8 C
Lahore
Tuesday, December 10, 2024

Book Store

ہماری ننھی پری ہم شرمندہ ہیں

احساس کے انداز

ہماری ننھی پری ہم شرمندہ ہیں!

سات دن کی نازک اور معصوم کلی اور  پستول کی پانچ گولیاں

تحریر ؛َ جاوید ایاز خان

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ضلع میانوالی کے محلہ نورپورہ میں ۷ مارچ کو سات دن کی نومولود بچی کو بیٹے کے خواہش مند  والد نے گولی مار کر قتل کر دیا.  اس خبر نے  ٹی وی ،اخبارات اور سوشل میڈیا پر کہرام مچا کر رکھ دیا ہےجس نے سب کو دہلا کر رکھ دیا ہے ۔
پولیس کے مطابق ظالم اور  سفاک باپ نے پانچ گولیاں اس ننھی جان سے گزار دیں۔  اخبارات اور سوشل میڈیا پر جاری اس ننھی منی خوبصورت بچی کی تصاویر دیکھ کر ہر آنکھ نم ہو چکی ہے۔
ہر دل خون کے آنسو بہا رہا ہے ۔ سوگوار ہے۔
ذہن درد کی شدت سے ماتم کناں نظر آتا ہے۔ یہ کسی ایک بچی کا نہیں پوری انسانیت کا قتل ہے ۔
یہ واقعہ اسی جاہلانہ اور دقیانوسی ذہنیت اور سوچ کی عکاسی کرتا ہے جسے اسلام  نے آج سے چودہ سو سال قبل دفن کر دیا تھا۔

ہماری ننھی پری ہم شرمندہ ہیں !  ہمیں معاف کر دینا  !

اخبار اور سوشل میڈیا پر کوئی  بھی دردناک خبر پڑھ کر میں ہمیشہ اپنے دکھ کا اظہار لکھ کر ہلکا اور کم کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر آج لکھنے کو ہاتھ تیار نہیں۔ لکھتا ہوں تو ہاتھ کانپتے ہیں۔  نہیں لکھتا تو ضمیر ملامت کرتا ہے۔ دکھ اتنا ہے کہ ذہن کام کرتا ہے نہ ہی دل کی دھڑکنیں ساتھ دے رہی ہیں۔
لفظ مل رہے نہ جملے ساتھ دے رہے ہیں۔  عجب کشمکش کا عالم ہے۔ سوچتا ہوں تحریر کا آغاز کہاں سے اور کیسے شروع کروں؟ اور کیا لکھوں؟
کیونکہ یہ صرف ایک ننھی کلی کی زندگی کا یا اس کی دکھیا  اور بے قصور ماں کا المیہ  نہیں کسی ایک انسان  کی  بیٹی پوتی ،نواسی،  بھانجی اور  بھتیجی پر بیت جانے والا سانحہ  نہیں بلکہ یہ تو پورے پاکستانی معاشرے کا وہ کرب اور دکھ  ہے جسے لفظوں میں ڈھالنا بھی کسی قیامت سے کم نہیں  ۔
بات بے بس ماں سے  ہمدردی اور پرسہ دینے سے شروع کروں یا سفاک اور درندہ صفت باپ کی جاہلانہ سوچ اور دقیانوسی ذہنیت و بربریت پر مذمت سے ؟

طلوع اسلام سے قبل بیٹیوں کو زندہ درگو ر کرنے کا رواج عام تھا لیکن ہمارے پیارے نبیﷺ جب رحمت عالم بن کر آئے تو یہ ظلم اختتام کو پہنچا۔ دنیا اسلام کی روشنی سے منور ہوئی تو یہ المناک اندھیرے ختم ہوئے ۔
آپﷺ کے سامنے جب ایک صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے  اپنے جہالت کے دور میں بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا دردناک واقعہ بیان کیا اور رو کر  حضورﷺ سے اپنے اس گناہ پر نادم ہو کر اللہ سے معافی کی درخواست اور التجا کی۔ تو میرے نبی پاکﷺ کا چہرہ مبارک آنسو ں سے تر ہو گیا۔
آپﷺ اتنا روئے کہ آپﷺ کو دیکھ کر صحابہ کرام رونے لگے اور کہنے لگے کہ اےُ دحیہ کیوں  رلاتا ہے ہمارے آقاﷺ کو؟
آپﷺ نے اس واقعہ کو تین بار سنا اور مسلسل روتے رہے ۔ اس کے بعد فرمایا :
جس نے دوبیٹیوں کی کفالت کی ،انہیں بڑا کیا ،ان کے فرائض ادا  کئے ،وہ  جنت میں میرے ساتھ اس طرح ہو گا جس طرح شہادت کی اور ساتھ والی انگلی آپس میں ہیں ۔
حضورﷺ  نے بیٹیوں کو رحمت قرار دیا۔ اپنی بیٹیوں سے مثالی محبت اور شفقت فرما کر ایک عملی مظاہرہ بھی فرمایا ۔

کاش کوئی اس معصوم بچی کے سفاک اور جاہل باپ کو بتا سکتا کہ بیٹی رب کی کتنی بڑی رحمت ہے؟ کائنات کا حسن بیٹی کے وجود کے بغیر محبت سے خالی ہے ۔
سات دن قبل اللہ نے اس سفاک شخص کے گھر پر بیٹی کی صورت میں جو رحمت نازل فرمائی تاکہ وہ  اسے  روز محشر اپنے ساتھ جنت میں لے جائے اور اس کی بخشش کا سامان بنے مگر اس  نے صرف بیٹے کی خواہش میں اپنی دنیا و آخرت تباہ کر لی۔
اشرف المخلوقات کے اس گھناؤنے فعل پر ایک دفعہ تو  آسمان و زمیں بھی لرز اُٹھے ہوں گے اور فرشتے روئے ہی نہیں بلکہ کرلائے ہوں گے جب ظالم باپ نے پانچ گولیاں اس معصوم کو ماری ہوں گی ۔
میرے پیارے نبیﷺ کو کتنا دکھ پہنچا ہو گا؟
انﷺ کی آنکھوں میں کتنے آنسو آئے ہوں گے؟
سوچ کر ہی دل پارہ پارہ ہوا جاتا ہے ۔
کاش اے ظالم انسان تو جان سکتا کہ تو نے بیٹے کی ایک معمولی خواہش میں میرے پیارے نبیﷺ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے اور ان کی رحمت و شفاعت  سے محروم ہو گیا ہے۔
بیٹی تو باپ کی جان ہوتی ہے۔ وہ تمام زندگی باپ کا چہرہ دیکھنے کو ترستی ہے۔
کاش میں اس ظالم کو وہ بے اولاد جوڑے  دکھا سکتا جو اس نعمت سے محروم ہیں اور اولاد کے لیے ترس رہے ہیں۔
جن کے نزدیک بیٹا یا بیٹی نہیں صرف اولاد کا حصول ہی زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور خوشی ہے ۔ دن رات  دعاؤں میں اپنے رب سے اس رحمت کے متمنی ہیں ۔
یہ بھی ہمارے نبی پاکﷺ کی دعاؤں کا اثر  ہے کہ اس قدر سفاکی اور سنگدلی کے باوجود ہم پر عذاب الہی نازل نہیں ہوتا ۔
وگرنہ کتنی ہی امتیں اس طرح حرکات اور گناہوں کی بدولت تباہ و برباد ہو چکی ہیں جن کے دنیا سے نام و نشان تک مٹ چکے ہیں ۔

اس بچی کی بے بس ،دکھیا ،اور مظلوم ماں کو کیسے تسلی دوں؟
کسی بھی ماں کو تسلی دینا ناممکن ہے؟
ہمارے لفظ کبھی  بھی اس کے دکھ کا مداوا نہیں کر سکتے۔  جس  نے اولاد کے لیے ناجانے کتنی دعاٰئیں مانگی ہوں گی؟ مگر جس کی بیٹی سات دن بھی زندہ نہ رہ سکی۔
جسے وہ ابھی اچھی طرح دیکھ بھی نہ پائی تھی؟
میں کیسے اس پر ٹوٹے پہاڑ جیسے دکھ کا پرسہ دوں؟ جس  نے نو ماہ تک اسے اپنے خون سے پالا اور ناجانے پہلی اولاد کے لیے کیسے کیسے سپنے دیکھے ہوں گے۔
بچی کی تصاویر میں بچی کے جسم پر جو خوبصورت کپڑے نظر آ رہے ہیں۔
ناجانے وہ کب سے انہیں تیار کر رہی ہو گی؟ کتنے کھلونے اس کے لیے خریدے ہوں گے؟ وہ سوچتی ہو گی کہ بھلا میرا کیا قصور ہے؟ اگر میرے رب نے بیٹے کے بجائے بیٹی سے نوازا دیا ہے۔
اے میری بہن، میری بیٹی ، اس دکھ کی گھڑی میں صرف میں نہیں پوری انسانیت تمہارے ساتھ کھڑی ہے۔  ہر درد دل رکھنے والا تمہارے دکھ کو اپنے دکھ کی مانند محسوس کر رہا ہے۔
ان کے دل رو رہے ہیں اور آج ہر آنکھ تمہاری ننھی بیٹی کے لیے اشکبار ہے ۔لیکن اس مشکل گھڑی میں ہم تمہارے لیے صبر کی درخواست کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟
یقیناً قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا اور مجرم کو قرار واقعی سزا دلائے گا ۔
استدعا ہے ارباب اختیار سے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور سدباب کے لیے کوئی ایسا موثر لائحہ عمل ترتیب دیں ،
ساتھ ساتھ تمام باشعور پاکستانیوں سے کہ آئیے انفرادی اور اجتماعی طور پر اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔
جس کی بدولت آئندہ اس جاہلانہ ذہنیت اور سوچ کا خاتمہ ممکن ہو سکے اور  بیٹا یا بیٹی کے فرق کے خاتمے کی شعوری بیداری سے ماؤں کے یہ معصوم خواب سلامت رہ سکیں ۔

جو عبرت سے نہیں سمجھے ،دلائل بھی نہ مانے

قیامت خود بتائے گی ،قیامت کیوں ضروری تھی !

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles