34 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

چنن پیر امن کا میلہ

میلہ چنن پیر امن کا میلہ

حضرت چنن پیر ؒ چولستان اور روہی کے بے تاج بادشاہ ہیں

تحریر ۔ جاوید ایاز خان

 

میرا تعلق ریاست بہاولپور کے دارالخلافہ صادق گڑھ پیلس ڈیرہ نواب صاحب سے ہے جو  چولستان اور روہی کا گیٹ وے ہے۔ بچپن میں  ہمارے علاقے کی سب سے بڑی تفریح  اور تہوار چنن  پیر کا میلہ تھا۔
چنن پیر کے زا ئرین دور دراز سے مسلسل سات جمعرات وہاں جاتے ہوئے پہلا قیام یہاں پر کرتے۔
پیدل، سایکلوں، اونٹوں ،اونٹ گاڑیوں اور گھوڑے تانگوں کا یہ بڑا پڑاؤ بذات خود ایک پررونق میلے میں بدل جاتا تھا۔
شتر بانوں کے قافلے اپنی منزل سے چل کر رات کے ملگجے اندھیروں یا نیم صبح  یہاں پہنچتے تو ڈاچیوں کی گھنٹیاں اور گھوڑوں کی ٹاپیں عقیدت مندوں کی آمد کا اعلان کرتیں ۔دیہاتی مرد و خواتین رنگ برنگ لباس اور زیورات میں ملبوس یہاں پہلا پڑاؤ ڈالتے تھے۔
یہ ٹولیاں باقاعدہ ڈھول تاشے کی تھاپ پر رقص کرتے یہاں سے گزرتے اور ہم دور تک ان کے نعروں کی آوزیں سنتے تھے  ۔ہم لوگ پورے سال اس میلے کا انتظار اور تیاری کرتے تھے۔
کیونکہ اس میلے کے دوران موٹر سائیکل ،تانگوں، اونٹوں کی دوڑ بھی شامل ہوتی اور ساتھ ساتھ اونٹوں کا رقص، اونٹوں کی لڑائی اور دوڑ کے ساتھ ساتھ کبڈی، کشتی، اور مقامی کھیلوں کے مظاہرے دیکھنے سے تعلق رکھتے۔
میلے کی روائتی تفریح اور خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ چولستانی زیور، لباس، صحرائی زندگی سے وابستہ ہر سامان کی دستیابی بھی اس میلے کا ایک حسن ہے ۔
یہ میلہ پانچویں جمعرات کو اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ میلہ اب بھی ہوتا ہے مگر وہ رونق سڑکیں بننے اور تیز رفتار سواریوں کے آ جانے سے بہت کچھ بدل چکا ہے۔
اب صحرا کے ساتھ ساتھ آباد زمینیں اور سرسبز فصلیں لہلاتی نظر آتی ہیں۔
ڈیرہ نواب سے چنن پیر تک پہلے کھتڑی بنگلہ اور پھر مٹھڑا بنگلہ قیام ہوتا۔ یہ سارا روہی چولستان کہلاتا تھا۔ راستے میں ایک بڑا ڈاہر یعنی پلین  میدانی سرزمین آتی تھی۔
یہاں دوڑیں ہوتی تھیں ۔سب سے مشہور تانگہ دوڑ ہوتی تھی, جس پر بہت بڑی بڑی شرطیں لگتی تھیں۔ یہ سماں  اب چولستان جیپ ریلی میں نظر آتا ہے۔ چنن پیر کے میلے پر ہر بوڑھا ، جوان، عورت اور بچہ بلا خوف و خطر شریک ہوتا۔ اس سے  طویل، پرامن تہوار اور میلہ مجھے کہیں نظر نہ آیا۔
چنن پیر کے مزار پر لق ودق صحرا کے چاروں جانب سے تاحد نظر آنے والے قافلوں کا نظارہ آج بھی اتنا خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتا ہے کہ انسان کو ریگستان کا یہ حسن اپنی لپیٹ میں  لے لیتا ہے۔ یہ قافلے رات کو جب الاؤ جلاتے ہیں، تو روہی جگمگا اُٹھتی ہے۔
ہر جمعرات کو روشنیوں کا  ایک شہر آباد ہو جاتا ہے۔ پورا علاقہ مقامی موسیقی کے سحر میں ڈوب جاتا ہے۔ شہنائی اور بانسری کی خوبصورت دھنیں اور ڈھول کی تھاپ پر سرائیکی جھومر کی کشش آپ کو مسحور کر دیتی ہے۔
جانور قربان کئے جاتے ہیں۔ کھانے پکائے اور تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اب رفتہ رفتہ ریگستان آباد ہوتے جا رہے ہیں۔ پکی سڑکوں کے جال بچھ چکے مگر میلہ اب بھی جاری ہے۔
تانگوں، اونٹوں کی جگہ اب جیب کاروں نے  لے لی ہے۔ جس کی وجہ سے سفر کی خوبصورتی اب وہ نہیں رہی۔
یہ واحد تہوار ہے جہاں مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی مزار پر حاضری دیتے اور منت مانتے اور منت اتارنے آتے ہیں ۔ سابق ریاست بہاولپور میں سینکڑوں بزرگان دین  اشاعت اسلام کی تبلیغ اور روحانی اصلاح  کے لیے تشریف لائے۔ ان بزرگان کی بدولت بہاولپور دین کا گہوارہ بن گیا۔
یہاں کے ماحول میں دین اور مذہب سے دلی اور جذباتی وابستگی ان ہی کی مرہون منت ہے۔
ان میں سے ایک  حضرت  چنن پیر جیسلمیر کے بادشاہ کی اولاد تھے۔  جن کے سالانہ عرس پر یہ میلہ سجتا ہے ۔
حضرت چنن پیر سے لوگوں کی عقیدت اور محبت ہر سال انہیں یہاں کھنچ لاتی ہے۔  میلوں لمبے چوڑے چولستان میں انسانوں کا سمندر جنگل میں منگل کا منظر پیش کرتا ہے۔
یوں تو چنن پیر کے بارے میں کئی روایات اور قصے مشہور ہیں،  لیکن بچپن میں مجھے ایک بزرگ نے بتایا اور پھر میں نے پڑھا بھی کہ جب مشہور بزرگ حضرت جلال الدین سرخ پوش یہاں سے گزرے تو یہاں کے بے اولاد بادشاہ سادھارن  نے آپ سے اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی۔
جس پر اپکی دعا سے بادشاہ کے ہاں شہزادہ پیدا ہوا۔
وہ اتنا خوبصورت تھا کی لوگ اسے چاند سے تشبہہ  دے کر چنن پکارنے لگے ۔
جب بولنے کی عمر کوپہنچا تو کلمہ پڑھنے لگا جس پر رعایا میں مشہور ہوا کہ بادشاہ کا بیٹا مسلمان ہے تو بادشاہ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا لیکن ملکہ نے جان بخشی کے لیے منت کی جو اس شرط پر قبول ہوئی کہ اب چنن کو محل کی بجائے صحرا میں رہنا پڑے گا.
اس طرح روتی بلکتی ملکہ کے بیٹے کو صحرا میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ جہاں لوگوں  نے دیکھا کہ ایک ہرنی چنن کو دودھ پلا رہی ہے۔
یہ خبر ملکہ تک پہنچی تو وہ بھی محل چھوڑ کر صحرا میں آ گئی جس پر بادشاہ نے دونوں کے قتل کا حکم  دیا، مگر جب شاہی سپاہی اس ٹیلے پر پہنچے تو چنن وہاں سے  غائب ہو چکے تھے۔
ایک روایت ہے کہ آپ وہاں سے اوچ شریف تشریف لے گئے اور  سلسلہ بخاریہ کے عظیم پیشوا مخدوم حضرت جہانیاں جہاں گشت ؒ کے دست بیعت ہوئے اور پھر واپس وہیں لوٹ آئے اور رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کر دیا .
بہت بڑے عالم دین و مبلغ اسلام ثابت ہوئے اور چولستان کے ایک بڑے حلقے کو  مرید بنا کر مسلمان کیا ۔
یہ بھی روایت ہے کہ چنن پیر کا مزار ریت کے اسی ٹیلے پر واقع ہے۔ جب بھی اس پر عمارت قائم کرنے کی کوشش ہوئی، ناکام ہوئی۔
البتہ مزار سے کچھ فاصلے پر مسجد تعمیر ہو چکی ہے ۔مزار کے احاطے میں ایک درخت ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ چنن ؒ کی والدہ یہاں دفن ہیں ۔

روحانیت کا مرکز

زائرین اپنی منت یا حاجت بیان کر کے اس درخت سے کپڑے کی کترنیں باندھ دیتے ہیں۔
اولاد، شادی اور غموں کے مداوے کی  اگر منت پوری ہو جائے تو وہ کترن خود بخود کھل جاتی ہے اور پھر عرس پر یہ لوگ منت اتارنے اور نیاز چڑھانے آتے ہیں۔ چولستان کے لوگ اس مزار کو روحانیت کا مرکز سمجھتے ہیں۔
ہندوہوں یا مسلمان چنن پیر کے سب  ہی معتقد ہیں۔ سب ایک دوسرے کے تبرکات لیتے اور کھاتے ہیں۔ خاص طور پر ہندو مڑیچہ برادری یہاں بڑی تعداد میں حاضری دیتی ہے۔
لوگ دنیا حاصل کرنے شہروں کی طرف لپکتے ہیں، لیکن سکون قلب نہیں ملتا۔ اللہ والوں کی ادا ہی نرالی ہے۔ جہاں بیٹھ جائیں، رونقیں اسی طرف چل پڑتی ہیں کیونکہ یہ سکون بانٹتے ہیں۔
صحرا کی اس ریت میں کوئی تو کشش ہے کہ لاکھوں لوگ دور دور سے یہاں کھنچے چلے آتے ہیں اور سب غم بھلا کر ڈھول کی تاپ پر جھومر ڈالتے ہیں۔
اگر سرائیکی ثقافت اور روہی کا رنگ دیکھنا ہو تو یہاں نظر آئے گا۔  چنن پیر کا میلہ آج بھی ہمارے علاقے  میں اکلوتی خوشی ہے، جسے جاری رہنا چاہیے۔ کیونکہ حضرت چنن پیر چولستان اور روہی میں امن و سلامتی کی علامت اور علاقے کی  شناخت ہیں،

روہی کا داتا گنج بخشؒ

اس لیے انہیں روہی کا داتا گنج بخشؒ  بھی کہا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے ۷۰۰ سال سے روہی اور چولستان  پر حضرت چنن پیر ؒکی بے تاج بادشاہت قائم ہے ۔
اور وہ یہاں کے علاقے کے لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں ۔ میلے کی پانچویں جمعرات کو بہاولپور میں مقامی تعطیل ہوتی ہے، سے لوگوں کی شرکت بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ زائرین کے لیے حکومتی سطح پر خصوصی انتظامات کئے جائیں،
اور چولستانی کلچر اور ثقافت کو محفوظ بنانے کے لیے ایک ادارہ بنایا جائے ۔
دریاے ہاکڑہ اور ستلج  تو ختم ہو چکے مگر ان دریاوں کا ورثہ اور ثقافت ابھی موجود ہے، جو اس میلے میں جابجا نظر آتی ہے۔ ورثہ و ثقافت ہمارے اسلاف کی عظمت اوریہاں کی  تہذیب ہماری دھرتی کا فخر ہے .
چنن پیر کا یہ میلہ سالہا سال سے لوگوں کو روحانی سکون ، تفریح کے ساتھ چولستان کے ورثے ، ثقافت اور تہذیب کی حفاظت بڑے احسن طریقے سے کرتا چلا آ رہا ہے ۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles