31 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

How To Live Happily |کیا خوش رہنا ممکن ہے؟

 

 

 

’’زندگی‘‘ اپنے آپ کو نہیں دوسروں کو خوش رکھنے کانام ہے

عافیہ مقبول جہانگیر

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کی خطاؤں کو معاف کر کے‘ درگزر کر کے اُن کی خوبیوں کو سراہیں اور حوصلہ افزائی والے تعریفی کلمات سے نوازیں۔

دوسروں کی غلطیوں کو ہم ایک سیکنڈ میں جج کر لیتے ہیں اور جان بوجھ کر اُن کی خوبیوں سے منحرف ہو جاتے ہیں۔یوں ہم لوگوں کے دلوں تک رسائی کے بہت سے مواقع صرف اپنی اس عادت کی وجہ سے کھو دیتے ہیں۔

اپنے گریبان میں جھانکنا بہت مشکل کام ہے لیکن جب ایک دفعہ انسان یہ عمل شروع کر دے تو یہی خوداحتسابی اُسے کامیاب انسانوں کی فہرست میں لا کھڑا کرتی ہے۔

تب اُسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کبھی اس قابل تھا ہی نہیں کہ دوسروں پر انگلی اُٹھا سکے۔

یاد رکھیے! ہم معاشرے کو تبھی بلند مقام دے سکتے ہیں جب ہم خود کو پہلی سیڑھی پر کھڑا کر کے دوسروں کو آگے بڑھنے کا موقع دیں گے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ خود کو گرا لیں اور لوگ آپ پر پاؤں رکھ کر آگے نکل جائیں۔ پہلی سیڑھی پر خود کو کھڑا کرنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کوئی بہت توپ شے یا بہترین سمجھنے کے بجائے صرف ایک عام انسان سمجھیں۔ دوسروں کو کھلے دل و ذہن سے سراہیں۔ اُنہیں آگے بڑھنے میں مدد کریں۔ یقینا ایسا کرنے سے کوئی آپ کو بھی آگے بڑھنے میں مدد کرے گا۔

اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ

زندگی میں آپ تب تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کی خوبیوں کو قبول نہیں کر لیتے۔ ہر وقت کی نکتہ چینی‘ تنقید اور خامیوں کی نشاندہی ایک دن خود آپ کو بھی ویسا ہی بنا دے گی جیسا آپ دوسروں کو سمجھ رہے ہیں۔

زندگی گزارنے کے چند راہنما انمول اصول آپ کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

ہرانسان کو زندگی میں بہت طرح کے اتار چڑھاؤ اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خوشی‘ غمی‘ دکھ‘ صحت‘ بیماری‘ مایوسی‘ امیری ‘ غریبی وغیرہ۔ بحیثیت ایک اعلیٰ ظرف انسان آپ کی یہ ذمے داری ہے کہ بجائے آپ کسی کے حالات پر ہنسیں اور تنقید کر کے اُن کو دکھی کریں

ہمیشہ اپنے گریبان میں جھانکیے

ہمیشہ اپنے گریبان میں جھانکیے کہ اگر آپ اُن حالات میں گھرے ہوتے تو آپ لوگوں سے کیا اُمید رکھتے؟ سوچیے اور پھر ویسا ہی سلوک اپنائیے۔

اگر آپ سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو فوراً سے پیشتر اُس غلطی کا نہ صرف اعتراف خود سے کریں بلکہ دوسروں کے سامنے بھی کریں اور پھر اُس غلطی کو سدھارنے کی کوشش کریں۔

ہر انسان سے لازمی کوئی نہ کوئی غلطی ہوتی رہتی ہے۔ اپنے آپ کو انسان کامل سوچنے کی بھیانک غلطی بلکہ گناہ کبھی نہ کریں۔

غلطی چھوٹی ہو یا بڑی‘ اُس کا تدارک کریں۔ اس کے اسباب کا ایمانداری سے پتا لگانے کی کوشش کریں۔

کچھ لوگ غلطی کر کے اس قدر مایوس ہو جاتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ اب اس کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں اور عام طور پر ان میں یہ مایوسی آپ کے منفی رویے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔

آپ دوسروں کی غلطیوں کو آسانی سے معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور یوں اُس انسان سے جینے کا حق ہی چھین لیا جاتا ہے۔ اُسے معاشرے سے الگ سمجھنا آپ کی بھیانک غلطی ہے۔

اُس انسان کی کسی بھی غلطی سے بھی زیادہ سنگین۔

نتیجتاً  لوگ پھر اپنی غلطی کو ماننے سے گریز کرنے لگتے ہیں اور اُس غلطی پر صرف اپنی انا کا بھرم رکھنے کی خاطر ڈٹ جاتے ہیں کہ ذلت کا احسان اُنہیں اعتراف سے منع رکھتا ہے۔

ہاں‘ دوست کی غلطی پر اُسے انتہائی احترام اور پیار و محبت و مخلصی کے ساتھ احساس دلانا آپ کا اخلاقی فرض ہے۔ مگر آپ کے رویے اور الفاظ حوصلہ افزا ہوں ناکہ نااُمیدی اور مذاق اُڑانے والے۔

آس پاس کے لوگوں‘ ملنے والوں اور دوستوں رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے اُن کی اچھائیوں اور خوبیوں کی کھلے دل سے تعریف کریں۔

آپ بھی اچھائی و برائی کا پیکر ہیں

اُن کی اچھائیوں کا احساس اُنہیں اس طرح دلائیں کہ وہ اپنے منفی جذبات ختم کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اور ایسا کرنے سے پہلے یہ ضرور یاد رکھیں کہ آپ بھی اچھائی و برائی کا پیکر ہیں۔

اُس کی اچھائیاں اپنے اندر نہ صرف پیدا کرنے کی کوشش کریں بلکہ اس کا سارا کریڈٹ اس انسان کو بھی دیں۔

جب لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ ہم صرف اُن کی برائیاں ہی نہیں بلکہ اچھائیاں بھی نوٹ کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو اور بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔

کبھی آپ کوئی غلط یا برا کام جانے انجانے کر بیٹھیں تو آپ لوگوں سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ آپ کو نہ صرف معاف کر دیں بلکہ پہلی سی عزت و توقیر بھی دیں۔

اس طرح دوسروں کا بھی یہ حق ہے کہ اُنہیں کھلے دل سے نہ صرف معاف کر دیا جائے بلکہ اُن کا ساتھ دے کر انہیں اس پریشانی سے نکلنے میں مدد بھی کی جائے۔ بعض اوقات ایک انسان کا رویہ دوسرے انسان سے یکسر مختلف ہو جاتا ہے۔

مثلاً آپ اچھے موڈ میں ہیں تو ضروری نہیں کہ سامنے والا بھی اُسی موڈ میں ہو۔ ایسے میں اُسے بدمزاج اور مغرور مت کہیں نہ ہی اُس کی سنجیدگی کو اپنی ہتک سمجھیں بلکہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں اُس کے ساتھ کوئی مسئلہ تو نہیں؟

بعض افراد بدگمانی کا شکار ہو کر طیش میں آ جاتے ہیں اور یوں بے وجہ دو شریف لوگوں میں دشمنی‘ ناپسندیدگی جنم لینا شروع ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اچھائی اور برائی برابر نہیں (برائی کو) اُس (نیکی) سے رفع کرو جو بہترین ہے۔ تو یکایک وہ شخص جس کے اور تیرے درمیان عداوت ہے‘ ایسا ہو گا جیسے دلی دوست ہے۔‘‘

(حٰم السجدہ: ۴۱۔۳۴)

don't think what other says
don’t think what other says. Always choose your best way

بعض لوگوں کو دوسروں کو بے انتہا نصیحتیں کرنے اور ہر وقت مفت مشوروں سے نوازنے کا شوق ہوتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اکثر وہ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت کے مقولے پر پورے اترتے دکھائی دیتے ہیں۔

یعنی جس بات پر وہ عادتاً دوسروں کو نصیحت کر رہے ہوتے ہیں‘ وہ عادت یا برائی خودبدرجہ اتم اُن میں بھی پائی جاتی ہے۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ جس بات یا مسئلے پر ہم دوسروں کو نصیحت کر رہے ہیں خود ہم اُس پر عمل سے کوسوں دور ہیں۔

مگر ہم اکثر لوگوں سے اس لیے ناراض ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے ہماری #نصیحت پر کان نہیں دھرے۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔

ہو سکتا ہے اس کا مزاج اور ماحول ہماری نصیحت یا مشورے سے میل نہ کھاتے ہوں۔

معاشرے کا بُرا سے بُرا فرد بھی کسی نہ کسی خوبی کا حامل بھی ہوتا ہی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم عارضی طور پر اُس کی برائیوں سے قطع نظر ‘ اُس کے اندر موجود مخفی اچھائیوں کو نہ صرف سراہیں بلکہ اُس کی شخصیت کا یہ روشن پہلو سب کے سامنے لائیں۔

جب ہم دوسروں کی برائیاں سب کے سامنے بے دھڑک بیان کرنے میں نہیں جھجکتے تو دوسروں کی اچھائیوں کو بیان کرتے ہوئے ہمارے پاس ظرف اور الفاظ چھوٹے کیوں پڑ جاتے ہیں۔

ہمارے پیارے رسولﷺ کا اخلاق یہ ہے کہ آپﷺ خطاکاروں اور گناہ گاروں سے اچھا گمان رکھتے تھے اور اُن کی بھلائیاں تلاش کرتے تھے۔

اس لیے عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے خود کو اُن کی جگہ پر رکھ کر سوچیں ۔

اُن میں موجود ریزہ بھر اچھائی کو بھی باہر لانے میں دیر نہ کریں۔ جلد ہی اُس انسان میں موجود اچھائی کی ہلکی سی کونپل ایک تناور درخت کے روپ میں پروان چڑھنے لگے گی۔

اپنے نکتہ نظر اور خیالات دوسروں پر جبراً نہ ٹھونسیے

جس طرح ضروری نہیں کہ ہم کسی سے متفق ہو جائیں‘ اسی طرح یہ بھی لازم نہیں کہ سامنے والا آپ کی رائے سے متفق ہو۔  اگر وہ متفق نہیں ہوتا تو یہ قطعاً ضروری نہیں کہ وہ آپ کا دوست نہیں ہے۔

ہر ہاں میں ہاں ملانے والا بھی تو دوست نہیں ہوتا۔ اگر آپ بھی اپنے کسی مسئلے میں دوسروں سے متفق نہیں ہوتے تو یہ سراسر آپ کی صوابدید ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ آپ یا آپ کا خیرخواہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں یا بن رہے ہیں۔

بعض دفعہ ہم صرف دوسروں کی سنی سنائی پر اندھا یقین کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم جان ہی نہیں پاتے کہ کیا صحیح کیا جھوٹ‘ کیا صحیح اور کیا غلط؟

خود احتسابی کا عمل

ہم بہت جلد بدگمانی کی انتہائوں پر کھڑے ہو کر خود احتسابی کے عمل سے گزرنا پسند نہ کرتے ہوئے دوسروں کے بارے میں غلط رائے قائم کر لیتے ہیں۔

جبکہ خود اگر ہمیں اپنے بارے میں کہیں سے پتا چلے کہ فلاں ہمارے بارے میں غلط رائے رکھتا ہے تو ہمیں اُس سے دل میں ہی شکوہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ کاش ایک دفعہ ہم سے پوچھا تو ہوتا

بات کی وضاحت طلب تو کی ہوتی۔

تو ظاہر ہے جیسے ہم اپنے لیے دوسروں کے رویے دیکھ کر دکھی ہو رہے ہوتے ہیں‘ ویسے ہی ہم دوسروں کے دکھ کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔

جب ہم صرف سنی سنائی باتوں پریقین کر کے کسی کے بارے میں غلط رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھر اُن غلط باتوں کی تصدیق کیے بنا ہر طرف پھیلانا بھی شروع کر دیتے ہیں۔

اوربعض اوقات انسان اپنی ان سرگرمیوں میں اس قدر ملوث ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی جینا ہی چھوڑ دیتا ہے ۔

کبھی وہ اگر اپنے گریبان میں جھانکے تو اُسے پتا چلے کہ

وہ تو دوسروں کی زندگی جی رہا ہے۔ دوسرے کیا کرتے ہیں‘ کیا سوچتے ہیں‘ کیا کہتے ہیں‘ اسی میں اُس کی ساری زندگی گزر جاتی ہے۔

اور جب عمر کے آخری حصے میں جب وہ تنہا رہ جاتا ہے ، تب خود احتسابی کا عمل اُسے انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے۔

اُسے اپنے گریبان میں پھر اپنے ساری زندگی کے سخت بدصورت الفاظ اور رویوں کے سانپ رینگتے نظر آتے ہیں۔

تو آج سے ہی کسی پر ناجائز اور بے وجہ انگلی اُٹھانے سے پہلے

ایک بار‘ خود سے یہ ضرور پوچھیے کہ میرا گریبان کیسا ہے۔ پھولوں بھرا یا کانٹوں بھرا…

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles