36 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

سیف الاسلام کی عیاشیاں

ایک ویران سی جگہ پر واقع کھنڈر نما مکان سے ۱۹؍نومبر ۲۰۱۱ء کو ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا جو اُس کمرے میں تقریباً پانچ یا چھ ماہ سے چھُپا ہوا تھا۔

وہ شدید زخمی اور بیمار تھا۔ کمرے کی حالت اتنی خستہ تھی کہ اُس میں نہ تو کوئی روشنی کا مناسب انتظام تھا اور نہ ہی کمرے میں تازہ ہوا آنے کا کوئی راستہ موجود تھا۔ یہاں تک کہ کمرے میں باتھ روم تک کی سہولت بھی میسر نہ تھی۔

اُس شخص کا کھانا پینا،سونا اور رفع حاجت وغیرہ سب کچھ اس کمرے کی چار دیواری کے اندر ہی محدود تھا۔


جب اُس شخص کو گرفتار کیا گیا تو اُس کی حالت دیکھ کرایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ کئی دنوں سے بھوکا پیاسا ہے اور کئی ہفتوں سے نہایا ہوا بھی نہیں۔

اُس کمرے میں پڑا فوم کا گدا، تکیہ اور کمبل اس قدر گندے اور بدبودار تھے کہ اُن کو استعمال کرنا تو درکنار، دیکھ کر بھی گھِن محسوس ہوتی تھی۔

گندے اور بدبودار کمبل میں لپٹا گرفتار ہوا وہ شخص کوئی عام آدمی نہیں بلکہ کچھ عرصے پہلے تک دنیا کا ایک امیر ترین شخص تھا اور اُس کا شمار دنیا کے چند بااثر لوگوں میں ہوتا تھا۔


وہ انتہائی پُرآسائش زندگی گزارتا اور اپنی عیاشیوں پر کروڑوں ڈالر کھڑے کھڑے خرچ کرنے کا عادی تھا۔ اُس امیر زادے کی شہ خرچیوں کا یہ عالم تھا کہ ایک بار لندن میں وہ اپنی کار پر سفر کر رہا تھا کہ دورانِ سفر اُسے شمالی لندن کا ایک خوبصورت گھر پسند آ گیا۔

اُس نے اُسی وقت وہ گھر خریدنے کا فیصلہ کر لیا،لیکن مالک اپنا گھر بیچنے پر تیار نہ تھا۔ امیرزادے نے ضد میں آ کر گھر کی ڈبل قیمت وہیں کھڑے کھڑے ادا کر کے آخر کار وہ گھر ایک کروڑ برٹش پاؤنڈز میں خرید ہی لیا۔

پاکستانی روپے کے مطابق اس کی مالیت ایک ارب چالیس کروڑ بنتی ہے۔
اس نے اپنی ۳۷ویں سالگرہ ۲۰۰۹ میں منائی جو دنیا کی سب سے مہنگی ترین سالگرہ تھی۔ اس سالگرہ میں دنیا کی امیر ترین شخصیات نے شرکت کی۔ جس میں روس کے ٹائیکون، سونے کی کانوں کے مالک، موناکو کے پرنس البرٹ دوم بھی شامل تھے۔

اُس کا ایک اور مہنگااور بڑا شوق پینٹنگز تھا۔ اس کے پاس اربوں ڈالر مالیت کے شہ پارے تھے جو اس کے گھر کی زینت تھے۔


برطانیہ کے وزیرِ ٹونی بلئیر اسے ’’مائی فرینڈ‘‘ کہتے تھے۔ برطانوی شاہی خاندان نے انہیں کئی باراپنے محلات میں مہمان کے طور پر ٹھہرایا اور ان کی خوب آؤبھگت کی جاتی تھی۔

یوں کہنا مناسب ہو گا کہ یہ اکثر برطانیہ کے شاہی خاندان کے خاص مہمان ہوا کرتے تھے۔ اس نے اپنی زندگی کی بیشتر شاموں کا حصّہ پلے بوائے کی حیثیت سے لندن اور پیرس میں گزارا۔ پیرس کی خوشبو ساز کمپنیاں اس کے لیے ایسے خاص پرفیوم بنایا کرتی تھیں جو عام آدمی کے لیے نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی بازار میں دستیاب ہوتے۔
شاہ خرچ اور عیاش پسند ہونے کے ساتھ ساتھ یہ امیرزادہ قانون شکن بھی تھا۔ قانون کے ساتھ کھیلنے اور اسے توڑنے میں یہ ایک خاص لطف اور تفریح محسوس کیا کرتا تھا۔

ایک بار اس نے پیرس کی ایک مشہور شاہراہ پر ایک سو بیس کلومیٹر کی رفتار سے گاڑی چلا کر پوری یورپی دنیا کو حیران کر ڈالا اور ساتھ ہی وہاں کی سٹی حکومت کے قابو نہ آ کر اُس کو بڑا چیلنج دیا۔ کوشش کے باوجود اس کا چالان نہ ہو پایا۔
اسے ایک اسرائیلی اداکارہ اورلے ونر سے ۲۰۰۶ میں عشق ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اورلے ونر دنیا میں سب سے زیادہ مہنگی گرل فرینڈ ثابت ہوئی جس کے گرداس کے عاشق نے دولت کے انبار لگا دیے تھے۔
یہ مشہورو معروف شخص کوئی اور نہیں،لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی اور اس کی دوسری بیوی کا بیٹاسیف الاسلام تھا۔ جس کی موجودہ زندگی آج کی تاریخ میں سوائے عبرت کے اور کچھ نہیں۔


اتنی بااثر شخصیت ہونے کے باعث دنیا سمجھتی تھی کہ کرنل قذافی کے بعد یہی لیبیا کا حکمران ہو گامگر ایسا نہ ہوا۔ اس نے باقاعدہ طور پر کوئی بھی سیاسی عہدہ لینا منظور نہ کیا البتہ پسِ پردہ اپنے والد معمر قذافی کے تمام اندرونی معاملات یہی سنبھالتا تھا۔

شاید یہ واحد ایسا شخص تھا جو کوئی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود لیبیا کا دوسرا بااثر ترین انسان ہونے کا شرف رکھتا تھا۔ حکومتی معاملات میں اس کا اثر اور دخل اس حد تک تھا کہ کرنل قذافی کو نیو کلئیر پروگرام شروع کے لیے بھی اسی نے قائل کیا۔


سیف الاسلام اپنے ملک کی انویسٹمنٹ اتھارٹی کا سربراہ تھا اور یہ اتھارٹی اتنی طاقتور تھی کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت دس بلین تک کی سرمایہ کاری کر سکتی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعی بہت بڑی بات تھی۔

ایسی شان و شوکت سے زندگی گزارنے والا یہ شخص شاید سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ کبھی اس کی زندگی دنیا کے لیے عبرت ناک بن جائے گی۔

کرنل قذافی کی حکومت ختم ہونے کے بعد سیف الاسلام لیبیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں روپوش ہو گیا اور پھر اسے انتہائی مخدوش حالت میں برآمد کیا گیا۔ اس کے ایک ہاتھ کی دو انگلیاں کٹی ہوئی تھیں اور ان پر پلستر لگا ہوا تھا جو اس نے خود ہی چڑھایا تھا۔ کیونکہ وہ کسی ڈاکٹر سے علاج کروانے کے قابل تک نہ رہا تھا اور نہ ہی اسے کسی قسم کی طبی سہولیات میسر تھیں۔

نومبر ۲۰۱۱ء سے لے کر جون ۲۰۱۷ء تک سیف الاسلام لیبیا حکومت کے قبضے میں رہا۔ اتنے امیر کبیر بااثر شخص کوپناہ دینے والا پوری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی نہ تھا۔ وہ دن فاختہ ہو چکے تھے جب اسے سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا تھا اور برطانوی شاہی خاندان اسے اپنا مہمان بنانے پر فخر کرتا تھا۔


چھ سال لیبیا میں ایک مسلح گروہ کی قید میں رہنے کے بعد ۲۰۱۷ء جون میں اسے عام معافی کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا۔
جو حکمران عوام کا اعتمادحاصل نہیں کرتے اور جو اپنے اثر و رسوخ کومحض اپنی ذاتی زندگی کی عیاشیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، نیز اپنی دولت و طاقت سے عوام کا جینا دوبھر کیے رکھتے ہیں۔

جو اس قدر مغرور ہوتے ہیں کہ اپنے سوا انہیں دنیا کا ہر عام شخص کیڑے مکوڑے سے زیادہ نظر نہیں آتا، اُن جیسوں کے لیے سیف الاسلام آج کی تاریخ کا سب سے بڑا عبرت انگیز اور سبق آموز نام ہے۔

 تازہ ترین

Saif alIslam Gaddafi was ruled ineligible amid disputes over rules and threats to peace process.

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles