کچھ عرصہ پہلے کسی کتاب میں ایک مختصر سی مگر مؤثر حکایت پڑھ کر سو چا تھا کہ کبھی وقت ملا تو اسے قصے کی شکل میں ضرور ڈھالوں گی۔بالآخر اب مو قع ملا ہے تو میں نے اسی حکایت کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرنے کی کو شش کی ہے ۔امید ہے آ پ کو بھی یہ کاوش پسند آ ئے گی۔
نیک خواہشات کے ساتھ
دانیہ صدیقی
قیمت
مہرین ٹریفک سے پُر سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ اس کے سامنے سے بے شمار گاڑیاں تیز رفتاری سے دھواں اُڑاتی گزر رہی تھیں۔ مہرین کو سڑک کے دوسری طرف جانا تھا مگر سگنل بند ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ شدید گرمی او ر اتنی بھاگ دوڑ کے باوجود خلاف معمول اس کا موڈ کافی خوشگوار تھا کیونکہ پچھلے دو ماہ کے چڑھے ہوئے بجلی، پانی اور گیس کے بِل آ ج اس نے بالآ خر جمع کروا دیے تھے۔
گزشتہ روز اس کی کمیٹی کھلی تھی اور اس سے ملنے والی رقم سے اس نے سب سے پہلے سر پر تلوار کی طرح لٹکتے بِلوں سے جان چھڑانے کا تہیہ کیا تھا۔ اب وہ خود کو کسی بادل کی طرح ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ۔ سگنل بند ہو گیا تھا اسی لیے دوسرے لوگوں کے ہمراہ وہ بھی جلدی جلدی سڑک کراس کر کے دوسری طر ف آ گئی۔ وہ آ گے بڑھ رہی تھی جب اچانک اس کی نظر نئی کھلنے والی وسیع و عریض سُپر مارکیٹ پر پڑی۔ آ ج کل شہر میں نت نئی مارکیٹوں کا کھلنا ایک عام سا رواج بن کر رہ گیا ہے مگر جس چیز نے مہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کی، وہ تھی اس مارکیٹ کے نام کے ساتھ لگے بورڈ کی، جس پر ایک اسمارٹ سی لڑکی ہاتھ میں پرس تھامے کھڑی تھی اور اس کے ایک جانب یہ جملہ درج تھا۔
خوش آمدید! آ پ سب کے لیے خریداری کا بہترین موقع
نجانے کیوں یہ جملہ پڑھ کر مہرین کے چہرے پر ایک استہزائیہ سی مسکراہٹ آ گئی اور اس نے تلخی سے سوچا۔
ہم سب کے لیے؟ بہت خوب! اور اس آسمان کو چھوتی مہنگائی کا کیا جس نے ہمارے ہوش اُڑا کر رکھ دئیے ہیں!
وہ مہینے کا سودا اپنے گھر کے قریب واقع پرچون کی دکان سے لیا کرتی تھی جہاں ہر چیز مناسب قیمت پر مل جایا کرتی تھی اور دکان کے مالک جمیل بھائی اپنے مستقل گاہکوں کا خیال رکھتے ہوئے اکثر سو پچاس کا ڈسکاؤنٹ بھی دے دیا کرتے تھے۔ مہرین کے لیے یہ معمو لی سی بچت بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی تھی ۔ پاس بجنے والا زوردار ہارن مہرین کو خیالوں کی دنیا سے باہر گھسیٹ لایا۔ اس نے دوبارہ ایک نظر مارکیٹ پر ڈالی اور پھر اس کا ارادہ تبدیل ہو گیا۔ بچوں کو اسکول سے آ نے میں ابھی کافی دیر تھی کیوں نہ ایک چکر اس مارکیٹ کا لگا لیا جائے ، تھو ڑی تفریح بھی ہو جائے گی اور پھر اس آ گ برساتی گرمی میں کچھ دیر اے سی کی ہوا بھی مفت میں کھانے کو مل جائے گی۔
اس خیال کے آ تے ہی سب سے پہلے مہرین نے پرس سے چھوٹا سا شیشہ نکال کر اپنا جائزہ لیا ۔ بال سلیقے سے جمے ہوئے، کاجل بھری آنکھیں ،ہلکا سا میک اپ اور پھر اس کی اچھی ڈریسنگ کی تعریف تو اس کی سبھی دوستیں کیا کرتی تھیں۔ کیونکہ وہ خود بھی کپڑے سینے کی ماہر تھی اسی لیے کم آ مدنی اور ڈھیروں خرچوں کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح جوڑ توڑ کر کے اور پیسے بچا کر بہترین تراش خراش کے سوٹ خود ہی سی کر پہن لیا کرتی تھی۔ اس نے اپنے شانوں پر پڑے کاٹن کے کلف لگے خوبصورت سے ڈوپٹے کو ٹھیک سے سیٹ کیا اور پھر نپے تلے قدم اٹھاتی اسٹور میں داخل ہو گئی۔
اندر داخل ہوتے ہی اے سی کی خو شگوار ٹھنڈک نے اس کا استقبال کیا۔ صبح ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں زیادہ رش نہ تھا، ویسے بھی یہاں جس طبقے کی خواتین شاپنگ کرنے کے لیے آ تی تھیں ان کا تو ابھی سو کر اٹھنے کا ٹائم بھی نہیں ہوا تھا۔
مہرین نے ذرا سا رُک کر سُپر مارکیٹ کا جائزہ لیا۔ شیشے کی طرح چمکتا ٹا ئلوں سے مزین فرش، قطار در قطار لگے قد آ دم ریکس اور ان میں رکھی طرح طرح کی اشیاء گاہکوں کو چیخ چیخ کر اپنی طرف بلا رہی تھیں۔ اسٹور میں دھیمے سُروں میں انگریزی گانے بھی بج رہے تھے جو کانوں کو بھلے محسوس ہو رہے تھے۔ ایک طرف ٹرالیز لائن سے لگی تھیں اور دوسری طر ف بیزار سی شکلوں والے کیشئرز اپنے اپنے کاؤنٹرز پر بیٹھے تھے۔
مہرین نے نوٹ کیا کہ دائیں جانب بیٹھا کیشئیر اسے ہی گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اسے بے نقط سنا ڈالیں اور ٹرالی دھکیلتی آ گے بڑھ گئی۔
سب سے پہلے دالوں اور اناج کا سیکشن تھا جہاں یہ تمام چیزیں دیدہ زیب پیکٹوں میں سجی ہوئی تھیں۔ صا ف ستھرے لوبیا کے بیج پیکٹس کے اند ر سے اپنی چھب دکھلا رہے تھے۔ پیکٹ میں سجی شوخ نارنجی رنگ کی مونگ دال اپنے اصل حجم سے دُگنی معلوم ہو رہی تھی جبکہ ایک طرف رکھے کابلی چنے گویا برف کے گالے معلوم ہو تے تھے۔
اس کے بچے بہت دنوں سے ماش کی دال کے دہی بڑے کھانے کی ضد کر رہے تھے اور پھر آ ج شام وہ دہی بڑے بنائے گی تو اس کے میاں بھی خوش ہو جائیں گے ۔یہ سو چتے ہوئے مہرین نے ماش کی دال کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑا مگر قیمت پر نگاہ دوڑائی تو بھو نچکا سی رہ گئی ۔اس نے دال کی قیمت کا جمیل بھائی کی دکان سے ملنے والی دال کی قیمت سے موازنہ کیا تو یہاں ملنے والی دال پورے پندرہ روپے مہنگی تھی۔
مہرین ایک ایک روپیہ بھی حساب کتاب سے خر چ کرنے کی عادی تھی ،اس نے دال کا پیکٹ واپس رکھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک سُپر مارکیٹ کے یونیفارم میں ملبوس ایک نازک سی لڑکی وہاں نمودار ہو گئی اور مہرین کے قریب آ کر شائستگی سے بولی۔
’’ جی میڈم ،آ پ کسی الجھن میں لگتی ہیں۔ کیا میں آ پ کی مدد کر سکتی ہوں؟‘‘
مہرین کا ہاتھ جہاں کا تہاں ہی رہ گیا اور اس نے جلدی سے وہ پیکٹ اپنی ٹرالی میں رکھ دیا ۔ جی نہیں ،شکریہ! ‘‘
بمشکل اس کے منہ سے یہی الفاظ نکل سکے اور وہ تیزی سے ٹرالی دھکیلتی آ گے بڑ ھ گئی۔
توبہ ہے! یہ سیلز پر مامور اسٹاف ہماری مدد کرنے کے لیے ہوتا ہے یا شرمندہ کرنے کے لیے!‘‘اس نے غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے سو چا ۔ تھوڑا آ گے جا کر اسے ایک جانب اہرام ِ مصر کی طرز پر ایک دوسرے کے اوپر سجے جوس کے ڈبے رکھے نظر آ ئے۔
اوہ، زبردست!‘‘ مہرین بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو گئی مگر پھر ان کی قیمت دیکھ کر سر جھٹکتی آ گے بڑھ گئی۔ تھوڑا سا آ گے دل کو لبھا لینے والے ہر موسم کے سبزی اور پھل رکھے تھے۔ معمولی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں بھی یہاں بازار میں ملنے والے سبزیوں اور پھلوں سے دُگنی تھی۔ وہ یہاں سے بھی بمشکل نظر یں چراتی آ گے بڑھی تو خود کو کاسمیٹکس، کریمز اور اسکربز کے سیکشن میں کھڑا پایا۔
اب اس کے لیے مزید نظریں چرانا ممکن نہیں تھا۔ وہ اپنی جلد کا بے حد خیال رکھتی تھی اور اس کو شاداب رکھنے کے لیے طرح طرح کے ٹوٹکے آزماتی رہتی تھی اور یہاں تو ہر قسم کی جلد رکھنے والی خواتین کے لیے دنیا جہاں کی کریمیں ، اسکربز اور ماسک اسے اپنی جانب بلا رہے تھے۔ مہرین کسی ندیدے بچے کی طرح آ گے بڑھی اور اس نے ایک فیشل اسکرب کے لیبل پر نظر ڈالی ،جس پر درج تھا۔’’
سرخ اسٹرابری کی ملاحت، تازہ آ ڑوؤں کا رس، سیب کے حیاتین اور دُودھ کی تازگی لیے ، خاص آپ کی جلد کے لیے!‘‘ لیبل پڑھ کر بے اختیار اس نے سو چا ۔’’
یہ تو فیشل اسکرب کم اور کسی فرو سلاد کی ترکیب زیادہ معلوم ہو رہی ہے۔‘‘ ہمیشہ گھریلو ٹوٹکوں پر انحصا ر کرنے والی مہرین کے لیے یہ سب کچھ کافی حیران کن تھا۔ چہرے کے نکھار کے لیے عر ق گلاب میں گھلی ملتانی مٹی پندرہ منٹ کے لیے لگائی، اور ہو گئی چہرے کی تازگی بحال! اگر کیلے سستے ہیں تو ایک کیلے کا گودا چہرے پر لگایا اور آ دھے گھنٹے بعد ہی مطلوبہ نتیجہ آ پ کے سامنے! آ نکھوں کے نیچے پڑنے والے حلقوں کا علاج تو وہ روزانہ لنچ میں بچنے والے کھیروں سے ہی کر لیا کرتی تھی۔
بال روکھے اور بے جان ہو رہے ہیں؟ انڈوں اور دہی سے بنا آمیزہ کبھی دھوکا نہیں دے سکتا۔ جمیل بھائی کی دکان سے دو انڈے منگوائے ،فریج میں رکھا دہی اس میں ملایا اور بالوں میں لگا لیا۔ چلو اللہ اللہ خیر صلا!
اور ایسا نہیں تھا کہ ان ٹوٹکوں نے اسے کبھی دھوکا دیا ہو ۔ اس کے کالے ،ریشمی اور گھنے بال اور چاندی کی طرح چمکتی جلد اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ ان کو تندرست اور شاداب رکھنے کے لیے ہزاروں روپے کی کریمیں اور شیمپوز درکار نہیں ہوتے ۔
قدرت بذات خود تمام مسئلوں کا حل اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ رفتہ رفتہ مہرین ان کریمز اور کنڈیشنرز کے سحر میں گرفتار ہوتی چلی گئی اور اس نے کچھ سوچ بچار کر کے اپنی جلد اور بالوں کی مناسبت سے کچھ چیزیں خرید لیں۔
اس کے بعد وہ شاداں و فرحاں سی آ گے بڑھی ۔ وہ دل ہی دل میں ان کاسمیٹکس کے رزلٹ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس کی دوستیں تو حیران ہی رہ جائیں گی۔ اس نے مسکرا کر سوچا۔ ابھی مہرین ٹھیک سے لطف اندوز بھی نہیں ہو پائی تھی کہ ایک دلفریب سی مہک نے اس کو اپنے حصار میں لے لیا۔ اس نے چونک کر آ س پا س نگاہ دوڑائی تو اس نے خود کو پرفیومز کے سیکشن میں کھڑا پایا جہاں ہر طرف خو شنما بوتلوں میں سجی پرفیومز رکھی ہوئی تھیں۔
کہیں سمندر کے نیلے رنگ کو مات دیتی پر فیوم نظرآ تی تھی تو کہیں پگھلے ہوئے سونے کی مانند سنہرے رنگ کی پرفیوم بوتل میں بند گاہکوں کو اپنی جانب بلا رہی تھی۔ ایک بوتل نے اسے اپنی جانب متو جہ کر لیا جسے کاؤنٹر کے پاس مو جود سیلز گرل تھامی ہوئی تھی۔ وہ ہلکے گلابی رنگ کی خوشنما سی پھول کے ڈیزائین کی بنی کانچ کی بوتل تھی جس پر لگا ڈھکن کسی سونے کی انگوٹھی سے مشابہت رکھتا تھا۔
اس وقت سیلز گرل ایک خاتون کی ہتھیلی پر اس کا اسپرے کر رہی تھی۔ اسی خوشبو نے مہرین کو رُک جانے پر مجبور کر دیا تھا، مہرین نے غور سے اس خا تون کی طرف دیکھا جو اب ہتھیلی کو ناک کے قریب لے جا کر نخوت سے ناک بھوں چڑھا رہی تھی۔
کھڑ ے کھڑے نقوش، تازہ تازہ اسٹریٹ کیے گئے خوبصورت تراشیدہ بال، لان کا مہنگا سا سوٹ پہنے، ہاتھ میں جڑاؤ پتھروں سے مزین میچنگ کلچ تھامے اور پرل کی نازک سی جیولری پہنے وہ مغرور سی نظر آ نے والی عورت اسے پہلی ہی نظر میں احسا س کمتری کا شکار کر گئی۔
یہ تو یقیناً پیسوں میں کھیلتی ہو گی! اس نے حسد سے سو چا۔
کاش، ہم اپنی اپنی زندگی ایک دوسرے سے تبدیل کر سکیں۔ مگر اگلے ہی لمحے اسے خود پر جان چھڑکنے والا شوہر اور پیارے پیارے بچے یاد آئے تو وہ شرمندہ ہو گئی ۔
مجھے اپنی زندگی سے کوئی شکایت نہیں لیکن گر تھوڑا سا پیسہ بھی ہوتا تو یہی زندگی مزید حسین ہو جاتی ۔ وہ وہاں سے سر جھکائے آ گے بڑھ گئی۔
اگلا سیکشن گھریلو استعمال کی چھوٹی مو ٹی چیزوں کا تھا۔ مہرین اس امیر عورت کی طرح مہنگے پرفیوم تو نہیں خرید سکتی تھی مگر اس نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر دو، تین امپورٹڈ ائر فریشنرز اُٹھا کر اپنی ٹرالی کی نذر کر دئیے۔ برتن دھونے والا صابن ہاتھ کی جلد کو کتنا سخت اور رو کھا بنا دیتا ہے، اس نے وہاں رکھے عمدہ معیار کے امپورٹڈ ڈش واشنگ لیکوئیڈز کو دیکھ کر بےساختہ سوچا اور ان میں سے ایک کا انتخاب کر کے ٹرالی میں رکھ دیا۔ اب اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی، وہ عورت اور اس کے امیرانہ ٹھاٹ باٹ مہرین کے حواسوں پر سوار ہو چکے تھے۔
اونہہ، یہ بھی کوئی زندگی ہے!
چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے بھی دل کو مار کے گزارا کرو اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو دونوں ہاتھوں سے پیسے خرچ کریں تب بھی ان کے پاس کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ اب اس کے سامنے کپڑوں کو کلف لگانے والا اسپرے مو جود تھا ۔ اپنے اور میاں کے کپڑوں کو ہاتھ سے کلف لگا کر رگڑ رگڑ کر استری کرتے دانتوں پسینہ آ جاتا ہے، اس نے ایک اسپرے منتخب کر کے ٹرالی میں ڈال دیا۔
بے شک میں اس عورت کی طرح پیسے والی نہیں تو کیا ہوا، کم از کم اتنی غریب بھی نہیں کہ یہ چھوٹی مو ٹی چیزیں بھی نہ خرید سکوں۔ میرا بھی زندگی پر اتنا ہی حق ہے جتنا اس عورت کا اپنی زندگی پر۔
پھر مہرین مختلف سیکشنز سے ہوتی اور چھوٹی موٹی خریداری کرتے ہوئے منجمد اور غیر منجمد کھانوں کے سیکشن تک پہنچ گئی۔ رنگ برنگے اور خوبصورت ڈبوں میں موجود کھانوں نے اسے ٹھٹھک جانے پر مجبور کر دیا۔ ایک طرف کارن فلیکس کے ڈبے پر ایک بڑا سا بھالو ہاتھ ہلا کر اسے چڑا رہا تھا تو دوسری طرف نوڈلز کے ڈبے پر ایک خو ش باش خاندان کی تصویر کے نیچے درج تھا۔
آپ کی فیملی کے لیے ، بین الاقوامی معیار کے مز یدار نوڈلز اس کے بالکل سامنے ایک وسیع و عریض فریزر میں دنیا جہاں کے کھانے موجود تھے۔ پیزا، برگر، سموسے، نگٹس ، اسپرنگ رولز ،چپلی کباب اور نجانے کیا کیا۔ مہرین یکے بعد دیگر ے پیکٹس اُٹھا کر دیکھنے لگی ۔ ساتھ ساتھ اس کا ذہن بھی چل رہا تھا۔
اگر میں نگٹس کا پیکٹ لے جاؤں تو بچے کتنا خوش ہو جائیں گے۔ بچارے ویسے بھی دوسرے بچوں کی طرح ضد نہیں کرتے ، جو بھی کھلاؤ نخرے دکھائے بغیر کھا لیتے ہیں۔ ورنہ آ ج کل کے بچے تو
اس کے خیالات کو مسحور کن خوشبو نے توڑا۔ اس نے ذرا سا سر اُٹھا کر دیکھا تو اس کے دائیں ہاتھ پر وہی عورت ٹرالی دھکیلتی آ کھڑی ہوئی تھی جس کو دیکھ کر مہرین کے دل میں بے ساختہ آئی رشک وحسد جنم لے لیتا تھا۔ اس نے کن اکھیوں سے دیکھا تو وہ اپنی ٹرالی میں پران رولز رکھتی نظر آ ئی۔ پھر وہ ایک ایک کر کے کٹلٹس، سیخ کباب ،میٹ بالز اور اسی طرح کی دیگر اشیاء سے اپنی ٹرالی بھرنے لگی۔ امارات اس کے رکھ رکھاؤ سے ظاہر ہو رہی تھی۔ مہرین نے ایک بار پھر حسرت سے سوچا۔
اس کے پاس تو دولت کی ریل پیل ہے۔ اسے میری طرح بجلی، گیس کے بل اور بچوں کی اسکول فیس کی فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہو گی۔ اس کو تو علم بھی نہیں ہو گا کہ یوں سسک سسک کر زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔
مہرین نے بھی اس کی دیکھا دیکھی تین ،چار پیکٹس اُٹھا کر اپنی ٹرالی میں ڈالے اور مضمحل سے قدم اُٹھاتی کاؤنٹر کی جانب بڑھ گئی۔
جب تک کیشئیر چیزوں کا حساب کرتا رہا وہ ایسے ہی خیالوں میں ڈوبتی اُبھرتی رہی، بار بار اس کی نظروں کے سامنے اسی دولتمند عورت کا سراپا لہرا رہا تھا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پا رہی تھی۔
’’ پانچ ہزار،آ ٹھ سو تیس روپے‘‘
کیشئیر کے الفاظ اس کی سماعت پر کسی بم کی طرح پھٹے اور اور ایک ہی لمحے میں اسے خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں لا پٹخا ۔ مہرین کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا اسی لیے اس نے دوبارہ پو چھا۔
’’ کتنے کا بل بنا ہے؟ ‘‘
اس بار کیشیئر کی آ واز میں ہلکی سی بیزاری تھی۔
’’ پانچ ہزار، آ ٹھ سو تیس روپے میڈم!‘‘
اس نے لفظ میڈم پر زور دے کر کہا۔ مہرین نے بے اختیار پرس کی جانب ہاتھ بڑھایا مگر فوراً ہی اسے یاد آ گیا کہ اس کے پرس میں اتنی رقم نہیں ہے پھر ان گنتی کی چیزوں کا جتنا بل بنا تھا اتنے میں تو اس کے گھر پورے مہینے کا سودا پڑتا تھا۔
مہرین کو اپنی خود اعتمادی اور عزت نفس کی دھجیاں اُڑتی محسوس ہوئیں۔ کتنی شرمندگی کی بات تھی کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے جتنے کی اس نے شاپنگ کر ڈالی تھی۔ نجانے وہ کس دھن میں مگن تھی جو اتنی بڑی بیوقوفی کر دی۔ اس نے پلٹ کر قطار کو دیکھا تو اپنے پیچھے باری کے انتظار میں اسی امیر عورت کو کھڑے پایا۔ شرمندگی اور بے عزتی کا احساس دو چند ہو گیا، اب میں اس کے سامنے بولوں گی کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ میرے بارے میں کیا سوچے گی۔
’’ یا اللہ ! کیا کروں؟‘‘
کیشئیر اس وقت خاموشی سے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا اور مہرین کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ اس بات کو بمشکل ایک منٹ ہی گزرا تھا مگر مہرین کو یوں محسوس ہو رہا تھا گویا وہ یہاں صدیوں سے کھڑی ہے۔ اچانک اسے سامنے ایک صاحب اپنی ٹرالی سنبھالتے گلاس ڈور کی جانب بڑھتے نظر آ ئے ۔ وہ ایک لمحے کو رُکے اور اپنا کریڈٹ کارڈ والٹ میں رکھ کر پھر سے آ گے بڑھ گئے۔
یہ مہرین کے لیے گویا قدرت کی طرف سے اشارہ تھا۔ اس نے اپنے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھا اور کیشیئر کی جانب مڑ گئی۔ اب اس کا اعتماد بحال ہو چکا تھا۔ اس نے دانستہ طور پر چند لمحے اپنے پرس کو کھنگالنے میں صرف کیے پھر معذرت خواہانہ سے لہجے میں بولی۔
اوہ معاف کیجیے گا، لگتا ہے میں آ ج جلدی میں اپنا کریڈٹ کارڈ گھر پر ہی بھول آ ئی ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں، آ پ میری شاپنگ ایک طرف سنبھال کر رکھ دیجیے ، میں شام کو کسی وقت آ کر لے جاؤں گی یا پھر اپنے شوفر کو بھیج دوں گی، وہ آ کر آ پ سے سامان لے جائے گا۔
اپنی بات مکمل کر کے مہرین ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر آ گے بڑ ھ گئی ۔اس نے ایک بار بھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا کیونکہ اب وہ حقیقت کی دنیا میں واپس آ چکی تھی۔ اسے سبق مل چکا تھا اور اس نے خود سے عہد کیا تھا کہ دوبارہ کبھی اپنی بے سروپا خوا ہشات کے آ گے گھٹنے نہیں ٹیکے گی ، خود کو لامتناہی تمناؤں کا غلام نہیں بننے دے گی ورنہ اس کے ہاتھ صرف دکھ اور پچھتاوے ہی آ ئیں گے۔
۞۞۞۞۞
مہرین کے پیچھے کھڑی اس’ امیر‘ عورت نے کاٹن کے بہترین کلف لگے سوٹ میں ملبوس، بے داغ جلد اور گھنے بالوں کا موٹا سا جوڑا بنائے پر اعتماد سی عورت کو گلاس ڈور کی جانب بڑھتے دیکھا جس نے چند لمحے قبل کاؤنٹر پر اپنا کریڈٹ کارڈ نہ ہونے کے سبب معذرت کی تھی۔
یقیناً اس صورتحال میں گھبرانے کے بجائے جس اعتماد سے اس نے کیشئیر سے بات کی تھی وہ اس کی بے تحاشا دولت نے ہی اسے عطا کیا ہے ورنہ اگر میں اس کی جگہ ہوتی تو میرا احساس کمتری مجھے ذلیل کروا کر ہی چھوڑتی۔‘‘
اس نے رشک سے سوچا۔ گو آ ج اس نے اپنی محدود وراڈروب میں سے سب سے بہترین سوٹ نکال کر زیب تن کیا تھا جو اس نے لگا تار چھے ماہ کی بچت کے بعد خریدا تھا ۔میچنگ نقلی پرل کا سیٹ اس نے کریم آباد سے سیل میں خریدا تھا اور بال آ ج صبح ہی پڑوسن سے اسٹریٹنر مستعار لے کر سیدھے کیے تھے مگر اتنے اہتمام کے باوجو وہ خود کو اتنا پر اعتماد محسوس نہیں کر رہی تھی جیسا اس نے اپنے آ گے کھڑی ’دولتمند‘عورت میں نوٹ کیا تھا۔
’’اس کی جلد کیسی چمک رہی تھی اور بال کتنے خوبصورت تھے۔
ہاں بھئی! ان پیسے والی عورتوں کے پاس تو فرصت ہی فرصت ہوتی ہے پھر بے تحاشا دولت بھی کسی نہ کسی مصرف میں تو لانی ہے، آ ئے روز پارلر کے درشن کریں گی تو لشکارے تو ماریں گی ہی! ہماری طرح تھوڑی کہ تین ماہ میں ایک بار بھی پارلر جاتے ہوئے بھی دس مرتبہ سو چیں۔
‘‘ اس نے کلس کر سوچا۔’’
اگر اس عورت کو بھی میری جیسی محرومیوں بھری اور ایک ایک پیسہ بچاتے ہوئے زندگی گزارنی پڑجائے تو پھر دیکھوں گی کہاں جاتا ہے یہ حد سے بڑھا ہوا اعتما د اور یہ بھرم!
اتنی دیر میں کیشیئر حساب مکمل کر کے کسی روبوٹ کی طرح بولا۔
’’آٹھ ہزار، چھ سو ساٹھ روپے!‘‘
اس عورت نے ان خیالات کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے پلاسٹک کے نقلی پتھروں سے مزین کلچ کھولا اور اپنی دو ماہ کی بچت اور میاں کو بونس کی مد میں ملنے والی رقم نکال کر کیشیئر کو تھما دی ۔
۞۞۞۞