16 C
Lahore
Friday, December 6, 2024

Book Store

روہنگیا کے مسلمان

 

عافیہ مقبول جہانگیر

پندرہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل روہنگیا مسلمانوں کو اگر دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت کے طور پر دیکھا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ دنیا کے بیشتر ممالک کو یہ معلوم ہی نہیں کہ برما کے مسلمان کون ہیں اور اُنہیں کیوں ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کرتی ہے کہ ان لوگوں کے آباء واجداد برطانوی دور سے پہلے یہاں آباد نہیں تھے جبکہ روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے آباءواجداد یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔

روہنگیا کا پس منظر…ایک جائزہ

پچاس ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل روہنگیا نسل کے مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ اراکان، برما اور بنگلہ دیش کی سرحدوں پر واقع ہے۔

آٹھویں صدی عیسوی میں خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں کچھ مسلمان تاجر خلیج بنگال کے کنارے اس علاقے میں پہنچے تو اُنہوں نے تجارت کے ساتھ ساتھ یہاں دینِ حق کا پیغام بھی پھیلانا شروع کیا۔ اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثر ہو کر وہاں کی کثیر آبادی نے اسلام قبول کر لیا۔ ۱۴۳۰ء میں اراکان کے بادشاہ نے بھی اسلام قبول کر لیا اور سلطان سلیمان شاہ نے یہاں ایک اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔

اس ملک پر ساڑھے تین صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ یہاں بے شمار مساجد،مدارس اور جامعات قائم کی گئیں۔ اراکان کی کرنسی پر

لا الہ الا اللہ مکمل کلمہ کندہ ہوتا تھا۔
اُنیسویں صدی عیسوی تک روہنگیا مسلمان سکون سے زندگی گزارتے رہے لیکن جب ۱۸۲۶ء میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس خطے پر اپنا قبضہ جمایا تو اُنہوں نے Divide & Rule کے تحت مقامی راخینی نسل کے بدھوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ ۱۹۳۷ء میں برما نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرلی۔ ۲۸؍ مارچ ۱۹۴۲ء کو یہاں پہلا فساد ہوا اور مسلمانوں کے قتل عام کا آغاز کر دیا گیا۔

چالیس دن کے اندر تقریباً ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیااور نہتے مسلمان بنگال میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔۱۹۴۷ء میں جب برطانیہ برصغیر سے رخصت ہوا تو برمی مسلمانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا اور اس سال پھر مسلم کُش فسادات دہرائے گئے۔ ۱۹۴۹ء سے اب تک مسلمانوں کے خلاف چودہ فوجی آپریشن ہو چکے، جن میں مارچ ۱۹۷۸ء کا آپریشن سب سے بدترین تھا۔

اس آپریشن میں مسلمانوں کی درجنوں بستیاں جلا کر خاکستر کر دی گئیں۔ تقریباً بیس ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ لاتعداد مسلمانوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ اور اس آپریشن کے نتیجے میں تین لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

ہزاروں برمی مسلمانوں نے پاکستان، ملائیشیا اور سعودی عرب میں پناہ لی، جبکہ مسلمانوں کے خالی کردہ علاقوں پر راخینی بدھ قابض ہوتے چلے گئے۔ مسلمان علاقے کا نام بھی اراکان سے بدل کر راخائن کر دیا گیا۔


بدھ مت کے پیروکاراشین وارتھو کی حقیقت

میانمار میں بدھ بھکشؤ کے راہنما کے طور پر مشہور اشین وارتھو کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ مسلمانوں سے نفرت کرتا اور ان کے خلاف بدھوؤں کے ذہن و دل میں نفرت بھرتا ہے۔ ۱۹۶۸ء میں پیدا ہونے والے اشین وارتھو نے ۱۴ سال کی عمر میں اسکول کی تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور راہب بن گیا۔

اس کے بارے میں عالمی چرچا تب شروع ہوئی جب ۲۰۰۱ء میں اس نے قوم پرست اور مسلم مخالف تنظیم ۹۶۹ کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ ۹۶۹ ان کے سدارتھ بدھ مت کادیا ہوا عدد ہے۔

ان کا عقیدہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بدھ مت کا خاتمہ ہو جائے گا اور چونکہ ۷۸۶ کا عدد اکیس بنتا ہے، لہٰذا مسلمان ۷۸۶ اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اکیسویں صدی میں بدھ مت کو ختم کیا جا سکے۔ میانمار میں اس تنظیم کو بنیاد پرست تصور کیا جاتا ہے۔۲۰۰۳ء میںاشین وارتھوکو پچیس سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن ۲۰۱۰ء میں محض ۹ سال بعد ہی اسے رہا کر دیا گیا۔

میانمار کی حکومت اس کے مسلمان دشمن عزائم جاننے کے باوجود اس کی سرپرستی کرتی رہی اور اس کی نفرت انگیز تقریریں باقاعدہ نشر ہوتی رہی ہیں۔

جولائی ۲۰۱۳ء میں ٹائمز میگزین نے اس کی تصویر نمایاں انداز میں چھاپی جس کی سرخی پر لکھا تھا ’’بدھ مت میں دہشت گردی کاچہرہ‘‘۔ اشین وارتھو ایسی کئی ریلیوں کی سربراہی بھی کر چکا جن کا مطالبہ یہ تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کو کسی دوسرے ملک بھیج دیا جائے۔

روہنگیا کے مسلمانوں کے پاس نہ کوئی شہریت ہے نہ انہیں کسی قسم کی شناخت حاصل ہے۔
بدھ مت مذہب اپنے امن پسند عقائد کی وجہ سے جانا جاتا رہا ہے یہاں تک کہ بدھ بت کے پیروکاروں کو سختی سے ہدایت کی جاتی کہ وہ چلتے وقت اپنے پاؤں بھی زمین پر زور سے نہ رکھیں تا کہ زمینی کیڑے مکوڑے کچلے نہ جائیں لیکن جس قسم کی روحانی و مذہبی تعلیم اشین وارتھو نے اپنے پیروکاروں کو دی وہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ اس کا اور اس کی تنظیم کا عقیدہ ہے کہ مسلمان جہاں دیکھو اسے مار دواور صرف مارو ہی نہیں بلکہ پرتشدد طریقے سے مارو۔

اس ضمن میں وہ اپنی تنظیم کو مختلف غیر انسانی اور اذیت ناک نت نئے طریقے بھی سکھاتا اور بتلاتا ہے۔ جان لینے کے یہ طریقے انسانیت سے اس قدر گرے ہوئے ہیں کہ سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔
زمین میں آدھا دھڑ دبا دیا جاتا اور باقی کھلے حصے کو آگ لگا دی جاتی۔ بچوں کے جسم کے مختلف حصوں جیسے سر، چہرہ اور پیٹ وغیرہ پر یہ برمی جانور تب تک جوتوں سے وزن ڈال کر کھڑے رہتے ہیں جب تک بچے کی جان سسک سسک کر نہ نکل جائے۔

نوجوانوں کو برہنہ کر کے درختوں سے باندھا جاتا اور باری باری ان کے اعضاء ہاتھ، پاؤں بازو کاٹے جاتے ہیں اور جب وہ تڑپ تڑپ کر ادھ موئے ہو جاتے ہیں تب ان کی گردن کاٹ دی جاتی ہے۔

پانی میں ڈبونے، عورتوں کی آبروریزی کرنے اور سر کچلنے کے طریقے اس کے علاوہ ہیں جنہیں احاطہ تحریر میں لاتے ہوئے بھی ہاتھ لرز جاتے ہیں۔ یہ وحشیانہ انداز کسی بھی ملک کسی بھی مذہب میں مسلمان دشمن عناصر نے نہ اپنایا ہو گا جو برما کے مسلمانوں پر قیامت کی صورت نازل کیا جا رہا ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ یہاں لاؤڈ اسپیکر سے اذان ممنوع قرار دے دی جا چکی۔ مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے زبردستی روکا جا رہا۔ ذبیحہ اور قربانی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

مسلمان سرکاری اجازت کے بغیر نہ شادی کر سکتے ہیں نہ بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ اُنہیں ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے بھی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے۔
برمی حکومت نے ۱۹۸۳ میں ایک نیا قانون پاس کیا تھا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برمی شہریت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ برمی حکومت چاہتی ہے کہ یہ مسلمان اپنے علاقے کو چھوڑ کر بنگلہ دیش کی سرزمین کو اپنا لیں۔ جبکہ بنگلہ دیش اُنہیں اپنی سرزمین پر برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یوں یہ مظلوم مسلمان برمی اور بنگلہ دیشی حکومتوں کے درمیان شٹل کاک بن کر رہ چکے۔
برما میں ہونے والے حالیہ مسلم کش فسادات کی شروعات ۲۰۱۲ء میں ہوئی جس کے نتیجے میں مزید تیس ہزار مسلمان اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو کر سرحدی دریا عبور کر کے بنگلہ دیش کی طرف آنے لگے۔

پہلی چند کشتیوں میں سوار افراد کو تو بنگلہ دیشی کنارے پر اُترنے دیا گیا لیکن جب ان کی تعداد بڑھنے لگی تو بنگلہ دیشی حکام اُنہیں واپس بھیجنے لگے اور یہ واپس بھیجنا گویا انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف تھا۔ حالیہ فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔

اسّی ہزار مسلمان بے گھر ہو کر سڑکوں پر اپنی جان بچاتے بھٹک رہے یا رنگون کے نواح میں کیمپوں میں بے یارومددگار پڑے ہیں، جبکہ بنگلہ دیش میں بھی پہلے سے پناہ گزین اور تازہ مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں مخدوش کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آج برمی مسلمانوں کی مجموعی پندرہ لاکھ آبادی میں سے تین لاکھ بنگلہ دیش میں، دو لاکھ پاکستان میں اور چوبیس ہزار ملائیشیا میں آباد ہیں۔ برما کے سابق صدر، تھین سین (Thein Sein) نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ برما میں موجود دس لاکھ مسلمانوں کو دوسرے ملکوں میں بسایا جائے جبکہ ’’دوسرا‘‘ کوئی ملک انہیں اپنانے کو تیار نہیں۔


سوشل میڈیا کا کردار

پاکستان میں برمی مسلمانوں کی نسل کشی کی اطلاعات آنے کے باوجود پاکستانی طاقتور باخبر میڈیا بھی اس طرح خاموش رہا جیسے اُسے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ معمولی باتوں کو بھی بڑھا چڑھا کر بریکنگ نیوز دینے والے چینلز کو نجانے کیوں برمی مسلمانوں کی حالتِ زار پر کوئی خبر نہ تو بریکنگ لگی نہ ہی اتنی اہم کہ اسے عوام تک پہنچایا جا سکے۔

یہاں تک کہ کوئی بھی عالمی ادارہ اس بارے میں کوئی خبر دینے کو تیار نہ تھا، مگر اسلامی دنیا میں مسلمانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس قتلِ عام کی تصاویر کو پھیلانا شروع کر دیا۔ جس کے بعد الیکٹرانک میڈیا حرکت میں آیا اور روہنگیا مسلمانوں کی صورت حال سامنے آنے لگی۔
بھارتی سوشل میڈیا نے اس کا بھرپور منفی فائدہ اُٹھایا اور سوشل میڈیا پر برما اور شام کی پرانی تصاویر، حتیٰ کہ کچھ ایسے مناظر کی تصاویر بھی روہنگیا مسلمانوں کے نام سے منسوب کر کے اپ لوڈ کرنی شروع کر دیں جو کسی قدرتی آفت جیسے سیلاب، زلزلے وغیرہ کی وجہ سے تشویشناک اور قابلِ رحم تھیں۔

مقصد صرف پاکستان کو اشتعال دلانا تھا تاکہ وہ آپے سے باہر ہو کر کوئی ایسا جذباتی قدم اُٹھا لے جس سے پاکستان اور چین کے تعلقات مشکوک ہو جائیں اور چین پاکستان کے خلاف ہو جائے کیونکہ میانمار چین ہی کی ایک کالونی کہلاتی ہے اور وہاں تقریباً سولہ لاکھ چینی بھی آباد ہیں۔

ہمارے نوجوانوں نے سوچے سمجھے بغیر ان تصاویر کو اندھا دھند فیس بک اور ٹویٹر پر شیئر کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں عوام اپنے ہی ملک اور فوج کے خلاف بغض اور غصہ پھیلنے لگا کہ آخر پاکستان کیوں سو رہا ہے اور پاک فوج برما کیوں نہیں جاتی۔

پاکستان اور میانمارکی صورتحال

جہاں پوری دنیا میانمار میں ہونے والے کھلے عام وحشی اور درندگی کی حدیں پار کرنے والے مظالم پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے وہیں پاکستان بھی مسلمانوں پر ڈھائی جانے والی اس قیامت کی بھرپور مذمت کر رہا ہے اور اپنی عوام کے اشتعال کا سامنا بھی کر رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان اب تک خاموش تماشائی کیوں بنا ہوا ہے اور وہ عملی طور پر برما کے مسلمانوں کے لیے کوئی قدم کیوں نہیں اُٹھا رہا؟

اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا ہے۔ پاکستان کی افواج پر انگلی اٹھانے اور ان کو بے حس کہنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو پاکستان کی راہ میں حائل ہیں۔ ہم عجیب قوم ہیں۔

جب بھی وطنِ عزیز میں کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے چاہے وہ زلزلہ ہو یا سیلاب کی تباہ کاریاں یا کوئی اور مسئلہ، یہ ہماری فوج ہی ہے جو سب سے پہلے مدد کو پہنچتی ہے اور ہم اسی کو برا بھلا کہہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برما جا کر وہاں کے مسلمانوں کی فوجی سطح پر مدد کرنا ممکن نہیں۔ اس کے لیے چند حقائق مد نظر رکھنا ہوں گے۔

پاکستان کے پاس جے-۱۷ کی جگہ اگر امریکا کا بنایا ہوا ففتھ جینریشن ایف-۳۵ بھی ہو تو بھی پاک فوج کے لیے میانمار جا کر حملہ کرنا ممکن نہیں، کیونکہ پاکستان اور میانمار کے درمیان اٹھائیس سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور ایف-۳۵ کی بھی حدصرف بائیس سو کلومیٹر ہے۔ یعنی درمیان میں اسے بھی ری فلنگ کی ضرورت پڑے گی۔

اس کے علاوہ اس کو میانمار پہنچنے کے لیے بھارت اور بنگلہ دیش کی فضائی حدود استعمال کرنا ہوں گی اور ری فلنگ کے لیے ان ممالک میں اترنا ہو گا جو کہ ظاہر ہے ناممکن بات ہے۔ نا ہی بھارت اس کی اجازت دے گا اور بنگلہ دیش تو پہلے ہی ہاتھ جھاڑ چکا۔

دوسرا راستہ جو پاکستان ائیر فورس چین کے راستے میانمار میں جا سکتی ہے اس پر اگر نظر ڈالی جائے تو چین بھی کبھی اس بات پر راضی نہیں ہو گا کیونکہ میانمار میں چینی نسل کوگن کی بھی تقریباً سولہ لاکھ کی اقلیت موجود ہے اور ظاہر ہے چین اپنے شہریوں کی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو ایسا کبھی نہیں کرنے دے گا۔

تیسری آپشن پاکستان نیوی بحری راستے کے ذریعے کیوں نہیں جاتی کے سلسلے میں حقائق یہ ہیں کہ اس کے لیے بھی پاک آرمی کو بھارت اور بنگلہ دیش کی بحری حدود استعمال کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

پاک فوج کو ان ممالک کی افواج کا سامنا کرنا ہو گا اور اس طرح ایک نئی جنگی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ بھی ایک ملک میانمار ہی نہیں بلکہ ایک ساتھ تین ملکوں کے ساتھ۔
پاکستان کوپہلے ہی مختلف معاشی و اقتصادی بحران درپیش ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی جذباتی قدم اُٹھانا عقلمندی نہ ہو گی۔

ہماری فوج پہلے ہی مشرقی اور مغربی دشمنوں کے خلاف پاکستان کا دفاع کرنے میں مصروف ہے ساتھ ہی پاک آرمی پاکستان کے اندر ان تحریکوں اور دہشت گردوں سے لڑنے میں مصروف ہے جو چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کا ماحول قائم رہے۔ ہاں البتہ پاکستان طبی و مالی طور پر روہنگیا کے مسلمانوں کی مدد کر تا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔
سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر بہت سی جذباتی اور اشتعال انگیز پوسٹس دیکھنے میں آ رہی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی قوم میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں اور پاکستان بے حسی کا ثبوت دے رہا ہے۔

ان کا تمام زور صرف اس بات پر ہے کہ بس کچھ بھی ہو کیسے بھی ہو پاکستان کی فوج کو ہر حال میں میانمار جانا چاہیے۔ انہیں لگتا ہے کہ بس پاکستان کی فوج کے چلے جانے سے ہی تمام مسائل چٹکی بجاتے حل ہو جائیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔

ایسی پوسٹس شیئر کرنے والے نوجوان شاید نہیں جانتے کہ پاکستان نے میانمار کے مسلمانوں کی مدد کے لیے اُس وقت پانچ ملین ڈالر دیے تھے جب کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی تھی اور تب پوری دنیا کے میڈیا نے اسے کوَر کیا تھا۔

ترکی کی ایک ویب سائٹ نے ۶؍ جون ۲۰۱۷ء کو اس خبر کو شیئر بھی کیا تھا جس میں پاکستان نے اتنی خطیر رقم میانمار کے مسلمانوں کو امداد کی مد میں پیش کی تھی۔


عملی طور پر آگے آنے والا ملک ترکی

اسلامی دنیا میں مسلم عوام کے احتجاج کے بعد کچھ مسلم حکومتوں نے بھی اس ظلم اور بربریت پر اپنی تشویش ظاہر کی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ترکی نے اپنا قدم آگے بڑھایا اور ترکی کی خاتون اوّل محترمہ امینہ اردوان نے برما کا دورہ کر کے مظلوم مسلمانوں کی خبرگیری اور امداد کی۔

ترکی کے صدر اور مسلمانوں کے آئیڈیل حکمران طیب اردوان کی غصیلی اور پرجوش تقریر اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری اس خونی کھیل کو بند کرنے کی وارننگ میںجہاں ایران نے ترکی کا ساتھ دیا، وہیں مسلمانوں کے دشمن ملک بھارت اور خود غرض بنگلہ دیش کا بھی مکروہ چہرہ مزید کھل کر دنیا کے سامنے آیا۔

طیب اردوان نے میانمار کی صدر آنگ سانگ سوچی سے فون پر رابطہ کیا اور مسلمانوں پر ہونے والے اس بدترین ظلم کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے روہنگیا کے مسلمانوں کی امداد کرنے کی خواہش ظاہر کی اور ایک ہزار ٹن طبی امداد میانمار بھجوائی۔


آنگ سانگ سوچی کا نوبل انعام خطرے میں

امن کا نوبل انعام جیتنے والی برما کی صدر آنگ سانگ سوچی اس وقت دنیا کی سب سے متنازع شخصیت کا روپ دھار چکی۔

اس کے خلاف مظاہرے زور پکڑ چکے اور عالمِ اسلام کا مطالبہ ہے کہ ایسی حکمران جس کی موجودگی اور رضامندی سے برما کے روہنگیا مسلمانوں پر وحشیانہ حملے اور قیامت ڈھائی جا رہی ہے اور یہ خاتون اس ظلم پر نہ صرف خاموش بلکہ ان تحریکوں کو بڑھاوا بھی دے رہی، اس سے نوبل انعام واپس لیا جائے کیونکہ یہ اب کسی طور بھی ایسے انعام کی حق دار نہیں۔

رہی سہی کسر مودی، سوچی ملاقات نے پوری کر دی کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے ممالک کے انتہا پسند حکمران ہیں اور دونوں ہی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کو جائز سمجھتے ہیں۔
انہیں بے گناہ جانوں کے ضیاع پر قطعاً کوئی افسوس ہے نہ پچھتاوا۔ عین ممکن ہے کہ بھارت میں گجرات کے فسادات کروانے والے ہندو انتہا پسندوں کی انا کو تسکین ہی ملی ہو کہ جو وہ چاہتے تھے وہ سب برما میں بھی ہو رہا۔

ہندوستان ٹائمز کی ویب سائٹ پر موجود ذرائع کے مطابق حال ہی میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد مودی نے کہا کہ بغاوت کا سر کچلنے اور میانمار میں ہونے والی اس نسل کشی میں ہم میانمار کا ساتھ دیں گے۔

اُن کے اس بیان نے بھارت کے مسلمانوں میں ایک طرف تو اشتعال پیدا کیا اور دوسری طرف دنیا کو ثابت کر دیا کہ بھارت کھل کر اسلام دشمنوں کا ساتھ دینے کے لیے ہمیشہ سے ہی موقع کی تلاش میں تھا۔


بھارت اور بنگلہ دیش کی بے حسی

بیگم حسینہ واجد کے بے حسی اور خود غرضی کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے انٹرویو نے پوری دنیا خاص طور پر مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ وہ سپاٹ چہرہ لیے اینکر سے کہہ رہی تھیں کہ بنگلہ دیش کیوں انہیں پناہ دے؟ یہ کام اقوام متحدہ کا ہے کہ وہ اس کا کوئی حل سوچے۔

بنگلہ دیش کیوں سوچے۔ دوسری طرف مودی صاحب نے ایسے تشویشناک حالات میں جب ستمبر ۲۰۱۷ء میں میانمار کا دورہ کیا تو پوری دنیا کی نظریں ان پر جمی ہوئی تھیں بشمول بھارتی مسلمانوں اور میڈیا کے۔ جنہیں پوری اُمید تھی کہ مودی حکومت آنگ سانگ سوچی پر زور ڈالے گی کہ وہ یہ غیر انسانی مظالم بند کروائے۔

اس کے برعکس مودی’ جی‘ آنگ سانگ سوچی کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے پائے گئے اور دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے’ دیش واسیوں‘ کو بھی ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا۔


اتنا ہی نہیں، بھارت ’’سرکار‘‘ کو اچانک یہ بھی یاد آ گیا کہ ان کے ملک میں پہلے سے پناہ گزین روہنگیا مسلمان ناجائز طور پر بھارت میں رہ رہے ہیں اور وہ بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے ان کے دیش کو خطرات لاحق ہو چکے اور اب مودی سرکار سمیت دیگر انتہا پسند ہندو اُن پناہ گزینوں کو بھی بھارت سے بے دخل کرنے کا سوچنے لگے ہیں۔ 

ستمبر ۱۵؍ کو بھارت راشٹریہ کے اخبار روزنامہ سہارا میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق بھارت کی مرکزی حکومت نے باقاعدہ سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا پناہ گزین ملکی سلامتی کے لیے نہ صرف خطرہ بلکہ ان کی معیشت پر بھی اضافی بوجھ ہیں اور ان کے پاس ہندوستان میں رہنے کا کوئی آئینی حق نہیں اور غیر قانونی طور پر بسے ان روہنگیا مسلمانوں سے ان کو دہشت گردی کا شدید خطرہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کو اب اچانک اتنے سال بعد ہی یہ خیال کیوں آیا کہ وہاں سال ہا سال سے رہائش پزیر پناہ گزین کسی نہ کسی دہشت گرد تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔

صاف واضح ہے کہ اس طرح کی غیر یقینی اور بے چینی کی فضا قائم کر کے بھارتی حکومت یہ باور کروانا چاہتی ہے کہ میانمار میں ہونے والے مظالم کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور شاید روہنگیا مسلمان اسی سلوک کے مستحق ہیں نیز ایسے حالات پیدا کر کے وہ دنیا کے سامنے یہ بودی دلیل پیش کر رہی ہے کہ روہنگیا کی مدد نہ کرنے کا ایک ٹھوس جواز ہندوستان کے پاس موجود ہے۔
بھارتی میڈیا پر آئے دن ہونے والے ٹاک شوز میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مبصرین کے مابین بڑھتی بحث ایک نیا ہی روپ دھار رہی اور وہاں بھی اب واضح طور پر لوگ دو گروہوں میں بٹ چکے۔

ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ یہ مسئلہ محض مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے اور انسانیت کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والے ملک بھارت کو اس معاملے میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لینا چاہیے اور اس بات سے قطع نظر کہ وہ مسلمان ہیں صرف انسانیت کے ناتے ان کی مدد کرنی چاہیے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ بھارت ہمیشہ ہی ہمدردی کر کے پھنس جاتا ہے اور یہ پناہ گزین بعد میں ان ہی کے دیش میں ’آتنگ واد‘ پھیلاتے ہیں لہٰذا اس بار بھارت کو کسی سے کوئی ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان جوزف ترپورہ کے مطابق اگست ۲۰۱۷ء سے تاحال تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار روہنگیا مسلمان سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش پہنچے۔

یہ اور بات کہ بنگلہ دیش نے انہیں قبولنے سے انکار کرتے ہوئے ان پر اپنی سرحدیں بند کر دیں اور یہ بے چارے خوراک، پانی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کو ترستے بلکتے وہاں سے بھی نکال دیے گئے۔ بنگلہ دیش کی سرحد پر موجود فوج نے انہیں جانوروں کی طرح ڈنڈوں سے ہنکاتے ہوئے واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا۔
حیرت کی بات ہے کہ کئی دہائیوں سے چل رہے اس مسٔلے پر اتنا عرصہ خاموش رہنے والی اقوام متحدہ کو اب جا کر کچھ ہوش آیا جب ان خونی سرگرمیوں نے زور پکڑا اور تب اُس نے باقاعدہ طور پر ڈکلیئر کیا کہ روہنگیا مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ ستائی ہوئی قوم ہیں۔

اقوام متحدہ کے نمائندے گِل رابرٹ سن کے بقول برما کی حکومت امدادی قافلوں اور صحافیوں کو متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی اس لیے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا بےحد مشکل ہے۔

جب انڈونیشیا میں ایسٹی مور کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے، سوڈان میں دارفور کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو برما میں اراکان کا مسئلہ کیوں حل نہیں ہو سکتا۔ کیا صرف اس لیے کہ یہ مظلوم مسلمان ہیں؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles