نام : حمیرا تبسم
شہر : بہاولپور ۔۔۔ملک۔۔۔پاکستان
عنوان : ماں
اسکا دل تھا کہ درد کی اونچی مسند پہ تھا۔لب تھر تھرا رہے تھے۔آنکھوں میں
ویرانی کا یہ عالم تھا کہ وحشت ٹپک رہی تھی وہ صدمے کی حالت میں بیڈ کنارے
ساکت بیٹھی یوں لگ رہی تھی جیسے جان کنی کا عالم ہو اور جسم پہ سکتہ چھایا
ہو۔وہ لٹے ہوئے مسافر کی مانند بے سروسامان کرب کی حالت میں خاموشی کا لبادہ
اوڑھے بیٹھی تھی۔ خوف سے بھرپور سناٹا تھا کہ چاروں جانب رقصاں تھا۔۔۔سانس
یوں آتیں جیسے ہچکی بندھ گئی ہو۔۔۔ نوحہ کناں آنکھوں پہ سجیں پلکوں کی باڑ
توڑے ماتم کرتے گرم و سیال آنسو اسکے گالوں پہ یوں مسلسل بہہ رہے تھے کہ کاجل
کی لکیریں سی بن گئیں تھیں۔۔۔وہ تہی دامان ہو چکی تھی ٹھنڈی چھاؤں سے پل بھر
میں ہی سلگتی ہوئ روح میں چھید کرتی ریت پہ پھینک دی گئی تھی۔جہاں نہ تو کوئ
اپنا تھا نہ ہی کوئ پرایا۔۔۔۔
ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے جنونی انداز میں پکارا تو بچے سہم گئے۔۔۔لیکن وہ ہوش و خرد
سے بے گانہ دیوانی بنی ماں۔۔ماں پکارے گئی لہجے سے درد ٹپک رہا تھا جبکہ
رونے کے سبب آنکھیں لہو رنگ ہو رہی تھیں ۔۔اس نے موبائل اٹھا کہ زوردار انداز
میں دیوار سے دے مارا اور بچوں کو دیوانہ وار سینے سے لگائے سسک سسک کے رونے
لگی۔۔۔۔۔۔
تمہاری نانی جان اب اس دنیا میں نہیں رہی۔۔وہ تو کہتیں تھیں میں اک پل آپ سب
سے دور ہونے کا سوچ نہیں سکتی پھر وہ یوں مکر کیسے سکتی ہیں ۔۔یوں مجھے چھوڑ
کیسے سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔
کومل نے صدمے کی انتہا گہرائیوں کی زد میں آتے ہی بے اختیار بچوں کو بھی دونوں
ہاتھوں سے جھنجوڑ ڈالا۔ماں کی غیر ہوتی حالت دیکھ کے معصوم تین سالہ عریشہ اور
چھ سالہ ارحم بھی رونے لگے۔۔۔آج سے پہلے انہوں نے ماں کو ہمیشہ ہنستا دیکھا
تھا پہلی بار روتا دیکھا تو گھبرا گئے۔۔۔
چند لمحے پہلے وہ کتنی خوش تھی۔۔بچوں کو ہوم ورک کروا رہی تھی کہ مسلسل موبائل
پہ ہونیوالی کالنگ بیل نے اسے متوجہ کیا ،وہ بچوں کو سبق سمجاتے ہوئے قالین سے
اٹھ کے بیڈ تک آئی تھی اور جیسے ہی موبائل اٹھایا سکرین پہ دکھائ دینے والے
نمبر کو دیکھ کر وہ زیرلب مسکرا اٹھی تھی۔
امی جان کالنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نام مسلسل سکرین پہ دکھائی دے رہا تھا۔۔
یہ امی جان بھی ناں مجھ سے ایک پل دور نہیں رہ سکتیں۔۔ممتا کی انتہا ہے۔۔کومل
نے پیار سے سوچا
اور مسکراتے ہوئے فون کان سے لگالیا، مقابل کی بات سنے بنا کی بولنا شروع ہو
گئی ۔۔۔۔
مجھے معلوم ہے امی۔۔آپ نے کس لیے کال کی۔۔۔لیں آپکا تجسس ختم کیے دیتی ہوں تو
سنیں۔۔بچوں کو گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئ ہیں میں اس بار پورے ماہ کے لیے اپنی
پیاری امی جان کے پاس رہنے آ رہی ہوں۔۔اور حارث نے بھی اجازت دے دی ہے۔۔۔۔وہ
بولنے پہ آئی تو بولتی ہی چلی گئی ۔۔۔۔۔
لیکن دوسری جانب سے آنیوالی سسکیوں کی آواز پہ دہل سی گئی اور کچھ انہونی کا
احساس اسکے دل میں گڑھ سا گیا۔۔۔۔
امی۔۔۔۔۔اس نے موبائل کو کان سے مزید چپکایا۔۔۔اور ڈرتے ڈرتے گویا ہوئی
کومل میری پیاری گڑیا۔۔۔۔۔دوسری جانب سے سنائی دی جانیوالی آواز وہ سیکنڈ کے
ہزارویں حصے میں بھی پہچان سکتی تھی۔۔۔وہ اسکا چھوٹا بھائی فراز تھا جسکا
لہجہ غم میں ڈوبا ہونے کی وجہ سے بھیگا سا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
امی اس دنیا میں نہیں رہیں۔۔۔۔فراز نے روتے ہوئے بات مکمل کی اور فون کاٹ
دیا۔۔۔جبکہ کومل کے مسکراتے لب پتھر ہوگئے اور وہ لڑ کھڑاتے ہوئے بیڈ کنارے ٹک
گئ۔۔۔۔۔۔۔جب ماں بچھڑ جائے تو باقی کچھ بھی نہیں رہتا سب قہقہے کھوکھلے دیمک
زدہ لگتے ہیں۔۔اور تنہائی صحیح معنوں میں سمجھ آتی ہے۔۔۔
وہ بکھرا حلیہ لیے اداسی کی ایسی تصویر لگ رہی تھی جس میں مصور مسرت کے رنگ
بھرنا بھول گیا ہو۔۔ ماں کی یاد نے تڑپایا تو پھر سے بلک اٹھی ۔۔۔آنکھ سے بہتے
آنسوؤں کے ہر قطرے سے اسکا پچھتاوا جھانکنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماضی دستک
دینے لگا۔۔۔۔۔ماں کی محبت خوشبو کی طرح وجود کو معطر کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
——————————————————–
دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کے ناطے وہ بہت لاڈلی تھی۔۔۔۔۔اور امی جان کے
تو دل میں بستی تھی۔۔۔
امی جان۔۔آپ کومل سے زیادہ پیار کیوں کرتی ہیں۔۔ہم آپکے سگے بیٹے نہیں ہیں
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟
ایاز اور فراز منہ پھلائے امی جان کو کہتے تو کومل اور بھی زیادہ انہیں چڑاتی
اور امی کے کندھوں کے گرد بانہوں کا گھیرا مزید تنگ کردیتی
ایسا نہیں کہتے ۔۔۔تم دونوں کی اکلوتی بہن ہے یہ۔۔اور گھر میں رونق تو بیٹیوں
کے دم سے ہی ہوتی ہے جو ہر دم چہکتی ہیں۔۔۔لیکن ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب انکو
دورجانا پڑتا ہے۔۔۔اس لیے انکے ساتھ جتنا وقت گزارو محبت سے رہو۔۔اور ہاں بہن
کو ڈانٹا مت کرو۔۔۔امی جان انکو پیار سے سمجھاتیں اور آنکھوں میں در آئی نمی
کو دوپٹے کے پلو سے صاف کرتیں۔۔۔وہ دونوں بھی اداس ہوجاتے اور انکا شکوہ پل
میں محبت میں بدل جاتا۔۔۔
تم دونوں بھی میرے شہزادے ہو۔۔۔۔میرے لعل۔۔۔ادھر آؤ میرے پاس۔۔۔۔۔
وہ ماں تھیں بیٹوں کے چہرے پہ اداسی دیکھتے ہی انہیں سینے سے لگاتیں اور بے
شمار دعائیں دیتیں۔۔دم کرکے ان پہ پھونکتیں۔۔۔۔
ایاز کی تعلیم مکمل ہوئی تو وہ نوکری کے سلسلے میں دوسرے شہر چلا گیا۔۔۔۔۔۔
امی جان کھانا بناتے ہوئے بھی توجہ موبائل کی جانب مبذول رکھتیں۔۔۔۔کہیں بیٹے
کا فون نہ آجائے۔۔۔اگر ایاز فون نہ کر پاتا تو بہت ہی بے چین ہو جاتیں۔۔
اللہ خیر کرے آج تمہارے بھائی کا فون نہیں آیا۔۔طبعیت تو ٹھیک ہوگی نہ
اسکی۔۔۔۔امی جان روٹی بھی پکاتے ہوئے مسلسل بولے جاتیں۔۔۔
امی جان آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں بھائی بچہ تھوڑی ہے۔۔۔کام میں مصروف ہوگا۔۔
کومل انہیں تسلی دیتی تو وہ بجائے مطمئن ہونے کے بے قرار ہو جاتیں۔۔
اولاد جتنی بھی سمجھدار اور بڑی کیوں نہ ہو جائے ماں کے لیے چھوٹی ہی رہتی
ہے۔۔۔ممتا کبھی کم نہیں ہوتی۔۔۔وہ کھوئے کھوئے لہجے میں کہتیں تو کومل نہ
سمجھی سے کندھے اچکاتی۔۔۔۔
رات کے دس بج گئے تمہارا بھائی فراز ابھی تک گھر نہیں لوٹا۔۔۔۔۔ایسا نہ ہو وہ
گھر آئے دروزہ پیٹتا رہے اور ہم سوئے رہیں۔۔
امی جان کی آنکھوں میں میں نیند ہلکورے لے رہی تھی لیکن وہ چہرے پہ ٹھنڈے پانی
کے چھینٹے مارتے ہوئے نیند بھگانے میں مصروف تھیں۔۔۔
امی آپ سو جائیں۔۔میں کھول لونگی دروازہ۔کومل تسلی دیتی۔
کیا معلوم تم سو جاؤ اور میرا بیٹا دروازہ بجاتا رہے۔۔میں خود ہی کھولونگی
دروازہ۔۔۔ایک تو موبائل میں بیلنس نہیں ہے ورنہ فون ہی کر لیتی۔۔
کومل مزید بحث کا ارادہ ترک کیے سکون سے بستر میں گھس جاتی ۔۔۔وہ جانتی تھی
امی جان جو کہتی ہیں وہی کرتی ہیں۔وہ ساری رات نہ بھی آیا تو صبح صادق تک
جاگتی رہیں گی۔۔۔۔
تمہیں امی ابو کی یاد نہیں آتی۔۔۔۔مدرسے میں کیسے رہ لیتے ہو۔۔۔امی جان نے
مدرسے کی جانب سے آئے دس سالہ بچے کو روٹی اور سالن دیتے ہوئے پیار سے پوچھا
تھا۔۔۔۔بچے کے چہرے پہ زردی چھا گئی تھی چنگیر میں روٹی رکھتا اسکا ہاتھ پل
بھر کے لیے رکا تھا۔۔
میری ماں نہیں ہے۔۔۔وہ سر جھکائے گلوگیر لہجے میں بمشکل بولا تو امی جان نے
جھٹ سے اسے سینے سے لگا لیا اور ماتھے پہ بوسہ دیتے ہوئے پیار سے اسکی آنکھوں
میں جھانکا۔۔
میں ہوں ناں تمہاری ماں۔۔آج سے مجھے ماں کہنا۔
کومل بھی یہ منظر دیکھ رہی تھی اسکی آنکھیں نم ہوئیں اور دل ورطہ حیرت میں
مبتلا ہو گیا تھا۔۔اسکی امی عظیم تھی یا ساری مائیں اسی طرح عظیم ہوتی
ہیں۔۔۔اس نے دل کی گہرائی سے سوچا تھا۔
پھر امی جان نے واقعی مدرسے والے بچے کا واقعی خیال رکھا۔۔اسے کپڑے لے کہ
دیتیں۔کبھی مزے کا کھانا بنا کہ کھلاتی۔۔انکا چہرہ محبت و شفقت سے پرنور رہتا۔
ہر وقت زکر الہی میں مصروف رہتیں۔۔
ایاز کی شادی کے بعد کومل کی بھی شادی ہو گئی ۔۔تب امی جان بہت افسردہ
تھیں۔۔ایک بیٹی ہو وہ بھی دور چلی جائے تو ماں کا دل بند ہونے لگتا ہے،لیکن
ازل سے ایسا ہوتا آیا ہے بیٹی کو ایک دن میکے کو الوداع کہنا ہی پڑتا ہے۔۔کومل
بھی رخصت ہوگئی ۔۔اور شادی کے بعد اتنی مصروف ہوگئی کہ امی کے ہاں جانا کم کر
دیا۔۔امی ہر دوسرے دن فون کرتیں لیکن وہ کام میں مصروفیت کی بنا پہ سن نہ
پاتی۔۔
کچھ دیر بعد کال کرونگی۔۔کومل امی کی مسڈ کالز دیکھ کے پھر سے مصروف ہوجاتی
اور کال کرنی تھی یہ بات زہن سے ہی نکل جاتی۔۔۔
ارحم چار سال کا تھا جبکہ عریشہ ایک سال کی تب ہی وہ فراز کی شادی میں شرکت
کرنے میکے گئی تھی۔۔۔جبکہ حارث کو آفس سے چھٹی ہی نہ مل سکی کہ وہ بھی ساتھ
آتا۔۔۔
امی تو واری صدقے جا رہی تھیں وہ پہلے سے کافی کمزور ہوچکی تھیں لیکن بیٹی کو
دیکھتے ہی وجود میں بجلی سی بھر گئ تھی۔۔اپنے ہاتھوں سے کھانا بناتیں۔۔کومل کے
ساتھ اسکے کمرے میں ہی سوتیں۔۔اور خوب باتیں کرتیں۔۔
وہ ہفتہ بھر رہنے کے بعد سامان پیک کر رہی تھی کہ امی جان کمرے میں آ گئیں۔۔
بیٹا۔۔کچھ دن اور ٹھہر جاؤ ناں۔۔ابھی تمہیں جی بھر کے دیکھا کب ہے۔۔۔ممتاکی
دو اداس آنکھوں نے کومل کی آنکھوں میں جھانکا تھا
امی جان مزید رک جاتی اگر حارث وہاں اکیلے پریشان نہ ہوتے تو۔۔ ویسے بھی ہوٹل
کا کھانا کھا کھا کہ وہ تھک گئے ہیں۔۔ اس لیے حکم صادر کیا ہے کہ جلد گھر آؤ
۔۔۔
کومل نے بیگ کی زپ بند کرتے ہی مصروف سے انداز میں جواب دیا۔۔
ٹھیک ہے بس میری بیٹی خوش رہے۔۔امی جان کے لب اداسی سے مسکرائے تھے
اور ہاں میں نے تمہارے لیے دیسی گھی اور کچھ خشک میوہ جات رکھے ہیں وہ بھی
لیتی جانا۔۔کچھ بچوں کے لیے کھلونے ہیں اور حارث بیٹے کے لیے سوٹ ہے۔۔وہ جاتے
جاتے مڑ کے بولیں تو کومل نے آگے بڑھتے ہی انکو گلے سے لگا لیا۔۔
میری پیاری امی جان آپ سب کا کتنا خیال رکھتی ہیں ناں۔۔آپ مثالی امی جان
ہیں۔۔۔اور وہ پیار سے کومل کے سر پہ چپت لگاتے ہوئے باہر نکل گئیں تھیں۔۔
امی سے ملے ہوئے دو سال گزر چکے تھے۔۔امی جب بھی فون کرتیں ایک ہی شکوہ انکے
لبوں پہ مچلتا
بیٹا کب آؤ گی جب میری آنکھیں بند ہو جائیں گی۔۔
کومل کا دل مٹھی میں آ جاتا
اللہ نہ کرے امی جان کہ آپکو کچھ ہو۔۔بس بچوں کی وجہ سے کچھ مصروف ہوں جب بھی
آنے کا سوچتی ہوں یا تو بچے بیمار ہوجاتے ہیں یا پھر گھر کے کام نکل آتے
ہیں۔۔۔۔وہ وضاحت پیش کرتی۔۔۔۔۔اور وقت یونہی گزر گیا۔۔۔وقت کبھی رحم نہیں
کرتا۔۔اسکا کام چلتے رہنا ہے۔۔۔انسان بس سوچتا ہی رہ جاتا ہے اور وقت کر
دکھاتا ہے۔۔۔۔۔گزرتا وقت امی جان کو بھی ساتھ لے گیا۔
—————————————————–
پورے گھر میں صف ماتم بچھا تھا۔۔۔کومل امی جان کی چارپائی سے لگی اس قدر رو
رہی تھی کہ یہ منظر ہر آنکھ اشکبار کر رہا تھا۔
میں آ گئ ہوں امی۔۔آنکھیں کھولیں ۔۔دیکھیں آپکی بیٹی آ گئی ہے۔۔وہ صدمے سے
نڈھال تھی جب بھابیوں نے اسے سنبھالا۔۔۔
امی منوں مٹی تلے جا سوئی تھیں۔۔۔کومل دکھ اور پچھتاوے کے درمیان سلگ رہی
تھی۔۔کاش میں امی سے ملنے چلی آتی۔امی مجھ سے خفا نہ ہوں۔میں آئی بھی تو کب
جب انکی آنکھیں بند ہو چکیں ہیں۔۔سوچیں اسکو ناگ کی مانند ڈس رہی تھیں۔۔۔
آہستہ آہستہ تعزیت کے لیے آئے لوگ جانے لگے تو حارث نے بھی کومل کو واپس گھر
چلنے کا کہا۔۔
میں امی کی قبر پہ جانا چاہتی ہوں۔۔کومل نے شوہر کی طرف دیکھ کر غمگین لہجے
میں کہا۔۔۔حارث نے اثبات میں سر ہلایا اور اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔۔۔
وہ امی کی قبر پہ آئی تو مٹی ابھی تک گیلی تھی اس نے روتے ہوئے تھوڑی سی مٹی
دوپٹے کے پلو سے باندھی اور جی بھر کے قبر کو دیکھتے ہوئے جانے کے لیے پلٹی تو
اچانک چلنے والی تیز ہوا کے باعث اسکے ریشمی دوپٹے کا ایک کونا ہوا کے دوش پہ
لہراتا ہوا اس بیری کے درخت کے ساتھ اٹک گیا جو جسکی شاخیں امی کی قبر پہ سایہ
فگن تھیں۔۔کومل کی آنکھیں پھر سے بھیگ گئیں۔۔اسے لگا جیسے امی چاہتی ہوں ابھی
ٹھہرو۔۔مت جاؤ ۔۔لیکن جانا تو تھا۔۔اور صبر بھی کرنا تھا۔۔رب کی رضا میں
راضی ہونا ہی مومن کی نشانی ہے۔۔۔وہ دل کو سمجھاتے ہوئے اپنے گھر واپس لوٹ
آئی لیکن ایک عہد تھا جو اس نے خود سے کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
————————–
کومل جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی حارث کے اداس چہرے پہ نظر پڑی۔۔۔وہ جلدی سے
قریب آئی ۔۔
مجھے معلوم ہے آپ کیوں اداس ہیں۔۔۔امی کی یاد آ رہی ہے ناں۔۔۔کومل نے نرم لہجے
میں کہتے ہوئے ساس کو امی کا نام دیا تو حارث سر اٹھائے حیران ہوا۔۔
زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔آپ آج ہی گاؤں جائیں اور امی ابو کو اپنے
ساتھ لے آئیں ۔۔۔وہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔۔۔۔۔وہ نرمی سے بولتی ہوئی حارث کے دل
میں اتر گئی ۔۔۔وہ اس بدلاؤ پہ چونک سا گیا۔۔
مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم اتنی بدل جاؤ گی۔۔۔وہ مسکرا اٹھا۔۔۔۔۔۔وہ سچ ہی
تو کہہ رہا تھا۔۔کومل کی ساس اورسسر گاؤں میں رہتے تھے۔۔حارث اکلوتا تھا وہ
بیٹے کے ساتھ شہر میں رہنا چاہتے تھے لیکن کومل نے سختی سے منع کر دیا۔۔
شہر میں کافی مہنگائی ہے۔۔اخراجات کیسے پورے ہونگے۔۔حارث نے برا منایا لیکن
پھر بھی ہوا وہی جو کومل چاہتی تھی۔۔۔لیکن کبھی کبھار حارث اپنے والدین سے
ضرور ملنے جاتا۔۔واپسی پہ اداس ہوتا۔۔
میں نہیں چاہتی آپ کے ساتھ بھی وہی ہو جو میرے ساتھ ہوا۔۔۔بچوں کو والدین کے
قریب رہنا چاہیے۔۔آپ تیاری کریں اور انہیں گھر لے آئیں میں ابھی انکا کمرہ سیٹ
کرتی ہوں۔۔۔۔کومل خود سے کیا گیا عہد نبھاتے ہی کمرے سے باہر نکل آئی اسے ایسا
محسوس ہوا جیسے امی جان مسکرا رہی ہوں۔۔۔
آپ کی تحریر مل گئی ہے۔شکریہ