23 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

فلمی موسیقار شمیم نازلی اور نامور پلے بیک سنگر مالا بیگم

نامور پلے بیک سنگر مالا بیگم
(1947 سے 5 مارچ 1990)
اور
پاکستان کی واحد خاتون فلمی موسیقار شمیم نازلی
( 1943 سے 27 نومبر 2010)
کے بارے میں
مالا بیگم کی بیٹی نائلہ سے گفتگو

تحریر شاہد لطیف

رواں سال ماہ اکتوبر میں میرا لاہور جانا ہوا۔جہاں اور کرنے کے کام تھے وہاں مجھے ایک ایسی شخصیت سے بات چیت کرنا تھی۔
جس کی والدہ اور خالہ دونوں پاکستان فلمی دنیا کی نامور ہستیاں گزری ہیں۔
دونوں کا کام لازم و ملزوم تھا۔جس طرح دونوں بہنیں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑی ہوتی ہیں بالکل ویسے ہی ان دونوں کے شعبے بھی ایسے تھے کہ ایک کے بغیر دوسرا ادھورا۔
جی ہاں! گلوکارہ مالا بیگم اور اُن کی بڑی بہن موسیقار شمیم نازلی صاحبہ۔ اس گفتگو کے منتخب نکات پڑھنے والوں کے لئے حاضر ہیں:

نائلہ کی گفتگو:
میرا نام نائلہ ہے ۔پاکستان کی نامور گلوکارہ مالا بیگم میری والدہ ہیں۔
جب میں پیدا ہوئی تو اُس وقت فلم ’’ نائلہ ‘‘ ریلیز ہوئی تھی ۔
اسی زمانے میں فلم کے ڈائریکٹر کے ہاں اور فلم کی ہیروئین کے ماموں کے گھر بھی بیٹیاں ہوئیں۔ اِن تینوں بیٹیوں کے نام نائلہ رکھے گئے۔

’’ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس دور کے جتنے بھی میوزک ڈائریکٹر تھے،
وہ ہمارے گھر آتے اور والدہ کو ریہرسل کرواتے تھے۔
جیسے نذیر علی ، ایم اشرف ، ماسٹر عنایت حسین ، اے حمید ۔پھر بہت سارے نامور فلمی شاعر اور گلوکار آتے تھے۔
ان میں امجد اسلام امجد، مہدی حسن، پرویز مہدی اور میڈم نورجہاں شامل ہیں۔
میڈم کی ویسے بھی میری امی سے بڑی محبت اور دوستانہ تھا ۔
ہمارا اُن کے ہاں اور اُن کا ہمارے آنا جانا تھا۔
پھر اُس دور کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ہمارے ہاں آتے تھے۔وہ بڑا اچھا دور تھا ‘‘۔

’’ تمہیں بھی گانے کا شوق ضرور ہو گا۔کیا تمہاری امی حوصلہ افزائی کرتی تھیں ؟ ‘‘۔
وہ بالکل بھی نہیں چاہتی تھیں کہ میں اس میدان میں قدم رکھوں۔
انہوں نے میرے پڑھنے لکھنے پر ہی تمام توجہ رکھی۔
میں نے تو بچپن سے ہی سُر والے ماحول میں آنکھ کھولی ۔
گھر میں ایسی محفلیں بھی ہوتی تھیں۔ میں دیکھتی اور سنتی رہتی تھی۔ سُر تال سمجھتی بھی تھی۔
اکثر میوزک ڈائریکٹر اور شاعر جب ہمارے گھر کسی گانے کی دھُن بناتے تو مجھے بچہ سمجھ کر پوچھتے کہ گانا کیسا تھا یا دُھن کیسی بنی ؟
اگر مجھے اچھی لگتی تو کہہ دیتی اور کوئی بات پسند نہیں آتی تو اُس کا بھی برملا اظہار کر تی ۔
میری خالہ جان اکثر کوئی نئی دُھن بناتیں تو خود مجھ سے اس کے بارے میں پوچھتیں ‘‘۔

 تمہاری امی نے تو تمہاری گانے سیکھنے کو منع کر دیا لیکن کبھی خالہ جان سے اس خواہش کا اظہار کیا ؟ ‘‘۔
ہاں !! ایک مرتبہ وہ اپنی کوئی دُھن بنا رہی تھیں ۔
میں نے اُن کے پاس سے گزرتے ہوئے کہا کہ آنٹی آپ مجھے بھی تھوڑا سا سِکھا دیں ! مجھے بہت شوق ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ آؤ بیٹھو۔میں بیٹھ گئی۔
ابھی میں نے شروع ہی کیا کہ میری والدہ کے کانوں میں آواز گئی اور وہ غصّہ میں آ گئیں۔جوتی ہاتھ میں پکڑ لی اور مجھے بےحد ڈانٹا اور کہا کہ تم اِس فیلڈ کو نہیں جانتیں۔
میں نے تو یہاں اپنے آپ کو مَردوں کی طرح رکھا اور مردوں کی طرح کام کیا اور اپنی عزت کروائی ہے۔
میں نہیں چاہتی کہ تم اِس فیلڈ میں جاؤ ! تم ابھی بچی ہو۔
لوگوں کو نہیں پہچانتی۔یہ سب لوگ اچھے ہیں، لیکن جو آگے آنے والے ہیں اُن کے مزاج کچھ اور ہیں۔تب تک پتا نہیں ہم ہوتے ہیں کہ نہیں …تو انہیں کون سمجھے گا !!

خیر میری سمجھ میں یہ بات آ گئی اور میں نے پھر اس طرف دھیان نہیں دیا۔
پھر میری چھوٹی عمر میں شادی ہو گئی۔
تب دوبارہ مجھے شوق پیدا ہوا اور میں نے امی سے کہا کہ اب مجھے سیکھنے دیں۔
انہوں نے کہا کہ تمہارا شوہر اجازت دیتا ہے تو بے شک اپنے شوق کی حد تک سیکھ لو، لیکن اس فیلڈ میں نہ آنا !

انہوں نے مجھے تھوڑا سا سُنا تو بولیں کہ ہاں تم گا سکتی ہو !!
یہ وہ وقت تھا جب میری امی کو فالج ہوا تھا اور وہ ٹھیک سے بول نہیں سکتی تھیں۔
اُن کی اجازت سے میں نے گانے کی مشق شروع کر دی۔
کچھ عرصہ مشق کی پھر گھریلو مصروفیات آڑے آ نے کی وجہ سے چھوڑنا پڑا۔
حالاں کہ اس دوران میں نے پی ٹی وی کے کچھ پروگرام کئے۔

پھر جب بچے کچھ بڑے ہوئے تو انہوں نے بھی کم و بیش یہ ہی بات کہی کہ آپ کا یہ مز اج نہیں ۔آپ یہ کام نہیں کر سکتیں۔
پھر میں نے یہ سیکھنا سکھانا چھوڑ دیا لیکن اب بھی میرے دل میں گانے کا شوق موجود ہے۔
اب میرے بچے مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ یہ کام کرلیں،
مگر اب وہ بات نہیں۔ پہلے بات اور تھی !! ‘‘۔

’’ تمہاری امی نے تم کو لوریاں سُنائیں ؟ ‘‘۔
جی ہاں …بے شُمار !! میں تو اُن کے بغیر سوتی ہی نہیں تھی۔
وہ خود بتاتی تھیں کہ میں ساری رات کھیلتی رہتی تھی ۔
پھر وہ بھی آ کر میرے ساتھ کھیلتیں تب کہیں جا کر میں سوتی۔
وہ گانے تو سناتی ہی رہتی تھیں۔
جب میں ٹِین ایج میں تھی تب ایک وقت ایسا بھی آیا کہ
وہ میری امی سے زیادہ میری دوست ہو گئیں ‘‘۔

’’ کیا وہ اس سے پہلے ’ کَڑک ‘ تھیں ؟ ‘‘۔
وہ اپنے اصولوں کی وجہ سے کڑک تھیں۔
حالانکہ وہ بڑی شفیق اور پیار کرنے والی تھیں۔
بہت سادہ تھیں۔ لوگوں کی مدد کر کے کسی پر ظاہر نہیں کرتیں۔
میں ان سے اکثر کہتی کہ چلیں امی مجھے گانا سنائیں !
وہ مجھے گانا سناتیں ۔ میرا دل لگائے رکھتی تھیں۔
میں کوئی بھی کام کہتی کوئی فرمائش کرتی امی کبھی رد نہیں کرتی تھیں۔
اسی وقت حاضر ! کیونکہ میں اکلوتی جو تھی !! ‘‘۔


’’ اور تمہاری خالہ جان ؟ ‘‘۔
وہ بھی بہت زیادہ میرا خیال رکھتیں اور اپنی بیٹی کے ساتھ مجھ سے بھی پیار کرتی تھیں۔ ایسا ہی پیار میری امی بھی خالہ جان کی بیٹی سے کرتی تھیں۔
میری خالہ کی بیٹی نے پی ٹی وی کے پروگرام ’’ بزمِ نغمہ ‘‘ میں میزبانی کی تھی۔میری امی اور خالہ دو ہی تو بہنیں تھیں !
اُن کے اکلوتے ایک بھائی تھے جو بہت پہلے انتقال کر گئے تھے اُن کے بچے بھی ہیں۔

’’ بہاریں پھر بھی آئیں گی ‘‘ خالہ جان کی بحیثیت موسیقار اولین فلم تھی اور میری امی کی بھی بحیثیت فلمساز پہلی فلم تھی۔
اس کے بعد فلمساز زینت بیگم کی ’’ بن بادل برسات ‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔اُن کی فلمیں اور گیت عوام میں بہت مقبول ہوئے، لیکن خالہ جان کا مزاج کچھ ایسا تھا کہ اُس دور میں انڈسٹری میں اجارہ داری کی سیاست کے ساتھ وہ چل نہ سکیں ۔
کچھ لوگ ایسے تھے جو برداشت نہیں کرتے تھے کہ خاتون موسیقار ہم جیسا یا ہم سے اچھا کام کرتی ہے اس لئے یہ آگے نہ آنے پائے! یہ خالہ جان خود ہمیں بتاتی تھیں ــ‘‘۔

’’ کیا فلم کے علاوہ شمیم خالہ  نے ریڈیو اور ٹی وی پر بھی کام ؟ ‘‘۔
جی ہاں بے شُمار ! انہوں نے ریڈیو اسٹیشن سے ہی کام کا آغاز کیا۔
وہ بہت اچھی گلوکارہ تھیں اور سات سال کی عمر سے ہارمونیم بجاتی تھیں جس پر انہیں پورا عبور حاصل تھا۔

انہوں نے ہی میری والدہ کو سکھایا اور اس سکھانے کی خاطر گلوکاری چھوڑ دی۔
انہوں نے میری والدہ کو گلوکاری میں خوب ماہر کر دیا۔
اس طرح میری خالہ جان میری والدہ کی استاد بھی تھیں۔
وہ بتاتی تھیں کہ انڈیا سے بھی اُستاد وغیرہ اُنہیں سننے آتے تھے ‘‘۔

 کیا کبھی خالہ جان کو ایسی کوئی دھن بناتے دیکھا جو بعد میں کسی فنکار نے ریڈیو، ٹی وی یا فلم کے لئے گائی اور بہت مقبول ہوئی ؟ ‘‘۔
میں نے ایسے بہت سے گیت بنتے دیکھے جو عوام میں مقبول ہوئے۔
انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام ’ بزمِ نغمہ ‘ کے لئے گیت بنائے۔
اُس وقت گلوکارہ شمسہ کنول نئی نئی آئی تھیں۔
مجھے اب یاد نہیں لیکن اُس وقت کے تمام ہی گلوکاروں کے لئے انہوں نے دھنیں بنائیں ‘‘۔

ذکر ظفیلؔ ہوشیار پوری صاحب کا:
دورانِ گفتگو ہمارے ملک کے مایہ ناز گیت نگار جناب طفیلؔ ہوشیار پوری کے صاحب زادے عرفان باری آ گئے۔
اور گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ
اُن کے والد نے مالا بیگم کے لیے اردو کے ساتھ پنجابی فلمی گیت بھی لکھے۔ عرفان باری نے کہا :

 مالا بیگم ہمارے ملک کی نامور پلے بیک سنگر ہیں۔
بہت خوبصورت آواز کی مالک تھیں اُن کے مجھ سمیت ماشاء اللہ بہت پرستار ہیں۔

میرے والد صاحب طفیلؔ ہوشیار پوری صاحب نے 1942 سے فلموں میں لکھنا شروع کیا اور 1964 میںاپنے عروج کے دور میں فلم انڈسٹری چھوڑ دی تھی۔
اس لئے مالا بیگم کے لئے انہوں نے کوئی زیادہ گیت نہیں لکھے۔
لیکن 1961 میں بننے والی فلموں میںمالا بیگم کے ساتھ والد صاحب کے گیت تھے۔

جیسے: ’’ زمین کا چاند ‘‘ ، ’’ سَن آف علی بابا ‘‘ اور ’’ بابو ‘‘ ۔ مجھے اس وقت گیتوں کے بول یاد نہیں ۔
پھر 1962 میں بننے والی صبیحہ سنتوش کی بڑی مشہور فلم ’’ موسیقار ‘‘ تھی۔ اس میں مالا بیگم نے دو گیت گائے تھے۔

ایک والد صاحب کا: ’ پی جب تک ہے دم میں دم ساغر کی قسم ‘ اور دوسرا تنویرؔ نقوی صاحب کا: ’ ڈھلنے لگی ہے رات کوئی بات کیجئے … ‘ تھا۔
یہ دونوں بڑے خوبصورت گیت تھے۔

اس کے بعد ’’ نائلہ ‘‘ فلم ایسی تھی جو والد صاحب کی آخری فلم ہے۔ اس فلم کے بعد انہوں نے فلمو ںمیں گانے لکھنا چھوڑ دئیے۔
کیونکہ وہ صحافی تھے اور اسی کاروبار پر تمام توجہ دینے لگے۔
’’ نائلہ ‘‘ میں اُن کے دو گیت ہیں: ایک کورس گیت: ’ چندا سے چوری چوری گھونگھٹ نکالے گوری نینوں میں لے کے آئی پریت ، بمبریت ‘ یہ کیلاش، چترال کے ماحول میں لکھا گیا۔

دوسری قوالی تھی جو مالا بیگم اور نسیم بیگم صاحبہ نے مل کر گائی ’ محبت کے جہاں میں حسن کے دم سے اُجالا ہے، وفا کی منزلوں میں عشق ہی کابول بالا ہے ‘۔
اس کے بعد پنجابی فلم ’’ لارا لپّا ‘‘ (1970) میں گلوکار مسعود رانا کے ساتھ مالا بیگم کا ایک دوگانا ’ اج گیت خوشی دیاں گاواں … ‘۔
اس کے بعد لوگ اُن سے فلموں میں اِکّا دُکّا گیت لیتے رہے ‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں نائلہ نے کہا:
’’ میری والدہ کو جو پہلا نگار پبلک فلم ایوارڈ ملا وہ  عشق پر زور نہیں ‘‘ کے گیت:
دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے… ‘
جس کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور گیت نگار قتیلؔ شفائی صاحب تھے ‘‘۔

میری والدہ کی پہلی فلم ’’ سورج مُکھی ‘‘ (1962) تھی۔
اُن کی آخری فلم کا مجھے علم نہیں البتہ اُنہوں نے 1979 تک فلموں میں پلے بیک سنگنگ کی ۔1980  کی دہائی میں شاید انہوں  نے ایک دو گانے گائے ہوں۔
پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے پروگرام ’’ ترنم ‘‘ میں پہلا پروگرام اُن ہی کا چلا تھا اُس کے بعد میڈم نورجہاں کے چلے۔

شاید ’’ گیت مالا ‘‘ کے نام سے بھی پی ٹی وی کے لئے اُن کا پروگرام نشر ہوا تھا ۔
اس زمانے میں انہوں نے انڈسٹری کے گانے چھوڑ دئیے تھے۔
پھر کچھ نئے میوزک ڈائریکٹر بھی آ  گئے تھے جن کی ترجیحات اور آوازیں تھیں۔
پھر میری والدہ بیمار رہنے لگی تھیں۔

اُن کو تھائی رائڈ کا مسئلہ ہو گیا تھا، اس لئے وہ کہتی تھیں کہ اب میں گانے میں وہ انصاف نہیں کر سکوں گی جو ایک بڑی اسکرین پر چاہیے۔
حالانکہ آخر وقت تک وہ بہترین گاتی رہیں اور انہیں فلمسازوں کی جانب سے فلموں میں گانے کی پیشکشیں بھی آتی رہیں۔اُن کی آواز کی بہت ’ رینج ‘ تھی۔

ابھی پرسوں کی بات ہے میری بیٹی جس کو گانے کا بہت شوق ہے اور اس فیلڈ میں آنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے ۔ کہنے لگی کہ امی آپ گانا سُنائیں۔
پھر اُس نے اور میں نے اپنی والدہ کے گانے شروع کیئے۔ میری والدہ ایک ایسی سنگر ہیں جن کو ہر کوئی آسانی سے نہیں گا سکتا جب کہ سننے میں وہ بہت آسان لگتے ہیں۔
میری بیٹی نے کہا کہ جب میں نانو کا گانا گاتی ہوں تو پتا چلتا ہے کہ یہ کتنے مشکل گانے ہیں !! اُن کے علاوہ کسی اور سنگر کے گانے بہ آسانی گائے جا سکتے ہیں۔
نانو نے اتنے مشکل گانے کس قدر آسانی سے گا دئیے ۔
ابھی انہوں نے یہ جگہ کہی اور ساتھ ہی دوسری جگہ بھی کہہ دی ‘‘۔

’’ اُس زمانے میں پاکستان ٹیلی وژن کا پروگرام ’’ نیلام گھر ‘‘ بہت مقبول تھا۔
اُس میں میری خالہ جان سے متعلق بہت مرتبہ سوال پوچھا گیا کہ پاکستان کی واحد خاتون فلمی موسیقار کون ہیں۔
اب اگر کوئی اور خاتون فلمی موسیقار آ بھی جائیں تب بھی اولین موسیقار کی حیثیت تو پھر بھی خالہ جان کی ہی رہے گی۔
’ پیار کے نغمے کس نے چھیڑے میں تو کھو گئی … ‘
اُن کا یہ لازوال گیت فلم ’’ بہاریں پھر بھی آئیں گی ‘‘ کا ہے۔
میری خالہ جان نے گو کم کام کیا لیکن جو کیا اُس میں اپنا سکہ منوایا ‘‘۔

ٹیم کے طور پر کیسے کامیاب گانے بنتے تھے اس پر بات کرتے ہوئے نائلہ نے بتایا :

 وحید مراد، سہیل رعنا، مسرورؔ انور، احمد رشدی، میری والدہ اور پرویز ملک یہ سب ایک جگہ بیٹھ کر باہم مشورے سے گانے بناتے تھے ‘‘۔
’’ مجھے اپنی والدہ کا سب سے زیادہ پسندیدہ گیت :

’ نہ آئے آج بھی تم کیا یہ بے رُخی کم ہے… ‘ لگتا ہے

‘‘۔یہ گیت فلمساز صبیحہ خانم اور ہدایتکار حسن طارق کی فلم ’’ دیور بھابھی ‘‘ (1967) کا ہے۔ آوازیں مالا بیگم اور سلیم رضا ، گیت فیاضؔ ہاشمی، موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور اسکرین پر رانی اور وحید مراد ہیں۔
دوگانوں کی بات پر مجھے بتایا گیا:
’’ میری والدہ نے سلیم رضا ، مسعود رانا اور احمد رشدی کیساتھ بہت سے دوگانے گائے ‘‘ ۔

’’ میری والدہ اپنا گایا ہوایہ گیت:
’ جو ہم گزار رہے ہیں وہ زندگی تو نہیں، جئیں تو کس کے لئے کوئی آس بھی تو نہیں ‘ اُس وقت بہت سنتی اور روتی تھیں جب انہیں فالج ہوا ‘‘۔

مذکورہ گیت فلم ’’ صاعقہ ‘‘ (1968) کے لئے مسرورؔ انور نے موسیقار نثار بزمی کی موسیقی پر لکھا۔فلمساز شمیم آرا اور محمد عثمان اور ہدایتکار لئیق اختر تھے۔
یہ واقعی خوبصورت گیت ہے۔

’’ امی جان فلم کے میوزیشن ، موسیقاروں، گیت نگاروں اور دیگر فلم سے متعلق لوگوں سے بہت اچھے طریقے سے بات کرتی تھیں۔
کبھی کبھار دل اداس ہوتا تو اپنے ہاں کوئی پروگرام رکھ لیتیں ۔
مہدی حسن ، رجب علی، پرویز مہدی، شوکت علی ، آصف جاوید وغیرہ آ جاتے ۔
نذیر علی صاحب، صفدر حسین وغیرہ کا بھی آنا جانا تھا ‘‘۔

نائلہ کے دیور امتیاز صاحب :
اِس دوران نائلہ کے دیور امتیاز بھی آ گئے اور گفتگو کا حصہ بنے۔انہوں نے بتایا:

 میری بھابھی نے شادی کے بعد اپنی فیملی اور بچوں کو سارا وقت دیا اس لئے گلوکاری سے بہت دور ہو گئیں۔ آپ دیکھیں کہ گھر میں موسیقی کا ماحول، خالہ خود موسیقار، گھر میں گیت نگار اور نامور موسیقاروں کا آنا۔
وہ جو کہاوت ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزا رنگ پکڑتا ہے یہاں تو خربوز وں کی پوری بیل تھی وہ بھی سارے کے سارے میٹھے … ( سب کے قہقہے ) ۔

اِن کی آواز بڑی پیاری ہے اور پی ٹی وی پر دو تین گانے گا چکی ہیں۔ میرے بھائی نے تو اجازت دے رکھی تھی کہ اپنا شوق پورا کرنا چاہتی ہیں تو ضرور کریں۔
لیکن یہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہنے کی وجہ سے شوق کو وقت نہ دے سکیں۔
اب ہمارے بھائی تو نہیں رہے، اللہ ان کی مغفرت اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ بھابھی نے ہمارے پورے خاندان کو ہمیشہ جوڑے رکھا ہے ‘‘۔

’’ میری والدہ میں بھی یہ وصف تھا۔وہ پورے خاندان کو جوڑ کر رکھتی تھیں ‘‘۔ نائلہ نے بات کو آگے بڑھایا:

’’ گھر گھرہستی میں بڑی ماہر تھیں۔بہترین کھانے پکاتیں ۔
اُن کے ہاتھ کی بنائی ہوئی ’ تہاری ‘ ایسی ہوتی کہ کیا بیان کروں ۔
ایسا کوئی کھانا نہیں ہے جو انہوں نے پکایا اور مجھے اچھا نہ لگا ہو۔ اُن کے ہاتھ میں بہت ’ سُر ‘ تھا۔

میری خالہ جان جب میرے ہاتھ کا کھانا کھاتیں تو کہتیں کہ
میں صرف تمہارے ہاتھ کا کھانا کھانے آئی ہوں کیوں کہ تو بھی اپنی ماں کی طرح پکاتی ہے ‘‘۔

’’ وہ جو کہتے ہیں کہ سُر بھی وراثت میں ملتا ہے تو ہمارے خاندان میں سب ہی سُر میں ہیں سوائے میرے دو بچوں کے۔
اِن دو کے علاوہ سب یوں گاتے ہیں جیسے سیکھے سکھائے ہوں حالاں کہ انہوں نے کسی سے نہیں سیکھا ‘‘۔

’’ کیا تم کو کبھی دُھن بنانے یا کمپوزیشن کا خیال آیا ؟ ‘‘۔
میں تو اس لائق نہیں نہ کوئی قابلیت ہے کہ کوئی دھن بنا سکوں۔ ہاں البتہ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ ضرور ہے ۔
میں نے کچھ عرصہ ریاضت کی لیکن بہت دل جمعی کے ساتھ کہ خود تھوڑا تھوڑا ہارمونیم بجانا شروع کر دیا۔
اپنی والدہ کے گانوں کی ٹیون بھی بجانا شروع ہو گئی۔ ابھی سیکھنا شروع ہی کیا تھا کہ اس کو ختم کرنا پڑا۔ مجھ میں وہ صلاحیت نہیں تھی جو خالہ جان میں تھی ‘‘۔

’’ آپ کے چھ بچوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اپنی نانی کا نام روشن کرے ؟ ‘‘۔
جی ہاں ! میری بیٹی ہے۔ویسے تو میرا بیٹا بھی ہے لیکن وہ اپنی گھریلو زندگی میں مصروف ہے۔ میری بیٹی کو بڑا شوق ہے کہ ڈرامہ آرٹسٹ بنوں۔
اس میں گلوکاری کی صلاحیت موجود ہے، آواز بھی اچھی ہے۔
لیکن جس طرح میری والدہ ڈرتی تھیں بالکل اُسی طرح میں بھی ڈرتی ہوں ‘‘۔

’’ میری طرح خالہ جان کی بیٹی بھی اکلوتی ہے۔
وہ سریلی تو ہے لیکن اس فیلڈ میں نہیں آئیں۔ خاموش ہی رہی ہیں۔
انہوں نے علی سفیان آفاقیؔ صاحب کی ایک فلم میں اداکاری کی ہے۔ پی ٹی وی کے پروگرام بزمِ نغمہ کی وہ میزبان تھیں۔

انٹرنیٹ پر میری والدہ اور خالہ سے متعلق غلط معلومات:
انٹر نیٹ پر میری والدہ اور خالہ جان کے بارے میں غلط معلومات موجود ہیں جن کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ مالا بیگم کی پیدائش 1947 کی ہے اور 5 مارچ 1990 کو ان کا انتقال ہوا۔
میری خالہ شمیم نازلی صاحبہ اُن سے چار سال بڑی تھیں۔ نیٹ پر میری نانی کا نام رسولن بائی ملتا ہے جب کہ میری نانی کا نام سونا بی بی تھا۔

کئی ایک جگہوں پر تو میرے والد کا نام عاشق چوہدری لکھا ہے جب کہ میرے والد کا نام محمد عاشق بٹ اور دادا کا نام عبد الرحیم بٹ ہے ہے جو فلم پروڈیوسر تھے۔
میرے والد صاحب بھی فلم پروڈیوسر تھے۔
خود میری والدہ کا نام بھی مالا نازلی لکھا ہوتا ہے جبکہ اُن کا نام صرف مالا بیگم ہے۔ نازلی تو ان کی بہن شمیم کے ساتھ آتا ہے ‘‘۔

اعزازات:
مالا بیگم کو دو نگار ایوارڈ حاصل ہوئے:
بہترین خاتون پلے بیک سنگر نگار ایوارڈ برائے سال 1962 سلور جوبلی فلم ’’ عشق پر زور نہیں ‘‘ کے اس گیت پر دیا گیا:
’ دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے … ‘
اسے ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میںقتیلؔ شفائی صاحب نے لکھا تھا۔اس کے فلمساز اداکار الیاس کاشمیری اور ہدایتکار شریف نیّر صاحبان تھے۔

بہترین خاتون پلے بیک سنگر نگار ایوارڈ برائے سال 1965 ایور نیو پکچرز کی فلم ’’ نائلہ ‘‘ پر دیا گیا۔ مذکورہ فلم کے فلمساز آغا جی اے گل اور ہدایتکار شریف نیّر صاحب تھے۔
اس گولڈن جوبلی رنگین فلم میں تین گیت نگار :
قتیلؔ شفائی، طفیلؔ ہوشیار پوری اور حمایتؔ علی شاعر اورموسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔

اس کے علاوہ مالا بیگم کو ’ فیوجی ایکسیلنس ایوارڈ ‘ اور بیرونِ ملک دوروں پر ایوارڈ دئیے گئے۔

مالا بیگم کے کچھ مشہور گیت:

https://www.youtube.com/watch?v=tltv-5Bqnpw


سپنوں میں اُ ڑی اُڑی جاؤں… ‘ سلور جوبلی فلم ’’ محبوب ‘‘ (1962)گیت نگار قتیلؔ شفائی، موسیقار رشید عطرے، فلمساز آغا جی ا ے گُل اور ہدایت کار انور کمال پاشا صاحب۔
جا رے بیدردی تو نے کہیں کا ہمیں نہ چھوڑا، جس دل میں تو ہی تو تھا اُس دل کو تو نے توڑا ‘ سلور جوبلی فلم ’’ آشیانہ ‘‘ (1964) گیت نگار فیاضؔ ہاشمی، موسیقار اے حمید اور ہدایتکار ایس ایم یوسف صاحب۔
چُنی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں … ‘ سکے دار صاحب کی لکھی ہوئی فلم ’’ لائی لگ ‘‘ (1964)آوازیں مالا، ناہید نیازی، آئرین پروین اور ہمجولیاں۔
گیت حضرت تنویرؔ نقوی، موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور ہدایتکار خادم محی الدین صاحب۔

رحم کرو یا شاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم … ‘ سلور جوبلی فلم ’’ عید مُبارک ‘‘ (1965) نعتیہ کلام فیاضؔ ہاشمی، طرز اے حمید اور ہدایتکار ایس ایم یوسف صاحب۔
غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے، تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے ‘ گولڈن جوبلی فلم ’’ نائلہ ‘‘ (1965) گیت قتیلؔ شفائی، موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور ہدایت کار شریف نیّر صاحب۔
شمع کا شعلہ بھڑک رہا ہے دل پروانہ دھڑک رہا ہے … ‘ سلور جوبلی فلم ’’ عادل ‘‘ (1966) گیت مُشیرؔ کاظمی، موسیقی نثار بزمی ، ہدایتکار اکبر علی اکّو اور یہ فلمساز (اداکار) محمد علی کی اولین پیشکش تھی۔
یہ سماں پیارا پیارا یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی، جی چاہتا ہے میرا کھو جائیں ہم یہاں ‘ گولڈن جوبلی فلم : ’’ درشن ‘‘ (1967) مشرقی پاکستان کی فلم جس کے گیت نگار اور موسیقار بی اے دِیپ المعروف گلوکار بشیر احمد، فلمساز کُم کُم اور ہدایتکار رحمن صاحب تھے۔
اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، تمہارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے ‘ پلاٹینم جوبلی فلم ’’ ارمان ‘‘ (1966) گیت مسرور ؔ انور، موسیقار سہیل رعنا، فلمساز وحید مراد اور ہدایتکار پرویز ملک صاحب۔
یہ سماں موج کا کارواں آج اے ہم سفر لے چلا ہے کہاں ‘ سلور جوبلی فلم ’’ چاند اور چاندنی ‘‘ (1968) گیت سرورؔ بارہ بنکوی، موسیقی کریم شہاب الدین، فلمساز ایف اے ڈوسانی اور مستفیض اور ہدایتکار احتشام صاحب۔
مجھے آئی نہ جگ سے لاج میں اتنے زور سے ناچی آج کہ گھنگرو ٹو ٹ گئے ‘ سلور جوبلی فلم ’’ ناز ‘‘ (1969) گیت قتیلؔ شفائی، موسیقار نثار بزمی، فلمساز ایم اے سیفی اور ہدایتکار شریف نیّر صاحب۔
کس نے توڑا ہے دل حضور کا کس نے ٹھکرایا تیرا پیار … ‘ گولڈن جوبلی فلم ’’ رنگیلا ‘‘ (1970) گیت خواجہ پرویز، موسیقار کمال احمد اور فلمساز و ہدایتکار رنگیلا۔
چلو کہیں دور یہ سما ج چھوڑ دیں دنیا کے رسم و رِواج چھوڑ دیں ‘ سلور جوبلی فلم ’’ سماج ‘‘ (1974) یہ مہدی حسن کے ساتھ مالا بیگم کا دوگانا ہے ۔
فلمساز ناصر بخاری، ہدایتکار جعفر علی شاہ بخاری صاحب اور موسیقار اے حمید صاحب۔

مذکورہ فلم کے تین گیت نگار تھے: حبیب جالبؔ، خواجہ پرویز اور ریاض الرحمن ساغر۔ گراموفون ریکارڈ سے ہی معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ گیت کس نے لکھا۔

موسیقار شمیم نازلی:
اِن کے تذکروں میں یہ بات بالکل غلط لکھی گئی ہے کہ شمیم نازلی غیر منقسم ہندوستان کے شہر امرتسر میں 1940 میں پیدا ہوئیں۔ مجھے خود نائلہ نے بتایا :

’’ میری خالہ جان 1943 میں اُس وقت کے شہر لائلپور ( موجودہ فیصل آباد )میں پیدا ہوئیں نہ کہ امرتسر میں ان کا خاندان قیامِ پاکستان سے عرصہ پہلے مشرقی پنجاب سے نقلِ مکانی کر کے لائلپور منتقل ہو چکا تھا۔
خالہ شمیم نازلی اور میری والدہ مالا بیگم دونوں کو موسیقی سے بہت دلچسپی تھی۔ریڈیو پاکستان وہ پہلا زینہ تھا جہاں سے خالہ جان نے موسیقی میں قدم جمائے۔
اُنہوں نے ریڈیو پر گلوکاری کی۔دونوں بہنوں نے اُستاد صادق پنڈی والے کی شاگردی اختیار کی۔
خالہ جان نے بڑی بہن ہونے کے ناطے امی کو خود موسیقی کی مزید باریکیاں سیکھائیں ۔خالہ جان نے اُستاد صادق پنڈی والے سے ہارمونیم بجانا سیکھا تھا۔

شمیم نازلی خود پلے بیک سنگر کیوں نہ بنیں:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شمیم نازلی خود پلے بیک سنگر کیوں نہیں بنیں ؟ اس سوال کے جواب میں نائلہ نے بتایا:

’’ خالہ کہتی تھیں کہ مائیک ان کی آواز بحیثیت پلے بیک سنگر قبول نہیں کرتا۔ شاید یہ اُس دور کی کوئی باریکی ہو۔
میں تو یہ کہتی ہوں کہ خالہ جان میری والدہ سے زیادہ سریلی تھیں۔ ایسے ہی تو بھارت سے کلاسیکی گائیک اُستاد اور پنڈت خالہ کو سننے نہیں آتے تھے !!

انتقال سے کچھ عرصہ پہلے اُنہوں نے اپنی آواز میں 6 عدد گیت ریکارڈ کروائے تھے لیکن کسی وجہ سے وہ ریلیز نہ ہو سکے ‘‘۔
میرے خیال میں ریڈیو پاکستان میں میں ان کی کارکردگی واضح اشارے دے رہی تھی کہ شمیم نازلی میں صلاحیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو ریڈیو کی ایک بہترین فنکارہ منوا سکیں۔ وہ مانی بھی جاتی تھیں
لیکن انہوں نے پاکستان فلم اندسٹری میں موسیقار بننے کے پُر خار راہوں کو کیوں چُنا … علم نہیں !

حالاں کہ وہ بھارتی فلمی دنیا کی تین خاتون موسیقار : جدّن بائی (1892 سے 1949)، سَرسوَتی دیوی (1912 سے 1980) اور بھارتی فلمی صنعت کی کامیاب ترین خاتون موسیقار اوشا کھنہ (7 اکتوبر 1941 سے جولائی 2016 ) سے لازماََ واقف ہوں گی۔

پہلی دو کو الگ رکھئیے مگر اوشا کھنّہ نے کیا کیا گیت فلمی دنیا کو نہ دیئے لیکن انہیں کبھی بھی وہ مقام حاصل نہ ہوا جو بھارتی فلم انڈسٹری کے کسی مرد موسیقار کو حاصل تھا۔ خیر یہ ایک الگ بحث طلب بات ہے …
شمیم نازلی نے اپنی بہن کی فلمسازی میں بحیثیت موسیقار پہلی مرتبہ فلم ’’ بہاریں پھر بھی آئیں گی ‘‘ (1969) کی موسیقی ترتیب دی۔
اس فلم کے گیتوں کو عوامی پذیرائی نصیب ہوئی۔اُس وقت پاکستان بھر کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے مذکورہ فلم کے گیت فرمائشی پروگراموں میں بار بار نشر ہوتے تھے۔
ان کی دوسری فلم ’’ نائٹ کلب ‘‘ (1971) میں مالا اور احمد رشدی کا ایک دوگانا ’ ملا جو پیار تمہارا بہار آئی ہے … ‘ بہت مقبول ہوا۔

پھر 1975 میں شمیم نازلی کی فلم ’’ بن بادل برسات ‘‘ نے گولڈن جوبلی کی۔اس گولڈن جوبلی میں فلم کے گیتوں کا خاصا عمل دخل تھا۔
شمیم نازلی ریڈیو پاکستان کو کبھی نہیں بھولیں۔انہوں نے جب بھی موقع ملا ریڈیو کے لئے نئے گیتوں کی طرزیں بنائیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ٹیلی و ژن لاہور مرکز کے لئے پروگرام ’’ بزمِ نغمہ ‘‘ میں نئے گیتوں کی دھنیں بنائیں۔

موسیقار شمیم نازلی کے کچھ نغمات:
’ تیرے بغیر زندگی بھٹکا ہوا خیال تھی … ‘ سلور جوبلی فلم ’’ بہاریں پھر بھی آئیں گی ‘‘ (1969) گلوکار مہدی حسن، گیت نگار خواجہ پرویز، فلمساز مالا بیگم اور ہدایتکار ایس سلیمان صاحب۔
تو جو آیا تو دل کو قرار آ گیا … ‘ گولڈن جوبلی فلم ’’ بِن بادل برسات ‘‘ (1975) آواز مالا، گیت نگار تسلیمؔ فاضلی، فلمساز و ہدایتکار زینت بیگم۔
سہارا دے کے پیار کا بنا ہے کوئی اجنبی
‘ فلم ’’ نائٹ کلب ‘‘ (1971) آواز مالا بیگم، گیت نگار خواجہ پرویز، فلمساز محمد عاشق بٹ اور ہدایتکار ایس ایم یوسف صاحب۔

باتیں تو ابھی کرنے کو بہت تھیں لیکن گھر بھی جانا تھا۔نائلہ کے گھر کی جس بیٹھک میں یہ گفتگو کی گئی یہاں مالا بیگم بھی بیٹھتی رہی تھیں۔

اس گھر میں اُن کی یادیں واضح طور پر بسی ہوئی محسوس ہوئیں۔
یہاں سے واپسی پر اگلے روز میانی صاحب کے قبرستان میں شمیم نازلی اور مالا بیگم کی آخری آرام گاہ پر جا کر فاتحہ پڑھی۔اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے۔آمین !


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles