مصنف
جاوید راہی
کرائم رپورٹر/ صحافی/کالم نگار
سوچتی ہوں اپنی بربادی کی داستان کہاں سے شروع کروں۔
میرے والد جو پوسٹ ماسٹر کی نوکری سے ریٹائر ہو کر اب ہمارے محلہ میں ہی چھوٹا سا جنرل سٹور چلا رہے ہیں نے ہم تین بہن بھائی کو اعلیٰ تعلیم دِلوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر نصیب نے نہ ہمارا ساتھ دیا۔ نہ ہی میرے والدین وہ خواب دیکھ سکے جو انہوں نے کبھی سوچے ہوں گے ۔میں اپنے گھر میں بڑی تھی مجھ سے چھوٹا کاشف اور اس سے چھوٹی رفعت۔
والدہ صاحبہ چونکہ تعلیمی زیور سے محروم تھیں والد صاحب اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ ہمارے لئے ٹیوشن کا انتظام کرتے۔ ہمارا تعلیمی معیار بس برائے نام ہی تھا۔ ہم بہن بھائی خود ہی اپنی کوشش سے پڑھائی میں مصروف رہتے یا پھر والد صاحب ہمیں تھوڑا بہت وقت نکال کر پڑھا دیتے۔
کاشف تو مشکل سے میٹرک کر سکا جسے ابو نے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد پوسٹ مین بھرتی کروا دیا۔ میں نے ایف۔ ایس۔ سی کر کے میڈیکل میں داخلے کے لیے بہت ٹکریں ماریں مگر بے بس ہو کر بیٹھ گئی۔ رفعت نویں میں پڑھ رہی تھی مگر اس کا دل بھی پڑھائی سے اچاٹ سا لگتا تھا ۔
میں گھر میں بیکار بیٹھی کڑھتی رہتی کہ اپنے والدین کے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔ میری ایک سہیلی سلمیٰ نے مجھے مشورہ دیا کہ میں میڈیکل میں تو نہیں جا سکی مگر ایک راستہ ہے دُکھی انسانیت کی خدمت کا کہ تم لیڈی ہیلتھ وزیٹر کا کورس کر لو۔ اس کی بات میرے دل کو لگی اور میں نے اپنے ابو سے اس سلسلہ میں بات کی۔
انہوں نے میری خواہش کے پیش نظر داخلہ دلوا دیا۔ ہاسٹل کا ماحول میرے لیے اجنبی تھا مگر میں نے خود کو یہاں ڈھال لیا۔ تین ماہ پی۔ٹی۔ ایس میں لگے اس کے بعد میری ڈیوٹی ہسپتال میں لگ گئی۔
ہسپتال کا اصول نرسنگ اسکول سے قدرے مختلف تھا۔ یہاں ڈیوٹی کے دوران کچھ آزادی تھی اور پھر دوسری بات یہ تھی کہ ہمیں اسٹوڈنٹس کی حیثیت سے ہر کسی کی بات کا احترام کرنا پڑتا تھا۔ لیبر روم میں ڈیوٹی لگے میرا تیسرا روز تھا ۔ حسبِ سابق ڈاکٹر طارق لیبر روم میں چھٹے کیس کو نپٹانے کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے۔
’’سسٹر آپ پریشان تو نہیں‘‘؟
میں کوئی جواب دئیے بغیر سامان درست کرنے لگی۔
وہ پھر مخاطب ہوئے۔
سسٹر یہ آخری کیس کر کے کھانے کے لیے چلتے ہیں۔
میں اس بار بھی خاموش رہی اور کام کرتی رہی۔ ڈاکٹر طارق بھی سٹوڈنٹ تھے اور ان کی ڈیوٹی بھی کچھ روز قبل لیبر روم میں لگی تھی۔ میں محسوس کر رہی تھی کہ ڈاکٹر طارق مجھ سے ضرورت سے زیادہ فری ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے اپنے غریب ماں باپ کی عزت کا بھرپور احساس تھا۔ اس لیے میں ڈاکٹر طارق کی بے باک باتوں کے جواب میں صرف خاموش رہتی کہ ڈاکٹرطارق خودبخود اپنی سوچ کو بدل لیں گے۔
میں ڈیوٹی سے آف ہو کر نیچے لان میں آ کھڑی ہوئی تا کہ اسکول کی گاڑی میں واپس جا سکوں۔ ابھی گاڑی نہیں پہنچی تھی ۔ دوسری لڑکیاں بھی اِکا دُکا نیچے آ رہی تھیں۔ اتنے میں میرے قریب ڈاکٹر طارق آ کر رُکے۔
انہوںنے پہلی بار میرا نام لے کر مجھے مخاطب کیا۔
’’مِس عظمیٰ میں آپ کو وارڈ میں تلاش کر رہا تھا۔‘‘
’’کیوں‘‘؟
میں نے تعجب سے پوچھا؟
’’وہ اس لیے کہ میں آپ کو چائے پلانا چاہتا تھا۔‘‘
آئیں کہتے ہوئے ڈاکٹر طارق ہسپتال کی کنٹین کی طرف بڑھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیا جواب دوں وہ اصرار کرنے کے سے انداز میں بولے۔
’’مِس یہ چائے میں آپ کو اپنے پہلے اپریشن کی خوشی میں پلا رہا ہوں۔‘‘؟
میںنے بہانہ پیش کیا۔
’’میری گاڑی آنے والی ہے۔‘‘
’’آپ کی نہیں، نرسنگ اسکول کی گاڑی اور وہ آپ کا انتظار کرنے کی پابند ہے ، پھر وہ کنٹین کے پاس ہی رُکتی ہے اس لیے فکر کی ضرورت نہیں۔‘‘
چائے پر تکلف تھی مگر ڈاکٹر طارق کی باتیں تکلف کی حد عبور کرتی جا رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ ڈاکٹر طارق نے مجھے اپنے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میرے اندر بھی ایک تحریک نے سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا۔ مجھے اگر ڈاکٹر طارق نظر نہ آتے تو میں ان کو تلاش کرنا شروع کر دیتی۔
چھ ماہ کے طویل عرصہ میں ڈاکٹر طارق کے اصرار پر میں نے ایک چھٹی اپنی ڈائری میں پرمٹ کروائی اور ہم دونوں تمام دن پارکوں اور مشہور مقامات پر گھومتے رہتے کھانا ہوٹل میں کھایا اور پکچر ہائوس میں فلم بھی دیکھی۔
واپس ہاسٹل آ کر میں سارے دن کی گفتگو کے بارے میں سوچتی رہی۔ مجھے ڈاکٹر طارق کی باتیں مسلسل متاثر کرتی جا رہی تھیں۔ میں اکثر ڈاکٹر طارق کے ہمراہ آنے جانے لگی ۔ ایک روز میں ڈاکٹر طارق کے ہمراہ جذبات کی رو میں بہہ کر بہت ہی دور چلی گئی اور پھر اُس کی محبت کے سمندر میں ڈوب کر اپنے آپ سے اور اپنے خاندادن کی عزت سے بیگانہ ہو گئی۔
آہستہ آہستہ ڈاکٹر طارق کا رویہ ایک دم تبدیل ہونے لگا۔ وہ مجھ سے بات کرتے کرتے ایک دم سے چونک جاتا اورکوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اُٹھتا اور یہ کہہ کر وارڈ میں چلاجاتا کہ ابھی آیا مگر وارڈ کا کہہ کر وہ نرسوں کے کمرے میں جا بیٹھتا میں اس کا یہ انداز محسوس کر کے تڑپ اُٹھتی۔ حالانکہ مجھ میں بکھر کر دوبارہ سنبھل کر چلنے کا عزم پکا ہو چکا تھا۔
میں نے اپنی زندگی کادھارا تلخ ایام سے منسوب کرتے ہوئے اس حادثہ کو اپنی لغزش سمجھ کر خود کو اس کا سزاوار تصور کر لیا مگر میرے اندر جو جذبوں کی جھوٹی سچی تحریک تھی اس کے آگے میں بے بس ہو جاتی ۔
ایک روز میں وارڈ میں ڈیوٹی سے فارغ ہو کر آفس کی طرف آ رہی تھی کہ سامنے ڈاکٹر طارق روزی کے ساتھ آتا ہوا دِکھائی دیا۔ روزی اسٹاف تھی ۔ وہ ڈاکٹر طارق سے بہت بے تکلف تھی ۔ میرے اندر نہ جانے کون سی حس نمودار ہوئی اور میں آپے سے باہر ہو گئی۔ ڈاکٹر طارق میرے قریب لمحہ بھر کو رُکا ، میرا ہاتھ فضا میں خاصی گونج چھوڑ گیا۔ روزی جو اس اچانک حملہ کے لیے تیار نہ تھی، گھبرا کر آگے بڑھ گئی ۔ ڈاکٹر طارق ہونق بنا میری طرف دیکھتا رہ گیا۔
میرے منہ سے زہریلا فقرہ نکلا ۔
’’مکار انسان ابھی کس کس کو اور برباد کرو گے۔‘‘
کہتی ہوئی میں بھاگ کر اپنے آفس میں آ بیٹھی آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ میری رومیٹ مقدس نے آ کر میرا شانہ ہلایا ۔ وہ میرے دُکھ کو جانتی تھی اس کے سمجھانے پر میں بڑی مشکل سے سنبھلی اور اس کے ہمراہ واپس جانے کے لیے تیاری کرنے لگی۔
مڈوائفری کا کورس پاس کرنے کے بعد میری ڈیوٹی نرسنگ سکول کی ڈسپنسری میں لگ گئی۔ میرے احساسات کا تاج محل تو ڈاکٹر طارق نے چور چور کر ڈالا تھا۔ اب تو میرے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا کہ میں دُکھی انسانیت کے لئے یکسوئی سے کام کروں ۔
وقت کی دُھول نے میرے سارے خواب گرد آلود کر دئیے تھے ۔ مردوں کی فطرت کے بارے میں جو میں نے دوسروں سے سنا تھا اس کا مشاہدہ میںخود کر بیٹھی تھی اس لیے ہر کام میں کیڑے نکالنا میں نے اپنی عادت میں شامل کر لیا میری اس عادت سے باہر کے لوگ تونالاں تھے ہی گھر والے بھی بیزار ہو گئے۔
مرد کی بے اعتنائی کے سبب میری پرسکون زندگی میں گہری مایوسیاں نمودار ہو کر میرے اعصاب کو ہر وقت ۔اپنے جال میں جکڑے رہتی تھیں۔ ایل ۔ ایچ۔ وی کا کورس میں نے جس اذیت سے پاس کیا وہ میں ہی جانتی ہوں سرکاری ملازمت کے لئے بھی کئی مردوں سے واسطہ پڑا۔ جو مجھے دوسرے جہان کے افسانے سنانے میں پیش پیش نظر آئے۔
اسی دوران میرے والد نے شہر کی ایک سماجی تنظیم کے ایک خیراتی ہیلتھ سنٹر میں مجھے ملازمت دلوادی۔ یہاں مجھے کئی ایک نورانی چہروں سے واسطہ پڑا جو بظاہر تو انسانیت کی اعلیٰ معراج کے علمبردار تھے مگر جب ان کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو چہروں کی نقاب کشائی کے بعد ان میں صرف زیر زبر کا فرق نکلا ور نہ بات وہی تھی ،میں اس سماجی تنظیم کے عہدیداران کی نازبرداریاں نہ اُٹھاسکی اور مجھے نکمّی اور بدکلام ہونے کی پاداش میں نکال دیا گیا میں حیران تھی کہ وہ کونسا ایسا دن ہے جو میری زندگی کے اوراق میں ایک نیا باب نہ رقم کر گیا ہو گا۔ میرے دور کے ایک رشتہ دار کو ہمدردی ہوئی اور وہ میرے لئے بڑے پریشان رہنے لگے اکثر ہمارے گھر آنکلتے اور کئی کئی روز اپنی نوازشات کے نشتر میری رگوں میں اُتارتے رہتے وہ کچھ عرصہ سعودی عرب میں رہ کر آئے تھے اور اکثر ہمارے والد صاحب سے وہاں کے حالات اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی آمدن کے خواب دکھاتے رہتے ۔میں اس کی آنکھوں کی بھوک اور منہ سے ٹپکتی رال کو دیکھ کر اپنے دل میں ہنس دیتی۔ وہ اس آس میں مبتلا تھے کہ میرے والدین ملک سے باہر نوکری کے لئے بھجوا دیں۔
میرے تمام اخراجات وہ خود برداشت کرنے کی بات کرتا۔ میں حیران تھی کہ ابھی تک ان کی طرف سے کوئی بھی ایسی دل نوازی پیش نہیں ہوئی تھی جو ان کی بے حیا آنکھوں اور مکروہ مسکراہٹ کا حتمی ثبوت فراہم کرتی میرے والد ان کا احسان قبول کرنے کو بالکل تیار تھے۔ اگر میں باہر جانے کی حامی بھر لیتی تو۔
اپنے گھر کے تنگ حالات کے سامنے تو بے بس تھی کیا کرتی باہر جانے کے لئے این او سی بھی ضروری تھا۔ اسی دوران مجھے محکمہ صحت کی طرف سے کال موصول ہوئی ۔ وہ ایک نواحی بنیادی مرکز صحت میں کام کرنے کے سلسلہ میں تھی۔
والد صاحب کی اجازت سے میں نے ملازمت اختیار کر لی۔ آنے جانے کا بڑا مسئلہ تھا ۔میں ہفتہ بھر وہاں ہی رہتی میرے ہمراہ ایک دائی بھی تھی جو میرے کواٹر میں ہی میرے ساتھ رہتی ۔
ایک روز اس کی زبانی علاقہ کے بڑے زمیندار کا پیغام ملا کہ وہ گھر پر مریض دیکھنے کے لئے بُلا رہے ہیں۔ میں دائی کو لے کر اس کے گھر چل دی۔ راستے میں زبیدہ کی باتیں بڑی بدلی ہوئی لگ رہی تھیں۔ وہ چوہدری صاحب کی تعریفوں کے پل بنا رہی تھی۔
میں کوئی جواب دیئے بغیر اس کے ساتھ چلتی رہی۔ زبیدہ مجھے گھر کی بجائے ڈیرہ پر لے آئی۔ چوہدری نواز باہر بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور اس کے اردگرد کئی ایک اور لوگ بھی موجود تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ مسکرایا اور زبیدہ کو اندر جانے کا اشارہ کیا ۔
میں سمجھی شاید مریض اندر ہے اس لئے میں بے دھڑک اس کے ساتھ اندر چلی گئی ،مگر بیٹھک خالی تھی۔ میں نے حیران نظروں سے زبیدہ کی طرف د یکھا اور مریض کا دریافت کیا۔
اتنے میں چوہدری نواز بھی اندر آ گیا اور آتے ہی مخاطب ہوا ۔
میری مرضی کے بغیر یہاں ملازمت کرنا بہت مشکل ہے ۔زبیدہ تم نے اپنی بی بی کو سب کچھ بتا دیا ہے نا۔
اس کے چہرے کی شیطانی مسکراہٹ کو میں فوراً بھانپ گئی ۔اس سے پیشتر وہ کچھ اور کہتا میں تیزی سے دروازے کو دھکا دیتی باہر نکل آئی اور گرتی پڑتی اپنے کواٹر میں آ گئی۔ آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ یہ بات میں نے ڈسپنسر انچارج کو بتائی وہ یوں خاموش ہو گیا جیسے یہ کوئی نئی بات نہ ہو۔ دو روز بعد میرے تبادلے کے آرڈر آ گئے اور تبادلہ ایسی جگہ تھا جہاں ہمارے ضلع کی حد ختم ہو جاتی تھی ۔ خاموشی سے سفر کی تیاری کرنے لگی اس سنٹر میں صرف ایک چوکیدار تھا یا میں مریض نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ چوکیدار کی زبانی معلوم ہو اکہ نائب قاصد اور ڈسنپسر ہفتہ میں ایک بار آ کر حاضری لگا جاتے ہیں اور بس یہ چند ڈبے گولیوں کے یا پرانی مکسچر پڑی ہے کوئی آ جائے تو اسے میں ہی گولیاں دوا دے دیتا ہوں اور یہ مرکز اس حوالے سے محکمہ صحت کے کاغذوں میں چل رہا ہے میں نے خدا کو یاد کر کے اپنے کمرے کی جھاڑ پونچھ شروع کر دی اور سے بیٹھنے کے قابل کیا۔ گائوں میںروزانہ وزٹ کرنے سے یہ نتیجہ نکلا کہ کچھ مریض یہاں آنے لگے تھے، جو ادویات پڑی تھیں میں ان سے کام چلا لیتی کیونکہ میڈیسنز الماریوں میں بند تھیں۔ ایک دن میں پورے گائوں کا وزٹ کرکے لوگوں کو صحت کے بارے میں بہتر مشورے دئیے ۔مگر ہر گھر سے مجھے یہی جواب ملا کہ ہسپتال تو صرف برائے نام ہے یہاںعملہ صرف چوکیدار کی حد تک ہے اب کون ڈاکٹر کا انتظار کرے اس لئے گائوں کے حکیم جی ہی سے سب لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ تھکی ہاری جب چوکیدار کے ہمراہ ہسپتال آئی تو سامنے ڈسنپس صاحب کو موجود پایا جو شان بے نیازی سے میز پر ٹانگیں پھیلائے سگریٹ پینے میں مصروف تھے مجھے سر سے پائوں تک گھورچکنے کے بعد گویا ہوئے تو آپ ہیں ایل ایچ وی مس عظمیٰ۔
جی!
میں نے رجسٹر میز پر رکھتے ہوئے ادب سے جواب دیا آپ کو علم ہے کہ میں آپ کا کتنی دیر سے انتظار کر رہاہوں کم از کم آپ کو میرا انتظار تو کرنا چاہیے تھا میں آپ کا پچھلے پانچ روز سے انتظار کر رہی ہوں میں نے اپنے لہجے کا زہر چھپاتے ہوئے جواب دیا۔
’’آپ کون ہیں مجھ سے پوچھنے والی آپ نے مجھ سے بدتمیزی کی ہے میں ابھی دفتر اطلاع کرتا ہوں۔‘‘
کہتے ہوئے ڈسپنسر صاحب نے لکھنا شروع کر دیا اور چٹھی لکھ کر اسے درج کر کے اپنے ساتھ آئے نائب قاصد کو دیتے ہوئے کہا دفتر ڈائری کروا کے گھر آجانا ڈسپنسر صاحب بدستور جلال میں اُٹھے اور اپنی موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے دھول اُڑاتے ہسپتال سے نکل گئے۔
’’باجی صاحبہ آپ نے لاشاری صاحب کو ناراض کر کے اچھا نہیں کیا۔‘‘
نائب قاصد نے چٹھی جیب میں ڈالتے ہوئے مجھ سے کہا میں خاموشی سے بیٹھی رہی میں نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ بھی چلا گیا۔ اب میں اور چوکیدار رہ گئے وہ بھی بے چارہ میری طرح پریشان تھا۔ دوسرے دن قاصد صاحب دستی چٹھی لے آئے مجھے ڈی ایچ او صاحب نے دفتر طلب کیا تھا۔ میں اپنے امتحان کا جائزہ لے رہی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ میں نے حاضری رجسٹر میں آفس جانے کا تحریر کیا اور شہر آنے کے لئے گائوں کے تانگہ سٹینڈ پر آ گئی بس جانے والی تھی سیٹ مل گئی ورنہ دو گھنٹے بس کابھی انتظار کرنا پڑتا۔ دفتر بند ہونے سے کچھ دیر پہلے پہنچ گئی پہلی بار ڈی ایچ او صاحب کے سامنے پیش ہو رہی تھی میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں میرے اندر آنے پر ڈاکٹر صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بڑے دھیمے انداز میں مجھ سے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے چٹھی نکال کر ان کے آگے رکھ دی انہوںنے عبارت پڑھی اور گھنٹی بجائی چپڑاسی اندر آیا انہوںنے اے ڈی ایچ کو بلانے کا کہا۔ تھوڑی دیر بعد ایک نو عمر لڑکا اندر آیا جس نے میری طرف بڑی بے باکی سے دیکھا۔
’’جی سر‘‘ میڈیم کا کیا مسئلہ ہے۔ ڈی ۔ ایچ ۔ او صاحب نے پوچھا۔
لاشاری نے آ کر بتایا تھا کہ ایل ایچ وی نے اس کے ساتھ بڑی بدتمیزی کی ہے۔ میرے ضبط کے باوجود آنسو نکل آئے اس سے پہلے کہ ڈاکٹر صاحب بولتے اے ڈی ایچ او مجھ سے براہ راست مخاطب ہوئے۔
’’مِس عظمی آ پ کے بارے میں ہمارے پاس بہت مواد ہے آنسو بہانے کی بجائے اپنے آپ کو درست کریں۔
ڈاکٹر صاحب اس پر برس پڑے اور اسے واپس بھیج دیا پھر مجھ سے بولے !
’’بی بی آپ بتائیں کیا معاملہ ہے؟‘‘
میںنے ساری صورتحال انہیں بتا دی وہ تھوڑی دیر سوچ میں ڈوبے رہے پھر مجھے مخاطب ہو کر بولے ۔
’’بی بی میںتمہاری جنرل ڈیوٹی ڈسٹرکٹ ہسپتال میں لگا رہا ہوں تا کہ تم آسانی سے آ جا سکو میں نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور باہر آ کر بیٹھ گئی تھوڑی دیر بعد مجھے نیا آرڈر مل گیا اور میں لے کر اپنے گھر آگئی یہاں میری بدنصیبی کا دور شروع ہو گیا۔ ہسپتال کے اندر میرا کمرہ تھا تین ان ٹرینڈ اور ایک ٹرینڈدائی میرے پاس تھیں۔ یہ ڈیوٹی مجھے بڑی بہتر لگی ایک تو گھرمیں دوسرا کسی قسم کا فکر نہ تھا مجھے یہاں ایک سال ہو گیا تھا اب میں اپنے اردگرد کے ماحول سے خاصی باخبر ہو گئی تھی پروین نامی پیشنٹ کئی ماہ سے میرے پاس علاج کی غرض سے آ رہی تھی اس کا خاوند رکشہ ڈرائیور تھا اکثر میں اُس کے ساتھ بیٹھ کر آتی وہ میرا بہت احترام کرتا اسے اپنی بیوی کے حوالے سے بھی مجھے لانے میں خوشی محسوس ہوتی پروین کو آخری دن تھے اور مجھ سے اس نے وعدہ لے رکھا تھا کیس میں ہی کروں گی۔ مجھے اس کا کیس کرنے میں کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ میںنے جس محنت سے اس کا علاج کیا تھا اس کا ثمر خدا کی طرف سے اسے ملنے والا تھا دوپہر کو میں گھر آ کر آرام کر رہی تھی کہ باہر دستک ہوئی میرے بھائی نے آکر بتایا کہ پروین نامی کسی عورت کا خاوند آیا ہے اورآپ کو بلا رہا ہے میں اُٹھ کر دروازے میں آئی باہر اسلم کھڑا تھا۔
’’باجی صاحبہ پروین کی طبیعت خراب ہے آپ کو فوراً بلایا ہے۔‘‘
میں کچھ سوچ کر تیارہوئی اور گھر بتا کر اس کے ہمراہ رکشہ میں بیٹھ کر اس کے گھر آ گئی پروین کا کیس تیار تھا میں نے ضروری انتظامات کے بعد پروین کو انجکشن دیا اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔ خدا نے پروین کو بیٹا دیا تھا۔ دونوں میاں بیوی بہت خوش تھے اسلم مٹھائی کا ڈبہ لے آیا میرے لئے نیا سوٹ اور کچھ روپے جن کا اس نے شاید پہلے سے انتظام کر رکھا تھا میں انکار کرتی رہی آخر ان کے اصرار پر مجھے لینا پڑے رات کافی ہو چکی تھی۔ میں نے گھر چلنے کا کہا وہ رکشہ نکال لایا اور میں پروین کو ضروری ہدایات کرتی رکشہ میں بیٹھ گئی راستے میںبڑی سڑک عبور کر کے جب ہم بے نظیر روڈ پر آئے تو اچانک ہمارے پیچھے سے ایک تیز رفتارموٹر سائیکل رکشہ کے آگے آ کر رُک گئی۔
اگر اسلم بریک نہ لگا تا تو حادثہ ہو جاتا موٹر سائیکل جس پر دو آدمی سوار تھے۔
’’اسلم یار اکیلے ہی‘‘؟
آنے والے نے بڑی بے تکلفی سے کہا اور مجھے بڑی واہیات نظروں سے دیکھنے لگا۔
اسلم نے فوراً رکشہ کے اندر لگا بلب بند کرتے کہا نذیر راستہ چھوڑ دو یہ میری اپنی سواری ہے۔ میں نے کب کہا ہے کہ کوئی غیر سواری ہے میں نے بھی تو اپنی سواری جان کر تمہارا پیچھا کیا ہے ۔یا رنثارتم ہی سمجھائو نذیر کو اسلم نے بڑی بے چارگی سے اس کے ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’بازاری مال سب کا مشترکہ ہوتا ہے۔‘‘
اسلم نے طیش میں آ کر اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا وروہ دونوں اس پر جھپٹے میرے دیکھتے ہی دیکھتے نذیر نے پستول نکال لیا اسلم نے نثار کو بُری طرح دبوچ رکھا تھا جسے اسلم نے نذیر کہہ کر مخاطب کیا تھا اس نے فائر کیا سنسان سڑک پر ایک خوفناک چیخ اُبھری۔ پھر نذیر کو موٹر سائیکل پر سوار ہو کربھاگتے ہوئے دیکھا۔ رکشہ کی بتی جلی یہ نثار تھا جو خون میںلت پت پڑا ایڑیاں رگڑ رہا تھا ۔میں میڈیکل سے وابستہ تھی مگر مجھ میں یہ جرأت نہ تھی کہ میں آگے بڑھتی گولی اس کے سر میںلگی تھی پھر اس نے ہمارے سامنے دم توڑ دیا پہلے ہمارے قریب ایک گاڑی رُکی پھر گاڑیاں رُکتی گئیں۔ پولیس آئی لاش کے قریب پستول بھی پڑا تھا جو پولیس نے قبضہ میں لے لیا مجھے اور اسلم کو قتل کے جرم میں دھر لیا گیا اسلم بھی معمولی رکشہ ڈرائیور تھا اور میں ایک غریب گھر کی لڑکی بہت زور لگایا کہ اس ناکردہ گناہ سے چھٹکارا مل جائے مگر مخالف سرمایہ دار تھے ۔ پولیس نے آلہ قتل اسلم سے برآمد کیا۔ مجھے اس کی داشتہ قرار دیتے ہوئے 302کے جرم میں برابرکی شریک کر لیاکہتے ہوئے عظمیٰ کی آنکھیں بے اختیار جھلک پڑیں۔