12 C
Lahore
Tuesday, December 5, 2023

Book Store

Pak-India war1965|پاک بھارت جنگ

> اللہ الرحمٰن الرحیم
>
> بت شکن پاکستانی فوج ، قوم سے کون لڑے بھلا ؟ پاکستانی بڑے لڑیّا جن کی
> سہی نہ جائےمار !!
>
> (یہ جنگ صرف پاکستانی فوج یا قوم نے نہیں لڑی گئی، بلکہ حضور ﷺ سمیت
> صحابہ کرام بھی اس جنگ میں کفار کے خلاف صف آراء تھے )
>
> واد ی ٔکشمیر کی مشک بیز فضا دھوئیں اور انسانی گوشت کی سڑاند سے معمور ہوتی
> چلی گئی
>
> تحقیق و تحریر:پروفیسرڈاکٹـرسیّـدمجیب ظفرانوارحمیدی
>
>  ء کی پاک بھارت جنگ نے پاکستان کو دنیا سے متعارف کروا دیا ۔ اس جنگ
> میں عسکری تاریخ کے دو عالمی ریکارڈ قائم ہوئے ۔پاکستان کا ہر شہری سیسہ
> پلائیہوئی دیوار بن کر بھارت کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔جنگیں، بظاہر قتل و
> غارت گری کا باعث بنتی ہیں اور انسانوں کے ساتھ ساتھ املاک کا بے حد نقصان
> بھی برداشت کرنا پڑتا ہےلیکن 1965ء کی پاک بھارت ٗ بین الاقوامی سطح پر
> پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کا پیغام لے کر آئی ۔اس سے پہلے دنیا کے
> بیشتر ممالک پاکستان کو بھارت کا حصہ ہیتصور کرتے تھے لیکن جب پاکستان کی
> بہادر افواج نے بھارت جیسی دنیاکی چھٹی عسکری طاقت کو میدان جنگ میں ناکوں
> چنے چبوا دیئے تب لوگوں پر یہ بات آشکارا ہوئی کہپاکستان ایک الگ آزاد
> اور خود مختار ریاست ہے جو ہر مشکل گھڑی میں اپنا دفاع کرنےکی صلاحیت بھی
> رکھتی ہے ۔جب ہم پاک بھارت جنگ کی بات کرتے ہیں تو ذہنوں میں یہ
> سوالاُبھرتا ہے کہ آخر، یہ جنگ شروع کیسے ہوئی؟ اور وہ کون سے محرکات اور
> عوامل تھے کہپاکستان اور بھارت دونوں کی افواج کو میدان جنگ میں اتارنا
> پڑا ۔آئیے ان حقائق سےقارئین کو بھی آشنا کرتے چلیں ۔1947ء میں ہندُستان
> کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو انگریزوں نے جواہر لعل نہرو کی دوستی کی آڑ میں
> کئی ایسے علاقے بھی بھارت میں شامل کردیئےجن کومسلمانوں کی تعداد کے
> اعتبار سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیئے تھا اس کےعلاوہ بھارتی فوج نے
> انگریزوں کے ایما پر اور اپنی فوجی برتری کی آڑ میں نہ صرفوادی کشمیر میں
> اپنی فوج اتار کر قبضہ کرلیا جس میں 90 فیصد آبادی مسلمان تھی اوراسے ہر
> حال میں پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا بلکہ ریاست جونا گڑھ اور حیدر
> آباددکن میں بھی بھارتی فوجوں نے قبضہ کرکے ناانصافی اور بددیانتی کی
> مثال قائم کردیحالانکہ ریاست جونا گڑھ اور حید ر آباد دکن کے مہاراجوں نے
> ( جو الحمداﷲ مسلمانتھے ) باقاعدہ پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان بھی
> کردیا تھا چونکہ 1947ء میںپاکستان کے پاس نہ تو کوئی وسائل تھے اور نہ ہی
> اس کی ابھی فوج ہی معرضِ وجود میںآئی تھی بلکہ فوج کی وہ یونٹیں جن میں
> مسلمان تعدادمیں زیادہ تھے دانستہ ان کوبھارت کے دور دراز علاقوں میں روک
> لیا گیا تاکہ ہجرت کے وقت وہ اپنے مسلمان بھائیوںکو بے رحم اور درندہ صفت
> سکھوں اور ہندؤں سے نہ بچا سکیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کیتاریخ میں پہلی
> مرتبہ اتنی بڑی ہجرت ہوئی جس میں۱۱؍ لاکھ سے زائد مرد عورتیں
>
> اور معصوم بےگناہ بچے نہایت درندگی کامظاہرہ کرتے ہوئے شہید کردیئے گئے
> ۔وادیٔ کشمیر میں کشمیریمجاہدین نے غیور قبائلیوں کے اشتراک سے بھارتی
> فوج کا راستہ روکنا چاہا لیکن آدھےسے بھی کم حصہ وہ بھارتی فوج سے چھین
> سکے جو آج آزاد کشمیر کی شکل میں ہمارے پاسموجود ہے ۔اس وقت بھی جب
> مجاہدین سری نگر اور جموں پر قبضہ کرنے والے تھے تو بھارتخود واویلا کرتا
> ہوا اقوام متحدہ جا پہنچا اور امریکہ اور روس کی حمایت سے جنگ بندیکی
> قرار داد پاس کروانے میں یہ کہتے ہوئے کامیاب ہوگیا کہ بھارت بہت جلد
> کشمیر میںاستصواب رائے کروائے گا ۔کشمیر ی عوام پاکستان اور بھارت میں سے
> جس کے ساتھ رہناپسند کریں گے ان کے فیصلے کااحترام کیاجائے گا اقوام
> متحدہ کی قرار داد کے بعد جنگبند ی تو ہوگئی لیکن بھارت وادی کشمیر میں
> استصواب رائے کروانے کا وعدہ بھی دانستہبھول گیا بلکہ کشمیر میں بھارتی
> فوج کی وسیع پیمانے پر مزید آمد اور فوجی چھاؤنیوںکو تعمیر کرکے کشمیر پر
> نہ صرف اپنا قبضہ مضبوط کرلیا بلکہ اسے اپنا اٹوٹ انگ قراردینے لگا ۔
> پاکستان نے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بار بار استصواب رائے کی یاددہانی
> کروائی لیکن روس اور امریکہ جیسی بڑی طاقتیں ہی جب بھارت کی سرپرست بن
> جائیںتو بھارت کشمیر میں کہاں استصواب رائے کروا سکتا تھا ۔چنانچہ کشمیر
> پر بھارتی قبضےکے خلاف کشمیر مجاہدین مسلسل جدوجہد کرتے چلے آرہے تھے
> ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھساتھ بھارت نے آزادی مانگنے والے نہتے کشمیریوں
> پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروعکردیئے جبکہ رائے شماری کی قرار داد پاس
> کرنے والی اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنگئی ۔ یہ دیکھ کر کشمیریوں کے صبر
> کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے 8 اگست 1965ء کو بھارت کے جبر و تشدد
> کے خلاف اعلان بغاوت کردیا ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میںانقلابی کونسل قائم
> ہوگئی ۔ پوری وادی کا درد و کرب “صدائے کشمیر” کیصورت میں انسانیت کے
> ضمیر کو جھنجھوڑنے لگا۔بھارت نے کشمیری مجاہدین کو پاکستانیحملہ آور قرار
> دے کر ان کا قتل عام شروع کردیا ان کے گھر جلنے لگے ان کے بچے ذبحکردیئے
> گئے ۔ وادیٔ کشمیر کی مشک بیز فضا دھوئیں اور انسانی گوشت کی سڑاند
> سےمعمور ہوتی چلی گئی پھر ایک رات بھارت نے اچانک پاکستان کے ایک سرحدی
> گاؤں اعوانشریف پر گولہ باری کرکے کئی نہتے پاکستانیوں کو شہید کردیا۔ اس
> کے بعد بھارتیفوجوں نے آزاد کشمیر پر بھی حملہ کردیا۔ پاکستان نے یکم
> ستمبر 1965ء کو جوابیکاروائی شروع کی ۔پاکستانی فوجیں مقبوضہ کشمیر میں
> بھارتی افواج کے مضبوط ترینقلعوں کو توڑتی ہوئی آگے بڑھنے لگیں پھر 6
> ستمبر کو علی الصبح بھارت نے اعلان جنگکیے بغیر مغربی پاکستان پر زبردست
> حملہ کردیا ۔ اس کے بعد سیالکوٹ میں ٹینکوں کیسب سے بڑی جنگ لڑی گئی ۔
> راجسِتھاں بھی میدان جنگ بنا ۔ فضائی اور بحری فوجیں بھیحرکت میں آگئیں ۔
> پاکستانی افواج نے بھارت کی چھ گنا فوجی طاقت کا حملہ نہ صرفپسپا کردیا
> بلکہ اسے واضح شکست سے بھی ہمکنار کردیا ۔17 روزہ گھمسان کی جنگ کے
> بعدفائر بندی ہوگئی اس وقت تک بھارت کے 130 ہوائی جہاز تباہ ٗ 500 ٹینک
> تباہ اور 7000سے زائد فوجی جہنم واصل ہوچکے تھے جبکہ 800 قیدی بن کر
> پاکستان کی جیلوں میں بندہوچکے تھے ۔ سینکڑوں توپیں ٗ ہزاروں فوجی گاڑیاں
> اور بہت سا دوسرا جنگی سازو سامانغارت ہوچکاتھا جبکہ اس کے مقابلے میں
> پاکستان کا نقصان ایک چوتھائی بھی نہیں تھا ۔پاکستانیافواج نے ان سترہ
> دنوں میں ہماری تاریخ کا روشن ترین باب رقم کردیا۔ یہ جنگ نہ صرفہماری
> تاریخ میں بلکہ دنیا بھر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی ۔ یہ جنگ
> پاکستاناور پاکستانی قوم کے لیے بہت بڑا چیلنج تھی یہ قومی آزمائش کا بہت
> کٹھن مرحلہ تھاپاکستان اور پاکستانی قوم نے اس چیلنج کا جواب جس جواں
> مردی ٗ بہادری ٗ شجاعت اورعزم واستقلال سے دیا اس پر پوری دنیا حیرت زدہ
> رہ گئی لیکن ان دنوں میں وقت لمحہبہ لمحہ اور ساعت بساعت کس طرح گزرا؟
> جنگ روز بروز کیاصورت اختیار کرتی گئیپاکستانی عوام کے جذبات و احساسات
> کی کیفیت کیا رہی ؟ انتظار ٗ اضطراب اور جوش وخروش کی گھڑیاں کس طرح
> گزرتی رہیں ان تمام کیفیات کو الفاظ میں بیا ن کرنا ممکن نہیں۔
>
> اس جنگ میںپاکستانی فضائیہ ٗ بحریہ اور بری فوج نے جو عظیم جنگی کارنامے
> سرانجام دیئے ان کیمختصرتفصیل ذیل میں درج ہے :
>
> پاک فضائیہ کےکارنامے:
>
> بھارتی فضائیہٗ مجموعی طور پر پاک فضائیہ سے پانچ گنا بڑی اور طاقت وَر
> تھی تاہم اس سترہ روزہجنگ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے ایک سو گیارہ جنگی
> جہاز تباہ کیے ۔ 19 جنگی جہازوںکو نقصان پہنچایا ۔ 149 ٹینک تباہ کیے اور
> 56ٹینکوں کو نقصان پہنچایا 62 توپیںتباہ کیں 19 توپوں کو نقصان پہنچایا
> 666 فوجی گاڑیاں تباہ جبکہ بھارت کے سات ہواباز گرفتار کرلیے ۔ اس کے
> برعکس پاکستان کے صرف 14ایف 86 جہاز اور دو بی 57 طیارےتباہ ہوئے ۔ ان
> میں سے بھی دو جہاز اپنی توپوں کی زد میں آکر ضائع ہوئے جبکہ چارتکنیکی
> خرابیوں کی وجہ سے ضائع ہوئے پاک فضائیہ کا صرف ایک ہوا باز اور دو نیو
> یگٹیر دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔
>
> پاکستان بحریہ:
>
> پاکستانی بحریہنے اپنے کسی نقصان کے بغیر بھارت کا ایک جہاز” فرنگیٹ ”
> غرق کیا اورکاٹھیا وار کے ساحل پر دشمن کاایک بحری اور فضائی اڈہ دوارکا
> ( سومناتھ ) تباہ کیا۔ اس اڈہ پر دشمن کاساحلی توپ خانہ ٗ راڈر سٹیشن اور
> ہوائی اڈہ بھی تھا جو مکملطور پر تباہ کردیاگیا اس جگہ پاکستانی بحریہ کی
> توپوں سے دشمن کے تین ہوائی جہازبھی تباہ ہوئے ۔
>
> بَرِّی فوج:
>
> پاکستان کی بریفوج نے کارگل اور ٹٹیوال سے لے کر راجستھان تک دشمن کی کئی
> گنا زیادہ طاقت کانہصرف مقابلہ کیا بلکہ ہر محاذ پردشمن کو پسپاکرکے اس
> کے 1617 مربع میل علاقے پر بھیقبضہ کرلیا ۔ ہر جگہ پاکستانی فوج کو اپنے
> سے کم از کم چھ گنا زیادہ فوج اور جنگیسازو سامان کامقابلہ کرنا پڑا ۔
> ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں بھارتکے سات ہزار سے زائد فوجی
> ہلاک اور آٹھ سو سے زائد گرفتار ہوئے ۔ اس کے 516 ٹینکتباہ کیے گیے اور
> 18 ٹینک ٹھیک حالت میں پاکستانی فوج کے قبضے میں آئے ۔دشمن کابہت سا جنگی
> سازو سامان ٗ گولہ بارود ٗ توپیں ٗمشین گنیں اورہزاروں رائفلیں ٗ
> امریکیاسلحہ کے انبار اور بے شمار فوجی گاڑیاں ہاتھ لگیں ۔ان گاڑیوں میں
> بھارتی جرنیلراجندر پرشادکی ایک جیب بھی شامل تھی جس میں سے بھارت کے
> جنگی منصوبوں سے متعلقدستاویزات بھی موجود تھیں بھارت کا منصوبہ یہ تھا
> کہ وہ 72 گھنٹے میں مغربیپاکستان پر قبضہ کرکے مشرقی پاکستان پر چڑھائی
> کردے گا لیکن 72 گھنٹے کی یہ مدتگزرنے پر بھارت کے جنگ باز وزیر دفاع نے
> انتہائی مایوسی کے عالم میں بھارتی پارلیمنٹمیں بتایا کہ بعض وجوہ کی بنا
> پر لاہور اور قصورکے محاذپر ہماری فوجیں کچھ پیچھےہٹ گئی ہیں اور اس وقت
> پاکستانی توپوں کے گولے فیروز پور شہر کے قریب گر رہے ہیں ۔
>
> 23ستمبر 1965ء کی صبح تین بجے فائر بندی ہوئی اس وقت مختلف سیکٹروںمیں
> دونوں ملکوں کے تسلط میں ایک دوسرے کا جو علاقہ تھا اس کی تفصیل یہ ہے ۔
>
> پاکستان کے زیرقبضہ بھارتی علاقے:
>
> اکھنو ر سیکٹر340 مربع میل
>
> لاہور، سیالکوٹایک مربع میل
>
> کھیم کرنفاضلکا 36 مربع میل
>
> سلیمانکی ٗفاضلکا 40 مربع میل
>
> راجستھان میرپورخاص 1200 مربع میل
>
> کُل : 1617مربع میل علاقہ
>
> بھارت کے زیرقبضہ پاکستانی علاقہ:
>
> کارگل 10 مربعمیل
>
> ٹیٹوال 2 مربعمیل
>
> اوڑی پونچھ 170مربع میل
>
> سیالکوٹ 140مربع میل
>
> لاہور 100 مربعمیل
>
> راجستھان میرپور24 مربع میل
>
> کُل: 446 مربعمیل علاقہ
>
> لکھنے کا مقصدیہہے کہ بھارتی جرنیلوں نے پاکستان پر قبضہ کرنے اور
> لاہورمیں جم خانہ کلب میں شرابکے جام ٹکرانے کا جو سنہرا خواب دیکھا تھا
> پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اسخواب کو نہ صرف اپنے جذبہ حیرت سے پاش
> پاش کردیا بلکہ بھارت کو یہ بات بتا دی کہپاکستان بظاہر اس سے کہیں زیادہ
> چھوٹا اور کم وسائل ملک ہے لیکن پاکستانی عوام اورافواج پاکستان کے جوان
> بھارت سے کہیں زیادہ جذبہ حیریت سے لبریز ہیں وہ دیکھنے میںتو گوشت پوشت
> کے انسان دکھائی دیتے ہیں لیکن جب میدان جنگ میں ڈٹ جاتے ہیں توفولاد سے
> بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں ۔ ؎”ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم +
> رزمِ حق و باطل ہوتوفولادہےمومن”(علامہ ڈاکٹرسر محمداقبالؔ)
>
> جنگِ65عیسوی کے کُچھ رُوحانی پہلو:
>
> اس کے باوجودکہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کو ہوئے 54 سال کا عرصہ گزر چکاہے
> ، جن پاکستانیوں نے یہجنگ شعور کی حالت میں دیکھی یا اس میں خود بھی حصہ
> لیا ان میں سے اکثر اس دنیا سےرخصت ہوچکے ہیں یا رخصت ہونے کے لیے تیار
> بیٹھے ہیں جبکہ موجود نسل کو یہ تو پتہہے کہ پاکستان اور بھارت میں ایک
> جنگ 1965 میں ہوئی تھی لیکن یہ نہیں پتہ کہ اسوقت ہواکیا تھا اور پاک فوج
> اور پاکستانی قوم کس طرح اور کن کن لمحات میں بھارت کیٹڈی دل فوج اور
> عسکری طاقت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی تھیکہ بھارت
> کو لاہور پر قبضے کاشوق چھوڑ کر اپنی سلامتی کی فکر کرنی پڑی ۔ یہ سچ
> ہےکہ جنگیں اسلحے اور فوجوں کی تعداد سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ میدان جنگ
> میں وہی کامیابوکامران ٹھہرتے ہیں جو ایمان کی طاقت ٗخدا پر کامل بھروسہ
> اور اپنے قوت بازو پراعتماد کرتے ہیں ۔کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والا ملک
> پاکستان دنیا کا واحد ملک ہےجس کی فوج کا ہر جوان اور افسر صرف شہادت کا
> خواب لےکر کرفوج میں شامل ہوتا ہے اسجذبے اور ولولے میں نہ پٹھان قوم
> پیچھے ہے نہ پنجابی ٗ نہ سندھی اور نہ ہی بلوچی ۔بلکہ علامہ اقبال کے
> فلسفہ قومیت کی طرح پاکستان کا ہر شہری اپنی شناخت کو بھول کرخود کو ایک
> ذمہ دار اور وطن کی حفاظت کرنے والا پاکستانی ہی تصور کررہا تھا ۔ اگر
> یہکہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس جنگ نے 10 کروڑ پاکستانیوں کو ایک لڑی
> میں پرو دیاتھا یہ سوچے بغیر کہ وہ خودکون ہے اور کہاں کارہنے والا ہے اس
> کے پیش نظر صرف ایک ہیمقصد تھاکہ بھارت کو ہر محاذ پر اور ہر حال میں
> شکست دینی ہے فوج کی وردی پہننےوالے تو فرنٹ لائن پر بھارتی سے دست بدست
> جنگ کررہے تھے لیکن شہریوں کاعالم بھی یہبھی تھا وہ اپنے فوجی بھائیوں کی
> مدد کے لیے ان کے مورچوں تک پہنچ گئے تھے بطورخاص لاہور میں زندہ دلان
> شہری جو ہاتھوں لاٹھیاں لے کر واہگہ سرحد کی جانب چل پڑےتھے کہ فوج کے
> جوانوں نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ جب تک پاک فوج کا ایک بھیجوان
> زندہ ہے بھارت ٗ پا ک سرزمین پر قدم رکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا اس وقت
> تک آپاپنے گھر واپس جائیں اور شہروں کا نظم ونسق سنبھالیں تاکہ دشمن کو
> شہروں میں اپنےچھاتہ بردار اتارنے اور پروپیگنڈہ کرکے شہریوں کو خوفزدہ
> کرنے کاموقع نہ ملے ۔تاریخاس بات کی شاہدہے کہ جتنے دن بھی یہ جنگ جاری
> رہی سرحد پر دشمن کے سامنے برسرپیکارفوجی جوانوں کا ناشتہ لاہور کے شہری
> ہی انہیں پہنچاتے رہے.جب بھارتی جنگی طیارےلاہور کی فضاؤں میں بمباری کے
> لیے نمودار ہوتے تو سرگودھا سے پاک فضائیہ کے شاہینبھی ان کی خاطر مدارت
> کرنے کے لیے پہنچ جاتے پھر لاہور کے شہری خوفزدہ ہوکر مورچوںاور پناہ
> گاہوں میں پناہ لینے کی بجائے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر بھارتی طیاروں
> کےساتھ شاہینوں کے سلوک کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ۔ یہ بات بھی
> تاریخ کا اہمحصہ ہے کہ بھارتی فضائیہ 17 روزہ جنگ کے دوران لاہور کے قریب
> دریائے راوی کے واحدپل کو بھی بمباری کرکے توڑ نہیں سکے ۔ بعداز اں
> بھارتی پائلٹوں نے اپنی مشاہداتیکتابوں میں لکھا کہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم
> نیچے پرواز کرکے راوی کے پل پر بم گراتے ہیںلیکن کوئی بھی بم ٹھیک نشانے
> پر نہیں لگتا اس پل پر سبز لباس والا ایک بزرگ کھڑادکھائی دیتاہے جو پل
> پر گرنے والے بمبوں کو کرکٹ گیند کی طرح کیچ کرکے اپنے بغلیتھیلے میں ڈال
> لیتا ہے وہ بزرگ کون ہے ہم یہ جاننے سے قاصر ہیں ۔(وہ بزرگ حضرتداتا گنج
> علی ہجویری ؒ ہیں جنہیں محافظ لاہور کا خطاب بھی دیا جاتا ہے )،اسی طرحکا
> ایک اور واقعہ حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ( المعروف کرماں والے ) کی کتاب
> میںدرج ہے کتاب کامصنف لکھتاہے کہ 1965 عیسوی کی جنگ سے چار پانچ دن پہلے
> حضرت کرماںوالے بزرگ لاہور کے میوہسپتال میں داخل تھے جہاں ان کا مثانے
> کاآپریشن تھا زخمتازہ ہونے کی بنا پر ڈاکٹروں نے انہیں سفر سے منع
> کررکھاتھا اس لیے وہ واپس اپنےگاؤں جانے کی بجائے لاہور میں ہی اپنے ایک
> مرید ( گلبرگ ) میں عارضی طور پر قیامپذیر تھے کہ تین ستمبر 1965 کی صبح
> آپ ؒ نے حکم دیا کہ وہ واہگہ بارڈ ر پر جانےکاارادہ رکھتے ہیں ان کے جانے
> کا انتظام کیا جائے ۔ قریبی مریدوں نے کہا حضرت صاحبآپ کے زخم تازہ ہیں
> اور ڈاکٹروں نے آپ کو سفر سے منع کررکھا ہے آپ واہگہ بارڈر پرکیاکرنے
> جارہے ہیں مریدوں کی یہ بات سن کر حضرت کرماں والی سرکار ؒ نے فرمایا جس
> باتکا پتہ نہ ہو اس پر اصرار نہیں کرتے آپ کو جو کہا گیاہے اس پر عمل کرو
> ۔چنانچہ کارپر بیٹھ کر ( جبکہ آپ کو پیشاب کے نکاس کی نالیاں بھی لگی
> ہوئی تھیں ) واہگہ بارڈرجا پہنچے وہاں بھارت کی جانب رخ کرکے کچھ دیر
> قرآنی آیات کا ورد کرتے رہے پھر دائیںہاتھ میں مٹی اٹھا کر بھارت کی جانب
> پھینک دی اور واپس گھر آگئے ۔سفر کی وجہ سےزخموں سے خون بہنے لگا تکلیف
> میں حد درجہ اضافہ ہوگیا طبیعت میں بے چینی پہلے کینسبت زیادہ بڑھ گئی
> لیکن چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں تھے ۔ اگلی صبح پھر آپ نےحکم دیا کہ
> گاڑی تیار کرو برکی ہڈیارہ سرحد پر جانا ہے ۔ مریدوں نے پھر آپ کوروکنا
> چاہا لیکن آپ نے اشارہ کرکے سب کو خاموش کردیا اور گاڑی پر برکی ہڈیارہ
> سرحدپر جا پہنچے کچے پکے راستوں پر سفر کرنے کی وجہ سے تکلیف میں پہلے سے
> بھی زیادہ اضافہہوگیا لیکن آپ نے وہاں بھی چند قرآنی آیات کاورد کر کے
> بھارت کی جانب پھونک ماریپھر مٹی کو مٹھی میں لے کر بھارت کی جانب پھینکا
> اور گھر واپس آگئے ۔زخموں میں خونبہنے کی وجہ سے ساری رات سو نہ سکے
> تکلیف اور بھی پریشان کردیا لیکن اگلی صبح پھرآپ نے حکم دیا کہ گاڑی تیار
> کریں مریدوں نے پوچھا آج کہا ں جانے کاارادہ ہے آپ ؒنے فرمایا آج گنڈا
> سنگھ قصور کی سرحد پر جانے کاحکم ملا ہے ۔چنانچہ آپ لاہور سے 65کلومیٹر
> دور گنڈا سنگھ بارڈر پرجا پہنچے اور وہی عمل دھرائے جو اس سے پہلے
> واہگہاور برکی کے مقام پر ہو چکے تھے ۔جب آپ تھکے ماندے اور زخموں سے چور
> واپس لاہورپہنچے تو سجدے میں گر کر آپ اس قدر زارو قطار روئے کہ مریدوں
> کی بھی چیخیں نکل گئیںآپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے:
>
> “اے ﷲ ٗ نبی کریم ﷺ نے پاکستان کی سرحدیں محفوظ کرنے کی مجھےجو ذمہ داری
> سونپی تھی وہ میں نے پوری کردی ہے اب تو ہی پاکستان کوہر قسم کی
> جارحیتاور پریشانی سے محفوظ رکھ ۔”
>
> خدا کی قدرت کہ5 ؍ ستمبر کی رات حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری المعروف کرماں
> والے گنڈا سنگھ بارڈرپر قرآنی آیات پڑھ کر واپس لوٹے تھے کہ 6 ستمبر کی
> صبح انہی مقامات پر بھارت نے ٹینکٗ توپوں سے مسلح ایک ڈویژن فوج سے
> زبردست حملہ کردیا اس وقت یہ تینوں مقامات بالکلخالی تھی پاک فوج کشمیر
> میں برسرپیکار تھی پاک فوج کی صرف ایک کمپنی میجر شفقتبلوچ کی کمانڈ میں
> برکی ہڈیارہ سیکٹر پر ابھی رات کے پچھلے پہر آکر ٹھہری تھی کہچند گھنٹے
> بعدہی اسے بھارتی یلغا ر کا سامنا کرنا پڑا ۔میجر شفقت بلوچ نے مجھے
> خودبتایاکہ بھارتی ٹینک اور فوج ہڈیارہ ڈرین کے دوسرے کنارے پر صرف 200
> فٹ دور رہ گئیتھی وہ ہڈیارہ ڈرین کے بند پر کھڑے مجھے واضح طور پر دیکھ
> رہے تھے جبکہ میں بھارتیٹینکوں میں بیٹھے ہوئے بھارتی فوجیوں کو دیکھ رہا
> تھا لیکن قدرت کا کرم ایساہوا کہانہوں نے مجھ پر جتنی بھی گولیاں چلائیں
> ان میں سے صرف ایک گولی میرے بازو کو چھوتیہوئی گزرگئی جس سے ایک خراش
> لگی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بھارتی فوجی مجھے دیکھنےکے باوجودان کی
> بندوقوں سے نکلنے والی گولیوں کارخ کوئی غیبی طاقت موڑ دیتی تھی
> ۔میجرشفقت نے بتایا کہ اگر میں ہڈیارہ بند کے نیچے اتر آتا تو بھارتی
> ٹینکوں اور فوج ہمیںروندتے ہوئے چند گھنٹوں میں لاہور فتح کرچکے ہوتے ۔جب
> بھارتی ٹینک بہت قریب آگئےتومیں نے ان پر ٹینک شکن توپ کو فائر کرنے کا
> حکم دیا بھارتی اتنے قریب پہنچ چکےتھے کہ میری آواز کو بھی سن رہے تھے
> لیکن چند ہی لمحوں بعد ہماری ٹینک شکن توپ کےگولوں نے ٹینکوں کو تباہ
> کرکے بھارتی فوج کی پیش قدمی روک دی ۔ہمارے پاس چونکہاسلحہ نہ ہونے کے
> برابر تھا اس لیے ہم بھارت کی فائرنگ کے جواب میں صرف چند فائر ہیکرتے
> تاکہ انہیں احساس ہو کہ پاک فوج ہڈیارہ ڈرین کے اس پار موجود ہے ۔ میجر
> شفقتبلوچ نے مجھے بھارتی جرنیلوں کی چند کتابیں بھی دکھائیں جس میں انہوں
> نے لکھا تھاکہ واہگہ سرحد عبور کرنے کے بعد ہم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ
> وہ کونسی فولادی دیوارہےجو بھارتی فوج کو پیش قدمی نہیں کرنے دے رہی اور
> دس گھنٹے تک کئی بھارتی بریگیڈ کوروکے رکھا ۔ دنیا کی تاریخ میں یہ
> ریکارڈآج تک ناقابل تسخیرہے کہ صرف ایک کمپنی جسمیں صرف 110 جوان ہوتے
> ہیں اس نے پورے بریگیڈ کونہ صرف دس گھنٹے تک روکے رکھابلکہاسے تباہ بھی
> کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فولادی طاقت اس روحانی طاقت کی تھی جسنے
> حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کو سرحدیں محفوظ کرنے کے لیے بیماری کی حالت
> میںبھی بھارتی سرحد پر بھیجا تھا اور ان کے ہاتھوں سے نکلی ہوئی وہ مٹی
> تھی جو بھارتیفوجیوں کی آنکھوں کو اندھا کرگئی کہ وہ 200 فٹ دور ہڈیارہ
> ڈرین بند پر کھڑے ہوئےپاکستانی فوج کے میجر شفقت بلوچ کا نشانہ نہ لے سکے
> ۔اسی جنگ میں بی آر بی کا دفاعکرتے ہوئے میجر عزیز بھٹی شہید نے بھی جام
> شہادت نوش کیا جس کے صلے میں انہیںپاکستان کی عسکری تاریخ کا دوسرا نشان
> حیدر بعدازشہادت عطاکیا گیا ۔ یاد رہے کہ بیآربی نہر دفاع لاہور اور دفاع
> پاکستان کا وہ آخری دفاعی لائن تھی جس کے بعد لاہورشہر پر بھارتی قبضے کو
> روکنا تقریبا ناممکن تھا اس عظیم جنگی معرکے میں میجر عزیزبھٹی شہید ٗ
> میجر حبیب شہید کے علاوہ پاک فوج کے سینکڑوں افسروں اور جوانوں نےاپنے
> لہو سے ایسی لکیر کھینچ دی جس کو تمام تر کوشش اور اسلحی برتری کے
> باوجودبھارتی فوج عبور نہ کرسکی ۔آج بھی بی آربی کے کنارے بنی ہوئی وہ
> یادگار اپنے شہیدوںکے عظیم جنگی کارناموں کی داستان سناتی ہے ۔بی آر بی
> کو اگر شہیدوں کی نہر کہاجائےتو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کا پانی شہیدوں کے
> لہو سے سرخ ہوچکا تھا اور اس لہو کیسرخی تاقیامت پاکستان کی حفاظت کرتی
> رہے گی ۔
>
> قرآن پاک میںسورہ الانفال میں، ﷲ کریم فرماتا ہے،اُردو(مفہوم)ترجمہ: ” اے
> میرے حبیب جنگبدر میں جب آپ نے اپنی مُٹھِّی میں کنکر بھر کر دشمنوں کی
> طرف پھینکے تھے وہ مٹھیآپ کی نہیں آپ کے رب عظیم کی تھی ۔” سوچنے والی
> بات ہے ، پھر اس کے آگے دنیاکی کون سی طاقت رک سکتی ہے ؟
>
> ایک اور واقعہعمار صدیقی کی کتاب “مجاہدین صف شکن” میں درج ہے ۔ یہ ایک
> ایسے شخص کاخط ہے جو مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ پر حاضر تھا جس روز
> لاہور پر بھارت کا حملہہوا ، اُسی رات مدینہ منورہ کے کئی افراد نے ایک
> ہی خواب دیکھا کہ روضۂ اقدس سےحضرت محمد ﷺ بہت عجلت میں ایک بہت خوبصورت
> تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوکر ”بابِاسلام” میں تشریف لے گئے ۔ صحابہ
> کرام نے عرض کی:” یا رسول ﷺ اس قدر جلد ، گھوڑےپر ،کہا ں تشریف لے جارہے
> ہیں؟” فرمایا :”پاک سِتاں!” میں جہاد کے لیے ٗ پھر یکدم برق کی مانند
> روانہ ہوگئے آپ ﷺ کے پیچھےمواجہ شریف سے ہی پانچ حضرات اسی راستے ”پرواز
> کرتے” ہوئے نکل گئے ۔ یہ اس باتکا ثبوت ہے کہ یہ جنگ صرف پاکستانی فوج
> یا قوم نے نہیں لڑی بلکہ حضور ﷺ سمیت صحابہکرام بھی اس جنگ میں کفار کے
> خلاف صف آراء تھے انہوں اﷲ تعالی کے حکم سے فرشتوں کیتائید خداوندی بھی
> حاصل تھی ۔ جن لوگوں نے اپنی ہوش میں یہ جنگ دیکھی ہے ان کو یقینایہ بات
> یاد ہوگی کہ عین جنگ کے دوران آسمان پر ایک مکمل تلوار نموار ہوئی تھی
> جسکا رخ بھارت کی جانب تھا اور پکڑنے والے ہتھی پاکستان کی جانب تھی ۔
>
> جنگِ1965عیسوی کےخارجی پہلو:
>
> یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ذوالفقارعلیبھٹو جو اس وقت پاکستان
> کے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے تاشقند معاہدےکے خلاف
> پاکستان واپس آکر اس قدر واویلا کیا جیسے جنرل محمدایوب خان تاشقند
> میںپاکستان کا سودا کرآئے ہیں اور یہ شوشہ چھوڑ کر نوجوانوں کو اس عظیم
> شخص کے خلافکھڑا کردیا جس نے میدان جنگ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی نہ
> صرف جنگ جیتی تھیبلکہ ہر محاذ پر بھارت کو منہ توڑ جواب بھی دیا تھا ۔اگر
> بھٹو کے اس شوشے کی حقیقتجاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہوگا ۔
>
> بھارت کمانڈرانچیف بی ایم کول اپنے کتاب “کہی ان کہی ” میں لکھتے ہیں کہ
> میری بیوینے مجھے سویرے جگا کر بتایا کہ اسے تھوڑی دیر پہلے معلوم ہوا کہ
> وزیر اعظم شاستریکا تاشقند میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا ۔
> شاشتری کی موت یقینا اس ذہنیدباؤ کا نتیجہ تھی جو مذاکرات کے میز پر
> انہیں جنرل محمد ایوب کے سامنے بیٹھ کرکرنا پڑا تھا ۔ شاستری کی موت
> کاذکر کرتے ہوئے جے بی کرپلانی نے لوک سبھا میں کہامیرا خیال ہے تاشقند
> میں جو دباؤ ڈالا گیا تھا اس کی وجہ سے شاستری کے دل و دماغ میںایک کشمکش
> پیدا ہوگئی ہوگی جس کے نتیجے میں وہ اپنے عوام سے کیا ہوا یہ وعدہ
> بھولگئے کہ یقین دہانی کے بغیر فوج پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ شاستری نے اس
> ذہنی کشمکش سےنجات حاصل کرنے کے لیے اعلان تاشقند پر دستخط کردیئے ۔
>
> یہ حالات ثابتکرتے ہیں کہ 1965 میں اگر پاکستانی قیادت ذمہ دار
> اور جرات مند نہ ہوتی تو بھارتکب کا پاکستان کو ہڑپ کرچکا ہوتا ۔ 1965ء
> کی پاک بھارت جنگ میں کامیابی کا سب تمامانحصار جنرل محمدایوب خان کو
> جاتا ہے جن کے ایک ایک لفظ میں پاکستانی قوم اورافواج پاکستان کے بجلی
> بھری پڑی تھی ۔اس عظیم جنگی معرکے کا کریڈٹ افواج پاکستانکے ہر اس افسر
> اور جوان کو جاتا ہے جس نے مشکل ترین حالات میں بھی موت کے خوف سےبالاتر
> ہوکر بھارتی فوج کے پرخچے اڑا دیئے ۔چونڈہ سیالکوٹ کے محاذ پر ہونے والی
> دنیاکی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ ٗ ( جس میں بھارت نے 600 ٹینک سے حملہ
> کیا تھا ) کاتذکرہ کیے بغیر پاکستان کی عسکری تاریخ نامکمل ہے یہ ایسی
> جنگ تھی جس میں ایک لمحےکی ناکامی بھی پاکستان کی واضح شکست میں تبدیل
> کرسکتی تھی لیکن شواہد کے مطابقاپنے جسموں سے بم باندھ کر جس طرح پاک فوج
> کے افسروں اور جوانوں نے نیچے لیٹ کر ٹینکوںکے کچھ اس طرح پرخچے اڑ ا
> دیئے کہ بھارتی فوج اپنے حواس کھو بیٹھی اور ذہنی طور پراپنی شکست تسلیم
> کرلی ۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے تین اہم ترین عسکری
> ریکارڈقائم ہوئے جن کا تذکرہ دنیا کی جنگی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے شامل
> ہوچکا ہے ان میںایک ریکارڈ یہ ہے کہ لاہورہڈیارہ سیکٹر پر بھارتی فوج کے
> ایک بریگیڈ کو پاک فوج کیایک کمپنی نے میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں دس
> گھنٹے تک نہ صرف روکے رکھا بلکہ پورےبریگیڈ کو تباہ کردیا ۔دوسر ا عالمی
> ریکارڈ ائیر کموڈور ایم ایم عالم کا ہے جنہوںنے صرف چند منٹوں میں بھارت
> کے پانچ جنگی طیارے گرا کر بھارتی فضائیہ کی کمر توڑکر رکھ دی ۔ 1965ء
> جنگ کی یہ خاص بات ہے کہ بھارت کی بری فوج میدان جنگ میں واضحشکست سے
> ہمکنار ہوئی ٗ بھارتی فضائیہ کو جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی راکھ کا
> ڈھیربنا کر رکھ دیاگیا جبکہ حجم کے اعتبار سے بھارتی بحریہ طاقتور ہونے
> کے باوجودپاکستانی بحریہ کے ہاتھوں پے درپے شکست سے ہمکنار ہوتی رہی ۔اس
> جنگ کے حوالے سےممتاز شاعر اور ادیب جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک
> خوبصورت اور برمحل نظم ذیلمیں درج ہے جو جنگ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ
> کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔
>
> جنگِ6؍ستمبر65عیسویاور اُردو ادب سے ایک انتخاب:
>
> نظم: ”چھ ستمبر”
>
> شاعر:احمد ندیمقاسمی
>
> چاند اس رات بھینکلا تھا مگر اس کا وجود اتنا خوں رنگ تھا جیسے
> کسی معصوم کی لاش
>
> تارے اس رات بھیچمکے تھے مگر اس ڈھب سے جیسے کٹ جائے کوئی جسم حسین
> قاش بہ قاش
>
> اتنی بے چین تھیاس رات مہک پھولوں کی جیسے ماں جس کو ہو
> کھوئے ہوئے بچے کی تلاش
>
> پیڑ چیخ اٹھےتھے امواج ہوا کی زد میں نوکِ شمشیر
> کی مانند تھی جھونکوں کی تراش
>
> اتنے بیدارزمانے میں یہ سازش بھری رات میری تاریخ کے
> سینے میں اتر آئی تھی
>
> اپنی سنگینوں میںرات کی سفاک سپاہ دُودھ پیتے ہوئےبچوں
> کو پرو لائی تھی
>
> گھر کے آنگن میںرواں خون تھا گھر والوں کا اور ہر کھیت پہ شعلوں
> کیگھٹا چھائی تھی
>
> راستے بند تھےلاشوں سے پٹی گلیوں میں بِھیڑ سی بِھیڑ
> تھی تنہائیسی تنہائی تھی
>
> تب کراں تا بہکراں صبح کی آہٹ گونجی آفتاب ایک دھماکے سے
> افقپر آیا
>
> اب نہ وہ رات کیہیت تھی نہ ظلمت کا طلسم پرچمِنور یہاں اور وہاں
> لہرایا
>
> جتنی کرنیں بھیاندھیرے میں اتر کر اُبھریں نوک پر رات کا دامانِ
> دریدہپایا
>
> میری تاریخ کاوہ باب منور ہے یہ دن جس نے اک قوم کو خود
> اس کاپتا بتلایا
>
> آخری بار اندھیرےکے پجاری سن لیں میں سَحر ہوں میںاجالا
> ہوں حقیقت ہوں میں
>
> میں محبت کا تودیتا ہوں محبت سے جواب لیکناعدا کے لئے قہرہ قیامت ہوں
> میں
>
> امن میں موجۂنکہت مرا کر وارِ سہی جنگ کے دور میں غیرت
> ہوںحمی ہوں میں
>
> میرا دشمن مجھےللکار کے جائے گا کہاں؟ خاککا طیش ہوں افلاک کی دہشت
> ہوں میں
>
> تحقیق و تحریر:پروفیسرمجیب ظفرانوارحمیدی
>

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles

Ads Blocker Image Powered by Code Help Pro

Ads Blocker Detected!!!

We have detected that you are using extensions to block ads. Please support us by disabling these ads blocker.