23 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

The Golden coins|سنہری سکے

سنہری سکے

حمیرا تبسم

 

سردیوں کی سرد شام تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی نے ماحول پہ سحر سا طاری کر رکھا تھا۔ نیو یارک میں ویسے بھی زیادہ تر دن سوتے اور راتیں جاگتی ہیں، اس لئے شام ہوتے ہی شاپنگ مالز اور ہوٹلز میں لوگوں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔
بلیک جینز اور بلیو شارٹ شرٹ پہ لونگ کوٹ پہنے خود کو بارش کی بوندوں سے بچاتی چھتری تانے خوبصورت سی جینی قریبی کافی شاپ کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس کے قدموں میں بے چینی تھی۔ کیوں کے اسے کچھ دیر پہلے ہی لینڈ لائن نمبر پہ کال موصول ہوئی تھی ۔دوسری جانب کوئی مرد تھا جس نے اپنا نام جوزف بتایا تھا۔ اس نے کچھ ایسا کہا تھا کہ وہ اس اجنبی سے ملنے کو راضی ہو گئی تھی، یہ اور بات تھی کہ اس کا دل انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا، وہ کون تھا اور کہا چاہتا تھا ، اس سوال کا جواب اس سے  ملے بنا ہرگز معلوم نہیں ہو سکتا تھا،
جینی کا باپ راجر ایک مشہور تاجر تھا، بے پناہ دولت ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی بیٹی کو جیب خرچ ایک حد تک دیتا تھا۔ تاکہ وہ بگڑے ناں ! جب کہ جینی کی کالج فیلو لڑکی کیٹی نے اسے بتایا تھا کہ تمہارا ڈیڈ کچھ جرائم میں بھی ملوث ہے اپنی طاقت اور دولت کی بنا پہ وہ ثبوت منظر عام پہ نہیں آنے دیتا اس لئے میرا ڈیڈی ڈیڈیکٹیو جیم ابھی تک کوئی ثبوت جمع نہیں کر پایا،
کیٹی کی بات سن کے جینی چونک سی گئی تھی، اس کے دل میں ڈیڈی کے لئے پہلے سے ہی بدگمانی تھی بھلا ایسا بھی کوئی ڈیڈی ہوتا ہے جو کہ خود تو عیاشی کرے لیکن اکلوتی بیٹی کو فضول خرچی سے روکے ،اس کے بعد جینی نے اپنے ڈیڈی راجر پہ نظر رکھنی شروع کر دی تھی وہ جب بھی گھر ہوتے وہ ان کے کام پہ نظر رکھتی اور چھپ چھپ کہ ان کی باتیں سنتی، لیکن یہ اور بات تھی کہ اس کے ہاتھ کوئی ثبوت نہیں آیا ۔ الٹا وہ شرمندہ ہوئی اور کیٹی کو بھی ملامت کی جس نے اس کے ڈیڈی پہ الزام لگایا تھا، بلاشبہ جیم اپنی بیٹی کو جیب خرچ کے لئے زیادہ رقم نہیں دیتا تھا لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ وہ ایک برا باپ تھا۔ وہ کیٹی کا ہر ممکن خیال رکھتا تھا ۔ کیٹی کی مام اپنے پرانے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھاگ گئی تو ننھی جینی کو راجر  نے نہائت پیار سے سنبھالا اور کبھی دوسری شادی نہیں کی۔ البتہ کافی گرلز ان کی دولت پانے کیلئے انکے گرد گھیرا ڈالے رکھتیں، وہ دوستی تو کرتے تھے لیکن شادی ہرگز نہیں،
آسمان کی بلندیوں کو چھوتے خوبصورت طرز کے بنے مالز اور ہوٹلز اپنی سجاوٹ کی وجہ سے چمک رہے تھے۔ ماحول پہ ایک سحر سا طاری تھا ۔ہلکی بارش کو لوگ انجوائے کر رہے تھے ،جب کہ سردیوں کی بارش تھی ویسے یہاں پہ گرمی کا موسم بھی ایسا ہی ہوتا تھا جیسے ہلکی سردی،لیکن خلاف معمول آج رش کافی زیادہ تھا ۔ جب وہ گھر سے نکل رہی تھی تو ڈیڈی نے پوچھا تھا کہ کہاں جا رہی ہو؟ ڈرائیور سے بولو وہ لے جائے گا ،نہیں ڈیڈی میں بس واک کرنا چاہتی ہوں، جلد آجاؤں گی۔ وہ جلدی سے بہانہ بناتے ہی گیٹ عبور کر چکی تھی ۔اور اب اپنے سامنے موجود مشہور و معروف کافی شاپ کے برقی روشنیوں سے سجے داخلی دروازے پہ کھڑی تیز ہوتی سانس کو نارمل کر رہی تھی ،اور دوسرے ہی پل وہ اندر جانے کا ٖفیصلہ کرتے ہی قدم بڑھا چکی تھی جہاں پہ ٹھہرے گارڈ نے ویلکم کا بورڈ اسکے سامنے لہرایا تھا اور نہایت ادب سے اسکے لیے دروازہ وا کر دیا وہ مسکراتی ہوئی کافی شاپ میں داخل ہوگئی۔
٭٭٭
وہ کافی شاپ میں بیٹھا کافی دیر سے داخلی دراوازے کی جانب دیکھ رہا تھا، اور اپنی رسٹ واچ پہ بھی نگاہیں ڈال چکا تھا جہاں وقت تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔وہ گوری رنگت براؤن آنکھوں اور بھورے بالوں والا اسپینش مرد تھا جس کی عمر تیس کے ہندسے کو عبور کر چکی تھی ۔وہ بے چینی سے کسی کا انتظار کرتے ہوئے پہلو بدل رہا تھا۔ ویٹر کئی بار اس سے کافی کا پوچھ چکا تھا لیکن وہ کسی کے آنے کا کہہ کہ خاموش ہو جاتا اور ویٹر اسے مسکرا کے دیکھتے ہوئے دوسری ٹیبل پہ چلا جاتا۔ سامنے اسٹیج پہ موجود گٹار ساز خوبصورت دھنیں بکھیر رہا تھا ۔
اس نے ایک آخری نگاہ داخلی دروازے کی جانب ڈالی اور جھکانا بھول گیا بلاشبہ وہ جینی تھی جو کہ ٹیبل نمبر 9 کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔اور اب چلتی ہوئی اسکے قریب آتے ہی کرسی کھینچ کہ بیٹھ چکی تھی۔
ہائے میں جوزف ! آپ مجھے جوزی کہہ سکتی ہیں ،اس کے بیٹھتے ہی جوزف نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا ! جی میں جینی ہوں آپ میرا نام پہلے سے جانتے ہیں شاید ! وہ ہاتھ ملاتے ہوئے بولی تو جوزف کے چہرے پہ معنی خیز مسکراہٹ چھا گئی، وہ آگے جھکتے ہوئے بولا
اتنے بڑے تاجر کی بیٹی کو کوئی پاگل ہی ہو گا جو نہیں جانتا ہو گا ۔اور لڑکی بھی وہ جو نہائت دلکش ہو ، اس نے جال پھینکی،
جینی اپنی کھلی تعریف پہ شرما سی گئی،اور ہمت جمع کرتے ہوئے بولی ،
آپ نے مجھ سے سونے کے سکوں کا ذکر کیا تھا جو کہ عجائب گھر سے چوری ہوگئے ہیںاور قدیم نوادرات میں سے ایک ہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر میں وہ سکے ڈھونڈنے میں مدد کروں گی تو آپ مجھے ایک لاکھ ڈالر دیں گے ؟ کیا یہ سچ ہے ؟ ہے ہے بھی تو کیسے ؟
وہ ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی ساتھ ہی اسکی آنکھوں میں موجود ڈالر حاصل کرنے خوہش واضح طور پہ چمک رہی تھی،
وہ جیسے ہی خاموش ہوئی شاطر جوزف نے اپنی تیز نظریں اس کے چہرے پہ گاڑھ دیں ،
ویٹر کو کافی کا آڈر دیتے ہی وہ اپنے خشک لبوں پہ زبان پھیرتے ہوئے بولا،
مس جینی ! تم کافی سمجھدار لڑکی ہو میں نے تمہاری زہانت کی کافی باتیں سنی ہیں،اس لئے سوچا کیوں ناں تمہیں اپنی ٹیم کا حصہ بنایا جائے ۔وہ سانس لینے کیلئے رکا اور پھر سے بولا
وہ سونے کے سکے قیمتی نوادارات میں سے ایک ہیں۔انکی چوری نے کافی ہلچل مچا دی ہے ۔عجائب گھر کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح سے بھی ہمیں آڈر ہوا ہے کہ وہ سکے جلد سے جلد ڈھونڈے جائیں ،اور تمہاری طرف میرا دھیان اس لئے بھی گیا کہ میں نے سنا ہے تمہارے ڈیڈی کو بھی کافی شوق ہے نوادرات جمع کرنے کا ،اور ان کے کافی لنکس ہیں مختلف گروہ کے ساتھ،جن کو اچھا نہیں سمجھا جاتا،
وہ یہ کہہ کہ خاموش ہو گیا کیونکہ ویٹر کافی کے مگ اور سینڈوچ انکی میز پہ رکھ رہا تھا۔ کافی شاپ کی گلاسی ونڈوز سے باہر کا منظر کافی دھندلا دکھائی دے رہا تھا کیونکہ بارش کی بوندیں ونڈوز کے شیشوں پہ اپنا عکس جما رہیں تھیں اور لکیروں کی مانند پانی بن کہ بہہ رہی تھیں،
جوزف کی باتوں نے اسے بے چین سا کر دیا، وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈالے کہنیاں میز پہ ٹکائے اور ہاتھوں پہ اپنا پر فکر چہرہ رکھے بیٹھی تھی،اس کے چہرے پہ ابھرتی سوچ کی لکیریں نمایاں تھیں۔
جبکہ جوزف جانتا تھا کہ وہ پہلے سے ہی کچھ کچھ اپنے ڈیڈی سے متنفر ہے اور وہ بھی اتنے پیسے ضرور چاہتی ہے جس وہ اپنی خواہشات پوری کر سکے اور ویسے بھی وہ لوگوں کو شیشے میں اتارنا بہتر جانتا تھا۔
اور یہ تو پھر بھی لڑکی تھی جسکو بطور سیڑھی استعمال کرکے وہ دولت کی بلندیوں کو چھو سکتا تھا۔ وہ کسی صورت اس لڑکی کو گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ سکے راجر کے پاس ہی موجود ہیں۔ جن کی قیمت کروڑوں میں ہے وجہ ان کی قدیم ہونا ہے۔
جب ویٹر چلا گیا تو وہ کافی کا مگ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے پریقین لہجے میں بولی
میں وہ سکے ضرور تلاش کروں گی ۔لیکن آپ کو مجھے وہ رقم دینی پڑے گی جو کہ آپ  نے کہا ہے
اس کو مانتا دیکھ کر جوزف خوشی سے اچھلتے ہوئے بولا، تم فکر مت کرو میں تمہارا نام راز میں رکھوں گا اگر چور تمہارا باپ بھی ہوا تو اس کا بھی ، اور ہاں یہ کچھ رقم ایڈوانس رکھو، باقی تب ملے گی جب تم کام پورا کرو گی، اس نے کوٹ کی جیب سے ایک لفافہ اس کی طرف بڑھایا تو جینی نے جلدی سے لیتے ہوئے پرس میں ڈالا مبادا وہ واپس نا مانگ لے۔
اور ہاں یہ باتیں راز میں رکھنا جو کہ میں نے تم سے کی ہیں۔ کیونکہ میرا تعلق سی آئی اے سے ہے ہم اپنا راز افشاں کیے بنا ہی کام کرتے ہیں، وہ مسکرایا اور کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہی جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
آپ فکر نا کریں۔ جینی جو کہتی ہے وہ کرتی ہے۔ کام خفیہ رہے گا ،اور سکے ملتے ہی آپ کو انفارم کر دوں گی ۔وہ خوش دلی سے مسکرائی ۔اور آہستہ سے اپنی بات مکمل کی، جوزف مسکرایا اور الودائی نگاہ ڈالتے ہی ٹیبل پہ بل کے پیسے رکھتا ہوا کافی شاپ کا دروازہ پار گیا۔
وہ اسے جاتا دیکھ کہ مسکرائی اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے ہلکی آواز میں گانا گنگناتے ہوئے سکوں کا سوچنے لگی۔

جینی اس وقت چونک سی گئی جب ڈیڈی کو کسی سے کال پہ کہتے سنا آپ فکر مت کریں آپ کی امانت میرے پاس محفوظ ہے کسی کو خبر نہیں ہوگی۔ ڈیڈی کی بات سن کہ جینی کو تجسس سا ہوا، اس کے دل میں خیال آیا ایسا ناں ہو کہ سکے ڈیڈی کے پاس ہوں لیکن میں ڈیڈی کو نقصان کیسے پہنچا سکتی ہوں کچھ ایسا کیا جائے کہ سکے بھی مل جائیں اور ڈیڈی کا نام بھی نا آئے۔
اس کے دماغ میں ایک مہم آئی وہ جلدی سے اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ اندر سے بند کر لیا ،اسٹڈی ٹیبل کے قریب آئی اور کرسی پہ بیٹھتے ہی لیپ ٹاپ آن کر لیا اس کی انگلیاں جلدی سے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پہ متحرک ہو گئیں، اس نے گوگل پہ کرائم نیوز سرچ کیں جو کہ کافی عرصہ پرانی تھیں، وہ جو تلاش کرنا چاہتی تھی اسے وہ نظر نا آیا تو وہ مایوسی سے ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی، لیپ ٹاپ بند کرنے والی تھی کہ ایک پرانی کرائم نیوز پہ نظر پڑتے ہی وہ چونک گئی جہاں پہ ایک مجرم سر جھکائے اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالے پولیس کے درمیان کھڑا تھا اس کے چہرے پہ شرمندگی نام کی کوئی جھلک نا تھی وہ بہت بڑا چور اور قاتل تھا ۔ جینی کے دل کو کچھ ہوا ، مجرم کو پہچانتے ہی اس کے چہرے پہ ناگواری اور شدید غصے کی لہر نمودار ہوئی، اس نے کیٹی کا نمبر ڈائل کیا اور بات کرنے لگی۔
٭٭٭
شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو رات کی سیاہی نے آسمان پہ اپنے سرمائی پر پھیلا دیئے وہ کافی کا مگ اٹھائے ٹیرس پہ آن کھڑی ہوئی ،ابھی کافی کا ایک ہی گھونٹ بھرا تھا کہ موبائل بجنے لگا پی ٹی سی ایل کا نمبر دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ کال کرنے والا کون ہے،
میرا کام ہوا : دوسری طرف جوزف تھا جس کے لہجے میں چھپی بے چینی جینی نے واضح طور پہ محسوس کیے بنا نہیں رہ سکی۔
میں کوشش کر رہی ہوں ،تم پریشان مت ہو، تمہارا کام جلد ہو جائے گا۔ لیکن تم نے یہ نہیں بتایا کہ تم کام کیا کرتے ہو؟ وہ گہری سانس بھرتے ہوئے بولی۔
جوزف نے ایک زوردار قہقہ لگایا اور نرم آواز میں بولا،
سی بی آئی آفیسر ہوں، اس لئے محتاط انداز میں اپنا کام کرتا ہوں، خیر تم زیادہ سوچو مت۔ بہت خوبصورت ہو تم۔ سوچنے سے چہرے پہ جھریاں پڑ جائیں گی۔ بس تم اس رقم کا سوچو جو تمہیں اس کام کے بدلے میں ملے گی اور اس خوشی کا بھی جو تم سرکار کی مدد کر کے حاصل کرو گی۔
اپنی بات مکمل کر کے وہ سانس لینے کے لئے رکا تو جینی نے بات آگے بڑھائی،
چلیں ٹھیک ہے میں آج ہی کوشش کرتی ہوں کہ ان سکوں کا پتہ کر سکوں لیکن میں وعدہ نہیں کر سکتی، اور اگر میں آپ کا کام نا کر سکی تو جو ایڈوانس آپ نے مجھے دیا تھا اس میں سے آدھا آپ کو واپس کردوں گی باقی اپنی کوشش کرنے کے بدلے میں رکھ لونگی، منظور ہے ؟

وہ تواتر سے بولتی ہوئی کسی ماہر بزنس مین کی طرح لگ رہی تھی۔ جوزف حیران ہوئے بنا نہیں رہ سکا، اور اوکے کہتے ہوئے کال کاٹ دی۔ جبکہ جینی مسکرا کہ رہ گئی کافی اب ٹھنڈی ہو چکی تھی اس لئے اس کو پینے کا ارادہ ترک کر کے وہ اگلا لحہ عمل سوچنے لگی، کہ جوزف کو سونے کے سکے کیسے دینے ہیں اور ظاہر دینے سے پہلے ان کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ اور اسے اچانک سے یاد آیا کہ گھر کے پچھلی جانب بنے باغ میں ڈیڈی نے ایک تہ خانہ بنا رکھا تھا جس میں مختلف قسم کی پرانی لیکن بے حد قیمتی اشیاء رکھی ہوئیں تھیں، ہو سکتا ہے سونے کے قدیم سکے بھی وہاں موجود ہوں،یہ خیال اس کے دماغ میں کسی روشنی کی مانند کوندا تو اس کے چہرے پہ چمک سی آگئی، منزل کے قریب پہنچنے کی چمک، وہ ڈیڈی کے باہر جانے کا انتظار کرنے لگی کیونکہ آج راجر  نے کسی اہم میٹنگ کے سلسلے میں گھر سے باہر جانا ۔وہ اپنی پالتو بلی اٹھائے ٹی وی لائونج میں بیٹھی تھی اور ڈیڈی کے باہر جانے کا انتظار کر رہی تھی،
ہائے باربی ڈول، راجر نے بیٹی کو صوفے پہ بیٹھا دیکھا تو بہت پیار سے بولا
جینی جلدی سے کھڑی ہوئی اور بلی کو صوفے پہ بیٹھے رہنے دیا
ڈیڈی آپ باہر جا رہے ہیں ؟ پلیز میرے لئے چاکلیٹس اور پیسٹریز بھی لایئے گا ،وہ لاڈ سے بولی تو راجر مسکرایا اور کہا
ٹھیک ہے لیتا آؤں گا اور کچھ،؟ اور ہاں اسٹڈی دل لگا کہ کیا کرو، تمہارے اینول ایگزائمز قریب ہیں، وہ پیار سے جینی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے جانے کے لیے پلٹ گیا،
اوکے ڈیڈ جلدی آ جایئے گا ، جینی نے راجر کو جاتے دیکھ کہ جملہ ادا کیا اور سکھ کا سانس لیا راجر کی گاڑی جیسے ہی گیٹ پار گئی۔ وہ چپکے سے اپنے کمرے میں آئی اور ٹارچ لائٹ اٹھا کہ آن کرتے ہوئے وہ کھڑکی پار گئی جو کہ باغ کی جانب کھلتی تھی۔

٭٭٭

ہر طرف اندھیرا تھا، ہوا سے ہلتے درختوں کے پتے عجب ڈراؤنا منظر پیش کر رہے تھے ، جبکہ ہوا میں پھیلی پھولوں کی خوشبو سانسوں کو معطر کر رہی تھی، لیکن تہ خانے کی جانب بڑھتی جینی کا دل مارے خوف کے دھڑک رہا  تھا۔  اس کی ہتھیلیاں اتنی سردی میں بھی پسینے سے بھیگ چکی تھیں۔ وہ ٹارچ اٹھائے تہ خانے کے دروازے پہ کھڑی تھی، اس نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چابی باہر نکالی جو  اس نے کچھ دیر پہلے ہی ڈیڈی کے روم میں موجود دراز سے نکالی تھی
اس نے چابی تالے میں ڈالی تو وہ کھل گیا ۔ اس نے جلدی سے دروازہ کھولا ، تالا اور چابی اپنے کوٹ کی جیب میں رکھی اور تہ خانے کی جانب جاتی سیڑھیوں پہ قدم رکھ دیا، وہ جیسے ہی تہ خانے میں پہنچی اسے کافی ساری چیزیں اور نوادرات دکھائی دیے ان میں کچھ تو پینٹنگز تھیں ،کچھ مردوں کی کھوپڑیاں ،جن کو دیکھتے ہی اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رُک گئی، ان انسانی کھوپڑیوں کے ساتھ چپکے نوٹ پیج پہ مختلف قسم کے تعارف لکھے تھے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ اہم شخصیات کی کھوپڑیاں ہیں، یا پھر یہ جھوٹ بھی ہو سکتا تھا خیر جینی نے ان پر سے نظر ہٹائی اور سامنے رکھا لکڑی کا باکس کھولا، جس میں کافی نگینوں سے بنی جیولری رکھی تھی جو قدیم تھی۔ ساتھ میں ایک لکڑی کا چھوٹا سا جیولری باکس بھی تھا ،جینی کو تجسس ہوا تو اس نے جلدی سے اس کو کھولا اور دنگ رہ گئی۔

اس نے بار بار سا چیز کو دیکھا اور یقین آہی گیا وہ قدیم سونے کے سکے تھے، اور اب جلد ہی اس  نے جوزف کو دینے تھے، جینی نے کوٹ وہ سکے اُٹھائے اور موبائل سے ایک سکے کی تصویر بنا ڈالی، اور سکوں کو باکس میں بند کیا اور اپنے ساتھ لئے تہ خانے سے باہر آ گئی، اب اسے تہ خانے کی کو بند کر کے چابی اپنی جگہ پہ رکھنی تھی اور سونے کے سکے محفوظ جگہ رکھ کہ باہر جانا تھا، اور ایک اہم کام کرنا تھا۔

٭٭٭

وہ جیولری شاپ میں بیٹھی کافی دیر سے جیولر کا انتظار کر رہی تھی، اسے یہ کام جلد سے جلد انجام دینا تھا ،جوزف سے کیا وعدہ ہر حال میں پورا کرنا تھا۔ اس  نے موبائل چیک کیا تو نئے نمبر کے علاوہ کیٹی کی بھی مس کالز نظر آئیں، ویٹ اس نے جلدی سے میسج ٹائپ کیا اور کیٹی کو سینڈ کر دیا،
جی مس جینی : میں کونسی جیولری لینا چاہیں گی آپ ؟ ہمارے پاس تھائی لینڈ سے نئی فیشن دار جیولری موجود ہے جو آپ کے زوق پر پورا اترے گی۔
جیولر مائیکل  نے شاپ میں قدم رکھتے ہی جینی کو پہچان لیا اور اسے بولنے کا موقع دیئے بنا ہی مختلف خوبصورت جیولری کی طرف اشارہ کرنے لگا، جینی نے اپنے چہرے پہ زبردستی مسکراہٹ سجائی اور شائستگی سے بولی،
ارے نہیں مائیکل انکل، آپ غلط سمجھے، میں یہاں کچھ خریدنے نہیں آئی بلکہ کچھ بنوانے آئی ہوں، آپ پیسوں کی فکر مت کریں۔ جتنے چاہیں گے آپ کو دوں گی۔ ساتھ ہی اس نے موبائل سے سکے کی تصویر نکال کہ اسے دکھائی تو بوڑھے مائیکل نے اپنی نظر کی عینک درست کرتے ہوئے سکے کو بغور دیکھا اور پریشان ہوتے ہوئے بولا،
یہ سکے تو حال ہی میں عجائب گھر سے چوری ہوئے ہیں، تمہیں ان میں کیا دلچسپی ہے ؟
جینی نے اپنے خشک ہوتے لبوں پہ زبان پھیری
اصل میں انکل مجھے یہ سکے بہت پسند ہیں آپ مجھے ایسے سکے آرٹیفشل بنا دیں آپ کو تو صرف پیسہ چاہیے ناں ؟ ساتھ ہی جینی نے پرس میں سے بھاری رقم نکالتے ہوئے بوڑھے مائیکل کے ہاتھ میں دی تو اس نے اثبات میں سر ہلایا ، جینی کے دل سے بوجھ ہلکا ہوا۔
آدھا گھنٹہ لگے گا ،مائیکل نے رقم سنبھالتے ہوئے کہا اور سکے بنانے کے لئے سامان ڈھونڈنے لگ گیا، ٹھیک ہے میں انتظار کر لیتی ہوں ؛ جینی نے مسکرا کہ کہا اور ویٹنگ روم میں آ گئی،
موبائل پہ آنے والی کال کو اس نے اٹینڈ کیا اور بولی، تم خوش قسمت ہو جوزف، تمہارا کام ہو گیا ایک گھنٹے تک جہاں تم کہو گے میں سکے لے کر آ جاؤں گی ،
دوسری جانب جوزف کا منہ کھلا رہ گیا سونے کے قدیم سکے اسے اتنی جلدی مل جائیں گے اس کے وہم وگمان میں تک نا تھا ۔
ٹھیک ہے تم گرین ہوٹل روم نمبر سات میں آ جانا، اور ہاں احتیاط سے آنا یہ کہہ کہ جوف  نے کال کاٹ دی جینی نے سکھ کا سانس لیا اور کیٹی کو کال کرنے لگی،
٭٭٭
وہ سکے پرس میں اٹھائے گرین ہوٹل روم نمبر سات کے دروازے کے سامنے موجود تھی۔ اس  نے جیسے ہی اطلائی گھنٹی بجائی دروازہ کھل گیا ، دروازہ کھولنے والا جوزف تھا اور پہلے سے زیادہ دلکش دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں فاتحانہ چمک دکھائی دے رہی تھی جو کہ اب جینی کو دیکھ کہ مزید بڑھ چکی تھی ،
آؤ آؤ ویلکم مس جینی، تم تو واقعی زہین ہو قانون کا ساتھ دینے والی، وہ جینی کو اندر بلاتے ہوئے خوش اخلاقی سے بولا تو وہ اندر بڑھ گئی،
یہ لیں آپ کی امانت اور میری رقم مجھے دیں : جینی نے سکوں کا باکس اس کی جانب بڑھایا جس کو جوزف نے ہاتھ بڑھا کر لیا اور اسے کھولتے ہوئے سکوں کو غور سے دیکھنے لگا ، گویا ان کے اصل ہونے کا یقین کر رہا ہو ۔
ویری گڈ وہ ان کے اصل ہونے کا یقین کرتے ہوئے بولا
،جینی اس کی بے وقوفی پہ مسکرائی، اور ہاتھ آگے بڑھا دیا ، میرے باقی پیسے،
ڈارلنگ اتنی جلدی بھی کیا ہے، ابھی تو تمہیں میں نے اپنے باقی ٹیم ممبرز سے ملوانا ہے ، وہ خباثت سے ہنسا ۔
جینی کو کچھ غلط ہونے کا خیال آیا تو اس کے چہرے پہ پریشانی چھا گئی
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اچانک سے چار آدمی جن کے ہاتھوں میں گنز تھیں نمودار ہوئے اور جینی کی کنپٹی پہ ایک آدمی نے پسٹل رکھ دیا،
جوزف یہ تم  نے اچھا نہیں کیا، میں  نے تمہاری مدد کی اور تم اتنے گھٹیا نکلے ؟ جینی چلائی تو جوزف اس کے قریب آیا اور اس کی تھوڑی ہاتھ سے چھوتے ہوئے بولا،
اوہ ڈارلنگ،چلا کیوں رہی ہو ؟ سچ میں تمہیں میں کچھ نہیں کہوں گا بس تمہیں گڈنیپ کر کے تمہارے باپ سے تاوان مانگوں گا ،ایک تیر سے دو نشانے، جینی کو شاک لگا یہ آدمی تو اس کی سوچ سے بڑھ کر مکار نکلا تھا،
جوزف نے بیڈ کی سایئڈ ٹیبل سے ٹیپ نکالی اس سے پہلے کہ وہ جینی کے منہ لگاتا دروازہ زوردار آواز سے کھلا اور ڈیڈیکٹیو جیم  کے ساتھ کافی پولیس والے اندر داخل ہوئے ان کو دیکھتے ہی جوزف سمیت باقی چار بندوں کے چہرے پہ بھی خوف چھا گیا،
خبردار جینی کو کچھ کرنے کی کوشش کی تو یا بھاگنے کی کوشش کی تو سب کو شوٹ کر دوں گا، ایک پولیس آفیسر بولا تو جینی کے چہرے پہ چھایا ڈر اطمینان میں ڈھل گیا،
قریب مت آنا ورنہ جینی کو گولی مار دوں گا جوزف نے جینی کو ڈھال بنایا تو ڈیڈیکٹیو جیم  نے زوردار قہقہ لگایا اور باہر گیلری میں کھڑے ایک آفیسر کو اندر آنے کا کہا جس کے ساتھ آتے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھ کہ جوزف کا رنگ پیلا پڑ گیا، وہ اس کا باپ فرینک تھا جو کہ سر جھکائے ندامت سے سب کے سامنے کھڑا تھا ۔
تم  نے اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو ورنہ تمہارے باپ کو بھی گولی سے اڑا دیں گے ،پولیس آفیسر بولا
باپ کا چہرہ دیکھ کہ جوزف نرم پڑ گیا اور ہتھیار ڈال دیئے۔ جینی لپک کہ ڈیڈ کے سینے سے جا لگی جو ناجانے کب کمرے میں داخل ہوئے تھے
تمہارے ڈیڈ کو میں نے ہی یہاں بلایا ہے تاکہ اپنی بہادر بیٹی کی بہادری کا کام اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں جیم نے اس کے کان میں سرگوشی کی تو اس کو سکون سا ملا
ہاں اب بتاؤ ،تم کس کے لئے کام کرتے ہو ؟ پولیس آفیسر نے جوزف سے پوچھا
میرے باس کا نام آرتھر ہے وہ مسٹر راجر کے قریبی دوست ہیں اور بزنس پارٹنر بھی، انہوں نے ہی قدیم سکے عجائب گھر چرائے اور راجر  کے پاس امانت رکھوا دیئے، کیونکہ وہ جانتا تھا راجر اعتبار کا بندہ ہے اور اس کی چوری کا پول بھی نہیں کھولے گا، لیکن بعد میں آرتھر کی نیت بدل گئی اس نے مجھے راجر کے خلاف استعمال کرنے کا سوچا پہلے مجھے سکے چرانے کا کہا پھر جینی کو کڈنیپ کرنے کا، تاکہ وہ راجر سے کہے تم  نے امانت میں خیانت کی ہے اس کا خراج دو اور پھر جینی کا میرے ذریعے تاوان مانگے، اور اس پہ کسی کو شک بھی نا ہو ، مجھے جیل سے رہا بھی وہی کرواتا رہا ساتھ میں پناہ بھی دی، لیکن مجھے نہیں معلوم تھا آپ لوگ میری فیملی تک پہنچیں گے۔جوزف نے ڈرتے ڈرتے تمام سچائی بتا دی، جس کو سن کے راجر کو بھی دکھ ہوا کہ اس کا اپنا دوست ہی غدار نکلے گا،
جوزف کی بات سنتے ہی آفیسر نے اس کو اور باقی اس کے ساتھیوں کو ہتھکڑیاں لگا دیں اور راجر سے کہا
آپ کی بیٹی بہت بہادر ہے۔  اس نے قدیم سکے ہمارے حوالے کر دیئے تھے اور جوزف جیسے بدنام مجرم کو بھی پکڑوا دیا ،اس کے بدلے سرکار آپ کی بیٹی کو انعام دے گی لیکن افسوس ہے کہ آپ کو بھی ہمارے ساتھ تھانے جانا پڑے گا کچھ قانونی کارروائی کے بعد آپ کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ آپ مجرم نا سہی لیکن مجرم کا ساتھ تو دیا ہے نا؛
میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں راجر نے مسکرا کہ کہا اور جینی کو سینے سے لگا لیا جو کہ بہادر بیٹی تھی ،
جبکہ جوزف کے باپ کو جیم نے جانے کا کہے دیا وہ جیم کو نفرت اور ملامت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلا گیا،
جبکہ جوزف کلائیوں میں لگی ہتھکڑوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کاش وہ جینی کو بیوقوف نا سمجھتا اور خود کو کرائم آئکون تاکہ آج وہ بیوقوف نا بنتا آرٹیفشل سکوں کو اصل نا سمجھتا، اب کیا ہو سکتا تھا۔ ایک چھوٹی سی لڑکی نے مات دے دی تھی،
٭٭٭
ختم شد

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles