22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

Pearl necklace|موتی مالا

موتی مالا

تحریر

 حفصہ فیصل

 

موتی مالا لے لو, موتی مالالے لو۔

پیارے بچو! آج سے کئی برس پرانی بات ہے, جب موتی مالا کے زیورات بڑے پسند کیے جاتے تھے اور یہ بہت کم لوگوں کو بنانے آتے تھے۔

ارشد موتی مالا بنانے میں بڑا ہی ماہر تھا ۔ وہ دور دراز کا سفر کرکے موتی خرید کر لاتا اور پھر ان سے پیاری پیاری اور نت نئی ڈیزائنوں کی موتی مالا بناتا تھا۔
دو آنے کی چھوٹی مالا اور چار آنے کی بڑی مالا ۔ بچے، بڑے خصوصاً عورتیں یہ مالا بڑے شوق سے خریدتیں اور اپنے گلے میں لٹکاتیں۔ ارشد کی مالا بڑی خوبصورتی سے بنی ہوئی ہوتی تھیں۔


دیکھتے ہی دیکھتے، ارشد کی ان موتی مالاؤں کی شہرت محل کے اندر بادشاہ وقت تک پہنچی، بادشاہ  نے جب اس کی موتی مالا کی اس قدر تعریف سنی تو ارشد کو اپنے محل میں بلا بھیجا۔
قاصد اور سپاہیوں کو دیکھ کر پہلے تو ارشد گھبرایا مگر پھر اس کی ماں اور اس کی بیوی نے اسے حوصلہ دیا کہ

تم نے کوئی جرم نہیں کیا بلکہ تمہاری مالاؤں کی تعریف کی بدولت بادشاہ نے بلایا ہے، یقیناً وہ تمہیں انعام و اکرام سے نوازے گا۔”

ارشد کو ماں اور بیوی کی باتوں سے کچھ حوصلہ ہوا اور وہ اپنی سب سے خوبصورت بنائی ہوئی موتی مالا، جو اس نے اپنی ماں کے لیے بنائی تھی اپنی ماں سے اجازت لے کر  مالا بادشاہ کی خدمت میں لے کر پہنچا۔ بادشاہ نے ارشد کے ظاہری حلیے کو دیکھ کر محسوس کرلیا کہ ارشد بہت غریب ہے۔
ارشد نے بادشاہ کے حضور آداب بجا لا کر بادشاہ کو وہ خوبصورت موتی مالا تحفے میں پیش کی۔ بادشاہ اتنی پیاری اور خوبصورت موتی مالا دیکھ کر حیران رہ گیا،

یہ تو سچے ہیرے کی محسوس ہوتی ہے،بلکہ ہیرے سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔

ارشد اپنی تعریف سن کر پھولے نہ سمایا ۔ بادشاہ نے ارشد کو ڈھیر ساری اشرفیاں اور دیگر تحائف دے کر رخصت کیا۔ ارشد لدا پھندا گھر پہنچا تو اس کی ماں اور بیوی بھی اتنی خوبصورت چیزیں دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھیں۔

ان چیزوں کو پا کر ارشد کی زندگی میں بہت سکون اور آسائش آ گئی ۔ گھر میں بھی خوشحالی نظر آنے لگی۔ ارشد اب ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتے نہ تھکتا تھا۔
ادھر محل میں جب بادشاہ اتنی خوبصورت موتی مالا  لے کر اپنے حرم میں ملکہ اور شہزادیوں کے پاس پہنچا تو شہزادی گلناز جو سب سے چھوٹی اور بادشاہ کی سب سے چہیتی بیٹی تھی اس کی نظر اس پر پڑی ۔ وہ اس موتی مالا کی دیوانی ہو گئی۔

بادشاہ سلامت شہزادی گلناز کی کوئی بات رد نہ کرتے تھے ۔ اسی لیے شہزادی گلناز  نے جب موتی مالا مانگی تو بادشاہ نے وہ مالا بلاتردد اس کے گلے میں ڈال دی۔
شہزادی گلناز خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ اب وہ موتی مالا ایک ایک کو دکھاتی پھر رہی تھی۔ بادشاہ شہزادی کی چہکتی ہوئی ہنسی سے خوش ہو رہا تھا۔  سب شہزادی کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
شہزادی گلناز پورا دن موتی مالا گلے میں لٹکائے پھرتی رہی اور خوش ہوتی رہی۔ رات کو سوتے بھی اس نے سارے زیورات اتارے، لیکن موتی مالا کو اتارنے کا دل نہ چاہا۔ اس نے وہ اپنے گلے میں ہی پہنی رہنے دی۔

لیٹے لیٹے بھی شہزادی گلناز مالا کے موتی گھماتی رہی، اور انھیں فرط محبت سے دیکھتی رہی ۔اچانک ہی اس کا دل چاہا کہ ان موتیوں کو چوم لے اور بے اختیار ہی چومنے کے لئے اپنے ہونٹوں سے لگالیا مگر یہ کیا؟؟؟
وہیں سے موتی مالا کا دھاگا ٹوٹ چکا تھا۔ موتی چومتے ہی ایک موتی بے اختیار شہزادی کے حلق میں اتر گیا ۔ شہزادی پریشانی سے اٹھ بیٹھی، مگر وہ موتی حلق میں جا اٹکا تھا۔

شہزادی کی حالت خراب ہو نے لگی، وہ دوڑتی ہوئی ملکہ عالیہ کے پاس پہنچی اور ساری بات بڑی مشکل سے سمجھائی۔ تکلیف کی شدت بڑھتی جا رہی تھی ۔ملکہ عالیہ پریشانی سے بادشاہ سلامت کی طرف دوڑیں، بادشاہ نے جب اپنی لاڈلی بیٹی کی تکلیف کا حال سنا تو بے قرار ہو کر شہزادی گلناز کے پاس پہنچے۔ شہزادی حلق  پکڑے شدت کے ساتھ آنسو بہا رہی تھی۔

بادشاہ سلامت غصے سے بےحال ہو رہے تھے۔ انہوں نے فورا ارشد کو بلا بھیجا۔ رات کے اس پہر جب ارشد کے دروازے پر سپاہی پہنچے تو ارشد کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگے ۔اب کی بار سپاہیوں کا انداز بھی جارحانہ تھا ۔وہ ارشد کو گھسیٹتے ہوئے محل کی جانب رواں دواں تھے ۔

ارشد خوف کی کیفیت میں ان کے ساتھ چل رہا تھا۔ محل میں پہنچ کر بادشاہ نے شہزادی گلناز کی ساری کیفیت ارشد کے سامنے رکھی اور حکم جاری کیا کہ چونکہ:” یہ موتی مالا ارشد نے بنائی تھی، اب شہزادی گلناز کا علاج بھی اسے ہی ڈھونڈنا ہوگا ۔
ارشد کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔اس نے بادشاہ سلامت سے درخواست کی کہ

 وہ حکمت کا علم نہیں جانتا آپ کسی طبیب یا حکیم سے شہزادی صاحبہ کا علاج کروائیں، لیکن بادشاہ بضد تھا کہ اس موتی کو ارشد ہی نکالے گا ۔
اور اس کے لئے ارشد کو صرف دو دن کی مہلت دی گئی تھی، ورنہ ارشد کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا ۔
ارشد روتا پیٹتا اور دہائی دیتا محل سے نکلا۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں جائے، کیا کرے؟؟
اسی پریشانی کی حالت میں ارشد چلتا چلتا جنگل میں پہنچ گیا۔ صبح کا وقت ہو رہا تھا۔ جنگل میں پرندے چہچہا رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہر طرف کھلتی کلیوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ ارشد اس دل فریب منظر کے باوجود رو رہا تھا۔ آنسو ، آہیں اور سسکیاں اس کے ہونٹوں سے نکل کر خوبصورت منظر کو غمزدہ بنا رہی تھیں۔

ریشم پری روزانہ اس جنگل میں صبح سویرے آ کر خوبصورت پھولوں کا گلدستہ بنا کر ملکہ پری کے حضور پیش کرتی تھی ۔آج جب وہ پھول چن رہی تھی، تو اسے ارشد کے رونے کی آواز آئی۔ جس پر وہ بے قرار ہو گئی۔ چونکہ ریشم پری ایک نیک دل پری تھی، وہ کسی کو روتا ہوا اور غمزدہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ پھولوں کا گلدستہ وہیں چھوڑ کر رونے کی آواز کی طرف لپکی۔
ارشد کو روتا دیکھ کر اس کی بیقراری بڑھ گئی اور  ارشد کے پاس بیٹھ کر اس کی پریشانی پوچھنے لگی ۔
ارشد بھی اپنے غم سے بے حال تھا۔ اسے کسی نہ کسی کو اپنا غم ضرور بتانا تھا۔ اس نے ریشم پری کو اپنا پورا حال دل سنا دیا اور کہنے لگا

“اب دو دن بعد مجھے بادشاہ سلامت پھانسی پر لٹکا دیں گے۔”
یہ کہہ کر ارشد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
ریشم پری کچھ دیر سوچتی رہی پھر اس نے اپنے بڑے گھیر دار فراک کی جیب میں سے ایک باریک ریشم کا دھاگا نکالا۔ اس نے یہ داغ ارشد کو دیتے ہوئے کہا کہ اس دھاگے کی تار شہزادی گلناز  کے حلق میں اتارنا، یہ جادوئی دھاگا ہے۔ اس کی تار اس موتی کو اپنے اندر پرو کر باہر  لے آئے گی۔
ارشد حیرت سے ریشم پری کو دیکھ رہا تھا اور اس کی باتوں کو غیر یقینی انداز میں سن رہا تھا۔ “دیکھو! بادشاہ سلامت ویسے ہی مجھ سے ناراض ہیں۔ دو دن کی مہلت دی ہوئی ہے کہ یہ مہلت اس دھاگے کی وجہ سے ابھی ہی ختم نہ ہو جائے۔” ارشد نے ڈرتے ہوئے کہا۔

تم گھبراؤ نہیں، بے فکر ہو کر یہ دھاگا لے جاؤ، یہ جادوئی دھاگا ہے، جو ہر چیز کو اپنے اندر پروں لیتا ہے لیکن تم یہ موتی نکالنے سے پہلے بادشاہ کو اس ظلم اور شہزادی کے بچپنے کا احساس ضرور دلانا کہ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ ریشم پری نے ارشد کو سمجھایا۔
ارشد پری کی بات سن کرتھوڑا ہچکچایا مگر پھر اس نے اللہ کا نام لے کر وہ دھاگا لے لیا۔
اب ارشد لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا محل کی جانب جا رہا تھا۔

۞۞۞۞۞۞

شہزادی گلناز کے حلق سے موتی باہر نکال لیا گیا تھا۔ دربار عام لگا ہوا تھا۔ ارشد رب کا شکر گزار ہو کر بادشاہ کے دربار میں کھڑا بادشاہ کو شہزادی کی لاپروائی اور بادشاہ کے ظلم کا احساس دلا رہا تھا۔
بادشاہ کو بھی اپنے غلط فیصلے کا احساس ہو چکا تھا۔
بادشاہ نے ارشد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ،انعام واکرام سے نوازا اور آئندہ غلط اور جذباتی فیصلے کرنے سے گریز کا وعدہ کیا، جس سے ساری عوام ارشد کو مشکور نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ جب کہ ارشد ان سب باتوں کو رب کا کرم اور ماں کی دعا کا ثمر کہہ رہا تھا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles