جینا کوئی مشکل تو نہیں ۔۔۔بس
اپنی ناکامی پر قسمت کو موردِالزام ٹھہرانے والوں کے لیے ایک پُرسوچ تحریر
عافیہ مقبول جہانگیر
واضح فرق ہے کہ برائی بہت جلد پھیلتی ہے جبکہ نیکی کا راستہ بہت آہستگی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ منفی رحجانات‘ خیالات تیزی سے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں اور اچھائی کو کچھ وقت لگتا ہے۔
انہی منفی رحجانات میں سب سے اہم رحجان دوسروں سے لاتعلقی اور ہر جگہ صرف اپنے آپ کو اہم سمجھنا،’’میں‘‘،’’مجھے‘‘ اور ’’میرا‘‘جیسے خودغرضانہ اصول پر کاربند رہنا ہے۔اور اگر غور کریں تو یہی سب سے بڑی وجہ ہے ناکامی کی۔ ہم ہر جگہ کامیاب ہونا اور ترقی کرنا چاہتے ہیں ،ہم اکیلے ہی سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہ ممکن نہیں۔ کیونکہ کسی دوسرے کی مدد اور سہارے کے بغیر ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی۔ اور ہمیں کوئی انسان سہارا تبھی دے گا جب ہم اپنے خود ساختہ’’میں‘‘کے خول سے باہر نکل کر دوسروں کی بھی مدد کریں اور ان کو بھی سہارا دے کر ان کے لیے مددگار ثابت ہوں۔ ایک خودغرض انسان ایک آدھ بار اتفاقیہ طور پر تو شاید کامیابی حاصل کر لے مگر مستقل بنیادوں پر یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔
اس کی ایک مثال ہمیں نفسیات دانوں کے اس تجربے سے بھی ملتی ہے۔کہ ایک دفعہ کچھ لوگوں کی ٹیم کے ساتھ ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس تقریب کا بنیادی مقصد لوگوں میں مثبت سوچ کو اجاگر کرنا اور دوسروں کے کام آنا‘ ان کی مدد کرنا جیسے عوامل تھے۔ تمام شرکا کے ہاتھ میں ایک ایک غبارہ تھما دیا گیا جس پر اس کا نام لکھا ہوا تھا پھر ان شرکا سے کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے غبارے چھوڑیں۔ تمام غبارے کمرے کے فرش پر جمع ہو گئے پھر ان شرکا سے کہا گیا کہ اب اپنے اپنے نام کے غبارے تلاش کریں‘ یوں کافی دیر دھکم پیل ہوتی رہی اور پندرہ یا بیس منٹ بعد بھی نتیجہ صرف یہ تھا کہ چند لوگ ہی اپنے پنے نام کے غبارے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو پائے تھے۔ان تمام شرکاء کو روک کر کہا گیا کہ اب آپ نے اپنے نام کے غبارے تلاشنے کی بجائے جس کے نام کا غبارہ بھی ہاتھ آئے اس بندے کو دے دیں۔ ایسا کرنے سے صرف ۵ منٹ میں تمام غبارے اپنے اپنے نام کے شخص کے ہاتھ میں تھے۔ یعنی جب انسان نے دوسروں کی مدد کرنے کی نیت سے کام شروع کیا تو نہ صرف جلد بہترین نتائج سامنے آئے بلکہ خود اسے بھی اس کو بھی مدد مل گئی۔
زندگی بھی کچھ اس طرح سے گزرتی ہے اگر ہم اپنی ذات‘ اپنی ’’میں‘‘ کے بجائے‘ دوسروں کے بارے میں کچھ اچھا سوچیں گے توہ پلٹ کر ہمارے ہی فائدے کے طور پر واپس ہمیں ملے گا۔غور کریں تو اس بات میں بہت گہرا اور بڑا سبق پوشیدہ ہے ۔اگر ہم اپنے آپ کو‘اپنی سوچوں کو‘ مثبت بنا لیں گے اور اسی کو ہر طرف پھیلانا شروع کردیں گے تو یقینا مثبت اور بہتر تبدیلی آئے گی اور ہماری آنے والی نسل اور خود ہم بھی ‘ اس ناامیدی ‘مایوسی حتیٰ کے کفر تک پھیلانے کا موجب بننے والی منفی تحریکوں‘ سوچوں اور کرداروں سے کافی حد تک چھٹکارا پا لیں گے۔