February 18, 2013
صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو اِس امر پر نہایت گہرائی سے غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے
کہ ہزارہ برادری کو بار بار وحشیانہ تشدد کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے
جبکہ وہ امن پسند ٗ تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ہے۔
کچھ ایسا لگتا ہے کہ کچھ عناصر جو اب انتہائی منظم اور طاقت ور مافیا بن چکے ہیں
وہ اُن حساس مقامات پر ضرب لگانے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں
جہاں سے نسلی ٗ لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ سکتے اور پورے پاکستان
اور اُس کے پڑوسیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
یہ عناصر داخلی بھی ہو سکتے ہیں اور خارجی بھی اور اُن کے مقاصد میں
افراتفری پھیلانے کے علاوہ انتخابات کے عمل کو سبوتاژ کرنا اور ملکی معیشت میں
بڑے بڑے شگاف ڈالنا بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئٹہ میں قومی سلامتی کی حفاظت اور
قانون نافذ کرنے والے ادارے بالکل بے بس کیوں دکھائی دیتے ہیں۔
خوفناک دہشت گردی کا جو سانحہ 10جنوری کو پیش آیا ٗ ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد
اسی شدت کے ساتھ کم و بیش اسی علاقے میں رونما ہوا اور اتنی ہی بڑی تعداد میں ہزارہ قبیلے کے بچے
عورتیں اور مرد لقمۂ اجل بنے جبکہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ ہے ٗ ایف سی کو
پولیس کے اختیارات حاصل ہیں اور کورکمانڈر قومی سلامتی کے معاملات کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔
گورنر نواب ذوالفقار مگسی جو بہت بڑے بلوچ قبیلے کے سربراہ ہونے کے علاوہ ایک
زمانے میں وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں اور اِن دنوں صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں
اُنہوں نے اِس ہولناک حادثے پر جو فوری اور مختصر سا تبصرہ کیا ہے ٗ
وہ ایک انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال کی غمازی کرتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں بالکل نااہل ہیں یا وہ مقابل عناصر سے خوف زدہ ہیں۔
یہ دونوں ہی صورتیں ہزارہ دشمن ٗ امن دشمن اور ملک دشمن طاقتوں کے لیے بہت سازگار ہیں
جن کا دائرۂ عمل تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔
دونوں واقعات میں اِس اعتبار سے بڑی مماثلت پائی جاتی ہے کہ پہلے بھی ہزارہ برادری کے بچے ٗ
عورتیں ٗ جوان اور بوڑھے شدید سردی میں اپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ سڑک پر دھرنا دے کر
کئی راتیں بیٹھے رہے
اور اُن کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے کراچی ٗ لاہور اور دوسرے شہروں میں بھی دھرنے دیے گئے ۔
اِس مرتبہ دھرنوں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیل گیا اور سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی
ہڑتال میں شامل ہوئی ہیں
جس سے وہ تقسیم بڑی حد تک تحلیل ہوتی جا رہی ہے جو
گزشتہ جنوری کے چار پانچ دنوں میں گہری ہونے لگی تھی۔ سوگ میں پنجاب اور
گلگت بلتستان حکومتوں کے ساتھ تینوں صوبوں اور آزاد کشمیر کی حکومتیں شریک ہوئی ہیں
اور واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے اِس خونیں حادثے کو صوبائی اور وفاقی حکومت کی ناکامی قرار دیا اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی نے اِسے ملک دشمنی پر محمول کیا ہے۔
بیشتر تجزیہ نگاروں نے اِس امکان کی طرف واضح اشارے کیے ہیں کہ لشکرِ جھنگوی اور پاکستانی طالبان ایک منصوبے کے تحت فرقہ وارانہ تشدد اور قتل و غارت کو ہوا دے رہے ہیں
اور انتہائی حساس دفاعی تنصیبات پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
اُن کا سب سے بڑا ہدف شیعہ اور سنی ہم آہنگی پر کاری ضرب لگانا اور دیوبندیوں اور بریلویوں کے درمیان دشمنی کی خلیج حائل کر دینا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہزارہ قبیلے کو تختۂ مشق بنانے کا ایک ہدف پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کرنا بھی ہے۔
ایک ایسے وقت جب دونوں ملک گیس پائپ لائن کی تعمیر کے منصوبے پر دستخط کر چکے ہیں جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
پہلے اور دوسرے واقعے میں یہ مشابہت بڑی تشویش ناک ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب دھرنے کے پانچویں روز نصف شب کوئٹہ آئے تھے
اور اُنہیں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا جبکہ دھرنوں کا سلسلہ تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا۔
اِس بار بھی وفاقی حکومت کی بے عملی اپنا رنگ دکھا رہی ہے اور پاکستان کے طول و عرض
میں غصہ اور اشتعال پھیلتا جا رہا ہے۔
بلاشبہ صدر زرداری ٗ جناب وزیر اعظم اور ہمارے وزیر اطلاعات جناب قمر زماں کائرہ نے
شدید مزحمت کے پیغامات بھیجے ہیں ٗ مگر اُن کی طرف سے کوئی عملی قدم دیکھنے میں نہیں آ رہا
جس کے سبب صورتِ حال آتش بداماں ہوتی جا رہی ہے۔ ہر کام میں دیر کر دینے سے
قابلِ علاج دکھ بھی لاوا بنتے جا رہے ہیں۔
حکومت ٗ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی ٗ کم نظری
اور فرائض میں کوتاہی تو الم نشرح ہے
جس پر حالات کی سنگینی کے پیش نظر اربابِ بست و کشاد کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور
اُن عوامل کو بروئے کار لانا چاہیے جو سیکورٹی کے اداروں پر عوام کا اعتماد بحال اور
مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے سکیں۔
اِسی ضمن میں حکومت کو بلوچستان ٗ کراچی اور فاٹا کی خونیں صورتِ حال کا حل
تلاش کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے۔
مجھے پوری توقع ہے کہ سیاسی قائدین اِس میں ضرور شرکت کریں گے اور پاکستان
کو عدم استحکام سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک ہمہ پہلو قومی پالیسی ترتیب دیں گے۔
ماضی کی کوتاہیوں پر قابو پانے کا راستہ مشاورت اور سیاسی قوتِ ارادی سے کام لینا ضروری ہے۔
ایک دوسرے پر تیر اندازی سے مسائل اُلجھتے جاتے ہیں اور مسائل کا سرا تلاش کرنے
میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔
بعض کوتاہ نظر لوگ تو یہ الزام لگا رہے ہیں
کہ ایف سی اور دوسرے ادارے لشکرِ جھنگوی یا طالبان سے ساز باز کر کے ہزارہ قبیلے
کی لاشیں گرا رہے ہیں اور اُن کی جائیداد پر قبضہ کر رہے ہیں
وہ فوج کے مورال کو نقصان پہنچانے اور عوام اور قومی سلامتی کے اداروں کے مابین
منافرت پیدا کرنے کے مترادف ہو گا جو پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔
بعض حلقے یہ بے پرکی بھی اُڑا رہے ہیں کہ حکومتِ پنجاب اور طالبان کے مابین
اِس امر پر خفیہ سمجھوتہ ایک مدت پہلے ہو چکا ہے کہ وہ پنجاب میں
کوئی تخریبی سرگرمیاں نہیں کریں گی
اور بلوچستان میں اُنہیں شیعوں کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔
اِس بہتان طرازی کی ایک انتہائی گھٹیا ایک بڑی سیاسی جماعت کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کرنا اور اِس کی ساکھ اور شہرت پر سوالات اُٹھانا ہے۔
حکومتِ پنجاب اور شریف برادران بلوچستان کے ساتھ غیر معمولی یک جہتی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اور وہ مذہبی روداری کے بہت بڑے _____ہیں۔
اُنہوں نے اِس ضمن میں ہر طبقۂ فکر کے علمائے کرام کے ساتھ بڑے بڑے اجتماعات کیے اور پورے ملک میں مذہبی ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوئی ہے۔
اِس تاثر کو تقویت پہنچانے والی بہت ساری شہادتیں موجود ہیں کہ بلوچستان ٗ کراچی اور فاٹا میں غیر ملکی قوتیں سرگرم ہیں ٗ اگر ہماری حکومت اُن کا نام لینے سے گریز کرتی آئی ہے۔
بگڑتے ہوئے حالات آج اِس امر کے متقاضی ہیں کہ بیرونی ہاتھ بے نقاب کیے جائیں اور اُن کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کی جائے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سانحۂ کوئٹہ پر جو بیان دیا ہے ٗ وہ پاکستان کو ایک نئی آزمائش سے دوچار کر سکتا ہے۔
ہمارے وزیرِ داخلہ جناب رحمن ملک بعض اوقات سرِراہ پورا سچ کہہ جاتے ہیں ٗ مگر اُنہوں نے اپنی شخصیت کو ناقابلِ اعتماد بنا دیا ہے
اور وہ سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی شاید صلاحیت نہیں رکھتے۔
پاکستان داخلی اور خارجی مشکلات میں گھِرا ہوا ہے اور عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔
اِس اعتبار سے ہم تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ اِس تناظر میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے علاوہ اہلِ دانش اور ابلاغِ عامہ کے منتظمین کو غیر معمولی احتیاط سے کام لینا
اور کمال درجہ بالغ نظری کا ثبوت دینا ہو گا۔ ہمارے سیاست دان ٗ بیوروکریٹس ٗ صحافی ٗ جج صاحبان ٗ اور جرنیل تمام تر خامیوں کے باوجود ہمارے ہاں اور تدریجی عمل کے ذریعے
اُن کی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں بروئے کار لا سکتے اور دشمنوں کے برے عزائم خاک میں ملا سکتے ہیں
جو ہماری قومی سلامتی پر کاری وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
لاہور میں ریپڈ بس سروس کا جو عظیم کارنامہ دیکھنے میں آیا ہے ٗ اُس نے امیدوں کے اُفق روشن کر دیے ہیں۔
https://shanurdu.com/category/breaking-news/column/altaf-hassan-qureshi/altaf-hasan-qureshi-2013/