23 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

کوپن ہیگن کی سب سے معروف گلی اسٹور گیٹ

خوش و خرم لوگوں کا ملک 
ڈنمارک

اٹھارواں حصہ

کوپن ہیگن کی سب سے معروف گلی اسٹورگیٹ

طارق محمود مرزا، سڈنی

سٹی ہال کے قریب ایک ایسی گلی ہے جہاں کوپن ہیگن آنے والا ہر سیاح لازمی چہل قدمی کرتا ہے۔ اسٹور گیٹ نامی۱۱۱۱میٹر طویل یہ گلی یورپ میں پیدل چلنے والی سب سے لمبی گلی ہے۔
کوپن ہیگن میں پیدل چلنے والوں کے لیے مزید کئی گلیاں ہیں مگر جو شہرت اسٹور گیٹ کو حاصل ہے وہ کسی اور گلی کو نہ مل سکی۔ ہر قسم کی خریداری، خوردو نوش ا ور مٹرگشت کے لیے کوپن ہیگن میں اس سے بہتر جگہ نہیں ہے۔
ویسے تو یہ۱۱۱۱ میٹر طویل ہے مگر اس کی ذیلی گلیاں جو اسی کی طرح صرف پیدل چلنے کے لیے مخصوص ہیں کو شامل کر لیا جائے تو یہ شیطان کی آنت کی طرح پھیل جاتی ہے۔ جس کا مکمل احاطہ کرنے کے لیے جوان اورمضبوط ٹانگوں کی ضرورت ہے۔ راجہ غفور اور میں دونوں نوجوان نہیں تھے اس لیے اسٹور گیٹ میں ناک کی سیدھ میں آخر تک چلتے چلے گئے۔
اگرچہ پیدل چلنے میں مجھے بھی کوئی عار نہیں ہے بلکہ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ چلنے کی عادت ہے مگر راجہ غفور صاحب عمر میں بڑا ہونے کے باوجود مجھ سے زیادہ توانا نکلے۔ یا پھر انہوں  نے اس تکان کا اظہار نہیں کیا جو کئی گھنٹے مسلسل چلنے کے بعد مجھے محسوس ہو رہی تھی۔
پتھروں کے فرش پر مشتمل یہ گلی ہر قسم کی ٹریفک سے پاک اور پاپیادہ افراد سے بھری تھی۔ دنیا بھر سے آئے سیاح مرد اور عورتیں، بوڑھے اور نوجوان اور بچے اس تاریخی گزرگاہ کے دلکش نظاروں اور رنگین فضا سے پوری طرح محظوظ ہو رہے تھے۔ جگہ جگہ کیفے، بار، ریستوران کھلے تھے۔ کھانوں اور مشروبات کی مہک گلی میں محسوس ہوتی تھی۔
علاوہ ازیں یہاں نوادرات، ملبوسات، زیورات، پھل اور پھول، سووینئیر اور دیگر ہر قسم کی اشیا فروخت ہو رہی تھیں۔ موسیقی کی دُھنیں بکھیرتے گٹارسٹ، اسٹریٹ سنگر، تاریخ کے اوراق دکھانے والے عجائب گھر اور آرٹ گیلریاں تھیں۔ سیاح اپنی من پسند تفریحات اور خریداری میں مشغول تھے۔ کچھ ہماری طرح ونڈو شاپنگ کرنے والے بھی تھے۔
یورپ میں آسٹریلیا کی نسبت ہر شے گراں ہے۔ پھر بھی میں نے کچھ اشیا خرید لیں تاکہ اس شہر اور ملک کی یادگار رہے۔ اسٹور گیٹ سے اسی قسم کی خریداری کے بعد میری پشت پر موجود بیگ میں دو اڑھائی کلو کا اضافہ ہو گیا ۔
میں ڈنمارک اور سویڈن میں خریداری میں محتاط تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے آسٹریلیا سے ڈنمارک کے بین الاقوامی سفر میں تیس کلو سامان لانے کی گنجائش تھی۔
ناروے سے آسٹریلیا واپسی میں بھی سامان کی حد اتنی تھی۔ مگر ڈنمارک سے سویڈن اور سویڈن سے ناروے کے درمیان یہ گنجائش گھٹ کر بیس کلو ہو جاتی تھی۔ لہٰذا ڈنمارک اور سویڈن کی حد تک محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔
ایسے اندیشہِ ہائے دُور دراز مسافر کے ہمراہ رہتے ہیں۔ ان سے نجات گھر پہنچ کر ہی ملتی ہے۔ ایسے طویل سفر کا ہر دن مسافر کے لیے ایک امتحان کی طرح ہوتا ہے۔ اگر وہ دن بخیر و عافیت گزر جائے تو یہ بھی کامیابی ہے۔ کیونکہ دورانِ سفر ایسے کئی ناگہانی مسائل پیش آسکتے ہیں جو نہ صرف سیاحت کا مزہ کرکرا کر سکتے ہیں بلکہ سیاح کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔
خصوصاً جب یہ سفر ایک سے زائد ملکوں کا ہو تو خدشات بلکہ خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے آپ گھر سے ہزاروں میل دور کسی اجنبی دیس کی خاک چھان رہے ہوں تو آپ کا پرس نقدی، اہم کاغذات یا پاسپورٹ کھو جائے تو آپ پر کیا بیت سکتی ہے۔ یا دوران ِسفر طبیعت خراب ہو جائے تو کیا حالت ہو گی۔ اسی لیے سفر اسی وقت تک وسیلہ ظفر ہے جب یہ صحت و سلامتی اور خیر و عافیت کے ساتھ ہو ورنہ یہ انگریزی والا سفر بھی بن سکتا ہے۔ جب تک سفر میں ہوں اس پریشاں فکری سے نجات ممکن نہیں۔
اسٹور گیٹ سٹریٹ کی رونقیں اور حسینائوں کے جلوے دیکھ کر راجہ غفور کو جوانی کے وہ ایام یاد آگئے جب وہ نئے نئے ڈنمارک آئے تھے۔ ٹھنڈی سانسبھر کر کہنے لگے
آج ایک عرصے بعد اس گلی میں آ کر مجھے نوجوانی کا دور یاد آ گیا جب ہم دوستوں کے ساتھ روزانہ یہاں آ کر بیٹھتے تھے۔ چوک میں بادشاہ فریڈرک چہارم کے سنگی مجسمے کے ساتھ رکھے بنچوں پر گھنٹوں بیٹھے ماحول کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
میں نے کہا، اس وقت راجہ صاحب پوٹھوہار کے گبھرو جوان تھے۔ صرف سنگی کرسیوں پر بیٹھنے تک معاملہ محدود نہیں ہو گا۔ یہاں بے شمار ڈینش حسینائیں آتی ہیں۔ کئی کہانیاں جنم لیتی ہوں گی۔
راجہ غفور کی آنکھیں ان کے دبیز چشمے کے پیچھے چمک اٹھیں۔ گھنی مونچھوں کے نیچے ہونٹ مسکرائے، بولے
مرزا صاحب کیوں دبی راکھ کریدتے ہو۔ اس عمر میں ایسی باتیں کرتے شرم آئے گی۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ یہاں بیٹھنے کا مقصد یہی ہوتا تھا۔
تو پھر اس دھرنے پر کوئی ٹرافی ملی؟
صرف ٹرافی! ٹرافیاں کہیں۔ ہم میں سے ہر ایک نے ایسی بہت سی ٹرافیاں سمیٹیں۔ وہ بہت مشکل دور تھا مگر ہم نے ڈنمارک کا ہر رنگ اور ہر ذائقہ چکھا ہے۔ جسمانی مشقت کے باوجود خوشگوار وقت گزارا۔ کچھ دوستوں  نے گوریوں سے شادیاں رچا لیں ۔ کچھ یورپ کے رسم و رواج کے مطابق عارضی بندھن تک محدود رہے۔ بہرحال اکثریت کو ڈینش خواتین کی وجہ سے شہریت ملی۔
اس دور کے بارے میں مزید بتائیے۔ یہاں کتنے پاکستانی تھے اور ان کے کیا حالات تھے؟
میں جب ۱۹۸۲ء  میں ڈنمارک آیا تو یہاں بہت کم پاکستانی تھے۔ ان کے درمیان بھی رابطے نہیں تھے۔ خصوصاً غیر قانونی تارکینِ وطن کو دیکھ کر لوگ دور بھاگتے تھے۔ مسجد یا کسی اور جگہ آمنا سامنا ہوتا تو کترا کر نکل جاتے۔ میں بھی ان نوواردوں میں شامل تھا۔ آئے دن گھر بدلتے رہتے تھے۔
اگر کسی سرکاری محکمے میں پتا دینا ہوتا تومشکل پیش آتی تھی۔ اپنا مستقل ٹھکانہ نہیں تھا اور قانونی مقیم اپنا پتا دینے سے گریزاں تھے۔ ایسے میں ڈینش عورتیں پاکستانیوں کے بہت کام آئیں۔ یہ سیدھی سادھی بلکہ بھولی بھالی تھیں۔ ان کے ذریعے کئی لوگ یہاں سیٹ ہو ئے ۔
شہریت ملنے کے بعد کتنے فیصد لوگوں نے ان عورتوں کو چھوڑ دیا؟
اکثریت نے انہیں چھوڑ کر پاکستان جا کر شادیاں رچا لیں۔ کئی لوگوں کے ان ڈینش عورتوں سے بچے بھی تھے۔ بہرحال یہ زیادتی بے شمار لوگوں نے کی۔
’’ایسا کوئی واقعہ یاد ہے؟‘‘
اس سنگی بنچ پر بیٹھ کر میں راجہ غفور سے نصف صدی قبل والے ڈنمارک کی دلچسپ باتیں سن رہا تھا۔ انہوں  نے گرد و پیش پر طائرانہ نگاہیں ڈالیں اور بولے
اب مجھے آپ کے اندر کا ادیب اور صحافی واضح نظر رہا ہے۔ جہاں تک واقعات کا تعلق ہے۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ ہمارا ایک دوست ستّر کی دہائی کے آغاز میں وزٹ ویزے پر یہاں آیا۔ یہ وزٹ ویزہ تو ایک سہارا تھا ورنہ اس کا واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔
وہ اپنے اور اہل خانہ کے معاشی حالات سدھارنے آیا تھا۔ ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد وہ غیر قانونی طور پر یہاں رکا رہا۔ چھپ چھپا کر کام بھی کرتا تھا اور مستقل رہائش کے ویزے کی کوشش بھی کر رہا تھا، مگر یہ آسان نہ تھا کیونکہ نہ تو وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا نہ ہنر مند تھا۔ اس دوران اسے گرفتار کرنے کے لیے اس کے گھر اور اس فیکٹری میں چھاپے پڑے جہاں وہ کام کرتا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ بچتا رہا، لیکن ایسا بہت دیر تک ممکن نہیں تھا۔
اسی دوران کسی نائٹ کلب میں اس کی ایک ڈینش لڑکی سے ملاقات ہوئی جو پہلے دوستی، پھر محبت اور بالآخر ازدواجی رشتے میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوست اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ جس لڑکی سے اس کی شادی ہوئی وہ نہ صرف ہمارے دوست سے کم عمر بلکہ انتہائی حسین تھی۔
سونے پر سہاگہ وہ انتہائی پُرخلوص اور محبت کرنے والی تھی۔ ڈینشن لڑکی سے شادی کے بعد دوست نے شہریت کے لیے درخواست دے دی۔ بدقسمتی سے یہ درخواست رد کر دی گئی۔ ہمارے دوست کو عدالت میں ہی گرفتار کر لیا گیا۔ اس کی وجہ اس کا داغدار ماضی تھا۔ قانون کا بھگوڑا ہونے کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑوں کے مقدموں میں بھی ماخوذ تھا۔ ڈینش بیوی نے عدالت میں ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔
اس کی آہ وبکا سن کر جج بھی متاثر ہوا مگر وہ قانون کے ہاتھوں مجبور تھا۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ذریعے یہ کہانی اخبارات اور ٹی وی کی زینت بن گئی۔
یہ ڈینش لڑکی دولت مند والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے والدین شروع میں اس رشتے کے مخالف تھے۔ تاہم بیٹی کی خوشی کی خاطر بالآخر اس رشتے پر راضی ہو گئے۔ انہوں  نے داماد کی رہائی اور اُسے ڈینش شہریت دلانے کے لیے وکیل کا بندوبست کیا تھا، مگر یہ تمام کوششیں لا حاصل گئیں اور عدالتی حکم کے مطابق ہمارے دوست کو ملک بدر کرنے کا دن آگیا۔ اس کی بیوی نے ہمت نہیں ہاری۔
وہ ایئرپورٹ جا کر پولیس اور امیگریشن حکام کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے واویلا کر کے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ اس کی وجہ سے ذرائع ابلاغ کے نمائندے وہاں پہنچ گئے۔ لڑکی نے اعلان کر دیا کہ اگر میرے شوہر کو مجھ سے جدا کیا گیا تو میں یہیں خود کشی کر لوں گی اور اس کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔
لڑکی کی سنجیدگی دیکھ کر حکام خوف زدہ ہو گئے۔ انہوں نے ہمارے دوست کو واپس جیل بھیج دیا۔ فائل دوبارہ کھل گئی۔ فائل کیا کھلی ہمارے دوست کی قسمت کا در کھل گیا۔
نچلے متوسط طبقے سے متعلق رکھنے والا ہمارا دوست پاکستان واپس چلا جاتا تو اس کا مستقبل تاریک ہو جاتا۔ تعلیم اور سرمائے کے بغیر بے روزگاری کی آگ میں جل کر خاکستر ہو جاتا اور اس کے اہل خانہ غربت کی چکی میں پستے رہتے۔
اس کی بیوی کی وفا، اس کی جدوجہد، اس کی دعائیں اور اس کے سسرال کا سرمایہ رنگ لایا اور بالآخر اسے ڈنمارک کی شہریت مل گئی۔
کاغذ کے اس ٹکڑے سے اس کی اور اس کے خاندان کی قسمت بدل گئی۔ اس کے دو بھائی ڈنمارک آ گئے۔ دو پاکستان میں کاروبار کرنے لگے۔ بہنوں کی شادیاں ہو گئیں اور ماں باپ کا حج ہو گیا۔ ان کا خاندان علاقے بھر میں متمول مشہور ہو گیا۔
ادھر ہمارے دوست نے چار پانچ برس جوان اور حسین ڈینش بیوی اور اس کے باپ کی دولت کے مزے لوٹے۔ پانچ برس بعد وہ پاکستان گئے اور وہاں سے بیوی کو طلاق بجھوا دی۔ دو تین ماہ بعد ڈنمارک واپس آئے تو بگھارے پراٹھے پکانے والی پاکستانی بیوی ساتھ لے آئے۔
ان کی پاکستانی بیوی سانولے رنگ اور واجبی سی شکل کی ہیں۔ جن لوگوں نے ان صاحب کی ڈینش بیوی دیکھ رکھی تھی اور اس کی وفا کے قصے سے آگاہ تھے وہ انگشتِ بدنداں رہ گئے۔ لوگوں  نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے۔ ’’دراصل میری بیوی تو بہت اچھی تھی لیکن ہمارے ہاں اولاد نہیں ہے۔
اس لیے دوسری شادی کی ہے۔‘‘
پاکستانی بیوی سے شادی کواب پچیس برس گزر چکے ہیں۔ ابھی تک ان کے ہاں اولاد نہیں ہے۔ ادھر ان کی سابقہ ڈینش بیوی نے دوسری شادی کر لی اور اس کے تین بچے ہیں۔ گویا اولاد نہ ہونے کی وجہ یہ صاحب خود تھے۔ اس کی معصوم بیوی کا اس میں کوئی دوش نہیں تھا۔ وفا کی اس دیوی نے آخر دم تک پاسِ وفا نبھائی مگر بدلے میں کیا ملا

؎ وفا جس سے کی بے وفا ہو گیا
جسے بت بنایا خدا ہو گیا

یہ کہانی سن کر میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے ہاں ایک بڑا طبقہ یورپی عورتوں کو بے وفا، طوطا چشم اور ہرجائی قرار دیتا ہے۔ جو محض غلط فہمی، تعصب اور پروپیگنڈے کی وجہ سے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں شادیاں محبت کی بنا پر اور محبت وفا پر استوار ہوتی ہے۔ جہاں محبت ختم ہوتی ہے وہاں شادی بھی باقی نہیں رہتی کیونکہ یہ لوگ منافقانہ زندگی نہیں گزارتے۔ محبت اور وفا کسی ایک قوم اور ملک کی جاگیر نہیں ہے۔ یہ دولت قدرت کسی کو بھی عنایت کر سکتی ہے۔
یہ محبت ہی تھی جس نے اس ڈینش حسینہ کو اتنی قربانی، اتنا انتظار اور اتنی جدوجہد کرنے پر مجبور کیا۔ یہ محبت ہی تھی کہ میاں ڈیڑھ برس تک جیل میں رہا اور وہ اس کی رہائی کی تگ و دو کرتی رہی۔ یہ محبت ہی تھی جس نے اسے والدین، معاشرے اور قانون سے ٹکر لینے کی ہمت عطا کی۔
ادھر وہ شخص کتنا بدقسمت تھا کہ جسے اتنی محبت نصیب ہوئی مگر اس نے اس کی قدر نہیں کی۔ جس نے جھوٹی محبت کا ڈھونگ رچا کر کسی معصوم کا دل دکھایا۔ اسے اپنی زندگی سے یوں دور کیا جیسے کوئی بچہ کھلونے سے کھیل کر اور اکتا کر پھینک دیتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے شخص کا ضمیر اسے کیسے جینے دیتا ہے؟ اسے نیند کیسے آجاتی ہے؟ کل وہ اپنے خالق و مالک کو کیا جواب دے گا؟ ۔
اسٹور گیٹ میں کافی دور تک چہل قدمی کے بعد میں نے راجہ غفور سے کہا ۔’’اس افسانوی گلی کو میں نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔ اب واپس چلتے ہیں۔
بالکل ٹھیک ہے۔ آگے اس سے مختلف نہیں ہے۔ واپس چل کر کار میں بیٹھ کر کہیں اور چلتے ہیں۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles