31 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

handsfree|ہینڈز فری

 

ہینڈز فری ۔۔۔۔

ہینڈز فری بھی سائنسدانوں کی خوب ایجاد ہیں کانوں میں ٹھونس کے آپ دنیا و مافیہا سے ہی فری جاتے ہیں ۔ ارد گرد والے چیختے چلاتے رہیں ان کا حلق جالی دار ہو جائے گا حلق میں سوراخ ہو جائیں گے لیکن صاحبِ ہینڈز فری سن کے نہیں دیں گے بلکہ آنکھیں موندھے سر دھنتے رہیں گے ۔
پرانے وقتوں میں ماؤں کو اگر ایک سے دوسری آواز دینی پڑ جاتی تو گدی پہ دھول جما کے پوچھا جاتا بی بی یا بابا کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کیا ۔۔ میں تو کہوں گی بوڑھیوں کے کوسنوں سے انسپریشن لے کر ہی یہ علت ایجاد کی گئی ہے جسے دیکھو کان بند کئے سن دھن رہا ہے ۔
اب یہ موئے ہینڈز فری اماں باوا کی جان کو آگئے ہیں ۔۔ ہر بات چیخ کے کیجیے یا دو گز دور بیٹھے بچے کو پکارنا ہے تو کال کیا کیجیے ۔
جتنے مرضی مہنگے خرید لو کچھ ہی دنوں اور حد مہینوں میں ناکارہ یا کانے ہو جاتے ہیں یعنی ایک کان سے سنائی دیتا ہے ایک بند ہو جاتا ہے ۔
اللہ معاف کرے بہت سے لوگ تو گروسری میں درجن بھر ہیبڈز فری بھی خرید لاتے ہیں ۔ شروع میں ہم اپنے گھر میں اس اضافی خرچے سے بڑے تنگ ہوئے رفتہ رفتہ عادی ہوئے ہیں ۔ عادی ہونے کا یہ مطلب ہر گز یہ نہی ہے کہ ہم برضا و رغبت راضی ہو گئے ہیں ۔
دیکھا جائے تو ہمیں ہینڈز فری کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمیں چوری چوری اور تنگ دلی سے گیت سننے کی لت نہیں ہے ۔ ہم گیت , غزل سنیں تو جی چاہتا ہے ارد گرد کی پوری دنیا ہمارے ساتھ گیت سنے اور انجوائے کرے لیکن یہ آجکل کی تھڑدلی نیو جنریشن کسی بھی عمل میں شراکت برداشت نہیں کرتی یہاں تک کے گیت سننے میں بھی ۔
گھر کی نیوجنریشن سے بعد از تحقیق معلوم ہوا کہ بھئی یہ تو ایٹی کیٹس ہیں کہ کمرہ یا بیڈ شئیر کرنے والے بھائی , بہن کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو کہ ہم کیا سن رہے ہیں وہ ڈسٹرب ہوگا اس نے جو سننا ہوگا خود ہی سن لے گا میں اپنی پسند اس پہ تھوپ کے اسے اذیت میں مبتلا کیوں کروں ۔۔ ہک بک ہونے کے علاوہ کیا چارہ ہے اب ۔۔ ایک ہم تھے کہ ایک ہی ٹیپ ریکارڈر پہ پورا گھر کیا پورا محلہ محظوظ ہو لیتا تھا ۔۔ سوچئے کتنی بجلی بچتی تھی ۔۔ تبھی تو بجلی سستی تھی خیر یہ تو ایک الگ اور تکلیف دہ موضوع ہے اس پہ بھرپور روشنی کی ضرورت ہے ۔
واپس مدعا یعنی ہینڈز فری پہ آتے ہیں ۔ روزانہ صفائی کے دوران کئی بار کچرے میں ہینڈز فری نکل آتے ۔ ہمیں قیمتی اور نئی اشیاء کی یہ ناقدری ہضم نہیں ہوتی تھی ہے سو ہم جھاڑ جھوڑ کے واپس رکھ دیتے سوچتے میڈ اپنے اندھے پن میں جھاڑو سے لپیٹ کر سمیٹ لائی ہے ۔
کئی بار بچوں کو واپس کئے کہ بھئی آپکی کوئی قیمتی سی کام کی چیز کچرے میں لے جارہی ہے ۔ معلوم ہوتا ناکارہ ہیں ۔ ہر بار نت نئے ڈیزائین کے دیکھنے کو ملتے ہیں سو ہمیں کیا پہچان ہوگی ۔ ہم تو برس ہا برس ایک ہی اسیسری استعمال کرنے کے عادی ہیں کچن میں ابھی تک جہیز کی اسیسریز ہی چل رہی ہیں ہمیں تو یہ تبدیلی اور پیسے کی ناقدری سخت ناپسند ہے اور اشیاء کی تبدیلی سے استعمال کا محاروہ بھی بھول جاتے ہیں ۔
بچوں نے بتایا کہ خراب ہیں اتنی لش پش چیز خراب کیسے ہو سکتی ہے ہم سوچ میں پڑ گئے چیک کیا تو کان بج اٹھے یعنی درست تھا جرح کرنے پہ معلوم پڑا کہ کہ کانا ہے یعنی ایک کان خراب ہوا ہے ۔۔۔
ہیں یہ تو ہمارے کام کی چیز ہے بھئی ہمیں بھی کبھی کبھی ضرورت پڑتی تھی کسی کسی دوست کے میسجز سننے کی ۔۔ لیکن دنیا و مافیہا سے بے خبری ہمیں برداشت نہیں ہمیں ایک کان والا ہینڈ فری بے حد کام کی چیز لگی ۔۔۔ اب ہم اٹھا لاتے ہیں اور لپیٹ لپاٹ کے اپنی سائڈ ٹیبل پہ رکھ لیتے ہیں ۔
اب ہم سہیلیوں کے میسجز سنتے ہوئے گھر سے باخبر بھی رہ سکتے ہیں ۔
سچی پوچھیں تو ہمیں گھر میں تاروں کا یہ بچھا جال سخت ناپسند ہے ہر چیز تاروں کی دوش پہ چارج ہو کے چلتی ہے بعید نہیں کہ کب ایسے چارجر ایجاد ہو جائیں کہ انسان بھی چائے کافی کی بجائے تاروں سے چارج ہوا کریں ۔ اور پیٹ بھرنے کے لئے بھی گھنٹہ دو گھنٹہ کان میں یا ناک میں کوئی نوز فری لگا کے چارج ہوجایا کریں ۔ جگہ جگہ پبلک بوتھ بھی بن جائیں کہ جہاں لگے آپکی توانائی نچڑ رہی ہے آپ فورا خود کو چارج کر لیں ۔ یا جب بیوی سے کہا جائے کہ مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے کچھ کھانے کو دو بیگم دو گھنٹے کے لئے آپ کو چارجر پہ ٹانگ دیں دو گھنٹے کے بعد بیوی بھول جائے اور حضرت اوورچارجنگ کے بعد پٹاخہ مار جائیں اور بیوی کا چارجر شوہر اتارنا بھول جائے تو بیوی ایکسٹرا چارجنگ سے موٹی ہو جائے ۔ اور پھر روزانہ چارجنگ کا دورانیہ کم کر کر کے ڈائینٹنگ فرمایا کریں ۔۔
(آوارگیٔ خیالات )
زارـⷶــⷢــᷧــᷧــᷦـــ ا مظہــⷢــⷽــⷩــᷦــⷶــⷨـــر
٢ اکتوبر ٢٠٢١ء

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles