیارے گرا کر بھارتی فضائیہ کی کمر توڑکر رکھ دی ۔ 1965ء
> جنگ کی یہ خاص بات ہے کہ بھارت کی بری فوج میدان جنگ میں واضحشکست سے
> ہمکنار ہوئی ٗ بھارتی فضائیہ کو جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی راکھ کا
> ڈھیربنا کر رکھ دیاگیا جبکہ حجم کے اعتبار سے بھارتی بحریہ طاقتور ہونے
> کے باوجودپاکستانی بحریہ کے ہاتھوں پے درپے شکست سے ہمکنار ہوتی رہی ۔اس
> جنگ کے حوالے سےممتاز شاعر اور ادیب جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک
> خوبصورت اور برمحل نظم ذیلمیں درج ہے جو جنگ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ
> کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔
>
> جنگِ6؍ستمبر65عیسویاور اُردو ادب سے ایک انتخاب:
>
> نظم: ”چھ ستمبر”
>
> شاعر:احمد ندیمقاسمی
>
> چاند اس رات بھینکلا تھا مگر اس کا وجود اتنا خوں رنگ تھا جیسے
> کسی معصوم کی لاش
>
> تارے اس رات بھیچمکے تھے مگر اس ڈھب سے جیسے کٹ جائے کوئی جسم حسین
> قاش بہ قاش
>
> اتنی بے چین تھیاس رات مہک پھولوں کی جیسے ماں جس کو ہو
> کھوئے ہوئے بچے کی تلاش
>
> پیڑ چیخ اٹھےتھے امواج ہوا کی زد میں نوکِ شمشیر
> کی مانند تھی جھونکوں کی تراش
>
> اتنے بیدارزمانے میں یہ سازش بھری رات میری تاریخ کے
> سینے میں اتر آئی تھی
>
> اپنی سنگینوں میںرات کی سفاک سپاہ دُودھ پیتے ہوئےبچوں
> کو پرو لائی تھی
>
> گھر کے آنگن میںرواں خون تھا گھر والوں کا اور ہر کھیت پہ شعلوں
> کیگھٹا چھائی تھی
>
> راستے بند تھےلاشوں سے پٹی گلیوں میں بِھیڑ سی بِھیڑ
> تھی تنہائیسی تنہائی تھی
>
> تب کراں تا بہکراں صبح کی آہٹ گونجی آفتاب ایک دھماکے سے
> افقپر آیا
>
> اب نہ وہ رات کیہیت تھی نہ ظلمت کا طلسم پرچمِنور یہاں اور وہاں
> لہرایا
>
> جتنی کرنیں بھیاندھیرے میں اتر کر اُبھریں نوک پر رات کا دامانِ
> دریدہپایا
>
> میری تاریخ کاوہ باب منور ہے یہ دن جس نے اک قوم کو خود
> اس کاپتا بتلایا
>
> آخری بار اندھیرےکے پجاری سن لیں میں سَحر ہوں میںاجالا
> ہوں حقیقت ہوں میں
>
> میں محبت کا تودیتا ہوں محبت سے جواب لیکناعدا کے لئے قہرہ قیامت ہوں
> میں
>
> امن میں موجۂنکہت مرا کر وارِ سہی جنگ کے دور میں غیرت
> ہوںحمی ہوں میں
>
> میرا دشمن مجھےللکار کے جائے گا کہاں؟ خاککا طیش ہوں افلاک کی دہشت
> ہوں میں
>
> تحقیق و تحریر:پروفیسرمجیب ظفرانوارحمیدی
>

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles