صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
15/02/13
وقت بڑا بے رحم ہے کہ چشمِ زدن میں غرور کا محل زمیں بوس کر دیتا اور فرعون کی زباں بولنے والے کو غرقِ دریا کر دیتا ہے۔
میں جب عزیزی طیب اعجاز کے ساتھ انجمنِ مدیرانِ جرائد (سی پی این ای) کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے ’’جمہوریت اور انتخابات‘‘ کے زیرِعنوان سیمینار میں شرکت کے لیے کراچی پہنچا
تو شکوک و شبہات کا دریا چڑھا ہوا تھا
اور انتخابات کے بارے میں اندیشہ ہائے دور دراز کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ یہ تجزیے بھی شائع ہو رہے تھے کہ کراچی ٗ بنوں اور کوئٹہ خون میں نہا رہے ہیں ٗ اِس لیے انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
ائیر پورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ دن کے دو بجے تک دس شہری موت کی نیند سلا دیے گئے ہیں اور اب شورش پسندوں کے ہاتھ ایک ایسا کیمیکل آ گیا ہے
کہ اُسے چھڑکتے ہی گاڑی میں آگ بھڑک اُٹھتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے شعلے گردوپیش کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اُس کا خیال تھا کہ فساد کی جڑ چند مسلح مافیا ہیں
جو بعض نام نہاد سیاسی جماعتوں کے اندر نقب لگا چکے ہیں۔ ہمارے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ کراچی کے زیادہ تر گنجان علاقے لیاری سے زیادہ خطرناک بن چکے ہیں
اور پولیس اِس لیے بے بس ہے کہ اُس میں سیاسی بھرتیاں بڑے پیمانے پر ہوئی ہیں اور بھتہ خوری کا جو سلسلہ ایم کیو ایم نے شروع کیا تھا
وہ خوفناک دیو بن چکا ہے جس پر قابو پانے کے لیے شاید فوج کو آنا پڑے۔
ہم پی سی ہوٹل پہنچے تو اُس میں بڑی گہما گہمی اور خود آرائی تھی۔ اِسی ہوٹل میں سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اِن دنوں سی پی این ای کے صدر جناب جمیل اطہر ہیں جو کسی بڑے اخبار کے تو ایڈیٹر نہیں
مگر اُن کی صحافتی ریاضت اور بصیرت کا سبھی اعتراف کرتے ہیں۔ اِسی طرح مدیرانِ جرائد کے سیکرٹری جنرل جناب عامر محمود بے پناہ صلاحیتوں اور توانائیوں کے مالک ہیں۔
اُنہیں جناب مشتاق قریشی اور جناب شاہین قریشی کی راہنمائی حاصل ہے جن کو قدرت نے بلا کی فہم و فراست عطا کی ہے۔
سیمینار میں مسلم لیگ نون کے سواتمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی اوّل درجے کی قیادت موجود تھی یعنی ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر معراج الہدیٰ تشریف لائے تھے۔
ایڈیٹروں اور سیاست دانوں نے جس اعلامیے پر اتفاق کیا ٗ وہ بے حد حوصلہ افزا اور ہوا کا تازہ جھونکا تھا۔
اِس میں کہا گیا تھا کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات قومی بقا اور ارتقا کے لیے ازحد ضروری ہیں
اور اِن میں رخنہ ڈالنے والی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا
اِس پُرعزم اعلان سے دلوں میں اُمید کی شمعیں جل اُٹھی تھیں۔
سی پی این ای کی انتظامیہ کو وزیر اعلیٰ سندھ جناب قائم علی شاہ نے عشائیے پر مدعو کیا تھا۔ میں اُن سے 1970ء کی انتخابی مہم کے بعد پہلی بار ملا تھا۔
اِن اہم انتخابات میں جناب اے کے بروہی (مرحوم) سکھر سے انتخاب لڑ رہے تھے اور
ہماری ایک ٹیم لابنگ کے لیے سکھر پہنچی تھی۔ شروع شروع میں جناب قائم علی شاہ بھی خیر پور سے آتے رہے
لیکن بعد میں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔
جب اُنہیں جمیل اطہر صاحب نے مشترکہ اعلامیے کے بارے میں تفصیل سے بتایا تو اُنہوں نے برجستہ کہا کہ آپ لوگوں نے میرا کام بہت آسان کر دیا ہے اور اب انتخابات کا انعقاد پہلے کے مقابلے میں بہت یقینی ہو گیا ہے۔
اُنہوں نے حالات کو درست کرنے کے لیے اپنی حکومت کے بعض ایسے اقدامات کا ذکر کیا
جو ہمارے علم میں نہیں تھے۔
اُن کی باتوں میں بہت ٹھہراؤ اور بڑی دانائی تھی۔ میں نے اُن سے کہا کہ بین الصوبائی رابطے کمزور پڑ جانے سے بے خبری بڑھتی جا رہی ہے اور ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی سے بن گئے ہیں
اِس لیے قومی یک جہتی کو فروغ دینے کے لیے ایک طویل المعیاد پالیسی بنائی جائے ٗ صحافیوں ٗ ادیبوں ٗ طلبہ
اور اساتذہ کے درمیان رابطے بڑھائے جائیں اور حکمران بھی دوسرے صوبوں میں جا کر بریفنگ دیں
اور عوام کو حالات سے باخبر رکھنے کی تدبیر کریں۔ اُنہیں میرا یہ آئیڈیا پسند تو بہت آیا ٗ مگر معلوم نہیں
وہ اُسے عملی جامہ پہنا بھی سکیں گے یا نہیں۔ مجھ سے وہاں دوست پوچھتے رہے کہ
شیخ الاسلام کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر شدہ پٹیشن کا کیا بنے گا ٗ
میں نے بھی کہا تھا کہ اُمید کے پھول کِھل رہے ہیں اور محبوب نظر بام پر آنے والا ہے۔
9فروری کی دوپہر مدیران جرائد ایم کیو ایم کی دعوت پر نائن زیرو پہنچے اور وہاں
دو گھنٹے کی نشست خوب جمی۔ ہمارے دوستوں نے اِس جماعت کی تعریف و توصیف بھی کی
اور اُس کی قیادت کو آئینہ بھی دکھایا۔ وہاں رابطہ کمیٹی کے علاوہ ایم این ایز ٗ ایم پی ایز ٗ
سینیٹرز اور وزراء بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر جناب بابر غوری اور جناب وسیم احمد پچھلی
نشستوں پر براجمان تھے جبکہ محترمہ نسرین جلیل اور ڈاکٹر فاروق ستار پیش پیش تھے۔
مدیران عظام نے محسوس کیا کہ ایم کیو ایم کے اندر قوتِ برداشت میں اضافہ ہوا ہے
اور اُن کے اندر ایک تبدیلی آ رہی ہے۔ اگرچہ میں نے دیکھا کہ جب مقررین ایم کیو ایم کے فلسفے
اور اُس کے سیاسی رویوں پر تنقید کر رہے تھے ٗ تو اکثر چہروں کا رنگ بار بار بدلتا رہا۔
اُنہیں یہ بات بڑی ناگوار گزر رہی تھی کہ آپ کے ہاں اختلافِ رائے کی سرے سے گنجائش نہیں
اور آپ کی دہشت سے سچی بات لکھنا محال ہو گیا ہے۔ میں نے اِس نشست میں عرض کیا تھا کہ باہمی رابطوں کے تسلسل سے مفاہمت کی فضا بھی بہتر ہو گی ٗ ایک دوسرے کو اپنی اصلاح کا موقع بھی ملے گا اور سیاست میں طاقت کا عنصر بھی کم ہوتا جائے گا۔
انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہر سازش کے خلاف ڈٹ جانے کے جس عزم کا اظہار کراچی میں ہوا
اُس کی بازگشت بڑی توانائی اور زبردست حکیمانہ وجاہت و جلال کے ساتھ عدل کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں بلند ہوئی ہے
اور شیخ الاسلام کی آئینی پٹیشن خارج کرتے ہوئے فاضل سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے
کہ قوم انتخابات کی طرف گامزن ہے ٗ اِس لیے کسی بھی شخص کو الیکشن کمیشن اور دوسرے قانونی بندوبست کو تلپٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اِس فیصلے پر جناب شیخ الاسلام بڑے سیخ پا ہوئے ہیں اور نہایت باغیانہ خیالات کا اظہار فرما رہے ہیں ٗ مگر اُنہیں یہ حقیقت قبول کر لینی چاہیے کہ اُن کو یہ یومِ سیاہ اُن کے حد سے بڑھے ہوئے تکبر اور تحکم نے دکھایا ہے۔
وہ بلاشبہ اپنے سحرِ خطابت سے ہر گھر میں موضوعِ گفتگو بنے ہوئے ہیں
لیکن اب اُنہیں قدرت کا فیصلہ تسلیم کر لینا چاہیے۔
اِس وقت قوم کامل یکسوئی کے ساتھ انتخابات کا مرحلہ سر کر لینا چاہتی ہے اور وہ ایک دیانت اور اہل قیادت کی تلاش میں ہے۔
اِس تلاش میں اربابِ فکر و دانش کو اِس کی راہنمائی کرنا اور توازن کا راستہ دکھانا چاہیے۔
ملک میں یہ خواہش دلوں کے اندر موجزن ہو چکی ہے کہ صاف ستھرے لوگ منتخب کیے جائیں اور داغدار کردار کے حامل افراد میدانِ انتخابات سے خارج کر دیے جائیں
مگر اِس امر کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ بہت زیادہ حرارت بڑھ جانے سے غیرت دار اور تجربے کار لوگ کنارہ کش ہو کر بیٹھ جائیں اور غیر تربیت یافتہ اور ناتجربے کار غول آگے آ جائیں۔
ہماری فلاح احتیاط اور توازن کا دامن تھامے رکھنے ہی میں ہے اور ہمارے لیے یہی موسمِ بہار ہے۔
شاعر نے کہا تھا ؎
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تجھ سے ملنے کے زمانے آئے
https://shanurdu.com/category/breaking-news/column/altaf-hassan-qureshi/altaf-hasan-qureshi-2013/