9 C
Lahore
Sunday, December 8, 2024

Book Store

سچا بندھن

 

تحریر: عافیہ جہانگیر

آج صبح ہی سے اُس کا موڈ بُری طرح خراب تھا۔ باورچی خانے میں کام کرتے، ناشتا بناتے، وہ بات بے بات ملازموں کے ساتھ الجھتی رہی۔ بچوں کو اسکول بھیجتے وقت بھی اُس کے چہرے پر عجیب تناؤ سا محسوس ہو رہا تھا۔ بچے ماں کا یہ روپ دیکھ کر سہم گئے تھے اور آج کسی نے بھی ناشتے کی میز پر نہ تو ضد کی نہ ہی شرارتیں، جو ہر روز کا معمول تھا۔
عمر اُس کی ایک ایک حرکت محسوس کر رہا تھا لیکن اُس نے فی الحال خاموش رہنے ہی میں عافیت جانی۔ وہ ایک سلجھے ہوئے مزاج کا انسان تھا۔ ہر مسئلے کی تہ تک پہنچ کر ٹھنڈے دل سے اور نرم گفتگو سے اپنی بات سمجھانے کا عادی تھا۔ لہٰذا اُس نے ثانیہ کو اپنی من مانی کرنے دی۔ اس وقت اُسے کچھ بھی سمجھانا بے کار تھا۔

اُن کی شادی ہوئے پانچ سال گزر چکے تھے اور دو پیارے پیارے بچے بھی اُن کی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکے تھے۔ اُن کی مثالی زندگی پورے خاندان میں مشہور تھی۔ ثانیہ ایک محبت کرنے والی بیوی اور دن رات ایک کر دینے والی ماں ثابت ہوئی تھی۔
اپنے گھر بار کو سجانے، سنوارنے اور نت نئے کھانے بنانا، بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ تمام دوسرے امور بھی بخوشی نہایت کامیابی کے ساتھ انجام دیتی آئی تھی اور کبھی اُن کے مابین کسی بڑی بات کو لے کر نہ تو جھگڑا ہوا نہ ہی وہ اُن میں سے تھی جو بے جا فرمائشیں کر کے شوہروں کا ناک میں دم کیے رکھتی ہیں۔
دوسری طرف عمر بھی ایک پڑھا لکھا، سلجھا ہوا اور دھیمے مزاج کا انسان اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھا۔ یوں زندگی پھولوں کی طرح مہکتی مسکراتی گزر رہی تھی۔
کچھ ہی ماہ پہلے ایک شاپنگ مال میں اچانک ثانیہ کی ملاقات اپنی پرانی سہیلی سے ہو گئی۔ دونوں دیر تک گزرے دنوں کی باتیں کرتی اور کالج کے سنہرے دور کو یاد کرتی رہیں۔ بہترین لباس میں ملبوس ثانیہ کے سامنے اُس کی دوست عام سے حلیے میں متوسط طبقے کی نمائندگی کر رہی تھی۔
ثانیہ طبقاتی فرق وغیرہ پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ وہ ایک خوش اخلاق اور محبت کرنے والی لڑکی تھی جس کے لیے دولت مند ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ وہ تو بس چھوٹی چھوٹی باتوں اور چیزوں میں ہی محبت تلاش کر کے خوش ہو جانے والوں میں سے تھی۔ لیکن نازلی کی باتوں سے نجانے کیوں ثانیہ کو لگا کہ وہ اُس سے زیادہ خوش ہے۔
اُس کی باتوں اور انداز میں ایک جوش اور کھنک جیسے عنصر نمایاں تھے جبکہ ثانیہ عمر کی سنگت میں رہ کر خود بھی دھیمے مزاج میں ڈھل چکی تھی۔


ثانیہ اُسے اپنے ساتھ گھر لے آئی اور یوں وہ اچانک ہونے والی ملاقات اب ہر دوسرے دن ہونے لگی۔ کبھی نازلی اور اُس کا شوہر ثانیہ کی طرف مدعو ہوتے تو کبھی ثانیہ اور عمر بچوں کے ساتھ اُن کے گھر چلے جاتے۔ سب کچھ بہت ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک ثانیہ کے انداز و اطوار میں تبدیلی آنے لگی۔
وہ جیسے ہر وقت شاکی رہنے لگی۔ کبھی اُسے سرپرائز گفٹ کی کمی محسوس ہونے لگتی تو کبھی اچانک سے کوئی تقریب منعقد کر لینے کا خیال آ جاتا۔ شروع میں عمر نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا مگر جب دن بہ دن ثانیہ کے معمولات میں نمایاں تبدیلی آنے لگی تو عمر اُسے ٹوکے بنا نہیں رہ سکا۔


دیکھو ثانیہ، تمہیں شاید احساس ہی نہیں کہ آئے روز کی ان تقریبات اور دعوتوں سے گھر کا کتنا ہرج ہونے لگا ہے۔ بچے بھی نظرانداز ہو رہے ہیں۔ تم نہ وقت پر سوتی ہو نہ جاگتی ہو۔ تمام دن ادھر اُدھر کی بے کار گفتگو، تحفے تحائف لینے دینے کا سلسلہ، بے مقصد شاپنگ، ہر تیسرے دن باہر سے کھانا منگوانا یا ہوٹلنگ کرنا۔
یہ سب بُری بات نہیں مگر ان میں اعتدال نہ ہو تو زندگی ڈگمگا جاتی ہے۔
عمر نے رسان سے اُسے سمجھایا۔ اُسے پوری اُمید تھی کہ ثانیہ نہ صرف اُس کی بات سمجھے گی بلکہ احساس بھی کرے گی کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ لیکن ثانیہ تو جیسے ہتھے سے ہی اکھڑ گئی۔
پانچ سال ہو چکے عمر ہمیں ساتھ رہتے ہوئے۔ کبھی میں نے تم سے بے جا ضد نہیں کی۔ نہ ہی تم سے کچھ مانگا۔ لیکن پھر بھی دل میں ایک اُمید ہوتی تھی کہ کبھی تم مجھے اچانک سرپرائز گفٹ دو۔ کبھی تو میری تعریف کرو۔ ایک ہی طرح کے معمولات نبھاتے نبھاتے میں بور ہو چکی ہوں۔
روز جاگنا، تمہیں اور بچوں کو تیار کر کے بھیجنا، کھانے پکانا، گھر کا خیال رکھنا۔ بس یہی سب کچھ رہ گیا ہے جیسے میری زندگی میں۔ تم سے کبھی اتنا نہ ہو سکا کہ میری تعریف میں دو لفظ بول دو۔ صبح دفتر جاتے یا آنے کے بعد مجھے اتنا ہی کہہ دو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے اور تمہیں میری فکر ہے۔
نہ کبھی تم نے مجھے کبھی کوئی محبت بھرا میسج بھیجا نہ ہی دفتر سے مجھے کبھی فون کر کے یہ کہا کہ تم مجھے مِس کرتے ہو۔ تم نہیں جانتے عمر، ان سب کے بغیر زندگی کتنی بے رونق اور پھیکی ہو جاتی ہے۔ جانتے ہو؟ نازلی کا شوہر ہر صبح اُسے آئی لو یو کہتا ہے۔ اُسے وقتاً فوقتاً کارڈز دیتا رہتا ہے۔ کبھی اچانک اُس کے لیے تحفہ لے آتا ہے‘‘۔


’’اوہ! تو یہ بات ہے۔ ‘‘عمر نے مسکراتی ہوئی نظروں سے اُسے دیکھا۔ وہ اس نظر پر فدا ہونے کی بجائے اندر تک سلگ اُٹھی اور بولی۔
’’اب جب تمہارے پاس کوئی جواب نہیں تو تم یوں ڈھیٹوں کی طرح مسکرا رہے ہو جیسے میں نے اب تک بالکل بے کار باتیں کی ہوں‘‘۔ ثانیہ کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔
’’اچھا دیکھو ثانیہ۔ یہاں بیٹھو میرے پاس اور آرام سے میری ایک بات کا جواب دو۔ ’’نازلی کا شوہر کام کیا کرتا ہے؟ جہاں تک مجھے علم ہے اُس کی ایک چھوٹی سی دکان ہے اور بقول اُس کے وہ کبھی دکان پر جاتا ہے تو کبھی نہیں۔ میں اب تک جتنی بار بھی اُس سے ملا مجھے یہی تاثر ملا کہ وہ اپنے اور بیوی بچوں کے مستقبل کو لے کر ذرا بھی فکرمند نہیں نہ ہی اُسے زیادہ محنت کرنا پسند ہے۔
ایک بار میں نے اُس سے پوچھا بھی تھا کہ مہنگائی کے اس دور میں آخر گھر کا خرچہ اور تمام ضروریات وہ کس طرح پوری کرتا ہے۔ ایک مرد کو گھر پر بیٹھ کر صرف باتیں کرنا اور عمل میں صفر ہونا زیب نہیں دیتا۔ جانتی ہو میرے اس سوال پر اُس نے کیا کہا؟
اُس کا کہنا تھا کہ اُسے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب بھی پیسوں کی ضرورت ہو یا کوئی خرچہ کرنا ہو تو نازلی میکے جا کر باپ یا بھائیوں سے لے آتی ہے۔ تم ہی بتاؤ کیا یہ صحیح ہے؟
مجھے حیرت ہوتی ہے تمہاری دوست پر جو مانگے ہوئے پیسے پہلے تو شوہر کے ہاتھ پر رکھتی ہے پھر جب وہ ان ہی پیسوں سے نازلی کا دل خوش رکھنے کے لیے کوئی چیز لے آتا ہے تو تمہاری دوست اِسے شوہر کی عظیم و لازوال محبت کا تحفہ سمجھتی ہے اور اپنی سہیلیوں میں بڑھ چڑھ کر بتاتی ہے۔
جو بھی ہو۔ بہرحال اُسے خوشی تو مل جاتی ہے نا۔ اُس کی زندگی بور تو نہیں ہے نا میری طرح۔ ثانیہ اب بھی کسی صورت قائل نہیں ہوئی تھی۔
اور پتا ہے عمر؟ اس دفعہ تو بھائی صاحب نے نازلی کو ویلنٹائن ڈے پر بھی ایک خوبصورت سا تحفہ دیا۔ خاص طور پر اُسے وش بھی کیا اور پھر وہ دونوں سیر و تفریح کے لیے بھی گئے۔ بہت مزا کیا اُن دونوں  نے۔ اتنا ہنس ہنس کر وہ مجھے بتا رہی تھی کہ جب وہ گھومنے گئے تو کتنے لوگوں نے انھیں رشک سے مڑ مڑ کر دیکھا اور کئی ایک نے تو اُن کی تصویریں بھی اُتاریں۔ کتنا اچھا لگا ہو گا نا اُنھیں یہ سب کرتے ہوئے۔ ہائے! بھرپور زندگی کا مزا۔
ثانیہ نے حسرت سے کہا۔

عمر اُس کی اس واہیات آہ پر اور ایسی ’’حسرت‘‘ پر ہکا بکا رہ گیا۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی اس نادان جذباتی بیوی کو کیسے سمجھائے کہ وہ لوگ جو مُڑ مُڑ کر انھیں دیکھ رہے تھے وہ کسی رشک و حسد کی وجہ سے نہیں بلکہ تفریحاً اور استہزائیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
’’ثانیہ، تمہیں اندازہ بھی ہے؟ کہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ میاں بیوی کی پاکیزہ محبت کا یوں سرِ عام چھچھوروں کی طرح نمائش کرنا تمہیں محبت کا اظہار لگتا ہے؟‘‘
’’اچھا بس اب آپ مجھے ہی غلط کہیں گے۔‘‘ ثانیہ غصے میں کمرے ہی سے نکل گئی۔ عمر نے اُسے سمجھانے کا ارادہ موقوف کرتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اُسے صبح بہت ضروری میٹنگ کے لیے جلد دفتر جانا تھا۔ صبح ویسی ہی تھی جیسا اُس نے سوچا تھا۔ ثانیہ الجھتی کام نمٹاتی پھر رہی تھی اور وہ پُر سکون انداز میں بیٹھا ناشتے کے ساتھ اخبار کی سرخیوں پر نظر دوڑاتا رہا۔
دفتر میں تمام دن ایک بھرپور مصروفیت کے ساتھ گزرا۔ ادھر گھر پر ثانیہ نازلی کے ساتھ بڑی حسرت سے بیٹھی اُس کی باتیں سنتی اور بے دلی سے ہنستی رہی۔
اُس کا دل بھر بھر آ رہا تھا۔ اُس کے پاس نازلی کو بتانے اور اترانے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔ اس کے نزدیک نازلی دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی تھی۔ بھلے ہی اس کا شوہر دن رات اپنی بیوی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا اور مختلف حیلے بہانوں سے پیسے بٹورتا ہو ’’محبت‘‘ تو کرتا تھا نا۔
شام کو عمر اپنے مخصوص وقت پر گھر کے دروازے پر موجود تھا مگر ثانیہ روٹھے موڈ کے ساتھ دروازہ کھول کر چپ چاپ واپس پلٹ گئی۔
ہونہہ! رات کو اتنی مغز ماری کی پھر بھی جناب اتنے ڈھیٹ ہیں مجال ہے کہ آج تو کم سے کم میرے شکوؤں کا اثر لیا ہوتا اور ایک آئی لو یو ہی کہہ دیا ہوتا۔ یہ کیا ، کہ بس اسلام علیکم کہا اور بس۔
نازلی کے شوہر کو دیکھو۔ دروازے پر ہی ہیلو جان، ہائے ڈارلنگ، میں نے تمہیں بہت مِس کیا، جیسے جملے بولتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوتا ہے۔یہ ہوتی ہے زندگی۔ ثانیہ دل ہی دل میں جلتی کلستی بڑبڑاتی رہی اور چائے کے لوازمات تیار کرتی رہی۔
چائے کے برتن لے کر میز پر آئی تو عمر نے پوچھا
بچے کہاں ہیں؟
وہ ساتھ والی باجی کے گھر کھیلنے گئے ہیں۔ ثانیہ نے بےپروائی سے جواب دیا۔
تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے ثانیہ کہ بچوں کو کسی کے گھر مت بھیجا کرو۔ ہم نہیں جانتے کہ کسی کے گھر کا ماحول اندر سے کیسا ہے؟ کون آتا اور جاتا ہے؟ وہاں کس قسم کی گفتگو ہوتی ہے۔ یہ سب ہمیں نہیں پتا ہوتا۔ تم سمجھتی ہی نہیں۔ بچوں کو عادت ڈالو کہ وہ ہمارے ساتھ ہی جائیں اور ساتھ ہی واپس آئیں۔ جاؤ انھیں بلا لاؤ۔
اُف عمر! اب بچے ہیں تو کس کے ساتھ کھیلیں آخر۔ آپ نے تو اُن کی زندگیاں بھی بور اور ڈل بنا دی ہیں۔
ثانیہ کا موڈ پھر سے خراب ہونے لگا۔
اچھا اچھا تم غصہ مت کرو اور یہاں آؤ میرے پاس بیٹھو۔ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ عمر نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے اُس کے لیے صوفے پر بیٹھنے کی جگہ بناتے ہوئے کہا۔
جی کہیں جناب! آج کون سی نصیحت سنائیں گے؟ ثانیہ کی بے زاری اور بدگمانی عروج پر تھی۔
ثانیہ کیا تم جانتی ہو یہ ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟ اسے کیوں منایا جاتا ہے؟
ظاہر ہے، محبت کرنے اور چاہنے والوں کو اپنی محبت کا یقین دلانے کے لیے‘‘۔ ثانیہ نے جیسے جتاتے ہوئے کہا۔
نہیں پگلی، یہ ایک دن کیا اظہار کروائے گا اور کیا منوائے گا۔ سچی اور پاکیزہ محبت صرف ایک دن کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہ تو اُن لوگوں کا کھلونا ہے جو محبت جیسے لازوال جذبے کو بس چند لمحوں یا گھنٹوں میں تسخیر کر لینے کے لیے دوسروں کو دیتے ہیں۔
وہ لوگ جو محنت، کردار اور سیدھے راستے پر چل کر محبت جیسے اعلیٰ و ارفع جذبے کی قدر کرتے ہوئے اسے پانا نہیں چاہتے بلکہ دینِ اسلام کی حدود و قیود کا کھلے عام مذاق اُڑاتے ہیں۔ اُن کے نزدیک نکاح جیسا مقدس بندھن کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور وہ بس وقتی تفریح کے لیے ان تین لفظوں ’’آئی لَو یو‘‘ کا سہارا لے کر خود کو عارضی خوشی پہنچاتے ہیں۔ اب جہاں تک بات ہے شادی شدہ جوڑوں کی کہ وہ آخر اس دن اظہارِ محبت کر دیں گے تو کون سا گناہ ہو جائے گا۔
’’اس کا جواب بھی بہت آسان ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ میاں بیوی کی محبت صرف ایک دن پر انحصار نہیں کرتی۔ یہ تو پوری زندگی کا ساتھ ہے۔ تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہیں اس دن آئی لو یو نہیں کہتا یا ہر روز اظہار نہیں کرتا تو کیا میں تم سے محبت نہیں کرتا؟ یا تمہاری عزت و قدر نہیں کرتا؟ کرتا ہوں، اسی لیے تو اپنی خالص محبت کو یوں عام نہیں کرتا نا ہی بے مول کرتا ہوں۔
میری محبت کو کانوں سے نہیں دل سے محسوس کرو۔
میں تمہیں روز صبح مسکرا کر دیکھتا ہوں، یہ میری محبت ہے۔ میں تمہاری تعریفوں کے پُل نہیں باندھتا مگر جب تم میرے لیے میرے بچوں کے لیے تمام دن اتنی گرمی وسردی میں کھانے پکاتی ہو، راتوں کو جاگ کر ہمارے آرام و سکون کا خیال رکھتی ہو۔ تو کیا میری آنکھوں میں اپنے لیے تشکر نہیں دیکھتیں؟
میں جب تم سے مسکرا کر نرم لہجے میں بات کرتا ہوں اور تم ہنستی ہو، تو نہ جانے کتنے فرشتے ہمارے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
’’میں تمہیں گھر آتے ہی دروازے پر ہائے ہیلو کہنے کی بجائے اسلام و علیکم کہتا ہوں کیوں کہ میں اپنی شریک حیات کو دعا دیتا ہوں اس پر سلامتی بھیجتا ہوں۔ گھر سے جاتے ہوئے میں بائے ڈارلنگ نہیں کہتا، مگر تمہیں اللہ حافظ کہتے ہوئے اللہ کی پناہ میں سونپتا ہوں۔
دفتر میں یہاں وہاں کی ہانکنے اور فضول وقت گزارنے کے بجائے میں جی جان سے محنت کرتا ہوں تاکہ اپنے بیوی بچوں کو بہترین رزق حلال کما کر ان کی ہر ضرورت کو پورا کر سکوں۔ میری بیوی کو کسی کے سامنے اپنی ضرورت کا رونا رو کر پیسے نا مانگنے پڑیں اور اس کا وقار اور عزت ہمیشہ قائم رہے۔ میں فضول خرچی یا بلاوجہ یہاں وہاں پھر کر پیسے ضائع نہیں کرتا۔ ہاں میں اپنے بچوں اور بیوی کا صدقہ ادا کرتا ہوں تاکہ ہمارا گھر کسی بُری آفت اور ناگہانی پریشانیوں سے محفوظ رہے۔
’’مانتا ہوں کہ میں کوئی فلمی قسم کا رومانوی انسان نہیں، لیکن ثانیہ میں عملی محبت پر یقین رکھتا ہوں۔ میں کسی حد تک تمہارا یہ شکوہ قبول کرتا ہوں کہ مجھے کبھی کبھی اظہار کرنا چاہئیے، مگر بس زبانی اظہار ہی ہو اور عمل نہ ہو تو کیا تم خوش رہو گی؟ باتیں کروں میں چاند تاروں کی اور عملی طور پر کچھ نہ کروں تو پھر بھی تم خوش رہو گی؟
’’سب سے اہم بات کہ اگر تمہیں اس دن کی حقیقت معلوم ہوتی تو تم کبھی نہ چاہتیں کہ میں تمہیں اس دن کے حوالے سے کوئی وِش کروں یامحبت بھرا پیغام دوں۔ کیونکہ اس دن کا پاکیزہ اور خالص محبت سے کوئی تعلق ہی نہیں‘‘۔
ثانیہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ حرف بہ حرف سچ کہہ رہا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ ہی ناشکرا پن کر بیٹھی تھی۔ سچ ہے ہمیں نعمتوں کا احساس ہی نہیں ہوتا اور ہم دنیا کی فضول رسموں، دکھاوے کو ہی محبت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اصل محبت وہ تھی، جو عمر کرتا تھا۔ خالص اور سچی۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles